حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کی مرویات

حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ الرَّبِيعِ أَبُو خِدَاشٍ حَدَّثَنَا وَاصِلٌ مَوْلَى أَبِي عُيَيْنَةَ عَنْ بَشَّارِ بْنِ أَبِي سَيْفٍ الْجَرْمِيِّ عَنْ عِيَاضِ بْنِ غُطَيْفٍ قَالَ دَخَلْنَا عَلَى أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ نَعُودُهُ مِنْ شَكْوًى أَصَابَهُ وَامْرَأَتُهُ تُحَيْفَةُ قَاعِدَةٌ عِنْدَ رَأْسِهِ قُلْتُ كَيْفَ بَاتَ أَبُو عُبَيْدَةَ قَالَتْ وَاللَّهِ لَقَدْ بَاتَ بِأَجْرٍ فَقَالَ أَبُو عُبَيْدَةَ مَا بِتُّ بِأَجْرٍ وَكَانَ مُقْبِلًا بِوَجْهِهِ عَلَى الْحَائِطِ فَأَقْبَلَ عَلَى الْقَوْمِ بِوَجْهِهِ فَقَالَ أَلَا تَسْأَلُونَنِي عَمَّا قُلْتُ قَالُوا مَا أَعْجَبَنَا مَا قُلْتَ فَنَسْأَلُكَ عَنْهُ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ أَنْفَقَ نَفَقَةً فَاضِلَةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبِسَبْعِ مِائَةٍ وَمَنْ أَنْفَقَ عَلَى نَفْسِهِ وَأَهْلِهِ أَوْ عَادَ مَرِيضًا أَوْ مَازَ أَذًى فَالْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا وَالصَّوْمُ جُنَّةٌ مَا لَمْ يَخْرِقْهَا وَمَنْ ابْتَلَاهُ اللَّهُ بِبَلَاءٍ فِي جَسَدِهِ فَهُوَ لَهُ حِطَّةٌ-
عیاض بن غطیف کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ بیمار ہوگئے، ہم ان کی عیادت کے لئے گئے تو ان کی اہلیہ جن کا نام تحیفہ تھا ان کے سر کے قریب بیٹھی ہوئی تھیں، ہم نے ان سے پوچھا کہ ان کی رات کیسی گذری؟ انہوں نے کہا بخدا! انہوں نے ساری رات اجروثواب کے ساتھ گذاری ہے، حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ میں نے ساری رات اجر کے ساتھ نہیں گذاری، پہلے ان کے چہرے کا رخ دیوار کی طرف تھا، اب انہوں نے اپنا چہرہ لوگوں کی طرف کر لیا اور فرمایا کہ میں نے جو بات کہی ہے، تم اس کے متعلق مجھ سے سوال نہیں کرتے؟ لوگوں نے کہا کہ ہمیں آپ کی بات پر تعجب ہوتا تو آپ سے سوال کرتے، انہوں نے فرمایا کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص اللہ کی راہ میں اپنی زائد چیز خرچ کر دے اس کا ثواب سات سو گنا ہوگا ، جو اپنی ذات اور اپنے اہل خانہ پر خرچ کرے، کسی بیمار کی عیادت کرے یا کسی تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹا دے تو ہر نیکی کا بدلہ دس نیکیاں ہونگی اور روزہ ڈھال ہے بشرطیکہ اسے انسان پھاڑ نہ دے اور جس شخص کو اللہ جسمانی طور پر کسی آزمائش میں مبتلا کرے وہ اس کے لئے بخشش کا سبب بن جاتی ہے۔
-
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَيْمُونٍ حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ قَالَ آخِرُ مَا تَكَلَّمَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْرِجُوا يَهُودَ أَهْلِ الْحِجَازِ وَأَهْلِ نَجْرَانَ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ وَاعْلَمُوا أَنَّ شِرَارَ النَّاسِ الَّذِينَ اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ-
حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے آخری کلام یہ تھا کہ حجاز میں جو یہودی آباد ہیں اور جزیرہ عرب میں جو اہل نجران آباد ہیں انہیں نکال دو اور جان لو کہ بد ترین لوگ وہ ہیں جو اپنے انبیاء علیہم السلام کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیتے ہیں ۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ خَالِدٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سُرَاقَةَ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ ذَكَرَ الدَّجَّالَ فَحَلَّاهُ بِحِلْيَةٍ لَا أَحْفَظُهَا قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ قُلُوبُنَا يَوْمَئِذٍ كَالْيَوْمِ فَقَالَ أَوْ خَيْرٌ-
حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کا تذکرہ فرمایا اور اس کی ایسی صفات بیان فرمائیں جو مجھے اب یاد نہیں ہیں ، البتہ اتنی بات یاد ہے کہ لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اس وقت آج کی نسبت ہمارے دلوں کی کیفیت کیا ہوگی؟ فرمایا کہ آج سے بہتر ہوگی۔
-
حَدَّثَنَا عَفَّانُ وَعَبْدُ الصَّمَدِ قَالَا حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ أَنْبَأَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سُرَاقَةَ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّهُ لَمْ يَكُنْ نَبِيٌّ بَعْدَ نُوحٍ إِلَّا وَقَدْ أَنْذَرَ الدَّجَّالَ قَوْمَهُ وَإِنِّي أُنْذِرُكُمُوهُ قَالَ فَوَصَفَهُ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَلَعَلَّهُ يُدْرِكُهُ بَعْضُ مَنْ رَآنِي أَوْ سَمِعَ كَلَامِي قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ قُلُوبُنَا يَوْمَئِذٍ أَمِثْلُهَا الْيَوْمَ قَالَ أَوْ خَيْرٌ-
حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے بعد ہر آنے والے نبی نے اپنی اپنی قوم کو دجال سے ڈرایا ہے اور میں بھی تمہیں اس سے ڈرا رہا ہوں، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے اس کی کچھ صفات بیان فرمائیں اور فرمایا ہوسکتا ہے کہ مجھے دیکھنے والا یا میری باتیں سننے والا کوئی شخص اسے پالے، لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ہمارے دلوں کی کیفیت کیا ہوگی؟ کیا آج کی طرح ہوں گے؟ فرمایا بلکہ اس سے بھی بہتر کیفیت ہوگی۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَيْمُونٍ عَنْ سَعْدِ بْنِ سَمُرَةَ عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ قَالَ كَانَ آخِرُ مَا تَكَلَّمَ بِهِ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَخْرِجُوا يَهُودَ الْحِجَازِ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ وَاعْلَمُوا أَنَّ شِرَارَ النَّاسِ الَّذِينَ يَتَّخِذُونَ الْقُبُورَ مَسَاجِدَ-
حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے آخری کلام یہ تھا کہ حجاز میں جو یہودی آباد ہیں اور جزیرہ عرب میں جو اہل نجران آباد ہیں انہیں نکال دو، اور جان لوکہ بد ترین لوگ وہ ہیں جو اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیتے ہیں ۔
-
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عُمَرَ حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ عَنِ الْحَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاةَ عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ أَبِي مَالِكٍ عَنِ الْقَاسِمِ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ أَجَارَ رَجُلٌ مِنْ الْمُسْلِمِينَ رَجُلًا وَعَلَى الْجَيْشِ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ فَقَالَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ وَعَمْرُو بْنُ الْعَاصِ لَا نُجِيرُهُ وَقَالَ أَبُو عُبَيْدَةَ نُجِيرُهُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ يُجِيرُ عَلَى الْمُسْلِمِينَ أَحَدُهُمْ-
حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مسلمان نے کسی شخص کو پناہ دے دی، اس وقت امیرلشکر حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ تھے، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اور حضرت عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ اسے پناہ نہ دی جائے، لیکن حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم اسے پناہ دیں گے، کیونکہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سناہے کہ کوئی بھی شخص کسی کبھی شخص کو مسلمانوں پر پناہ دے سکتا ہے۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو حِسْبَةَ مُسْلِمُ بْنُ أُكَيْسٍ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرٍ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ قَالَ ذَكَرَ مَنْ دَخَلَ عَلَيْهِ فَوَجَدَهُ يَبْكِي فَقَالَ مَا يُبْكِيكَ يَا أَبَا عُبَيْدَةَ فَقَالَ نَبْكِي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَ يَوْمًا مَا يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَى الْمُسْلِمِينَ وَيُفِيءُ عَلَيْهِمْ حَتَّى ذَكَرَ الشَّامَ فَقَالَ إِنْ يُنْسَأْ فِي أَجَلِكَ يَا أَبَا عُبَيْدَةَ فَحَسْبُكَ مِنْ الْخَدَمِ ثَلَاثَةٌ خَادِمٌ يَخْدُمُكَ وَخَادِمٌ يُسَافِرُ مَعَكَ وَخَادِمٌ يَخْدُمُ أَهْلَكَ وَيَرُدُّ عَلَيْهِمْ وَحَسْبُكَ مِنْ الدَّوَابِّ ثَلَاثَةٌ دَابَّةٌ لِرَحْلِكَ وَدَابَّةٌ لِثَقَلِكَ وَدَابَّةٌ لِغُلَامِكَ ثُمَّ هَذَا أَنَا أَنْظُرُ إِلَى بَيْتِي قَدْ امْتَلَأَ رَقِيقًا وَأَنْظُرُ إِلَى مِرْبَطِي قَدْ امْتَلَأَ دَوَابَّ وَخَيْلًا فَكَيْفَ أَلْقَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ هَذَا وَقَدْ أَوْصَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ أَحَبَّكُمْ إِلَيَّ وَأَقْرَبَكُمْ مِنِّي مَنْ لَقِيَنِي عَلَى مِثْلِ الْحَالِ الَّذِي فَارَقَنِي عَلَيْهَا-
ایک مرتبہ ایک صاحب حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ سے ملنے کے لئے آئے تو دیکھا کہ وہ رو رہے ہیں، انہوں نے ان سے رونے کی وجہ پوچھی تو حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں اس لئے رو رہا ہوں کہ ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ملنے والی فتوحات اور حاصل ہونے والے مال غنیمت کا تذکرہ کیا، اس دوران شام کا تذکرہ بھی ہوا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ملنے والی فتوحات اور حاصل ہونے والے مال غنیمت کا تذکرہ کیا، اس دوران شام کا تذکرہ بھی ہوا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا ابو عبیدہ! اگر تمہیں زندگی مل جائے تو صرف تین خادموں کو اپنے لیے کافی سمجھنا، ایک اپنے لئے، ایک اپنے ساتھ سفر کرنے کے لئے اور ایک اپنے اہل خانہ کے لئے جو ان کی خدمت کرے اور ان کی ضروریات مہیا کرے اور تین سواریوں کو اپنے لئے کافی سمجھنا، ایک جانور تو اپنی سواری کے لئے، ایک اپنے سامان اور بار برداری کے لئے اور ایک اپنے غلام کے لئے۔ لیکن اب میں اپنے گھر پر نظر ڈالتا ہوں تو یہ مجھے غلاموں سے بھرا ہوا دکھائی دیتا ہے ، میں اپنے اصطبل کی طرف نگاہ دوڑاتا ہوں تو وہ مجھے سواریوں اور گھوڑوں سے بھرا ہوا دکھائی دیتا ہے، اس صورت میں، میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سامنا کس منہ سے کروں گا؟ جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ وصیت فرمائی تھی کہ میری نگاہوں میں تم میں سب سے زیادہ محبوب اور میرے قریب ترین وہ شخص ہوگا جو مجھ سے اسی حال میں آکر ملاقات کرے جس کیفیت پر وہ مجھ سے جدا ہوا تھا۔
-
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِي أَبَانُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ الْأَشْعَرِيِّ عَنْ رَابِّهِ رَجُلٍ مِنْ قَوْمِهِ كَانَ خَلَفَ عَلَى أُمِّهِ بَعْدَ أَبِيهِ كَانَ شَهِدَ طَاعُونَ عَمَوَاسَ قَالَ لَمَّا اشْتَعَلَ الْوَجَعُ قَامَ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ فِي النَّاسِ خَطِيبًا فَقَالَ أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ هَذَا الْوَجَعَ رَحْمَةُ رَبِّكُمْ وَدَعْوَةُ نَبِيِّكُمْ وَمَوْتُ الصَّالِحِينَ قَبْلَكُمْ وَإِنَّ أَبَا عُبَيْدَةَ يَسْأَلُ اللَّهَ أَنْ يَقْسِمَ لَهُ مِنْهُ حَظَّهُ قَالَ فَطُعِنَ فَمَاتَ رَحِمَهُ اللَّهُ وَاسْتُخْلِفَ عَلَى النَّاسِ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ فَقَامَ خَطِيبًا بَعْدَهُ فَقَالَ أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ هَذَا الْوَجَعَ رَحْمَةُ رَبِّكُمْ وَدَعْوَةُ نَبِيِّكُمْ وَمَوْتُ الصَّالِحِينَ قَبْلَكُمْ وَإِنَّ مُعَاذًا يَسْأَلُ اللَّهَ أَنْ يَقْسِمَ لِآلِ مُعَاذٍ مِنْهُ حَظَّهُ قَالَ فَطُعِنَ ابْنُهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُعَاذٍ فَمَاتَ ثُمَّ قَامَ فَدَعَا رَبَّهُ لِنَفْسِهِ فَطُعِنَ فِي رَاحَتِهِ فَلَقَدْ رَأَيْتُهُ يَنْظُرُ إِلَيْهَا ثُمَّ يُقَبِّلُ ظَهْرَ كَفِّهِ ثُمَّ يَقُولُ مَا أُحِبُّ أَنَّ لِي بِمَا فِيكِ شَيْئًا مِنْ الدُّنْيَا فَلَمَّا مَاتَ اسْتُخْلِفَ عَلَى النَّاسِ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ فَقَامَ فِينَا خَطِيبًا فَقَالَ أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ هَذَا الْوَجَعَ إِذَا وَقَعَ فَإِنَّمَا يَشْتَعِلُ اشْتِعَالَ النَّارِ فَتَجَبَّلُوا مِنْهُ فِي الْجِبَالِ قَالَ فَقَالَ لَهُ أَبُو وَاثِلَةَ الْهُذَلِيُّ كَذَبْتَ وَاللَّهِ لَقَدْ صَحِبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنْتَ شَرٌّ مِنْ حِمَارِي هَذَا قَالَ وَاللَّهِ مَا أَرُدُّ عَلَيْكَ مَا تَقُولُ وَايْمُ اللَّهِ لَا نُقِيمُ عَلَيْهِ ثُمَّ خَرَجَ وَخَرَجَ النَّاسُ فَتَفَرَّقُوا عَنْهُ وَدَفَعَهُ اللَّهُ عَنْهُمْ قَالَ فَبَلَغَ ذَلِكَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ مِنْ رَأْيِ عَمْرٍو فَوَاللَّهِ مَا كَرِهَهُ قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ عَبْد اللَّهِ بْن أَحْمَد بْن حَنْبَلٍ أَبَانُ بْنُ صَالِحٍ جَدُّ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ مُشْكُدَانَةَ-
طاعون عمواس کے واقعے کے ایک عینی شاہد کا بیان ہے کہ جب حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کی تکلیف شدت اختیار کر گئی تو وہ لوگوں کے سامنے خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے اور فرمایا لوگو! یہ تکلیف تمہارے رب کی رحمت، تمہارے نبی کی دعوت اور تم سے پہلے صالحین کی موت رہ چکی ہے اور ابو عبیدہ اللہ سے دعاء کرتا ہے کہ اسے اس میں سے اس کا حصہ عطاء کیا جائے، چنانچہ اسی طاعون کی وباء میں وہ شہید ہوگئے۔ رحمۃ اللہ علیہ۔ ان کے بعد حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے ان کیا نیابت سنبھالی اور خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا لوگو! یہ تکلیف تمہارے رب کی رحمت، تمہارے نبی کی دعوت اور تم سے پہلے صالحین کی موت رہ چکی ہے اور معاذ، اللہ سے دعاء کرتا ہے کہ آل معاذ کو بھی اس میں سے حصہ عطاء کیا جائے، چنانچہ ان کے صاحبزادے عبدالرحمن اس مرض میں مبتلا ہو کر شہید ہوگئے اور حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے دوبارہ کھڑے ہو کر اپنے لئے دعاء کی چنانچہ ان کی ہتھیلی میں بھی طاعون کی گلٹی نکل آئی۔ میں نے انہیں دیکھا ہے کہ وہ طاعون کی اس گلٹی کو دیکھتے تھے اور اپنی ہتھیلی کو چومتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے کہ تیرے عوض مجھ پوری دنیا بھی مل جائے تو مجھے خوشی نہ ہوگی، بہرحال! وہ بھی شہید ہوگئے، ان کے بعد حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ان کے نائب مقرر ہوئے، انہوں نے کھڑے ہو کر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا لوگو! یہ تکلیف جب آجاتی ہے تو آگ کی طرح بھڑکنا شروع ہوجاتی ہے، اس لئے تم اس سے اپنی حفاظت کرتے ہوئے پہاڑوں میں چلے جاؤ۔ یہ سن کر ابو واثلہ ہذلی کہنے لگے کہ آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہونے کے باوجود صحیح بات نہیں کہہ رہے، بخدا! آپ میرے اس گدھے سے بھی زیادہ برے ہیں، انہوں نے فرمایا کہ میں آپ کی بات کا جواب نہیں دوں گا، لیکن بخدا! ہم اس حالت میں نہیں رہیں گے، چنانچہ وہ اس علاقے سے نکل گئے اور لوگ بھی نکل کر منتشر ہوگئے، اس طرح اللہ نے ان سے اس بیماری کو ٹالا، حضرت عمرو رضی اللہ عنہ کو یہ فیصلہ کرتے ہوئے دیکھنے والے کسی صاحب نے یہ بات حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بات بتائی تو انہوں نے اس پر کسی قسم کی ناگواری کا اظہار نہ کیا۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنْ دَاوُدَ عَنْ عَامِرٍ قَالَ بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَيْشَ ذَاتِ السُّلَاسِلِ فَاسْتَعْمَلَ أَبَا عُبَيْدَةَ عَلَى الْمُهَاجِرِينَ وَاسْتَعْمَلَ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ عَلَى الْأَعْرَابِ فَقَالَ لَهُمَا تَطَاوَعَا قَالَ وَكَانُوا يُؤْمَرُونَ أَنْ يُغِيرُوا عَلَى بَكْرٍ فَانْطَلَقَ عَمْرٌو فَأَغَارَ عَلَى قُضَاعَةَ لِأَنَّ بَكْرًا أَخْوَالُهُ فَانْطَلَقَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ إِلَى أَبِي عُبَيْدَةَ فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَعْمَلَكَ عَلَيْنَا وَإِنَّ ابْنَ فُلَانٍ قَدْ ارْتَبَعَ أَمْرَ الْقَوْمِ وَلَيْسَ لَكَ مَعَهُ أَمْرٌ فَقَالَ أَبُو عُبَيْدَةَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَنَا أَنْ نَتَطَاوَعَ فَأَنَا أُطِيعُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِنْ عَصَاهُ عَمْرٌو-
امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب جیش ذات السلاسل کو روانہ فرمایا تو حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو مہاجرین پر اور حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو دیہاتیوں پر امیر مقرر فرمایا اور دونوں سے فرمایا کہ ایک دوسرے کی بات ماننا، راوی کہتے ہیں کہ انہیں بنو بکر پر حملہ کرنے حکم دیا گیا تھا لیکن حضرت عمرو رضی اللہ عنہ بنو قضاعہ پر حملہ کر دیا کیونکہ بنو بکر سے ان کی رشتہ داری بھی تھی، یہ دیکھ کر حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کے پاس آکر کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ہم پر امیر مقرر کر کے بھیجا ہے جبکہ فلاں کا بیٹا لوگوں کے معاملات پر غالب آگیا ہے اور محسوس ایسا ہوتا ہے کہ آپکا حکم نہیں چلتا؟ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک دوسرے کی بات ماننے کا حکم دیا تھا، میں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی پیروی کرتا رہوں گا، خواہ عمرو نہ کریں ۔
-
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَيْمُونٍ مَوْلَى آلِ سَمُرَةَ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ سَعْدِ بْنِ سَمُرَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ قَالَ إِنَّ آخِرَ مَا تَكَلَّمَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَخْرِجُوا يَهُودَ أَهْلِ الْحِجَازِ وَأَهْلِ نَجْرَانَ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ-
حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے آخری کلام یہ تھا کہ حجاز میں جو یہودی آباد ہیں اور جزیرہ عرب میں جو اہل نجران آباد ہیں انہیں نکال دو۔
-
حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ أَنْبَأَنَا هِشَامٌ عَنْ وَاصِلٍ عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عِيَاضِ بْنِ غُطَيْفٍ قَالَ دَخَلْنَا عَلَى أَبِي عُبَيْدَةَ نَعُودُهُ قَالَ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ أَنْفَقَ نَفَقَةً فَاضِلَةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبِسَبْعِ مِائَةٍ وَمَنْ أَنْفَقَ عَلَى نَفْسِهِ أَوْ عَلَى أَهْلِهِ أَوْ عَادَ مَرِيضًا أَوْ مَازَ أَذًى عَنْ طَرِيقٍ فَهِيَ حَسَنَةٌ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا وَالصَّوْمُ جُنَّةٌ مَا لَمْ يَخْرِقْهَا وَمَنْ ابْتَلَاهُ اللَّهُ بَلَاءً فِي جَسَدِهِ فَهُوَ لَهُ حِطَّةٌ حَدَّثَنَا يَزِيدُ أَنْبَأَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ حَدَّثَنَا بَشَّارُ بْنُ أَبِي سَيْفٍ عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عِيَاضِ بْنِ غُطَيْفٍ قَالَ دَخَلْنَا عَلَى أَبِي عُبَيْدَةَ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ-
عیاض بن غطیف کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ بیمار ہوگئے، ہم ان کی عیادت کے لئے گئے تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص اللہ کی راہ میں اپنی زائد چیز خرچ کر دے اس کا ثواب سات سو گنا ہوگا، جو اپنی ذات اور اپنے اہل خانہ پر خرچ کرے، کسی بیمار کی عیادت کرے یا کسی تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹا دے تو ہر نیکی کا بدلہ دس نیکیاں ہوگی اور روزہ ڈھال ہے بشرطیکہ اسے انسان پھاڑ نہ دے اور جس شخص کو اللہ جسمانی طور پر کسی آزمائش میں مبتلا کرے، وہ اس کے لئے بخشش کا سبب بن جاتی ہے۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
-