مہمان کا اکرام اور ایثار کی فضیلت کے بیان میں

حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ عَنْ فُضَيْلِ بْنِ غَزْوَانَ عَنْ أَبِي حَازِمٍ الْأَشْجَعِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ جَائَ رَجُلٌ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنِّي مَجْهُودٌ فَأَرْسَلَ إِلَی بَعْضِ نِسَائِهِ فَقَالَتْ وَالَّذِي بَعَثَکَ بِالْحَقِّ مَا عِنْدِي إِلَّا مَائٌ ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَی أُخْرَی فَقَالَتْ مِثْلَ ذَلِکَ حَتَّی قُلْنَ کُلُّهُنَّ مِثْلَ ذَلِکَ لَا وَالَّذِي بَعَثَکَ بِالْحَقِّ مَا عِنْدِي إِلَّا مَائٌ فَقَالَ مَنْ يُضِيفُ هَذَا اللَّيْلَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ فَقَامَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ فَقَالَ أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ فَانْطَلَقَ بِهِ إِلَی رَحْلِهِ فَقَالَ لِامْرَأَتِهِ هَلْ عِنْدَکِ شَيْئٌ قَالَتْ لَا إِلَّا قُوتُ صِبْيَانِي قَالَ فَعَلِّلِيهِمْ بِشَيْئٍ فَإِذَا دَخَلَ ضَيْفُنَا فَأَطْفِئْ السِّرَاجَ وَأَرِيهِ أَنَّا نَأْکُلُ فَإِذَا أَهْوَی لِيَأْکُلَ فَقُومِي إِلَی السِّرَاجِ حَتَّی تُطْفِئِيهِ قَالَ فَقَعَدُوا وَأَکَلَ الضَّيْفُ فَلَمَّا أَصْبَحَ غَدَا عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ قَدْ عَجِبَ اللَّهُ مِنْ صَنِيعِکُمَا بِضَيْفِکُمَا اللَّيْلَةَ-
زہیر بن حرب، جریر بن عبدالحمید، فضیل بن غزوان، ابی حازم اشجعی، ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک آدمی آیا اور اس نے عرض کیا کہ میں فاقہ سے ہوں آپ نے اپنی ازواج مطہرات میں سے کسی کی طرف ایک آدمی بھیجا تو زوجہ مطہرہ نے عرض کیا اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میرے پاس سوائے پانی کے اور کچھ نہیں ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دوسرے زوجہ مطہرہ کی طرف بھیجا تو انہوں نے بھی اسی طرح کہا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب ازواج مطہرات نے یہی کہا کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میرے پاس سوائے پانی کے اور کچھ نہیں ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو آدمی آج رات اس مہمان کی مہمان نوازی کرے گا اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرمائے گا انصار میں سے ایک آدمی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول میں حاضر ہوں پھر وہ انصاری آدمی اس مہمان کو لے کر اپنے گھر کی طرف چلے اور اپنی بیوی سے کہا کیا تیرے پاس کچھ ہے وہ کہنے لگی کہ سوائے میرے بچوں کے کھانے کے میرے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے انصاری نے کہا ان بچوں کو کسی چیز سے بہلا دو اور جب مہمان اندر آجائے تو چراغ بجھا دینا اور اس پر یہ ظاہر کرنا گویا کہ ہم بھی کھانا کھا رہے ہیں راوی کہتے ہیں کہ مہمان کے ساتھ سب گھر والے بیٹھ گئے اور کھانا صرف مہمان نے ہی کھایا پھر جب صبح ہوئی اور وہ دونوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے آج رات اپنے مہمان کے ساتھ جو سلوک کیا ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے تعجب کیا ہے۔
Abu Huraira reported that a person came to Allah's Messenger (may peace be upon him) and said: I am hard pressed by hunger. He sent (message) to one of his wives (to procure food for him) but she said: By Him Who has sent you with Truth, thrre is nothing with me (to serve him) but only water. He (the Holy Prophet) then sent the (same) message to another, and she gave the same reply, until all of them gave the same reply: By Him Who has sent thee with the Truth, there is nothing with me but only water, whereupon he (the Holy Prophet) said: Allah would show mercy to him who will entertain this guest tonight. A person from the Ansar stood up and said: Messenger of Allah, I am ready to entertain. He took him to his house and said to his wife: Is there anything with you (to serve the guest)? She said: No, but only a subsistence for our children. He said: Distract their attention with something, and when the guest enters extinguish the lamp and give him the impression that we are eating. So they sat down and the guest had his meal. When it was morning he went to Allah's Apostle (may peace be upon him) who said: Allah was well pleased with what you both did for your guest this night.
حَدَّثَنَا أَبُو کُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَائِ حَدَّثَنَا وَکِيعٌ عَنْ فُضَيْلِ بْنِ غَزْوَانَ عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ بَاتَ بِهِ ضَيْفٌ فَلَمْ يَکُنْ عِنْدَهُ إِلَّا قُوتُهُ وَقُوتُ صِبْيَانِهِ فَقَالَ لِامْرَأَتِهِ نَوِّمِي الصِّبْيَةَ وَأَطْفِئْ السِّرَاجَ وَقَرِّبِي لِلضَّيْفِ مَا عِنْدَکِ قَالَ فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ وَيُؤْثِرُونَ عَلَی أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ کَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ-
ابوکریب، محمد بن علاء، وکیع، فضیل بن غزوان، ابوحازم ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک انصاری آدمی کے پاس ایک مہمان آیا تو اس انصاری کے پاس اپنے اور اپنے بچوں کے علاوہ کوئی چیز نہیں تھی انصاری نے اپنی بیوی سے کہا بچوں کو سلا دے اور چراغ کو بجھا دے اور جو کچھ تیرے پاس ہے وہ مہمان کے سامنے رکھ دے راوی کہتے ہیں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی (وَيُؤْثِرُوْنَ عَلٰ ي اَنْفُسِهِمْ) 59۔ الحشر : 9) یعنی وہ (صحابہ) اپنی جانوں پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ ان پر فاقہ ہے۔
Abu Huraira reported that a guest spent the night with a person from the Ansar who had nothing with him but food (sufficient) for his own self and his children. He said to his wife: (Lull) the children to sleep, and put out the lamp, and serve the guest with what you have with you. It was on this occasion that this verse was revealed: "Those who prefer the needy to their own selves in spite of the fact that they are themselves in pressing need" (Lix. 9).
و حَدَّثَنَاه أَبُو کُرَيْبٍ حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ جَائَ رَجُلٌ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُضِيفَهُ فَلَمْ يَکُنْ عِنْدَهُ مَا يُضِيفُهُ فَقَالَ أَلَا رَجُلٌ يُضِيفُ هَذَا رَحِمَهُ اللَّهُ فَقَامَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ يُقَالُ لَهُ أَبُو طَلْحَةَ فَانْطَلَقَ بِهِ إِلَی رَحْلِهِ وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِنَحْوِ حَدِيثِ جَرِيرٍ وَذَکَرَ فِيهِ نُزُولَ الْآيَةِ کَمَا ذَکَرَهُ وَکِيعٌ-
ابوکریب، ابن فضیل، ابی حازم، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک آدمی آیا تو آپ کے پاس اس کی مہمان نوازی کے لئے کچھ نہیں تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا کوئی آدمی ہے جو اس آدمی کی مہمان نوازی کرتا اللہ اس پر رحم فرمائے ایک انصاری آدمی کھڑا ہوا جسے حضرت ابوطلحہ کہا جاتا تھا پھر وہ اس مہمان کو اپنے گھر کی طرف لے چلے آگے روایت جویریہ کی حدیث کی طرح ہے اور اس میں آیت کریمہ کے نزول کا بھی ذکر ہے جیسا کہ وکیع نے اپنی روایت میں اسے ذکر کیا۔
Abu Huraira reported that a man came to Allah's Messenger (may peace be upon him) so that he should entertain him as a guest, but he had nothing with which he could entertain him. He, therefore, asked if there was any person who would entertain him (assuring the audience) that Allah would show mercy to him. A person from the Ansar who was called Abu Talha stood up and he took him to his house. The rest of the hadith is the same and mention is (also) made in that about the revelation of the verse as narrated by Waki'.
حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا شَبَابَةُ بْنُ سَوَّارٍ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی عَنْ الْمِقْدَادِ قَالَ أَقْبَلْتُ أَنَا وَصَاحِبَانِ لِي وَقَدْ ذَهَبَتْ أَسْمَاعُنَا وَأَبْصَارُنَا مِنْ الْجَهْدِ فَجَعَلْنَا نَعْرِضُ أَنْفُسَنَا عَلَی أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَيْسَ أَحَدٌ مِنْهُمْ يَقْبَلُنَا فَأَتَيْنَا النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَانْطَلَقَ بِنَا إِلَی أَهْلِهِ فَإِذَا ثَلَاثَةُ أَعْنُزٍ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ احْتَلِبُوا هَذَا اللَّبَنَ بَيْنَنَا قَالَ فَکُنَّا نَحْتَلِبُ فَيَشْرَبُ کُلُّ إِنْسَانٍ مِنَّا نَصِيبَهُ وَنَرْفَعُ لِلنَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَصِيبَهُ قَالَ فَيَجِيئُ مِنْ اللَّيْلِ فَيُسَلِّمُ تَسْلِيمًا لَا يُوقِظُ نَائِمًا وَيُسْمِعُ الْيَقْظَانَ قَالَ ثُمَّ يَأْتِي الْمَسْجِدَ فَيُصَلِّي ثُمَّ يَأْتِي شَرَابَهُ فَيَشْرَبُ فَأَتَانِي الشَّيْطَانُ ذَاتَ لَيْلَةٍ وَقَدْ شَرِبْتُ نَصِيبِي فَقَالَ مُحَمَّدٌ يَأْتِي الْأَنْصَارَ فَيُتْحِفُونَهُ وَيُصِيبُ عِنْدَهُمْ مَا بِهِ حَاجَةٌ إِلَی هَذِهِ الْجُرْعَةِ فَأَتَيْتُهَا فَشَرِبْتُهَا فَلَمَّا أَنْ وَغَلَتْ فِي بَطْنِي وَعَلِمْتُ أَنَّهُ لَيْسَ إِلَيْهَا سَبِيلٌ قَالَ نَدَّمَنِي الشَّيْطَانُ فَقَالَ وَيْحَکَ مَا صَنَعْتَ أَشَرِبْتَ شَرَابَ مُحَمَّدٍ فَيَجِيئُ فَلَا يَجِدُهُ فَيَدْعُو عَلَيْکَ فَتَهْلِکُ فَتَذْهَبُ دُنْيَاکَ وَآخِرَتُکَ وَعَلَيَّ شَمْلَةٌ إِذَا وَضَعْتُهَا عَلَی قَدَمَيَّ خَرَجَ رَأْسِي وَإِذَا وَضَعْتُهَا عَلَی رَأْسِي خَرَجَ قَدَمَايَ وَجَعَلَ لَا يَجِيئُنِي النَّوْمُ وَأَمَّا صَاحِبَايَ فَنَامَا وَلَمْ يَصْنَعَا مَا صَنَعْتُ قَالَ فَجَائَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمَ کَمَا کَانَ يُسَلِّمُ ثُمَّ أَتَی الْمَسْجِدَ فَصَلَّی ثُمَّ أَتَی شَرَابَهُ فَکَشَفَ عَنْهُ فَلَمْ يَجِدْ فِيهِ شَيْئًا فَرَفَعَ رَأْسَهُ إِلَی السَّمَائِ فَقُلْتُ الْآنَ يَدْعُو عَلَيَّ فَأَهْلِکُ فَقَالَ اللَّهُمَّ أَطْعِمْ مَنْ أَطْعَمَنِي وَأَسْقِ مَنْ أَسْقَانِي قَالَ فَعَمَدْتُ إِلَی الشَّمْلَةِ فَشَدَدْتُهَا عَلَيَّ وَأَخَذْتُ الشَّفْرَةَ فَانْطَلَقْتُ إِلَی الْأَعْنُزِ أَيُّهَا أَسْمَنُ فَأَذْبَحُهَا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا هِيَ حَافِلَةٌ وَإِذَا هُنَّ حُفَّلٌ کُلُّهُنَّ فَعَمَدْتُ إِلَی إِنَائٍ لِآلِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا کَانُوا يَطْمَعُونَ أَنْ يَحْتَلِبُوا فِيهِ قَالَ فَحَلَبْتُ فِيهِ حَتَّی عَلَتْهُ رَغْوَةٌ فَجِئْتُ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَشَرِبْتُمْ شَرَابَکُمْ اللَّيْلَةَ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ اشْرَبْ فَشَرِبَ ثُمَّ نَاوَلَنِي فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ اشْرَبْ فَشَرِبَ ثُمَّ نَاوَلَنِي فَلَمَّا عَرَفْتُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ رَوِيَ وَأَصَبْتُ دَعْوَتَهُ ضَحِکْتُ حَتَّی أُلْقِيتُ إِلَی الْأَرْضِ قَالَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِحْدَی سَوْآتِکَ يَا مِقْدَادُ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ کَانَ مِنْ أَمْرِي کَذَا وَکَذَا وَفَعَلْتُ کَذَا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا هَذِهِ إِلَّا رَحْمَةٌ مِنْ اللَّهِ أَفَلَا کُنْتَ آذَنْتَنِي فَنُوقِظَ صَاحِبَيْنَا فَيُصِيبَانِ مِنْهَا قَالَ فَقُلْتُ وَالَّذِي بَعَثَکَ بِالْحَقِّ مَا أُبَالِي إِذَا أَصَبْتَهَا وَأَصَبْتُهَا مَعَکَ مَنْ أَصَابَهَا مِنْ النَّاسِ-
ابوبکر بن ابی شیبہ، شبابہ بن سوار، سلیمان بن مغیرہ، ثابت، عبدالرحمن بن ابی لیلی، حضرت مقداد سے روایت ہے کہ میں اور میرے دو ساتھی آئے اور تکلیف کی وجہ سے ہماری قوت سماعت اور قوت بصارت چلی گئی تھی ہم نے اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ پر پیش کیا تو اس میں سے کسی نے بھی ہمیں قبول نہیں کیا پھر ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اپنے گھر کی طرف لے گئے تین بکریاں تھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان بکریوں کا دودھ نکالو پھر ہم ان کا دودھ نکالتے تھے اور ہم میں سے ہر ایک آدمی اپنے حصے کا دودھ پیتا اور ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ اٹھا کر رکھ دیتے راوی کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت تشریف لاتے سلام کرتے کہ سونے والا بیدار نہ ہوتا اور جاگنے والا سن لیتا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لاتے اور نماز پڑھتے پھر آپ اپنے دودھ کے پاس آئے اور اسے پیتے ایک رات شیطان آیا جبکہ میں اپنے حصے کا دودھ پی چکا تھا شیطان کہنے لگا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم انصار کے پاس آتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تحفے دتیے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے وہ مل جاتی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس ایک گھونٹ دودھ کی کیا ضرورت ہوگی پھر میں آیا اور میں نے وہ دودھ پی لیا جب وہ دودھ میرے پیٹ میں چلا گیا اور مجھے اس بات کا یقین ہوگیا کہ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ ملنے کا کوئی راستہ نہیں ہے تو شیطان نے مجھے ندامت دلائی اور کہنے لگا تیری خرابی ہو تو نے یہ کیا کیا تو نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حصے کا دودھ بھی پی لیا آپ آئیں گے اور وہ دودھ نہیں پائیں گے تو تجھے بددعا دیں گے تو تو ہلاک ہو جائے گا اور تیری دنیا وآخرت برباد ہو جائے گی میرے پاس ایک چادر تھی جب میں اسے اپنے پاؤں پر ڈالتا تو میرا سر کھل جاتا اور جب میں اسے اپنے سر پر ڈالتا تو میرے پاؤں کھل جاتے اور مجھے نیند بھی نہیں آرہی تھی جبکہ میرے دونوں ساتھی سو رہے تھے انہوں نے وہ کام نہیں کیا جو میں نے کیا تھا بالآخر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور نماز پڑھی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دودھ کی طرف آئے برتن کھولا تو اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ نہ پایا تو آپ نے اپنا سر مبارک آسمان کی طرف اٹھایا میں نے دل میں کہا اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے لئے بددعا فرمائیں گے پھر میں ہلاک ہو جاؤں گا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ تو اسے کھلا جو مجھے کھلائے اور تو اسے پلا جو مجھے پلائے یہ سن کر اپنی چادر مضبوط کر کے باندھ لی پھر میں چھری پکڑ کر بکریوں کی طرف چل پڑا کہ ان بکریوں میں سے جو موٹی بکری ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ذبح کر ڈالوں میں نے دیکھا کہ اس میں ایک تھن دودھ سے بھرا پڑا ہے بلکہ سب بکریوں کے تھن دودھ سے بھرے پڑے تھے پھر میں نے اس گھر کے برتنوں میں سے وہ برتن لیا کہ جس میں دودھ نہیں دوہا جاتا تھا پھر میں نے اس برتن میں دودھ نکالا یہاں تک کہ دودھ کی جھاگ اوپر تک آگئی پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم نے رات کو اپنے حصہ کا دودھ پی لیا تھا میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ صلی اللہ علیہ وسلم دودھ پئیں آپ نے وہ دودھ پیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیا پھر جب مجھے معلوم ہوگیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیر ہو گئے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا میں نے لے لی ہے تو میں ہنس پڑا یہاں تک کہ مارے خوشی کے میں زمین پر لوٹ پوٹ ہونے لگا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے مقداد یہ تیری ایک بری عادت ہے میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول میرے ساتھ تو اس طرح کا معاملہ ہوا ہے اور میں نے اس طرح کرلیا ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس وقت کا دودھ سوائے اللہ کی رحمت کے اور کچھ نہ تھا تو نے مجھے پہلے ہی کیوں نہ بتا دیا تاکہ ہم اپنے ساتھیوں کو بھی جگا دیتے وہ بھی اس میں سے دودھ پی لیتے میں نے عرض کیا اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دودھ بھی لیا ہے اور میں نے بھی یہ دودھ پی لیا ہے تو اب مجھے اور کوئی پرواہ نہیں یعنی میں نے اللہ کی رحمت حاصل کرلی ہے تو اب مجھے کیا پرواہ بوجہ خوشی کہ لوگوں میں سے کوئی اور بھی یہ رحمت حاصل کرے یا نہ کرے۔
Miqdad reported: I and two of my companions were so much afflicted by hunger that we had lost our power of seeing and hearing. We presented ourselves (as guests) to the Companions of the Holy Prophet (may peace be upon him), but none amongst them would entertain us. So we came to Allah's Apostle (may peace be upon him), and he took us to his residence and there were three goats. Allah's Apostle (may peace be upon him) said: Milk these for us. So we milked them and every person amongst us drank his share and we set aside the share of Allah's Apostle (may peace be upon him). (It was his habit) to come during the night and greet (the people present there) in a manner that would not wake up one in sleep but make one who was awake hear it. He would then go to the mosque and say prayer, then go to the milk and drink it. Miqdad added: One night the Satan came to me when I had taken my share, and he said: Muhammad has gone to the Ansar, who would offer him hospitality and he would get what is with them, and he has no need for this draught (of milk). So I took (that milk) and drank it, and when it had penetrated deeply in my stomach and I was certain that there was no way out (but to digest it), the Satan aroused (my sense of) remorse and said: Woe be to thee! what have you done? You have taken the drink reserved for Muhammad! When he would come and he would not find it, he would curse you, and you would be ruined, and thus there would go (waste) this world and the Hereafter (for) you. There was a sheet over me; as I placed (pulled) it upon my feet, my head was uncovered and as I placed it upon my head, my feet were uncovered, and I could not sleep, but my two companions had gone to sleep for they had not done what I had done. There came Allah's Apostle (may peace be upon him), and he greeted as he used to greet (by saying as-Salamu 'Alaikum). He then came to the mosque and observed prayer and then came to his drink (milk) and uncovered it, but did not find anything in it. He raised his head towards the sky, and I said (to myself) that he (the Holy Prophet) was going to invoke curse upon me and I would be thus ruined; but he (the Holy Prophet) said: Allah, feed him who fed me and give drink to him who provided me drink. I held tight the sheet upon myself (and when he had supplicated), I took hold of the knife and went to the goats (possessed by the Holy Prophet) so that I may slauhter one for Allah's Messenger (may peace be upon him) which was the fattest amongst them, and in fact all of them were milch goats; then I took hold of the vessel which belonged to the family of Allah's Messenger (may peace be upon him) in which they used to milk and drink therefrom, and milked them in that until it swelled up with foam. I came to Allah's Messenger (may peace be upon him) and he said: Have you taken your share of the milk during the night? I said: Drink it. and he drank it; he then handed over (the vessel) to me and I said: Allah's Messenger, drink it, and he drank it and handed over (the vessel) to me again, I then perceived that Allah's Apostle (may peace be upon him) had been satiated and I had got his blessings. I burst into laughter (so much) so that I fell upon the ground, whereupon Allah's Messenger (may peace be upon him) said: Miqdad, it must be one of your mischiefs. I said: Allah's Messenger, this affair of mine is like this and this, and I have done so. Thereupon Allah's Apostle (may peace be upon him) said: This is nothing but a mercy from Allah. Why is it that you did not give me an opportunity so that we should have awakened our two friends and they would have got their share (of the milk)? I said: By Him Who has sent you with Truth. I do not mind whatever you give (to them), and whatever the (other) people happen to get, when I had got it along with you from among the people.
و حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ أَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ-
اسحاق بن ابراہیم، نضر بن شمیل، سلیمان بن مغیرہ، حضرت سلیمان بن مغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس سند کے ساتھ روایت نقل کی گئی ہے۔
This hadith has been reported on the authority of Mughira with the same chain of transmitters.
و حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ وَحَامِدُ بْنُ عُمَرَ الْبَکْرَاوِيُّ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی جَمِيعًا عَنْ الْمُعْتَمِرِ بْنِ سُلَيْمَانَ وَاللَّفْظُ لِابْنِ مُعَاذٍ حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ أَبِي عُثْمَانَ وَحَدَّثَ أَيْضًا عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَکْرٍ قَالَ کُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثِينَ وَمِائَةً فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلْ مَعَ أَحَدٍ مِنْکُمْ طَعَامٌ فَإِذَا مَعَ رَجُلٍ صَاعٌ مِنْ طَعَامٍ أَوْ نَحْوُهُ فَعُجِنَ ثُمَّ جَائَ رَجُلٌ مُشْرِکٌ مُشْعَانٌّ طَوِيلٌ بِغَنَمٍ يَسُوقُهَا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَيْعٌ أَمْ عَطِيَّةٌ أَوْ قَالَ أَمْ هِبَةٌ فَقَالَ لَا بَلْ بَيْعٌ فَاشْتَرَی مِنْهُ شَاةً فَصُنِعَتْ وَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَوَادِ الْبَطْنِ أَنْ يُشْوَی قَالَ وَايْمُ اللَّهِ مَا مِنْ الثَّلَاثِينَ وَمِائَةٍ إِلَّا حَزَّ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُزَّةً حُزَّةً مِنْ سَوَادِ بَطْنِهَا إِنْ کَانَ شَاهِدًا أَعْطَاهُ وَإِنْ کَانَ غَائِبًا خَبَأَ لَهُ قَالَ وَجَعَلَ قَصْعَتَيْنِ فَأَکَلْنَا مِنْهُمَا أَجْمَعُونَ وَشَبِعْنَا وَفَضَلَ فِي الْقَصْعَتَيْنِ فَحَمَلْتُهُ عَلَی الْبَعِيرِ أَوْ کَمَا قَالَ-
عبیداللہ بن معاذ عنبری، حامد بن عمر بکراوی، محمد بن عبدالاعلی، معتمر بن سلیمان، معتمر، ابوعثمان، حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سو تیس آدمی تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم میں سے کسی کے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے ہمارے ساتھ ایک آدمی تھا اس کے پاس ایک صاع یا اس کے بقدر کھانا تھا اس آٹے کو گوندھا گیا پھر اس کے بعد پراگندہ بالوں والا لمبے قد کا ایک مشرک آدمی اپنی بکریوں کو چراتا ہوا آیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چرواہے سے فرمایا کیا تم بیچو گے یا ایسے ہی دے دو گے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یا ہبہ کر دو گے اس نے کہا نہیں بلکہ میں بیچوں گا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نیاس سے ایک بکری خریدی اور اس کا گوشت تیار کیا گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی کلیجی بھوننے کا حکم فرمایا روای کہتے ہیں اللہ کی قسم ایک سو تیس آدمیوں میں سے کوئی آدمی بھی ایسا نہیں بچا کہ جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کلیجی کا ٹکڑا کاٹ کر نہ دیا ہو جو آدمی اس وقت موجود تھا اسے اسی وقت دے دیا اور جو موجود نہیں تھا اس کے لیے حصہ رکھ دیا راوی کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو پیالوں میں نکالا پھر ہم سب نے اس میں سے کھایا اور خوب سیر ہو گئے اور پیالوں میں بچ گیا تو میں نیا سے اونٹ پر رکھ دیا یا جیسا کہ راوی نے کہا۔
'Abd al-Rahman b. Abu Bakr reported: We were one hundred and thirty (persons) with Allah's Apostle (may peace be upon him). Allah's Apostle (may peace be upon him) said: Does any one of you possess food? There was a person with (us) who had a sa' of flour or something about that, and it was kneaded. Then a tall polytheist with dishevelled hair came driving his flock of sheep. Thereupon Allah's Apostle (may peace be upon him) said: Would you like to sell it (any one of these goats) or offer it as a gift or a present? He said: No, (I am not prepared to offer as a gift), but I would sell it. He (the Holy Prophet) bought a sheep from him, and it was slaughtered and its meat was prepared, and Allah's Messenger (may peace be upon him) commanded that its liver should be roasted. He (the narrator) said: By Allah, none among one hundred and thirty persons was left whom Allah's Messenger (may peace be upon him) had not given a part out of her liver; if anyone was present he gave it to him. but if he was absent it was set aside for him. And he (the Holy Prophet) filled two bowls (one with soup and the other with mutton) and we all ate out of them to our hearts' content, but (still) some part was (left) in (those) two bowls, and I placed it on the camel- (or words to the same effect).
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ وَحَامِدُ بْنُ عُمَرَ الْبَکْرَاوِيُّ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی الْقَيْسِيُّ کُلُّهُمْ عَنْ الْمُعْتَمِرِ وَاللَّفْظُ لِابْنِ مُعَاذٍ حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ قَالَ قَالَ أَبِي حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ أَنَّهُ حَدَّثَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَکْرٍ أَنَّ أَصْحَابَ الصُّفَّةِ کَانُوا نَاسًا فُقَرَائَ وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَرَّةً مَنْ کَانَ عِنْدَهُ طَعَامُ اثْنَيْنِ فَلْيَذْهَبْ بِثَلَاثَةٍ وَمَنْ کَانَ عِنْدَهُ طَعَامُ أَرْبَعَةٍ فَلْيَذْهَبْ بِخَامِسٍ بِسَادِسٍ أَوْ کَمَا قَالَ وَإِنَّ أَبَا بَکْرٍ جَائَ بِثَلَاثَةٍ وَانْطَلَقَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَشَرَةٍ وَأَبُو بَکْرٍ بِثَلَاثَةٍ قَالَ فَهُوَ وَأَنَا وَأَبِي وَأُمِّي وَلَا أَدْرِي هَلْ قَالَ وَامْرَأَتِي وَخَادِمٌ بَيْنَ بَيْتِنَا وَبَيْتِ أَبِي بَکْرٍ قَالَ وَإِنَّ أَبَا بَکْرٍ تَعَشَّی عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ لَبِثَ حَتَّی صُلِّيَتْ الْعِشَائُ ثُمَّ رَجَعَ فَلَبِثَ حَتَّی نَعَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَائَ بَعْدَمَا مَضَی مِنْ اللَّيْلِ مَا شَائَ اللَّهُ قَالَتْ لَهُ امْرَأَتُهُ مَا حَبَسَکَ عَنْ أَضْيَافِکَ أَوْ قَالَتْ ضَيْفِکَ قَالَ أَوَ مَا عَشَّيْتِهِمْ قَالَتْ أَبَوْا حَتَّی تَجِيئَ قَدْ عَرَضُوا عَلَيْهِمْ فَغَلَبُوهُمْ قَالَ فَذَهَبْتُ أَنَا فَاخْتَبَأْتُ وَقَالَ يَا غُنْثَرُ فَجَدَّعَ وَسَبَّ وَقَالَ کُلُوا لَا هَنِيئًا وَقَالَ وَاللَّهِ لَا أَطْعَمُهُ أَبَدًا قَالَ فَايْمُ اللَّهِ مَا کُنَّا نَأْخُذُ مِنْ لُقْمَةٍ إِلَّا رَبَا مِنْ أَسْفَلِهَا أَکْثَرَ مِنْهَا قَالَ حَتَّی شَبِعْنَا وَصَارَتْ أَکْثَرَ مِمَّا کَانَتْ قَبْلَ ذَلِکَ فَنَظَرَ إِلَيْهَا أَبُو بَکْرٍ فَإِذَا هِيَ کَمَا هِيَ أَوْ أَکْثَرُ قَالَ لِامْرَأَتِهِ يَا أُخْتَ بَنِي فِرَاسٍ مَا هَذَا قَالَتْ لَا وَقُرَّةِ عَيْنِي لَهِيَ الْآنَ أَکْثَرُ مِنْهَا قَبْلَ ذَلِکَ بِثَلَاثِ مِرَارٍ قَالَ فَأَکَلَ مِنْهَا أَبُو بَکْرٍ وَقَالَ إِنَّمَا کَانَ ذَلِکَ مِنْ الشَّيْطَانِ يَعْنِي يَمِينَهُ ثُمَّ أَکَلَ مِنْهَا لُقْمَةً ثُمَّ حَمَلَهَا إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَصْبَحَتْ عِنْدَهُ قَالَ وَکَانَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمٍ عَقْدٌ فَمَضَی الْأَجَلُ فَعَرَّفْنَا اثْنَا عَشَرَ رَجُلًا مَعَ کُلِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ أُنَاسٌ اللَّهُ أَعْلَمُ کَمْ مَعَ کُلِّ رَجُلٍ إِلَّا أَنَّهُ بَعَثَ مَعَهُمْ فَأَکَلُوا مِنْهَا أَجْمَعُونَ أَوْ کَمَا قَالَ-
عبیداللہ بن معاذ عنبری، حامد بن عمر بکراوی، محمد بن عبدالاعلی قیسی، معتمر، معتمربن سلیمان، ابوعثمان، حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ صفہ والے لوگ محتاج تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا کہ جس آدمی کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو تو وہ تین لے جائے اور جس آدمی کے پاس چار آدمیوں کا کھانا ہو تو وہ پانچواں یا چھٹے کو بھی لے جائے یا جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تین کو لئے آئے اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم دس ساتھیوں کو لے گئے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تین ساتھیوں کو ساتھ لائے تھے راوی کہتے ہیں کہ وہ میں اور میرے ماں باپ تھے کہ میں نہیں جانتا کہ شاید کہ انہوں نے اپنے بیوی کو بھی کہا ہو اور ایک خادم جو میرے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں کے گھر میں تھا راوی حضرت عبدالرحمن کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شام کا کھانا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھایا پھر وہیں ٹھہرے رہے یہاں تک کہ عشاء کی نماز ادا کی گئی اور پھر نماز سے فارغ ہو کر واپس آگئے پھر ٹھہرے یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے الغرض رات کا کچھ حصہ گزرنے کے بعد جتنا اللہ تعالیٰ کو منظور تھا حضرت ابوبکر کو ان کی بیوی نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مہمانوں کو چھوڑ کر کہاں چلے گئے تھے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کیا تم نے مہمانوں کو کھانا نہیں کھلایا وہ کہنے لگیں کہ آپ کے آنے تک مہمانوں نے کھانا کھانے سے انکار کردیا ان کے سامنے کھانا پیش کیا گیا مگر انہوں نے پھر بھی نہیں کھایا حضرت عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں بھاگ کر چھپ گیا حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا او جاہل اور انہوں نے مجھے برا بھلا کہا اور فرمایا مہمانوں کے ساتھ کھانا کھاؤ اور پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اللہ کی قسم! میں تو یہ کھانا نہیں کھاؤں گا حضرت عبدالرحمن کہتے ہیں اللہ کی قسم ہم کھانے کا جو لقمہ بھی اٹھاتے تھے اس کے نیچے سے اتنا ہی کھانا اور زیادہ ہو جاتا تھا یہاں تک کہ ہم خوب سیر ہو گئے اور جتنا کھانا پہلے تھا اس سے بھی زیادہ ہوگیا حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہ کھانا دیکھا تو وہ کھانا اتنا ہی تھا یا اس سے بھی زیادہ ہوگیا حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی بیوی سے فرمایا اے بنی خراس کی بہن یہ کیا ماجرا ہے؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی نے کہا میری آنکھوں کی ٹھنڈک کی قسم کھانا تو پہلے سے بھی تین گنا زیادہ ہوگیا ہے پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کھانے میں سے کھایا اور فرمایا کہ میں نے جو قسم کھائی تھی وہ صرف شیطانی فعل تھا آپ پھر ایک لقمہ اس کھانے میں سے کھایا پھر اس کھانے کو اٹھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گئے وہ کھانا صبح تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہا حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ہمارے اور ایک قوم کے درمیان صلح کا معاہدہ تھا اور معاہدہ کی مدت ختم ہو چکی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بارہ افراد مقرر فرما دیے اور ہر افسر کے ساتھ ایک خاص جماعت تھی اللہ جانتا ہے کہ اس جماعت کی کتنی تعداد تھی اور آپ نے وہ کھانا ان کے پاس بھیج دیا اور پھر ان سب نے خوب سیر ہو کر کھانا کھایا۔
'Abd al-Rabman b. Abu Bakr reported that the people of Suffa were very poor. Once the Messenger of Allah (may peace be upon him) said (to his Companions): He who amongst you has food for two persons should take three (guests with him), and he who has with him food for four persons should take five or six (guests with him for entertaining them). It was (in accordance with these instructions of the Holy Prophet) that Abu Bakr brought three persons, and the Apostle of Allah (may peace be upon him) brought ten persons (as guests to their respective houses). Abu Bakr had brought three persons (he himself, and myself), my father and my mother (along with therm). He (the narrator) said: I do not know whether he also said: My wife and one servant who was common between our house and that of Abu Bakr. Abu Bakr had had his evening meal with Allah's Apostle (may peace be upon him). He stayed here until night prayer had been offered. He then came back (to the house of Allah's Apostle) and stayed there until Allah's Messenger (may peace be upon him) felt drowsy and (Abu Bakr) then came (back to his own house) when (a considerable) part of the night had been over, as Allah had desired. His wife said to him: What held you back from your guests? He said: Oh! have you not served them the evening meal (by this time)? She said: It was in fact served to them. but they refused to eat until you came. He ('Abd al-Rahman) said: I slunk away and bid myself. He (Abu Bakr) said: O, you stupid fellow, and he reprimanded me, and said to the guests: Eat, though it may not be pleasant now. He said: By Allah. I will never eat it. He ('Abd al-Rahman) said: By Allah! we did not take a morsel when from beneath that (there appeared) more until they had eaten to their fill, and lo! it was more than what it was before. Abu Bakr saw that and found that it was so or more than that. He said to his wife: Sister of Band Firis, what is this? She said: By the coolness of my eyes. it is in excess by three times over the previous one. Then Abu Bakr ate saying: That was from the Satan (viz. his vow for not eating the food). He then took a morsel out of that and then took it (the rest) to the Messenger of Allah (may peace be upon him), and it was kept there until morning, and during (those days) there was a covenant between us and some other people, and the period of covenant was over, and we had appointed twelve officials with every person amongst them. It is Allah only Who knows as to how many people were there with each of them. He sent (this food to them) and all of them ate out of it.
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا سَالِمُ بْنُ نُوحٍ الْعَطَّارُ عَنْ الْجُرَيْرِيِّ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَکْرٍ قَالَ نَزَلَ عَلَيْنَا أَضْيَافٌ لَنَا قَالَ وَکَانَ أَبِي يَتَحَدَّثُ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ اللَّيْلِ قَالَ فَانْطَلَقَ وَقَالَ يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ افْرُغْ مِنْ أَضْيَافِکَ قَالَ فَلَمَّا أَمْسَيْتُ جِئْنَا بِقِرَاهُمْ قَالَ فَأَبَوْا فَقَالُوا حَتَّی يَجِيئَ أَبُو مَنْزِلِنَا فَيَطْعَمَ مَعَنَا قَالَ فَقُلْتُ لَهُمْ إِنَّهُ رَجُلٌ حَدِيدٌ وَإِنَّکُمْ إِنْ لَمْ تَفْعَلُوا خِفْتُ أَنْ يُصِيبَنِي مِنْهُ أَذًی قَالَ فَأَبَوْا فَلَمَّا جَائَ لَمْ يَبْدَأْ بِشَيْئٍ أَوَّلَ مِنْهُمْ فَقَالَ أَفَرَغْتُمْ مِنْ أَضْيَافِکُمْ قَالَ قَالُوا لَا وَاللَّهِ مَا فَرَغْنَا قَالَ أَلَمْ آمُرْ عَبْدَ الرَّحْمَنِ قَالَ وَتَنَحَّيْتُ عَنْهُ فَقَالَ يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ قَالَ فَتَنَحَّيْتُ قَالَ فَقَالَ يَا غُنْثَرُ أَقْسَمْتُ عَلَيْکَ إِنْ کُنْتَ تَسْمَعُ صَوْتِي إِلَّا جِئْتَ قَالَ فَجِئْتُ فَقُلْتُ وَاللَّهِ مَا لِي ذَنْبٌ هَؤُلَائِ أَضْيَافُکَ فَسَلْهُمْ قَدْ أَتَيْتُهُمْ بِقِرَاهُمْ فَأَبَوْا أَنْ يَطْعَمُوا حَتَّی تَجِيئَ قَالَ فَقَالَ مَا لَکُمْ أَنْ لَا تَقْبَلُوا عَنَّا قِرَاکُمْ قَالَ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ فَوَاللَّهِ لَا أَطْعَمُهُ اللَّيْلَةَ قَالَ فَقَالُوا فَوَاللَّهِ لَا نَطْعَمُهُ حَتَّی تَطْعَمَهُ قَالَ فَمَا رَأَيْتُ کَالشَّرِّ کَاللَّيْلَةِ قَطُّ وَيْلَکُمْ مَا لَکُمْ أَنْ لَا تَقْبَلُوا عَنَّا قِرَاکُمْ قَالَ ثُمَّ قَالَ أَمَّا الْأُولَی فَمِنْ الشَّيْطَانِ هَلُمُّوا قِرَاکُمْ قَالَ فَجِيئَ بِالطَّعَامِ فَسَمَّی فَأَکَلَ وَأَکَلُوا قَالَ فَلَمَّا أَصْبَحَ غَدَا عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ بَرُّوا وَحَنِثْتُ قَالَ فَأَخْبَرَهُ فَقَالَ بَلْ أَنْتَ أَبَرُّهُمْ وَأَخْيَرُهُمْ قَالَ وَلَمْ تَبْلُغْنِي کَفَّارَةٌ-
محمد بن مثنی، سالم بن نوح عطار جریری، ابوعثمان، عبدالرحمن بن ابوبکر، حضرت عبدالرحمن بن ابی ابکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس کچھ مہمان آئے اور میرے والد رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ باتیں کیا کرتے تھے حضرت عبدالرحمن کہتے ہیں کہ وہ یہ کہتے ہوئے چلے گئے کہ اے عبدالرحمن مہمانوں کی خبرگیری کرنا راوی کہتے ہیں کہ جب شام ہوئی تو ہم مہمانوں کے سامنے کھانا لے کر آئے تو انہوں نے کھانے سے انکار کردیا اور کہنے لگے کہ جب تک گھر والے ہمارے ساتھ کھانا نہیں کھائیں گے اس وقت تک ہم کھانا نہیں کھائیں گے میں نے کہا میرے والد سخت مزاج آدمی ہیں اگر تم کھانا نہیں کھاؤں گے تو مجھے خطرہ ہے کہ کہیں مجھے ان سے کوئی تکلیف نہ اٹھانی پڑ جائے مہمانوں نے کھانا کھانے سے انکار کردیا تو جب حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے تو انہوں نے سب سے پہلے مہمانوں ہی کے بارے میں پوچھا اور فرمایا کیا تم اپنے مہمانوں سے فارغ ہو گئے ہو راوی کہتے ہیں انہوں نے عرض کیا نہیں اللہ کی قسم ابھی ہم فارغ نہیں ہوئے حضرت عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں ایک طرف ہوگیا انہوں نے کہا اے عبدالرحمن میں اس طرف سے ہٹ گیا پھر انہوں نے فرمایا او نالائق میں تجھے قسم دیتا ہوں کہ اگر تو میری آواز سن رہا ہے تو آجا حضرت عبدالرحمن کہتے ہیں کہ پھر میں آگیا اور میں نے عرض کیا اللہ کی قسم میرا کوئی گناہ نہیں یہ آپ کے مہمان موجود ہیں آپ ان سے خود پوچھ لیں میں نے ان کے سامنے کھانا لا کر رکھ دیا تھا انہوں نے آپ کے بغیر کھانا کھانے سے انکار کردیا تھا حضرت ابوبکر نے ان مہمانوں سے فرمایا تمہیں کیا ہوا کہ تم نے ہمارا کھانا قبول نہیں کیا راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمانے لگے اللہ کی قسم ہم بھی اس وقت تک کھانا نہیں کھائیں گے جب تک کہ آپ کھانا نہیں کھائیں گے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میں نے آج کی رات کی طرح بدترین رات کبھی نہیں دیکھی تم پر افسوس ہے کہ تم لوگ ہماری مہمان نوازی کیوں نہیں قبول کرتے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میرا قسم کھانا شیطانی فعل تھا چلو لاؤ کھانا لاؤ چنانچہ کھانا لایا گیا آپ نے اللہ کا نام لے کر کھانا کھایا اور مہمانوں نے بھی کھانا کھایا پھر جب صبح ہوئی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول مہمانوں کی قسم پوری ہوگئی اور میری جھوٹی اور یہ کہ سارے واقعہ کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بلکہ تمہاری قسم تو سب سے زیادہ پوری ہوئی ہے اور تم سب سے زیادہ سچے ہو حضرت عبدالرحمن کہتے ہیں کہ مجھے یہ بات نہیں پہنچی کہ انہوں نے قسم کا کفارہ ادا کیا تھا یا نہیں۔
'Abd al-Rahman b. Abu Bakr reported: There came to our house some guests. It was a common practice with my father to (go) and talk to Allah's Messenger (may peace be upon him) during the night. While going he said: 'Abd al-Rahman, entertain the guests. When it was evening we served the food to them, but they refused saying: So long as the owner of the house does not come and join us, we would not take the meal. I said to them: He ('Abu Bakr) is a stern person, and if you would not do that (if you do not take the food), I fear, I may be harmed by him, but they refused. As he (my father) came, the first thing he asked was: Have you served the guests? They (the people of the household) said: We have not served them so far. He said: Did I not command 'Abd al-Rahman (to do this)? He ('Abd al-Rahman) said: I sunk away and kept myself away by that time. He again said: O stupid fellow, I ask you on oath that in case you hear my voice you come to me. I came and said: By Allah, there is no fault of mine. These are your guests; you may ask them. I provided them with food but they refused to eat until you came. He said to them: Why is it that you did not accept our food? By Allah, I shall not even take food tonight (as you have not taken). They said: By Allah, we would not take until you join us. Thereupon he Abu Bakr said: I have never seen a more unfortunate night than this. Woe be to thee! that you do not accept from us food prepared for you. He again said: What I did first (that is the taking of vow for not eating the food) was prompted by the Satan. Bring the food. The food was brought, and he ate by reciting the name of Allah and they also ate, and when it was morning he came to Allah's Apostle (may peace be upon him) and said: Allah's Messenger, their oath (that of the guests) came to be true, but mine was not true, and after that he informed him of the whole incident. He said: Your oath came to be the most true and you are the best of them. He (the narrator) said. I do not know whether he made an atonement for it.