TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مسند احمد
ا ب ج
حضرت حارث بن حسان کی حدیثیں ۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ أَبِي النَّجُودِ عَنِ الْحَارِثِ بْنِ حَسَّانَ الْبَكْرِيِّ قَالَ قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ وَبِلَالٌ قَائِمٌ بَيْنَ يَدَيْهِ مُتَقَلِّدٌ السَّيْفَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِذَا رَايَاتٌ سُودٌ وَسَأَلْتُ مَا هَذِهِ الرَّايَاتُ فَقَالُوا عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ قَدِمَ مِنْ غَزَاةٍ-
حضرت حارث بن حسان سے مروی ہے کہ ہم لوگ مدینہ منورہ حاضر ہوئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر موجود تھے اور آپ کے سامنے حضرت بلال تلوار لٹکائے کھڑے تھے اور کچھ کالے جھنڈے بھی نظر آرہے تھے میں نے ان جھنڈوں کے متعلق پوچھا تو لوگوں نے بتایا کہ حضرت عمرو بن عاص ایک غزوے سے واپس آئے ہیں۔
-
حَدَّثَنَا عَفَّانُ قَالَ حَدَّثَنَا سَلَّامٌ أَبُو الْمُنْذِرِ عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَهْدَلَةَ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنِ الْحَارِثِ بْنِ حَسَّانَ قَالَ مَرَرْتُ بِعَجُوزٍ بِالرَّبَذَةِ مُنْقَطِعٌ بِهَا مِنْ بَنِي تَمِيمٍ قَالَ فَقَالَتْ أَيْنَ تُرِيدُونَ قَالَ فَقُلْتُ نُرِيدُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ فَاحْمِلُونِي مَعَكُمْ فَإِنَّ لِي إِلَيْهِ حَاجَةً قَالَ فَقُلْتُ فَدَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَإِذَا هُوَ غَاصٌّ بِالنَّاسِ وَإِذَا رَايَةٌ سَوْدَاءُ تَخْفِقُ فَقُلْتُ مَا شَأْنُ النَّاسِ الْيَوْمَ قَالُوا هَذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرِيدُ أَنْ يَبْعَثَ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ وَجْهًا قَالَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ رَأَيْتَ أَنْ تَجْعَلَ الدَّهْنَاءَ حِجَازًا بَيْنَنَا وَبَيْنَ بَنِي تَمِيمٍ فَافْعَلْ فَإِنَّهَا كَانَتْ لَنَا مَرَّةً قَالَ فَاسْتَوْفَزَتْ الْعَجُوزُ وَأَخَذَتْهَا الْحَمِيَّةُ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيْنَ تَضْطَرُّ مُضَرَكَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ حَمَلْتُ هَذِهِ وَلَا أَشْعُرُ أَنَّهَا كَائِنَةٌ لِي خَصْمًا قَالَ قُلْتُ أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ كَمَا قَالَ الْأَوَّلُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا قَالَ الْأَوَّلُ قَالَ عَلَى الْخَبِيرِ سَقَطْتَ يَقُولُ سَلَّامٌ هَذَا أَحْمَقُ يَقُولُ الرَّسُولُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْخَبِيرِ سَقَطْتَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هِيهْ يَسْتَطْعِمُهُ الْحَدِيثَ قَالَ إِنَّ عَادًا أَرْسَلُوا وَافِدَهُمْ قَيْلًا فَنَزَلَ عَلَى مُعَاوِيَةَ بْنِ بَكْرٍ شَهْرًا يَسْقِيهِ الْخَمْرَ وَتُغَنِّيهِ الْجَرَادَتَانِ فَانْطَلَقَ حَتَّى أَتَى عَلَى جِبَالِ مُهْرَةَ فَقَالَ اللَّهُمَّ إِنِّي لَمْ آتِ لِأَسِيرٍ أُفَادِيهِ وَلَا لِمَرِيضٍ فَأُدَاوِيَهُ فَاسْقِ عَبْدَكَ مَا كُنْتَ سَاقِيَهُ وَاسْقِ مُعَاوِيَةَ بْنَ بَكْرٍ شَهْرًا يَشْكُرْ لَهُ الْخَمْرَ الَّتِي شَرِبَهَا عِنْدَهُ قَالَ فَمَرَّتْ سَحَابَاتٌ سُودٌ فَنُودِيَ أَنْ خُذْهَا رَمَادًا رِمْدِدًا لَا تَذَرْ مِنْ عَادٍ أَحَدًا قَالَ أَبُو وَائِلٍ فَبَلَغَنِي أَنَّ مَا أُرْسِلَ عَلَيْهِمْ مِنْ الرِّيحِ كَقَدْرِ مَا يَجْرِي فِي الْخَاتَمِ-
حضرت حارث بن حسان سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں مقام ربذہ میں ایک بوڑھی عورت کے پاس سے گذرا جو بنوتمیم سے کٹ چکی تھی اس نے پوچھا کہ تم کہاں جارہے ہو میں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وہ کہنے لگی کہ مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلو مجھے ان سے ایک کام ہے مدینہ پہنچ کر میں مسجد نبوی میں داخل ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں گھرے ہوئے تھے اور اک سیاہ جھنڈا لہرا رہا تھا میں نے لوگوں سے پوچھا کہ آج کوئی خاص بات ہے لوگوں نے بتایا کہ دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمرو بن عاص کو ایک لشکر دے کر کسی طرف روانہ فرما رہے ہیں میں نے آگے بڑھ کر عرض کیا یا رسول اللہ اگر آپ مناسب سمجھیں تو ہمارے اور بنوتمیم کے درمیان حجاز کو بیان قرار دیدیں کیوکہ کبھی ایسا ہی تھا اس پر وہ بڑھیا کود کر سامنے آئی اور اس کی رگ حمیت نے جوش مارا اور کہنے لگی کہ یا رسول اللہ اپنے مضر کو آپ کہاں مجبور کریں گے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ میں اس بڑھیا کو اٹھا کر لایا ہوں مجھے کیا خبر تھی کہ یہی مجھ سے جھگڑنے لگے گی۔ میں اللہ کی پناہ میں آتا ہوں اس بات سے کہ اس شخص کی طرح ہوجاؤں جیسے پہلوں نے کہا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا پہلوں نے کیا کہا تھا میں نے عرض کیا کیا آپ نے ایک باخبر آدمی سے پوچھا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم بیان کرو دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم پوری بات سننا چاہتے تھے۔میں نے عرض کیا قوم عاد نے اپنے ایک آدمی کو بطور وفد کے بھیجا وہ ایک مہینے تک معاویہ بن بکر کا مہمان بنا رہا وہ انہیں شراب پلاتا تھا اور دومنیوں سے گانے سنواتا تھا ایک دن وہ روانہ ہوا اور جبال مہرہ پر پہنچا اور کہنے لگا کہ اے اللہ میں اس لیے نہیں آیا کہ اس کا بدلہ چکاؤں نہ کسی بیمار کے لیے اس کا علاج کرسکوں لہذا تو اپنے بندوں کو وہ کچھ پلا جو تو پلا سکتا ہے اور معاویہ بن بکر کو ایک ماہ تک پلانے کا انتظام فرمادراصل یہ اس شراب کا شکریہ تھا جو و وہ اس کے یہاں ایک مہینہ تک پیتارہا تھا اسی اثناء میں سیاہ بادل آگئے اور کسی نے آواز دے کر کہا کہ یہ خوب بھرے ہوئے تھن والا بادل لے لو اور قوم عاد میں سے کسی ایک شخص کو بھی پیاسا نہ چھوڑو۔
-
حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو الْمُنْذِرِ سَلَّامُ بْنُ سُلَيْمَانَ النَّحْوِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ أَبِي النَّجُودِ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنِ الْحَارِثِ بْنِ يَزِيدَ الْبَكْرِيِّ قَالَ خَرَجْتُ أَشْكُو الْعَلَاءَ بْنَ الْحَضْرَمِيِّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَرَرْتُ بِالرَّبَذَةِ فَإِذَا عَجُوزٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ مُنْقَطِعٌ بِهَا فَقَالَتْ لِي يَا عَبْدَ اللَّهِ إِنَّ لِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَاجَةً فَهَلْ أَنْتَ مُبَلِّغِي إِلَيْهِ قَالَ فَحَمَلْتُهَا فَأَتَيْتُ الْمَدِينَةَ فَإِذَا الْمَسْجِدُ غَاصٌّ بِأَهْلِهِ وَإِذَا رَايَةٌ سَوْدَاءُ تَخْفِقُ وَبِلَالٌ مُتَقَلِّدٌ السَّيْفَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ مَا شَأْنُ النَّاسِ قَالُوا يُرِيدُ أَنْ يَبْعَثَ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ وَجْهًا قَالَ فَجَلَسْتُ قَالَ فَدَخَلَ مَنْزِلَهُ أَوْ قَالَ رَحْلَهُ فَاسْتَأْذَنْتُ عَلَيْهِ فَأَذِنَ لِي فَدَخَلْتُ فَسَلَّمْتُ فَقَالَ هَلْ كَانَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ بَنِي تَمِيمٍ شَيْءٌ قَالَ فَقُلْتُ نَعَمْ قَالَ وَكَانَتْ لَنَا الدَّبْرَةُ عَلَيْهِمْ وَمَرَرْتُ بِعَجُوزٍ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ مُنْقَطِعٌ بِهَا فَسَأَلَتْنِي أَنْ أَحْمِلَهَا إِلَيْكَ وَهَا هِيَ بِالْبَابِ فَأَذِنَ لَهَا فَدَخَلَتْ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ رَأَيْتَ أَنْ تَجْعَلَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ بَنِي تَمِيمٍ حَاجِزًا فَاجْعَلْ الدَّهْنَاءَ فَحَمِيَتْ الْعَجُوزُ وَاسْتَوْفَزَتْ قَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَإِلَى أَيْنَ تَضْطَرُّ مُضَرَكَ قَالَ قُلْتُ إِنَّمَا مَثَلِي مَا قَالَ الْأَوَّلُ مِعْزَاءُ حَمَلَتْ حَتْفَهَا حَمَلْتُ هَذِهِ وَلَا أَشْعُرُ أَنَّهَا كَانَتْ لِي خَصْمًا أَعُوذُ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ أَنْ أَكُونَ كَوَافِدِ عَادٍ قَالَ هِيهْ وَمَا وَافِدُ عَادٍ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْحَدِيثِ مِنْهُ وَلَكِنْ يَسْتَطْعِمُهُ قُلْتُ إِنَّ عَادًا قَحَطُوا فَبَعَثُوا وَافِدًا لَهُمْ يُقَالُ لَهُ قَيْلٌ فَمَرَّ بِمُعَاوِيَةَ بْنِ بَكْرٍ فَأَقَامَ عِنْدَهُ شَهْرًا يَسْقِيهِ الْخَمْرَ وَتُغَنِّيهِ جَارِيَتَانِ يُقَالُ لَهُمَا الْجَرَادَتَانِ فَلَمَّا مَضَى الشَّهْرُ خَرَجَ جِبَالَ تِهَامَةَ فَنَادَى اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَعْلَمُ أَنِّي لَمْ أَجِئْ إِلَى مَرِيضٍ فَأُدَاوِيَهُ وَلَا إِلَى أَسِيرٍ فَأُفَادِيَهُ اللَّهُمَّ اسْقِ عَادًا مَا كُنْتَ تَسْقِيهِ فَمَرَّتْ بِهِ سَحَابَاتٌ سُودٌ فَنُودِيَ مِنْهَا اخْتَرْ فَأَوْمَأَ إِلَى سَحَابَةٍ مِنْهَا سَوْدَاءَ فَنُودِيَ مِنْهَا خُذْهَا رَمَادًا رِمْدِدًا لَا تُبْقِ مِنْ عَادٍ أَحَدًا قَالَ فَمَا بَلَغَنِي أَنَّهُ بُعِثَ عَلَيْهِمْ مِنْ الرِّيحِ إِلَّا قَدْرَ مَا يَجْرِي فِي خَاتِمِي هَذَا حَتَّى هَلَكُوا قَالَ أَبُو وَائِلٍ وَصَدَقَ قَالَ فَكَانَتْ الْمَرْأَةُ وَالرَّجُلُ إِذَا بَعَثُوا وَافِدًا لَهُمْ قَالُوا لَا تَكُنْ كَوَافِدِ عَادٍ-
حضرت حارث بن حسان سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں مقام ربذہ میں ایک بوڑھی عورت کے پاس سے گذرا جو بنوتمیم سے کٹ چکی تھی اس نے پوچھا کہ تم کہاں جارہے ہو میں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وہ کہنے لگی کہ مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلو مجھے ان سے ایک کام ہے مدینہ پہنچ کر میں مسجد نبوی میں داخل ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں گھرے ہوئے تھے اور اک سیاہ جھنڈا لہرا رہا تھا میں نے لوگوں سے پوچھا کہ آج کوئی خاص بات ہے لوگوں نے بتایا کہ دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمرو بن عاص کو ایک لشکر دے کر کسی طرف روانہ فرما رہے ہیں میں نے آگے بڑھ کر عرض کیا یا رسول اللہ اگر آپ مناسب سمجھیں تو ہمارے اور بنوتمیم کے درمیان حجاز کو بیان قرار دیدیں کیوکہ کبھی ایسا ہی تھا اس پر وہ بڑھیا کود کر سامنے آئی اور اس کی رگ حمیت نے جوش مارا اور کہنے لگی کہ یا رسول اللہ اپنے مضر کو آپ کہاں مجبور کریں گے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ میں اس بڑھیا کو اٹھا کر لایا ہوں مجھے کیا خبر تھی کہ یہی مجھ سے جھگڑنے لگے گی۔ میں اللہ کی پناہ میں آتا ہوں اس بات سے کہ اس شخص کی طرح ہوجاؤں جیسے پہلوں نے کہا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا پہلوں نے کیا کہا تھا میں نے عرض کیا کیا آپ نے ایک باخبر آدمی سے پوچھا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم بیان کرو دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم پوری بات سننا چاہتے تھے۔میں نے عرض کیا قوم عاد نے اپنے ایک آدمی کو بطور وفد کے بھیجا وہ ایک مہینے تک معاویہ بن بکر کا مہمان بنا رہا وہ انہیں شراب پلاتا تھا اور دومنیوں سے گانے سنواتا تھا ایک دن وہ روانہ ہوا اور جبال مہرہ پر پہنچا اور کہنے لگا کہ اے اللہ میں اس لیے نہیں آیا کہ اس کا بدلہ چکاؤں نہ کسی بیمار کے لیے اس کا علاج کرسکوں لہذا تو اپنے بندوں کو وہ کچھ پلا جو تو پلا سکتا ہے اور معاویہ بن بکر کو ایک ماہ تک پلانے کا انتظام فرمادراصل یہ اس شراب کا شکریہ تھا جو و وہ اس کے یہاں ایک مہینہ تک پیتارہا تھا اسی اثناء میں سیاہ بادل آگئے اور کسی نے آواز دے کر کہا کہ یہ خوب بھرے ہوئے تھن والا بادل لے لو اور قوم عاد میں سے کسی ایک شخص کو بھی پیاسا نہ چھوڑو۔
-