حضرت سعد دلیل کی حدیث

حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ حَدَّثَنَا مُصْعَبُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ هُوَ الزُّبَيْرِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ فَائِدٍ مَوْلَى عَبَادِلَ قَالَ خَرَجْتُ مَعَ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ فَأَرْسَلَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِلَى ابْنِ سَعْدٍ حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالْعَرْجِ أَتَى ابْنُ سَعْدٍ وَسَعْدٌ هُوَ الَّذِي دَلَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى طَرِيقِ رَكُوبِهِ فَقَالَ إِبْرَاهِيمُ أَخْبِرْنِي مَا حَدَّثَكَ أَبُوكَ قَالَ ابْنُ سَعْدٍ حَدَّثَنِي أَبِي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَاهُمْ وَمَعَهُ أَبُو بَكْرٍ وَكَانَتْ لِأَبِي بَكْرٍ عِنْدَنَا بِنْتٌ مُسْتَرْضَعَةٌ وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرَادَ الِاخْتِصَارَ فِي الطَّرِيقِ إِلَى الْمَدِينَةِ فَقَالَ لَهُ سَعْدٌ هَذَا الْغَائِرُ مِنْ رَكُوبَةٍ وَبِهِ لِصَّانِ مِنْ أَسْلَمَ يُقَالُ لَهُمَا الْمُهَانَانِ فَإِنْ شِئْتَ أَخَذْنَا عَلَيْهِمَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خُذْ بِنَا عَلَيْهِمَا قَالَ سَعْدٌ فَخَرَجْنَا حَتَّى أَشْرَفْنَا إِذَا أَحَدُهُمَا يَقُولُ لِصَاحِبِهِ هَذَا الْيَمَانِي فَدَعَاهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَرَضَ عَلَيْهِمَا الْإِسْلَامَ فَأَسْلَمَا ثُمَّ سَأَلَهُمَا عَنْ أَسْمَائِهِمَا فَقَالَا نَحْنُ الْمُهَانَانِ فَقَالَ بَلْ أَنْتُمَا الْمُكْرَمَانِ وَأَمَرَهُمَا أَنْ يَقْدَمَا عَلَيْهِ الْمَدِينَةَ فَخَرَجْنَا حَتَّى أَتَيْنَا ظَاهِرَ قُبَاءَ فَتَلَقَّى بَنُو عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْنَ أَبُو أُمَامَةَ أَسْعَدُ بْنُ زُرَارَةَ فَقَالَ سَعْدُ بْنُ خَيْثَمَةَ إِنَّهُ أَصَابَ قَبْلِي يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَلَا أُخْبِرُهُ لَكَ ثُمَّ مَضَى حَتَّى إِذَا طَلَعَ عَلَى النَّخْلِ فَإِذَا الشَّرْبُ مَمْلُوءٌ فَالْتَفَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ يَا أَبَا بَكْرٍ هَذَا الْمَنْزِلُ رَأَيْتُنِي أَنْزِلُ عَلَى حِيَاضٍ كَحِيَاضِ بَنِي مُدْلِجٍ-
فائد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں ابراہیم بن عبدالرحمن کے ساتھ نکلا، انہوں نے ابن سعد کے پاس پیغام بھیج کر انہیں بلایا، ابھی ہم مقام عرج میں تھے کہ ابن سعد ہمارے پاس آپہنچے، یاد رہے کہ یہ حضرت سعد کے صاحبزادے ہیں جنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو شب ہجرت راستہ بتایا تھا، ابراہیم ان سے کہنے لگے کہ مجھے وہ حدیث بتایئے جو آپ کے والد نے آپ سے بیان کی ہے؟ انہوں نے کہا کہ مجھے میرے والد نے یہ حدیث سنائی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے یہاں تشریف لائے، آپ کے ہمراہ حضرت صدیق اکبر بھی تھے، جن کی ایک بیٹی ہمارے یہاں دودھ بھی پیتی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ پہنچنے کے لئے کوئی مختصر راستہ معلوم کرنا چاہتے تھے، سعد نے عرض کیا یہ ایک چلتا ہوا پہاڑی راستہ ہے لیکن قبیلہ اسلم کے دو ڈاکو رہتے ہیں جنہیں ' مہانان' کہا جاتا ہے، اگر آپ چاہیں تو ہم اسی راستے پر چل پڑتے ہیں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہمیں ان دونوں کے پاس سے ہی لے چلو، چنانچہ ہم روانہ ہوگئے، جب ہم وہاں پہنچے تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا یہ یمانی آدمی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اسلام کی دعوت دی، اور اسلام قبول کرنے کی پیشکش کی، انہوں نے اسلام قبول کرلیا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ان کا نام پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ہم مہانان ہیں ، (جس کا لفظی معنی ذلیل لوگ ہے) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں ، تم دونوں مکرمان ہو (جس کا معنی معزز لوگ ہے) پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھی مدینہ منورہ پہنچنے کا حکم دیا۔ ہم لوگ چلتے رہے یہاں تک کہ قباء کے قریب پہنچ گئے، وہاں ہمیں بنوعمرو بن عوف مل گئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ ابوامامہ اسعد بن زرارہ کہاں ہیں ؟ تو سعد بن خیثمہ نے جواب دیا کہ یا رسول اللہ! وہ مجھ سے پہلے گئے ہیں ، میں انہیں مطلع نہ کردوں ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پھر روانہ ہوگئے، یہاں تک کہ جب کھجوروں کے درخت نظر آنے لگے تو معلوم ہوا کہ راستہ میں لوگوں کا جم غفیر بھرا ہوا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صدیق اکبر کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ ابوبکر! ہماری منزل یہی ہے، میں نے خواب دیکھا تھا کہ میں بنو مدلج کے حوضوں کی طرح کچھ حوضوں پر اتر رہا ہوں ۔
-