TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مسند احمد
ا ب ج
حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی مرویات
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَنَّهُ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ عَمُّكَ أَبُو طَالِبٍ كَانَ يَحُوطُكَ وَيَنْفَعُكَ قَالَ إِنَّهُ فِي ضَحْضَاحٍ مِنْ النَّارِ وَلَوْلَا أَنَا كَانَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنْ النَّارِ-
ایک مرتبہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے چچا خواجہ ابوطالب آپ کا بہت دفاع کیا کرتے تھے، آپ کی وجہ سے انہیں کیا فائدہ ہوا؟ فرمایا وہ جہنم کے اوپر والے حصے میں ہیں، اگر میں نہ ہوتا تو وہ جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوتے۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ عَنِ الْعَبَّاسِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سَجَدَ الرَّجُلُ سَجَدَ مَعَهُ سَبْعَةُ آرَابٍ وَجْهِهِ وَكَفَّيْهِ وَرُكْبَتَيْهِ وَقَدَمَيْهِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْهَادِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِهِ-
حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب انسان سجدہ کرتا ہے تو اس کے ساتھ سات ہڈیاں سجدہ کرتی ہیں ، چہرہ، دونوں ہاتھ، دونوں پاؤں اور دونوں گھٹنے۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَكْرٍ حَدَّثَنَا حَاتِمٌ يَعْنِي ابْنَ أَبِي صَغِيرَةَ حَدَّثَنِي بَعْضُ بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ قَالَ قَدِمَ عَلَيْنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ فِي بَعْضِ تِلْكَ الْمَوَاسِمِ قَالَ فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ حَدَّثَنِي أَبِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ عَنْ أَبِيهِ الْعَبَّاسِ أَنَّهُ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَا عَمُّكَ كَبِرَتْ سِنِّي وَاقْتَرَبَ أَجَلِي فَعَلِّمْنِي شَيْئًا يَنْفَعُنِي اللَّهُ بِهِ قَالَ يَا عَبَّاسُ أَنْتَ عَمِّي وَلَا أُغْنِي عَنْكَ مِنْ اللَّهِ شَيْئًا وَلَكِنْ سَلْ رَبَّكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ قَالَهَا ثَلَاثًا ثُمَّ أَتَاهُ عِنْدَ قَرْنِ الْحَوْلِ فَقَالَ لَهُ مِثْلَ ذَلِكَ حَدَّثَنَا رَوْحٌ حَدَّثَنَا أَبُو يُونُسَ الْقُشَيْرِيُّ حَاتِمُ بْنُ أَبِي صَغِيرَةَ حَدَّثَنِي رَجُلٌ مِنْ وَلَدِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ قَالَ قَدِمَ عَلَيْنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ فَحَضَرَهُ بَنُو عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَقَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيهِ عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ قَالَ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَا عَمُّكَ قَدْ كَبِرَتْ سِنِّي فَذَكَرَ مَعْنَاهُ-
ایک مرتبہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگے یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ کا چچا ہوں، میں بوڑھا ہوچکا ہوں اور میری موت کا وقت قریب ہے، مجھے کوئی ایسی دعاء سکھا دیجئے جس کے ذریعے اللہ مجھے نفع عطاء فرمائے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عباس! آپ واقعی میرے چچا ہیں، لیکن میں اللہ کے معاملے میں آپ کے کسی کام نہیں آسکتا، البتہ آپ اپنے رب سے دنیا و آخرت میں درگذر اور عافیت کی دعاء مانگتے رہا کریں، یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مربتہ فرمائی پھر حضرت عباس رضی اللہ عنہ ایک سال بعد دوبارہ آئے، تب بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہی دعاء تلقین فرمائی۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
-
حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عُمَيْرٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ عَنْ عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلْ نَفَعْتَ أَبَا طَالِبٍ بِشَيْءٍ فَإِنَّهُ كَانَ يَحُوطُكَ وَيَغْضَبُ لَكَ قَالَ نَعَمْ هُوَ فِي ضَحْضَاحٍ مِنْ النَّارِ وَلَوْلَا ذَلِكَ لَكَانَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنْ النَّارِ-
ایک مرتبہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ! آپ کے چچا خواجہ ابو طالب آپ کا بہت دفاع کیا کرتے تھے، آپ کی وجہ سے انہیں کیا فائدہ ہوا؟ فرمایا وہ جہنم کے اوپر والے حصے میں ہیں ، اگر میں نہ ہوتا تو وہ جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوتے۔
-
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ أَنْبَأَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْهَادِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سَجَدَ ابْنُ آدَمَ سَجَدَ مَعَهُ سَبْعَةُ آرَابٍ وَجْهِهِ وَكَفَّيْهِ وَرُكْبَتَيْهِ وَقَدَمَيْهِ-
حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب انسان سجدہ کرتا ہے تو اس کے ساتھ سات ہڈیاں سجدہ کرتی ہیں ، چہرہ، دونوں ہاتھ، دونوں پاؤں اور دونوں گھٹنے۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَنْبَأَنَا يَحْيَى بْنُ الْعَلَاءِ عَنْ عَمِّهِ شُعَيْبِ بْنِ خَالِدٍ حَدَّثَنِي سِمَاكُ بْنُ حَرْبٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمِيرَةَ عَنْ عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ قَالَ كُنَّا جُلُوسًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْبَطْحَاءِ فَمَرَّتْ سَحَابَةٌ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَدْرُونَ مَا هَذَا قَالَ قُلْنَا السَّحَابُ قَالَ وَالْمُزْنُ قُلْنَا وَالْمُزْنُ قَالَ وَالْعَنَانُ قَالَ فَسَكَتْنَا فَقَالَ هَلْ تَدْرُونَ كَمْ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ قَالَ قُلْنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ بَيْنَهُمَا مَسِيرَةُ خَمْسِ مِائَةِ سَنَةٍ وَمِنْ كُلِّ سَمَاءٍ إِلَى سَمَاءٍ مَسِيرَةُ خَمْسِ مِائَةِ سَنَةٍ وَكِثَفُ كُلِّ سَمَاءٍ مَسِيرَةُ خَمْسِ مِائَةِ سَنَةٍ وَفَوْقَ السَّمَاءِ السَّابِعَةِ بَحْرٌ بَيْنَ أَسْفَلِهِ وَأَعْلَاهُ كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ثُمَّ فَوْقَ ذَلِكَ ثَمَانِيَةُ أَوْعَالٍ بَيْنَ رُكَبِهِنَّ وَأَظْلَافِهِنَّ كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ثُمَّ فَوْقَ ذَلِكَ الْعَرْشُ بَيْنَ أَسْفَلِهِ وَأَعْلَاهُ كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَاللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى فَوْقَ ذَلِكَ وَلَيْسَ يَخْفَى عَلَيْهِ مِنْ أَعْمَالِ بَنِي آدَمَ شَيْءٌ قَالَ عَبْد اللَّهِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّارُ وَمُحَمَّدُ بْنُ بَكَّارٍ قَالَا حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ أَبِي ثَوْرٍ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمِيرَةَ عَنِ الْأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ-
حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ وادی بطحاء میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ وہاں سے ایک بادل گذرا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جانتے ہو، یہ کیا ہے؟ ہم نے کہا اسے سحاب (بادل) کہتے ہیں ، فرمایا "مزن " بھی کہتے ہیں؟ ہم نے عرض کیا جی ہاں! مزن بھی کہتے ہیں، پھر فرمایا اسے " عنان " بھی کہتے ہیں؟ اس پر ہم خاموش رہے۔ پھر فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو کہ آسمان اور زمین کے درمیان کتنا فاصلہ ہے؟ ہم نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، فرمایا آسمان اور زمین کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے، اسی طرح ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک بھی پانچ سو سال کا فاصلہ ہے اور ہر آسمان کی کثافت پانچ سو سال کی ہے، پھر ساتویں آسمان کے اوپر ایک سمندر ہے، اس سمندر کی سطح اور گہرائی میں زمین و آسمان کا فاصلہ ہے، پھر اس کے اوپر آٹھ پہاڑی بکرے ہیں جن کے گھٹنوں اور کھروں کے درمیان زمین و آسمان جتنا فاصلہ ہے، پھر اس کے اوپر عرش ہے جس کے اوپر اور نیچے والے حصے کے درمیان زمین و آسمان جتنا فاصہ ہے اور سب سے اوپر اللہ تبارک وتعالی ہے جس سے بنی آدم کا کوئی عمل بھی مخفی نہیں ۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
-
حَدَّثَنَا يَزِيدُ هَوَ ابْنُ هَارُونَ أَنْبَأَنَا إِسْمَاعِيلُ يَعْنِي ابْنَ أَبِي خَالِدٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ قُرَيْشًا إِذَا لَقِيَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا لَقُوهُمْ بِبِشْرٍ حَسَنٍ وَإِذَا لَقُونَا لَقُونَا بِوُجُوهٍ لَا نَعْرِفُهَا قَالَ فَغَضِبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَضَبًا شَدِيدًا وَقَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا يَدْخُلُ قَلْبَ رَجُلٍ الْإِيمَانُ حَتَّى يُحِبَّكُمْ لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ بْنِ رَبِيعَةَ قَالَ دَخَلَ الْعَبَّاسُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنَّا لَنَخْرُجُ فَنَرَى قُرَيْشًا تَحَدَّثُ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ-
حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ! قریش کے لوگ جب ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو بڑے ہشاش بشاش چہرے کے ساتھ ملتے ہیں اور جب ہم سے ملتے ہیں تو اجنبیوں کی طرح؟ اس پر نبی صلی اللہ علیہ سخت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ اس ذات کی قسم! جس کے دست قدرت میں میری جان ہے، کسی شخص کے دل میں اس وقت تک ایمان داخل نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ تم سے اللہ اور اس کے رسول کی خاطر محبت نہ کرنے لگے۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
-
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ سُفْيَانَ حَدَّثَنِي عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عُمَيْرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ قَالَ قُلْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَغْنَيْتَ عَنْ عَمِّكَ فَقَدْ كَانَ يَحُوطُكَ وَيَغْضَبُ لَكَ قَالَ هُوَ فِي ضَحْضَاحٍ وَلَوْلَا أَنَا لَكَانَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنْ النَّارِ-
ایک مرتبہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ! آپ کے چچا خواجہ ابو طالب آپ کا بہت دفاع کیا کرتے تھے، آپ کی وجہ سے انہیں کیا فائدہ ہوا؟ فرمایا وہ جہنم کے اوپر والے حصے میں ہیں، اگر میں نہ ہوتا تو وہ جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوتے۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ أَخْبَرَنِي كَثِيرُ بْنُ عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ عَنْ أَبِيهِ الْعَبَّاسِ قَالَ شَهِدْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُنَيْنًا قَالَ فَلَقَدْ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا مَعَهُ إِلَّا أَنَا وَأَبُو سُفْيَانَ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَلَزِمْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ نُفَارِقْهُ وَهُوَ عَلَى بَغْلَةٍ شَهْبَاءَ وَرُبَّمَا قَالَ مَعْمَرٌ بَيْضَاءَ أَهْدَاهَا لَهُ فَرْوَةُ بْنُ نَعَامَةَ الْجُذَامِيُّ فَلَمَّا الْتَقَى الْمُسْلِمُونَ وَالْكُفَّارُ وَلَّى الْمُسْلِمُونَ مُدْبِرِينَ وَطَفِقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْكُضُ بَغْلَتَهُ قِبَلَ الْكُفَّارِ قَالَ الْعَبَّاسُ وَأَنَا آخِذٌ بِلِجَامِ بَغْلَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكُفُّهَا وَهُوَ لَا يَأْلُو مَا أَسْرَعَ نَحْوَ الْمُشْرِكِينَ وَأَبُو سُفْيَانَ بْنُ الْحَارِثِ آخِذٌ بِغَرْزِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا عَبَّاسُ نَادِ يَا أَصْحَابَ السَّمُرَةِ قَالَ وَكُنْتُ رَجُلًا صَيِّتًا فَقُلْتُ بِأَعْلَى صَوْتِي أَيْنَ أَصْحَابُ السَّمُرَةِ قَالَ فَوَاللَّهِ لَكَأَنَّ عَطْفَتَهُمْ حِينَ سَمِعُوا صَوْتِي عَطْفَةُ الْبَقَرِ عَلَى أَوْلَادِهَا فَقَالُوا يَا لَبَّيْكَ يَا لَبَّيْكَ وَأَقْبَلَ الْمُسْلِمُونَ فَاقْتَتَلُوا هُمْ وَالْكُفَّارُ فَنَادَتْ الْأَنْصَارُ يَقُولُونَ يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ ثُمَّ قَصَّرَتْ الدَّاعُونَ عَلَى بَنِي الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ فَنَادَوْا يَا بَنِي الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ قَالَ فَنَظَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى بَغْلَتِهِ كَالْمُتَطَاوِلِ عَلَيْهَا إِلَى قِتَالِهِمْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا حِينَ حَمِيَ الْوَطِيسُ قَالَ ثُمَّ أَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَصَيَاتٍ فَرَمَى بِهِنَّ وُجُوهَ الْكُفَّارِ ثُمَّ قَالَ انْهَزَمُوا وَرَبِّ الْكَعْبَةِ انْهَزَمُوا وَرَبِّ الْكَعْبَةِ قَالَ فَذَهَبْتُ أَنْظُرُ فَإِذَا الْقِتَالُ عَلَى هَيْئَتِهِ فِيمَا أَرَى قَالَ فَوَاللَّهِ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ رَمَاهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَصَيَاتِهِ فَمَا زِلْتُ أَرَى حَدَّهُمْ كَلِيلًا وَأَمْرَهُمْ مُدْبِرًا حَتَّى هَزَمَهُمْ اللَّهُ قَالَ وَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْكُضُ خَلْفَهُمْ عَلَى بَغْلَتِهِ-
حضرت عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ غزوہ حنین کے موقع پر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھا، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میرے اور ابو سفیان بن حارث کے علاوہ کوئی نہ تھا، ہم دونوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چمٹے رہے اور کسی صورت جدا نہ ہوئے، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سفید خچر پر سوار تھے جو انہیں فروہ بن نعامہ الجذامی نے ہدیہ کے طور پر پیش کیا تھا ۔ جب مسلمان اور کفار آمنے سامنے ہوئے تو ابتدائی طور پر مسلمان پشت پھیر کر بھاگ کھڑے ہوئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم باربار ایڑ لگا کر اپنے خچر پر کفار کی طرف بڑھنے لگے، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خچر پر لگام پکڑ رکھی تھی اور میں اسے آگے جانے سے روک رہا تھا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین کی طرف تیزی سے بڑھنے میں کوئی کوتاہی نہ کر رہے تھے، ابو سیفان بن حارث نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کی رکاب تھام رکھی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کا رخ دیکھ کر فرمایا عباس! یااصحاب السمرۃ کہہ کر مسلمانوں کو پکارو، میری آواز طبعی طور پر اونچی تھی اس لئے میں نے اونچی آواز سے پکار کر کہا این اصحاب السمرۃ!؟ بخدا! یہ آواز سنتے ہی مسلمان ایسے پلٹے جیسے گائے اپنی ولد کی طرف واپس پلٹتی ہے اور لبیک کہتے ہوئے آگے بڑھے اور کفار پر جا پڑے۔ ادھر انصار نے اپنے ساتھیوں کو پکارتے ہوئے کہا اے گروہ انصار! پھر منادی کرنے والوں نے صرف بنو حارث بن خزرج کا نام لے کر انہیں پکارا، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کیفیت کو اپنے خچر پر سوار ملاحظہ فرمایا اور ایسا محسوس ہوا کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی آگے بڑھ کر قتال میں شریک ہونا چاہتے ہیں تو فرمایا اب گھمسان کا رن پڑا ہے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چند کنکریاں اٹھائیں اور کفار کے چہروں پر انہیں پھینکتے ہوئے فرمایا رب کعبہ کی قسم! انہیں شکست ہوگئی، رب کعبہ کی قسم! انہیں شکست ہوگئی۔ میں جائزہ لینے کے لئے آگے بڑھا تو میرا خیال یہ تھا کہ لڑائی تو ابھی اسی طرح جاری ہے، لیکن بخدا! جیسے ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر کنکریاں پھینکیں تو مجھے محسوس ہوا کہ ان کی تیزی سستی میں تبدیل ہو رہی ہے اور ان کا معاملہ پشت پھیر کر بھاگنے کے قریب ہے چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اللہ نے انہیں شکست سے دو چار کر دیا اور مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا میں اب بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے خچر پر سوار ان کی طرف ایڑ لگا کر جاتے ہوئے دیکھ رہا ہوں ۔
-
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ فَلَمْ أَحْفَظْهُ عَنْ كَثِيرِ بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كَانَ عَبَّاسٌ وَأَبُو سُفْيَانَ مَعَهُ يَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَخَطَبَهُمْ وَقَالَ الْآنَ حَمِيَ الْوَطِيسُ وَقَالَ نَادِ يَا أَصْحَابَ سُورَةِ الْبَقَرَةِ-
حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ اور حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ ارشاد فرمایا اور فرمایا کہ اب گھمسان کا رن پڑا ہے اور فرمایا یہ آواز لگاؤ یا اصحاب سورت البقرۃ۔
-
حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ بْنِ رَبِيعَةَ قَالَ دَخَلَ الْعَبَّاسُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا لَنَخْرُجُ فَنَرَى قُرَيْشًا تَحَدَّثُ فَإِذَا رَأَوْنَا سَكَتُوا فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَدَرَّ عِرْقٌ بَيْنَ عَيْنَيْهِ ثُمَّ قَالَ وَاللَّهِ لَا يَدْخُلُ قَلْبَ امْرِئٍ إِيمَانٌ حَتَّى يُحِبَّكُمْ لِلَّهِ وَلِقَرَابَتِي-
عبدالمطلب بن ربیعہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! ہم لوگ باہر نکلتے ہیں اور دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ قریش کے لوگ آپس میں باتیں کر رہے ہیں لیکن ہمیں دیکھ کر وہ خاموش ہو جاتے ہیں، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ آیا اور دونوں آنکھوں کے درمیان موجود رگ پھول گئی، پھر فرمایا اللہ کی قسم! کسی شخص کے دل میں اس وقت تک ایمان داخل نہیں ہو سکتا جب تک وہ اللہ کی رضا کے لئے اور میری قرابت کی وجہ سے تم سے محبت نہ کرنے لگے۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِدْرِيسَ يَعْنِي الشَّافِعِيَّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ يَزِيدَ يَعْنِي ابْنَ الْهَادِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ ذَاقَ طَعْمَ الْإِيمَانِ مَنْ رَضِيَ بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا رَسُولًا-
حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس شخص نے ایمان کا مزہ چکھ لیا جو اللہ کو رب مان کر، اسلام کو دین مان کر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغمبر مان کر راضی اور مطمئن ہوگیا۔
-
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا لَيْثُ بْنُ سَعِيدٍ عَنِ ابْنِ الْهَادِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ ذَاقَ طَعْمَ الْإِيمَانِ مَنْ رَضِيَ بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا-
حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس شخص نے ایمان کا مزہ چکھ لیا جو اللہ کو رب مان کر، اسلام کو دین مان کر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغمبر مان کر راضی اور مطمئن ہوگیا
-
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ مُضَرَ الْقُرَشِيُّ عَنِ ابْنِ الْهَادِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِذَا سَجَدَ الْعَبْدُ سَجَدَ مَعَهُ سَبْعَةُ آرَابٍ وَجْهُهُ وَكَفَّاهُ وَرُكْبَتَاهُ وَقَدَمَاهُ-
حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب انسان سجدہ کرتا ہے تو اس کے ساتھ سات ہڈیاں سجدہ کرتی ہیں ، چہرہ، دونوں ہاتھ، دونوں پاؤں اور دونوں گھٹنے۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ أَنْبَأَنَا شُعَيْبٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ أَخْبَرَنِي مَالِكُ بْنُ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ النَّصْرِيُّ أَنَّ عُمَرَ دَعَاهُ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ قَالَ فَبَيْنَا أَنَا عِنْدَهُ إِذْ جَاءَ حَاجِبُهُ يَرْفَأُ فَقَالَ هَلْ لَكَ فِي عُثْمَانَ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ وَالزُّبَيْرِ وَسَعْدٍ يَسْتَأْذِنُونَ قَالَ نَعَمْ فَأَدْخَلَهُمْ فَلَبِثَ قَلِيلًا ثُمَّ جَاءَ فَقَالَ هَلْ لَكَ فِي عَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ يَسْتَأْذِنَانِ قَالَ نَعَمْ فَأَذِنَ لَهُمَا فَلَمَّا دَخَلَا قَالَ عَبَّاسٌ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ هَذَا لَعَلِيٍّ وَهُمَا يَخْتَصِمَانِ فِي الصَّوَافِ الَّتِي أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ أَمْوَالِ بَنِي النَّضِيرِ فَقَالَ الرَّهْطُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ اقْضِ بَيْنَهُمَا وَأَرِحْ أَحَدَهُمَا مِنْ الْآخَرِ قَالَ عُمَرُ اتَّئِدُوا أُنَاشِدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ يُرِيدُ نَفْسَهُ قَالُوا قَدْ قَالَ ذَلِكَ فَأَقْبَلَ عُمَرُ عَلَى عَلِيٍّ وَعَلَى الْعَبَّاسِ فَقَالَ أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ أَتَعْلَمَانِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ذَلِكَ قَالَا نَعَمْ قَالَ فَإِنِّي أُحَدِّثُكُمْ عَنْ هَذَا الْأَمْرِ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ كَانَ خَصَّ رَسُولَهُ فِي هَذَا الْفَيْءِ بِشَيْءٍ لَمْ يُعْطِهِ أَحَدًا غَيْرَهُ فَقَالَ وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ إِلَى قَدِيرٌ فَكَانَتْ هَذِهِ خَاصَّةً لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ وَاللَّهِ مَا احْتَازَهَا دُونَكُمْ وَلَا اسْتَأْثَرَ بِهَا عَلَيْكُمْ لَقَدْ أَعْطَاكُمُوهَا وَبَثَّهَا فِيكُمْ حَتَّى بَقِيَ مِنْهَا هَذَا الْمَالُ فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنْفِقُ عَلَى أَهْلِهِ نَفَقَةَ سَنَتِهِمْ مِنْ هَذَا الْمَالِ ثُمَّ يَأْخُذُ مَا بَقِيَ فَيَجْعَلُهُ مَجْعَلَ مَالِ اللَّهِ فَعَمِلَ بِذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيَاتَهُ ثُمَّ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَبَضَهُ أَبُو بَكْرٍ فَعَمِلَ فِيهِ بِمَا عَمِلَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-
مالک بن اوس بن حدثان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مجھے پیغام بھیج کر بلوایا، ابھی ہم بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا غلام جس کا نام یرفا تھا اندر آیا اور کہنے لگا کہ حضرت عثمان، عبدالرحمن، سعد، اور حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہم اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں؟ فرمایا انہیں بھی بلا لو۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اندر داخل ہوتے ہی فرمایا امیرالمومنین! میرے اور اس کے درمیان فیصلہ کر دیجئے، اس وقت ان کا جھگڑا بنو نضیر سے حاصل ہونے والے مال فئی کے بارے میں تھا، لوگوں نے بھی کہا کہ امیرالمومنین! ان کے درمیان فیصلہ کر دیجئے اور ہر ایک کو دوسرے سے راحت عطاء فرمائیے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں تمہیں اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے زمین آسمان قائم ہیں، کیا آپ لوگ جانتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ہمارے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی، ہم جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ سب صدقہ ہوتا ہے؟ لوگوں نے اثبات میں جواب دیا، پھر انہوں نے حضرت عباس و علی رضی اللہ عنہما سے بھی یہی سوال پوچھا اور انہوں نے بھی تائید کی، اس کے بعد انہوں نے فرمایا کہ میں تمہیں اس کی حقیقت سے آگاہ کرتا ہوں ۔ اللہ نے یہ مال فئی خصوصیت کے ساتھ صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا تھا ، کسی کو اس میں سے کچھ نہیں دیا تھا اور فرمایا " وما افاء اللہ علی رسولہ منہم فما اوجفتم علیہ من خیل ولا رکاب" اس لئے یہ مال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے خاص تھا، لیکن بخدا! انہوں نے تمہیں چھوڑ کر اپنے لیے محفوظ نہیں کیا اور نہ ہی اس مال کو تم پر ترجیح دی، انہوں نے یہ مال بھی تمہارے درمیان تقسیم کر دیا یہاں تک کہ یہ تھوڑا سا بچ گیا جس میں سے وہ اپنے اہل خانہ کو سال بھر کا نفقہ دیا کرتے تھے اور اس مال میں سے بھی اگر کچھ بچ جاتا تو اسے راہ خدا میں تقسیم کر دیتے، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوگیا تو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ان کے مال کا ذمہ دار اور سرپرست میں ہوں ، چنانچہ انہوں نے اس میں وہی طریقہ اختیار کیا جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم چلتے رہے۔
-
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ حَدَّثَنَا ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عَمِّهِ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ قَالَ أَخْبَرَنِي مَالِكُ بْنُ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ النَّصْرِيُّ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ قَالَ فَبَيْنَا أَنَا جَالِسٌ عِنْدَهُ أَتَاهُ حَاجِبُهُ يَرْفَأُ فَقَالَ لِعُمَرَ هَلْ لَكَ فِي عُثْمَانَ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ وَسَعْدٍ وَالزُّبَيْرِ يَسْتَأْذِنُونَ قَالَ نَعَمْ ائْذَنْ لَهُمْ قَالَ فَدَخَلُوا فَسَلَّمُوا وَجَلَسُوا قَالَ ثُمَّ لَبِثَ يَرْفَأُ قَلِيلًا فَقَالَ لِعُمَرَ هَلْ لَكَ فِي عَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ فَقَالَ نَعَمْ فَأَذِنَ لَهُمَا فَلَمَّا دَخَلَا عَلَيْهِ جَلَسَا فَقَالَ عَبَّاسٌ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ الرَّهْطُ عُثْمَانُ وَأَصْحَابُهُ اقْضِ بَيْنَهُمَا وَأَرِحْ أَحَدَهُمَا مِنْ الْآخَرِ فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ اتَّئِدُوا فَأَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ يُرِيدُ بِذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَفْسَهُ قَالَ الرَّهْطُ قَدْ قَالَ ذَلِكَ فَأَقْبَلَ عُمَرُ عَلَى عَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَقَالَ أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمَانِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ذَلِكَ قَالَا قَدْ قَالَ ذَلِكَ فَقَالَ عُمَرُ فَإِنِّي أُحَدِّثُكُمْ عَنْ هَذَا الْأَمْرِ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ كَانَ خَصَّ رَسُولَهُ فِي هَذَا الْفَيْءِ بِشَيْءٍ لَمْ يُعْطِهِ أَحَدًا غَيْرَهُ فَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ الْآيَةَ فَكَانَتْ هَذِهِ الْآيَةُ خَاصَّةً لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ وَاللَّهِ مَا احْتَازَهَا وَلَا اسْتَأْثَرَ بِهَا عَلَيْكُمْ لَقَدْ أَعْطَاكُمُوهَا وَبَثَّهَا فِيكُمْ حَتَّى بَقِيَ مِنْهَا هَذَا الْمَالُ وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنْفِقُ عَلَى أَهْلِهِ نَفَقَةَ سَنَتِهِمْ مِنْ هَذَا الْمَالِ ثُمَّ يَأْخُذُ مَا بَقِيَ مِنْهُ فَيَجْعَلُهُ مَجْعَلَ مَالِ اللَّهِ فَعَمِلَ بِذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيَاتَهُ أَنْشُدُكُمْ اللَّهَ هَلْ تَعْلَمُونَ ذَلِكَ قَالُوا نَعَمْ قَالَ لِعَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ فَأَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمَانِ ذَلِكَ قَالَا نَعَمْ ثُمَّ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَبَضَهَا أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ فَعَمِلَ فِيهَا بِمَا عَمِلَ بِهِ فِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنْتُمْ حِينَئِذٍ وَأَقْبَلَ عَلَى عَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ تَزْعُمَانِ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ فِيهَا كَذَا وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُ فِيهَا لَصَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ-
مالک بن اوس بن حدثان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مجھے پیغام بھیج کر بلوایا، ابھی ہم بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا غلام جس کا نام یرفا تھا اندر آیا اور کہنے لگا کہ حضرت عثمان، عبدالرحمن، سعد اور حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہم اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں؟ فرمایا انہیں بھی بلا لو۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اندر داخل ہوتے ہی فرمایا امیرالمومنین! میرے اور اس کے درمیان فیصلہ کر دیجئے، اس وقت ان کا جھگڑا بنو نضیر سے حاصل ہونے والے مال فئی کے بارے میں تھا، لوگوں نے بھی کہا کہ امیرالمومنین! ان کے درمیان فیصلہ کر دیجئے اور ہر ایک کو دوسرے سے راحت عطاء فرمائیے، کیونکہ اب ان کا جھگڑا بڑھتا ہی جارہا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں تمہیں اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے زمین آسمان قائم ہیں، کیا آپ لوگ جانتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ہمارے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی، ہم جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ سب صدقہ ہوتا ہے؟ لوگوں نے اثبات میں جواب دیا، پھر انہوں نے حضرت عباس و علی رضی اللہ عنہم سے بھی یہی سوال پوچھا اور انہوں نے بھی تائید کی، اس کے بعد انہوں نے فرمایا کہ میں تمہیں اس کی حقیقت سے آگاہ کرتا ہوں ۔ اللہ نے یہ مال فئی خصوصیت کے ساتھ صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا تھا ، کسی کو اس میں سے کچھ نہیں دیا تھا اور فرمایا " وماافاء اللہ علی رسولہ منہم فما اوجفتم علیہ من خیل ولارکاب" اس لئے یہ مال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے خاص تھا، لیکن بخدا! انہوں نے تمہیں چھوڑ کر اپنے لیے محفوظ نہیں کیا اور نہ ہی اس مال کو تم پر ترجیح دی، انہوں نے یہ مال بھی تمہارے درمیان تقسیم کر دیا یہاں تک کہ یہ تھوڑا سا بچ گیا جس میں سے وہ اپنے اہل خانہ کو سال بھر کا نفقہ دیا کرتے تھے اور اس مال میں سے بھی اگر کچھ بچ جاتا تو اسے راہ خدا میں تقسیم کر دیتے، اور وہ اپنی زندگی میں اسی طریقے پر عمل کرتے رہے، میں تم سے اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں، کیا تم بھی یہ بات جانتے ہو؟ لوگوں نے کہا جی ہاں! پھر انہوں نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ اور علی رضی اللہ عنہ سے بھی یہی سوال پوچھا اور انہوں نے بھی یہی جواب دیا، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوگیا تو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ان کے مال کا ذمہ دار اور سرپرست میں ہوں، چنانچہ انہوں نے اس میں وہی طریقہ اختیار کیا جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم چلتے رہے اور اب تم (انہوں نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ اور علی رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا ) یہ سمجھتے ہو کہ ابو بکر ایسے تھے، حالانکہ اللہ جانتا ہے کہ وہ اس معاملے میں سچے، نیکو کار، راہ راست پر اور حق کی تابعداری کرنے والے تھے۔
-
حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ عَنْ زَائِدَةَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ عَنِ الْعَبَّاسِ قَالَ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ عَلِّمْنِي شَيْئًا أَدْعُو بِهِ فَقَالَ سَلْ اللَّهَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ قَالَ ثُمَّ أَتَيْتُهُ مَرَّةً أُخْرَى فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ عَلِّمْنِي شَيْئًا أَدْعُو بِهِ قَالَ فَقَالَ يَا عَبَّاسُ يَا عَمَّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَلْ اللَّهَ الْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ-
ایک مرتبہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگے یا رسول اللہ! مجھے کوئی دعاء سکھا دیجئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آپ اپنے رب سے دنیا و آخرت میں در گذر اور عافیت کی دعاء مانگتے رہا کریں، پھر حضرت عباس رضی اللہ عنہ ایک سال بعد دوبارہ آئے، تب بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہی دعاء تلقین فرمائی۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي السَّفَرِ عَنِ ابْنِ شُرَحْبِيلَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ الْعَبَّاسِ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ نِسَاؤُهُ فَاسْتَتَرْنَ مِنِّي إِلَّا مَيْمُونَةَ فَقَالَ لَا يَبْقَى فِي الْبَيْتِ أَحَدٌ شَهِدَ اللَّدَّ إِلَّا لُدَّ إِلَّا أَنَّ يَمِينِي لَمْ تُصِبْ الْعَبَّاسَ ثُمَّ قَالَ مُرُوا أَبَا بَكْرٍ أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ فَقَالَتْ عَائِشَةُ لِحَفْصَةَ قُولِي لَهُ إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ إِذَا قَامَ مَقَامَكَ بَكَى قَالَ مُرُوا أَبَا بَكْرٍ لِيُصَلِّ بِالنَّاسِ فَقَامَ فَصَلَّى فَوَجَدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خِفَّةً فَجَاءَ فَنَكَصَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَأَرَادَ أَنْ يَتَأَخَّرَ فَجَلَسَ إِلَى جَنْبِهِ ثُمَّ اقْتَرَأَ-
حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، وہاں تمام ازواج مطہرات موجود تھیں، سوائے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے ان سب نے مجھ سے پردہ کیا (کیونکہ میمونہ رضی اللہ عنہا ان کی سالی تھیں) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے منہ میں زبردستی دوا ڈالنے کے موقع پر جو شخص بھی موجود تھا اس کے منہ میں بھی زبردستی دوا ڈالی جائے لیکن میری اس قسم کا تعلق حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ نہیں ہے۔ پھر فرمایا کہ ابو بکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کرو کہ ابو بکرجب آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو وہ رونے لگیں گے (اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکیں گے) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، چنانچہ انہوں نے کھڑے ہو کر نماز پڑھائی، ادھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اپنے مرض میں کچھ تخفیف محسوس ہوئی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی نماز کے لئے آگئے، اس پر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے الٹے پاؤں پیچھے ہونا چاہا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پہلو میں آکر بیٹھ گئے اور قرات فرمائی۔
-
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ حَدَّثَنَا قَيْسٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي السَّفَرِ عَنْ أَرْقَمَ بْنِ شُرَحْبِيلَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي مَرَضِهِ مُرُوا أَبَا بَكْرٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ فَخَرَجَ أَبُو بَكْرٍ فَكَبَّرَ وَوَجَدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَاحَةً فَخَرَجَ يُهَادَى بَيْنَ رَجُلَيْنِ فَلَمَّا رَآهُ أَبُو بَكْرٍ تَأَخَّرَ فَأَشَارَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَانَكَ ثُمَّ جَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى جَنْبِ أَبِي بَكْرٍ فَاقْتَرَأَ مِنْ الْمَكَانِ الَّذِي بَلَغَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ مِنْ السُّورَةِ-
حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اپنے مرض الوفات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابو بکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں، چنانچہ انہوں نے کھڑے ہو کر نماز پڑھائی، ادھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اپنے مرض میں کچھ تخفیف محسوس ہوئی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی دو آدمیوں کے سہارے نماز کے لئے آگئے، اس پر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے الٹے پاؤں پیچھے ہونا چاہا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارہ سے فرمایا کہ اپنی جگہ پر ہی رہو، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پہلو میں آکر بیٹھ گئے اور اسی جگہ سے قرات فرمائی جہاں تک حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ پہنچے تھے۔
-
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ أَبِي قُرَّةَ حَدَّثَنَا لَيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ أَبِي قَبِيلٍ عَنْ أَبِي مَيْسَرَةَ عَنِ الْعَبَّاسِ قَالَ كُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ فَقَالَ انْظُرْ هَلْ تَرَى فِي السَّمَاءِ مِنْ نَجْمٍ قَالَ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ مَا تَرَى قَالَ قُلْتُ أَرَى الثُّرَيَّا قَالَ أَمَا إِنَّهُ يَلِي هَذِهِ الْأُمَّةَ بِعَدَدِهَا مِنْ صُلْبِكَ اثْنَيْنِ فِي فِتْنَةٍ-
حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رات کے وقت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیکھئے، آسمان میں آپ کو کوئی ستارہ نظر آتا ہے؟ میں نے کہا جی ہاں! فرمایا کون سا ستارہ نظر آتا ہے؟ میں نے عرض کیا ثریا، فرمایا تمہاری نسل میں سے اس ثریا ستارے کی تعداد کے برابر لوگ اس امت کے حکمران ہوں گے جن میں سے دو آزمائش کا شکار ہوں گے۔
-
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ حَدَّثَنَا أَبِي عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي الْأَشْعَثِ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ إِيَاسِ بْنِ عَفِيفٍ الْكِنْدِيِّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ كُنْتُ امْرَأً تَاجِرًا فَقَدِمْتُ الْحَجَّ فَأَتَيْتُ الْعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لِأَبْتَاعَ مِنْهُ بَعْضَ التِّجَارَةِ وَكَانَ امْرَأً تَاجِرًا فَوَاللَّهِ إِنَّنِي لَعِنْدَهُ بِمِنًى إِذْ خَرَجَ رَجُلٌ مِنْ خِبَاءٍ قَرِيبٍ مِنْهُ فَنَظَرَ إِلَى الشَّمْسِ فَلَمَّا رَآهَا مَالَتْ يَعْنِي قَامَ يُصَلِّي قَالَ ثُمَّ خَرَجَتْ امْرَأَةٌ مِنْ ذَلِكَ الْخِبَاءِ الَّذِي خَرَجَ مِنْهُ ذَلِكَ الرَّجُلُ فَقَامَتْ خَلْفَهُ تُصَلِّي ثُمَّ خَرَجَ غُلَامٌ حِينَ رَاهَقَ الْحُلُمَ مِنْ ذَلِكَ الْخِبَاءِ فَقَامَ مَعَهُ يُصَلِّي قَالَ فَقُلْتُ لِلْعَبَّاسِ مَنْ هَذَا يَا عَبَّاسُ قَالَ هَذَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ابْنُ أَخِي قَالَ فَقُلْتُ مَنْ هَذِهِ الْمَرْأَةُ قَالَ هَذِهِ امْرَأَتُهُ خَدِيجَةُ ابْنَةُ خُوَيْلِدٍ قَالَ قُلْتُ مَنْ هَذَا الْفَتَى قَالَ هَذَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ ابْنُ عَمِّهِ قَالَ فَقُلْتُ فَمَا هَذَا الَّذِي يَصْنَعُ قَالَ يُصَلِّي وَهُوَ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ وَلَمْ يَتْبَعْهُ عَلَى أَمْرِهِ إِلَّا امْرَأَتُهُ وَابْنُ عَمِّهِ هَذَا الْفَتَى وَهُوَ يَزْعُمُ أَنَّهُ سَيُفْتَحُ عَلَيْهِ كُنُوزُ كِسْرَى وَقَيْصَرَ قَالَ فَكَانَ عَفِيفٌ وَهُوَ ابْنُ عَمِّ الْأَشْعَثِ بْنِ قَيْسٍ يَقُولُ وَأَسْلَمَ بَعْدَ ذَلِكَ فَحَسُنَ إِسْلَامُهُ لَوْ كَانَ اللَّهُ رَزَقَنِي الْإِسْلَامَ يَوْمَئِذٍ فَأَكُونُ ثَالِثًا مَعَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ-
عفیف کندی کہتے ہیں کہ میں ایک تاجر آدمی تھا، ایک مرتبہ میں حج کے لئے آیا، میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے پاس جو خود بھی تاجر تھے کچھ مال تجارت خریدنے کے لئے آیا، میں ان کے پاس اس وقت منی میں تھا کہ اچانک قریب کے خیمے سے ایک آدمی نکلا، اس نے سورج کو جب ڈھلتے ہوئے دیکھا تو نماز پڑھنے کے لئے کھڑا ہوگیا ، پھر ایک عورت اسی خیمے سے نکلی جس سے وہ مرد نکلا تھا، اس عورت نے اس مرد کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھنا شروع کردی، پھر ایک لڑکا جو قریب البلوغ تھا وہ بھی اسی خیمے سے نکلا اور اس مرد کے ساتھ کھڑا ہو کر نماز پڑھنے لگا۔ میں نے عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ عباس! یہ کون ہے؟ انہوں نے کہا یہ میرے بھتیجے محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ہیں، میں نے پوچھا یہ عورت کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ یہ ان کی بیوی خدیجہ بنت خویلد ہیں، میں نے پوچھا یہ نوجوان کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ یہ ان کے چچا کے بیٹے علی بن ابی طالب ہیں، میں نے پوچھا یہ کیا کر رہے ہیں؟ انہوں نے کہایہ نماز پڑھ رہے ہیں، ان کا خیال یہ ہے کہ یہ اللہ کے نبی ہیں لیکن ابھی تک ان کی پیروی صرف ان کی بیوی اور اس نوجوان نے ہی شروع کی ہے، اور ان کا خیال یہ بھی ہے کہ عنقریب قیصر و کسری کے خزانوں کو ان کے لئے کھول دیا جائے گا۔ عفیف جنہوں نے بعد میں اسلام قبول کر لیا تھا ، کہتے ہیں کہ اگر اللہ مجھے اسی دن اسلام قبول کرنے کی توفیق دے دیتا تو میں تیسرا مسلمان ہوتا۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ عَنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ أَبِي وَدَاعَةَ قَالَ قَالَ الْعَبَّاسُ بَلَغَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْضُ مَا يَقُولُ النَّاسُ قَالَ فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ فَقَالَ مَنْ أَنَا قَالُوا أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ فَقَالَ أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ الْخَلْقَ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِ خَلْقِهِ وَجَعَلَهُمْ فِرْقَتَيْنِ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِ فِرْقَةٍ وَخَلَقَ الْقَبَائِلَ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِ قَبِيلَةٍ وَجَعَلَهُمْ بُيُوتًا فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ بَيْتًا فَأَنَا خَيْرُكُمْ بَيْتًا وَخَيْرُكُمْ نَفْسًا-
حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں کی طرف سے کچھ باتیں معلوم ہوئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر رونق افروز ہوئے اور لوگوں سے مخاطب ہو کر پوچھا میں کون ہوں؟ لوگوں نے کہا کہ آپ اللہ کے پیغمبر ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ہوں ، اللہ نے مخلوقات کو پیدا کیا اور مجھے ان میں سب سے بہتر مخلوق میں رکھا، پھر اللہ نے انہیں دو گروہوں میں تقسیم کر دیا اور مجھے بہترین گروہ میں رکھا، پھر اللہ نے قبائل کو پیدا کیا اور مجھے بہترین قبیلہ میں رکھا، پھر اللہ نے رہائشیں مقرر کیں اور مجھے سب سے بہترین رہائش میں رکھا، اس لئے میں رہائش کے اعتبار سے بھی تم سب سے بہتر ہوں اور اپنی ذات کے اعتبار سے بھی تم سب سے بہتر ہوں ۔
-
حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عُمَيْرٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ عَنْ عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلْ نَفَعْتَ أَبَا طَالِبٍ بِشَيْءٍ فَإِنَّهُ قَدْ كَانَ يَحُوطُكَ وَيَغْضَبُ لَكَ قَالَ نَعَمْ هُوَ فِي ضَحْضَاحٍ مِنْ النَّارِ لَوْلَا ذَلِكَ لَكَانَ هُوَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنْ النَّارِ-
ایک مرتبہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ! آپ کے چچا خواجہ ابو طالب آپ کا بہت دفاع کیا کرتے تھے، آپ کی وجہ سے انہیں کیا فائدہ ہوا؟ فرمایا وہ جہنم کے اوپر والے حصے میں ہیں، اگر میں نہ ہوتا تو وہ جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوتے۔
-
حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَخِي عَبْدِ اللَّهِ قَالَ كَانَ لِلْعَبَّاسِ مِيزَابٌ عَلَى طَرِيقِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَلَبِسَ عُمَرُ ثِيَابَهُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَقَدْ كَانَ ذُبِحَ لِلْعَبَّاسِ فَرْخَانِ فَلَمَّا وَافَى الْمِيزَابَ صُبَّ مَاءٌ بِدَمِ الْفَرْخَيْنِ فَأَصَابَ عُمَرَ وَفِيهِ دَمُ الْفَرْخَيْنِ فَأَمَرَ عُمَرُ بِقَلْعِهِ ثُمَّ رَجَعَ عُمَرُ فَطَرَحَ ثِيَابَهُ وَلَبِسَ ثِيَابًا غَيْرَ ثِيَابِهِ ثُمَّ جَاءَ فَصَلَّى بِالنَّاسِ فَأَتَاهُ الْعَبَّاسُ فَقَالَ وَاللَّهِ إِنَّهُ لَلْمَوْضِعُ الَّذِي وَضَعَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ عُمَرُ لِلْعَبَّاسِ وَأَنَا أَعْزِمُ عَلَيْكَ لَمَّا صَعِدْتَ عَلَى ظَهْرِي حَتَّى تَضَعَهُ فِي الْمَوْضِعِ الَّذِي وَضَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَفَعَلَ ذَلِكَ الْعَبَّاسُ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ-
عبیداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا ایک پرنالہ تھا جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے راستے میں آتا تھا، ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جمعہ کے دن نئے کپڑے پہنے، اسی دن حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے یہاں دو چوزے ذبح ہوئے تھے، جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس پرنالے کے قریب پہنچے تو اس میں چوزوں کا خون ملا پانی بہنے لگا، وہ پانی حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر گرا اور اس میں چوزوں کا خون بھی تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس پرنالے کو وہاں سے ہٹا دینے کا حکم دیا اور گھر واپس جاکر وہ کپڑے اتار کر دوسرے کپڑے پہنے اور آکر لوگوں کو نماز پڑھائی۔ نماز کے بعد ان کے پاس حضرت عباس رضی اللہ عنہ آئے اور کہنے لگے کہ بخدا! اس جگہ اس پرنالے کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لگایا تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا میں آپ کو قسم دیتا ہوں کہ آپ میری کمر پر کھڑے ہو کر اسے وہیں لگا دیجئے جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لگایا تھا ، چنانچہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے وہ پرنالہ اسی طرح دوبارہ لگا دیا۔
-