حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیق کی مرویات

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ أَيُّوبَ عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ أَسْمَاءَ قَالَتْ قُلْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ لِي إِلَّا مَا أَدْخَلَ الزُّبَيْرُ بَيْتِي قَالَ أَنْفِقِي وَلَا تُوكِي فَيُوكَى عَلَيْكِ-
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے نبی علیہ السلام سے عرض کیا کہ میرے پاس صدقہ کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں سوائے اس کے جو زبیر گھر میں لاتے ہیں ، نبی علیہ السلام نے فرمایا خرچ کیا کرو اور گن گن کر نہ رکھا کرو کہ تمہیں بھی گن گن کردیا جائے۔
-
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أُمِّهِ قَالَتْ أَتَتْنِي أُمِّي رَاغِبَةً فِي عَهْدِ قُرَيْشٍ وَهِيَ مُشْرِكَةٌ فَسَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصِلُهَا قَالَ نَعَمْ حَدَّثَنَا يُونُسُ قَالَ حَدَّثَنَا لَيْثٌ يَعْنِي ابْنَ سَعْدٍ عَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَسْمَاءَ مِثْلَهُ وَقَالَ وَهِيَ مُشْرِكَةٌ فِي عَهْدِ قُرَيْشٍ وَمُدَّتِهِمْ إِذْ عَاهَدُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میری والدہ قریش سے معاہدے کے زمانے میں آئی، اس وقت وہ مشرک تھیں ، میں نے نبی علیہ السلام سے پوچھا کیا میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کر سکتی ہوں نبی علیہ السلام نے فرمایا ہاں ۔حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میری والدہ قریش سے معاہدے کے زمانے میں آئی اس وقت وہ مشرک تھیں ۔ ۔ ۔ ۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی۔
-
حَدَّثَنَا حَسَنٌ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَسْوَدِ أَنَّهُ سَمِعَ عُرْوَةَ يُحَدِّثُ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ قَالَتْ قَدِمَتْ أُمِّي وَهِيَ مُشْرِكَةٌ فِي عَهْدِ قُرَيْشٍ إِذْ عَاهَدُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَفْتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ أُمِّي قَدِمَتْ وَهِيَ رَاغِبَةٌ أَفَأَصِلُهَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَعَمْ صِلِي أُمَّكِ-
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میری والدہ قریش سے معاہدے کے زمانے میں آئی، اس وقت وہ مشرک تھیں ، میں نے نبی علیہ السلام سے پوچھا کیا میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کر سکتی ہوں؟ نبی علیہ السلام نے فرمایا ہاں ، اپنی والدہ سے صلہ رحمی کرو۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ إِسْحَاقَ عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ أَسْمَاءَ بِنْتَ أَبِي بَكْرٍ قَالَتْ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُجَّاجًا حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالْعَرْجِ نَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَلَسَتْ عَائِشَةُ إِلَى جَنْبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَلَسْتُ إِلَى جَنْبِ أَبِي وَكَانَتْ زِمَالَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَزِمَالَةُ أَبِي بَكْرٍ وَاحِدَةً مَعَ غُلَامِ أَبِي بَكْرٍ فَجَلَسَ أَبُو بَكْرٍ يَنْتَظِرُهُ أَنْ يَطْلُعَ عَلَيْهِ فَطَلَعَ وَلَيْسَ مَعَهُ بَعِيرُهُ فَقَالَ أَيْنَ بَعِيرُكَ قَالَ قَدْ أَضْلَلْتُهُ الْبَارِحَةَ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ بَعِيرٌ وَاحِدٌ تُضِلُّهُ فَطَفِقَ يَضْرِبُهُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَبَسَّمُ وَيَقُولُ انْظُرُوا إِلَى هَذَا الْمُحْرِمِ وَمَا يَصْنَعُ-
حضرت اسماء بنت ابی بکر سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی علیہ السلام کے ساتھ حج کے ارادے سے روانہ ہوئے مقام عروج پر پہنچ کر نبی علیہ السلام نے پڑاؤ ڈال دیا، حضرت عائشہ نبی علیہ السلام کے پہلو میں آ کر بیٹھ گئیں اور میں اپنی والد کے پہلو میں نبی علیہ السلام اور حضرت ابوبکر کی سواری ایک ہی تھی اور وہ حضرت صدیق اکبر کے غلام کے پاس تھی حضرت ابوبکر اپنے غلام کے آنے کا انتظار کر رہے تھے، لیکن جب وہ آیا تو اس کے ساتھ اونٹ نہیں تھا، حضرت ابوبکر نے اس سے پوچھا کہ تمہارا اونٹ کہاں گیا؟ اس نے کہا کہ وہ مجھ سے رات کو گم ہو گیا ہے، حضرت صدیق اکبرنے فرمایا ایک اونٹ تھا اور وہ بھی تم نے گم کردیا؟ اور اسے مارنے لگے نبی علیہ السلام یہ دیکھ کرمسکراتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ اس محرم کو دیکھو یہ کیا کر رہا ہے؟۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ قَالَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ يَعْنِي ابْنَ أَبِي زِيَادٍ عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ أَفْرِدُوا بِالْحَجِّ وَدَعُوا قَوْلَ هَذَا يَعْنِي ابْنَ عَبَّاسٍ فَقَالَ ابْنُ الْعَبَّاسِ أَلَا تَسْأَلُ أُمَّكَ عَنْ هَذَا فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا فَقَالَتْ صَدَقَ ابْنُ عَبَّاسٍ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُجَّاجًا فَأَمَرَنَا فَجَعَلْنَاهَا عُمْرَةً فَحَلَّ لَنَا الْحَلَالُ حَتَّى سَطَعَتْ الْمَجَامِرُ بَيْنَ النِّسَاءِ وَالرِّجَالِ-
مجاہد کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن زبیر فرماتے ہیں حج افراد کیا کرو اور ابن عباس کی بات چھوڑ دو، حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ آپ اپنی والدہ سے کیوں نہیں پوچھ لیتے چنانچہ انہوں نے ایک قاصد حضرت اسماء کی طرف بھیجا تو انہوں نے فرمایا ابن عباس سچ کہتے ہیں ، ہم لوگ نبی علیہ السلام کے ساتھ حج کے ارادے سے نکلے تھے نبی علیہ السلام نے ہمیں حکم دیا تو ہم نے اسے عمرے کا احرام بنا لیا اور ہمارے لئے تمام چیزیں حسب سابق حلال ہو گئیں حتی کہ عورتوں اور مردوں کے درمیان انگیٹھیاں بھی دہکائی گئیں۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ قَالَ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْمُنْذِرِ عَنْ أَسْمَاءَ قَالَتْ أَتَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ امْرَأَةٌ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ لِي ابْنَةً عَرِيسًا وَإِنَّهُ أَصَابَتْهَا حَصْبَةٌ فَتَمَرَّقَ شَعْرُهَا أَفَأَصِلُهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَعَنَ اللَّهُ الْوَاصِلَةَ وَالْمُسْتَوْصِلَةَ-
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک عورت نبی علیہ السلام کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ میری بیٹی کی نئی نئی شادی ہوئی ہے یہ بیمار ہو گئی ہے، اور اس کے سرکے بال جھڑ رہے ہیں کیا میں اس کے سر پر دوسرے بال لگوا سکتی ہوں؟ نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے بال لگانے والی اور لگوانے والی دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ قَالَ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْمُنْذِرِ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ قَالَتْ نَحَرْنَا فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَسًا فَأَكَلْنَا مِنْهُ-
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ دور نبوت میں ایک مرتبہ ہم لوگوں نے ایک گھوڑا ذبح کیا تھا اور اسے کھایا بھی تھا۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ قَالَ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْمُنْذِرِ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ قَالَتْ أَتَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ امْرَأَةٌ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ الْمَرْأَةُ يُصِيبُهَا مِنْ دَمِ حَيْضِهَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِتَحُتَّهُ ثُمَّ لِتَقْرِضْهُ بِمَاءٍ ثُمَّ لِتُصَلِّي فِيهِ-
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک عورت بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا یا رسول اللہ اگر کسی عورت کے جسم (یاکپڑوں ) پر دم حیض لگ جائے تو کیا حکم ہے؟ نبی علیہ السلام نے فرمایا اسے کھرچ دے پھر پانی سے بہادے اور اسی میں نماز پڑھ لے۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ قَالَ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْمُنْذِرِ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ قَالَتْ جَاءَتْ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ امْرَأَةٌ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي عَلَى ضَرَّةٍ فَهَلْ عَلَيَّ جُنَاحٌ أَنْ أَتَشَبَّعَ مِنْ زَوْجِي بِمَا لَمْ يُعْطِنِي فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُتَشَبِّعُ بِمَا لَمْ يُعْطَ كَلَابِسِ ثَوْبَيْ زُورٍ-
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک عورت نبی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہنے لگی یا رسول اللہ میری ایک سوکن ہے اگر مجھے میرے خاوند نے کوئی چیز نہ دی ہو لیکن میں یہ ظاہر کروں کہ اس نے مجھے فلاں چیز سے سیراب کر دیا ہے، تو کیا اس میں مجھ پر کوئی گناہ ہوگا؟ نبی علیہ السلام نے فرمایا اپنے آپ کو ایسی چیز سے سیراب ہونیوالا ظاہر کرنا جو اسے نہیں ملی وہ ایسے ہے جیسے جھوٹ کے دو کپڑے پہننے والا۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ قَالَ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْمُنْذِرِ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ قَالَتْ قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْفَحِي أَوْ ارْضَحِي أَوْ أَنْفِقِي وَلَا تُوعِي فَيُوعِيَ اللَّهُ عَلَيْكِ وَلَا تُحْصِي فَيُحْصِيَ اللَّهُ عَلَيْكِ-
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ نبی علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا سخاوت اور فیاضی کیا کرو اور خرچ کیا کرو جمع مت کیا کرو ورنہ اللہ بھی تم پر جمع کرنے لگے گا اور گن گن کر نہ خرچ کیا کرو کہ تمہیں بھی اللہ گن گن کر دینا شروع کردے گا۔
-
حَدَّثَنَا عَثَّامُ بْنُ عَلِيٍّ أَبُو عَلِيٍّ الْعَامِرِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ فَاطِمَةَ عَنْ أَسْمَاءَ قَالَتْ إِنْ كُنَّا لَنُؤْمَرُ بِالْعَتَاقَةِ فِي صَلَاةِ الْخُسُوفِ-
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ سورج گرہن کے موقع پر ہمیں غلام آزاد کرنے کا حکم دیا جاتا تھا۔
-
حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو قَالَ حَدَّثَنَا زَائِدَةُ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْمُنْذِرِ عَنْ أَسْمَاءَ قَالَتْ وَلَقَدْ أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْعَتَاقَةِ فِي صَلَاةِ كُسُوفِ الشَّمْسِ-
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ نبی علیہ السلام نے سورج گرہن کے موقع پر ہمیں غلام آزاد کرنے کا حکم دیا تھا۔
-
حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا هِشَامٌ عَنْ فَاطِمَةَ عَنْ أَسْمَاءَ قَالَتْ خَسَفَتْ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ فَقُلْتُ مَا شَأْنُ النَّاسِ يُصَلُّونَ فَأَشَارَتْ بِرَأْسِهَا إِلَى السَّمَاءِ فَقُلْتُ آيَةٌ قَالَتْ نَعَمْ فَأَطَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقِيَامَ جِدًّا حَتَّى تَجَلَّانِي الْغَشْيُ فَأَخَذْتُ قِرْبَةً إِلَى جَنْبِي فَأَخَذْتُ أَصُبُّ عَلَى رَأْسِي الْمَاءَ فَانْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ تَجَلَّتْ الشَّمْسُ فَخَطَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ مَا مِنْ شَيْءٍ لَمْ أَكُنْ رَأَيْتُهُ إِلَّا قَدْ رَأَيْتُهُ فِي مَقَامِي هَذَا حَتَّى الْجَنَّةُ وَالنَّارُ إِنَّهُ قَدْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّكُمْ تُفْتَنُونَ فِي الْقُبُورِ قَرِيبًا أَوْ مِثْلَ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ لَا أَدْرِي أَيَّ ذَلِكَ قَالَتْ أَسْمَاءُ يُؤْتَى أَحَدُكُمْ فَيُقَالُ مَا عِلْمُكَ بِهَذَا الرَّجُلِ فَأَمَّا الْمُؤْمِنُ أَوْ الْمُوقِنُ لَا أَدْرِي أَيَّ ذَلِكَ قَالَتْ أَسْمَاءُ فَيَقُولُ هُوَ مُحَمَّدٌ هُوَ رَسُولُ اللَّهِ جَاءَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى فَأَجَبْنَا وَاتَّبَعْنَا ثَلَاثَ مِرَارٍ فَيُقَالُ لَهُ قَدْ كُنَّا نَعْلَمُ أَنْ كُنْتَ لَتُؤْمِنُ بِهِ فَنَمْ صَالِحًا وَأَمَّا الْمُنَافِقُ أَوْ الْمُرْتَابُ لَا يَدْرِي أَيَّ ذَلِكَ قَالَتْ أَسْمَاءُ فَيَقُولُ مَا أَدْرِي سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ شَيْئًا فَقُلْتُ-
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی علیہ السلام کے دور باسعادت میں سورج گرہن ہوگیا، اس دن میں حضرت عائشہ کے یہاں گئی، تو ان سے پوچھا کہ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ اس وقت نماز پڑھ رہے ہیں؟ انہوں نے اپنے سر سے آسمان کی طرف اشارہ کردیا میں نے پوچھا کہ کیا کوئی نشانی ظاہر ہوئی ہے؟ انہوں نے کہا ہاں اس موقع پر نبی علیہ السلام نے طویل قیام کیا حتی کہ مجھ پر غشی طاری ہوگئی، میں نے اپنے پہلو میں رکھے ہوئے ایک مشکیزے کو پکڑا اور اس سے اپنے سر پر پانی بہانے لگے، نبی علیہ السلام نے نماز سے جب سلام پھیرا تو سورج گرہن ختم ہوچکا تھا ۔ پھر نبی علیہ السلام نے خطبہ ارشاد فرمایا اور اللہ کی حمد و ثناء کرنے کے بعد فرمایا حمد وصلوۃ کے بعد! اب تک میں نے جو چیزیں نہیں دیکھی تھیں وہ اپنے اس مقام پر آج دیکھ لیں حتی کہ جنت اور جہنم کو بھی دیکھ لیا مجھے یہ وحی کی گئی ہے کہ تم لوگوں کو اپنی قبروں میں مسح دجال کے برابریا اس کے قریب قریب فتنے میں مبتلا کیا جائے گا تمہارے پاس فرشتے آئیں گے اور پوچھیں گے کہ اس آدمی کے متعلق تم کیا جانتے ہو؟ تو جو مؤمن ہو گا وہ جواب دے گا کہ وہ محمد رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) تھے اور ہمارے پاس واضح معجزات اور ہدایت لے کر آئے ہم نے ان کی پکار پر لبک کہا اور ان کی اتباع کی (تین مرتبہ) اس سے کہا جائے گا ہم جانتے تھے کہ تو اس پر ایمان رکھتا ہے لہذا سکون کے ساتھ سو جاؤ! اور جو منافق ہوگا تو وہ کہے گا میں نہیں جانتا میں لوگوں کو کچھ کہتے ہوئے سنتا تھا وہی میں بھی کہہ دیتا تھا۔
-
حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ عَنْ هِشَامٍ عَنْ فَاطِمَةَ عَنْ أَسْمَاءَ قَالَتْ إِنَّهَا كَانَتْ إِذَا أُتِيَتْ بِالْمَرْأَةِ لِتَدْعُوَ لَهَا صَبَّتْ الْمَاءَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ جَيْبِهَا وَقَالَتْ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَنَا أَنْ نُبْرِدَهَا بِالْمَاءِ وَقَالَ إِنَّهَا مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ-
حضرت اسماء کے حوالے سے مروی ہے کہ جب ان کے پاس کسی عورت کو دعا کے لئے لایا جاتا تو وہ اس کے گریبان میں (دم کرکے) پانی ڈالتی تھیں اور فرماتی تھیں کہ نبی علیہ السلام نے ہمیں حکم دیاہے کہ بخار کو پانی سے ٹھنڈا کیا کریں اور فرمایا ہے کہ بخار جہنم کی تپش کا اثرہوتاہے
-
حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ هِشَامٍ عَنْ فَاطِمَةَ عَنْ أَسْمَاءَ قَالَتْ أَفْطَرْنَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي يَوْمِ غَيْمٍ فِي رَمَضَانَ ثُمَّ طَلَعَتْ الشَّمْسُ قُلْتُ لِهِشَامٍ أُمِرُوا بِالْقَضَاءِ قَالَ وَبُدٌّ مِنْ ذَاكَ-
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ہم لوگوں نے ماہ رمضان کے ایک ابرآلود دن میں نبی علیہ السلام کے دور باسعادت میں روزہ ختم کردیا تھا پھر سورج روشن ہو گیا (بعد میں جس کی قضاء کرلی گئی تھی)
-
حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ قَالَ حَدَّثَنَا هِشَامٌ عَنْ أَبِيهِ وَفَاطِمَةُ بِنْتُ الْمُنْذِرِ عَنْ أَسْمَاءَ قَالَتْ صَنَعْتُ سُفْرَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِ أَبِي بَكْرٍ حِينَ أَرَادَ أَنْ يُهَاجِرَ قَالَتْ فَلَمْ نَجِدْ لِسُفْرَتِهِ وَلَا لِسِقَائِهِ مَا نَرْبِطُهُمَا بِهِ قَالَتْ فَقُلْتُ لِأَبِي بَكْرٍ وَاللَّهِ مَا أَجِدُ شَيْئًا أَرْبِطُهُ بِهِ إِلَّا نِطَاقِي قَالَ فَقَالَ شُقِّيهِ بِاثْنَيْنِ فَارْبِطِي بِوَاحِدٍ السِّقَاءَ وَالْآخَرِ السُّفْرَةَ فَلِذَلِكَ سُمِّيَتْ ذَاتَ النِّطَاقَيْنِ-
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ جس وقت نبی علیہ السلام نے ہجرت کا ارادہ کیا تو حضرت صدیق اکبر کے گھر میں نبی علیہ السلام کے لئے سامان سفر میں نے تیار کیا تھا، مجھے سامان سفر اور مشکیزے کا منہ باندھنا تھا لیکن اس کے لئے مجھے کوئی چیز نہ مل سکی، میں نے حضرت صدیق اکبر سے عرض کیا کہ مجھے اپنے کمربند کے علاوہ کوئی چیز سامان سفرباندھنے کے لئے نہیں مل رہی، انہوں نے فرمایا اسے دو ٹکڑے کردو اور ایک ٹکڑے سے مشکیزے کا منہ باندھ دو اور دوسرے سے سامان سفر، اسی وجہ سے میرا نام " ذات النطاقین" پڑگیا۔
-
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ هِشَامٍ قَالَ حَدَّثَتْنِي فَاطِمَةُ عَنْ أَسْمَاءَ أَنَّ امْرَأَةً قَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ لِي ضَرَّةً فَهَلْ عَلَيَّ جُنَاحٌ إِنْ تَشَبَّعْتُ مِنْ زَوْجِي بِغَيْرِ الَّذِي يُعْطِينِي فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُتَشَبِّعُ بِمَا لَمْ يُعْطَ كَلَابِسِ ثَوْبَيْ زُورٍ-
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک عورت نبی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہنے لگی یا رسول اللہ میری ایک سوکن ہے اگر مجھے میرے خاوند نے کوئی چیز نہ دی ہو لیکن میں یہ ظاہر کروں کہ اس نے مجھے فلاں چیز سے سیراب کردیا ہے، تو کیا اس میں مجھ پر کوئی گناہ ہوگا؟ نبی علیہ السلام نے فرمایا اپنے آپ کو ایسی چیز سے سیراب ہونیوالا ظاہر کرنا جو اسے نہیں ملی وہ ایسے ہے جیسے جھوٹ کے دو کپڑے پہننے والا۔
-
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ هِشَامٍ قَالَ حَدَّثَتْنِي فَاطِمَةُ عَنْ أَسْمَاءَ قَالَتْ أَكَلْنَا لَحْمَ فَرَسٍ لَنَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ دور نبوت میں ایک مرتبہ ہم لوگوں نے ایک گھوڑا ذبح کیا تھا اور اسے کھایا بھی تھا۔
-
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ هِشَامٍ قَالَ حَدَّثَتْنِي فَاطِمَةُ بِنْتُ الْمُنْذِرِ وَوَكِيعٌ قَالَ حَدَّثَنَا هِشَامٌ عَنْ فَاطِمَةَ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ أَنَّ امْرَأَةً مِنْ الْأَنْصَارِ قَالَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ لِي بُنَيَّةً عَرِيسًا وَإِنَّهُ تَمَرَّقَ شَعْرُهَا فَهَلْ عَلَيَّ جُنَاحٌ إِنْ وَصَلْتُ رَأْسَهَا قَالَ لَعَنَ اللَّهُ الْوَاصِلَةَ وَالْمُسْتَوْصِلَةَ-
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک عورت نبی علیہ السلام کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ میری بیٹی کی نئی نئی شادی ہوئی ہے یہ بیمار ہو گئی ہے، اور اس کے سرکے بال جھڑ رہے ہیں، کیا میں اس کے سر پر دوسرے بال لگواسکتی ہوں ؟ نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے بال لگانے والی اور لگوانے والی دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔
-
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ هِشَامٍ قَالَ حَدَّثَتْنِي فَاطِمَةُ عَنْ أَسْمَاءَ وَأَبُو مُعَاوِيَةَ قَالَ حَدَّثَنَا هِشَامٌ عَنْ فَاطِمَةَ عَنْ أَسْمَاءَ أَنَّ امْرَأَةً أَتَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ إِحْدَانَا يُصِيبُ ثَوْبَهَا مِنْ دَمِ الْحَيْضَةِ قَالَتْ تَحُتُّهُ ثُمَّ لِتَقْرُصْهُ بِالْمَاءِ ثُمَّ لِتَنْضَحْهُ ثُمَّ تُصَلِّي فِيهِ-
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک عورت بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا یا رسول اللہ اگر کسی عورت کے جسم (یاکپڑوں ) پردم حیض لگ جائے تو کیا حکم ہے؟ نبی علیہ السلام نے فرمایا اسے کھرچ دے پھر پانی سے بہادے اور اسی میں نماز پڑھ لے۔
-
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ قَالَ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْمُنْذِرِ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ قَالَتْ نَحَرْنَا فَرَسًا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَكَلْنَا لَحْمَهُ أَوْ مِنْ لَحْمِهِ-
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ دور نبوت میں ایک مرتبہ ہم لوگوں نے ایک گھوڑا ذبح کیا تھا اور اسے کھایا بھی تھا۔
-
حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ عَنْ هِشَامٍ عَنْ فَاطِمَةَ عَنْ أَسْمَاءَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهَا أَنْفِقِي أَوْ ارْضَخِي وَلَا تُحْصِي فَيُحْصِيَ اللَّهُ عَلَيْكِ وَلَا تُوعِي فَيُوعِيَ اللَّهُ عَلَيْكِ-
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ نبی علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا سخاوت اور فیاضی کیا کرو اور خرچ کیا کرو جمع مت کیا کرو ورنہ اللہ بھی تم پر جمع کرنے لگے گا اور گن گن کر نہ خرچ کیا کرو کہ تمہیں بھی اللہ گن گن کردینا شروع کردے گا۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْمُنْذِرِ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ وَكَانَتْ مُحْصِيَةً وَعَنْ عَبَّادِ بْنِ حَمْزَةَ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهَا أَنْفِقِي أَوْ انْضَخِي أَوْ انْفَحِي هَكَذَا وَهَكَذَا وَلَا تُوعِي فَيُوعَى عَلَيْكِ وَلَا تُحْصِي فَيُحْصِيَ اللَّهُ عَلَيْكِ-
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ نبی علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا سخاوت اور فیاضی کیا کرو اور خرچ کیا کرو جمع مت کیا کرو ورنہ اللہ بھی تم پر جمع کرنے لگے گا اور گن گن کر نہ خرچ کیا کرو کہ تمہیں بھی اللہ گن گن کردینا شروع کردے گا۔
-
حَدَّثَنَا عَتَّابُ بْنُ زِيَادٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ الْمُبَارَكِ قَالَ أَخْبَرَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ نَوْفَلٍ عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْمُنْذِرِ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ قَالَتْ كُنَّا نُؤَدِّي زَكَاةَ الْفِطْرِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُدَّيْنِ مِنْ قَمْحٍ بِالْمُدِّ الَّذِي تَقْتَاتُونَ بِهِ-
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی علیہ السلام کے دور باسعادت میں گندم کے دو مد صدقہ فطر کے طور پر ادا کرتے تھے اس مد کی پیمائش کے مطابق جس سے تم پیمائش کرتے ہو۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ قَالَ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ قَالَ أَخْبَرَنِي أَبِي عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ قَالَتْ تَزَوَّجَنِي الزُّبَيْرُ وَمَا لَهُ فِي الْأَرْضِ مِنْ مَالٍ وَلَا مَمْلُوكٍ وَلَا شَيْءٍ غَيْرَ فَرَسِهِ قَالَتْ فَكُنْتُ أَعْلِفُ فَرَسَهُ وَأَكْفِيهِ مَئُونَتَهُ وَأَسُوسُهُ وَأَدُقُّ النَّوَى لِنَاضِحِهِ أَعْلِبُ وَأَسْتَقِي الْمَاءَ وَأَخْرُزُ غَرْبَهُ وَأَعْجِنُ وَلَمْ أَكُنْ أُحْسِنُ أَخْبِزُ فَكَانَ يَخْبِزُ لِي جَارَاتٌ مِنْ الْأَنْصَارِ وَكُنَّ نِسْوَةَ صِدْقٍ وَكُنْتُ أَنْقُلُ النَّوَى مِنْ أَرْضِ الزُّبَيْرِ الَّتِي أَقْطَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رَأْسِي وَهِيَ مِنِّي عَلَى ثُلُثَيْ فَرْسَخٍ قَالَتْ فَجِئْتُ يَوْمًا وَالنَّوَى عَلَى رَأْسِي فَلَقِيتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِهِ فَدَعَانِي ثُمَّ قَالَ إِخْ إِخْ لِيَحْمِلَنِي خَلْفَهُ قَالَتْ فَاسْتَحَيْتُ أَنْ أَسِيرَ مَعَ الرِّجَالِ وَذَكَرْتُ الزُّبَيْرَ وَغَيْرَتَهُ قَالَتْ وَكَانَ أَغْيَرَ النَّاسِ فَعَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنِّي قَدْ اسْتَحَيْتُ فَمَضَى وَجِئْتُ الزُّبَيْرَ فَقُلْتُ لَقِيَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَى رَأْسِي النَّوَى وَمَعَهُ نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِهِ فَأَنَاخَ لِأَرْكَبَ مَعَهُ فَاسْتَحَيْتُ وَعَرَفْتُ غَيْرَتَكَ فَقَالَ وَاللَّهِ لَحَمْلُكِ النَّوَى أَشَدُّ عَلَيَّ مِنْ رُكُوبِكِ مَعَهُ قَالَتْ حَتَّى أَرْسَلَ إِلَيَّ أَبُو بَكْرٍ بَعْدَ ذَلِكَ بِخَادِمٍ فَكَفَتْنِي سِيَاسَةَ الْفَرَسِ فَكَأَنَّمَا أَعْتَقَنِي-
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ جس وقت حضرت زبیر سے میرا نکاح ہوا روئے زمین پر ان کے گھوڑے کے علاوہ کوئی مال یا غلام یا کوئی اور چیز ان کی ملکیت میں نہ تھی میں ان کے گھوڑے کا چارہ تیار کرتی تھی اس کی ضروریات مہیا کرتی تھی اور اس کی دیکھ بھال کرتی تھی اسی طرح ان کے اونٹ کے لئے گٹھلیاں کوٹتی تھی اس کا چارہ بناتی تھی، اسے پانی پلاتی تھی، ان کے ڈول کو سیتی تھی، آٹاگوندھتی تھی، میں روٹی اچھی طرح نہیں پکاسکتی تھی، اس لئے میری کچھ انصاری پڑوسی خواتین مجھے روٹی پکا دیتی تھیں ، وہ سچی سہیلیاں تھیں ، یادرہے کہ میں گٹھلیاں حضرت زبیر کی اس زمین سے لایا کرتی تھی جو بعد میں نبی علیہ السلام نے انہیں بطور جاگیر کے دیدی تھی، میں نے انہیں اپنے سر پر رکھا ہوتا تھا اور وہ زمین ہمارے گھر سے ایک فرسخ کے دوتہائی کے قریب بنتی تھی۔ایک دن میں وہاں سے آرہی تھی اور گٹھلیوں کی گٹھڑی میرے سر پر تھی کہ راستے میں نبی علیہ السلام سے ملاقات ہوگئی، نبی علیہ السلام کے ساتھ کچھ صحابہ بھی تھے، نبی علیہ السلام نے مجھے پکارا اور مجھے اپنے پیچھے سوار کرنے کے لئے اونٹ کو بٹھانے لگے لیکن مجھے مردوں کے ساتھ جاتے ہوئے شرم آئی اور مجھے زبیر اور ان کی غیرت یاد آگئی کیونکہ وہ بڑے باغیرت آدمی تھے، نبی علیہ السلام یہ بھانپ گئے کہ مجھے شرم آرہی ہے لہذا نبی علیہ السلام آگے چل پڑے، میں گھر پہنچی تو زبیر سے ذکر کیا کہ آج مجھے نبی علیہ السلام ملے تھے، میرے سر پر کھجوروں کی گٹھلیاں تھیں ، نبی علیہ السلام کے ساتھ کچھ صحابہ بھی تھے، نبی علیہ السلام نے اپنے اونٹ کو بٹھایا تاکہ میں اس پر سوار ہوجاؤں لیکن مجھے حیا آئی، اور آپ کی غیرت کا بھی خیال آیا، انہوں نے فرمایا بخدا تمہارا نبی علیہ السلام کے ساتھ سوار ہونے کی نسبت گٹھلیاں لاد کر لانا مجھ پر اس سے زیادہ شاق گزرتا ہے بالآخر حضرت صدیق اکبر نے اس کے کچھ ہی عرصے بعد میرے پاس ایک خادم بھیج دیا اور گھوڑے کی دیکھ بھال سے میں بری الذمہ ہوگئی اور ایسا لگا کہ جیسے انہوں نے مجھے آزاد کر دیا ہو۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَسْمَاءَ أَنَّهَا حَمَلَتْ بِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ بِمَكَّةَ قَالَتْ فَخَرَجْتُ وَأَنَا مُتِمٌّ فَأَتَيْتُ الْمَدِينَةَ فَنَزَلْتُ بِقُبَاءَ فَوَلَدْتُهُ بِقُبَاءَ ثُمَّ أَتَيْتُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَضَعْتُهُ فِي حِجْرِهِ ثُمَّ دَعَا بِتَمْرَةٍ فَمَضَغَهَا ثُمَّ تَفَلَ فِي فِيهِ فَكَانَ أَوَّلَ مَا دَخَلَ فِي جَوْفِهِ رِيقُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ ثُمَّ حَنَّكَهُ بِتَمْرَةٍ ثُمَّ دَعَا لَهُ وَبَرَّكَ عَلَيْهِ وَكَانَ أَوَّلَ مَوْلُودٍ وُلِدَ فِي الْإِسْلَامِ-
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ انہیں مکہ مکرمہ میں عبداللہ بن زبیر کی ولادت کی امید ہو گئی تھی، وہ کہتی ہیں کہ جب میں مکہ مکرمہ سے نکلی تو پورے دنوں سے تھی، مدینہ منورہ پہنچ کر میں نے قباء میں قیام کیا تو وہیں عبداللہ کو جنم دیا ، پھر انہیں لے کر نبی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئی اور ان کی گود میں انہیں ڈال دیا، نبی علیہ السلام نے ایک کھجور منگوا کر اسے چبایا اور اپنا لعاب ان کے منہ میں ڈال دیا اس طرح ان کے پیٹ میں سب سے پہلے جو چیز داخل ہوئی وہ نبی علیہ السلام کا لعاب دہن تھا، پھر نبی علیہ السلام نے انہیں کھجور سے گھٹی دی اورا ن کے لئے برکت کی دعاء فرمائی اور یہ پہلا بچہ تھا جو مدینہ منورہ میں مسلمانوں کے یہاں پیدا ہوا۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو عَقِيلٍ يَعْنِي عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَقِيلٍ الثَّقَفِيَّ قَالَ حَدَّثَنَا هِشَامٌ قَالَ أَخْبَرَنِي أَبِي عَنْ أُمِّهِ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ قَالَتْ قَدِمَتْ عَلَيَّ أُمِّي فِي مُدَّةِ قُرَيْشٍ مُشْرِكَةً وَهِيَ رَاغِبَةٌ يَعْنِي مُحْتَاجَةٌ فَسَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أُمِّي قَدِمَتْ عَلَيَّ وَهِيَ مُشْرِكَةٌ رَاغِبَةٌ أَفَأَصِلُهَا قَالَ صِلِي أُمَّكِ-
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میری والدہ قریش سے معاہدے کے زمانے میں آئی، اس وقت وہ مشرک اور ضرورت مند تھیں ، میں نے نبی علیہ السلام سے پوچھا کیا میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کرسکتی ہوں؟ نبی علیہ السلام نے فرمایا ہاں ، اپنی والدہ سے صلہ رحمی کرو۔
-
حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا هِشَامٌ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ قَالَتْ قَدِمَتْ عَلَيَّ أُمِّي وَهِيَ مُشْرِكَةٌ فِي عَهْدِ قُرَيْشٍ إِذْ عَاهَدُوا فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أُمِّي قَدِمَتْ وَهِيَ رَاغِبَةٌ أَفَأَصِلُهَا قَالَ نَعَمْ صِلِي أُمَّكِ-
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میری والدہ قریش سے معاہدے کے زمانے میں آئی، اس وقت وہ مشرک اور ضرورت مند تھیں ، میں نے نبی علیہ السلام سے پوچھا کیا میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کرسکتی ہوں ؟ نبی علیہ السلام نے فرمایا ہاں اپنی والدہ سے صلہ رحمی کرو۔
-
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ مَوْلَى أَسْمَاءَ عَنْ أَسْمَاءَ أَنَّهَا نَزَلَتْ عِنْدَ دَارِ الْمُزْدَلِفَةِ فَقَالَتْ أَيْ بُنَيَّ هَلْ غَابَ الْقَمَرُ لَيْلَةَ جَمْعٍ وَهِيَ تُصَلِّي قُلْتُ لَا فَصَلَّتْ سَاعَةً ثُمَّ قَالَتْ أَيْ بُنَيَّ هَلْ غَابَ الْقَمَرُ قَالَ وَقَدْ غَابَ الْقَمَرُ قُلْتُ نَعَمْ قَالَتْ فَارْتَحِلُوا فَارْتَحَلْنَا ثُمَّ مَضَيْنَا بِهَا حَتَّى رَمَيْنَا الْجَمْرَةَ ثُمَّ رَجَعَتْ فَصَلَّتْ الصُّبْحَ فِي مَنْزِلِهَا فَقُلْتُ لَهَا أَيْ هَنْتَاهُ لَقَدْ غَلَّسْنَا قَالَتْ كَلَّا يَا بُنَيَّ إِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَذِنَ لِلظُّعُنِ-
عبداللہ جو حضرت اسماء کے آزاد کردہ غلام ہیں سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت اسماء نے دار مزدلفہ کے قریب پڑاؤ کیا اور پوچھا کہ بیٹا کیا چاند غروب ہو گیا یہ مزدلفہ کی رات تھی اور وہ نماز پڑھ رہی تھیں ، میں نے کہا ابھی نہیں وہ کچھ دیرتک مزید نماز پڑھتی رہیں پھر پوچھا بیٹاچاند چھپ گیا؟ اس وقت تک چاند غائب ہوچکا تھا لہذا میں نے کہہ دیا جی ہاں ! انہوں نے فرمایا پھر کوچ کرو چنانچہ ہم لوگ وہاں سے روانہ ہوگئے اور منی پہنچ کر جمرہ عقبہ کی رمی کی اور اپنے خیمے میں پہنچ کر فجر کی نماز ادا کی میں نے ان سے عرض کیا کہ ہم تو منہ اندھیرے ہی مزدلفہ سے نکل آئے، انہوں نے فرمایا ہرگز نہیں بیٹے نبی علیہ السلام نے خواتین کو جلدی چلے جانے کی اجازت دی ہے۔
-
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ مَوْلَى أَسْمَاءَ عَنْ أَسْمَاءَ قَالَ أَخْرَجَتْ إِلَيَّ جُبَّةً طَيَالِسَةً عَلَيْهَا لَبِنَةُ شَبْرٍ مِنْ دِيبَاجٍ كِسْرَوَانِيٍّ وَفَرْجَاهَا مَكْفُوفَانِ بِهِ قَالَتْ هَذِهِ جُبَّةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَلْبَسُهَا كَانَتْ عِنْدَ عَائِشَةَ فَلَمَّا قُبِضَتْ عَائِشَةُ قَبَضْتُهَا إِلَيَّ فَنَحْنُ نَغْسِلُهَا لِلْمَرِيضِ مِنَّا يَسْتَشْفِي بِهَا-
عبداللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت اسماء نے مجھے سبز رنگ کا ایک جبہ نکال کر دکھایا جس میں بالشت بھر کسروانی ریشم کی دھاریاں پڑی ہوئی تھیں اور اس کے دونوں کف ریشم کے بنے ہوئے تھے، انہوں نے بتایا کہ یہ جبہ نبی علیہ السلام زیب تن فرمایا کرتے تھے اور یہ حضرت عائشہ کے پاس تھا حضرت عائشہ کے وصال کے بعد یہ میرے پاس آگیا اور ہم لوگ اپنے میں سے کسی کے بیمار ہونے پر اسے دھو کر اس کے ذریعے شفاء حاصل کرتے ہیں۔
-
حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ حَدَّثَنَا أَبَانُ يَعْنِي ابْنَ يَزِيدَ الْعَطَّارِ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ لَا شَيْءَ أَغْيَرُ مِنْ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ-
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ نبی علیہ السلام فرمایا کرتے تھے اللہ تعالیٰ سے زیادہ کوئی غیور نہیں ہو سکتا۔
-
حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ عَنْ حَجَّاجٍ عَنْ أَبِي عُمَرَ مَوْلَى أَسْمَاءَ قَالَ أَخْرَجَتْ إِلَيْنَا أَسْمَاءُ جُبَّةً مَزْرُورَةً بِالدِّيبَاجِ فَقَالَتْ فِي هَذِهِ كَانَ يَلْقَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَدُوَّ-
عبداللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت اسماءنے مجھے سبز رنگ کا ایک جبہ نکال کر دکھایا جس میں بالشت بھر کسروانی ریشم کی دھاریاں پڑی ہوئی تھیں انہوں نے بتایا کہ یہ جبہ نبی علیہ السلام دشمن سے سامنا ہونے پر زیب تن فرمایا کرتے تھے۔
-
حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ مَوْلًى لِأَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ قَالَتْ كَانَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جُبَّةٌ مِنْ طَيَالِسَةٍ لَبِنَتُهَا دِيبَاجٌ كِسْرَوَانِيٌّ-
عبداللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت اسماء نے مجھے سبز رنگ کا ایک جبہ نکال کر دکھایا جس میں بالشت بھر کسروانی ریشم کی دھاریاں پڑی ہوئی تھیں انہوں نے بتایا کہ یہ جبہ نبی علیہ السلام زیب تن فرمایا کرتے تھے۔
-
حَدَّثَنَا رَوْحٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ مُسْلِمٍ الْقُرِّيِّ قَالَ سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ عَنْ مُتْعَةِ الْحَجِّ فَرَخَّصَ فِيهَا وَكَانَ ابْنُ الزُّبَيْرِ يَنْهَى عَنْهَا فَقَالَ هَذِهِ أُمُّ ابْنِ الزُّبَيْرِ تُحَدِّثُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَخَّصَ فِيهَا فَادْخُلُوا عَلَيْهَا فَاسْأَلُوهَا قَالَ فَدَخَلْنَا عَلَيْهَا فَإِذَا امْرَأَةٌ ضَخْمَةٌ عَمْيَاءُ فَقَالَتْ قَدْ رَخَّصَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا-
مسلم کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس سے حج تمتع کے متعلق پوچھا تو انہوں نے اس کی اجازت دی جبکہ حضرت ابن زبیر اس سے منع فرماتے تھے جضرت ابن عباس نے فرمایا کہ ابن زبیر کی والدہ ہی بتاتی ہیں کہ نبی علیہ السلام نے اس کی اجازت دی ہے تم جا کر ان سے پوچھ لو ہم ان کے پاس چلے گئے، وہ بھاری جسم کی نابینا عورت تھیں اور انہوں نے فرمایا کہ نبی علیہ السلام نے اس کی اجازت دی ہے۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ قَالَ أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُسْلِمٍ أَخُو الزُّهْرِيِّ عَنْ مَوْلَى لِأَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ عَنْ أَسْمَاءَ قَالَتْ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ كَانَ مِنْكُنَّ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا تَرْفَعْ رَأْسَهَا حَتَّى نَرْفَعَ رُءُوسَنَا كَرَاهَةَ أَنْ يَرَيْنَ عَوْرَاتِ الرِّجَالِ لِصِغَرِ أُزُرِهِمْ وَكَانُوا إِذْ ذَاكَ يَأْتَزِرُونَ بِهَذِهِ النَّمِرَةِ-
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ میں نے نبی علیہ السلام کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تم میں سے جو عورت اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہے وہ سجدے سے اپنا سر اس وقت تک نہ اٹھایا کرے جب تک ہم مرد اپنا سر نہ اٹھالیں ، دراصل مردوں کے تہبند چھوٹے ہوتے تھے اس لئے نبی علیہ السلام اس بات کو ناپسند سمجھتے تھے کہ خواتین کی نگاہ مردوں کی شرمگاہ پر نہ پڑیں اور اس زمانے میں لوگوں کا تہبند یہ چادریں ہوتی تھیں۔ (شلواریں نہیں ہوتی تھیں )
-
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ خَالِدٍ قَالَ حَدَّثَنَا رَبَاحٌ عَنْ مَعْمَرٍ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ بَعْضِهِمْ عَنْ مَوْلَى لِأَسْمَاءَ عَنْ أَسْمَاءَ أَنَّهَا قَالَتْ كَانَ الْمُسْلِمُونَ ذَوِي حَاجَةٍ يَأْتَزِرُونَ بِهَذِهِ النَّمِرَةِ فَكَانَتْ إِنَّمَا تَبْلُغُ أَنْصَافَ سُوقِهِمْ أَوْ نَحْوَ ذَلِكَ فَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يَعْنِي النِّسَاءَ فَلَا تَرْفَعْ رَأْسَهَا حَتَّى نَرْفَعَ رُءُوسَنَا كَرَاهِيَةَ أَنْ تَنْظُرَ إِلَى عَوْرَاتِ الرِّجَالِ مِنْ صِغَرِ أُزُرِهِمْ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُسْلِمِ بْنِ شِهَابٍ أَخِي الزُّهْرِيِّ عَنْ مَوْلًى لِأَسْمَاءَ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ كَانَ مِنْكُنَّ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ-
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ میں نے نبی علیہ السلام کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تم میں سے جو عورت اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہے وہ سجدے سے اپنا سر اس وقت تک نہ اٹھایا کرے جب تک ہم مرد اپنا سر نہ اٹھالیں ، دراصل مردوں کے تہبند چھوٹے ہوتے تھے اس لئے نبی علیہ السلام اس بات کو ناپسند سمجھتے تھے کہ خواتین کی نگاہ مردوں کی شرمگاہ پر نہ پڑیں اور اس زمانے میں لوگوں کا تہبند یہ چادریں ہوتی تھیں ۔ (شلواریں نہیں ہوتی تھیں )گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
-
حَدَّثَنَا عَفَّانُ قَالَ حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ قَالَ حَدَّثَنِي النُّعْمَانُ بْنُ رَاشِدٍ عَنِ ابْنِ أَخِي الزُّهْرِيِّ عَنْ مَوْلًى لِأَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ عَنْ أَسْمَاءَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا تَرْفَعْ رَأْسَهَا حَتَّى يَرْفَعَ الرِّجَالُ رُءُوسَهُمْ قَالَتْ وَذَلِكَ أَنَّ أُزُرَهُمْ كَانَتْ قَصِيرَةً مَخَافَةَ أَنْ تَنْكَشِفَ عَوْرَاتُهُمْ إِذَا سَجَدُوا-
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ میں نے نبی علیہ السلام کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تم میں سے جو عورت اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہے وہ سجدے سے اپنا سر اس وقت تک نہ اٹھایا کرے جب تک ہم مرد اپنا سر نہ اٹھالیں ، دراصل مردوں کے تہبند چھوٹے ہوتے تھے اس لئے نبی علیہ السلام اس بات کو ناپسند سمجھتے تھے کہ خواتین کی نگاہ مردوں کی شرمگاہ پر نہ پڑیں اور اس زمانے میں لوگوں کا تہبند یہ چادریں ہوتی تھیں ۔ (شلواریں نہیں ہوتی تھیں )
-
حَدَّثَنَا سُرَيْجُ بْنُ النُّعْمَانِ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ مَنْ كَانَ مِنْكُنَّ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا تَرْفَعْ رَأْسَهَا حَتَّى يَرْفَعَ الْإِمَامُ رَأْسَهُ مِنْ ضِيقِ ثِيَابِ الرِّجَالِ-
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ میں نے نبی علیہ السلام کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تم میں سے جو عورت اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہے وہ سجدے سے اپنا سر اس وقت تک نہ اٹھایا کرے جب تک ہم مرد اپنا سر نہ اٹھا لیں دراصل مردوں کے تہبند چھوٹے ہوتے تھے اس لئے نبی علیہ السلام اس بات کو ناپسند سمجھتے تھے کہ خواتین کی نگاہ مردوں کی شرمگاہ پر پڑے۔
-
حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ زِيَادٍ عَنْ مُجَاهِدٍ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ قَالَتْ حَجَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَنَا فَجَعَلْنَاهَا عُمْرَةً فَأَحْلَلْنَا كُلَّ الْإِحْلَالِ حَتَّى سَطَعَتْ الْمَجَامِرُ بَيْنَ النِّسَاءِ وَالرِّجَالِ-
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی علیہ السلام کے ساتھ حج کے ارادے سے نکلے تھے نبی علیہ السلام نے ہمیں حکم دیا تو ہم نے اسے عمرے کا احرام بنا لیا اور ہمارے لئے تمام چیزیں حسب سابق حلال ہو گئیں حتی کہ عورتوں اور مردوں کے درمیان انگیٹھیاں بھی دہکائی گئیں۔
-
حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ حَكِيمٍ عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ جَدَّتِهِ فَمَا أَدْرِي أَسْمَاءَ بِنْتَ أَبِي بَكْرٍ أَوْ سُعْدَى بِنْتَ عَوْفٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَى ضُبَاعَةَ بِنْتِ الزُّبَيْرِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَقَالَ مَا يَمْنَعُكَ مِنْ الْحَجِّ يَا عَمَّةُ قَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي امْرَأَةٌ سَقِيمَةٌ وَإِنِّي أَخَافُ الْحَبْسَ قَالَ فَأَحْرِمِي وَاشْتَرِطِي أَنَّ مَحِلَّكِ حَيْثُ حُبِسْتِ-
حضرت ام سلمہ سے مروی ہے کہ نبی علیہ السلام ایک مرتبہ ضباعہ بنت زبیربن عبد المطلب کے پاس آئے، وہ بیمار تھیں نبی علیہ السلا م نے ان سے پوچھا کیا تم اس سفر میں ہمارے ساتھ نہیں چلو گی؟ نبی علیہ السلام کا ارادہ حجۃ الوداع کا تھا انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ میں بیمار ہوں مجھے خطرہ ہے کہ میری بیماری آپ کو روک نہ دے، نبی علیہ السلام نے فرمایا تم حج کا احرام باندھ لو اور یہ نیت کرلو کہ اے اللہ! جہاں تو مجھے روک دے گا، وہی جگہ میرے احرام کھل جانے کی ہوگی۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ قَالَ حُدِّثْتُ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ أَنَّهَا قَالَتْ فَزِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ كَسَفَتْ الشَّمْسُ فَأَخَذَ دِرْعًا حَتَّى أَدْرَكَ بِرِدَائِهِ فَقَامَ بِالنَّاسِ قِيَامًا طَوِيلًا يَقُومُ ثُمَّ يَرْكَعُ قَالَتْ فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ إِلَى الْمَرْأَةِ الَّتِي هِيَ أَكْبَرُ مِنِّي قَائِمَةً وَإِلَى الْمَرْأَةِ الَّتِي هِيَ أَسْقَمُ مِنِّي قَائِمَةً فَقُلْتُ إِنِّي أَحَقُّ أَنْ أَصْبِرَ عَلَى طُولِ الْقِيَامِ مِنْكِ و قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ حَدَّثَنِي مَنْصُورُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أُمِّهِ صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَزِعَ-
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ جس دن سورج گرہن ہوا تو نبی علیہ السلام بے چین ہو گئے اور اپنی قمیص لے کر اس پر چادر اوڑھی، اور لوگوں کو لے کر طویل قیام کیا، نبی علیہ السلام اس دوران قیام اور رکوع کرتے رہے میں نے ایک عورت کو دیکھا جو مجھ سے زیادہ بڑی عمر کی تھی لیکن وہ کھڑی تھی، پھر میں نے ایک عورت کو دیکھا جو مجھ سے زیادہ بیمار تھی لیکن پھر بھی کھڑی تھی یہ دیکھ کر میں نے سوچا کہ تم سے زیادہ ثابت قدمی کے ساتھ کھڑے ہونے کی حقدار تو میں ہوں گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
-
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ قَالَ أَخْبَرَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقْرَأُ وَهُوَ يُصَلِّي نَحْوَ الرُّكْنِ قَبْلَ أَنْ يَصْدَعَ بِمَا يُؤْمَرُ وَالْمُشْرِكُونَ يَسْتَمِعُونَ فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ-
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک دن میں نے نبی علیہ السلام کو حجر اسود کے سامنے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا یہ اس وقت کی بات ہے جب نبی علیہ السلام کو اہل مشرکین کے سامنے دعوت پیش کرنے کا حکم نہیں ہوا تھا، میں نے نبی علیہ السلام کو اس نماز میں جبکہ مشرکین بھی سن رہے تھے،، یہ آیت تلاوت کرتے ہوئے سنا فبای آلاء ربکما تکذبن۔
-
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ قَالَ حَدَّثَنَا أَبِي عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ قَالَ حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدَّتِهِ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ قَالَتْ لَمَّا وَقَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذِي طُوًى قَالَ أَبُو قُحَافَةَ لِابْنَةٍ لَهُ مِنْ أَصْغَرِ وَلَدِهِ أَيْ بُنَيَّةُ اظْهَرِي بِي عَلَى أَبِي قَبِيسٍ قَالَتْ وَقَدْ كُفَّ بَصَرُهُ قَالَتْ فَأَشْرَفْتُ بِهِ عَلَيْهِ فَقَالَ يَا بُنَيَّةُ مَاذَا تَرَيْنَ قَالَتْ أَرَى سَوَادًا مُجْتَمِعًا قَالَ تِلْكَ الْخَيْلُ قَالَتْ وَأَرَى رَجُلًا يَسْعَى بَيْنَ ذَلِكَ السَّوَادِ مُقْبِلًا وَمُدْبِرًا قَالَ يَا بُنَيَّةُ ذَلِكَ الْوَازِعُ يَعْنِي الَّذِي يَأْمُرُ الْخَيْلَ وَيَتَقَدَّمُ إِلَيْهَا ثُمَّ قَالَتْ قَدْ وَاللَّهِ انْتَشَرَ السَّوَادُ فَقَالَ قَدْ وَاللَّهِ إِذَا دَفَعَتْ الْخَيْلُ فَأَسْرِعِي بِي إِلَى بَيْتِي فَانْحَطَّتْ بِهِ وَتَلَقَّاهُ الْخَيْلُ قَبْلَ أَنْ يَصِلَ إِلَى بَيْتِهِ وَفِي عُنُقِ الْجَارِيَةِ طَوْقٌ لَهَا مِنْ وَرِقٍ فَتَلَقَّاهُ الرَّجُلُ فَاقْتَلَعَهُ مِنْ عُنُقِهَا قَالَتْ فَلَمَّا دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ وَدَخَلَ الْمَسْجِدَ أَتَاهُ أَبُو بَكْرٍ بِأَبِيهِ يَعُودُهُ فَلَمَّا رَآهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ هَلَّا تَرَكْتَ الشَّيْخَ فِي بَيْتِهِ حَتَّى أَكُونَ أَنَا آتِيهِ فِيهِ قَالَ أَبُو بَكْرٍ يَا رَسُولَ اللَّهِ هُوَ أَحَقُّ أَنْ يَمْشِيَ إِلَيْكَ مِنْ أَنْ تَمْشِيَ أَنْتَ إِلَيْهِ قَالَ فَأَجْلَسَهُ بَيْنَ يَدَيْهِ ثُمَّ مَسَحَ صَدْرَهُ ثُمَّ قَالَ لَهُ أَسْلِمْ فَأَسْلَمَ وَدَخَلَ بِهِ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَأْسُهُ كَأَنَّهُ ثَغَامَةٌ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيِّرُوا هَذَا مِنْ شَعْرِهِ ثُمَّ قَامَ أَبُو بَكْرٍ فَأَخَذَ بِيَدِ أُخْتِهِ فَقَالَ أَنْشُدُ بِاللَّهِ وَبِالْإِسْلَامِ طَوْقَ أُخْتِي فَلَمْ يُجِبْهُ أَحَدٌ فَقَالَ يَا أُخَيَّةُ احْتَسِبِي طَوْقَكِ-
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ جب نبی علیہ السلام مقم ذی طوی پر پہنچ کر رکے تو ابوقحافہ نے اپنے چھوٹے بیٹے کی لڑکی سے کہا بیٹی! مجھے ابوقبیس پر لے کر چڑھو! اس وقت تک ان کی بینائی زائل ہوچکی تھی، وہ انہیں اس پہاڑ پر لے کر چڑھ گئی تو ابوقحافہ نے پوچھا بیٹی! تمہیں کیا نظر آرہاہے؟ اس نے کہا کہ ایک بہت بڑا لشکر جو اکٹھا ہو کر آیا ہوا ہے ابوقحافہ نے کہا کہ وہ گھڑ سوار لوگ ہیں ان کی پوتی کا کہنا ہے کہ میں نے اس لشکر کے آگے آگے ایک آدمی کو دوڑتے ہوئے دیکھا جو کبھی آگے آجاتا تھا اور کبھی پیچھے ابوقحافہ نے بتایا کہ وہ واضح ہو گیا یعنی وہ آدمی جو شہسواروں کو حکم دیتا اور ان سے آگے رہتاہے، وہ کہتی ہے کہ پھر وہ لشکرپھیلنا شروع ہوگیا، اس پر ابوقحافہ نے کہا بخدا پھر تو گھڑ سوار لوگ روانہ ہو گئے ہیں ، تم مجھے جلدی سے گھرلے چلو، وہ انہیں لے کرنیچے اترنے لگی لیکن قبل اس کے کہ وہ اپنے گھرتک پہنچتے لشکر وہاں تک پہنچ چکا تھا ، اس بچی کی گردن میں چاندی کا ایک ہار تھا جو ایک آدمی نے اس کی گردن میں سے اتار لیا۔جب نبی علیہ السلام مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے اور مسجد میں تشریف لے گئے تو حضرت صدیق اکبر بارگاہ نبوت میں اپنے والد کو لے کر حاضر ہوئے، نبی علیہ السلام نے یہ دیکھ کر فرمایا آپ انہیں گھر میں ہی رہنے دیتے، میں خود ہی وہاں چلاجاتا، حضرت صدیق اکبر نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ ان کا زیادہ حق بنتا ہے کہ یہ آپ کے پاس چل کر آئیں بہ نسبت اس کے کہ آپ ان کے پاس تشریف لے جائیں پھر انہیں نبی علیہ السلام کے سامنے بٹھادیا، نبی علیہ السلام نے ان کے سینے پرہاتھ پھیر کر انہیں قبول اسلام کی دعوت دی چنانچہ وہ مسلمان ہو گئے، جس وقت حضرت ابوبکر انہیں لیکر نبی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے تو ان کا سر ثغامہ نامی بوٹی کی طرح (سفید) ہوچکا تھا نبی علیہ السلام نے فرمایا ان کے بالوں کو رنگ کر دو پھر حضرت صدیق اکبر کھڑے ہوئے اور اپنی بہن کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا میں اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر کہتاہوں کہ میری بہن کا ہار واپس لوٹا دو، لیکن کسی نے اس کا جواب نہ دیا، تو حضرت صدیق اکبرنے فرمایا پیاری بہن اپنے ہار پرثواب کی امید رکھو۔
-
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ قَالَ حَدَّثَنَا أَبِي عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ قَالَ حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ عَنْ جَدَّتِهِ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ قَالَتْ لَمَّا خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَخَرَجَ مَعَهُ أَبُو بَكْرٍ احْتَمَلَ أَبُو بَكْرٍ مَالَهُ كُلَّهُ مَعَهُ خَمْسَةَ آلَافِ دِرْهَمٍ أَوْ سِتَّةَ آلَافِ دِرْهَمٍ قَالَتْ وَانْطَلَقَ بِهَا مَعَهُ قَالَتْ فَدَخَلَ عَلَيْنَا جَدِّي أَبُو قُحَافَةَ وَقَدْ ذَهَبَ بَصَرُهُ فَقَالَ وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَاهُ قَدْ فَجَعَكُمْ بِمَالِهِ مَعَ نَفْسِهِ قَالَتْ قُلْتُ كَلَّا يَا أَبَتِ إِنَّهُ قَدْ تَرَكَ لَنَا خَيْرًا كَثِيرًا قَالَتْ فَأَخَذْتُ أَحْجَارًا فَتَرَكْتُهَا فَوَضَعْتُهَا فِي كُوَّةِ الْبَيْتِ كَانَ أَبِي يَضَعُ فِيهَا مَالَهُ ثُمَّ وَضَعْتُ عَلَيْهَا ثَوْبًا ثُمَّ أَخَذْتُ بِيَدِهِ فَقُلْتُ يَا أَبَتِ ضَعْ يَدَكَ عَلَى هَذَا الْمَالِ قَالَتْ فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَيْهِ فَقَالَ لَا بَأْسَ إِنْ كَانَ قَدْ تَرَكَ لَكُمْ هَذَا فَقَدْ أَحْسَنَ وَفِي هَذَا لَكُمْ بَلَاغٌ قَالَتْ لَا وَاللَّهِ مَا تَرَكَ لَنَا شَيْئًا وَلَكِنِّي قَدْ أَرَدْتُ أَنْ أُسْكِنَ الشَّيْخَ بِذَلِكَ-
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ جب نبی علیہ السلام اور ان کے ہمراہ حضرت صدیق اکبر بھی مکہ مکرمہ سے نکلے تو حضرت صدیق اکبر نے اپنا سارا مال جو پانچ چھ ہزار درہم بنتا تھا بھی ساتھ لے لیا اور روانہ ہوگئے تھوڑی دیر بعد ہمارے دادا ابوقحافہ آ گئے، ان کی بینائی زائل ہوچکی تھی، وہ کہنے لگے میرا خیال ہے کہ وہ اپنے ساتھ ہی اپنا سارا مال بھی لے گیا ہے، میں نے کہا ابا جان! نہیں وہ تو ہمارے لئے بہت سا مال چھوڑ گئے ہیں یہ کہہ کر میں نے کچھ پتھر لیے اور انہیں گھر کے ایک طاقچے میں جہاں میرے والد اپنا مال رکھتے تھے، رکھ دیا اور ان پر ایک کپڑا ڈھانپ لیا پھر ان کا ہاتھ پکڑ کر کہا ابا جان! اس مال پر اپنا ہاتھ رکھ کر دیکھ لیجئے! انہوں نے اس پرہاتھ پھیر کر کہا کہ اگر وہ تمہارے لئے یہ چھوڑ گیا ہے تو کوئی حرج نہیں اور اس نے بہت اچھا کیا اور تم اس سے اپنی ضروریات کی تکمیل کر سکو گے، حالانکہ والد صاحب کچھ بھی چھوڑ کر نہیں گئے تھے، میں نے اس طریقے سے صرف بزرگوں کو اطمینان دلانا تھا۔
-
حَدَّثَنَا حَسَنٌ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ قَالَ حَدَّثَنَا عُقَيْلُ بْنُ خَالِدٍ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ أَنَّهَا كَانَتْ إِذَا ثَرَدَتْ غَطَّتْهُ شَيْئًا حَتَّى يَذْهَبَ فَوْرُهُ ثُمَّ تَقُولُ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّهُ أَعْظَمُ لِلْبَرَكَةِ حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ عَنْ عُقَيْلٍ و حَدَّثَنَا عَتَّابٌ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ أَنْبَأَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ قَالَ حَدَّثَنِي عُقَيْلُ بْنُ خَالِدٍ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ أَنَّهَا كَانَتْ إِذَا ثَرَدَتْ غَطَّتْهُ فَذَكَرَ مِثْلَهُ-
حضرت اسماء کے حوالے سے مروی ہے کہ جب وہ کھانا بناتی تھیں تو کچھ دیر کے لئے اسے ڈھانپ دیتی تھیں تاکہ اس کی حرارت کی شدت کم ہوجائے اور فرماتی تھیں کہ میں نے نبی علیہ السلام کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس سے کھانے میں خوب برکت ہوتی ہے۔گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے
-
حَدَّثَنَا يُونُسُ قَالَ حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ يَزِيدَ الْقَطَّانُ بَصْرِيٌّ عَنْ مَنْصُورِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أُمِّهِ عَنْ أَسْمَاءَ أَنَّ امْرَأَةً جَاءَتْ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ إِنِّي زَوَّجْتُ ابْنَتِي فَمَرِضَتْ فَتَمَرَّطَ رَأْسُهَا وَإِنَّ زَوْجَهَا قَدْ اخْتَلَفَ إِلَيَّ أَفَأَصِلُ رَأْسَهَا قَالَتْ فَسَبَّ الْوَاصِلَةَ وَالْمُسْتَوْصِلَةَ-
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک عورت نبی علیہ السلام کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ میری بیٹی کی نئی نئی شادی ہوئی ہے یہ بیمار ہو گئی ہے، اور اس کے سرکے بال جھڑ رہے ہیں ، کیا میں اس کے سر پر دوسرے بال لگوا سکتی ہوں؟ نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے بال لگانے والی اور لگوانے والی دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔
-
حَدَّثَنَا يُونُسُ قَالَ حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ يَزِيدَ حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ عَنْ أُمِّهِ عَنِ أَسْمَاءَ قَالَتْ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُهِلِّينَ بِالْحَجِّ فَقَالَتْ فَقَالَ لَنَا مَنْ كَانَ مَعَهُ هَدْيٌ فَلْيَقُمْ عَلَى إِحْرَامِهِ وَمَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ فَلْيَحْلِلْ-
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی علیہ السلام کے ہمراہ حج کا احرام باندھ کر روانہ ہوئے، بعد میں نبی علیہ السلام نے ہم سے فرمایا جس شخص کے ساتھ ہدی کا جانور ہو اسے اپنا احرام باقی رکھنا چاہئے، اور جس کے ساتھ ہدی کا جانور نہ ہو اسے احرام کھول لینا چاہئے۔
-
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ قَالَ أَخْبَرَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ قَالَ سَمِعْتُ عُبَادَةَ بْنَ الْمُهَاجِرِ يَقُولُ سَمِعْتُ ابْنَ الْعَبَّاسِ يَقُولُ لِابْنِ الزُّبَيْرِ أَلَا تَسْأَلُ أُمَّكَ قَالَ فَدَخَلْنَا عَلَى أُمِّهِ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ فَقَالَتْ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا كُنَّا بِذِي الْحُلَيْفَةِ قَالَ مَنْ أَرَادَ مِنْكُمْ أَنْ يُهِلَّ بِالْحَجِّ فَلْيُهِلَّ وَمَنْ أَرَادَ مِنْكُمْ أَنْ يُهِلَّ بِعُمْرَةٍ فَلْيُهِلَّ قَالَتْ أَسْمَاءُ وَكُنْتُ أَنَا وَعَائِشَةُ وَالْمِقْدَادُ وَالزُّبَيْرُ مِمَّنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ-
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی علیہ السلام کے ہمراہ حج کا احرام باندھ کر روانہ ہوئے، بعد میں نبی علیہ السلام نے ہم سے فرمایا جس شخص کے ساتھ ہدی کا جانور ہوا سے اپنا احرام باقی رکھنا چاہئے، اور جس کے ساتھ ہدی کا جانور نہ ہو اسے احرام کھول لینا چاہئے، حضرت اسماء کہتی ہیں کہ میں اور عائشہ مقداد اور زبیر عمرہ کا احرام باندھنے والوں میں سے تھے۔
-
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ دَاوُدَ قَالَ حَدَّثَنَا نَافِعٌ يَعْنِي ابْنَ عُمَرَ عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ قَالَتْ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْكُسُوفِ قَالَتْ فَأَطَالَ الْقِيَامَ ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ ثُمَّ قَامَ فَأَطَالَ الْقِيَامَ ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ ثُمَّ رَفَعَ فَأَطَالَ الْقِيَامَ ثُمَّ سَجَدَ فَأَطَالَ السُّجُودَ ثُمَّ رَفَعَ ثُمَّ سَجَدَ فَأَطَالَ السُّجُودَ ثُمَّ قَامَ فَأَطَالَ الْقِيَامَ ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ ثُمَّ رَفَعَ فَأَطَالَ الْقَيَّامَ ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ ثُمَّ رَفَعَ ثُمَّ سَجَدَ فَأَطَالَ السُّجُودَ ثُمَّ رَفَعَ ثُمَّ سَجَدَ فَأَطَالَ السُّجُودَ ثُمَّ انْصَرَفَ فَقَالَ دَنَتْ مِنِّي الْجَنَّةُ حَتَّى لَوْ اجْتَرَأْتُ لَجِئْتُكُمْ بِقِطَافٍ مِنْ قِطَافِهَا وَدَنَتْ مِنِّي النَّارُ حَتَّى قُلْتُ يَا رَبُّ وَأَنَا مَعَهُمْ وَإِذَا امْرَأَةٌ قَالَ نَافِعٌ حَسِبْتُ أَنَّهُ قَالَ تَخْدِشُهَا هِرَّةٌ قُلْتُ مَا شَأْنُ هَذِهِ قِيلَ لِي حَبَسَتْهَا حَتَّى مَاتَتْ لَا هِيَ أَطْعَمَتْهَا وَلَا هِيَ أَرْسَلَتْهَا تَأْكُلُ مِنْ خِشَاشِ الْأَرْضِ-
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ سوج گرہن کے موقع پر نبی علیہ السلام نے جو نماز پڑھائی اس میں طویل قیام فرمایا، پھر رکوع کیا اور وہ بھی طویل کیا، پھر سر اٹھا کر طویل قیام فرمایا، پھر دوسری مرتبہ طویل رکوع کیا، پھر سر اٹھایا اور سجدے میں چلے گئے اور طویل سجدہ کیا، پھر کھڑے ہو کر طویل قیام فرمایا ، پھر دو مرتبہ طویل رکوع کیا، پھر سر اٹھالیا اور سجدے میں چلے گئے اور طویل سجدہ کیا پھر سر اٹھا کردوسرا طویل سجدہ کیا پھر نماز سے فارغ ہو کر فرمایا کہ دوران نماز جنت میرے اتنے قریب کردی گئی تھی کہ اگر میں ہاتھ بڑھاتا تو اس کا کوئی خوشہ توڑ لاتا، پھر جہنم کو اتنا قریب کردیا گیا کہ میں کہنے لگا پروردگار ! کیا میں بھی ان میں ہوں ؟ میں نے اس میں ایک عورت کو دیکھا جسے ایک بلی نوچ رہی تھی، میں نے پوچھا کہ اس کا کیا ماجرا ہے؟ تو مجھے بتایا گیا کہ اس عورت نے اس بلی کو باندھ دیا تھا اور اسی حال میں یہ بلی مر گئی تھی، اس نے اسے خود ہی کچھ کھلایا اور نہ ہی اسے چھوڑا کہ خود ہی زمین کے کیڑے مکوڑے کھا لیتی۔
-
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ نَافِعِ بْنِ عُمَرَ الْجُمَحِيِّ عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ أَسْمَاءَ قَالَتْ انْكَسَفَتْ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَامَ فَصَلَّى فَأَطَالَ الْقِيَامَ ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ ثُمَّ رَفَعَ فَأَطَالَ الْقِيَامَ ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ ثُمَّ رَفَعَ فَأَطَالَ الْقِيَامَ ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ ثُمَّ فَعَلَ فِي الثَّانِيَةِ مِثْلَ ذَلِكَ ثُمَّ قَالَ لَقَدْ أُدْنِيَتْ مِنِّي الْجَنَّةُ حَتَّى لَوْ اجْتَرَأْتُ عَلَيْهَا لَأَتَيْتُكُمْ بِقِطْفٍ مِنْ أَقْطَافِهَا وَلَقَدْ أُدْنِيَتْ مِنِّي النَّارُ حَتَّى قُلْتُ يَا رَبُّ وَأَنَا مَعَهُمْ فَرَأَيْتُ فِيهَا هِرَّةً قَالَ حَسِبْتُ أَنَّهَا تَخْدِشُ امْرَأَةً حَبَسَتْهَا فَلَمْ تُطْعِمْهَا وَلَمْ تَدَعْهَا تَأْكُلُ مِنْ خِشَاشِ الْأَرْضِ حَتَّى مَاتَتْ-
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ سوج گرہن کے موقع پر نبی علیہ السلام نے جو نماز پڑھائی اس میں طویل قیام فرمایا، پھر رکوع کیا اور وہ بھی طویل کیا، پھر سر اٹھا کر طویل قیام فرمایا، پھر دوسری مرتبہ طویل رکوع کیا، پھر سر اٹھایا اور سجدے میں چلے گئے اور طویل سجدہ کیا، پھر کھڑے ہو کر طویل قیام فرمایا ، پھر دو مرتبہ طویل رکوع کیا، پھر سر اٹھالیا اور سجدے میں چلے گئے اور طویل سجدہ کیا پھر سر اٹھا کردوسرا طویل سجدہ کیا پھر نماز سے فارغ ہو کر فرمایا کہ دوران نماز جنت میرے اتنے قریب کردی گئی تھی کہ اگر میں ہاتھ بڑھاتا تو اس کا کوئی خوشہ توڑ لاتا، پھر جہنم کو اتنا قریب کردیا گیا کہ میں کہنے لگا پروردگار ! کیا میں بھی ان میں ہوں ؟ میں نے اس میں ایک عورت کو دیکھا جسے ایک بلی نوچ رہی تھی، میں نے پوچھا کہ اس کا کیا ماجرا ہے؟ تو مجھے بتایا گیا کہ اس عورت نے اس بلی کو باندھ دیا تھا اور اسی حال میں یہ بلی مر گئی تھی، اس نے اسے خود ہی کچھ کھلایا اور نہ ہی اسے چھوڑا کہ خود ہی زمین کے کیڑے مکوڑے کھا لیتی۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ قَالَ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ وَرَوْحٌ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ قَالَ أَخْبَرَنِي مَنْصُورُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ وَهِيَ أُمُّهُ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ قَالَتْ خَرَجْنَا مُحْرِمِينَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ كَانَ مَعَهُ هَدْيٌ فَلْيُتِمَّ وَقَالَ رَوْحٌ فَلْيَقُمْ عَلَى إِحْرَامِهِ وَمَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ فَلْيَحْلِلْ قَالَتْ فَلَمْ يَكُنْ مَعِي هَدْيٌ فَحَلَلْتُ وَكَانَ مَعَ الزُّبَيْرِ زَوْجِهَا هَدْيٌ فَلَمْ يَحِلَّ قَالَتْ فَلَبِسْتُ ثِيَابِي وَحَلَلْتُ فَجِئْتُ إِلَى الزُّبَيْرِ فَقَالَ قُومِي عَنِّي قَالَتْ فَقُلْتُ أَتَخْشَى أَنْ أَثِبَ عَلَيْكَ-
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی علیہ السلام کے ہمراہ حج کا احرام باندھ کر روانہ ہوئے، بعد میں نبی علیہ السلام نے ہم سے فرمایا جس شخص کے ساتھ ہدی کا جانور ہوا سے اپنا احرام باقی رکھنا چاہئے، اور جس کے ساتھ ہدی کا جانور نہ ہو اسے احرام کھول لینا چاہئے، میرے ساتھ چونکہ ہدی کا جانور نہیں تھا، لہذا میں حلال ہوگئی اور میرے شوہر حضرت زبیر کے پاس ہدی کا جانور تھا لہذا وہ حلال نہیں ہوئے، میں اپنے کپڑے پہن کر اور احرام کھول کر حضرت زبیر کے پاس آئی تو وہ کہنے لگے کہ میرے پاس سے اٹھ جاؤ میں نے کہا کیا آپ کو اندیشہ ہے کہ میں آپ پر کودو ں گی۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ قَالَ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ وَرَوْحٌ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ قَالَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ مَوْلَى أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ أَنَّهَا قَالَتْ أَيْ بُنَيَّ هَلْ غَابَ الْقَمَرُ لَيْلَةَ جَمْعٍ قُلْتُ لَا ثُمَّ قَالَتْ أَيْ بُنَيَّ هَلْ غَابَ الْقَمَرُ قُلْتُ نَعَمْ قَالَتْ فَارْتَحِلُوا فَارْتَحَلْنَا ثُمَّ مَضَيْنَا حَتَّى رَمَتْ الْجَمْرَةَ ثُمَّ رَجَعَتْ فَصَلَّتْ الصُّبْحَ فِي مَنْزِلِهَا فَقُلْتُ لَهَا لَقَدْ غَلَّسْنَا قَالَ رَوْحٌ أَيْ هَنْتَاهُ قَالَتْ كَلَّا يَا بُنَيَّ إِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَذِنَ لِلظُّعُنِ-
عبداللہ جو حضرت اسماء کے آزاد کردہ غلام ہی سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت اسماء دار مزدلفہ کے قریب پڑاؤ کیا اور پوچھا کہ بیٹا کیا چاند غروب ہو گیا یہ مزدلفہ کی رات تھی اور وہ نماز پڑھ رہی تھیں ، میں نے کہا ابھی نہیں وہ کچھ دیرتک مزید نماز پڑھتی رہیں پھر پوچھا بیٹاچاند چھپ گیا؟ اس وقت تک چاند غائب ہوچکا تھا لہذا میں نے کہہ دیا جی ہاں ! انہوں نے فرمایا پھر کوچ کرو چنانچہ ہم لوگ وہاں سے روانہ ہو گئے اور منی پہنچ کر جمرہ عقبہ کی رمی کی اور اپنے خیمے میں پہنچ کر فجر کی نماز ادا کی میں نے ان سے عرض کیا کہ ہم تو منہ اندھیرے ہی مزدلفہ سے نکل آئے، انہوں نے فرمایا ہرگز نہیں بیٹے نبی علیہ السلام نے خواتین کو جلدی چلے جانے کی اجازت دی ہے۔
-
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يُوسُفَ قَالَ حَدَّثَنَا عَوْفٌ عَنْ أَبِي الصِّدِّيقِ النَّاجِيِّ أَنَّ الْحَجَّاجَ بْنَ يُوسُفَ دَخَلَ عَلَى أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ بَعْدَمَا قُتِلَ ابْنُهَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ فَقَالَ إِنَّ ابْنَكِ أَلْحَدَ فِي هَذَا الْبَيْتِ وَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَذَاقَهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ وَفَعَلَ بِهِ مَا فَعَلَ فَقَالَتْ كَذَبْتَ كَانَ بَرًّا بِالْوَالِدَيْنِ صَوَّامًا قَوَّامًا وَاللَّهِ لَقَدْ أَخْبَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ سَيَخْرُجُ مِنْ ثَقِيفٍ كَذَّابَانِ الْآخِرُ مِنْهُمَا شَرٌّ مِنْ الْأَوَّلِ وَهُوَ مُبِيرٌ-
ابو الصدیق ناجی کہتے ہیں کہ حجاج بن یوسف حضرت عبداللہ بن زبیر کو شہید کر چکا تو حضرت اسماء کے پاس آکر کہنے لگا کہ آپ کے بیٹے نے حرم شریف میں کجی کی راہ اختیار کی تھی، اس لئے اللہ نے اسے دردناک عذاب کا مزہ چکھا دیا اور اس کے ساتھ جو کرنا تھا سو کر لیا، انہوں نے فرمایا تو جھوٹ بولتا ہے، وہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنیوالا تھا، صائم النہار اور قائم اللیل تھا، بخدا ہمیں نبی علیہ السلام پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ بنوثقیف میں سے دو کذاب آدمیوں خروج عنقریب ہوگا، جن میں سے دوسرا پہلے کی نبست زیادہ بڑا شر اور فتنہ ہوگا اور وہ مبیر ہو گا۔
-
حَدَّثَنَا رَوْحٌ حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ قَالَ حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أُمِّهِ صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ قَالَتْ فَزِعَ يَوْمَ كَسَفَتْ الشَّمْسُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخَذَ دِرْعًا حَتَّى أَدْرَكَ بِرِدَائِهِ فَقَامَ بِالنَّاسِ قِيَامًا طَوِيلًا يَقُومُ ثُمَّ يَرْكَعُ فَلَوْ جَاءَ إِنْسَانٌ بَعْدَمَا رَكَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَعْلَمْ أَنَّهُ رَكَعَ مَا حَدَّثَ نَفْسَهُ أَنَّهُ رَكَعَ مِنْ طُولِ الْقِيَامِ قَالَتْ فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ إِلَى الْمَرْأَةِ الَّتِي هِيَ أَكْبَرُ مِنِّي وَإِلَى الْمَرْأَةِ الَّتِي هِيَ أَسْقَمُ مِنِّي قَائِمَةً وَأَنَا أَحَقُّ أَنْ أَصْبِرَ عَلَى طُولِ الْقِيَامِ مِنْهَا-
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ جس دن سورج گرہن ہوا تو نبی علیہ السلام بے چین ہوگئے، اور اپنی قمیص لے کر اس پر چادر اوڑھی اور لوگوں کو لے کر طویل قیام کیا نبی علیہ السلام اس دوران قیام اور رکوع کرتے رہے میں نے ایک عورت کو دیکھا جو مجھ سے زیادہ بڑی عمر کی تھی لیکن وہ کھڑی تھی، پھر میں نے ایک عورت کو دیکھا جو مجھ سے زیادہ بیمار تھی لیکن پھر بھی کھڑی تھی، یہ دیکھ کر میں نے سوچا کہ تم سے زیادہ ثابت قدمی کے ساتھ کھڑے ہونے کی حقدار تو میں ہوں۔
-
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا حَرْبُ بْنُ شَدَّادٍ وَأَبَانُ بْنُ يَزِيدَ كِلَاهُمَا عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ أَنَّ عُرْوَةَ أَخْبَرَهُ أَنَّ أَسْمَاءَ أَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا سَمِعَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَقُولُ إِنَّهُ لَيْسَ شَيْءٌ أَغْيَرَ مِنْ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَقَالَ يُونُسُ فِي حَدِيثِهِ عَنْ أَبَانَ لَا شَيْءَ أَغْيَرَ مِنْ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ-
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ نبی علیہ السلام فرمایا کرتے تھے اللہ تعالیٰ سے زیادہ کوئی غیور نہیں ہوسکتا۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْحَنَفِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ عُثْمَانَ قَالَ حَدَّثَنِي وَهْبُ بْنُ كَيْسَانَ قَالَ سَمِعْتُ أَسْمَاءَ بِنْتَ أَبِي بَكْرٍ قَالَتْ مَرَّ بِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أُحْصِي شَيْئًا وَأَكِيلُهُ قَالَ يَا أَسْمَاءُ لَا تُحْصِي فَيُحْصِيَ اللَّهُ عَلَيْكِ قَالَتْ فَمَا أَحْصَيْتُ شَيْئًا بَعْدَ قَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ مِنْ عِنْدِي وَلَا دَخَلَ عَلَيَّ وَمَا نَفِدَ عِنْدِي مِنْ رِزْقِ اللَّهِ إِلَّا أَخْلَفَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ-
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی علیہ السلام میرے پاس سے گزرے اس وقت میں کچھ گن رہی تھی اور اسے ناپ رہی تھی، نبی علیہ السلام نے فرمایا اے اسماء گن گن کر نہ رکھ ورنہ اللہ بھی تمہیں گن گن کردے گا، نبی علیہ السلام کے اس ارشاد کے بعد میں نے اپنے پاس سے کچھ جانیوالے کو یا آنے والے کو کبھی شمار نہیں کیا اور جب بھی میرے پاس اللہ کا کوئی زرق ختم ہوا، اللہ نے اس کا بدل مجھے عطاء فرمادیا۔
-
حَدَّثَنَا هَاشِمٌ قَالَ حَدَّثَنَا أَبِي مُعَاوِيَةُ يَعْنِي شَيْبَانَ عَنْ يَحْيَى يَعْنِي ابْنَ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ أُمِّهِ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ أَنَّهَا سَمِعَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ مَا مِنْ شَيْءٍ أَغْيَرُ مِنْ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ-
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ نبی علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ سے زیادہ کوئی غیور نہیں ہو سکتا۔
-
حَدَّثَنَا عَفَّانُ قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ يَزِيدَ عَنْ أَيُّوبَ عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ أَنَّ أَسْمَاءَ قَالَتْ كُنْتُ أَخْدُمُ الزُّبَيْرَ زَوْجَهَا وَكَانَ لَهُ فَرَسٌ كُنْتُ أَسُوسُهُ وَلَمْ يَكُنْ شَيْءٌ مِنْ الْخِدْمَةِ أَشَدَّ عَلَيَّ مِنْ سِيَاسَةِ الْفَرَسِ فَكُنْتُ أَحْتَشُّ لَهُ وَأَقُومُ عَلَيْهِ وَأَسُوسُهُ وَأَرْضَخُ لَهُ النَّوَى قَالَ ثُمَّ إِنَّهَا أَصَابَتْ خَادِمًا أَعْطَاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ فَكَفَتْنِي سِيَاسَةَ الْفَرَسِ فَأَلْقَتْ عَنِّي مَئُونَتَهُ-
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ جس وقت حضرت زبیر سے میرا نکاح ہوا میں ان کے گھوڑے کا چارہ تیار کرتی تھی اس کی ضروریات مہیا کرتی تھی اور اس کی دیکھ بھال کرتی تھی اسی طرح ان کے اونٹ کے لئے گٹھلیاں کوٹتی تھی اس کا چارہ بناتی تھی، اسے پانی پلاتی تھی، ان کے ڈول کو سیتی تھی، پھر نبی علیہ السلام نے اس کے کچھ ہی عرصے بعد میرے پاس ایک خادم بھیج دیا اور گھوڑے کی دیکھ بھال سے میں بری الذمہ ہوگئی اور ایسا لگا کہ جیسے انہوں نے مجھے آزاد کردیا ہو۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ قَالَ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي يَحْيَى عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ لَا شَيْءَ أَغْيَرُ مِنْ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ-
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ نبی علیہ السلام بر سر منبر فرمایا کرتے تھے اللہ تعالیٰ سے زیادہ کوئی غیور نہیں ہو سکتا۔
-
حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ قَالَ وَجَدْتُ فِي كِتَابِ أَبِي هَذَا الْحَدِيثَ بِخَطِّ يَدِهِ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ يَعْنِي ابْنَ سُلَيْمَانَ سَعْدَوَيْهِ قَالَ حَدَّثَنَا عَبَّادٌ يَعْنِي ابْنَ الْعَوَّامِ عَنْ هَارُونَ بْنِ عَنْتَرَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ لَمَّا قَتَلَ الْحَجَّاجُ بْنَ الزُّبَيْرِ وَصَلَبَهُ مَنْكُوسًا فَبَيْنَا هُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ إِذْ جَاءَتْ أَسْمَاءُ وَمَعَهَا أَمَةٌ تَقُودُهَا وَقَدْ ذَهَبَ بَصَرُهَا فَقَالَتْ أَيْنَ أَمِيرُكُمْ فَذَكَرَ قِصَّةً فَقَالَتْ كَذَبْتَ وَلَكِنِّي أُحَدِّثُكَ حَدِيثًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ يَخْرُجُ مِنْ ثَقِيفٍ كَذَّابَانِ الْآخِرُ مِنْهُمَا أَشَرُّ مِنْ الْأَوَّلِ وَهُوَ مُبِيرٌ-
عنترہ کہتے ہیں کہ جب حجاج بن یوسف حضرت عبداللہ بن زبیر کو شہید کر چکا ان کا جسم پھانسی سے لٹکا ہوا تھا اور حجاج منبر پر تھا کہ تو حضرت اسماآ گئیں ان کے ساتھ ایک باندی تھی جو انہیں لے کر آ رہی تھی کیونکہ ان کی بینائی ختم ہوچکی تھی، انہوں نے فرمایا تمہارا امیر کہاں ہے؟ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی اور کہا تو جھوٹ بولتا ہے بخدا ہمیں نبی علیہ السلام پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ بنوثقیف میں سے دو کذاب آدمیوں کا خروج عنقریب ہوگا جن میں سے دوسرا پہلے کی نسبت زیادہ بڑا شر اور فتنہ ہوگا اور وہ مبیر ہوگا ۔
-
حَدَّثَنَا يَعْمَرُ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ مُبَارَكٍ قَالَ أَخْبَرَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ عَنِ ابْنِ يَزِيدَ قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ مَوْلَى أَسْمَاءَ يُحَدِّثُ أَنَّهُ سَمِعَ أَسْمَاءَ بِنْتَ أَبِي بَكْرٍ تَقُولُ عِنْدِي لِلزُّبَيْرِ سَاعِدَانِ مِنْ دِيبَاجٍ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْطَاهُمَا إِيَّاهُ يُقَاتِلُ فِيهِمَا-
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ میرے پاس حضرت زبیر کی قمص کے دو بازو موجود ہیں جو ریشمی ہیں جو نبی علیہ السلام نے انہیں بوقت جنگ پہننے کے لئے عطا فرمائے تھے۔
-
حَدَّثَنَا حُجَيْنُ بْنُ الْمُثَنَّى قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ أَبِي سَلَمَةَ الْمَاجِشُونَ عَنْ مُحَمَّدٍ يَعْنِي ابْنَ الْمُنْكَدِرِ قَالَ كَانَتْ أَسْمَاءُ تُحَدِّثُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ قَالَ إِذَا دَخَلَ الْإِنْسَانُ قَبْرَهُ فَإِنْ كَانَ مُؤْمِنًا أَحَفَّ بِهِ عَمَلُهُ الصَّلَاةُ وَالصِّيَامُ قَالَ فَيَأْتِيهِ الْمَلَكُ مِنْ نَحْوِ الصَّلَاةِ فَتَرُدُّهُ وَمِنْ نَحْوِ الصِّيَامِ فَيَرُدُّهُ قَالَ فَيُنَادِيهِ اجْلِسْ قَالَ فَيَجْلِسُ فَيَقُولُ لَهُ مَاذَا تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ يَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ قَالَ مُحَمَّدٌ قَالَ أَنَا أَشْهَدُ أَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَقُولُ وَمَا يُدْرِيكَ أَدْرَكْتَهُ أَشْهَدُ أَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ قَالَ يَقُولُ عَلَى ذَلِكَ عِشْتَ وَعَلَيْهِ مِتَّ وَعَلَيْهِ تُبْعَثُ قَالَ وَإِنْ كَانَ فَاجِرًا أَوْ كَافِرًا قَالَ جَاءَ الْمَلَكُ وَلَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ شَيْءٌ يَرُدُّهُ قَالَ فَأَجْلَسَهُ قَالَ يَقُولُ اجْلِسْ مَاذَا تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ قَالَ أَيُّ رَجُلٍ قَالَ مُحَمَّدٌ قَالَ يَقُولُ وَاللَّهِ مَا أَدْرِي سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ شَيْئًا فَقُلْتُهُ قَالَ فَيَقُولُ لَهُ الْمَلَكُ عَلَى ذَلِكَ عِشْتَ وَعَلَيْهِ مِتَّ وَعَلَيْهِ تُبْعَثُ قَالَ وَتُسَلَّطُ عَلَيْهِ دَابَّةٌ فِي قَبْرِهِ مَعَهَا سَوْطٌ تَمْرَتُهُ جَمْرَةٌ مِثْلُ غَرْبِ الْبَعِيرِ تَضْرِبُهُ مَا شَاءَ اللَّهُ صَمَّاءُ لَا تَسْمَعُ صَوْتَهُ فَتَرْحَمَهُ-
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا جب انسان کو اس کی قبر میں داخل کردیا جاتا ہے اور وہ مؤمن ہو تو اس کے اعمال مثلا نماز، روزہ اسے گھیرے میں لے لیتے ہیں ، فرشتہ عذاب نماز کی طرف سے آنا چاہتا ہے تو نماز اسے روکی دیتی ہے، روزے کی طرف سے آنا چاہے تو روزہ روک دیتا ہے ، وہ اسے پکار کر بیٹھنے کے لئے کہتا ہے چنانچہ انسان بیٹھ جاتا ہے ، فرشتہ اس سے پوچھتا ہے کہ تو اس آدمی یعنی نبی علیہ السلام کے متعلق کیا کہتاہے؟ وہ پوچھتا ہے کون آدمی؟ فرشتہ کہتا ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم وہ کہتا ہے میں گواہی دیتاہوں کہ وہ اللہ کے پیغمبر ہیں ، فرشتہ کہتا ہے کہ تو اسی پر زندہ رہا اور اسی پر تجھے موت آگئی اور اسی پر تجھے اٹھایا جائے گا۔اور اگر مردہ فاجریا کافر ہو تو جب فرشتہ اس کے پاس آتا ہے تو درمیان میں اسے واپس لوٹا دینے والی کوئی چیز نہیں ہوتی، وہ اسے بٹھاکرپوچھتا ہے کہ تو اس آدمی کے متعلق کیا کہتا ہے؟ مردہ پوچھتا ہے کون آدمی وہ کہتا ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، مردہ کہتا ہے کہ بخدا میں کچھ نہیں جانتا، میں لوگوں کو جو کہتے ہوئے سنتا تھا ، وہی کہہ دیتا تھا ، فرشتہ کہتا ہے کہ تواسی پر زندہ رہا، اسی پر مرا اور اسی پر تجھے اٹھایا جائے گا، پھر اس پر قبر میں ایک جانور کو مسلط کردیا جاتا ہے اس کے پاس ایک کوڑا ہوتا ہے جس کے سرے پر چنگاری ہوتی ہے جیسے اونٹ کی نوک ہو جب تک خدا کو منظور ہوگا وہ اسے مارتا رہے گا، وہ جانور بہرا ہے جو آواز سن ہی نہیں سکتا کہ اس پر رحم کھا لے۔
-
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ هِشَامٍ قَالَ حَدَّثَتْنِي فَاطِمَةُ عَنْ أَسْمَاءَ أَنَّ امْرَأَةً قَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ لِي ضَرَّةً فَهَلْ عَلَيَّ جُنَاحٌ إِنْ تَشَبَّعْتُ مِنْ زَوْجِي بِغَيْرِ الَّذِي يُعْطِينِي فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُتَشَبِّعُ بِمَا لَمْ يُعْطَهُ كَلَابِسِ ثَوْبَيْ زُورٍ-
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک عورت نبی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہنے لگی یا رسول اللہ میری ایک سوکن ہے اگر مجھے میرے خاوند نے کوئی چیز نہ دی ہو لیکن میں یہ ظاہر کروں کہ اس نے مجھے فلاں چیز سے سیراب کر دیا ہے، تو کیا اس میں مجھ پر کوئی گناہ ہوگا؟ نبی علیہ السلام نے فرمایا اپنے آپ کو ایسی چیز سے سیراب ہونیوالا ظاہر کرنا جو اسے نہیں ملی وہ ایسے ہے جیسے جھوٹ کے دو کپڑے پہننے والا۔
-
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ هِشَامٍ قَالَ حَدَّثَتْنِي فَاطِمَةُ بِنْتُ الْمُنْذِرِ عَنْ أَسْمَاءَ قَالَتْ أَكَلْنَا فَرَسًا لَنَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ دور نبوت میں ایک مرتبہ ہم لوگوں نے ایک گھوڑا ذبح کیا تھا اور اسے کھایا بھی تھا۔
-
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ هِشَامٍ قَالَ حَدَّثَتْنِي فَاطِمَةُ بِنْتُ الْمُنْذِرِ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ أَنَّ امْرَأَةً مِنْ الْأَنْصَارِ قَالَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ لِي بُنَيَّةً عَرِيسًا وَإِنَّهُ تَمَرَّقَ شَعَرُهَا فَهَلْ عَلَيَّ مِنْ جُنَاحٍ إِنْ وَصَلْتُ رَأْسَهَا وَقَالَ وَكِيعٌ تَمَرَّطَ شَعْرُهَا قَالَ لَعَنَ اللَّهُ الْوَاصِلَةَ وَالْمُسْتَوْصِلَةَ-
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک عورت نبی علیہ السلام کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ میری بیٹی کی نئی نئی شادی ہوئی ہے یہ بیمار ہوگئی ہے، اور اس کے سرکے بال جھڑ رہے ہیں ، کیا میں اس کے سر پر دوسرے بال لگوا سکتی ہوں ؟ نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے بال لگانے والی اور لگوانے والی دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔
-
حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ أَسْمَاءَ أَنَّهَا قَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَيْسَ لِي إِلَّا مَا أَدْخَلَ عَلَيَّ الزُّبَيْرُ أَفَأَرْضَخُ مِنْهُ قَالَ ارْضَخِي وَلَا تُوعِي فَيُوعِيَ اللَّهُ عَلَيْكِ-
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے نبی علیہ السلام سے عرض کیا کہ میرے پاس صدقہ کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں سوائے اس کے جو زبیر گھر میں لاتے ہیں ، نبی علیہ السلام نے فرمایا خرچ کیا کرو اور گن گن کر نہ رکھا کرو کہ تمہیں بھی گن گن کردیا جائے۔
-
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ هِشَامٍ قَالَ حَدَّثَتْنِي فَاطِمَةُ وَأَبُو مُعَاوِيَةَ قَالَ حَدَّثَنِي هِشَامٌ عَنْ فَاطِمَةَ عَنْ أَسْمَاءَ أَنَّ امْرَأَةً أَتَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ إِحْدَانَا يُصِيبُ ثَوْبُهَا مِنْ دَمِ الْحَيْضَةِ قَالَ تَحُتُّهُ ثُمَّ لِتَقْرِضْهُ بِالْمَاءِ ثُمَّ تَنْضَحْهُ ثُمَّ تُصَلِّي فِيهِ-
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک عورت بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا یا رسول اللہ! اگر کسی عورت کے جسم (یاکپڑوں ) پر دم حیض لگ جائے تو کیا حکم ہے؟ نبی علیہ السلام نے فرمایا اسے کھرچ دے، پھر پانی سے بہادے اور اسی میں نماز پڑھ لے۔
-
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا مُغِيرَةُ بْنُ زِيَادٍ عَنْ أَبِي عُمَرَ مَوْلَى أَسْمَاءَ قَالَ قَالَتْ أَسْمَاءُ يَا جَارِيَةُ نَاوِلِينِي جُبَّةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَأَخْرَجَتْ جُبَّةً مِنْ طَيَالِسَةٍ-
عبداللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت اسماء نے مجھے سبز رنگ کا ایک جبہ نکال کردکھایا اور بتایا کہ یہ جبہ نبی علیہ السلام زیب تن فرمایا کرتے تھے۔
-
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ قَالَ حَدَّثَنَا هِشَامٌ عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْمُنْذِرِ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ قَالَتْ نَحَرْنَا فَرَسًا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَكَلْنَا لَحْمَهُ أَوْ مِنْ لَحْمِهِ-
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ دور نبوت میں ایک مرتبہ ہم لوگوں نے ایک گھوڑا ذبح کیا تھا اور اسے کھایا بھی تھا۔
-
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ وَعَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ وَرْدٍ رَجُلَانِ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ سَمِعَاهُ مِنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ أَنَّهَا سَأَلَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ الزُّبَيْرِ رَجُلٌ شَدِيدٌ وَيَأْتِينِي الْمِسْكِينُ فَأَتَصَدَّقُ عَلَيْهِ مِنْ بَيْتِهِ بِغَيْرِ إِذْنِهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ارْضَخِي وَلَا تُوعِي فَيُوعِيَ اللَّهُ عَلَيْكِ-
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے نبی علیہ السلام سے عرض کیا کہ میرے پاس صدقہ کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں سوائے اس کے جو زبیرگھر میں لاتے ہیں ، نبی علیہ السلام نے فرمایا خرچ کیا کرو اور گن گن کر نہ رکھا کرو کہ تمہیں بھی گن گن کردیا جائے۔
-
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تُوعِي فَيُوعِيَ اللَّهُ عَلَيْكِ-
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی علیہ السلام نے فرمایا خرچ کیا کرو اور گن گن کر نہ رکھا کرو کہ تمہیں بھی گن گن کردیا جائے۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ حَجَّاجٍ عَنْ أَبِي عُمَرَ مَوْلَى أَسْمَاءَ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَتْ لَهُ جُبَّةٌ مِنْ طَيَالِسَةٍ مَكْفُوفَةٍ بِالدِّيبَاجِ يَلْقَى فِيهَا الْعَدُوَّ-
عبداللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت اسماء نے مجھے سبز رنگ کا ایک جبہ نکال کر دکھایا جس میں بالشت بھر کسروانی ریشم کی دھاریاں پڑی ہوئی تھیں ، اور اس کے دونوں کف ریشم کے بنے ہوئے تھے، انہوں نے بتایا کہ یہ جبہ نبی علیہ السلام زیب تن فرمایا کرتے تھے۔
-
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ قَالَ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ قَالَ حَدَّثَتْنِي أَسْمَاءُ بِنْتُ أَبِي بَكْرٍ قَالَتْ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا لِي شَيْءٌ إِلَّا مَا أَدْخَلَ الزُّبَيْرُ عَلَى بَيْتِي فَأُعْطِي مِنْهُ قَالَ أَعْطِي وَلَا تُوكِي فَيُوكِيَ اللَّهُ عَلَيْكِ حَدَّثَنَا رَوْحٌ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ قَالَ أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ أَنَّ عَبَّادَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ أَخْبَرَهُ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ نَحْوَهُ-
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے نبی علیہ السلام سے عرض کیا کہ میرے پاس صدقہ کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں سوائے اس کے جو زبیر گھر میں لاتے ہیں ، نبی علیہ السلام نے فرمایا خرچ کیا کرو اور گن گن کر نہ رکھا کرو کہ تمہیں بھی گن گن کردیا جائے۔گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے
-
حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ قَالَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ مَوْلَى أَسْمَاءَ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ قَالَتْ كَانَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جُبَّةٌ مِنْ طَيَالِسَةٍ لَبِنَتُهَا دِيبَاجٌ كِسْرَوَانِيٌّ-
عبداللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت اسماء نے مجھے سبز رنگ کا ایک جبہ نکال کر دکھایا جس میں بالشت بھر کسروانی ریشم کی دھاریاں پڑی ہوئی تھیں۔
-
حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ عَنْ هِشَامٍ عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْمُنْذِرِ عَنْ أَسْمَاءَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهَا أَنْفِقِي أَوْ انْضَحِي وَلَا تُحْصِي فَيُحْصِيَ اللَّهُ عَلَيْكِ أَوْ لَا تُوعِي فَيُوعِيَ اللَّهُ عَلَيْكِ-
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ نبی علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا سخاوت اور فیاضی کیا کرو اور خرچ کیا کرو جمع مت کیا کرو ورنہ اللہ بھی تم پر جمع کرنے لگے گا اور گن گن کر نہ خرچ کیا کرو کہ تمہیں بھی اللہ گن گن کردینا شروع کردے گا۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْمُنْذِرِ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ وَكَانَتْ مُحْصِيَةً وَعَنِ عَبَّادِ بْنِ حَمْزَةَ عَنْ أَسْمَاءَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهَا أَنْفِقِي أَوْ انْضَخِي أَوْ انْفَحِي هَكَذَا وَهَكَذَا وَلَا تُوعِي فَيُوعِيَ اللَّهُ عَلَيْكِ وَلَا تُحْصِي فَيُحْصِي اللَّهُ عَلَيْكِ-
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ نبی علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا سخاوت اور فیاضی کیا کرو اور خرچ کیا کرو جمع مت کیا کرو ورنہ اللہ بھی تم پر جمع کرنے لگے گا اور گن گن کر نہ خرچ کیا کرو کہ تمہیں بھی اللہ گن گن کردینا شروع کردے گا۔
-
حَدَّثَنَا سُرَيْجُ بْنُ النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ قَالَتْ خَسَفَتْ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَمِعْتُ رَجَّةَ النَّاسِ وَهُمْ يَقُولُونَ آيَةٌ وَنَحْنُ يَوْمَئِذٍ فِي فَازِعٍ فَخَرَجْتُ مُتَلَفِّعَةً بِقَطِيفَةٍ لِلزُّبَيْرِ حَتَّى دَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَائِمٌ يُصَلِّي لِلنَّاسِ فَقُلْتُ لِعَائِشَةَ مَا لِلنَّاسِ فَأَشَارَتْ بِيَدِهَا إِلَى السَّمَاءِ قَالَتْ فَصَلَّيْتُ مَعَهُمْ وَقَدْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَغَ مِنْ سَجْدَتِهِ الْأُولَى قَالَتْ فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِيَامًا طَوِيلًا حَتَّى رَأَيْتُ بَعْضَ مَنْ يُصَلِّي يَنْتَضِحُ بِالْمَاءِ ثُمَّ رَكَعَ فَرَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا ثُمَّ قَامَ وَلَمْ يَسْجُدْ قِيَاما طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ رُكُوعِهِ الْأَوَّلِ ثُمَّ سَجَدَ ثُمَّ سَلَّمَ وَقَدْ تَجَلَّتْ الشَّمْسُ ثُمَّ رَقِيَ الْمِنْبَرَ ثُمَّ قَالَ أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَا يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ فَإِذَا رَأَيْتُمْ ذَلِكَ فَافْزَعُوا إِلَى الصَّلَاةِ وَإِلَى الصَّدَقَةِ وَإِلَى ذِكْرِ اللَّهِ أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّهُ لَمْ يَبْقَ شَيْءٌ لَمْ أَكُنْ رَأَيْتُهُ إِلَّا وَقَدْ رَأَيْتُهُ فِي مَقَامِي هَذَا وَقَدْ أُرِيتُكُمْ تُفْتَنُونَ فِي قُبُورِكُمْ يُسْأَلُ أَحَدُكُمْ مَا كُنْتَ تَقُولُ وَمَا كُنْتَ تَعْبُدُ فَإِنْ قَالَ لَا أَدْرِي رَأَيْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ شَيْئًا فَقُلْتُهُ وَيَصْنَعُونَ شَيْئًا فَصَنَعْتُهُ قِيلَ لَهُ أَجَلْ عَلَى الشَّكِّ عِشْتَ وَعَلَيْهِ مِتَّ هَذَا مَقْعَدُكَ مِنْ النَّارِ وَإِنْ قَالَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ قِيلَ عَلَى الْيَقِينِ عِشْتَ قَالَ مِتَّ هَذَا مَقْعَدُكَ مِنْ الْجَنَّةِ وَقَدْ رَأَيْتُ خَمْسِينَ أَوْ سَبْعِينَ أَلْفًا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ فِي مِثْلِ صُورَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ فَقَالَ ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ قَالَ اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ مِنْهُمْ أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّكُمْ لَنْ تَسْأَلُونِي عَنْ شَيْءٍ حَتَّى أَنْزِلَ إِلَّا أَخْبَرْتُكُمْ بِهِ فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ مَنْ أَبِي قَالَ أَبُوكَ فُلَانٌ الَّذِي كَانَ يُنْسَبُ إِلَيْهِ-
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی علیہ السلام کے دور باسعادت میں سورج گرہن ہو گیا، اس دن میں حضرت عائشہ کے یہاں گئی، تو ان سے پوچھا کہ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ اسوقت نماز پڑھ رہے ہیں ؟ انہوں نے اپنے سر سے آسمان کی طرف اشارہ کردیا میں نے پوچھا کہ کیا کوئی نشانی ظاہر ہوئی ہے؟ انہوں نے کہا ہاں اس موقع پر نبی علیہ السلام نے طویل قیام کیا حتی کہ مجھ پر غشی طاری ہوگئی، میں نے اپنے پہلو میں رکھے ہوئے ایک مشکیزے کو پکڑا اور اس سے اپنے سر پر پانی بہانے لگی نبی علیہ السلام نے نماز سے جب سلام پھیرا تو سورج گرہن ختم ہوچکا تھا ۔پھر نبی علیہ السلام نے خطبہ ارشاد فرمایا اور اللہ کی حمد وثناء کرنے کے بعد فرمایا حمد وصلوۃ کے بعد! اب تک میں نے جو چیزیں نہیں دیکھی تھیں وہ اپنے اس مقام پر آج دیکھ لیں حتی کہ جنت اور جہنم کو بھی دیکھ لیا مجھے یہ وحی کی گئی ہے کہ تم لوگوں کو اپنی قبروں میں مسیح دجال کے برابریا اس کے قریب قریب فتنے میں مبتلا کیا جائے گا تمہارے پاس فرشتے آئیں گے اور پوچھیں گے کہ اس آدمی کے متعلق تم کیا جانتے ہو؟ تو جو مؤمن ہوگا وہ جواب دے گا کہ وہ محمد رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) تھے اور ہمارے پاس واضح معجزات اور ہدایت لے کر آئے ہم نے ان کی پکار پر لبک کہا اور ان کی اتباع کی (تین مرتبہ) اس سے کہا جائے گا ہم جانتے تھے کہ تو اس پر ایمان رکھتا ہے لہذا سکون کے ساتھ سوجاؤ! اور جو منافق ہوگا تو وہ کہے گا میں نہیں جانتا میں لوگوں کو کچھ کہتے ہوئے سنتا تھا وہی میں بھی کہہ دیتا تھا ، اور میں نے پچاس یا ستر ہزار ایسے آدمی دیکھے جو جنت میں چودھویں رات کے چاند کی طرح داخل ہوں گے، ایک آدمی نے اٹھ کر عرض کیا اللہ سے دعاء کردیجئے کہ وہ مجھ کو بھی ان میں شامل کردے، نبی علیہ السلام نے فرمایا اے اللہ اسے بھی ان میں شامل فرمادے، اے لوگوں اس وقت تم میرے منبر سے اترنے سے پہلے جو سوال بھی کرو گے میں تمہیں اس کا جواب ضروردوں گا، ایک آدمی نے کھڑے ہو کر پوچھا کہ میرا باپ کون ہے؟ نبی علیہ السلام نے فرمایا تیرا باپ فلاں آدمی ہے جس کی طرف اس کی نسبت کی جاتی تھی۔
-
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ بَابٍ عَنْ حَجَّاجٍ عَنْ أَبِي عُمَرَ خَتَنٌ كَانَ لِعَطَاءٍ أَخْرَجَتْ لَنَا أَسْمَاءُ جُبَّةً مَزْرُورَةً بِدِيبَاجٍ قَالَتْ قَدْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا لَقِيَ الْحَرْبَ لَبِسَ هَذِهِ-
عبداللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت اسماء نے مجھے سبز رنگ کا ایک جبہ نکال کر دکھایا جس میں بالشت بھر کسروانی ریشم کی دھاریاں پڑی ہوئی تھیں اور اس کے دونوں کف ریشم کے بنے ہوئے تھے، انہوں نے بتایا کہ یہ جبہ نبی علیہ السلام زیب تن فرمایا کرتے تھے۔
-
حَدَّثَنَا عَفَّانُ قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ قَالَ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ قَالَتْ قَدِمَتْ عَلَيَّ أُمِّي وَهِيَ رَاغِبَةٌ وَهِيَ مُشْرِكَةٌ فِي عَهْدِ قُرَيْشٍ وَمُدَّتِهِمْ الَّتِي كَانَتْ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أُمِّي قَدِمَتْ عَلَيَّ وَهِيَ رَاغِبَةٌ وَهِيَ مُشْرِكَةٌ أَفَأَصِلُهَا قَالَ صِلِيهَا قَالَ وَأَظُنُّهَا ظِئْرَهَا-
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میری والدہ قریش سے معاہدے کے زمانے میں آئی، اس وقت وہ مشرک اور ضرورت مند تھیں ، میں نے نبی علیہ السلام سے پوچھا کیا میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کرسکتی ہوں؟ نبی علیہ السلام نے فرمایا ہاں اپنی والدہ سے صلہ رحمی کرو۔
-
حَدَّثَنَا عَتَّابٌ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ أَخْبَرَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ نَوْفَلٍ عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْمُنْذِرِ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ قَالَتْ كُنَّا نُؤَدِّي زَكَاةَ الْفِطْرِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُدَّيْنِ مِنْ قَمْحٍ بِالْمُدِّ الَّذِي تَقْتَاتُونَ بِهِ-
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی علیہ السلام کے دور باسعادت میں گندم کے دومد صدقہ فطر کے طور پر ادا کرتے تھے، اس مد کی پیمائش کے مطابق جس سے تم پیمائش کرتے ہو۔
-