TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مسند احمد
ا ب ج
ام المؤمنین حضرت صفیہ کی حدیثیں
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ عَنِ ابْنِ صَفْوَانَ عَنْ صَفِيَّةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَنْتَهِي النَّاسُ عَنْ غَزْوِ هَذَا الْبَيْتِ حَتَّى يَغْزُوَهُ جَيْشٌ حَتَّى إِذَا كَانُوا بِبَيْدَاءَ مِنْ الْأَرْضِ خُسِفَ بِأَوَّلِهِمْ وَآخِرِهِمْ وَلَمْ يَنْجُ أَوْسَطُهُمْ قَالَتْ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرَأَيْتَ الْمُكْرَهَ مِنْهُمْ قَالَ يَبْعَثُهُمْ اللَّهُ عَلَى مَا فِي أَنْفُسِهِمْ قَالَ سُفْيَانُ قَالَ سَلَمَةُ فَحَدَّثَنِي عُبَيْدُ بْنُ أَبِي الْجَعْدِ عَنْ مُسْلِمٍ نَحْوَ هَذَا الْحَدِيثِ-
حضرت صفیہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی علیہ السلام کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس بیت اللہ پر حملے کے ارادے سے ایک لشکرضرور روانہ ہوگا جب وہ لوگ بیداء نامی جگہ پر پہنچیں گے تو ان کے لشکر کا درمیانی حصہ زمین میں دھنس جائے گا اور ان کے اگلے اور پچھلے حصے کے لوگ بچیں گے اور نہ ہی درمیان والے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ جو لوگ زبردستی اس لشکر میں شامل کر لئے گئے ہوں گے ان کا کیا بنے گا؟ نبی علیہ السلام نے فرمایا نہیں ان کی نیتوں پر اٹھایا جائے گا۔گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ سَلَمَةَ يَعْنِي ابْنَ كُهَيْلٍ عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ عَنِ ابْنِ صَفْوَانَ عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيٍّ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا يَنْتَهِي النَّاسُ عَنْ غَزْوِ هَذَا الْبَيْتِ حَتَّى إِذَا كَانُوا بِبَيْدَاءَ مِنْ الْأَرْضِ خُسِفَ أَوَّلُهُمْ وَآخِرُهُمْ وَلَمْ يَنْجُ أَوْسَطُهُمْ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ يَكُونُ فِيهِمْ الْمُكْرَهُ قَالَ يَبْعَثُهُمْ اللَّهُ عَلَى مَا فِي أَنْفُسِهِمْ حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ سَلَمَةَ عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْمُرْهِبِيُّ عَنْ مُسْلِمِ بْنِ صَفْوَانَ عَنْ صَفِيَّةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَنْتَهِي النَّاسُ وَذَكَرَ الْحَدِيثَ وَسَاقَهُ-
حضرت صفیہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی علیہ السلام کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس بیت اللہ پر حملے کے ارادے سے ایک لشکر ضرور روانہ ہو گا جب وہ لوگ بیداء نامی جگہ پر پہنچیں گے تو ان کے لشکر کا درمیانی حصہ زمین میں دھنس جائے گا اور ان کے اگلے اور پچھلے حصے کے لوگ بچیں گے اور نہ ہی درمیان والے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ جو لوگ زبردستی اس لشکر میں شامل کر لئے گئے ہوں گے ان کا کیا بنے گا؟ نبی علیہ السلام نے فرمایا نہیں ان کی نیتوں پر اٹھایا جائے گا۔گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے
-
حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ قَالَ حَدَّثَنَا أَبِي قَالَ سَمِعْتُ يَعْلَى بْنَ حَكِيمٍ عَنْ صُهَيْرَةَ بِنْتِ جَيْفَرٍ قَالَتْ دَخَلْتُ عَلَى صَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيٍّ فَسَأَلْتُ عَنْ نَبِيذِ الْجَرِّ فَقَالَتْ حَرَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَبِيذَ الْجَرِّ-
صہیرہ بنت جیفر کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت صفیہ بنت حیی کی خدمت میں حاضر ہوئی اور ان سے مٹکے کی نبیذ کا حکم پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ نبی علیہ السلام نے مٹکے کی نبیذ کو حرام قرار دیا ہے۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ وَعَبْدُ الْأَعْلَى عَنْ مَعْمَرٍ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيٍّ قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُعْتَكِفًا فَأَتَيْتُهُ أَزُورُهُ لَيْلًا فَحَدَّثْتُهُ ثُمَّ قُمْتُ فَانْقَلَبْتُ فَقَامَ مَعِي يَقْلِبُنِي وَكَانَ مَسْكَنُهَا فِي دَارِ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ فَمَرَّ رَجُلَانِ مِنْ الْأَنْصَارِ فَلَمَّا رَأَيَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْرَعَا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رِسْلِكُمَا إِنَّهَا صَفِيَّةُ بِنْتُ حُيَيٍّ فَقَالَا سُبْحَانَ اللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِي مِنْ الْإِنْسَانِ مَجْرَى الدَّمِ وَإِنِّي خَشِيتُ أَنْ يَقْذِفَ فِي قُلُوبِكُمَا شَرًّا أَوْ قَالَ شَيْئًا-
حضرت صفیہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی علیہ السلام اعتکاف کی حالت میں تھے ، میں رات کے وقت ملاقات کے لئے بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئی کچھ دیرباتیں کرنے کے بعد میں اٹھ کھڑی ہوئی نبی علیہ السلام بھی مجھے چھوڑنے کے لئے میرے ساتھ آئے میری رہائش اس وقت داراسامہ بن زید میں تھی، اسی اثناء میں وہاں سے دوانصاری آدمی گزرے اور نبی علیہ السلام کو دیکھ کر انہوں نے اپنی رفتارتیز کردی نبی علیہ السلام نے ان سے فرمایا ٹھہرو، یہ صفیہ بنت حیی ہیں ، ان دونوں نے کہا کہ سبحان اللہ، اے اللہ کے رسول (کیا ہم آپ کے متعلق ذہن میں کوئی براخیال لاسکتے ہیں ؟) نبی علیہ السلام نے فرمایا شیطان انسان کے اندرخون کی طرح دوڑتا ہے اس لئے مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں وہ تمہارے دلوں میں کوئی وسوسہ پیدا نہ کردے۔
-
حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ سَمِعْتُ يَعْلَى بْنَ حَكَمٍ يُحَدِّثُ عَنْ صُهَيْرَةَ بِنْتِ جَيْفَرٍ قَالَتْ حَجَجْنَا ثُمَّ أَتَيْنَا الْمَدِينَةَ فَدَخَلْنَا عَلَى صَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيٍّ فَوَافَقْنَا عِنْدَهَا نِسْوَةً فَقَالَتْ حَرَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَبِيذَ الْجَرِّ-
صہیرہ بنت جیفر کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت صفیہ بنت حیی کی خدمت میں حاضر ہوئی اور ان سے مٹکے کی نبیذ کا حکم پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ نبی علیہ السلام نے مٹکے کی نبیذ کو حرام قرار دیا ہے۔
-
حَدَّثَنَا عَفَّانُ قَالَ حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ قَالَ حَدَّثَنِي يَعْلَى بْنُ حَكِيمٍ عَنْ صُهَيْرَةَ بِنْتِ جَيْفَرٍ سَمِعَهُ مِنْهَا قَالَتْ حَجَجْنَا ثُمَّ انْصَرَفْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ فَدَخَلْنَا عَلَى صَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيٍّ فَوَافَقْنَا عِنْدَهَا نِسْوَةً مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ فَقُلْنَ لَهَا إِنْ شِئْتُنَّ سَأَلْتُنَّ وَسَمِعْنَا وَإِنْ شِئْتُنَّ سَأَلْنَا وَسَمِعْتُنَّ فَقُلْنَا سَلْنَ فَسَأَلْنَ عَنْ أَشْيَاءَ مِنْ أَمْرِ الْمَرْأَةِ وَزَوْجِهَا وَمِنْ أَمْرِ الْمَحِيضِ ثُمَّ سَأَلْنَ عَنْ نَبِيذِ الْجَرِّ فَقَالَتْ أَكْثَرْتُمْ عَلَيْنَا يَا أَهْلَ الْعِرَاقِ فِي نَبِيذِ الْجَرِّ وَمَا عَلَى إِحْدَاكُنَّ أَنْ تَطْبُخَ تَمْرَهَا ثُمَّ تَدْلُكَهُ ثُمَّ تُصَفِّيَهُ فَتَجْعَلَهُ فِي سِقَائِهَا وَتُوكِئَ عَلَيْهِ فَإِذَا طَابَ شَرِبَتْ وَسَقَتْ زَوْجَهَا-
صہیرہ بنت جیفر کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگوں نے حج کیا، پھر مدینہ منورہ حاضر ہوئے تو وہاں حضرت صفیہ بنت حیی کی خدمت میں بھی حاضری ہوئی ہم نے ان کے پاس کوفہ کی کچھ خواتین کو بھی بیٹھے ہوئے پایا ان خواتین نے صہیرہ سے کہا کہ اگر تم چاہو تو تم لوگ سوال کرو اور ہم سنتے ہیں ورنہ ہم سوال کرتے ہیں اور تم اسے سننا، ہم نے کہا کہ تم لوگ ہی سوال کرو چنانچہ انہوں نے حضرت صفیہ سے کئی سوال پوچھے مثلا میاں بیوی کے حوالے سے، ایام ناپاکی کے حوالے سے اور پھر مٹکے کی نبیذ کے حوالے سے تو حضرت صفیہ نے فرمایا اے اہل عراق تم لوگ مٹکے کی نبیذ کے متعلق بڑی کثرت سے سوال کر رہے ہو (نبی علیہ السلام نے ا سے حرام قرار دیا ہے) البتہ تم میں سے کسی پر اس بات میں کوئی حرج نہیں ہے کہ اپنی کھجوروں کو پکائے پھر اسے مل کر صاف کرے اور مشکیزے میں رکھ کر اس کا منہ باندھ دے جب وہ اچھی ہوجائے تو خود بھی پی لے اور اپنے شوہر کو بھی پلائے۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ ثَابِتٍ قَالَ حَدَّثَتْنِي شُمَيْسَةُ أَوْ سُمَيَّةُ قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ هُوَ فِي كِتَابِي سُمَيَّةُ عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيٍّ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَجَّ بِنِسَائِهِ فَلَمَّا كَانَ فِي بَعْضِ الطَّرِيقِ نَزَلَ رَجُلٌ فَسَاقَ بِهِنَّ فَأَسْرَعَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَذَاكَ سَوْقُكَ بِالْقَوَارِيرِ يَعْنِي النِّسَاءَ فَبَيْنَا هُمْ يَسِيرُونَ بَرَكَ بِصَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيٍّ جَمَلُهَا وَكَانَتْ مِنْ أَحْسَنِهِنَّ ظَهْرًا فَبَكَتْ وَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ أُخْبِرَ بِذَلِكَ فَجَعَلَ يَمْسَحُ دُمُوعَهَا بِيَدِهِ وَجَعَلَتْ تَزْدَادُ بُكَاءً وَهُوَ يَنْهَاهَا فَلَمَّا أَكْثَرَتْ زَبَرَهَا وَانْتَهَرَهَا وَأَمَرَ النَّاسَ بِالنُّزُولِ فَنَزَلُوا وَلَمْ يَكُنْ يُرِيدُ أَنْ يَنْزِلَ قَالَتْ فَنَزَلُوا وَكَانَ يَوْمِي فَلَمَّا نَزَلُوا ضُرِبَ خِبَاءُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَدَخَلَ فِيهِ قَالَتْ فَلَمْ أَدْرِ عَلَامَ أُهْجَمُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَخَشِيتُ أَنْ يَكُونَ فِي نَفْسِهِ شَيْءٌ مِنِّي فَانْطَلَقْتُ إِلَى عَائِشَةَ فَقُلْتُ لَهَا تَعْلَمِينَ أَنِّي لَمْ أَكُنْ أَبِيعُ يَوْمِي مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَيْءٍ أَبَدًا وَإِنِّي قَدْ وَهَبْتُ يَوْمِي لَكِ عَلَى أَنْ تُرْضِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِّي قَالَتْ نَعَمْ قَالَ فَأَخَذَتْ عَائِشَةُ خِمَارًا لَهَا قَدْ ثَرَدَتْهُ بِزَعْفَرَانٍ فَرَشَّتْهُ بِالْمَاءِ لِيُذَكِّيَ رِيحَهُ ثُمَّ لَبِسَتْ ثِيَابَهَا ثُمَّ انْطَلَقَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَفَعَتْ طَرَفَ الْخِبَاءِ فَقَالَ لَهَا مَا لَكِ يَا عَائِشَةُ إِنَّ هَذَا لَيْسَ بِيَوْمِكِ قَالَتْ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ فَقَالَ مَعَ أَهْلِهِ فَلَمَّا كَانَ عِنْدَ الرَّوَاحِ قَالَ لِزَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ يَا زَيْنَبُ أَفْقِرِي أُخْتَكِ صَفِيَّةَ جَمَلًا وَكَانَتْ مِنْ أَكْثَرِهِنَّ ظَهْرًا فَقَالَتْ أَنَا أُفْقِرُ يَهُودِيَّتَكَ فَغَضِبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ سَمِعَ ذَلِكَ مِنْهَا فَهَجَرَهَا فَلَمْ يُكَلِّمْهَا حَتَّى قَدِمَ مَكَّةَ وَأَيَّامَ مِنًى فِي سَفَرِهِ حَتَّى رَجَعَ إِلَى الْمَدِينَةِ وَالْمُحَرَّمَ وَصَفَرَ فَلَمْ يَأْتِهَا وَلَمْ يَقْسِمْ لَهَا وَيَئِسَتْ مِنْهُ فَلَمَّا كَانَ شَهْرُ رَبِيعٍ الْأَوَّلِ دَخَلَ عَلَيْهَا فَرَأَتْ ظِلَّهُ فَقَالَتْ إِنَّ هَذَا لَظِلُّ رَجُلٍ وَمَا يَدْخُلُ عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَنْ هَذَا فَدَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا رَأَتْهُ قَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا أَدْرِي مَا أَصْنَعُ حِينَ دَخَلْتَ عَلَيَّ قَالَتْ وَكَانَتْ لَهَا جَارِيَةٌ وَكَانَتْ تَخْبَؤُهَا مِنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ فُلَانَةُ لَكَ فَمَشَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى سَرِيرِ زَيْنَبَ وَكَانَ قَدْ رُفِعَ فَوَضَعَهُ بِيَدِهِ ثُمَّ أَصَابَ أَهْلَهُ وَرَضِيَ عَنْهُمْ حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ قَالَ حَدَّثَنَا ثَابِتٌ عَنْ سُمَيَّةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ فِي سَفَرٍ فَاعْتَلَّ بَعِيرٌ لِصَفِيَّةَ فَذَكَرَ نَحْوَهُ-
حضرت صفیہ سے مروی ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی علیہ السلام اپنی ازواج مطہرات کو بھی اپنے ساتھ لے کر گئے تھے، ابھی راستے ہی میں تھے کہ ایک آدمی اتر کر ازواج مطہرات کی سواریوں کو تیزی سے ہانکنے لگا، نبی علیہ السلام نے فرمایا ان آبگینوں (عورتوں ) کو آہستہ ہی لے کر چلو دوران سفر حضرت صفیہ کا اونٹ بدک گیا، ان کی سواری سب سے عمدہ اور خوبصورت تھی، وہ رونے لگیں ، نبی علیہ السلام کو معلوم ہوا تو تشریف لائے اور اپنے دست مبارک سے ان کے آنسو پونچھنے لگے، لیکن وہ اور زیادہ رونے لگیں ، نبی علیہ السلام انہیں برابر منع کرتے رہے لیکن جب دیکھا کہ وہ زیادہ ہی روتی جا رہی ہیں تو نبی علیہ السلام نے انہیں سختی سے جھڑک کر منع فرمایا، اور لوگوں کو پڑاؤ کرنے کا حکم دیدیا حالانکہ اس مقام پر پڑاؤ کا ارادہ نہ تھا، لوگوں نے پڑاؤ ڈال لیا، اتفاق سے اس دن حضرت صفیہ ہی کی باری بھی تھی، نبی علیہ السلام کے لئے ایک خیمہ لگادیا گیا، نبی علیہ السلام اپنے خیمے میں تشریف لے گئے۔حضرت صفیہ کہتی ہیں کہ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ نبی علیہ السلام کے پاس کیسے جاؤں؟ مجھے ڈر تھا کہ نبی علیہ السلام مجھ سے ناراض نہ ہو گئے ہوں ، چنانچہ میں حضرت عائشہ کے پاس چلی گئی اور ان سے کہا آپ جانتی ہیں کہ میں نبی علیہ السلام سے اپنی باری کا دن کسی بھی چیز کے عوض نہیں بیچ سکتی، لکین آج میں اپنی باری کے دن آپ کو اس شرط پردیتی ہوں کہ آپ نبی علیہ السلام کو مجھ سے راضی کر دیں ۔ حضرت عائشہ نے حامی بھرلی اور اپنا دوپٹہ لے کر جسے انہوں نے زعفران میں رنگا ہوا تھا، اس پر پانی کے چھینٹے مارے تاکہ اس کی مہک پھیل جائے پھر نئے کپڑے پہن کر نبی علیہ السلام کی طرف چل پڑیں نبی علیہ السلام کے خیمے کے قریب پہنچ کر انہوں نے پردے کا ایک کونا اٹھایا تو نبی علیہ السلام نے انہیں دیکھ کر فرمایا عائشہ! کیا بات ہے آج تمہاری باری تو نہیں ہے؟ انہوں نے عرض کیا یہ تو اللہ کا فضل ہے جسے چاہے عطاء کردے نبی علیہ السلام نے وہ دوپہر اپنی زوجہ محترمہ (حضرت عائشہ) کے ساتھ قیلولہ فرمایا۔جب روانگی کا وقت آیا تو نبی علیہ السلا نے حضرت زینب بنت جحش سے فرمایا جن کے پاس سواری میں گنجائش زیادہ تھی کہ اپنی بہن صفیہ کو اپنے ساتھ اونٹ پر سوار کر لو، حضرت زینب کے منہ سے نکل گیا کہ میں آپ کی یہودیہ بیوی کو اپنے ساتھ سوار کروں گی؟ نبی علیہ السلام یہ سن کرناراض ہو گئے اور ان سے ترک کلام فرما لیا حتی کہ مکہ مکرمہ پہنچے، منی کے میدان میں ایام گزارے پھر مدینہ منورہ واپس آئے محرم اور صفر کا مہینہ گزرا لیکن حضرت زینب کے پاس نہیں گئے حتی کہ باری کے دن بھی نہیں گئے، جس سے حضرت زینب نا امید سی ہو گئیں ۔جب ربیع الاول کا مہینہ آیا تو نبی علیہ السلام ان کے یہاں تشریف لے گئے، وہ سوچنے لگیں کہ یہ سایہ تو کسی آدمی کا ہے، نبی علیہ السلام میرے پاس آنے والے نہیں تو یہ کون ہے؟ اتنی دیر میں نبی علیہ السلام گھر کے اندر آگئے، حضرت زینب نبی علیہ السلام کو دیکھ کر کہنے لگیں یا رسول اللہ! خوشی سے مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ آپ کی تشریف آوری پر کیا کروں؟ ان کی ایک باندی تھی جو ان کے لئے خیمہ تیار کرتی تھی، انہوں نے عرض کیا کہ فلاں باندی آپ کی نذر پھر نبی علیہ السلام حضرت زینب کی چارپائی تک چل کر آئے اور اس پر اپنا ہاتھ رکھ دیا پھر ان سے تخلیہ فرمایا اور ان سے راضی ہوگئے۔گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے
-