TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مسند احمد
ا ب ج
حضرت ابوشریح خزاعی کعبی کی حدیثیں
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرٍو عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْخُزَاعِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُحْسِنْ إِلَى جَارِهِ مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ-
حضرت ابوشریح خزاعی کعبی سے مروی ہے کہ میں نے نبی علیہ السلام کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے اپنے مہمان کا اکرام کرنا چاہئے، اور جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہوا سے اپنے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہئے اور جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے اچھی بات کہنی چاہئے یا پھر خاموش رہنا چاہئے۔
-
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ قَالَ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ يَعْنِي الْمَقْبُرِيَّ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا شُرَيْحٍ الْكَعْبِيَّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ حَرَّمَ مَكَّةَ وَلَمْ يُحَرِّمْهَا النَّاسُ فَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا يَسْفِكَنَّ فِيهَا دَمًا وَلَا يَعْضِدَنَّ فِيهَا شَجَرًا فَإِنْ تَرَخَّصَ مُتَرَخِّصٌ فَقَالَ أُحِلَّتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ اللَّهَ أَحَلَّهَا لِي وَلَمْ يُحِلَّهَا لِلنَّاسِ وَهِيَ سَاعَتِي هَذِهِ حَرَامٌ إِلَى أَنْ تَقُومَ السَّاعَةُ إِنَّكُمْ مَعْشَرَ خُزَاعَةَ قَتَلْتُمْ هَذَا الْقَتِيلَ وَإِنِّي عَاقِلُهُ فَمَنْ قُتِلَ لَهُ قَتِيلٌ بَعْدَ مَقَالَتِي هَذِهِ فَأَهْلُهُ بَيْنَ خِيرَتَيْنِ إِمَّا أَنْ يَقْتُلُوا أَوْ يَأْخُذُوا الْعَقْلَ-
حضرت ابوشریح خزاعی کعبی سے مروی ہے کہ فتح مکہ کے دن نبی علیہ السلام نے فرمایا اللہ نے جس دن زمین و آسمان کو پیدا فرمایا تھا اسی دن مکہ مکرمہ کو حرم قرار دے دیا تھا ، لوگوں نے اسے حرم قرار نہیں دیا، لہذا وہ قیامت تک حرم ہی رہے گا، اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھنے والے کسی آدمی کے لئے اس میں خون ریزی کرنا، اور درخت کا ٹنا جائز نہیں ہے، اور جو شخص تم سے کہے کہ نبی علیہ السلام نے بھی تو مکہ مکرمہ میں قتال کیا تھا تو کہہ دینا کہ اللہ نے نبی علیہ السلام کے لئے اسے حلال کیا تھا تمہارے لئے نہیں کیا، اے گروہ خزاعہ! اس سے پہلے تو تم نے جس شخص کو قتل کردیا ہے، میں اس کی دیت دیدوں گا، لیکن اس جگہ پر میرے کھڑے ہونے کے بعد جو شخص کسی کو قتل کرے گا تو مقتول کے ورثاء کو دو میں سے کسی ایک بات کا اختیار ہوگا یا تو قاتل سے قصاص لے لیں یا پھر دیت لے لیں ۔
-
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا مَالِكٌ قَالَ حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْكَعْبِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ جَارَهُ مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ جَائِزَتُهُ يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ الضِّيَافَةُ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ فَمَا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ فَهُوَ صَدَقَةٌ لَا يَحِلُّ لَهُ أَنْ يَثْوِيَ عِنْدَهُ حَتَّى يُخْرِجَهُ-
حضرت ابوشریح خزاعی سے مروی ہے کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا اور جوشخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے اپنے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہئے، اور جوشخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے اپنے مہمان کا اکرام جائزہ سے کرنا چاہئے، صحابہ کرام نے پوچھا یا رسول اللہ! جائزہ سے کیا مراد ہے؟ نبی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا ضیافت تین دن تک ہوتی ہے اور جائزہ(پرتکلف دعوت) صرف ایک دن رات تک ہوتی ہے اس سے زیادہ جو ہو گا وہ اس پر صدقہ ہوگا اور جو شخص اور جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے اچھی بات کہنی چاہئے یا پھر خاموش رہنا چاہئے اور کسی آدمی کے لئے جائز نہیں ہے کہ کسی شخص کے یہاں اتنا عرصہ ٹھہرے کہ اسے گناہگار کردے۔
-
حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ قَالَ أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ عَنِ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْكَعْبِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَاللَّهِ لَا يُؤْمِنُ وَاللَّهِ لَا يُؤْمِنُ وَاللَّهِ لَا يُؤْمِنُ قَالُوا وَمَا ذَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ الْجَارُ لَا يَأْمَنُ جَارُهُ بَوَائِقَهُ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا بَوَائِقُهُ قَالَ شَرُّهُ-
حضرت ابوشریح سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی علیہ السلام نے تین مرتبہ قسم کھا کر یہ جملہ دہرایا کہ وہ شخص مؤمن نہیں ہوسکتا، صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ کون فرمایا جس کے پڑوسی اس کے بوائق سے محفوظ نہ ہوں ، صحابہ نے بوائق کا معنی پوچھا تو فرمایا شر۔
-
حَدَّثَنَا صَفْوَانُ قَالَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي شُرَيْحِ بْنِ عَمْرٍو الْخُزَاعِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِيَّاكُمْ وَالْجُلُوسَ عَلَى الصُّعُدَاتِ فَمَنْ جَلَسَ مِنْكُمْ عَلَى الصَّعِيدِ فَلْيُعْطِهِ حَقَّهُ قَالَ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا حَقُّهُ قَالَ غُضُوضُ الْبَصَرِ وَرَدُّ التَّحِيَّةِ وَأَمْرٌ بِمَعْرُوفٍ وَنَهْيٌ عَنْ مُنْكَرٍ-
حضرت ابوشریح سے مروی ہے کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا راستوں میں بیٹھنے سے اجتناب کیا کرو، جو شخص وہاں بیٹھ ہی جائے تو اس کا حق بھی ادا کرے، ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ اس کا حق کیا ہے؟ نبی علیہ السلام نے فرمایا نگاہیں جھکا کر رکھنا، سلام کا جواب دینا، امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ قَالَ حَدَّثَنَا لَيْثٌ قَالَ حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيُّ عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْعَدَوِيِّ أَنَّهُ قَالَ لِعَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ وَهُوَ يَبْعَثُ الْبُعُوثَ إِلَى مَكَّةَ ائْذَنْ لِي أَيُّهَا الْأَمِيرُ أُحَدِّثْكَ قَوْلًا قَامَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْغَدَ مِنْ يَوْمِ الْفَتْحِ سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ وَوَعَاهُ قَلْبِي وَأَبْصَرَتْهُ عَيْنَايَ حَيْثُ تَكَلَّمَ بِهِ أَنَّهُ حَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ إِنَّ مَكَّةَ حَرَّمَهَا اللَّهُ وَلَمْ يُحَرِّمْهَا النَّاسُ فَلَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَسْفِكَ فِيهَا دَمًا وَلَا يَعْضِدَ فِيهَا شَجَرَةً فَإِنْ أَحَدٌ تَرَخَّصَ بِقِتَالِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا فَقُولُوا إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَذِنَ لِرَسُولِهِ وَلَمْ يَأْذَنْ لَكُمْ وَإِنَّمَا أَذِنَ لِي فِيهَا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ وَقَدْ عَادَتْ حُرْمَتُهَا الْيَوْمَ كَحُرْمَتِهَا بِالْأَمْسِ فَلْيُبَلِّغْ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ فَقِيلَ لِأَبِي شُرَيْحٍ مَا قَالَ لَكَ عَمْرٌو قَالَ قَالَ أَنَا أَعْلَمُ بِذَلِكَ مِنْكَ يَا أَبَا شُرَيْحٍ إِنَّ الْحَرَمَ لَا يُعِيذُ عَاصِيًا وَلَا فَارًّا بِدَمٍ وَلَا فَارًّا بِجِزْيَةٍ وَكَذَلِكَ قَالَ حَجَّاجٌ بِجِزْيَةٍ وَقَالَ يَعْقُوبُ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ وَلَا مَانِعَ جِزْيَةٍ-
حضرت ابوشریح سے مروی ہے کہ جب عمروبن سعید نے حضرت عبداللہ بن زبیر سے مقابلے کے لئے مکہ مکرمہ کی طرف اپنا لشکر بھیجنے کا ارادہ کیا تو وہ اس کے پاس گئے، اس سے بات کی اور اسے نبی علیہ السلام کا فرمان سنایا، پھر اپنی قوم کی مجلس میں آکر بیٹھ گئے، میں بھی ان کے پاس جا کر بیٹھ گیا، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث اور پھر عمرو بن سعید کا جواب بیان کرتے ہوئے فرمایا میں نے اس سے کہا کہ اے فلاں ! فتح مکہ کے موقع پر ہم لوگ نبی علیہ السلام کے ہمراہ تھے فتح مکہ سے اگلے دن بنوغزاعہ نے بنوہذیل کے ایک آدمی پر حملہ کرکے اسے قتل کردیا، وہ مقتول مشرک تھا، نبی علیہ السلام ہمارے درمیان خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے اور فرمایا لوگو! اللہ نے جس دن زمین و آسمان کو پیدا فرمایا تھا، اسی دن مکہ مکرمہ کو حرم قرار دیدیا تھا لہذا وہ قیامت تک حرم ہی رہے گا اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھنے والے کسی آدمی کے لئے اس میں خون ریزی کرنا اور درخت کاٹنا جائز نہیں ہے، یہ مجھ سے پہلے نہ کسی کے لئے حلال تھا اور نہ میرے بعد کسی کے لئے حلال ہوگا، اور میرے لئے بھی صرف اس مختصر وقت کے لئے حلال تھا جس کی وجہ یہاں کے لوگوں پر اللہ کا غضب تھا، یاد رکھو کہ اب اس کی حرمت لوٹ کر کل گزشتہ کی طرح ہوچکی ہے، یاد رکھو تم میں سے جو لوگ موجود یں وہ غائبین تک یہ بات پہنچادیں اور جو شخص تم سے کہے کہ نبی علیہ السلام نے بھی تو مکہ مکرمہ میں قتال کیا تھا تو کہہ دینا کہ اللہ نے نبی علیہ السلام کے لئے اسے حلال کیا تھا تمہارے لئے نہیں کیا اے گروہ خزاعہ! اب قتل سے اپنے ہاتھ اٹھالو کہ بہت ہوچکا ، اس سے پہلے تو تم نے جس شخص کو قتل کردیا ہے، میں اس کی دیت دے دوں گا، لیکن اس جگہ پر میرے کھڑے ہونے کے بعد جو شخص کسی کو قتل کرے گا تو مقتول کے ورثاء کو دو میں سے ایک بات کا اختیار ہوگا یا تو قاتل سے قصاص لے لیں یا پھر دیت لے لیں ، اس کے بعد نبی علیہ السلام نے اس آدمی کی دیت ادا کردی جسے بنوخزاعہ نے قتل کردیا تھا یہ حدیث سن کر عمروبن سعید نے حضرت ابوشریح سے کہا بڑے میاں آپ واپس چلے جائیں ہم اس کی حرمت آپ سے زیادہ جانتے ہیں ، یہ حرمت کسی خون ریزی کرنیوالے، اطاعت چھوڑنے والے اور جزیہ روکنے والے کی حفاظت نہیں کرسکتی، میں نے اس سے کہا کہ میں اس موقع پر موجود تھا، تم غائب تھے، اور ہمیں نبی علیہ السلام نے غائبین تک اسے پہنچانے کا حکم دیا تھا ، سو میں نے تم تک یہ حکم پہنچادیا، اب تم جانو اور تمہارا کام جانے۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ قَالَ أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيُّ عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْعَدَوِيِّ مِنْ خُزَاعَةَ وَكَانَ مِنْ الصَّحَابَةِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الضِّيَافَةُ ثَلَاثٌ وَجَائِزَتُهُ يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ وَلَا يَحِلُّ لِأَحَدٍ أَنْ يُقِيمَ عِنْدَ أَخِيهِ حَتَّى يُؤْثِمَهُ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا يُؤْثِمُهُ قَالَ يُقِيمُ عِنْدَهُ وَلَا يَجِدُ شَيْئًا يَقُوتُهُ-
حضرت ابوشریح سے مروی ہے کہ نبی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا ضیافت تین دن تک ہوتی ہے اور جائزہ (پرتکلف دعوت صرف ایک دن رات تک ہوتی ہے، اس سے زیادہ جو ہو گا وہ اس پر صدقہ ہوگا اور کسی آدمی کے لئے جائز نہیں ہے کہ کسی شخص کے یہاں اتنا عرصہ ٹھہرے کہ اسے گناہگار کردے، صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ گناہگار کرنے سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا وہ میزبان کے یہاں ٹھہرا رہے جبکہ میزبان کے پاس اسے کھلانے کے لئے کچھ بھی نہ ہو۔
-