TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مسند احمد
ا ب ج
حضرت صہیب رضی اللہ عنہ کی حدیثیں
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى عَنْ صُهَيْبٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَجِبْتُ مِنْ قَضَاءِ اللَّهِ لِلْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَ الْمُؤْمِنِ كُلَّهُ خَيْرٌ وَلَيْسَ ذَلِكَ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ فَشَكَرَ كَانَ خَيْرًا لَهُ وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ فَصَبَرَ كَانَ خَيْرًا لَهُ-
حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ا رشاد فرمایا مجھے تو مسلمانوں کے معاملات پر تعجب ہوتا ہے کہ اس کے معاملے میں سراسر خیر ہی خیر ہے اور یہ سعادت مؤمن کے علاوہ کسی کو حاصل نہیں ہے کہ اگر اسے کوئی بھلائی حاصل ہوتی ہے تو وہ شکر کرتا ہے جو کہ اس کے لئے سراسر خیر ہے اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے اور یہ بھی سراسر خیر ہے۔
-
حَدَّثَنَا يَزِيدُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى عَنْ صُهَيْبٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ أَهْلُ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ نُودُوا يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ إِنَّ لَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ مَوْعِدًا لَمْ تَرَوْهُ فَقَالُوا وَمَا هُوَ أَلَمْ يُبَيِّضْ وُجُوهَنَا وَيُزَحْزِحْنَا عَنْ النَّارِ وَيُدْخِلْنَا الْجَنَّةَ قَالَ فَيُكْشَفُ الْحِجَابُ قَالَ فَيَنْظُرُونَ إِلَيْهِ فَوَاللَّهِ مَا أَعْطَاهُمْ اللَّهُ شَيْئًا أَحَبَّ إِلَيْهِمْ مِنْهُ ثُمَّ قَرَأَ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَى وَزِيَادَةٌ وَقَالَ مَرَّةً إِذَا دَخَلَ أَهْلُ الْجَنَّةِ-
حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب جنتی جنت میں ہو جائیں گے تو انہیں پکار کر کہا جائے گا کہ اے اہل جنت ! اللہ کا تم سے ایک وعدہ باقی ہے جو ابھی تک تم نے نہیں دیکھا جنتی کہیں گے کہ وہ کیا ہے ؟ کیا آپ نے ہمارے چہروں کو روشن نہیں کیا اور ہمیں جہنم سے بچا کر جنت میں داخل نہی کیا؟ اس کے جواب میں حجاب اٹھا دیا جائے گا اور جنتی اپنے پروردگار کی زیارت کر سکیں گے بخدا! اللہ نے انہیں جنتی نعمتیں عطاء کر رکھی ہوں گی انہیں اس نعت سے زیادہ محبوب کوئی نعمت نہ ہوگی پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی " ان لوگوں کے لئے جنہوں نے نیکیاں کیں عمدہ بدلہ اور مزید اضافہ " ہے۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ عَنْ زُهَيْرٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ عَنْ حَمْزَةَ بْنِ صُهَيْبٍ أَنَّ صُهَيْبًا كَانَ يُكَنَّى أَبَا يَحْيَى وَيَقُولُ إِنَّهُ مِنْ الْعَرَبِ وَيُطْعِمُ الطَّعَامَ الْكَثِيرَ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ يَا صُهَيْبُ مَا لَكَ تُكَنَّى أَبَا يَحْيَى وَلَيْسَ لَكَ وَلَدٌ وَتَقُولُ إِنَّكَ مِنْ الْعَرَبِ وَتُطْعِمُ الطَّعَامَ الْكَثِيرَ وَذَلِكَ سَرَفٌ فِي الْمَالِ فَقَالَ صُهَيْبٌ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَنَّانِي أَبَا يَحْيَى وَأَمَّا قَوْلُكَ فِي النَّسَبِ فَأَنَا رَجُلٌ مِنْ النَّمِرِ بْنِ قَاسِطٍ مِنْ أَهْلِ الْمَوْصِلِ وَلَكِنِّي سُبِيتُ غُلَامًا صَغِيرًا قَدْ غَفَلْتُ أَهْلِي وَقَوْمِي وَأَمَّا قَوْلُكَ فِي الطَّعَامِ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ خِيَارُكُمْ مَنْ أَطْعَمَ الطَّعَامَ وَرَدَّ السَّلَامَ فَذَلِكَ الَّذِي يَحْمِلُنِي عَلَى أَنْ أُطْعِمَ الطَّعَامَ-
زید بن اسلم رحمتہ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے فرمایا اگر تم میں تین چیزیں نہ ہوتیں تو تم میں کوئی عیب نہ ہوتا، انہوں نے پوچھا وہ کیا ہیں کیونکہ ہم نے تو کبھی آپ کو کسی چیز میں عیب نکالتے ہوئے دیکھا ہی نہیں انہوں نے فرمایا ایک تو یہ کہ تم اپنی کنیت ابو یحییٰ رکھتے ہو حالانکہ تمہارے یہاں کوئی اولاد ہی نہیں ہے دوسرا یہ کہ تم اپنی نسبت نمر بن قاسط کی طرف کرتے ہو جبکہ تمہاری زبان میں لکنت ہے اور تم مال نہیں رکھتے ۔ حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ جہاں تک میری کنیت " ابو یحییٰ " کا تعلق ہے تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھی ہے لہٰذا اسے تو میں کبھی نہیں چھوڑ سکتا یہاں تک کہ ان سے جاملوں ، رہی نمر بن قاسط کی طرف میری نسبت تو یہ صحیح ہے کیونکہ میں ان ہی کا ایک فرد ہوں لیکن چونکہ میری رضاعت " ایلہ " میں ہوئی تھی ، اس وجہ سے یہ لکنت پیدا ہوگئی اور باقی رہا مال تو کیا کبھی آپ نے مجھے ایسی جگہ خرچ کرتے ہوئے دیکھا ہے جو ناحق ہو۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى عَنْ صُهَيْبٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى هَمَسَ شَيْئًا لَا أَفْهَمُهُ وَلَا يُخْبِرُنَا بِهِ قَالَ أَفَطِنْتُمْ لِي قُلْنَا نَعَمْ قَالَ إِنِّي ذَكَرْتُ نَبِيًّا مِنْ الْأَنْبِيَاءِ أُعْطِيَ جُنُودًا مِنْ قَوْمِهِ فَقَالَ مَنْ يُكَافِئُ هَؤُلَاءِ أَوْ مَنْ يَقُومُ لِهَؤُلَاءِ أَوْ غَيْرَهَا مِنْ الْكَلَامِ فَأُوحِيَ إِلَيْهِ أَنْ اخْتَرْ لِقَوْمِكَ إِحْدَى ثَلَاثٍ إِمَّا أَنْ نُسَلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ غَيْرِهِمْ أَوْ الْجُوعَ أَوْ الْمَوْتَ فَاسْتَشَارَ قَوْمَهُ فِي ذَلِكَ فَقَالُوا أَنْتَ نَبِيُّ اللَّهِ فَكُلُّ ذَلِكَ إِلَيْكَ خِرْ لَنَا فَقَامَ إِلَى الصَّلَاةِ وَكَانُوا إِذَا فَزِعُوا فَزِعُوا إِلَى الصَّلَاةِ فَصَلَّى مَا شَاءَ اللَّهُ قَالَ ثُمَّ قَالَ أَيْ رَبِّ أَمَّا عَدُوٌّ مِنْ غَيْرِهِمْ فَلَا أَوْ الْجُوعُ فَلَا وَلَكِنْ الْمَوْتُ فَسُلِّطَ عَلَيْهِمْ الْمَوْتُ فَمَاتَ مِنْهُمْ سَبْعُونَ أَلْفًا فَهَمْسِي الَّذِي تَرَوْنَ أَنِّي أَقُولُ اللَّهُمَّ بِكَ أُقَاتِلُ وَبِكَ أُصَاوِلُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ-
حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ حنین کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہونٹ ہلتے رہتے تھے اس سے پہلے کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا تھا بعد میں فرمایا کہ پہلی امتوں میں ایک پیغمبر تھے انہیں اپنی امت کی تعداد پر اطمینان اور خوشی ہوئی اور ان کے منہ سے یہ جملہ نکل گیا کہ یہ لوگ کبھی شکست نہیں کھا سکتے اللہ تعالیٰ نے اس پر ان کی طرف وحی بھیجی اور انہیں تین میں سے کسی ایک بات کا اختیار دیا کہ یا تو ان پر کسی دشمن کو مسلط کر دوں جو ان کا خون بہائے یا بھوک کو مسلط کر دوں یا موت کو؟ وہ کہنے لگے کہ قتل اور بھوک کی تو ہم میں طاقت نہیں ہے البتہ موت ہم پر مسلط کر دی جائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صرف تین دن میں ان کے ستر ہزار آدمی مرگئے اس لئے اب میں یہ کہتا ہوں کہ اے اللہ ! میں تری ہی مدد سے حیلہ کرتا ہوں ، تیری ہی مدد سے حملہ کرتا ہوں اور تیری ہی مدد سے قتال کرتا ہوں۔
-
حَدَّثَنَا رَوْحٌ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى عَنْ صُهَيْبٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ إِذَا لَقِيَ الْعَدُوَّ اللَّهُمَّ بِكَ أَحُولُ وَبِكَ أَصُولُ وَبِكَ أُقَاتِلُ-
حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ دشمن سے آمنا سامنا ہونے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعاء کرتے تھے کہ اے اللہ ! میں تیری ہی مدد سے حیلہ کرتا ہوں تیری ہی مدد سے حملہ کرتا ہوں اور تیری ہی مدد سے قتال کرتا ہوں۔
-
حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ عَنْ حَمْزَةَ بْنِ صُهَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ فَقَالَ لِعُمَرَ أَمَّا قَوْلُكَ اكْتَنَيْتَ وَلَيْسَ لَكَ وَلَدٌ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَنَّانِي أَبَا يَحْيَى فَأَمَّا قَوْلُكَ فِيكَ سَرَفٌ فِي الطَّعَامِ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ خَيْرُكُمْ مَنْ أَطْعَمَ الطَّعَامَ أَوْ الَّذِينَ يُطْعِمُونَ الطَّعَامَ-
حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ جہاں تک میری کنیت " ابو یحییٰ " کا تعلق ہے تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھی ہے لہٰذا اسے تو میں کبھی نہیں چھوڑ سکتا یہاں تک کہ ان سے جاملوں رہی کھانے میں اسراف کی بات تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے تم میں سے بہترین آدمی وہ ہے جو دوسروں کو کھانا کھلائے۔
-
حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ حَدَّثَنَا ثَابِتٌ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى عَنْ صُهَيْبٍ قَالَ بَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَاعِدٌ مَعَ أَصْحَابِهِ إِذْ ضَحِكَ فَقَالَ أَلَا تَسْأَلُونِي مِمَّ أَضْحَكُ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمِمَّ تَضْحَكُ قَالَ عَجِبْتُ لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ خَيْرٌ إِنْ أَصَابَهُ مَا يُحِبُّ حَمِدَ اللَّهَ وَكَانَ لَهُ خَيْرٌ وَإِنْ أَصَابَهُ مَا يَكْرَهُ فَصَبَرَ كَانَ لَهُ خَيْرٌ وَلَيْسَ كُلُّ أَحَدٍ أَمْرُهُ كُلُّهُ لَهُ خَيْرٌ إِلَّا الْمُؤْمِنُ قَالَ أَبِي و حَدَّثَنَاه عَفَّانُ أَيْضًا حَدَّثَنَاهُ سُلَيْمَانُ حَدَّثَنَا ثَابِتٌ هَذَا اللَّفْظَ بِعَيْنِهِ وَأُرَاهُ وَهِمَ هَذَا لَفْظُ حَمَّادٍ وَقَدْ حَدَّثَنَا قَالَ سُلَيْمَانُ حَدَّثَنَا ثَابِتٌ نَحْوًا مِنْ لَفْظِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ سُلَيْمَانَ وَذَلِكَ مِنْ كِتَابِهِ قَرَأَهُ عَلَيْنَا-
حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ مسکرانے لگے پھر فرمایا تم مجھ سے پوچھتے کیوں نہیں ہو کہ میں کیوں ہنس رہا ہوں ؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم آپ کیوں ہنس رہے ہیں ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مجھے تو مسلمانوں کے معاملات پر تعجب ہوتا ہے کہ اس کے معاملے میں سراسر خیر ہی خیر ہے اور یہ سعادت مؤمن کے علاوہ کسی کو حاصل نہیں ہے کہ اگر اسے کوئی بھلائی حاصل ہوتی ہے تو وہ شکر کرتا ہے جو کہ اس کے لئے سراسر خیر ہے اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے اور یہ بھی سراسر خیر ہے۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے ۔
-
حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى عَنْ صُهَيْبٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ كَانَ مَلِكٌ فِيمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ وَكَانَ لَهُ سَاحِرٌ فَلَمَّا كَبِرَ السَّاحِرُ قَالَ لِلْمَلِكِ إِنِّي قَدْ كَبِرَتْ سِنِّي وَحَضَرَ أَجَلِي فَادْفَعْ إِلَيَّ غُلَامًا فَلَأُعَلِّمُهُ السِّحْرَ فَدَفَعَ إِلَيْهِ غُلَامًا فَكَانَ يُعَلِّمُهُ السِّحْرَ وَكَانَ بَيْنَ السَّاحِرِ وَبَيْنَ الْمَلِكِ رَاهِبٌ فَأَتَى الْغُلَامُ عَلَى الرَّاهِبِ فَسَمِعَ مِنْ كَلَامِهِ فَأَعْجَبَهُ نَحْوُهُ وَكَلَامُهُ فَكَانَ إِذَا أَتَى السَّاحِرَ ضَرَبَهُ وَقَالَ مَا حَبَسَكَ وَإِذَا أَتَى أَهْلَهُ ضَرَبُوهُ وَقَالُوا مَا حَبَسَكَ فَشَكَا ذَلِكَ إِلَى الرَّاهِبِ فَقَالَ إِذَا أَرَادَ السَّاحِرُ أَنْ يَضْرِبَكَ فَقُلْ حَبَسَنِي أَهْلِي وَإِذَا أَرَادَ أَهْلُكَ أَنْ يَضْرِبُوكَ فَقُلْ حَبَسَنِي السَّاحِرُ وَقَالَ فَبَيْنَمَا هُوَ كَذَلِكَ إِذْ أَتَى ذَاتَ يَوْمٍ عَلَى دَابَّةٍ فَظِيعَةٍ عَظِيمَةٍ وَقَدْ حَبَسَتْ النَّاسَ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ أَنْ يَجُوزُوا فَقَالَ الْيَوْمَ أَعْلَمُ أَمْرُ الرَّاهِبِ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ أَمْ أَمْرُ السَّاحِرِ فَأَخَذَ حَجَرًا فَقَالَ اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ أَمْرُ الرَّاهِبِ أَحَبَّ إِلَيْكَ وَأَرْضَى لَكَ مِنْ السَّاحِرِ فَاقْتُلْ هَذِهِ الدَّابَّةَ حَتَّى يَجُوزَ النَّاسُ وَرَمَاهَا فَقَتَلَهَا وَمَضَى النَّاسُ فَأَخْبَرَ الرَّاهِبَ بِذَلِكَ فَقَالَ أَيْ بُنَيَّ أَنْتَ أَفْضَلُ مِنِّي وَإِنَّكَ سَتُبْتَلَى فَإِنْ ابْتُلِيتَ فَلَا تَدُلَّ عَلَيَّ فَكَانَ الْغُلَامُ يُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَسَائِرَ الْأَدْوَاءِ وَيَشْفِيهِمْ وَكَانَ جَلِيسٌ لِلْمَلِكِ فَعَمِيَ فَسَمِعَ بِهِ فَأَتَاهُ بِهَدَايَا كَثِيرَةٍ فَقَالَ اشْفِنِي وَلَكَ مَا هَاهُنَا أَجْمَعُ فَقَالَ مَا أَشْفِي أَنَا أَحَدًا إِنَّمَا يَشْفِي اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فَإِنْ أَنْتَ آمَنْتَ بِهِ فَدَعَوْتُ اللَّهَ فَشَفَاكَ فَآمَنَ فَدَعَا اللَّهَ لَهُ فَشَفَاهُ ثُمَّ أَتَى الْمَلِكَ فَجَلَسَ مِنْهُ نَحْوَ مَا كَانَ يَجْلِسُ فَقَالَ لَهُ الْمَلِكُ يَا فُلَانُ مَنْ رَدَّ عَلَيْكَ بَصَرَكَ فَقَالَ رَبِّي قَالَ أَنَا قَالَ لَا لَكِنْ رَبِّي وَرَبُّكَ اللَّهُ قَالَ أَوَلَكَ رَبٌّ غَيْرِي قَالَ نَعَمْ فَلَمْ يَزَلْ يُعَذِّبُهُ حَتَّى دَلَّهُ عَلَى الْغُلَامِ فَبَعَثَ إِلَيْهِ فَقَالَ أَيْ بُنَيَّ قَدْ بَلَغَ مِنْ سِحْرِكَ أَنْ تُبْرِئَ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ وَهَذِهِ الْأَدْوَاءَ قَالَ مَا أَشْفِي أَنَا أَحَدًا مَا يَشْفِي غَيْرُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ أَنَا قَالَ لَا قَالَ أَوَلَكَ رَبٌّ غَيْرِي قَالَ نَعَمْ رَبِّي وَرَبُّكَ اللَّهُ فَأَخَذَهُ أَيْضًا بِالْعَذَابِ فَلَمْ يَزَلْ بِهِ حَتَّى دَلَّ عَلَى الرَّاهِبِ فَأَتَى بِالرَّاهِبِ فَقَالَ ارْجِعْ عَنْ دِينِكِ فَأَبَى فَوَضَعَ الْمِنْشَارَ فِي مَفْرِقِ رَأْسِهِ حَتَّى وَقَعَ شِقَّاهُ وَقَالَ لِلْأَعْمَى ارْجِعْ عَنْ دِينِكَ فَأَبَى فَوَضَعَ الْمِنْشَارَ فِي مَفْرِقِ رَأْسِهِ حَتَّى وَقَعَ شِقَّاهُ فِي الْأَرْضِ وَقَالَ لِلْغُلَامِ ارْجِعْ عَنْ دِينِكَ فَأَبَى فَبَعَثَ بِهِ مَعَ نَفَرٍ إِلَى جَبَلِ كَذَا وَكَذَا فَقَالَ إِذَا بَلَغْتُمْ ذُرْوَتَهُ فَإِنْ رَجَعَ عَنْ دِينِهِ وَإِلَّا فَدَهْدِهُوهُ مِنْ فَوْقِهِ فَذَهَبُوا بِهِ فَلَمَّا عَلَوْا بِهِ الْجَبَلَ قَالَ اللَّهُمَّ اكْفِنِيهِمْ بِمَا شِئْتَ فَرَجَفَ بِهِمْ الْجَبَلُ فَدُهْدِهُوا أَجْمَعُونَ وَجَاءَ الْغُلَامُ يَتَلَمَّسُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى الْمَلِكِ فَقَالَ مَا فَعَلَ أَصْحَابُكَ فَقَالَ كَفَانِيهِمْ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فَبَعَثَهُ مَعَ نَفَرٍ فِي قُرْقُورٍ فَقَالَ إِذَا لَجَجْتُمْ بِهِ الْبَحْرَ فَإِنْ رَجَعَ عَنْ دِينِهِ وَإِلَّا فَغَرِّقُوهُ فَلَجَّجُوا بِهِ الْبَحْرَ فَقَالَ الْغُلَامُ اللَّهُمَّ اكْفِنِيهِمْ بِمَا شِئْتَ فَغَرِقُوا أَجْمَعُونَ وَجَاءَ الْغُلَامُ يَتَلَمَّسُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى الْمَلِكِ فَقَالَ مَا فَعَلَ أَصْحَابُكَ قَالَ كَفَانِيهِمْ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ ثُمَّ قَالَ لِلْمَلِكِ إِنَّكَ لَسْتَ بِقَاتِلِي حَتَّى تَفْعَلَ مَا آمُرُكَ بِهِ فَإِنْ أَنْتَ فَعَلْتَ مَا آمُرُكَ بِهِ قَتَلْتَنِي وَإِلَّا فَإِنَّكَ لَا تَسْتَطِيعُ قَتْلِي قَالَ وَمَا هُوَ قَالَ تَجْمَعُ النَّاسَ فِي صَعِيدٍ ثُمَّ تَصْلُبُنِي عَلَى جِذْعٍ فَتَأْخُذُ سَهْمًا مِنْ كِنَانَتِي ثُمَّ قُلْ بِسْمِ اللَّهِ رَبِّ الْغُلَامِ فَإِنَّكَ إِذَا فَعَلْتَ ذَلِكَ قَتَلْتَنِي فَفَعَلَ وَوَضَعَ السَّهْمَ فِي كَبِدِ قَوْسِهِ ثُمَّ رَمَى فَقَالَ بِسْمِ اللَّهِ رَبِّ الْغُلَامِ فَوَضَعَ السَّهْمَ فِي صُدْغِهِ فَوَضَعَ الْغُلَامُ يَدَهُ عَلَى مَوْضِعِ السَّهْمِ وَمَاتَ فَقَالَ النَّاسُ آمَنَّا بِرَبِّ الْغُلَامِ فَقِيلَ لِلْمَلِكِ أَرَأَيْتَ مَا كُنْتَ تَحْذَرُ فَقَدْ وَاللَّهِ نَزَلَ بِكَ قَدْ آمَنَ النَّاسُ كُلُّهُمْ فَأَمَرَ بِأَفْوَاهِ السِّكَكِ فَخُدِّدَتْ فِيهَا الْأُخْدُودُ وَأُضْرِمَتْ فِيهَا النِّيرَانُ وَقَالَ مَنْ رَجَعَ عَنْ دِينِهِ فَدَعُوهُ وَإِلَّا فَأَقْحِمُوهُ فِيهَا قَالَ فَكَانُوا يَتَعَادَوْنَ فِيهَا وَيَتَدَافَعُونَ فَجَاءَتْ امْرَأَةٌ بِابْنٍ لَهَا تُرْضِعُهُ فَكَأَنَّهَا تَقَاعَسَتْ أَنْ تَقَعَ فِي النَّارِ فَقَالَ الصَّبِيُّ يَا أُمَّهْ اصْبِرِي فَإِنَّكِ عَلَى الْحَقِّ-
حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم سے پہلی (قوموں میں) ایک بادشاہ تھا جس کے پاس ایک جادوگر تھا جب وہ جادوگر بوڑھا ہوگیا تو اس نے بادشاہ سے کہا کہ اب میں بوڑھا ہوگیا ہوں اور میرا آخری وقت قریب آرہا ہے تو آپ میری پاس ایک لڑکے کو بھیج دیں تاکہ میں اسے جادو سکھا دوں بادشاہ نے ایک لڑکا جادو سیکھنے کے لئے اس بوڑھے جادوگر کی طرف بھیج دیا اور وہ اسے جادو سکھانے لگا اس کے راستے میں ایک راہب تھا تو وہ لڑکا اس راہب کے پاس بیٹھا اور اس کی باتیں سننے لگا جو کہ اسے پسند آئیں پھر جب وہ بھی جادوگر کے پاس آتا اور راہب کے پاس سے گذرتا تو اس کے پاس بیٹھتا (دیر سے آنے کی وجہ سے ) جادوگر اس لڑکے کو مارتا اس لڑکے نے اس کی شکایت راہب سے کی تو راہب نے کہا کہ اگر تجھے جادوگر سے ڈر ہو تو کہہ دیا کر کہ مجھے میرے گھر والوں نے (کسی کام کے لئے ) روک لیا تھا اور جب تجھے گھر والوں سے ڈر ہو تو کہہ دیا کر کہ مجھے جادوگر نے روک لیا تھا ۔ اسی دوران ایک بہت بڑے درندے نے لوگوں کا راستہ روک لیا (جب لڑکا اس طرف آیا) تو اس نے کہا میں آج جاننا چاہوں گا کہ جادوگر کا کام اللہ کا زیادہ پسند ہے یا راہب کا؟ اور پھر ایک پتھر پکڑا اور کہنے لگا اے اللہ ! اگر تجھے جادوگر کے معاملے سے راہب کا معاملہ زیادہ پسندیدہ ہے تو اس درندے کا مار دے تاکہ (یہاں راستہ سے ) لوگوں کا آناجانا (شروع) ہو اور پھر وہ پتھر اس درندے کو مار کر اسے قتل کر دیا اور لوگ گذرنے لگے پھر وہ لڑکا راہب کے پاس آیا اور اسے اس کی خبر دی تو راہب نے اس لڑکے سے کہا اے بیٹے ! آج تو مجھ سے افضل ہے کیونکہ تیرا معاملہ اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ جس کی وجہ سے تو عنقریب ایک مصیبت میں مبتلا کر دیا جائے گا پھر اگر تو کسی مصیبت میں مبتلا ہو جائے تو میرے متعلق کسی کو نہ بتانا وہ لڑکا پیدائشی اندھے اور کوڑھی کو صحیح کر دیتا تھا بلکہ لوگوں کی ہر بیماری کا علاج کر دیتا تھا بادشاہ کا ایک ہم نشین اندھا ہوگیا اس نے لڑکے کے بارے میں سنا تو وہ بہت سے تحفے لے کر اس کے پاس آیا اور اسے کہنے لگا اگر تم مجھے شفا دے دو تو یہ سارے تحفے جو میں یہاں لے کر آیا ہوں وہ سارے تمہارے لئے ہیں اس لڑکے نے کہا میں تو کسی کو شفا نہیں دے سکتا بلکہ شفاء تو اللہ تعالیٰ دیتا ہے اگر تو اللہ پر ایمان لے آئے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کروں گا کہ وہ تجھے شفا دے دے پھر وہ (شخص ) اللہ پر ایمان لے آیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے شفا عطا فرما دی ۔ پھر وہ آدمی (جسے شفا ہوئی ) بادشاہ کے پاس آیا اور اس کے پاس بیٹھ گیا جس طرح کہ وہ پہلے بیٹھا کرتا تھا بادشاہ نے اس سے کہا کہ کس نے تجھے تیری بینائی واپس لوٹا دی ؟ اس نے کہا میرے رب نے اس نے کہا کیا میرے علاوہ تیرا اور کوئی رب بھی ہے ؟ اس نے کہا میرا اور تیرا رب اللہ ہے پھر بادشاہ اس کو پکڑ کر اسے عذاب دینے لگا تو اس نے بادشاہ کو اس لڑکے کے بارے میں بتا دیا (اس لڑکے کو بلایا گیا) پھر جب وہ لڑکا آیا تو بادشاہ نے اس لڑکے سے کہا اے بیٹے ! کیا تیرا جادو اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ اب تو مادرزاد اندھے اور کوڑھی کو بھی صحیح کرنے لگ گیا ہے ؟ اور ایسے ایسے کرتا ہے ؟ لڑکے نے کہا میں تو کسی کو شفاء نہیں دیتا بلکہ شفاء تو اللہ تعالیٰ دیتا ہے بادشاہ نے اسے پکڑ کر عذاب دیا یہاں تک کہ اس نے راہب کے بارے میں بادشاہ کو بتا دیا (پھر راہب کو بلوایا گیا ) راہب آیا تو اس سے کہا گیا کہ تو اپنے مذہب سے پھر جا۔ راہب نے انکار کر دیا پھر بادشاہ نے آرہ منگوایا اور اس راہب کے سر پر رکھ کر اس کا سر چیر کر اس کے دو ٹکڑے کر دیئے پھر بادشاہ کے ہم نشین کو لایا گیا اور اس سے بھی کہا، گیا کہ تو اپنے مذہب سے پھر جا۔ اس نے بھی انکار کر دیا بادشاہ نے اس کے سر پر بھی آرہ رکھ کر سر کو چیر کر اس کے دو ٹکڑے کروا دیئے ( پھر اس لڑکے کو بلایا گیا ) وہ آیا تو اس سے بھی یہی کہا گیا کہ اپنے مذہب سے پھر جا اس نے بھی انکار کر دیا تو بادشاہ نے اس لڑکے کو اپنے کچھ ساتھیوں کے حوالے کر کے کہا کہ اسے فلاں پہاڑ پر لے جاؤ اور اسے اس پہاڑ کی چوٹی پر چڑھاؤ اگر یہ اپنے مذہب سے پھر جائے تو اسے چھوڑ دینا اور اگر انکار کر دے تو اسے پہاڑ کی چوٹی سے نیچے پھینک دینا۔ چنانچہ بادشاہ کے ساتھی اس لڑکے کو پہاڑ کی چوٹی پر لے گئے تو اس لڑکے نے کہا اے اللہ جس طرح تو چاہے مجھے ان سے بچا لے اس پہاڑ پر فوراً ایک زلزلہ آیا جس سے بادشاہ کے وہ سارے ساتھی گر گئے اور وہ لڑکاچلتے ہوئے بادشاہ کی طرف آگیا بادشاہ نے اس لڑکے سے پوچھا کہ تیرے ساتھیوں کا کیا ہوا؟ لڑکے نے کہا اللہ پاک نے مجھے ان سے بچا لیا ہے۔ بادشاہ نے پھر اس لڑکے کو اپنے کچھ ساتھیوں کے حوالے کر کے کہا اسے ایک چھوٹی کشتی میں لے جاکر سمندر کے درمیان میں پھینک دینا اگر یہ اپنے مذہب سے نہ پھرے بادشاہ کے ساتھی اس لڑکے کو لے گئے تو اس لڑکے نے کہا اے اللہ تو جس طرح چاہے مجھے ان سے بچا لے پھر وہ کشتی بادشاہ کے ان ساتھیوں سمیت الٹ گئی اور وہ سارے کے سارے غرق ہوگئے اور وہ لڑکاچلتے ہوئے بادشاہ کی طرف آگیا بادشاہ نے اس لڑکے سے کہا تیرے ساتھیوں کا کیا ہوا؟ اس نے کہا اللہ تعالیٰ نے مجھے ان سے بچالیا ہے پھر اس لڑکے نے بادشاہ سے کہا تو مجھے قتل نہیں کرسکتا جب تک کہ اس طرح نہ کرے جس طرح میں تجھے حکم دوں بادشاہ نے کہا وہ کیا؟ اس لڑکے نے کہا سارے لوگوں کو ایک میدان میں اکٹھا کرو اور مجھے سولی کے تختے پر لٹکاؤ پھر میرے ترکش سے ایک تیر پکڑو پھر اس تیر کو کمان کے چلہ میں رکھو اور پھر کہو! اس اللہ کے نام سے جو اس لڑکے کا رب ہے پھر وہ تیر اس لڑکے کو مارا تو وہ تیر اس لڑکے کی کنپٹی میں جا گھسا تو لڑکے نے ا پناہاتھ تیر لگنے والی جگہ پر رکھا اور مرگیا یہ دیکھتے ہی سب لوگوں نے کہا ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لائے بادشاہ کو اس کی خبر دی گئی اور اس سے کہا گیا تجھے جس بات کا ڈر تھا اب وہی بات آن پہنچی کہ لوگ ایمان لے آئے تو پھر بادشاہ نے گلیوں کے دھانوں پر خندق کھودنے کا حکم دیا چنانچہ خندق کھودی گئی اور ان خندقوں میں آگ جلا دی گئی بادشاہ نے کہا جو آدمی اپنے مذہب سے پھرنے سے باز نہیں آئے گا تو میں اس آدمی کو اس خندق میں ڈلوا دوں گا (جو لوگ اپنے مذہب پر پھرنے سے باز نہ آئے ) تو انہیں خندق میں ڈال دیا گیا یہاں تک کہ ایک عورت آئی اور اس کے ساتھ ایک بچہ بھی تھا وہ عورت خندق میں گرنے سے گھبرائی تو اس عورت کے بچے نے کہا اماں جان! صبر کیجئے کیونکہ آپ حق پر ہیں ۔
-