نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا جو ہم چھوڑیں وہ صدقہ ہے کے بیان میں

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ يَحْيَی قَالَ قَرَأْتُ عَلَی مَالِکٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ إِنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرَدْنَ أَنْ يَبْعَثْنَ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ إِلَی أَبِي بَکْرٍ فَيَسْأَلْنَهُ مِيرَاثَهُنَّ مِنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ عَائِشَةُ لَهُنَّ أَلَيْسَ قَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا نُورَثُ مَا تَرَکْنَا فَهُوَ صَدَقَةٌ-
یحیی بن یحیی، مالک، ابن شہاب، عروہ، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات نے ارادہ کیا کہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضرت ابوبکر کی طرف بھجیں اور ان سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث میں سے اپنا حصہ مانگیں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا اور جو ہم چھوڑیں وہ صدقہ ہے۔
It is narrated on the authority of 'A'isha who said: When the Messenger of Allah (may peace be upon him) passed away, his wives made up their minds to send 'Uthman b. 'Affan (as their spokesman) to Abu Bakr to demand from him their share from the legacy of the Holy Prophet (may peace be upon him). (At this), A'isha said to them: Hasn't the Messenger of Allah (may peace be upon him) said: "We (Prophets) do not have any heirs; what we leave behind is (to be given in) charity"?
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ أَخْبَرَنَا حُجَيْنٌ حَدَّثَنَا لَيْثٌ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَتْ إِلَی أَبِي بَکْرٍ الصِّدِّيقِ تَسْأَلُهُ مِيرَاثَهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا أَفَائَ اللَّهُ عَلَيْهِ بِالْمَدِينَةِ وَفَدَکٍ وَمَا بَقِيَ مِنْ خُمْسِ خَيْبَرَ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا نُورَثُ مَا تَرَکْنَا صَدَقَةٌ إِنَّمَا يَأْکُلُ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْمَالِ وَإِنِّي وَاللَّهِ لَا أُغَيِّرُ شَيْئًا مِنْ صَدَقَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ حَالِهَا الَّتِي کَانَتْ عَلَيْهَا فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَأَعْمَلَنَّ فِيهَا بِمَا عَمِلَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَبَی أَبُو بَکْرٍ أَنْ يَدْفَعَ إِلَی فَاطِمَةَ شَيْئًا فَوَجَدَتْ فَاطِمَةُ عَلَی أَبِي بَکْرٍ فِي ذَلِکَ قَالَ فَهَجَرَتْهُ فَلَمْ تُکَلِّمْهُ حَتَّی تُوُفِّيَتْ وَعَاشَتْ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِتَّةَ أَشْهُرٍ فَلَمَّا تُوُفِّيَتْ دَفَنَهَا زَوْجُهَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ لَيْلًا وَلَمْ يُؤْذِنْ بِهَا أَبَا بَکْرٍ وَصَلَّی عَلَيْهَا عَلِيٌّ وَکَانَ لِعَلِيٍّ مِنْ النَّاسِ وِجْهَةٌ حَيَاةَ فَاطِمَةَ فَلَمَّا تُوُفِّيَتْ اسْتَنْکَرَ عَلِيٌّ وُجُوهَ النَّاسِ فَالْتَمَسَ مُصَالَحَةَ أَبِي بَکْرٍ وَمُبَايَعَتَهُ وَلَمْ يَکُنْ بَايَعَ تِلْکَ الْأَشْهُرَ فَأَرْسَلَ إِلَی أَبِي بَکْرٍ أَنْ ائْتِنَا وَلَا يَأْتِنَا مَعَکَ أَحَدٌ کَرَاهِيَةَ مَحْضَرِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَقَالَ عُمَرُ لِأَبِي بَکْرٍ وَاللَّهِ لَا تَدْخُلْ عَلَيْهِمْ وَحْدَکَ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ وَمَا عَسَاهُمْ أَنْ يَفْعَلُوا بِي إِنِّي وَاللَّهِ لَآتِيَنَّهُمْ فَدَخَلَ عَلَيْهِمْ أَبُو بَکْرٍ فَتَشَهَّدَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ ثُمَّ قَالَ إِنَّا قَدْ عَرَفْنَا يَا أَبَا بَکْرٍ فَضِيلَتَکَ وَمَا أَعْطَاکَ اللَّهُ وَلَمْ نَنْفَسْ عَلَيْکَ خَيْرًا سَاقَهُ اللَّهُ إِلَيْکَ وَلَکِنَّکَ اسْتَبْدَدْتَ عَلَيْنَا بِالْأَمْرِ وَکُنَّا نَحْنُ نَرَی لَنَا حَقًّا لِقَرَابَتِنَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يَزَلْ يُکَلِّمُ أَبَا بَکْرٍ حَتَّی فَاضَتْ عَيْنَا أَبِي بَکْرٍ فَلَمَّا تَکَلَّمَ أَبُو بَکْرٍ قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَرَابَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ أَصِلَ مِنْ قَرَابَتِي وَأَمَّا الَّذِي شَجَرَ بَيْنِي وَبَيْنَکُمْ مِنْ هَذِهِ الْأَمْوَالِ فَإِنِّي لَمْ آلُ فِيهَا عَنْ الْحَقِّ وَلَمْ أَتْرُکْ أَمْرًا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُهُ فِيهَا إِلَّا صَنَعْتُهُ فَقَالَ عَلِيٌّ لِأَبِي بَکْرٍ مَوْعِدُکَ الْعَشِيَّةُ لِلْبَيْعَةِ فَلَمَّا صَلَّی أَبُو بَکْرٍ صَلَاةَ الظُّهْرِ رَقِيَ عَلَی الْمِنْبَرِ فَتَشَهَّدَ وَذَکَرَ شَأْنَ عَلِيٍّ وَتَخَلُّفَهُ عَنْ الْبَيْعَةِ وَعُذْرَهُ بِالَّذِي اعْتَذَرَ إِلَيْهِ ثُمَّ اسْتَغْفَرَ وَتَشَهَّدَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ فَعَظَّمَ حَقَّ أَبِي بَکْرٍ وَأَنَّهُ لَمْ يَحْمِلْهُ عَلَی الَّذِي صَنَعَ نَفَاسَةً عَلَی أَبِي بَکْرٍ وَلَا إِنْکَارًا لِلَّذِي فَضَّلَهُ اللَّهُ بِهِ وَلَکِنَّا کُنَّا نَرَی لَنَا فِي الْأَمْرِ نَصِيبًا فَاسْتُبِدَّ عَلَيْنَا بِهِ فَوَجَدْنَا فِي أَنْفُسِنَا فَسُرَّ بِذَلِکَ الْمُسْلِمُونَ وَقَالُوا أَصَبْتَ فَکَانَ الْمُسْلِمُونَ إِلَی عَلِيٍّ قَرِيبًا حِينَ رَاجَعَ الْأَمْرَ الْمَعْرُوفَ-
محمد بن رافع، حجین، لیث، عقیل، ابن شہاب، عروہ بن زبیر، حضرت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی میراث کے بارے میں پوچھنے کے لئے پیغام بھیجا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ اور فدک کے فئی اور خبیر کے خمس سے حصہ میں ملا تھا حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم کسی کو وارث نہیں چھوڑتے اور ہم جو چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے البتہ آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس مال سے کھاتے رہیں گے اور میں اللہ کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقہ میں کسی چیز کی بھی تبدیلی نہیں کر سکتا اس صورت سے جس میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھی اور میں اس میں وہی معاملہ کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بارے میں فرمایا کرتے تھے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس میں سے کوئی بھی چیز حضرت فاطمہ کو دینے سے انکار کر دیا حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس وجہ سے ناراضگی ہوئی پس انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بولنا ترک کر دیا اور ان سے بات نہ کی یہاں تک کہ وہ فوت ہو گئیں اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چھ ماہ تک زندہ رہیں جب وہ فوت ہو گئیں تو انہیں ان کے خاوند حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن ابوطالب نے رات کو ہی دفن کر دیا اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس کی اطلاع نہ دی اور ان کا جنازہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پڑھایا اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے لوگوں کا فاطمہ کی زندگی میں کچھ میلان تھا جب وہ فوت ہو گئیں تو علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں کے رویہ میں کچھ تبدیلی محسوس کی تو انہوں نے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ صلح اور بیعت کا راستہ ہموار کرنا چاہا کیونکہ علی رضی اللہ نے ان مہینوں تک بیعت نہ کی تھی اور انہوں نے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف پیغام بھیجا کہ ہمارے پاس آؤ اور تمہارے سوا کوئی اور نہ آئے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن خطاب کے آنے کا ناپسند کرنے کی وجہ سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا اللہ کی قسم آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس اکیلے نہ جائیں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا مجھے ان سے یہ امید نہیں کہ وہ میرے ساتھ کوئی ناروا سلوک کریں گے میں اللہ کی قسم ان کے پاس ضرور جاؤں گا پس حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے پاس تشریف لے گئے تو علی بن ابوطالب نے کلمہ شہادت پڑھا پھر کہا اے ابوبکر تحقیق ہم آپ کی فضیلت پہچان چکے ہیں جو اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کی ہے ہم اسے جانتے ہیں اور جو بھلائی آپ صلی کو عطا کی گئی ہے ہم اس کی رغبت نہیں کرتے اللہ نے آپ ہی کے سپرد کی ہے لیکن آپ نے خود ہی یہ خلافت حاصل کرلی اور ہم اپنے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت داری کی وجہ سے (خلافت) کا حق سمجھتے تھے پس اسی طرح وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے گفتگو کرتے رہے یہاں تک کہ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آنکھوں میں آنسو جاری ہو گئے جب حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گفتگو کی تو کہا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے میرے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت کے ساتھ حسن سلوک کرنا اپنی قرابت سے زیادہ محبوب ہے بہرحال ان اموال کا معاملہ جو میرے اور تمہارے درمیان واقعہ ہوا ہے اس میں بھی میں نے کسی کے حق کو ترک نہیں کیا اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جس معاملہ میں جس طرح کرتے دیکھا میں نے بھی اس معاملہ کو اسی طرح سر انجام دیا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا آج سہ پہر کے وقت آپ سے بیعت کرنے کا وقت ہے حضرت ابوبکر نے ظہر کی نماز ادا کی منبر پر چڑھے اور کلمہ شہادت پڑھا اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے معاملہ اور بیعت سے رہ جانے کا قصہ اور وہ عذر بیان کیا جو حضرت علی بن ابوطالب نیان کے سامنے پیش کیا پھر علی رضی اللہ نے استغفار کیا اور کلمہ شہادت پڑھا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق کی عظمت کا اقرار کیا اور بتایا کہ میں نے جو کچھ کیا وہ اس وجہ سے نہیں کیا کہ مجھے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت پر شک تھا اور نہ اس فضیلت سے انکار کی وجہ سے جو انہیں اللہ نے عطا کی ہے بلکہ ہم اس امر میں اپنا حصہ خیال کرتے تھے اور ہمارے مشورہ کے بغیر ہی حکومت بنا لی گئی جس کی وجہ سے ہمارے دلوں میں رنج پہنچا مسلمان یہ سن کو خوش ہوئے اور انہوں نے کہا آپ نے درست کیا ہے اور مسلمان پھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قریب ہونے لگے جب انہوں نے اس معروف راستہ کو اختیار کر لیا۔
It is narrated on the authority of Urwa b. Zubair who narrated from A'isha that she informed him that Fatima, daughter of the Messenger of Allah (may peace be upon him), sent someone to Abu Bakr to demand from him her share of the legacy left by the Messenger of Allah (may peace be upon him) from what Allah had bestowed upon him at Medina and Fadak and what was left from one-fifth of the income (annually received) from Khaibar. Abu Bakr said: The Messenger of Allah (may peace be upon him) said: "We (prophets) do not have any heirs; what we leave behind is (to be given in) charity." The household of the Messenger of Allah (may peace be upon him) will live on the income from these properties, but, by Allah, I will not change the charity of the Messenger of Allah (may peace be upon him) from the condition in which it was in his own time. I will do the same with it as the Messenger of Allah (may peace be upon him) himself used to do. So Abu Bakr refused to hand over anything from it to Fatima who got angry with Abu Bakr for this reason. She forsook him and did not talk to him until the end of her life. She lived for six months after the death of the Messenger of Allah (may peace be upon him). When she died, her husband 'Ali b. Abu Talib, buried her at night. He did not inform Abu Bakr about her death and offered the funeral prayer over her himself. During the lifetime of Fatima, 'Ali received (special) regard from the people. After she had died, he felt estrangement in the faces of the people towards him. So he sought to make peace with Abu Bakr and offer his allegiance to him. He had not yet owed allegiance to him as Caliph during these months. He sent a person to Abu Bakr requesting him to visit him unaccompanied by anyone (disapproving the presence of Umar). 'Umar said to Abu Bakr: By Allah, you will not visit them alone. Abu Bakr said: What will they do to me? By Allah, I will visit them. And he did pay them a visit alone. 'Ali recited Tashahhud (as it is done in the beginning of a religious sermon); then said: We recognise your moral excellence and what Allah has bestowed upon you. We do not envy the favour (i. e. the Caliphate) which Allah nas conferred upon you; but you have done it (assumed the position of Caliph) alone (without consulting us), and we thought we had a right (to be consulted) on account of our kinship with the Messenger of Allah (may peace be upon him). He continued to talk to Abu Bakr (in this vein) until the latter's eyes welled up with tears. Then Abu Bakr spoke and said: By Allah, in Whose Hand is my life, the kinship of the Messenger of Allah (may peace be upon him) is dearer to me than the kinship of my own people. As regards the dispute that has arisen between you and me about these properties, I have not deviated from the right course and I have not given up doing about them what the Messenger of Allah (may peace be upon him) used to do. So 'Ali said to Abu Bakr: This afternoon is (fixed) for (swearing) allegiance (to you). So when Abu Bakr had finished his Zuhr prayer, he ascended the pulpit and recited Tashahhud, and described the status of 'Ali, his delay in swearing allegiance and the excuse which he had offered to him (for this delay). (After this) he asked for God's forgiveness. Then 'Ali b. Abu Talib recited the Tashahhud, extolled the merits of Abu Bakr and said that his action was not prompted by any jealousy of Abu Bakr on his part or his refusal to accept the high position which Allah had conferred upon him, (adding:) But we were of the opinion that we should have a share in the government, but the matter had been decided without taking us into confidence, and this displeased us. (Hence the delay in offering allegiance. The Muslims were pleased with this (explanation) and they said: You have done the right thing. The Muslims were (again) favourably inclined to 'Ali since he adopted the proper course of action. ________________________________________ Book 019, Number 4353: It has been narrated on the authority of 'A'isha that Fatima and 'Abbas approached Abu Bakr, soliciting transfer of the legacy of the Messenger of Allah (may peace be upon him) to them. At that time, they were demanding his (Holy Prophet's) lands at Fadak and his share from Khaibar. Abu Bakr said to them: I have heard from the Messenger of Allah (may peace be upon him). Then he quoted the hadith having nearly the same meaning as the one which has been narrated by Uqail on the authority of al-Zuhri (and which his gone before) except that in his version he said: Then 'Ali stood up, extolled the merits of Abu Bakr mentioned his superiority, and his earlier acceptance of Islam. Then he walked to Abu Bakr and swore allegiance to him. (At this) people turned towards 'Ali and said: you have done the right thing. And they became favourably inclined to 'Ali after he had adopted the proper course of action.
حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ قَالَ ابْنُ رَافِعٍ حَدَّثَنَا و قَالَ الْآخَرَانِ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ فَاطِمَةَ وَالْعَبَّاسَ أَتَيَا أَبَا بَکْرٍ يَلْتَمِسَانِ مِيرَاثَهُمَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُمَا حِينَئِذٍ يَطْلُبَانِ أَرْضَهُ مِنْ فَدَکٍ وَسَهْمَهُ مِنْ خَيْبَرَ فَقَالَ لَهُمَا أَبُو بَکْرٍ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِمِثْلِ مَعْنَی حَدِيثِ عُقَيْلٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ ثُمَّ قَامَ عَلِيٌّ فَعَظَّمَ مِنْ حَقِّ أَبِي بَکْرٍ وَذَکَرَ فَضِيلَتَهُ وَسَابِقَتَهُ ثُمَّ مَضَی إِلَی أَبِي بَکْرٍ فَبَايَعَهُ فَأَقْبَلَ النَّاسُ إِلَی عَلِيٍّ فَقَالُوا أَصَبْتَ وَأَحْسَنْتَ فَکَانَ النَّاسُ قَرِيبًا إِلَی عَلِيٍّ حِينَ قَارَبَ الْأَمْرَ الْمَعْرُوفَ-
اسحاق بن ابراہیم، محمد بن رافع، عبد بن حمید، ابن رافع، عبدالرزاق، معمر، زہری، عروہ، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ فاطمہ اور عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے اور انہوں نے ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث میں سے اپنے حصہ کا مطالبہ کیا اور وہ دونوں اس وقت فدک اور خبیر کے حصہ میں اپنے حصہ کا مطالبہ کر رہے تھے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان دونوں سے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا پھر مزکورہ حدیث کی طرح حدیث بیان کی اس حدیث میں یہ ہے کہ پھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق پر ہونے کی عظمت اور ان کی فضیلت اور ان کی دین میں سبقت کا ذکر کیا پھر وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف گئے اور ان کی بیعت کی پھر لوگ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے کہ آپ نے صحیح اور اچھا کام کیا ہے تو لوگ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قریب ہو گئے جس وقت کہ انہوں نے یہ نیک کام کیا۔
It has been narrated on the authority of 'A'isha that Fatima and 'Abbas approached Abu Bakr, soliciting transfer of the legacy of the Messenger of Allah (may peace be upon him) to them. At that time, they were demanding his (Holy Prophet's) lands at Fadak and his share from Khaibar. Abu Bakr said to them: I have heard from the Messenger of Allah (may peace be upon him). Then he quoted the hadith having nearly the same meaning as the one which has been narrated by Uqail on the authority of al-Zuhri (and which his gone before) except that in his version he said: Then 'Ali stood up, extolled the merits of Abu Bakr mentioned his superiority, and his earlier acceptance of Islam. Then he walked to Abu Bakr and swore allegiance to him. (At this) people turned towards 'Ali and said: you have done the right thing. And they became favourably inclined to 'Ali after he had adopted the proper course of action.
و حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا أَبِي ح و حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ قَالَا حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ وَهُوَ ابْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ صَالِحٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَلَتْ أَبَا بَکْرٍ بَعْدَ وَفَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَقْسِمَ لَهَا مِيرَاثَهَا مِمَّا تَرَکَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا أَفَائَ اللَّهُ عَلَيْهِ فَقَالَ لَهَا أَبُو بَکْرٍ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا نُورَثُ مَا تَرَکْنَا صَدَقَةٌ قَالَ وَعَاشَتْ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِتَّةَ أَشْهُرٍ وَکَانَتْ فَاطِمَةُ تَسْأَلُ أَبَا بَکْرٍ نَصِيبَهَا مِمَّا تَرَکَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ خَيْبَرَ وَفَدَکٍ وَصَدَقَتِهِ بِالْمَدِينَةِ فَأَبَی أَبُو بَکْرٍ عَلَيْهَا ذَلِکَ وَقَالَ لَسْتُ تَارِکًا شَيْئًا کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْمَلُ بِهِ إِلَّا عَمِلْتُ بِهِ إِنِّي أَخْشَی إِنْ تَرَکْتُ شَيْئًا مِنْ أَمْرِهِ أَنْ أَزِيغَ فَأَمَّا صَدَقَتُهُ بِالْمَدِينَةِ فَدَفَعَهَا عُمَرُ إِلَی عَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ فَغَلَبَهُ عَلَيْهَا عَلِيٌّ وَأَمَّا خَيْبَرُ وَفَدَکُ فَأَمْسَکَهُمَا عُمَرُ وَقَالَ هُمَا صَدَقَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَتَا لِحُقُوقِهِ الَّتِي تَعْرُوهُ وَنَوَائِبِهِ وَأَمْرُهُمَا إِلَی مَنْ وَلِيَ الْأَمْرَ قَالَ فَهُمَا عَلَی ذَلِکَ إِلَی الْيَوْمِ-
ابن نمیر، یعقوب بن ابراہیم، زہیر بن حرب، حسن بن علی حلوانی، یعقوب بن ابراہیم، صالح، ابن شہاب، عروہ بن زبیر، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ خبر دیتی ہیں کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر سے پوچھا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ترکہ میں سے جو اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور فئی دیا تھا اس میراث کو آپ نے تقسیم کیا تو حضرت ابوبکر نے حضرت فاطمہ سے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہم (نبیوں اور رسولوں) کا کوئی وارث نہیں ہوتا ہم جو کچھ چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے راوی کہتا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد چھ ماہ زندہ رہیں اور حضرت فاطمہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ترکہ میں سے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبیر فدک اور مدینہ کے صدقہ میں سے چھوڑا تھا اس میں سے اپنے حصہ کا حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال کرتی رہیں تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو یہ دینے سے انکار کیا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں کوئی وہ عمل نہیں چھوڑوں گا کہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا سوائے اس کے کہ میں اسی پر عمل کروں گا کیونکہ میں ڈرتا ہوں کہ اگر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کئے ہوئے کسی عمل کو چھوڑا تو میں گمراہ ہو جاؤں گا اور جو مدینہ کے صدقات ہیں تو انہیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا غلبہ ہے اور خبیر اور فدک کے مال کو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے پاس رکھا اور فرمایا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقات ہیں جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حقوق اور ملکی ضروریات میں خرچ کرتے تھے اور یہ اس کی تولیت (یعنی نگرانی) میں رہیں گے کہ جو مسلمانوں کا خلیفہ ہوگا تو آج تک ان کے ساتھ یہی معاملہ ہے۔
It has been narrated by 'Urwa b Zubair on the authority of 'A'isha, wife of the Holy Prophet (may peace be upon him), that Fatima, daughter of the Messenger of Allah (may peace be upon him), requested Abu Bakr, after the death of the Messenger of Allah (may peace he upon him), that he should set apart her share from what the Messenger of Allah (may peace be upon him) had left from the properties that God had bestowed upon him. Abu Bakr said to her: The Messenger of Allah (may peace be npon him) said: "We do not have any heirs; what we leave behind is Sadaqa (charity)." The narrator said: She (Fatima) lived six months after the death of the Messenger of Allah (may peace be upon him) and she used to demand from Abu Bakr her share from the legacy of the Messenger of Allah (may peace be upon him) from Khaibar, Fadak and his charitable endowments at Medina. Abu Bakr refused to give her this, and said: I am not going to give up doing anything which the Messenger of Allah (may peace be upon him) used to do. I am afraid that if I go against his instructions in any matter I shall deviate from the right course. So far as the charitable endowments at Medina were concerned, 'Umar handed them over to 'Ali and Abbas, but 'Ali got the better of him (and kept the property under his exclusive possession). And as far as Khaibar and Fadak were concerned 'Umar kept them with him, and said: These are the endowments of the Messenger of Allah (may peace be upon him) to the Umma. Their income was spent on the discharge of the responsibilities that devolved upon him on the emergencies he had to meet. And their management was to be in the hands of one who managed the affairs (of the Islamic State). The narrator said: They have been managed as such up to this day.
حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ يَحْيَی قَالَ قَرَأْتُ عَلَی مَالِکٍ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا يَقْتَسِمُ وَرَثَتِي دِينَارًا مَا تَرَکْتُ بَعْدَ نَفَقَةِ نِسَائِي وَمَئُونَةِ عَامِلِي فَهُوَ صَدَقَةٌ-
یحیی بن یحیی، مالک، ابی زناد، اعرج، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری وراثت میں سے ایک دینار بھی کسی کو نہیں دے سکتے اور میری ازواج مطہرات اور میرے عامل کے اخراجات کے بعد میرے مال میں سے جو کچھ بچے گا تو وہ صدقہ ہوگا۔
It has been narrated on the authority of Abu Huraira that the Messenger of Allah (may peace be upon him) said: My heirs cannot share even a dinar (from my legacy); what I leave behind after paying maintenance allowance to my wives and remuneration to my manager is (to go in) charity
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی بْنِ أَبِي عُمَرَ الْمَکِّيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ-
محمد بن یحیی، ابن ابی عمر مکی، سفیان، ابوالزناد سے ان سندوں کے ساتھ اسی طرح روایت ہے۔
A similar hadith has been narrated on the authority of Abu Zinad through a different chain of transmitters.
و حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي خَلَفٍ حَدَّثَنَا زَکَرِيَّائُ بْنُ عَدِيٍّ أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ عَنْ يُونُسَ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا نُورَثُ مَا تَرَکْنَا صَدَقَةٌ-
ابن ابی خلف زکریا، ابن عدی، ابن المبارک، یونس، زہری، اعرج، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا اور جو کچھ ہم چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔
It his been narrated on the authority of Abu Huraira that the Messenger of Allah (may peace be upon him) said: "We do not have any heirs; what we leave behind is a charitable endowment."