TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مسند احمد
ا ب ج
حضرت سہل بن حنظلہ رضی اللہ عنہ کی حدیثیں
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو أَبُو عَامِرٍ قَالَ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ قَالَ حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ بِشْرٍ التَّغْلِبِيُّ قَالَ أَخْبَرَنِي أَبِي وَكَانَ جَلِيسًا لِأَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ كَانَ بِدِمَشْقَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَالُ لَهُ ابْنُ الْحَنْظَلِيَّةِ وَكَانَ رَجُلًا مُتَوَحِّدًا قَلَّمَا يُجَالِسُ النَّاسَ إِنَّمَا هُوَ فِي صَلَاةٍ فَإِذَا فَرَغَ فَإِنَّمَا يُسَبِّحُ وَيُكَبِّرُ حَتَّى يَأْتِيَ أَهْلَهُ فَمَرَّ بِنَا يَوْمًا وَنَحْنُ عِنْدَ أَبِي الدَّرْدَاءِ فَقَالَ لَهُ أَبُو الدَّرْدَاءِ كَلِمَةً تَنْفَعُنَا وَلَا تَضُرُّكَ قَالَ بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَرِيَّةً فَقَدِمْتُ فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْهُمْ فَجَلَسَ فِي الْمَجْلِسِ الَّذِي فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لِرَجُلٍ إِلَى جَنْبِهِ لَوْ رَأَيْتَنَا حِينَ الْتَقَيْنَا نَحْنُ وَالْعَدُوَّ فَحَمَلَ فُلَانٌ فَطَعَنَ فَقَالَ خُذْهَا وَأَنَا الْغُلَامُ الْغِفَارِيُّ كَيْفَ تَرَى فِي قَوْلِهِ قَالَ مَا أُرَاهُ إِلَّا قَدْ أَبْطَلَ أَجْرَهُ فَسَمِعَ ذَلِكَ آخَرُ فَقَالَ مَا أَرَى بِذَلِكَ بَأْسًا فَتَنَازَعَا حَتَّى سَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ سُبْحَانَ اللَّهِ لَا بَأْسَ أَنْ يُحْمَدَ وَيُؤْجَرَ قَالَ فَرَأَيْتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ سُرَّ بِذَلِكَ وَجَعَلَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ إِلَيْهِ وَيَقُولُ آنْتَ سَمِعْتَ ذَلِكَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَقُولُ نَعَمْ فَمَا زَالَ يُعِيدُ عَلَيْهِ حَتَّى إِنِّي لَأَقُولُ لَيَبْرُكَنَّ عَلَى رُكْبَتَيْهِ-
بشر تغلبی جو حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کے ہم جلیس تھے کہتے ہیں کہ دمشق میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی رضی اللہ عنہ رہتے تھے جنہیں ابن حنظلہ کہا جاتا تھا، وہ گوشہ نشین طبعیت کے آدمی تھے اور لوگوں سے بہت کم میل جول رکھتے تھے، ان کی عادت تھی کہ وہ نماز پڑھتے رہتے تھے، اس سے فارغ ہوتے تو تسبیح وتکبیر میں مصروف ہو جاتے، اس کے بعد اپنے گھر چلے جاتے۔ ایک ہم لوگ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ وہ ہمارے پاس سے گذرے، تو حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ نے ان سے عرض کیا کہ ہمیں کوئی ایسی بات بتائیے جس سے ہمیں فائدہ پہنچے اور آپ کو نقصان نہ پہنچے؟ انہوں نے فرمایا کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر روانہ فرمایا، جب وہ لشکر واپس آیا تو ان میں سے ایک آدمی آکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھ گیا اور اپنے پہلو میں بیٹھے ہوئے ایک آدمی سے کہنے لگا کہ کاش! تم نے وہ منظر دیکھا ہوتا جب ہمارا دشمن سے آمنا سامنا ہوا تھا، اس موقع پر فلاں شخص نے اپنا نیزہ اٹھا کر کسی کافر کو مارتے ہوئے کہا یہ لو، میں غفاری نو جوان ہوں ، اس کے اس جملے سے متعلق تمہاری کیا رائے ہے؟ اس نے جواب دیا کہ میرے خیال میں تو اس نے اپنا ثواب ضائع کر دیا، دوسرے آدمی کے کانوں میں یہ آواز پڑی تو وہ کہنے لگا کہ مجھے تو اس میں کوئی حرج نظر نہیں آتا، اس پر دونوں میں جھگڑا ہوگیا، حتی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ بات سنی تو فرمایا سبحان اللہ! اس میں تو کوئی حرج نہیں کہ اس کی تعریف کی جائے اور اسے اجر بھی ملے۔ میں نے دیکھا کہ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث سن کر بہت خوش ہوئے اور ان کی طرف سر اٹھا کر کہنے لگے کیا آپ نے خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات سنی ہے؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا، حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ نے یہ بات اتنی مرتبہ دہرائی کہ میں سوچنے لگا یہ انہیں گھٹنوں کے بل بٹھا کر ہی چھوڑیں گے۔
-
قَالَ ثُمَّ مَرَّ بِنَا يَوْمًا آخَرَ فَقَالَ لَهُ أَبُو الدَّرْدَاءِ كَلِمَةً تَنْفَعُنَا وَلَا تَضُرُّكَ قَالَ قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ النَّفَقَةَ عَلَى الْخَيْلِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَبَاسِطِ يَدِهِ بِالصَّدَقَةِ لَا يَقْبِضُهَا-
اس کے بعد وہ ایک مرتبہ پھر ہمارے پاس سے گذرے اور حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ نے حسب سابق انہی الفاظ میں کسی حدیث کی فرمائش کی، انہوں نے جواب دیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا ہے راہ خدا میں گھوڑے پر خرچ کرنے والا اس شخص کی طرح ہے جس نے صدقہ کے لئے اپنے ہاتھوں کو کھول رکھا ہو، کبھی بند نہ کرتا ہو۔
-
قَالَ ثُمَّ مَرَّ بِنَا يَوْمًا آخَرَ فَقَالَ لَهُ أَبُو الدَّرْدَاءِ كَلِمَةً تَنْفَعُنَا وَلَا تَضُرُّكَ فَقَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِعْمَ الرَّجُلُ خُرَيْمٌ الْأَسَدِيُّ لَوْلَا طُولُ جُمَّتِهِ وَإِسْبَالُ إِزَارِهِ فَبَلَغَ ذَلِكَ خُرَيْمًا فَجَعَلَ يَأْخُذُ شَفْرَةً يَقْطَعُ بِهَا شَعَرَهُ إِلَى أَنْصَافِ أُذُنَيْهِ وَرَفَعَ إِزَارَهُ إِلَى أَنْصَافِ سَاقَيْهِ قَالَ فَأَخْبَرَنِي أَبِي قَالَ دَخَلْتُ بَعْدَ ذَلِكَ عَلَى مُعَاوِيَةَ فَإِذَا عِنْدَهُ شَيْخٌ جُمَّتُهُ فَوْقَ أُذُنَيْهِ وَرِدَاؤُهُ إِلَى سَاقَيْهِ فَسَأَلْتُ عَنْهُ فَقَالُوا هَذَا خُرَيْمٌ الْأَسَدِيُّ-
اس کے بعد وہ ایک مرتبہ پھر ہمارے پاس سے گذرے اور حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ نے حسب سابق انہی الفاظ میں کسی حدیث کی فرمائش کی، انہوں نے جواب دیا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا خریم اسدی بہترین آدمی ہے، اگر اس کے بال اتنے لمبے نہ ہوتے اور وہ شلوار ٹخنوں سے نیچے نہ لٹکاتا، خریم کو یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے ایک چھری لے کر نصف کانوں تک اپنے بال کاٹ لیے اور اپنا تہبند نصف پنڈلی تک اٹھا لیا، میرے والد بتاتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے یہاں گیا تو وہاں ایک بزرگ نظر آئے جن کے بال کانوں سے اوپر اور تہبند پنڈلی تک تھی، میں نے لوگوں سے ان کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ خریم اسدی رضی اللہ عنہ ہیں ۔
-
قَالَ ثُمَّ مَرَّ بِنَا يَوْمًا آخَرَ وَنَحْنُ عِنْدَ أَبِي الدَّرْدَاءِ فَقَالَ لَهُ أَبُو الدَّرْدَاءِ كَلِمَةً تَنْفَعُنَا وَلَا تَضُرُّكَ فَقَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّكُمْ قَادِمُونَ عَلَى إِخْوَانِكُمْ فَأَصْلِحُوا رِحَالَكُمْ وَأَصْلِحُوا لِبَاسَكُمْ فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَا يُحِبُّ الْفُحْشَ وَلَا التَّفَحُّشَ-
اس کے بعد ایک مرتبہ پھر وہ ہمارے پاس سے گذرے اور حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ نے حسب سابق ان سے فرمائش کی تو انہوں نے جواب دیا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تم لوگ اپنے بھائیوں کے پاس پہنچنے والے ہو لہذا اپنی سواریاں اور اپنے لباس درست کرلو، کیونکہ اللہ تعالیٰ بے ہودہ گو اور فحش گوئی کو پسند نہیں فرماتا۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ قَالَ حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ يَعْنِي ابْنَ صَالِحٍ عَنْ سُلَيْمَانَ أَبِي الرَّبِيعِ قَالَ أَبِي هُوَ سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الَّذِي رَوَى عَنْهُ شُعْبَةُ وَلَيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ الْقَاسِمِ مَوْلَى مُعَاوِيَةَ قَالَ دَخَلْتُ مَسْجِدَ دِمَشْقَ فَرَأَيْتُ أُنَاسًا مُجْتَمِعِينَ وَشَيْخًا يُحَدِّثُهُمْ قُلْتُ مَنْ هَذَا قَالُوا سَهْلُ ابْنُ الْحَنْظَلِيَّةِ فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ أَكَلَ لَحْمًا فَلْيَتَوَضَّأْ-
قاسم جو کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام ہیں کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں مسجد دمشق میں داخل ہوا، وہاں میں نے کچھ لوگوں کا مجمع دیکھا جنہیں ایک بزرگ حدیث سنا رہے تھے، میں نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ کون ہیں ؟ تو انہوں نے بتایا کہ حضرت سہل بن حنظلہ رضی اللہ عنہ ہیں ، میں نے انہیں یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے جناب رسول اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جو شخص گوشت کھائے، اسے چاہئے کہ نیا وضو کرے۔
-
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ حَدَّثَنِي قَيْسُ بْنُ بِشْرٍ التَّغْلِبِيُّ عَنْ أَبِيهِ وَكَانَ جَلِيسًا لِأَبِي الدَّرْدَاءِ بِدِمَشْقَ قَالَ كَانَ بِدِمَشْقَ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ ابْنُ الْحَنْظَلِيَّةِ مُتَوَحِّدًا لَا يَكَادُ يُكَلِّمُ أَحَدًا إِنَّمَا هُوَ فِي صَلَاةٍ فَإِذَا فَرَغَ يُسَبِّحُ وَيُكَبِّرُ وَيُهَلِّلُ حَتَّى يَرْجِعَ إِلَى أَهْلِهِ قَالَ فَمَرَّ عَلَيْنَا ذَاتَ يَوْمٍ وَنَحْنُ عِنْدَ أَبِي الدَّرْدَاءِ فَقَالَ لَهُ أَبُو الدَّرْدَاءِ كَلِمَةً مِنْكَ تَنْفَعُنَا وَلَا تَضُرُّكَ قَالَ بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَرِيَّةٍ فَلَمَّا أَنْ قَدِمْنَا جَلَسَ رَجُلٌ مِنْهُمْ فِي مَجْلِسٍ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ يَا فُلَانُ لَوْ رَأَيْتَ فُلَانًا طَعَنَ ثُمَّ قَالَ خُذْهَا وَأَنَا الْغُلَامُ الْغِفَارِيُّ فَمَا تَرَى قَالَ مَا أُرَاهُ إِلَّا قَدْ حَبِطَ أَجْرُهُ قَالَ فَتَكَلَّمُوا فِي ذَلِكَ حَتَّى سَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصْوَاتَهُمْ فَقَالَ بَلْ يُحْمَدُ وَيُؤْجَرُ قَالَ فَسُرَّ بِذَلِكَ أَبُو الدَّرْدَاءِ حَتَّى هَمَّ أَنْ يَجْثُوَ عَلَى رُكْبَتَيْهِ فَقَالَ آنْتَ سَمِعْتَهُ مِرَارًا قَالَ نَعَمْ-
بشر تغلبی جو حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کے ہم جلیس تھے کہتے ہیں کہ دمشق میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی رضی اللہ عنہ رہتے تھے جنہیں ابن حنظلہ کہا جاتا تھا، وہ گوشہ نشین طبعیت کے آدمی تھے اور لوگوں سے بہت کم میل جول رکھتے تھے، ان کی عادت تھی کہ وہ نماز پڑھتے تھے رہتے، اس سے فارغ ہوتے تو تسبیح وتکبیر میں مصروف ہو جاتے، اس کے بعد اپنے گھر چلے جاتے۔ ایک ہم لوگ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ وہ ہمارے پاس سے گذرے، تو حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ نے ان سے عرض کیا کہ ہمیں کوئی ایسی بات بتائیے جس سے ہمیں فائدہ پہنچے اور آپ کو نقصان نہ پہنچے؟ انہوں نے فرمایا کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر روانہ فرمایا، جب وہ لشکر واپس آیا تو ان میں سے ایک آدمی آکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھ گیا اور اپنے پہلو میں بیٹھے ہوئے ایک آدمی سے کہنے لگا کہ کاش! تم نے وہ منظر دیکھا ہوتا جب ہمارا دشمن سے آمنا سامنا ہوا تھا، اس موقع پر فلاں شخص نے اپنا نیزہ اٹھا کر کسی کافر کو مارتے ہوئے کہا یہ لو، میں غفاری نوجوان ہوں ، اس کے اس جملے سے متعلق تمہاری کیا رائے ہے؟ اس نے جواب دیا کہ میرے خیال میں تو اس نے اپنا ثواب ضائع کر دیا، دوسرے آدمی کے کانوں میں یہ آواز پڑی تو وہ کہنے لگا کہ مجھے تو اس میں کوئی حرج نظر نہیں آتا، اس پر دونوں میں جھگڑا ہوگیا، حتی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ بات سنی تو فرمایا سبحان اللہ! اس میں تو کوئی حرج نہیں کہ اس کی تعریف کی جائے اور اسے اجر بھی ملے۔ میں نے دیکھا کہ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث سن کر بہت خوش ہوئے اور ان کی طرف سر اٹھا کر کہنے لگے کیا آپ نے خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات سنی ہے؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا، حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ نے یہ بات اتنی مرتبہ دہرائی کہ میں سوچنے لگا یہ انہیں گھٹنوں کے بل بٹھا کر ہی چھوڑیں گے۔
-
ثُمَّ مَرَّ عَلَيْنَا يَوْمًا آخَرَ فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ كَلِمَةً تَنْفَعُنَا وَلَا تَضُرُّكَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ نِعْمَ الرَّجُلُ خُرَيْمٌ الْأَسَدِيُّ لَوْ قَصَّ مِنْ شَعَرِهِ وَقَصَّرَ إِزَارَهُ فَبَلَغَ ذَلِكَ خُرَيْمًا فَعَجَّلَ فَأَخَذَ الشَّفْرَةَ فَقَصَّرَ مِنْ جُمَّتِهِ وَرَفَعَ إِزَارَهُ إِلَى أَنْصَافِ سَاقَيْهِ قَالَ أَبِي فَدَخَلْتُ عَلَى مُعَاوِيَةَ فَرَأَيْتُ رَجُلًا مَعَهُ عَلَى السَّرِيرِ شَعَرُهُ فَوْقَ أُذُنَيْهِ مُؤْتَزِرًا إِلَى أَنْصَافِ سَاقَيْهِ قُلْتُ مَنْ هَذَا قَالُوا خُرَيْمٌ الْأَسَدِيُّ-
اس کے بعد وہ ایک مرتبہ پھر ہمارے پاس سے گذرے اور حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ نے حسب سابق انہی الفاظ میں کسی حدیث کی فرمائش کی، انہوں نے جواب دیا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا خریم اسدی بہترین آدمی ہے، اگر اس کے بال اتنے لمبے نہ ہوتے اور وہ شلوار ٹخنوں سے نیچے نہ لٹکاتا، خریم کو یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے ایک چھری لے کر نصف کانوں تک اپنے بال کاٹ لیے اور اپنا تہبند نصف پنڈلی تک اٹھا لیا، میرے والد بتاتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے یہاں گیا تو وہاں ایک بزرگ نظر آئے جن کے بال کانوں سے اوپر اور تہبند پنڈلی تک تھی، میں نے لوگوں سے ان کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ خریم اسدی رضی اللہ عنہ ہیں ۔
-
قَالَ ثُمَّ مَرَّ عَلَيْنَا يَوْمًا آخَرَ فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ كَلِمَةً مِنْكَ تَنْفَعُنَا وَلَا تَضُرُّكَ قَالَ نَعَمْ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَنَا إِنَّكُمْ قَادِمُونَ عَلَى إِخْوَانِكُمْ فَأَصْلِحُوا رِحَالَكُمْ وَلِبَاسَكُمْ حَتَّى تَكُونُوا فِي النَّاسِ كَأَنَّكُمْ شَامَةٌ فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَا يُحِبُّ الْفُحْشَ وَلَا التَّفَحُّشَ-
اس کے بعد ایک مرتبہ پھر وہ ہمارے پاس سے گذرے اور حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ نے حسب سابق ان سے فرمائش کی تو انہوں نے جواب دیا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تم لوگ اپنے بھائیوں کے پاس پہنچنے والے ہو لہذا اپنی سواریاں اور اپنے لباس درست کرلو، کیونکہ اللہ تعالیٰ بے ہودہ گو اور فحش گوئی کو پسند نہیں فرماتا۔
-
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنِي الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ قَالَ حَدَّثَنِي رَبِيعَةُ بْنُ يَزِيدَ حَدَّثَنِي أَبُو كَبْشَةَ السَّلُولِيُّ أَنَّهُ سَمِعَ سَهْلَ ابْنَ الْحَنْظَلِيَّةِ الْأَنْصَارِيَّ صَاحِبَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ عُيَيْنَةَ والْأَقْرَعَ سَأَلَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا فَأَمَرَ مُعَاوِيَةَ أَنْ يَكْتُبَ بِهِ لَهُمَا فَفَعَلَ وَخَتَمَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَمَرَ بِدَفْعِهِ إِلَيْهِمَا فَأَمَّا عُيَيْنَةُ فَقَالَ مَا فِيهِ قَالَ فِيهِ الَّذِي أُمِرْتُ بِهِ فَقَبَّلَهُ وَعَقَدَهُ فِي عِمَامَتِهِ وَكَانَ أَحْكَمَ الرَّجُلَيْنِ وَأَمَّا الْأَقْرَعُ فَقَالَ أَحْمِلُ صَحِيفَةً لَا أَدْرِي مَا فِيهَا كَصَحِيفَةِ الْمُتَلَمِّسِ فَأَخْبَرَ مُعَاوِيَةُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَوْلِهِمَا وَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَاجَةٍ فَمَرَّ بِبَعِيرٍ مُنَاخٍ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ مِنْ أَوَّلِ النَّهَارِ ثُمَّ مَرَّ بِهِ آخِرَ النَّهَارِ وَهُوَ عَلَى حَالِهِ فَقَالَ أَيْنَ صَاحِبُ هَذَا الْبَعِيرِ فَابْتُغِيَ فَلَمْ يُوجَدْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اتَّقُوا اللَّهَ فِي هَذِهِ الْبَهَائِمِ ثُمَّ ارْكَبُوهَا صِحَاحًا وَارْكَبُوهَا سِمَانًا كَالْمُتَسَخِّطِ آنِفًا إِنَّهُ مَنْ سَأَلَ وَعِنْدَهُ مَا يُغْنِيهِ فَإِنَّمَا يَسْتَكْثِرُ مِنْ نَارِ جَهَنَّمَ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا يُغْنِيهِ قَالَ مَا يُغَدِّيهِ أَوْ يُعَشِّيهِ-
حضرت سہل بن حنظلہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عیینہ اور اقرع نے کچھ مانگا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ ان کے لئے وہ چیز لکھ دیں ، انہوں نے لکھ دیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر مہر لگائی اور وہ خط ان کے حوالے کر دینے کا حکم دیا، عیینہ نے کہا کہ اس میں کیا لکھا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ تم نے جس کی خواہش کی تھی، عیینہ نے اسے چوما اور لپیٹ کر اپنے عمامے میں رکھ لیا، عیینہ ان دونوں سے زیادہ عقلمند تھا، جبکہ اقرع نے کہا کہ میں ملتمس کی طرح صحیفہ اٹھا کر پھرتا پھروں ، جس کے متعلق مجھے معلوم نہیں کہ اس میں کیا لکھا ہے؟ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان دونوں کی باتیں بتائیں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کسی کام سے نکلے تو دن کے پہلے حصے میں مسجد کے دروازے پر بیٹھے ہوئے ایک اونٹ کے پاس سے گذرے ، جب دن کے آخری پہر میں وہاں سے گذرے تو وہ اونٹ اسی طرح بندھا ہوا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا اس اونٹ کا مالک کہاں ہے؟ تلاش کے باجود اس کا مالک نہیں ملا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان جانوروں کے بارے اللہ سے ڈرتے رہا کرو، ان پر اس وقت سوار ہوا کرو جب یہ تندرست اور صحت مند ہوں ، پھر فرمایا جو شخص سوال کرے اور اس کے پاس اتنا موجود ہو کہ جو اس کی ضرورت پوری کر دے، جیسے ابھی ایک ناراضگی ظاہر کرنے والے نے کیا تو وہ جہنم کے انگاروں میں اضافہ کرتا ہے، صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا یا رسول اللہ! (صلی اللہ علیہ وسلم) ضرورت سے کیا مراد ہے؟ فرمایا کھانا۔
-