TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مسند احمد
ا ب ج
حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ کی حدیثیں
قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ كَعْبٍ الْأَسْلَمِيِّ قَالَ كُنْتُ أَنَامُ فِي حُجْرَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكُنْتُ أَسْمَعُهُ إِذَا قَامَ مِنْ اللَّيْلِ يُصَلِّي يَقُولُ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ الْهَوِيَّ قَالَ ثُمَّ يَقُولُ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمِ وَبِحَمْدِهِ الْهَوِيَّ-
حضرت ربیعہ بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ مبارکہ میں سویا کرتا تھا میں سنتا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی نماز کے لیے بیدار ہوتے تو کافی دیر تک الحمد للہ رب العالمین کہتے رہتے پھر کافی دیر تک سبحان اللہ العظیم وبحمدہ کہتے رہتے۔
-
قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو قَالَ حَدَّثَنَا هِشَامٌ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ قَالَ حَدَّثَنِي رَبِيعَةُ بْنُ كَعْبٍ الْأَسْلَمِيُّ قَالَ كُنْتُ أَبِيتُ عِنْدَ بَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُعْطِيهِ وَضُوءَهُ فَأَسْمَعُهُ بَعْدَ هَوِيٍّ مِنْ اللَّيْلِ يَقُولُ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ وَأَسْمَعُهُ بَعْدَ هَوِيٍّ مِنْ اللَّيْلِ يَقُولُ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ-
حضرت ربیعہ بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ مبارکہ میں سویا کرتا تھا تاکہ وضو کا پانی پیش کر سکوں میں سنتا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی نماز کے لیے بیدار ہوتے تو کافی دیر تک الحمد للہ رب العالمین کہتے رہتے پھر کافی دیر تک سبحان اللہ العظیم وبحمدہ کہتے رہتے۔
-
قَالَ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ حَدَّثَنَا هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ كَعْبٍ الْأَسْلَمِيِّ قَالَ كُنْتُ أَبِيتُ عِنْدَ بَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُعْطِيهِ وَضُوءَهُ فَأَسْمَعُهُ بَعْدَ هَوِيٍّ مِنْ اللَّيْلِ يَقُولُ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ وَالْهَوِيِّ مِنْ اللَّيْلِ يَقُولُ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ-
حضرت ربیعہ بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ مبارکہ میں سویا کرتا تھا تاکہ وضو کا پانی پیش کر سکوں ، میں سنتا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی نماز کے لیے بیدار ہوتے تو کافی دیر تک الحمد للہ رب العالمین کہتے رہتے، پھر کافی دیر تک سبحان اللہ العظیم وبحمدہ کہتے رہتے۔
-
قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ قَالَ حَدَّثَنَا الْمُبَارَكُ يَعْنِي ابْنَ فَضَالَةَ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِيُّ عَنْ رَبِيعَةَ الْأَسْلَمِيِّ قَالَ كُنْتُ أَخْدُمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَبِيعَةُ أَلَا تَزَوَّجُ قَالَ قُلْتُ وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا أُرِيدُ أَنْ أَتَزَوَّجَ مَا عِنْدِي مَا يُقِيمُ الْمَرْأَةَ وَمَا أُحِبُّ أَنْ يَشْغَلَنِي عَنْكَ شَيْءٌ فَأَعْرَضَ عَنِّي فَخَدَمْتُهُ مَا خَدَمْتُهُ ثُمَّ قَالَ لِي الثَّانِيَةَ يَا رَبِيعَةُ أَلَا تَزَوَّجُ فَقُلْتُ مَا أُرِيدُ أَنْ أَتَزَوَّجَ مَا عِنْدِي مَا يُقِيمُ الْمَرْأَةَ وَمَا أُحِبُّ أَنْ يَشْغَلَنِي عَنْكَ شَيْءٌ فَأَعْرَضَ عَنِّي ثُمَّ رَجَعْتُ إِلَى نَفْسِي فَقُلْتُ وَاللَّهِ لَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَا يُصْلِحُنِي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ أَعْلَمُ مِنِّي وَاللَّهِ لَئِنْ قَالَ تَزَوَّجْ لَأَقُولَنَّ نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ مُرْنِي بِمَا شِئْتَ قَالَ فَقَالَ يَا رَبِيعَةُ أَلَا تَزَوَّجُ فَقُلْتُ بَلَى مُرْنِي بِمَا شِئْتَ قَالَ انْطَلِقْ إِلَى آلِ فُلَانٍ حَيٍّ مِنْ الْأَنْصَارِ وَكَانَ فِيهِمْ تَرَاخٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْ لَهُمْ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَنِي إِلَيْكُمْ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُزَوِّجُونِي فُلَانَةَ لِامْرَأَةٍ مِنْهُمْ فَذَهَبْتُ فَقُلْتُ لَهُمْ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ أَرْسَلَنِي إِلَيْكُمْ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُزَوِّجُونِي فُلَانَةَ فَقَالُوا مَرْحَبًا بِرَسُولِ اللَّهِ وَبِرَسُولِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاللَّهِ لَا يَرْجِعُ رَسُولُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا بِحَاجَتِهِ فَزَوَّجُونِي وَأَلْطَفُونِي وَمَا سَأَلُونِي الْبَيِّنَةَ فَرَجَعْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَزِينًا فَقَالَ لِي مَا لَكَ يَا رَبِيعَةُ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَتَيْتُ قَوْمًا كِرَامًا فَزَوَّجُونِي وَأَكْرَمُونِي وَأَلْطَفُونِي وَمَا سَأَلُونِي بَيِّنَةً وَلَيْسَ عِنْدِي صَدَاقٌ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا بُرَيْدَةُ الْأَسْلَمِيُّ اجْمَعُوا لَهُ وَزْنَ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ قَالَ فَجَمَعُوا لِي وَزْنَ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ فَأَخَذْتُ مَا جَمَعُوا لِي فَأَتَيْتُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ اذْهَبْ بِهَذَا إِلَيْهِمْ فَقُلْ هَذَا صَدَاقُهَا فَأَتَيْتُهُمْ فَقُلْتُ هَذَا صَدَاقُهَا فَرَضُوهُ وَقَبِلُوهُ وَقَالُوا كَثِيرٌ طَيِّبٌ قَالَ ثُمَّ رَجَعْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَزِينًا فَقَالَ يَا رَبِيعَةُ مَا لَكَ حَزِينٌ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا رَأَيْتُ قَوْمًا أَكْرَمَ مِنْهُمْ رَضُوا بِمَا آتَيْتُهُمْ وَأَحْسَنُوا وَقَالُوا كَثِيرًا طَيِّبًا وَلَيْسَ عِنْدِي مَا أُولِمُ قَالَ يَا بُرَيْدَةُ اجْمَعُوا لَهُ شَاةً قَالَ فَجَمَعُوا لِي كَبْشًا عَظِيمًا سَمِينًا فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اذْهَبْ إِلَى عَائِشَةَ فَقُلْ لَهَا فَلْتَبْعَثْ بِالْمِكْتَلِ الَّذِي فِيهِ الطَّعَامُ قَالَ فَأَتَيْتُهَا فَقُلْتُ لَهَا مَا أَمَرَنِي بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ هَذَا الْمِكْتَلُ فِيهِ تِسْعُ آصُعِ شَعِيرٍ لَا وَاللَّهِ إِنْ أَصْبَحَ لَنَا طَعَامٌ غَيْرُهُ خُذْهُ فَأَخَذْتُهُ فَأَتَيْتُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَخْبَرْتُهُ مَا قَالَتْ عَائِشَةُ فَقَالَ اذْهَبْ بِهَذَا إِلَيْهِمْ فَقُلْ لِيُصْبِحْ هَذَا عِنْدَكُمْ خُبْزًا فَذَهَبْتُ إِلَيْهِمْ وَذَهَبْتُ بِالْكَبْشِ وَمَعِي أُنَاسٌ مِنْ أَسْلَمَ فَقَالَ لِيُصْبِحْ هَذَا عِنْدَكُمْ خُبْزًا وَهَذَا طَبِيخًا فَقَالُوا أَمَّا الْخُبْزُ فَسَنَكْفِيكُمُوهُ وَأَمَّا الْكَبْشُ فَاكْفُونَا أَنْتُمْ فَأَخَذْنَا الْكَبْشَ أَنَا وَأُنَاسٌ مِنْ أَسْلَمَ فَذَبَحْنَاهُ وَسَلَخْنَاهُ وَطَبَخْنَاهُ فَأَصْبَحَ عِنْدَنَا خُبْزٌ وَلَحْمٌ فَأَوْلَمْتُ وَدَعَوْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْطَانِي أَرْضًا وَأَعْطَانِي أَبُو بَكْرٍ أَرْضًا وَجَاءَتْ الدُّنْيَا فَاخْتَلَفْنَا فِي عِذْقِ نَخْلَةٍ فَقُلْتُ أَنَا هِيَ فِي حَدِّي وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ هِيَ فِي حَدِّي فَكَانَ بَيْنِي وَبَيْنَ أَبِي بَكْرٍ كَلَامٌ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ كَلِمَةً كَرِهَهَا وَنَدِمَ فَقَالَ لِي يَا رَبِيعَةُ رُدَّ عَلَيَّ مِثْلَهَا حَتَّى تَكُونَ قِصَاصًا قَالَ قُلْتُ لَا أَفْعَلُ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ لَتَقُولَنَّ أَوْ لَأَسْتَعْدِيَنَّ عَلَيْكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ مَا أَنَا بِفَاعِلٍ قَالَ وَرَفَضَ الْأَرْضَ وَانْطَلَقَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَانْطَلَقْتُ أَتْلُوهُ فَجَاءَ نَاسٌ مِنْ أَسْلَمَ فَقَالُوا لِي رَحِمَ اللَّهُ أَبَا بَكْرٍ فِي أَيِّ شَيْءٍ يَسْتَعْدِي عَلَيْكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ قَالَ لَكَ مَا قَالَ فَقُلْتُ أَتَدْرُونَ مَا هَذَا هَذَا أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ هَذَا ثَانِيَ اثْنَيْنِ وَهَذَا ذُو شَيْبَةِ الْمُسْلِمِينَ إِيَّاكُمْ لَا يَلْتَفِتُ فَيَرَاكُمْ تَنْصُرُونِي عَلَيْهِ فَيَغْضَبَ فَيَأْتِيَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَغْضَبَ لِغَضَبِهِ فَيَغْضَبَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِغَضَبِهِمَا فَيُهْلِكَ رَبِيعَةَ قَالُوا مَا تَأْمُرُنَا قَالَ ارْجِعُوا قَالَ فَانْطَلَقَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَبِعْتُهُ وَحْدِي حَتَّى أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَدَّثَهُ الْحَدِيثَ كَمَا كَانَ فَرَفَعَ إِلَيَّ رَأْسَهُ فَقَالَ يَا رَبِيعَةُ مَا لَكَ وَلِلصِّدِّيقِ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَانَ كَذَا كَانَ كَذَا قَالَ لِي كَلِمَةً كَرِهَهَا فَقَالَ لِي قُلْ كَمَا قُلْتُ حَتَّى يَكُونَ قِصَاصًا فَأَبَيْتُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجَلْ فَلَا تَرُدَّ عَلَيْهِ وَلَكِنْ قُلْ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ يَا أَبَا بَكْرٍ فَقُلْتُ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ يَا أَبَا بَكْرٍ قَالَ الْحَسَنُ فَوَلَّى أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَهُوَ يَبْكِي-
حضرت ربیعہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا ربیعہ! تم شادی کیوں نہیں کرلیتے؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! بخدا میں تو شادی نہیں کرنا چاہتا کیونکہ ایک تو میرے پاس اتنا نہیں ہے کہ عورت کی ضروریات پوری ہوسکیں اور دوسری بات یہ بھی ہے کہ مجھے یہ بات پسند نہیں ہے کہ کوئی چیز مجھے آپ سے دور کردے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر مجھ سے اعراض فرما لیا اور میں آپ کی خدمت کرتا رہا۔ کچھ عرصہ بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ مجھ سے یہی فرمایا کہ ربیعہ! تم شادی کیوں نہیں کر لیتے؟ میں نے حسب سابق وہی جواب دے دیا لیکن پھر میں اپنے دل میں سوچنے لگا کہ مجھ سے زیادہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جانتے ہیں کہ دنیا و آخرت میں میرے لیے کیا چیز بہتر ہے، اس لیے اب اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ فرمایا تو میں کہہ دوں گا ٹھیک ہے یا رسول اللہ! آپ مجھے جو چاہیں حکم دیں۔ چنانچہ جب تیسری مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ ربیعہ تم شادی کیوں نہیں کرلیتے؟ تو میں نے عرض کیا کیوں نہیں ! آپ مجھے جو چاہیں حکم دیجئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کے ایک قبیلے کا نام لے کر جن کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق تھا، فرمایا ان کے پاس چلے جاؤ اور جا کر کہو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے آپ لوگوں کے پاس بھیجا ہے اور یہ حکم دیا ہے کہ آپ لوگ فلاں عورت کے ساتھ میرا نکاح کردیں ۔ چنانچہ میں ان کے پاس چلا گیا اور انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ پیغام سنا دیا، انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور کہنے لگے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد اپنا کام مکمل کیے بغیر نہیں جائے گا، چنانچہ انہوں نے اس عورت کے ساتھ میرا نکاح کردیا اور میرے ساتھ خوب مہربانی کے ساتھ پیش آئے اور مجھ سے گواہوں کا بھی مطالبہ نہ کیا، وہاں سے لوٹ کر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں غمگین ہو کر حاضر ہوا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ربیعہ! تمہیں کیا ہوا؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں ایک شریف قوم کے پاس پہنچا، انہوں نے میرا نکاح کرادیا میرا اکرام کیا اور مہربانی سے پیش آئے اور مجھ سے گواہوں کا بھی مطالبہ نہیں کیا (ایسے شریف لوگوں کی عورت کو دینے کے لئے) میرے پاس مہر بھی نہیں ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بریدہ سے فرمایا اے بریدہ اسلمی! اس کے لئے کھجور کی گٹھلی کے برابر سونا جمع کرو، انہوں نے اسے جمع کیا اور میں وہ لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ سونا ان لوگوں کے پاس لے جاؤ اور ان سے کہو کہ یہ اس لڑکی کا مہر ہے، چنانچہ میں نے ان کے پاس پہنچ کر یہی کہہ دیا کہ یہ اس کا مہر ہے ، انہوں نے رضامندی سے اسے قبول کر لیا اور کہنے لگے کہ بہت ہے، اور پاکیزہ (حلال) ہے۔ تھوڑی دیر بعد میں پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس غمگین ہو کر واپس آگیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ربیعہ! اب کیوں غمگین ہو؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے ان لوگوں سے زیادہ شریف لوگ کہیں نہیں دیکھے، میں نے انہیں جو دے دیا، وہ اسی پر راضی ہوگئے اور تحسین کرتے ہوئے کہنے لگے کہ بہت ہے اور پاکیزہ (حلال) ہے، ایسے لوگوں کو دعوت ولیمہ کھلانے کے لئے میرے پاس کچھ نہیں ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر حضرت بریدہ سے فرمایا کہ اس کے لئے ایک بکری لاؤ، چنانچہ وہ ایک نہایت صحت مند اور بہت بڑا مینڈھا لے کر آئے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ عائشہ کے پاس جاؤ، اور ان سے کہو کہ وہ تھیلی دے دیں جس میں غلہ رکھا ہوا ہے، چنانچہ میں نے ان کے پاس جا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام پہنچا دیا، انہوں نے فرمایا کہ یہ تھیلی ہے، اس میں نو صاع جو ہے، اور بخدا! اس کے علاوہ ہمارے پاس کچھ نہیں ہے، یہی لے جاؤ، چنانچہ میں وہ تھیلی لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور حضرت عائشہ کا پیغام پہنچا دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ دونوں چیزیں ان لوگوں کے پاس لے جاؤ اور ان سے کہو کہ اس کی روٹیاں بنا لیں ، چنانچہ میں ان کے پاس چلا گیا اور وہ مینڈھا بھی ساتھ لے گیا، میرے ساتھ قبیلہ اسلم کے کچھ لوگ تھے وہاں پہنچ کر ان لوگوں سے کہا کہ اس آٹے کی روٹیاں پکالیں اور اس مینڈھے کا گوشت پکا لیں ، وہ کہنے لگے کہ روٹیوں کےمعاملے میں ہم آپ کی کفایت کریں گے اور مینڈھے کے معاملے میں آپ ہماری کفایت کرو، چنانچہ میں نے اور میرے ساتھیوں نے مل کر مینڈھے کو پکڑا، اسے ذبح کیا، اس کی کھال اتاری اور اسے پکانے لگے، اس طرح روٹی اور گوشت تیار ہوگیا، اور میں نےاپنا ولیمہ کر دیا اور اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی دعوت دی۔ کچھ عرصے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے زمین کا ایک ٹکڑا مرحمت فرمادیا، اور اس کے ساتھ ہی حضرت صدیق اکبر کو بھی ایک ٹکڑا دے دیا، جب دنیا آئی تو ایک مرتبہ ہم دونوں کے درمیان کھجور کے ایک درخت کے متعلق اختلاف رائے ہو گیا میں کہتا تھا کہ یہ درخت میری حدود میں ہے اور حضرت صدیق اکبر کا کہنا تھا کہ یہ میری حدود میں ہے میرے اور ان کے درمیان اس بات پر تکرار ہونے لگی تو حضرت ابوبکر نے مجھے ایک ایسا لفظ کہہ دیا جس پر بعد میں وہ خود پشیمان ہونے لگے اور فرمانے لگے ربیعہ! تم بھی مجھے اسی طرح کا لفظ کہہ دو تاکہ معاملہ برابر ہوجائے، میں نے کہا کہ میں تو ایسا نہیں کروں گا، حضرت صدیق اکبر نے فرمایا یا تم یہ لفظ کہہ دو، ورنہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تمہارے خلاف استغاثہ کروں گا، میں نے پھر کہا کہ میں تو ایسا نہیں کروں گا۔ اس پر حضرت صدیق اکبر زمین چھوڑ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں روانہ ہو گئے، میں بھی ان کے پیچھے روانہ ہونے لگا تو قبیلہ اسلم کے کچھ لوگ میرے پاس آئے اور مجھ سے کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ ابوبکر پر رحم فرمائے، وہ کس بناء پر تمہارے خلاف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے استغاثہ کر رہے ہیں جبکہ خود ہی انہوں نے ایسی بات کہی ہے؟ میں نے انہیں جواب دیا کہ تم جانتے ہو یہ کون ہیں ؟ یہ ابوبکر صدیق ہیں ، یہ ثانی اثنین ہیں ، یہ ذو شیبۃ المسلمین ہیں ، تم لوگ واپس چلے جاؤ، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ تمہیں دیکھ لیں کہ تم میری مدد کے لئے آئے ہو اور وہ غضب ناک ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچیں ، انہیں غصے میں دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ آجائے گا اور ان کے غصے کی وجہ سے اللہ کو غصہ آجائے گا اور ربیعہ ہلاک ہوجائے گا، انہوں نے پوچھا کہ پھر آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں ؟ میں نے کہا کہ تم لوگ واپس چلے جاؤ، پھر میں اکیلا ہی حضرت صدیق اکبر کے پیچھے روانہ ہوگیا، حضرت صدیق اکبر نے بارگاہ نبوت میں حاضر ہو کر سارا واقعہ بعینہ بتا دیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھا کر میری طرف دیکھا اور فرمایا ربیعہ! صدیق کے ساتھ تمہارا کیا جھگڑا ہے؟ میں عرض کیا یا رسول اللہ! ایسی ایسی بات ہوئی تھی اور انہوں نے ایک ایسا لفظ کہہ دیا تھا جس پر بعد میں خود انہیں ناپسندیدگی ہوئی، اور انہوں نے مجھ سے کہا کہ تم بھی میری طرح یہ جملہ مجھے کہہ دو تاکہ معاملہ برابر ہوجائے، لیکن میں نے انکار کر دیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ٹھیک ہے، تم وہی جملہ نہ دہراؤ، یہ کہہ دو کہ اے ابوبکر! اللہ آپ کو معاف فرمائے، چنانچہ میں نے یہی الفاظ کہہ دیئے اور حضرت صدیق اکبر روتے ہوئے واپس چلے گئے۔
-
قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ قَالَ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ عَنْ نُعَيْمٍ الْمُجْمِرِ عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ كَعْبٍ قَالَ قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَلْنِي أُعْطِكَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْظِرْنِي أَنْظُرْ فِي أَمْرِي قَالَ فَانْظُرْ فِي أَمْرِكَ قَالَ فَنَظَرْتُ فَقُلْتُ إِنَّ أَمْرَ الدُّنْيَا يَنْقَطِعُ فَلَا أَرَى شَيْئًا خَيْرًا مِنْ شَيْءٍ آخُذُهُ لِنَفْسِي لِآخِرَتِي فَدَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَا حَاجَتُكَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ اشْفَعْ لِي إِلَى رَبِّكَ عَزَّ وَجَلَّ فَلْيُعْتِقْنِي مِنْ النَّارِ فَقَالَ مَنْ أَمَرَكَ بِهَذَا فَقُلْتُ لَا وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا أَمَرَنِي بِهِ أَحَدٌ وَلَكِنِّي نَظَرْتُ فِي أَمْرِي فَرَأَيْتُ أَنَّ الدُّنْيَا زَائِلَةٌ مِنْ أَهْلِهَا فَأَحْبَبْتُ أَنْ آخُذَ لِآخِرَتِي قَالَ فَأَعِنِّي عَلَى نَفْسِكَ بِكَثْرَةِ السُّجُودِ-
حضرت ربیعہ بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا مانگو، میں تمہیں عطاء کروں گا، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے کچھ سوچنے کی مہلت دیجئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم سوچ بچار کر لو، میں نے سوچا کہ دنیا کی زندگی تو گذر ہی جائے گی، لہذا آخرت سے بہتر مجھے اپنے لیے کوئی چیز محسوس نہ ہوئی، چنانچہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تمہاری کیا ضرورت ہے؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اپنے پروردگار سے سفارش کر دیجئے کہ وہ مجھے جہنم سے آزادی کا پروانہ عطاء کردے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تمہیں یہ بات کس نے بتائی؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اللہ کی قسم! مجھے یہ بات کسی نے نہیں سمجھائی، بلکہ میں نے خود ہی اپنے معاملے میں غور و فکر کیا کہ دنیا تو دنیا والوں سے بھی چھن جاتی ہے لہذا میں نے سوچا کہ آخرت کے لیے درخواست پیش کر دیتا ہوں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو پھر سجدوں کی کثرت کے ساتھ میری مدد کرو۔
-
قَالَ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ قَالَ حَدَّثَنَا أَبِي عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ قَالَ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ عَنْ نُعَيْمٍ الْمُجْمِرِ عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ كَعْبٍ قَالَ كُنْتُ أَخْدُمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَقُومُ لَهُ فِي حَوَائِجِهِ نَهَارِي أَجْمَعَ حَتَّى يُصَلِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ فَأَجْلِسَ بِبَابِهِ إِذَا دَخَلَ بَيْتَهُ أَقُولُ لَعَلَّهَا أَنْ تَحْدُثَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَاجَةٌ فَمَا أَزَالُ أَسْمَعُهُ يَقُولُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُبْحَانَ اللَّهِ سُبْحَانَ اللَّهِ سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ حَتَّى أَمَلَّ فَأَرْجِعَ أَوْ تَغْلِبَنِي عَيْنِي فَأَرْقُدَ قَالَ فَقَالَ لِي يَوْمًا لِمَا يَرَى مِنْ خِفَّتِي لَهُ وَخِدْمَتِي إِيَّاهُ سَلْنِي يَا رَبِيعَةُ أُعْطِكَ قَالَ فَقُلْتُ أَنْظُرُ فِي أَمْرِي يَا رَسُولَ اللَّهِ ثُمَّ أُعْلِمُكَ ذَلِكَ قَالَ فَفَكَّرْتُ فِي نَفْسِي فَعَرَفْتُ أَنَّ الدُّنْيَا مُنْقَطِعَةٌ زَائِلَةٌ وَأَنَّ لِي فِيهَا رِزْقًا سَيَكْفِينِي وَيَأْتِينِي قَالَ فَقُلْتُ أَسْأَلُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِآخِرَتِي فَإِنَّهُ مِنْ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ بِالْمَنْزِلِ الَّذِي هُوَ بِهِ قَالَ فَجِئْتُ فَقَالَ مَا فَعَلْتَ يَا رَبِيعَةُ قَالَ فَقُلْتُ نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَسْأَلُكَ أَنْ تَشْفَعَ لِي إِلَى رَبِّكَ فَيُعْتِقَنِي مِنْ النَّارِ قَالَ فَقَالَ مَنْ أَمَرَكَ بِهَذَا يَا رَبِيعَةُ قَالَ فَقُلْتُ لَا وَاللَّهِ الَّذِي بَعَثَكِ بِالْحَقِّ مَا أَمَرَنِي بِهِ أَحَدٌ وَلَكِنَّكَ لَمَّا قُلْتَ سَلْنِي أُعْطِكَ وَكُنْتَ مِنْ اللَّهِ بِالْمَنْزِلِ الَّذِي أَنْتَ بِهِ نَظَرْتُ فِي أَمْرِي وَعَرَفْتُ أَنَّ الدُّنْيَا مُنْقَطِعَةٌ وَزَائِلَةٌ وَأَنَّ لِي فِيهَا رِزْقًا سَيَأْتِينِي فَقُلْتُ أَسْأَلُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِآخِرَتِي قَالَ فَصَمَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَوِيلًا ثُمَّ قَالَ لِي إِنِّي فَاعِلٌ فَأَعِنِّي عَلَى نَفْسِكَ بِكَثْرَةِ السُّجُودِ-
حضرت ربیعہ بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا، اور سارا دن ان کے کام کاج میں لگا رہتا تھا، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز عشاء پڑھ لیتے اور اپنے گھر میں چلے جاتے تو میں ان کے دروازے پر بیٹھ جاتا اور یہ سوچتا کہ ہو سکتا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی کام پڑ جائے، میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مسلسل سبحان اللہ وبحمدہ کہتے ہوئے سنتا، حتی کہ تھک کر واپس آجاتا یا نیند سے مغلوب ہو کر سو جاتا، ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میری خدمت اور اپنے آپ کو ہلکان کرنے کو دیکھ کر مجھ سے فرمایا مانگو، میں تمہیں عطاء کروں گا، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے کچھ سوچنے کی مہلت دیجئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم سوچ بچار کر لو، میں نے سوچا کہ دنیا کی زندگی تو گذر ہی جائے گی، لہذا آخرت سے بہتر مجھے اپنے لیے کوئی چیز محسوس نہ ہوئی، چنانچہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تمہاری کیا ضرورت ہے؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اپنے پروردگار سے سفارش کر دیجئے کہ وہ مجھے جہنم سے آزادی کا پروانہ عطاء کردے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تمہیں یہ بات کس نے بتائی؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اللہ کی قسم! مجھے یہ بات کسی نے نہیں سمجھائی، بلکہ میں نے خود ہی اپنے معاملے میں غور و فکر کیا کہ دنیا تو دنیا والوں سے بھی چھن جاتی ہے لہذا میں نے سوچا کہ آخرت کے لیے درخواست پیش کر دیتا ہوں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو پھر سجدوں کی کثرت کے ساتھ میری مدد کرو۔
-