رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف وحی کے آغاز کے بیان میں

حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ سَرْحٍ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي يُونُسُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا قَالَتْ کَانَ أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّادِقَةَ فِي النَّوْمِ فَکَانَ لَا يَرَی رُؤْيَا إِلَّا جَائَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ ثُمَّ حُبِّبَ إِلَيْهِ الْخَلَائُ فَکَانَ يَخْلُو بِغَارِ حِرَائٍ يَتَحَنَّثُ فِيهِ وَهُوَ التَّعَبُّدُ اللَّيَالِيَ أُوْلَاتِ الْعَدَدِ قَبْلَ أَنْ يَرْجِعَ إِلَی أَهْلِهِ وَيَتَزَوَّدُ لِذَلِکَ ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَی خَدِيجَةَ فَيَتَزَوَّدُ لِمِثْلِهَا حَتَّی فَجِئَهُ الْحَقُّ وَهُوَ فِي غَارِ حِرَائٍ فَجَائَهُ الْمَلَکُ فَقَالَ اقْرَأْ قَالَ مَا أَنَا بِقَارِئٍ قَالَ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي حَتَّی بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ قَالَ قُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ قَالَ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّانِيَةَ حَتَّی بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ أَقْرَأْ فَقُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّالِثَةَ حَتَّی بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ اقْرَأْ وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ فَرَجَعَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَرْجُفُ بَوَادِرُهُ حَتَّی دَخَلَ عَلَی خَدِيجَةَ فَقَالَ زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي فَزَمَّلُوهُ حَتَّی ذَهَبَ عَنْهُ الرَّوْعُ ثُمَّ قَالَ لِخَدِيجَةَ أَيْ خَدِيجَةُ مَا لِي وَأَخْبَرَهَا الْخَبَرَ قَالَ لَقَدْ خَشِيتُ عَلَی نَفْسِي قَالَتْ لَهُ خَدِيجَةُ کَلَّا أَبْشِرْ فَوَاللَّهِ لَا يُخْزِيکَ اللَّهُ أَبَدًا وَاللَّهِ إِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَصْدُقُ الْحَدِيثَ وَتَحْمِلُ الْکَلَّ وَتَکْسِبُ الْمَعْدُومَ وَتَقْرِي الضَّيْفَ وَتُعِينُ عَلَی نَوَائِبِ الْحَقِّ فَانْطَلَقَتْ بِهِ خَدِيجَةُ حَتَّی أَتَتْ بِهِ وَرَقَةَ بْنَ نَوْفَلِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّی وَهُوَ ابْنُ عَمِّ خَدِيجَةَ أَخِي أَبِيهَا وَکَانَ امْرَأً تَنَصَّرَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَکَانَ يَکْتُبُ الْکِتَابَ الْعَرَبِيَّ وَيَکْتُبُ مِنْ الْإِنْجِيلِ بِالْعَرَبِيَّةِ مَا شَائَ اللَّهُ أَنْ يَکْتُبَ وَکَانَ شَيْخًا کَبِيرًا قَدْ عَمِيَ فَقَالَتْ لَهُ خَدِيجَةُ أَيْ عَمِّ اسْمَعْ مِنْ ابْنِ أَخِيکَ قَالَ وَرَقَةُ بْنُ نَوْفَلٍ يَا ابْنَ أَخِي مَاذَا تَرَی فَأَخْبَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَبَرَ مَا رَآهُ فَقَالَ لَهُ وَرَقَةُ هَذَا النَّامُوسُ الَّذِي أُنْزِلَ عَلَی مُوسَی صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا لَيْتَنِي فِيهَا جَذَعًا يَا لَيْتَنِي أَکُونُ حَيًّا حِينَ يُخْرِجُکَ قَوْمُکَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوَ مُخْرِجِيَّ هُمْ قَالَ وَرَقَةُ نَعَمْ لَمْ يَأْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِمَا جِئْتَ بِهِ إِلَّا عُودِيَ وَإِنْ يُدْرِکْنِي يَوْمُکَ أَنْصُرْکَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا-
ابوطاہر، احمد بن عمرو بن عبداللہ بن عمرو بن سرح، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کا آغاز اس طرح سے ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خواب سچے ہونے لگے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو بھی خواب دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح ظاہر ہوتا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تنہائی پسند ہونے لگی، غار حرا میں تنہا تشریف لے جاتے کئی کئی رات گھر میں تشریف نہ لاتے اور عبادت کرتے رہتے دین ابراہیمی کے مطابق، اپنے ساتھ کھانے پینے کا سامان رکھتے پھر ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس واپس تشریف لاتے، حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پھر اسی طرح کھانے پینے کا سامان پکا دیتیں یہاں تک کہ اچانک غار حرا میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی اتری فرشتہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آکر کہا پڑھئے! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا میں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ فرشتہ نے مجھے پکڑ کر اتنا دبایا کہ میں تھک گیا پھر مجھے چھوڑ کر فرمایا پڑھیے! میں نے کہا میں پڑھا ہوا نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ فرشتہ نے دوبارہ مجھے پکڑ کر اتنا دبایا کہ میں تھک گیا اس کے بعد مجھے چھوڑ دیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا فرشتہ نے پھر تیسری دفعہ مجھے پکڑ کر اتنا دبایا کہ میں تھک گیا پھر مجھے چھوڑ کر کہا (اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ اقْرَأْ وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ) پڑھئے اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا انسان کو گوشت کے لوتھڑے سے، پڑھ! تیرا پروردگار بڑی عزت والا ہے جس نے قلم سے سکھایا اور انسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس گھر تشریف لائے تو وحی کے جلال سے آپ کے شانہ مبارک اور گردن کے درمیان کا گوشت کانپ رہا تھا، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لا کر فرمایا کہ مجھے کپڑا اوڑھا دو مجھے کپڑا اوڑھا دو! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کپڑا اوڑھا دیا گیا یہاں تک کہ جب گھبراہٹ ختم ہوگئی تو فرمایا کہ مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے، حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرمانے لگیں کہ ہرگز نہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوش رہیں، اللہ کی قسم اللہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کبھی رسو انہیں کرے گا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو صلہ رحمی کرتے ہیں، سچ بولتے ہیں، یتیموں مسکینوں اور کمزوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں اور ناداروں کو دینے کی خاطر کماتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور پریشان لوگوں کی پریشانی میں لوگوں کے کام آتے ہیں، اس کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبدالعزی کے پاس لے گئیں، ورقہ دور جاہلیت میں اسلام سے قبل نصرانی ہوگئے تھے، وہ عربی لکھنا جانتے تھے اور انجیل کو عربی زبان میں جتنا اللہ کو منظور ہوتا لکھتے تھے یہ بہت بوڑھے اور نابینا ہوگئے تھے، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ورقہ سے کہا اے چچا! (ان کی بزرگی کی وجہ سے اس طرح خطاب کیا اصل میں وہ چچا زاد بھائی تھے) اپنے بھتیجے کی بات سنئے ورقہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کرکے کہا اے بھتیجے تم کیا دیکھتے ہو؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو کچھ دیکھا تھا اس سے آگاہ کیا، ورقہ کہنے لگا یہ تو وہ ناموس ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوا تھا کاش میں اس وقت جوان ہوتا اور اس وقت تک زندہ رہتا جب تیری قوم تجھے نکالے گی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا وہ مجھے نکال دیں گے ورقہ نے کہا ہاں جو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسا نبی بن کر دنیا میں آیا لوگ اس کے دشمن ہو گئے اگر میں اس وقت تک زندہ رہا تو میں تمہاری بھرپور مدد کروں گا۔
A'isha, the wife of the Apostle of Allah (may peace be upon him), reported: The first (form) with which was started the revelation to the Messenger of Allah was the true vision in sleep. And he did not see any vision but it came like the bright gleam of dawn. Thenceforth solitude became dear to him and he used to seclude himself in the cave of Hira', where he would engage in tahannuth (and that is a worship for a number of nights) before returning to his family and getting provisions again for this purpose. He would then return to Khadija and take provisions for a like period, till Truth came upon him while he was in the cave of Hira'. There came to him the angel and said: Recite, to which he replied: I am not lettered. He took hold of me [the Apostle said] and pressed me, till I was hard pressed; thereafter he let me off and said: Recite. I said: I am not lettered. He then again took hold of me and pressed me for the second time till I was hard pressed and then let me off and said: Recite, to which I replied: I am not lettered. He took hold of me and pressed me for the third time, till I was hard pressed and then let me go and said: Recite in the name of your Lord Who created, created man from a clot of blood. Recite. And your most bountiful Lord is He Who taught the use of pen, taught man what he knew not (al-Qur'an, xcvi. 1-4). Then the Prophet returned therewith, his heart was trembling, and he went to Khadija and said: Wrap me up, wrap me up! So they wrapped him till the fear had left him. He then said to Khadija: O Khadija! what has happened to me? and he informed her of the happening, saying: I fear for myself. She replied: It can't be. Be happy. I swear by Allah that He shall never humiliate you. By Allah, you join ties of relationship, you speak the truth, you bear people's burden, you help the destitute, you entertain guests, and you help against the vicissitudes which affect people. Khadija then took him to Waraqa b. Naufal b. Asad b. 'Abd al-'Uzza, and he was the son of Khadija's uncle, i. e., the brother of her father. And he was the man who had embraced Christianity in the Days of Ignorance (i. e. before Islam) and he used to write books in Arabic and, therefore, wrote Injil in Arabic as God willed that he should write. He was very old and had become blind Khadija said to him: O uncle! listen to the son of your brother. Waraqa b. Naufal said: O my nephew! what did you see? The Messenger of Allah (may peace be upon him), then, informed him what he had seen, and Waraqa said to him: It is namus that God sent down to Musa. Would that I were then (during your prophetic career) a young man. Would that I might be alive when your people would expel you! The Messenger of Allah (may peace be upon him) said: Will they drive me out? Waraqa said: Yes. Never came a man with a like of what you have brought but met hostilities. If I see your day I shall help you wholeheartedly.
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ قَالَ قَالَ الزُّهْرِيُّ وَأَخْبَرَنِي عُرْوَةُ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْوَحْيِ وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِمِثْلِ حَدِيثِ يُونُسَ غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ فَوَاللَّهِ لَا يُحْزِنُکَ اللَّهُ أَبَدًا وَقَالَ قَالَتْ خَدِيجَةُ أَيْ ابْنَ عَمِّ اسْمَعْ مِنْ ابْنِ أَخِيکَ-
محمد بن رافع، عبدالرزاق، معمر، زہری، عروہ، عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ابتدا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کا آغاز اس طرح سے ہوا اور پھر اسی طرح حدیث بیان کی جو گزر گئی، لیکن اس روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ اللہ کی قسم اللہ کبھی آپ کو رنجیدہ نہیں کرے گا اور راوی کہتے ہیں کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ورقہ سے کہا اے چچا کے لڑکے اپنے بھتیجے ( اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات سنو۔
This hadith has been narrated on the authority of 'A'isha with another chain of narrators like one transmitted by Yunus, i. e. the first thing with which the revelation was initiated with the Messenger of Allah (may peace be upon him) except the words: By Allah, Allah would never humiliate you, and Khadija said: O son of my uncle! Listen to the son of your brother.
حَدَّثَنِي عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْثِ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ جَدِّي قَالَ حَدَّثَنِي عُقَيْلُ بْنُ خَالِدٍ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ سَمِعْتُ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ يَقُولُ قَالَتْ عَائِشَةُ زَوْجُ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَجَعَ إِلَی خَدِيجَةَ يَرْجُفُ فُؤَادُهُ وَاقْتَصَّ الْحَدِيثَ بِمِثْلِ حَدِيثِ يُونُسَ وَمَعْمَرٍ وَلَمْ يَذْکُرْ أَوَّلَ حَدِيثِهِمَا مِنْ قَوْلِهِ أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّادِقَةُ وَتَابَعَ يُونُسَ عَلَی قَوْلِهِ فَوَاللَّهِ لَا يَخْزِيکَ اللَّهُ أَبَدًا وَذَکَرَ قَوْلَ خَدِيجَةَ أَيْ ابْنَ عَمِّ اسْمَعْ مِنْ ابْنِ أَخِيکَ-
عبدالملک، ابن شعیب، ابن لیث، عقیل بن خالد، ابن شہاب کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن زبیر سے سنا کہتے تھے کہ میں نے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس جب واپس تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دل کانپ رہا تھا پھر اسی طرح حدیث بیان کی جو گزر چکی لیکن اس حدیث میں یہ نہیں کہ شروع میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کا آغاز سچے خواب سے ہوا اور دوسری روایت کی طرح اس روایت میں ہے کہ اللہ کی قسم اللہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کبھی رسوا نہیں کرے گا اور حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ قول نقل کیا کہ اے چچا کے بیٹے اپنے بھیجے کی بات سنو۔
This hadith has been reported from 'A'isha by another chain of transmitters and the words are: He (the Holy Prophet) came to Khadija an his heart was trembling. The rest of the hadith has been narrated like one transmitted by Yunus and Ma'mar, but the first part is not mentioned, i. e. the first thing with which was started the revelation to the Holy Prophet was the true vision. And these words like those transmitted by Yunus are mentioned thus: By Allah, Allah would never humiliate you. And there is also a mention of the words of Khadija: O son of my uncle! Listen to the son of your brother.
حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ قَالَ حَدَّثَنِي يُونُسُ قَالَ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيَّ وَکَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَ يُحَدِّثُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُحَدِّثُ عَنْ فَتْرَةِ الْوَحْيِ قَالَ فِي حَدِيثِهِ فَبَيْنَا أَنَا أَمْشِي سَمِعْتُ صَوْتًا مِنْ السَّمَائِ فَرَفَعْتُ رَأْسِي فَإِذَا الْمَلَکُ الَّذِي جَائَنِي بِحِرَائٍ جَالِسًا عَلَی کُرْسِيٍّ بَيْنَ السَّمَائِ وَالْأَرْضِ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجُئِثْتُ مِنْهُ فَرَقًا فَرَجَعْتُ فَقُلْتُ زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي فَدَثَّرُونِي فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَأَنْذِرْ وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ وَثِيَابَکَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ وَهِيَ الْأَوْثَانُ قَالَ ثُمَّ تَتَابَعَ الْوَحْيُ-
ابوطاہر، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، ابوسلمہ بن عبدالرحمن بن عوف، جابر بن عبداللہ انصاری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں سے ایک انصاری حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وحی کے رک جانے کے زمانہ کا تذکرہ فرما رہے تھے کہ میں ایک مرتبہ جا رہا تھا کہ میں نے آسمان سے ایک آواز سنی میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو وہی فرشتہ حضرت جبرائیل ہے جو غار حرا میں میرے پاس وحی لے کر آیا تھا آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں یہ دیکھ کر گھبرا گیا مجھ پر ہیبت طاری ہوگئی پھر میں لوٹ کر گھر آیا تو میں نے کہا مجھے کپڑا اوڑھا دو مجھے کپڑا اوڑھا دو، تو مجھے گھر والوں نے کپڑا اوڑھا دیا اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ سورت (يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَأَنْذِرْ وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ وَثِيَابَکَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ وَهِيَ الْأَوْثَانُ قَالَ ثُمَّ تَتَابَعَ الْوَحْيُ) اے کپڑے میں لپٹنے والے اٹھو اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھو اور بتوں سے علیحدہ رہو، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ پھر برابر وحی آنے لگی۔
Jabir b. 'Abdullah al-Ansari who was one of the Companions of the Messenger of Allah (may peace be upon him) reportedThe Messenger of Allah (may peace be upon him) told about the intermission of revelation and narrated While I was walking I heard a voice from the sky, and raising my head I saw the angel who had come to me in Hira', sitting on a Throne between heaven and earth I was terror-stricken on that account and came back (to my family) and said: Wrap me up, wrap me up! So they wrapped me up, and the Blessed and Most Exalted Allah sent down:" You who are shrouded, arise and deliver warning, your Lord magnify, your clothes cleanse, and defilement shun," and" defilement" means idols; and then the revelation was followed continuously.
حَدَّثَنِي عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْثِ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ جَدِّي قَالَ حَدَّثَنِي عُقَيْلُ بْنُ خَالِدٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ يَقُولُ أَخْبَرَنِي جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ ثُمَّ فَتَرَ الْوَحْيُ عَنِّي فَتْرَةً فَبَيْنَا أَنَا أَمْشِي ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَ حَدِيثِ يُونُسَ غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ فَجُئِثْتُ مِنْهُ فَرَقًا حَتَّی هَوَيْتُ إِلَی الْأَرْضِ قَالَ و قَالَ أَبُو سَلَمَةَ وَالرُّجْزُ الْأَوْثَانُ قَالَ ثُمَّ حَمِيَ الْوَحْيُ بَعْدُ وَتَتَابَعَ-
عبدالملک بن شعیب، ابن لیث، عقیل بن خالد، ابن شہاب، ابوسلمہ بن عبدالرحمن، جابر بن عبداللہ ایک دوسری سند کے ساتھ یہ روایت بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے لیکن اس روایت میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں ڈر کی وجہ سے سہم گیا یہاں تک کہ میں زمین پر گر پڑا اور ابوسلمہ کہتے ہیں کہ وَالرُّجْزَ سے مراد بت ہیں پھر برابر لگاتار وحی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
It is narrated on the authority of Jabir b. Abdullah that he heard the Messenger of Allah (may peace be upon him) says: The wahi was intermitted for me for a small span of time and while I was walking, and then the hadith like the one narrated by Yunus was transmitted but with the exception of these words: I was terror-stricken till I fell on the ground. Abu Salama said: Defilement means idols. After this the revelation was speeded up and followed rapidly.
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَ حَدِيثِ يُونُسَ وَقَالَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ إِلَی قَوْلِهِ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ قَبْلَ أَنْ تُفْرَضَ الصَّلَاةُ وَهِيَ الْأَوْثَانُ وَقَالَ فَجُئِثْتُ مِنْهُ کَمَا قَالَ عُقَيْلٌ-
محمد بن رافع، عبدالرزاق، معمر، زہری، یونس ایک دوسری سند کے ساتھ یہ روایت بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے اس میں یہ الفاظ زائد ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرض نماز سے پہلے یہ آیات مبارکہ (يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ سے فَاھجُر) تک نازل فرمائیں۔
This hadith, the like of one narrated by Yunus has also been transmitted by Ma'mar on the authority of al-Zuhri who narrated: Allah the Most Glorious and Exalted revealed this:" You who are shrouded, arise and deliver warning, your Lord magnify, your clothes cleanse and defilement shun," before making the prayer obligatory. I felt terror-stricken as narrated by Uqail.
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ قَالَ سَمِعْتُ يَحْيَی يَقُولُ سَأَلْتُ أَبَا سَلَمَةَ أَيُّ الْقُرْآنِ أُنْزِلَ قَبْلُ قَالَ يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ فَقُلْتُ أَوْ اقْرَأْ فَقَالَ سَأَلْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ أَيُّ الْقُرْآنِ أُنْزِلَ قَبْلُ قَالَ يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ فَقُلْتُ أَوْ اقْرَأْ قَالَ جَابِرٌ أُحَدِّثُکُمْ مَا حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ جَاوَرْتُ بِحِرَائٍ شَهْرًا فَلَمَّا قَضَيْتُ جِوَارِي نَزَلْتُ فَاسْتَبْطَنْتُ بَطْنَ الْوَادِي فَنُودِيتُ فَنَظَرْتُ أَمَامِي وَخَلْفِي وَعَنْ يَمِينِي وَعَنْ شِمَالِي فَلَمْ أَرَ أَحَدًا ثُمَّ نُودِيتُ فَنَظَرْتُ فَلَمْ أَرَ أَحَدًا ثُمَّ نُودِيتُ فَرَفَعْتُ رَأْسِي فَإِذَا هُوَ عَلَی الْعَرْشِ فِي الْهَوَائِ يَعْنِي جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام فَأَخَذَتْنِي رَجْفَةٌ شَدِيدَةٌ فَأَتَيْتُ خَدِيجَةَ فَقُلْتُ دَثِّرُونِي فَدَثَّرُونِي فَصَبُّوا عَلَيَّ مَائً فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَأَنْذِرْ وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ وَثِيَابَکَ فَطَهِّرْ-
زہیر بن حرب، ولید، ابن مسلم، اوزاعی، یحیی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھا کہ قرآن کی سب سے پہلے کون سی آیات نازل ہوئیں فرمایا (يٰ اَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ) 74۔ المدثر : 1) میں نے کہا یا (اقْرَأْ) تو وہ کہنے لگے کہ میں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ قرآن میں سب سے پہلے کونسی آیات نازل ہوئیں تو انہوں نے فرمایا (يٰ اَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ) 74۔ المدثر : 1) میں نے کہا یا (اقْرَأْ) تو حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں تم سے وہ حدیث بیان کرتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے بیان کی تھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں غار حرا میں ایک مہینہ تک ٹھہرا رہا جب میری ٹھہر نے کی مدت ختم ہوگئی تو میں وادی میں اتر کر چلنے لگا تو مجھے آوازی دی گئی میں نے اپنے آگے پیچھے اور دائیں بائیں دیکھا تو مجھے کوئی نظر نہ آیا اس کے بعد پھر آواز دی گئی اور میں نے نظر ڈالی تو مجھے کوئی نظر نہ آیا اس کے بعد مجھے پھر آواز دی گئی اور میں نے اپنا سر اٹھایا تو ہوا میں ایک درخت پر حضرت جبرائیل علیہ السلام کو دیکھا مجھ پر اس مشاہدہ سے کپکپی طاری ہوگئی اور میں نے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آکر کہا کہ مجھے کپڑا اوڑھا دو انہوں نے مجھے کپڑا اوڑھا دیا اور مجھ پر پانی ڈالا تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں (يٰ اَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ) 74۔ المدثر : 1)
Yahya reported: I asked Abu Salama what was revealed first from the Qur'an. He said:" 0, the shrouded one." I said: Or" Recite." Jabir said: I am narrating to you what was narrated to us by the Messenger of Allah (may peace be upon him). He said: I stayed in Hira' for one month and when my stay was completed, I come down and went into the heart of the valley. Somebody called me aloud. I looked in front of me, behind me, on the right of my side and on my left, but I did not see any body. I was again called and I looked about but saw nothing. I was called again and raised my head, and there on the Throne in the open atmosphere he, i. e. Gabriel (peace be upon him) was sitting. I began to tremble on account of fear. I came to Khadija and said: Wrap me up. They wrapped me up and threw water on me and Allah, the Exalted and Glorious, sent down this: you who are shrouded! arise and deliver warning, your Lord magnify, your clothes cleanse."
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَکِ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي کَثِيرٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ وَقَالَ فَإِذَا هُوَ جَالِسٌ عَلَی عَرْشٍ بَيْنَ السَّمَائِ وَالْأَرْضِ-
محمد بن مثنی، عثمان بن عمر، علی بن مبارک، یحیی بن ابی کثیر ایک دوسری سند کی روایت میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام آسماں و زمین کے درمیان عرش پر بیٹھے ہوئے تھے۔
Yahya b Abi Kathir has reported this hadith with the same chain of transmitters and narrated: And there he was sitting on the Throne between the heaven and the earth.