TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مسند احمد
ا ب ج
حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کی مرویات
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنْ سُلَيْمَانَ يَعْنِي التَّيْمِيَّ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ قَالَ جَاءَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِضَيْفٍ لَهُ أَوْ بِأَضْيَافٍ لَهُ قَالَ فَأَمْسَى عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَلَمَّا أَمْسَى قَالَتْ لَهُ أُمِّي احْتَبَسْتَ عَنْ ضَيْفِكَ أَوْ أَضْيَافِكَ مُنْذُ اللَّيْلَةِ قَالَ أَمَا عَشَّيْتِهِمْ قَالَتْ لَا قَالَتْ قَدْ عَرَضْتُ ذَاكَ عَلَيْهِ أَوْ عَلَيْهِمْ فَأَبَوْا أَوْ فَأَبَى قَالَ فَغَضِبَ أَبُو بَكْرٍ وَحَلَفَ أَنْ لَا يَطْعَمَهُ وَحَلَفَ الضَّيْفُ أَوْ الْأَضْيَافُ أَنْ لَا يَطْعَمُوهُ حَتَّى يَطْعَمَهُ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ إِنْ كَانَتْ هَذِهِ مِنْ الشَّيْطَانِ قَالَ فَدَعَا بِالطَّعَامِ فَأَكَلَ وَأَكَلُوا قَالَ فَجَعَلُوا لَا يَرْفَعُونَ لُقْمَةً إِلَّا رَبَتْ مِنْ أَسْفَلِهَا أَكْثَرَ مِنْهَا فَقَالَ يَا أُخْتَ بَنِي فِرَاسٍ مَا هَذَا قَالَ فَقَالَتْ قُرَّةُ عَيْنِي إِنَّهَا الْآنَ لَأَكْثَرُ مِنْهَا قَبْلَ أَنْ نَأْكُلَ قَالَ فَأَكَلُوا وَبَعَثَ بِهَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ أَنَّهُ أَكَلَ مِنْهَا-
حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کچھ مہمانوں کو لے کر آئے، خود انہوں نے شام کا وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گذارا، رات کو جب وہ واپس آئے تو والدہ نے ان سے کہا کہ آج رات آپ اپنے مہمانوں کو بھول کر کہاں رہے؟ انہوں نے فرمایا کیا تم نے انہیں رات کا کھانا نہیں کھلایا، انہوں نے کہا نہیں! میں نے تو ان کے سامنے کھانا لاکر پیش کر دیا تھا لیکن انہوں نے ہی کھانے سے انکار کردیا، اس پر وہ ناراض ہوگئے اور قسم کھائی کہ وہ کھانا نہیں کھائیں گے، مہمانوں نے بھی قسم کھالی کہ وہ اس وقت تک نہیں کھائیں گے جب تک حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نہیں کھائیں گے، جب نوبت یہاں تک پہنچ گئی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ توشیطان کی طرف سے ہوگیا ہے۔ پھر انہوں نے کھانا منگوایا اور خود بھی کھایا اور مہمانوں نے بھی کھایا، یہ لوگ جو لقمہ بھی اٹھاتے تھے، اس میں نیچے سے اضافہ ہوجاتا تھا، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی اہلیہ کو مخاطب کر کے فرمایا اے بنو فراس کی بہن! یہ کیا ماجرا ہے؟ انہوں نے کہا اے میری آنکھوں کی ٹھنڈک! یہ تواصل مقدار سے بھی زیادہ ہوگیا ہے، چنانچہ ان سب نے یہ کھانا کھایا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی بھجوایا اور راوی نے ذکر کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کھانے کو تناول فرمایا۔
-
حَدَّثَنَا عَارِمٌ حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ أَنَّهُ قَالَ كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثِينَ وَمِائَةً فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلْ مَعَ أَحَدٍ مِنْكُمْ طَعَامٌ فَإِذَا مَعَ رَجُلٍ صَاعٌ مِنْ طَعَامٍ أَوْ نَحْوُهُ فَعُجِنَ ثُمَّ جَاءَ رَجُلٌ مُشْرِكٌ مُشْعَانٌّ طَوِيلٌ بِغَنَمٍ يَسُوقُهَا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَيْعًا أَمْ عَطِيَّةً أَوْ قَالَ أَمْ هَدِيَّةً قَالَ لَا بَلْ بَيْعٌ فَاشْتَرَى مِنْهُ شَاةً فَصُنِعَتْ وَأَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَوَادِ الْبَطْنِ أَنْ يُشْوَى قَالَ وَايْمُ اللَّهِ مَا مِنْ الثَّلَاثِينَ وَالْمِائَةِ إِلَّا قَدْ حَزَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُزَّةً مِنْ سَوَادِ بَطْنِهَا إِنْ كَانَ شَاهِدًا أَعْطَاهَا إِيَّاهُ وَإِنْ كَانَ غَائِبًا خَبَأَ لَهُ قَالَ وَجَعَلَ مِنْهَا قَصْعَتَيْنِ قَالَ فَأَكَلْنَا أَجْمَعُونَ وَشَبِعْنَا وَفَضَلَ فِي الْقَصْعَتَيْنِ فَجَعَلْنَاهُ عَلَى الْبَعِيرِ أَوْ كَمَا قَالَ-
حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم ایک سو تیس آدمی تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم میں سے کسی کے پاس کچھ کھانا ہے؟ ایک آدمی کے پاس سے ایک صاع آٹا نکلا، اسے گوندھا گیا، اتنی دیر میں ایک موٹا تازہ لمبا تڑنگا مشرک ایک بکری ہانکتا ہوا لایا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ یہ بیچنے کے لئے لائے ہو یا ہدیہ کے طور پر لائے ہو؟ اس نے کہا کہ بیچنے کے لئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے وہ بکری خرید لی اور اسے بھی تیار کیا جانے لگا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر یہ حکم بھی دیا کہ اس کی کلیجی بھون لی جائے، بخدا! ہم ایک سو تیس آدمیوں میں سے ایک بھی ایسا نہ تھا جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کلیجی کی بوٹی کاٹ کر نہ دی ہو، جو موجود تھے انہیں اسی وقت اور جو موجود نہیں تھے ان کے لئے بچا کر رکھ لی، پھر دو بڑے پیالوں میں کھانا نکالا، ہم سب نے کھایا اور خوب سیر ہو کر کھایا لیکن پیالوں میں پھر بھی کچھ بچ گیا، ہم نے اسے اپنے اونٹ پر لاد لیا۔
-
حَدَّثَنَا عَارِمٌ وَعَفَّانُ قَالَا حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ قَالَ عَفَّانُ فِي حَدِيثِهِ قَالَ سَمِعْتُ أَبِي حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ أَنَّهُ حَدَّثَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ أَنَّ أَصْحَابَ الصُّفَّةِ كَانُوا أُنَاسًا فُقَرَاءَ وَأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَرَّةً مَنْ كَانَ عِنْدَهُ طَعَامُ اثْنَيْنِ فَلْيَذْهَبْ بِثَالِثٍ وَقَالَ عَفَّانُ بِثَلَاثَةٍ وَمَنْ كَانَ عِنْدَهُ طَعَامُ أَرْبَعَةٍ فَلْيَذْهَبْ بِخَامِسٍ سَادِسٍ أَوْ كَمَا قَالَ وَأَنَّ أَبَا بَكْرٍ جَاءَ بِثَلَاثَةٍ وَانْطَلَقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَشَرَةٍ وَأَبُو بَكْرٍ بِثَلَاثَةٍ قَالَ عَفَّانُ بِسَادِسٍ-
حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اصحاب صفہ تنگدست لوگ تھے، ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو وہ اپنے ساتھ تیسرے کو لے جائے، جس کے پاس چار کا کھانا ہو وہ پانچویں چھٹے کو لے جائے، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اپنے ساتھ تین آدمیوں کو لے گئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم دس افراد کو اپنے ساتھ لے گئے۔
-
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَمْرٍو يَعْنِي ابْنَ دِينَارٍ أَخْبَرَهُ عَمْرُو بْنُ أَوْسٍ الثَّقَفِيُّ أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ قَالَ أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أُرْدِفَ عَائِشَةَ إِلَى التَّنْعِيمِ فَأُعْمِرَهَا-
حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو اپنے پیچھے بٹھا کر تنعیم لے جاؤں اور انہیں عمرہ کرا لاؤں۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَكْرٍ السَّهْمِيُّ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مِهْرَانَ عَنْ مُوسَى بْنِ عُبَيْدٍ عَنْ مَيْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ رَبِّي أَعْطَانِي سَبْعِينَ أَلْفًا مِنْ أُمَّتِي يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسَابٍ فَقَالَ عُمَرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَهَلَّا اسْتَزَدْتَهُ قَالَ قَدْ اسْتَزَدْتُهُ فَأَعْطَانِي مَعَ كُلِّ رَجُلٍ سَبْعِينَ أَلْفًا قَالَ عُمَرُ فَهَلَّا اسْتَزَدْتَهُ قَالَ قَدْ اسْتَزَدْتُهُ فَأَعْطَانِي هَكَذَا وَفَرَّجَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَكْرٍ بَيْنَ يَدَيْهِ وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ وَبَسَطَ بَاعَيْهِ وَحَثَا عَبْدُ اللَّهِ و قَالَ هِشَامٌ وَهَذَا مِنْ اللَّهِ لَا يُدْرَى مَا عَدَدُهُ-
حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میرے رب نے میری امت میں سے مجھے ستر ہزار ایسے افراد عطاء کیے ہیں جو جنت میں بلا حساب کتاب داخل ہوں گے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ نے اس سے زائد کی درخواست نہیں کی؟ فرمایا میں نے درخواست کی تھی جس پر اللہ نے مجھے ان میں سے ہر ایک کے ساتھ مزید ستر ہزار عطاء فرما دیئے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پھر عرض کیا یا رسول اللہ! آپ نے اس سے زائد کی درخواست نہیں کی؟ فرمایا میں نے درخواست کی تھی جس پر اللہ نے مجھے اتنے اور افراد عطاء فرمائے، یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ پھیلا دیئے، جس کی وضاحت کرتے ہوئے راوی کہتے ہیں کہ اتنی بڑی تعداد جسے اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔
-
حَدَّثَنَا يَزِيدُ أَنْبَأَنَا صَدَقَةُ بْنُ مُوسَى عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ عَنْ قَيْسِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ قَاضِي الْمِصْرَيْنِ وَهُوَ شُرَيْحٌ وَالْمِصْرَانِ الْبَصْرَةُ وَالْكُوفَةُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَيَدْعُو بِصَاحِبِ الدَّيْنِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيُقِيمُهُ بَيْنَ يَدَيْهِ فَيَقُولُ أَيْ عَبْدِي فِيمَ أَذْهَبْتَ مَالَ النَّاسِ فَيَقُولُ أَيْ رَبِّ قَدْ عَلِمْتَ أَنِّي لَمْ أُفْسِدْهُ إِنَّمَا ذَهَبَ فِي غَرَقٍ أَوْ حَرَقٍ أَوْ سَرِقَةٍ أَوْ وَضِيعَةٍ فَيَدْعُو اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِشَيْءٍ فَيَضَعُهُ فِي مِيزَانِهِ فَتَرْجَحُ حَسَنَاتُهُ-
حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مقروض کو بلا کر اپنے سامنے کھڑا کریں گے اور اس سے پوچھیں گے کہ بندے! تونے لوگوں کا مال کہاں اڑایا؟ وہ عرض کرے گا پروردگار! آپ تو جانتے ہیں کہ میں نے اسے یونہی برباد نہیں کیا، بلکہ وہ تو سمندر میں ڈوب کر، جل کر، چوری ہو کر یا ٹیکسوں کی ادائیگی میں ضائع ہوگیا یہ سن کر اللہ تعالیٰ کوئی چیز منگوا کر اس کے میزان عمل میں رکھ دیں گے جس سے اس کی نیکیوں کا پلڑا بھاری ہو کر جھک جائے گا۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ حَدَّثَنَا صَدَقَةُ حَدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ حَدَّثَنِي قَيْسُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ قَاضِي الْمِصْرَيْنِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَدْعُو اللَّهُ بِصَاحِبِ الدَّيْنِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّى يُوقَفَ بَيْنَ يَدَيْهِ فَيُقَالُ يَا ابْنَ آدَمَ فِيمَ أَخَذْتَ هَذَا الدَّيْنَ وَفِيمَ ضَيَّعْتَ حُقُوقَ النَّاسِ فَيَقُولُ يَا رَبِّ إِنَّكَ تَعْلَمُ أَنِّي أَخَذْتُهُ فَلَمْ آكُلْ وَلَمْ أَشْرَبْ وَلَمْ أَلْبَسْ وَلَمْ أُضَيِّعْ وَلَكِنْ أَتَى عَلَى يَدَيَّ إِمَّا حَرَقٌ وَإِمَّا سَرَقٌ وَإِمَّا وَضِيعَةٌ فَيَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ صَدَقَ عَبْدِي أَنَا أَحَقُّ مَنْ قَضَى عَنْكَ الْيَوْمَ فَيَدْعُو اللَّهُ بِشَيْءٍ فَيَضَعُهُ فِي كِفَّةِ مِيزَانِهِ فَتَرْجَحُ حَسَنَاتُهُ عَلَى سَيِّئَاتِهِ فَيَدْخُلُ الْجَنَّةَ بِفَضْلِ رَحْمَتِهِ-
حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مقروض کو بلا کر اپنے سامنے کھڑا کریں گے اور اس سے پوچھیں گے کہ بندے! تو نے لوگوں سے قرض لے کر ان کا مال کہاں اڑایا؟ وہ عرض کرے گا پروردگار! آپ تو جانتے ہیں کہ میں نے اسے لیا تھا لیکن میں اسے کھا سکا اور نہ پی سکا، میں اسے پہن بھی نہیں سکا اور یونہی برباد نہیں کیا، بلکہ وہ تو سمندر میں ڈوب کر، جل کر، چوری ہو کر یا ٹیکسوں کی ادائیگی میں ضائع ہوگیا یہ سن کر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ میرے بندے نے سچ کہا، میں اس بات کا زیادہ حقدار ہوں کہ آج تمہاری طرف تمہارا قرض ادا کروں، پھر اللہ تعالیٰ کوئی چیز منگوا کر اس کے میزان عمل میں رکھ دیں گے جس سے اس کی نیکیوں کا پلڑا بھاری ہو کر جھک جائے گا اور وہ اللہ کے فضل سے جنت میں داخل ہو جائے گا۔
-
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ إِسْحَاقَ أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ الْمُبَارَكِ أَنْبَأَنَا زَكَرِيَّا بْنُ إِسْحَاقَ عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ مَنْ سَمِعَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي بَكْرٍ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ارْحَلْ هَذِهِ النَّاقَةَ ثُمَّ أَرْدِفْ أُخْتَكَ فَإِذَا هَبَطْتُمَا مِنْ أَكَمَةِ التَّنْعِيمِ فَأَهِلَّا وَأَقْبِلَا وَذَلِكَ لَيْلَةُ الصَّدَرِ-
حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اس اونٹنی پر سوار ہو، پیچھے اپنی بہن کو بٹھاؤ جب تنعیم کے ٹیلے سے اترو تو عمرہ کرا لاؤ، یہ موقع لیلۃ الصدر کا تھا ۔
-
حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ مِهْرَانَ الدَّبَّاغُ حَدَّثَنَا دَاوُدُ يَعْنِي الْعَطَّارَ عَنِ ابْنِ خُثَيْمٍ عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ عَنْ حَفْصَةَ ابْنَةِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ عَنْ أَبِيهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ أَرْدِفْ أُخْتَكَ يَعْنِي عَائِشَةَ فَأَعْمِرْهَا مِنْ التَّنْعِيمِ فَإِذَا هَبَطْتَ بِهَا مِنْ الْأَكَمَةِ فَمُرْهَا فَلْتُحْرِمْ فَإِنَّهَا عُمْرَةٌ مُتَقَبَّلَةٌ-
حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اس اونٹنی پر سوار ہو، پیچھے اپنی بہن کو بٹھاؤ، جب تنعیم کے ٹیلے سے اترو تلبیہ واحرام کر کے واپس آجاؤ یعنی عمرہ کرا لاؤ، کہ یہ مقبول عمرہ ہوگا۔
-
حَدَّثَنَا عَارِمٌ حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ أَنَّهُ قَالَ كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثِينَ وَمِائَةً فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلْ مَعَ أَحَدٍ مِنْكُمْ طَعَامٌ فَإِذَا مَعَ رَجُلٍ صَاعٌ مِنْ طَعَامٍ أَوْ نَحْوُهُ فَعُجِنَ ثُمَّ جَاءَ رَجُلٌ مُشْرِكٌ مُشْعَانٌّ طَوِيلٌ بِغَنَمٍ يَسُوقُهَا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَيْعًا أَمْ عَطِيَّةً أَوْ قَالَ أَمْ هِبَةً قَالَ لَا بَلْ بَيْعٌ فَاشْتَرَى مِنْهُ شَاةً فَصُنِعَتْ وَأَمَرَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَوَادِ الْبَطْنِ أَنْ يُشْوَى قَالَ وَايْمُ اللَّهِ مَا مِنْ الثَّلَاثِينَ وَالْمِائَةِ إِلَّا قَدْ حَزَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهُ حُزَّةً مِنْ سَوَادِ بَطْنِهَا إِنْ كَانَ شَاهِدًا أَعْطَاهُ إِيَّاهُ وَإِنْ كَانَ غَائِبًا خَبَأَ لَهُ قَالَ وَجَعَلَ مِنْهَا قَصْعَتَيْنِ قَالَ فَأَكَلْنَا أَجْمَعُونَ وَشَبِعْنَا وَفَضَلَ فِي الْقَصْعَتَيْنِ فَحَمَلْنَاهُ عَلَى بَعِيرٍ أَوْ كَمَا قَالَ-
حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم ایک سو تیس آدمی تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم میں سے کسی کے پاس کچھ کھانا ہے؟ ایک آدمی کے پاس سے ایک صاع آٹا نکلا، اسے گوندھا گیا ، اتنی دیر میں ایک موٹا تازہ لمبا تڑنگا مشرک ایک بکری ہانکتا ہوا لایا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ یہ بیچنے کے لئے لائے ہو یا ہدیہ کے طور پر لائے ہو؟ اس نے کہا کہ بیچنے کے لئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے وہ بکری خرید لی اور اسے بھی تیار کیا جانے لگا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر یہ حکم بھی دیا کہ اس کی کلیجی بھون لی جائے، بخدا! ہم ایک سو تیس آدمیوں میں سے ایک بھی ایسا نہ تھا جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کلیجی کی بوٹی کاٹ کر نہ دی ہو، جو موجود تھے انہیں اسی وقت اور جو موجود نہیں تھے ان کے لئے بچا کر رکھ لی، پھر دو بڑے پیالوں میں کھانا نکالا، ہم سب نے کھایا اور خوب سیر ہو کر کھایا لیکن پیالوں میں پھر بھی کچھ بچ گیا، ہم نے اسے اپنے اونٹ پر لاد لیا۔
-
حَدَّثَنَا عَارِمٌ حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ أَبِيهِ حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ أَنَّهُ حَدَّثَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ أَنَّ أَصْحَابَ الصُّفَّةِ كَانُوا أُنَاسًا فُقَرَاءَ وَأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَرَّةً مَنْ كَانَ عِنْدَهُ طَعَامُ اثْنَيْنِ فَلْيَذْهَبْ بِثَالِثٍ مَنْ كَانَ عِنْدَهُ طَعَامُ أَرْبَعَةٍ فَلْيَذْهَبْ بِخَامِسٍ بِسَادِسٍ أَوْ كَمَا قَالَ وَأَنَّ أَبَا بَكْرٍ جَاءَ بِثَلَاثَةٍ فَانْطَلَقَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَشَرَةٍ وَأَبُو بَكْرٍ بِثَلَاثَةٍ قَالَ فَهُوَ أَنَا وَأَبِي وَأُمِّي وَلَا أَدْرِي هَلْ قَالَ وَامْرَأَتِي وَخَادِمٌ بَيْنَ بَيْتِنَا وَبَيْتِ أَبِي بَكْرٍ وَإِنَّ أَبَا بَكْرٍ تَعَشَّى عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ لَبِثَ حَتَّى صَلَّيْتُ الْعِشَاءَ ثُمَّ رَجَعَ فَلَبِثَ حَتَّى نَعَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَاءَ بَعْدَمَا مَضَى مِنْ اللَّيْلِ مَا شَاءَ اللَّهُ قَالَتْ لَهُ امْرَأَتُهُ مَا حَبَسَكَ عَنْ أَضْيَافِكَ أَوْ قَالَتْ ضَيْفِكَ قَالَ أَوَمَا عَشَّيْتِهِمْ قَالَتْ أَبَوْا حَتَّى تَجِيءَ قَدْ عَرَضُوا عَلَيْهِمْ فَغَلَبُوهُمْ قَالَ فَذَهَبْتُ أَنَا فَاخْتَبَأْتُ قَالَ يَا غُنْثَرُ أَوْ يَا عَنْتَرُ فَجَدَّعَ وَسَبَّ وَقَالَ كُلُوا لَا هَنِيًّا وَقَالَ وَاللَّهِ لَا أَطْعَمُهُ أَبَدًا قَالَ وَحَلَفَ الضَّيْفُ أَنْ لَا يَطْعَمَهُ حَتَّى يَطْعَمَهُ أَبُو بَكْرٍ قَالَ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ هَذِهِ مِنْ الشَّيْطَانِ قَالَ فَدَعَا بِالطَّعَامِ فَأَكَلَ قَالَ فَايْمُ اللَّهِ مَا كُنَّا نَأْخُذُ مِنْ لُقْمَةٍ إِلَّا رَبَا مِنْ أَسْفَلِهَا أَكْثَرَ مِنْهَا قَالَ حَتَّى شَبِعُوا وَصَارَتْ أَكْثَرَ مِمَّا كَانَتْ قَبْلَ ذَلِكَ فَنَظَرَ إِلَيْهَا أَبُو بَكْرٍ فَإِذَا هِيَ كَمَا هِيَ أَوْ أَكْثَرُ فَقَالَ لِامْرَأَتِهِ يَا أُخْتَ بَنِي فِرَاسٍ مَا هَذَا قَالَتْ لَا وَقُرَّةِ عَيْنِي لَهِيَ الْآنَ أَكْثَرُ مِنْهَا قَبْلَ ذَلِكَ بِثَلَاثِ مِرَارٍ فَأَكَلَ مِنْهَا أَبُو بَكْرٍ وَقَالَ إِنَّمَا كَانَ ذَلِكَ مِنْ الشَّيْطَانِ يَعْنِي يَمِينَهُ ثُمَّ أَكَلَ لُقْمَةً ثُمَّ حَمَلَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَصْبَحَتْ عِنْدَهُ قَالَ وَكَانَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمٍ عَقْدٌ فَمَضَى الْأَجَلُ فَعَرَّفْنَا اثْنَيْ عَشَرَ رَجُلًا مَعَ كُلِّ رَجُلٍ أُنَاسٌ اللَّهُ أَعْلَمُ كَمْ مَعَ كُلِّ رَجُلٍ غَيْرَ أَنَّهُ بَعَثَ مَعَهُمْ فَأَكَلُوا مِنْهَا أَجْمَعُونَ أَوْ كَمَا قَالَ-
حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اصحاب صفہ تنگدست لوگ تھے، ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو وہ اپنے ساتھ تیسرے کو لے جائے، جس کے پاس چار کا کھانا ہو وہ پانچویں چھٹے کو لے جائے، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اپنے ساتھ تین آدمیوں کو لے گئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم دس افراد کو اپنے ساتھ لے گئے۔ عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے گھر میں میرے علاوہ والدین (غالبا بیوی کا بھی ذکر کیا) اور ایک خادم رہتا تھا جو ہمارے درمیان مشترک تھا، اس دن حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے شام کا وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گذارا، رات کو جب وہ واپس آئے تو والدہ نے ان سے کہا کہ آج رات آپ اپنے مہمانوں کو بھول کر کہاں رہے؟ انہوں نے فرمایا کیا تم نے انہیں رات کا کھانا نہیں کھلایا، انہوں نے کہا نہیں! میں نے تو ان کے سامنے کھانا لاکر پیش کر دیا تھا لیکن انہوں نے ہی کھانے سے انکار کر دیا، میں جا کر ایک جگہ چھپ گیا، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے مجھے سخت سست کہتے ہوئے آوازیں دیں، پھر مہمانوں سے فرمایا کھاؤ، تم نے اچھا نہیں کیا اور قسم کھائی کہ وہ کھانا نہیں کھائیں گے، مہمانوں نے بھی قسم کھا لی کہ وہ اس وقت تک نہیں کھائیں گے جب تک حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نہیں کھائیں گے، جب نوبت یہاں تک پہنچ گئی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ تو شیطان کی طرف سے ہوگیا ہے۔ پھر انہوں نے کھانا منگوایا اور خود بھی کھایا اور مہمانوں نے بھی کھایا، یہ لوگ جو لقمہ بھی اٹھاتے تھے، اس میں نیچے سے مزید اضافہ ہو جاتا تھا، حتی کہ وہ سب سیراب ہوگئے اور کھانا پہلے سے بھی زیادہ بچ رہا، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی اہلیہ کو مخاطب کر کے فرمایا اے بنو فراس کی بہن! یہ کیا ماجرا ہے؟ انہوں نے کہا اے میری آنکھوں کی ٹھنڈک! یہ تو اصل مقدار سے بھی تین گنا زیادہ ہوگیا ہے، چنانچہ ان سب نے یہ کھانا کھایا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی بھجوایا اور راوی نے ذکر کیا کہ ہمارے اور ایک قوم کے درمیان ایک معاہدہ تھا، اس کی مدت ختم ہوگئی، ہم نے بارہ آدمیوں کو چوہدری مقرر کیا جن میں سے ہر ایک کے ساتھ کچھ آدمی تھے، جن کی صحیح تعداد اللہ ہی کو معلوم ہے، التبہ یہ واضح ہے کہ وہ بھی ان کے ساتھ شامل تھے اور ان سب نے بھی اس کھانے کو کھایا۔
-
حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ قَالَ سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ أَنَّهُ حَدَّثَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ أَنَّ أَصْحَابَ الصُّفَّةِ كَانُوا أُنَاسًا فُقَرَاءَ وَأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ كَانَ عِنْدَهُ طَعَامُ اثْنَيْنِ فَلْيَذْهَبْ بِثَلَاثَةٍ وَمَنْ كَانَ عِنْدَهُ طَعَامُ أَرْبَعَةٍ فَلْيَذْهَبْ بِخَامِسٍ بِسَادِسٍ أَوْ كَمَا قَالَ وَأَنَّ أَبَا بَكْرٍ جَاءَ بِثَلَاثَةٍ وَانْطَلَقَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَشَرَةٍ قَالَ فَهُوَ وَأَنَا وَأَبِي وَأُمِّي وَلَا أَدْرِي هَلْ قَالَ امْرَأَتِي وَخَادِمٌ بَيْنَ بَيْتِنَا وَبَيْتِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ-
حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اصحاب صفہ تنگدست لوگ تھے، ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو وہ اپنے ساتھ تیسرے کو لے جائے، جس کے پاس چار کا کھانا ہو وہ پانچویں چھٹے کو لے جائے، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اپنے ساتھ تین آدمیوں کو لے گئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم دس افراد کو اپنے ساتھ لے گئے۔ عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے گھر میں میرے علاوہ والدین، (غالبا بیوی کا بھی ذکر کیا) اور ایک خادم رہتا تھا جو ہمارے درمیان مشترک تھا۔
-