شہید کے لئے جنت کے ثبوت کے بیان میں

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَمْرٍو الْأَشْعَثِيُّ وَسُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ وَاللَّفْظُ لِسَعِيدٍ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرٍو سَمِعَ جَابِرًا يَقُولُا قَالَ رَجُلٌ أَيْنَ أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ قُتِلْتُ قَالَ فِي الْجَنَّةِ فَأَلْقَی تَمَرَاتٍ کُنَّ فِي يَدِهِ ثُمَّ قَاتَلَ حَتَّی قُتِلَ وَفِي حَدِيثِ سُوَيْدٍ قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ أُحُدٍ-
سعید بن عمرو اشعثی، سوید بن سعید، سفیان، عمرو، حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول اگر میں قتل کردیا جاؤں تو میں کہاں ہوں گا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت میں تو اس نے اپنے ہاتھ میں موجود کھجور کو پھینکا پھر لڑنا شروع کیا یہاں تک کہ شہید کردیا گیا اور سوید کی روایت میں ہے کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے احد کے دن یہ پوچھا تھا
It has been reported on the authority of Jabir that a man said: Messenger of Allah, where shall I be if I am killed? He replied: In Paradise. The man threw away the dates he had in his hand and fought until he was killed (i. e. he did not wait until he could finish the dates). In the version of the tradition narrated by Suwaid we have the words:" A man said to the Holy Prophet (may peace be upon him). on the day of Uhud......"
حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ زَکَرِيَّائَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْبَرَائِ قَالَ جَائَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي النَّبِيتِ إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ح و حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ جَنَابٍ الْمِصِّيصِيُّ حَدَّثَنَا عِيسَی يَعْنِي ابْنَ يُونُسَ عَنْ زَکَرِيَّائَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْبَرَائِ قَالَ جَائَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي النَّبِيتِ قَبِيلٍ مِنْ الْأَنْصَارِ فَقَالَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّکَ عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ ثُمَّ تَقَدَّمَ فَقَاتَلَ حَتَّی قُتِلَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَمِلَ هَذَا يَسِيرًا وَأُجِرَ کَثِيرًا-
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابواسامہ، زکریا، ابواسحاق ، حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انصار کے قبیلہ بنونبیت کے آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں پھر میدان میں بڑھا اور لڑنا شروع کردیا یہاں تک کہ شہید کردیا گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس آدمی نے عمل کم کیا اور ثواب زیادہ دیا گیا۔
It has been reported on the authority of Bara! ' who stated: A man from Banu Nabit (one of the Ansar tribes) came to the Holy Prophet (may peace be upon him) and said: I testify that there is no god except Allah and that thou art His bondman and Messenger. Then he went forward and fought until he was killed. The Holy Prophet (may peace be upon him) said: He has done a little but shall be given a great reward.
حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ النَّضْرِ بْنِ أَبِي النَّضْرِ وَهَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ وَأَلْفَاظُهُمْ مُتَقَارِبَةٌ قَالُوا حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ وَهُوَ ابْنُ الْمُغِيرَةِ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بُسَيْسَةَ عَيْنًا يَنْظُرُ مَا صَنَعَتْ عِيرُ أَبِي سُفْيَانَ فَجَائَ وَمَا فِي الْبَيْتِ أَحَدٌ غَيْرِي وَغَيْرُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا أَدْرِي مَا اسْتَثْنَی بَعْضَ نِسَائِهِ قَالَ فَحَدَّثَهُ الْحَدِيثَ قَالَ فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَکَلَّمَ فَقَالَ إِنَّ لَنَا طَلِبَةً فَمَنْ کَانَ ظَهْرُهُ حَاضِرًا فَلْيَرْکَبْ مَعَنَا فَجَعَلَ رِجَالٌ يَسْتَأْذِنُونَهُ فِي ظُهْرَانِهِمْ فِي عُلْوِ الْمَدِينَةِ فَقَالَ لَا إِلَّا مَنْ کَانَ ظَهْرُهُ حَاضِرًا فَانْطَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ حَتَّی سَبَقُوا الْمُشْرِکِينَ إِلَی بَدْرٍ وَجَائَ الْمُشْرِکُونَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يُقَدِّمَنَّ أَحَدٌ مِنْکُمْ إِلَی شَيْئٍ حَتَّی أَکُونَ أَنَا دُونَهُ فَدَنَا الْمُشْرِکُونَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُومُوا إِلَی جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَوَاتُ وَالْأَرْضُ قَالَ يَقُولُ عُمَيْرُ بْنُ الْحُمَامِ الْأَنْصَارِيُّ يَا رَسُولَ اللَّهِ جَنَّةٌ عَرْضُهَا السَّمَوَاتُ وَالْأَرْضُ قَالَ نَعَمْ قَالَ بَخٍ بَخٍ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا يَحْمِلُکَ عَلَی قَوْلِکَ بَخٍ بَخٍ قَالَ لَا وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِلَّا رَجَائَةَ أَنْ أَکُونَ مِنْ أَهْلِهَا قَالَ فَإِنَّکَ مِنْ أَهْلِهَا فَأَخْرَجَ تَمَرَاتٍ مِنْ قَرَنِهِ فَجَعَلَ يَأْکُلُ مِنْهُنَّ ثُمَّ قَالَ لَئِنْ أَنَا حَيِيتُ حَتَّی آکُلَ تَمَرَاتِي هَذِهِ إِنَّهَا لَحَيَاةٌ طَوِيلَةٌ قَالَ فَرَمَی بِمَا کَانَ مَعَهُ مِنْ التَّمْرِ ثُمَّ قَاتَلَهُمْ حَتَّی قُتِلَ-
ابوبکر بن نضر بن ابی نضر، ہارون بن عبداللہ بن محمد بن رافع، عبد بن حمید، ہاشم بن قاسم، سلیمان بن مغیر ہ، ثابت، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بسیہ کو جاسوس بنا کر بھیجا تاکہ وہ دیکھے کہ ابوسفیان کا قافلہ کیا کرتا ہے۔ پس جب وہ واپس آیا تو میرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی بھی گھر میں نہ تھا۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں سے بعض کا استثنی کیا تھا یا نہیں۔ پس اس نے آکر ساری بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور ارشاد فرمایا بے شک ہمیں ایک چیز کی ضرورت ہے پس جس کے پاس اپنی سواری ہو تو وہ ہمارے ساتھ سوار ہو کر چلے۔ پس لوگ مدینہ کی بلندی سے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی سواریوں کو پیش کرنے کی اجازت طلب کرنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں، صرف وہی ساتھ چلیں جن کے پاس سواریاں موجود ہوں۔ پس رسول اللہ کے صحابہ چلے یہاں تک کہ مشرکین سے پہلے ہی مقام بدر پر پہنچ گئے جب مشرک آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی آدمی اس وقت تک پیش قدمی نہ کرے جب تک میں نہ آگے بڑھوں پس جب مشرکین قریب آ گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس جنت کی طرف بڑھو جس کی چوڑائی آسمان و زمین کے برابر ہے عمیر بن حمام انصاری نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! جنت کی چوڑائی آسمان و زمین کی چوڑائی کے برابر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں۔ اس نے کہا واہ واہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تجھے اس کلمہ تحسین کہنے پر کس چیز نے ابھارا ہے، اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول میں نے کلمہ صرف جنت والوں میں ہونے کی امید میں کہا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو اہل جنت میں سے ہے تو عمیر نے اپنے تھیلے سے کچھ کھجوریں نکال کر انہیں کھانا شروع کیا پھر کہا اگر میں ان کھجوروں کے کھانے تک زندہ رہا تو یہ بہت لمبی زندگی ہوگی پھر انہوں نے اپنے پاس موجود کھجوروں کو پھینک دیا پھر کافروں سے لڑتے ہوئے شہید کر دیے گئے۔
It has been reported on the authority of Anas b. Malik who said: The Messenger of Allah (may peace be upon him) sent Busaisah as a scout to see what the caravan of Abu Sufyan was doing. He came (back and met the Holy Prophet in his house) where there was nobody except myself and the Messenger of Allah. I do not remember whether he (Hadrat Anas) made an exception of some wives of the Holy Prophet (may peace be upon him) or not and told him the news of the caravan. (Having heard the news), the Messenger of Allah (may peace be upon him) came out (hurriedly), spoke to the people and said: We are in need (of men) ; whoever has an animal to ride upon ready with him should ride with us. People began to ask him permission for bringing their riding animals which were grazing on the hillocks near Medina. He said: No. (I want) only those who have their riding animals ready. So the Messenger of Allah (may peace be upon him) and his Companions proceeded towards Badr and reached there forestalling the polytheists (of Mecca). When the polytheists (also) reached there, the Messenger of Allah (may peace be upon him) said: None of you should step forward to (do) anything unless I am ahead of him. The polytheists (now) advanced (towards us), and the Messenger of Allah (may peace be upon him) said. Get up to enter Paradise which is equal in width to the heavens and the earth. 'Umair b. al- Humam al-Ansari said: Messenger of Allah, is Paradise equal in extent to the heavens and the earth? He said: Yes. 'Umair said: My goodness! The Messenger of Allah (may peace be upon him) asked him: What prompted you to utter these words (i. e. my goodness! ')? He said: Messenger of Allah, nothing but the desire that I be among its residents. He said: Thou art (surely) amona its residents. He took out dates from his bag and began to eat them. Then he said: If I were to live until I have eaten all these dates of mine, it would be a long life. (The narrator said): He threw away all the dates he had with him. Then he fought the enemies until he was killed.
حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ يَحْيَی التَّمِيمِيُّ وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ وَاللَّفْظُ لِيَحْيَی قَالَ قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا و قَالَ يَحْيَی أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ عَنْ أَبِي بَکْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سَمِعْتُ أَبِي وَهُوَ بِحَضْرَةِ الْعَدُوِّ يَقُولُا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ أَبْوَابَ الْجَنَّةِ تَحْتَ ظِلَالِ السُّيُوفِ فَقَامَ رَجُلٌ رَثُّ الْهَيْئَةِ فَقَالَ يَا أَبَا مُوسَی آنْتَ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ هَذَا قَالَ نَعَمْ قَالَ فَرَجَعَ إِلَی أَصْحَابِهِ فَقَالَ أَقْرَأُ عَلَيْکُمْ السَّلَامَ ثُمَّ کَسَرَ جَفْنَ سَيْفِهِ فَأَلْقَاهُ ثُمَّ مَشَی بِسَيْفِهِ إِلَی الْعَدُوِّ فَضَرَبَ بِهِ حَتَّی قُتِلَ-
یحیی بن یحیی تمیمی، قتیبہ بن سعید، جعفر بن سلیمان، ابوعمرجونی، ابوبکر، حضرت عبداللہ بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے اپنے باپ سے دشمن کے مقابلہ کے وقت سنا وہ فرما رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک جنت کے دروازے تلواروں کے سائے کے نیچے ہیں یہ سن کر ایک خستہ حال آدمی نے کھڑے ہو کر کہا اے ابوموسی! کیا تم نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے انہوں نے کہا ہاں تو وہ آدمی اپنے ساتھیوں کے پاس لوٹا اور انہیں کہا میں تم کو سلام کرتا ہوں پھر اس نے اپنی تلوار کی میان کو توڑ کر پھینک دیا پھر اپنی تلوار لے کر دشمن کی طرف چلا اور لڑتے لڑتے شہید ہوگیا۔
The tradition has been narrated on the authority of 'Abdullah b. Qais. He heard it from his father who, while facing the enemy, reported that the Messenger of Allah (may peace be upon him) said: Surely, the gates of Paradise are under the shadows of the swords. A man in a shabby condition got up and said; Abu Musa, did you hear the Messenger of Allah (may peace be upon him) say this? He said: Yes. (The narrator said): He returned to his friends and said: I greet you (a farewell greeting). Then he broke the sheath of his sword, threw it away, advanced with his (naked) sword towards the enemy and fought (them) with it until he was slain.
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ جَائَ نَاسٌ إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا أَنْ ابْعَثْ مَعَنَا رِجَالًا يُعَلِّمُونَا الْقُرْآنَ وَالسُّنَّةَ فَبَعَثَ إِلَيْهِمْ سَبْعِينَ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ يُقَالُ لَهُمْ الْقُرَّائُ فِيهِمْ خَالِي حَرَامٌ يَقْرَئُونَ الْقُرْآنَ وَيَتَدَارَسُونَ بِاللَّيْلِ يَتَعَلَّمُونَ وَکَانُوا بِالنَّهَارِ يَجِيئُونَ بِالْمَائِ فَيَضَعُونَهُ فِي الْمَسْجِدِ وَيَحْتَطِبُونَ فَيَبِيعُونَهُ وَيَشْتَرُونَ بِهِ الطَّعَامَ لِأَهْلِ الصُّفَّةِ وَلِلْفُقَرَائِ فَبَعَثَهُمْ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِمْ فَعَرَضُوا لَهُمْ فَقَتَلُوهُمْ قَبْلَ أَنْ يَبْلُغُوا الْمَکَانَ فَقَالُوا اللَّهُمَّ بَلِّغْ عَنَّا نَبِيَّنَا أَنَّا قَدْ لَقِينَاکَ فَرَضِينَا عَنْکَ وَرَضِيتَ عَنَّا قَالَ وَأَتَی رَجُلٌ حَرَامًا خَالَ أَنَسٍ مِنْ خَلْفِهِ فَطَعَنَهُ بِرُمْحٍ حَتَّی أَنْفَذَهُ فَقَالَ حَرَامٌ فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَةِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِهِ إِنَّ إِخْوَانَکُمْ قَدْ قُتِلُوا وَإِنَّهُمْ قَالُوا اللَّهُمَّ بَلِّغْ عَنَّا نَبِيَّنَا أَنَّا قَدْ لَقِينَاکَ فَرَضِينَا عَنْکَ وَرَضِيتَ عَنَّا-
محمد بن حاتم، عفان، حماد، ثابت، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ کچھ لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ساتھ کچھ آدمی بھیج دیں جو ہمیں قرآن وسنت کی تعلیم دیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ انصار میں سے ستر آدمی بھیج دیے جنہیں قراء کہا جاتا تھا اور ان میں میرے ماموں حضرت حرام رضی اللہ بھی تھے قرآن پڑھتے تھے اور رات کو درس وتدریس اور تعلیم وتعلم میں مشغول رہتے تھے اور دن کے وقت پانی لا کر مسجد میں ڈالتے تھے اور جنگل سے لکڑیاں لا کر انہیں فروخت کر دیتے اور اس سے اہل صفہ اور فقراء کے لئے کھانے کی چیزیں خریدتے تھے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کفار کی طرف بھیج دیا اور انہیں منزل مقصور تک پہنچنے سے پہلے ہی کفار نے حملہ کرکے شہید کر دیا تو انہوں نے کہا اے اللہ ہمارا یہ پیغام ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دے کہ ہم تجھ سے ملاقات کر چکے ہیں اور ہم تجھ سے راضی ہیں اور تو ہم سے راضی ہو چکا ہے اسی دوران ایک آدمی نے آکر حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ماموں حضرت حرام رضی اللہ کے پیچھے سے اس طرح نیزہ مارا کہ وہ آرپار ہوگیا تو حرام رضی اللہ نے کہا رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا بے شک تمہارے بھائیوں کو قتل کردیا گیا ہے اور بے شک انہوں نے یہ کہا ہے اے اللہ ہماری طرف سے یہ پیغام ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دے کہ ہم تجھ سے ملاقات کر چکے ہیں اور ہم تجھ سے راضی ہو چکے ہیں اور تو ہم سے راضی ہو چکا ہے۔
It has been reported on the authority of Anas b. Malik that some people came to the Messenger of Allah (may peace be upon him) and said to him: Send with us some men who may teach us the Qur'an and the Sunnah. Accordingjy, he sent seventy men from the Ansar. They were called the Reciters and among them was my maternal uncle. Haram. They used to recite the Qur'an, discuss and ponder over its meaning at night. In the day they brought water and poured it (in pitchers) in the mosque, collected wood and sold it, and with the sale proceeds bought food for the people of the Suffa and the needy. The Holy Prophet (may peace be upon him) sent the Reciters with these people, but these (treacherous people) fell upon them and killed thern before they reached their destination (While dying), they said: O Allah, convey from us the news to our Prophet that we have met Thee (in a way) that we are pleased with Thee and Thou art pleased with us. (The narrator said): A man attacked Haram (maternal uncle of Anas) ) from behind and smote him with a spear which pierced him. (While dying), Haram said: By the Lord of the Ka'ba, I have met with success. The Messenger of Allah (may peace be upon him) said to his Companions: Your brethren have been slain grid they were saying: O Allah, convey from us to our Prophet the news that we have met Thee in a way that we are pleased with Thee and Thou art pleased with us.
و حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ حَدَّثَنَا بَهْزٌ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ عَنْ ثَابِتٍ قَالَ قَالَ أَنَسٌ عَمِّيَ الَّذِي سُمِّيتُ بِهِ لَمْ يَشْهَدْ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَدْرًا قَالَ فَشَقَّ عَلَيْهِ قَالَ أَوَّلُ مَشْهَدٍ شَهِدَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غُيِّبْتُ عَنْهُ وَإِنْ أَرَانِيَ اللَّهُ مَشْهَدًا فِيمَا بَعْدُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيَرَانِي اللَّهُ مَا أَصْنَعُ قَالَ فَهَابَ أَنْ يَقُولَ غَيْرَهَا قَالَ فَشَهِدَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ أُحُدٍ قَالَ فَاسْتَقْبَلَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ فَقَالَ لَهُ أَنَسٌ يَا أَبَا عَمْرٍو أَيْنَ فَقَالَ وَاهًا لِرِيحِ الْجَنَّةِ أَجِدُهُ دُونَ أُحُدٍ قَالَ فَقَاتَلَهُمْ حَتَّی قُتِلَ قَالَ فَوُجِدَ فِي جَسَدِهِ بِضْعٌ وَثَمَانُونَ مِنْ بَيْنِ ضَرْبَةٍ وَطَعْنَةٍ وَرَمْيَةٍ قَالَ فَقَالَتْ أُخْتُهُ عَمَّتِيَ الرُّبَيِّعُ بِنْتُ النَّضْرِ فَمَا عَرَفْتُ أَخِي إِلَّا بِبَنَانِهِ وَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَی نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا قَالَ فَکَانُوا يُرَوْنَ أَنَّهَا نَزَلَتْ فِيهِ وَفِي أَصْحَابِهِ-
محمد بن حاتم، بہز، سلیمان بن مغیرہ، ثابت، انس، حضرت ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میرے اس چچا نے کہا جن کے نام پر میرا نام رکھا گیا اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ بدر میں شریک نہ ہو سکے تھے جس کا انہیں بہت افسوس تھا کہ یہ وہ معرکہ تھا جس میں رسول اللہ تو شریک تھے لیکن میں غیرحاضر تھا ہاں اگر اللہ نے مجھے اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہی میں کوئی معرکہ دکھایا تو اللہ دیکھ لے گا کہ میں کیا کرتا ہوں تو وہ اس کے علاوہ کوئی کلمات کہنے سے ڈرے پس وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ احد میں شریک ہوئے تو حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا اے ابوعمرو کہاں جا رہے ہو مجھے تو احد کی طرف سے جنت کی خوشبو آ رہی ہے پھر وہ کفار سے لڑے یہاں تک کہ شہید ہو گئے اور ان کے جسم میں نیزوں اور تیروں کے اسی سے زیادہ زخم پائے گئے اور ان کی بہن میری پھوپھی ربیع بنت نضر نے کہا کہ میں اپنے بھائی کو صرف ان کے پوروں سے ہی پہچان سکی اس موقعہ پر یہ آیت نازل ہوئی مسلمانوں میں سے بعض وہ آدمی ہیں جنہوں نے اللہ کیا ہوا وعدہ سچا کر دکھایا ان میں سے بعض وہ ہیں جنہوں نے اپنی نذر کو پورا کیا اور بعض وہ ہیں جو انتظار کر رہے ہیں اور انہوں نے اپنے وعدہ میں کوئی رد وبدل نہ کیا صحابہ کرام گمان کرتے تھے کہ یہ آیت حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھیوں کے متعلق نازل ہوئی تھی۔
It has been Deported on the authority of Anas who said: My uncle and I have been named after him was not present with the Messenger of Allah (mav peace be upon him) on the Day of Badr. He felt distressed about it. He would say: I have missed the first battle fought by the Messenger of Allah (may peace be upon him), and if God now gives me an opportunity to see a battlefield with the Messenger of Allah (may peace be upon him), God will see what I do therein. He was afraid to say more than this (lest he be unable to keep his word with God). He was present with the Messenger of Allah (may peace be upon him) on the Day of Uhud. He met Sa'd b. Mu'adh (who was retreating). Anas said to him: O Abu 'Amr, where (are you going)? Woe (to thee)! I find the smell of Paradise beside the Uhud mountain. (Reprimanding Sa'd in these words) he went forward and fought thein (the enemy) until he was killed. (The narrator says). More than eighty wounds inflicted with swords, spears and arrows were found on his body. His sister, my aunt, ar-Rubayyi', daughter of Nadr, said: I could not recognise my brother's body (it was so badly mutilated) except from his finger-tips. (It was on this occasion that) the Qur'anic verse:" Among the Believers are men who have been true to their covenant with God. Of them some have completed their vow (to the extreme), and some still wait: but they have never changed (their determination) in the least" (xxxiii. 23). The narrator said that the verse had been revealed about him (Anas b. Nadr) and his Companions.