نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دعوت اسلام دینا اور اس پر منافقوں کی ایذاء رسانیوں پر صبر کرنے کا بیان

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ وَاللَّفْظُ لِابْنِ رَافِعٍ قَالَ ابْنُ رَافِعٍ حَدَّثَنَا و قَالَ الْآخَرَانِ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ أَنَّ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَکِبَ حِمَارًا عَلَيْهِ إِکَافٌ تَحْتَهُ قَطِيفَةٌ فَدَکِيَّةٌ وَأَرْدَفَ وَرَائَهُ أُسَامَةَ وَهُوَ يَعُودُ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ فِي بَنِي الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ وَذَاکَ قَبْلَ وَقْعَةِ بَدْرٍ حَتَّی مَرَّ بِمَجْلِسٍ فِيهِ أَخْلَاطٌ مِنْ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُشْرِکِينَ عَبَدَةِ الْأَوْثَانِ وَالْيَهُودِ فِيهِمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ وَفِي الْمَجْلِسِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ فَلَمَّا غَشِيَتْ الْمَجْلِسَ عَجَاجَةُ الدَّابَّةِ خَمَّرَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ أَنْفَهُ بِرِدَائِهِ ثُمَّ قَالَ لَا تُغَبِّرُوا عَلَيْنَا فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ وَقَفَ فَنَزَلَ فَدَعَاهُمْ إِلَی اللَّهِ وَقَرَأَ عَلَيْهِمْ الْقُرْآنَ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ أَيُّهَا الْمَرْئُ لَا أَحْسَنَ مِنْ هَذَا إِنْ کَانَ مَا تَقُولُ حَقًّا فَلَا تُؤْذِنَا فِي مَجَالِسِنَا وَارْجِعْ إِلَی رَحْلِکَ فَمَنْ جَائَکَ مِنَّا فَاقْصُصْ عَلَيْهِ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ اغْشَنَا فِي مَجَالِسِنَا فَإِنَّا نُحِبُّ ذَلِکَ قَالَ فَاسْتَبَّ الْمُسْلِمُونَ وَالْمُشْرِکُونَ وَالْيَهُودُ حَتَّی هَمُّوا أَنْ يَتَوَاثَبُوا فَلَمْ يَزَلْ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخَفِّضُهُمْ ثُمَّ رَکِبَ دَابَّتَهُ حَتَّی دَخَلَ عَلَی سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ فَقَالَ أَيْ سَعْدُ أَلَمْ تَسْمَعْ إِلَی مَا قَالَ أَبُو حُبَابٍ يُرِيدُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ قَالَ کَذَا وَکَذَا قَالَ اعْفُ عَنْهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَاصْفَحْ فَوَاللَّهِ لَقَدْ أَعْطَاکَ اللَّهُ الَّذِي أَعْطَاکَ وَلَقَدْ اصْطَلَحَ أَهْلُ هَذِهِ الْبُحَيْرَةِ أَنْ يُتَوِّجُوهُ فَيُعَصِّبُوهُ بِالْعِصَابَةِ فَلَمَّا رَدَّ اللَّهُ ذَلِکَ بِالْحَقِّ الَّذِي أَعْطَاکَهُ شَرِقَ بِذَلِکَ فَذَلِکَ فَعَلَ بِهِ مَا رَأَيْتَ فَعَفَا عَنْهُ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-
اسحاق بن ابراہیم حنظلی، محمد بن رافع، عبد بن حمید، ابن رافع، عبدالرزاق، معمر، زہری، عروہ، حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم (ایک) گدھے پر سوار ہوئے جس پر پالان تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نیچے فدک کی ایک چادر تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیچھے اسامہ کو سوار کر لیا، سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عیادت کے لئے جا رہے تھے تھے اور یہ واقعہ بدر سے پہلے کا ہے یہاں تک کہ ایسی مجلس کے پاس سے گزرے جہاں مسلمان، مشرکین، بت پرست اور یہود وغیرہ اکٹھے بیٹھے تھے ان میں عبداللہ بن ابی اور عبداللہ بن رواحہ بھی بیٹھے تھے جب مجلس پر جانور کے پاؤں کا غبار چھا گیا تو عبداللہ بن ابی نے اپنی ناک کو اپنی چادر سے ڈھانپ لیا پھر کہا ہم پر غبار نہ ڈالو پس بنی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو سلام کیا پھر ٹھہر گئے اور اتر کر انہیں اللہ کی طرف دعوت دی اور ان کے سامنے قرآن مجید کی تلاوت کی تو عبداللہ بن ابی نے کہا اے آدمی اس سے بہتر کوئی کلام نہیں اگر جو کچھ تم کہہ رہے ہو سچ ہو تو بھی ہم کو ہماری مجلس میں تکلیف نہ دو اور اپنی سواری کی طرف لوٹ جاؤ اور ہم میں سے جو تیرے پاس آئے اسے یہ قصہ سنانا عبداللہ بن رواحہ نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری مجلسوں میں تشریف لایا کریں ہمیں یہ بات پسند ہے پھر مسلمان! مشرکین اور یہود ایک دوسرے کو گالیاں دینے لگے یہاں تک کہ ایک دوسرے پر حملہ کرنے کے لئے تیار ہو گئے مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا جوش ٹھنڈا کر دیا پھر اپنی سواری پر سوار ہو گئے یہاں تک کہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس پہنچے تو فرمایا اے سعد! کیا تم نے ابوحباب عبداللہ بن ابی کی بات سنی اس نے اس اس طرح کہا ہے انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول اسے معاف فرما دیں اور درگزر فرمائیں اللہ کی قسم اللہ نے جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمایا وہ عطا فرما ہی دیا ہے اس آبادی والوں نے جو کچھ آپ کو عطا کیا اتفاق کر لیا تھا کہ وہ اس کو تاج پہنائیں اور باشاہت کی پگڑی اس کے سر پر باندھیں لیکن اللہ نے ان کے فیصلہ کو حق عطا کرنے کے ساتھ رد کر دیا تو وہ حسد میں مبتلا ہو گیا پس اسنے اس وجہ سے یہ معاملہ کیا پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے معاف فرما دیا۔
It has been narrated on the authority of Usama b. Zaid that the Prophet (may peace be upon him) rode a donkey. It had on it a saddle under which was a mattress made at Fadak (a place near Medina). Behind him he seated Usama. He was going to the street of Banu Harith al-Khazraj to inquire after the health of Sa'd b. Ubada. This happened before the Battle of Badr. (He proceeded) until he passed by a mixed company of people in which were Muslims, polytheists, idol worshippers and the Jews and among them were 'Abdullah b. Ubayy and 'Abdullah b. Rawaha. When the dust raised by the hoofs of the animal spread over the company, 'Abdullah b. Ubayy covered his nose with his mantle and said: Do not scatter the dust over us (Not minding this remark), the Holy Prophet (may peace be upon him) greeted them, stopped, got down from his animal, invited them to Allah, and recited to them the Qur'an. 'Abdullah b. Ubayy said: O man, if what you say is the truth, the best thing for you would be not to bother us with it in our assemblies. Get back to your place. Whoso comes to you from us, tell him (all) this. Abdullah b. Rawaha said: Come to us in our gatherings, for we love (to hear) it. The narrator says: (At this), the Muslims, the polytheists and the Jews began to rebuke one another until they were determined to come to blows. The Holy Prophet (may peace be upon him) continued to pacify them. (When they were pacified), he rode his animal and came to Sa'd b. 'Ubida. He said: Sa'd, haven't you heard what Abu Hubab (meaning 'Abdullah b. Ubayy) has said? He has said so and so. Sa'd said: Messenger of Allah, forgive and pardon. God has granted you a sublime position, (but so far as he is concerned) the people of this settlement had-decided to make him their king by making him wear a crown and a turban (in token thereof), but God has circumvented this by the truth He has granted you. This has made him jealous and his jealousy (must have) prompted the behaviour that you have witnessed. So, the Holy Prophet (may peace upon him) forgave him.
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ حَدَّثَنَا حُجَيْنٌ يَعْنِي ابْنَ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا لَيْثٌ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ فِي هَذَا الْإِسْنَادِ بِمِثْلِهِ وَزَادَ وَذَلِکَ قَبْلَ أَنْ يُسْلِمَ عَبْدُ اللَّهِ-
محمد بن رافع، حجین، ابن مثنی، لیث، عقیل، حضرت ابن شہاب سے ان سندوں کے ساتھ اسی طرح حدیث منقول ہے اور اس میں یہ زائد ہے کہ ابھی تک عبداللہ اسلام نہیں لائے تھے۔
A similar tradition has been narrated through a different chain of transmitters by Ibn Shihab with the addition of the words: "Before Abdullah (b. Ubayy) became a Muslim."
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی الْقَيْسِيُّ حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ قِيلَ لِلنَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ أَتَيْتَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ قَالَ فَانْطَلَقَ إِلَيْهِ وَرَکِبَ حِمَارًا وَانْطَلَقَ الْمُسْلِمُونَ وَهِيَ أَرْضٌ سَبَخَةٌ فَلَمَّا أَتَاهُ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِلَيْکَ عَنِّي فَوَاللَّهِ لَقَدْ آذَانِي نَتْنُ حِمَارِکَ قَالَ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ وَاللَّهِ لَحِمَارُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَطْيَبُ رِيحًا مِنْکَ قَالَ فَغَضِبَ لِعَبْدِ اللَّهِ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِهِ قَالَ فَغَضِبَ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا أَصْحَابُهُ قَالَ فَکَانَ بَيْنَهُمْ ضَرْبٌ بِالْجَرِيدِ وَبِالْأَيْدِي وَبِالنِّعَالِ قَالَ فَبَلَغَنَا أَنَّهَا نَزَلَتْ فِيهِمْ وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا-
محمد بن عبدالاعلی قیسی، معتمر، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا کاش آپ صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ بن ابی کے پاس دعوت اسلام کے لئے تشریف لے جائیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف گدھے پر سوار ہو کر چلے اور مسلمان بھی چلے اور یہ شور والی زمین تھی جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس پہنچے تو اس نے کہا مجھ سے دور رہو اللہ کی قسم تمہارے گدھے کی بدبو سے مجھے تکلیف ہوتی ہے انصار میں سے ایک آدمی نے کہا اللہ کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گدھا تجھ سے زیادہ پاکیزہ ہے پس عبداللہ کی قوم میں ایک آدمی غصہ میں آ گیا پھر دونوں طرف کے ساتھیوں کو غصہ آ گیا اور انہوں نے چھڑیوں ہاتھوں اور دکاں سے ایک دوسرے کو مارنا شروع کر دیا راوی کہتا ہے ہمیں یہ حدیث پہنچی ہے کہ ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی اور اگر مومنین کی دو جماعتیں لڑ پڑیں تو ان دونوں کے درمیان صلح کرا دو۔
It has been narrated on the authority of Anas b. Malik that it was said to the Holy Prophet (may peace be upon him): Would that you approached Abdullah b. Ubayy (to persuade him to accept Islam). The Holy Prophet (may peace be upon him) (accordingly) went to him, riding a donkey, and (a party of) Muslims also went (with him). On the way they had to walk over a piece of land affected with salinity. When the Holy Prophet (may peace be upon him) approached him, he said: Do not come near me. By Allah, the obnoxious smell of your donkey has offended me. (As a rejoinder to this remark), a man from the Ansar said: By God, the smell of the donkey of the Messenger of Allah (may peace be upon him) is better than your smell. (At this), a man from the tribe of 'Abdullah got furious. Then people from both sides got furious and exchanged blows with sticks, hands and shoes. (The narrator says) that (after this scuffle) we learnt that (the Qur'anic verse): "If two parties of the Believers have a quarrel, make ye peace between them" (xlix. 9) was revealed about these fighting parties.