خضر علیہ السلام کے فضائل کے بیان میں

حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدٍ النَّاقِدُ وَإِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ الْمَکِّيُّ کُلُّهُمْ عَنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ وَاللَّفْظُ لِابْنِ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ إِنَّ نَوْفًا الْبِکَالِيَّ يَزْعُمُ أَنَّ مُوسَی عَلَيْهِ السَّلَام صَاحِبَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَيْسَ هُوَ مُوسَی صَاحِبَ الْخَضِرِ عَلَيْهِ السَّلَام فَقَالَ کَذَبَ عَدُوُّ اللَّهِ سَمِعْتُ أُبَيَّ بْنَ کَعْبٍ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ قَامَ مُوسَی عَلَيْهِ السَّلَام خَطِيبًا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ فَسُئِلَ أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ فَقَالَ أَنَا أَعْلَمُ قَالَ فَعَتَبَ اللَّهُ عَلَيْهِ إِذْ لَمْ يَرُدَّ الْعِلْمَ إِلَيْهِ فَأَوْحَی اللَّهُ إِلَيْهِ أَنَّ عَبْدًا مِنْ عِبَادِي بِمَجْمَعِ الْبَحْرَيْنِ هُوَ أَعْلَمُ مِنْکَ قَالَ مُوسَی أَيْ رَبِّ کَيْفَ لِي بِهِ فَقِيلَ لَهُ احْمِلْ حُوتًا فِي مِکْتَلٍ فَحَيْثُ تَفْقِدُ الْحُوتَ فَهُوَ ثَمَّ فَانْطَلَقَ وَانْطَلَقَ مَعَهُ فَتَاهُ وَهُوَ يُوشَعُ بْنُ نُونٍ فَحَمَلَ مُوسَی عَلَيْهِ السَّلَام حُوتًا فِي مِکْتَلٍ وَانْطَلَقَ هُوَ وَفَتَاهُ يَمْشِيَانِ حَتَّی أَتَيَا الصَّخْرَةَ فَرَقَدَ مُوسَی عَلَيْهِ السَّلَام وَفَتَاهُ فَاضْطَرَبَ الْحُوتُ فِي الْمِکْتَلِ حَتَّی خَرَجَ مِنْ الْمِکْتَلِ فَسَقَطَ فِي الْبَحْرِ قَالَ وَأَمْسَکَ اللَّهُ عَنْهُ جِرْيَةَ الْمَائِ حَتَّی کَانَ مِثْلَ الطَّاقِ فَکَانَ لِلْحُوتِ سَرَبًا وَکَانَ لِمُوسَی وَفَتَاهُ عَجَبًا فَانْطَلَقَا بَقِيَّةَ يَوْمِهِمَا وَلَيْلَتِهِمَا وَنَسِيَ صَاحِبُ مُوسَی أَنْ يُخْبِرَهُ فَلَمَّا أَصْبَحَ مُوسَی عَلَيْهِ السَّلَام قَالَ لِفَتَاهُ آتِنَا غَدَائَنَا لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا قَالَ وَلَمْ يَنْصَبْ حَتَّی جَاوَزَ الْمَکَانَ الَّذِي أُمِرَ بِهِ قَالَ أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَی الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنْسَانِيهُ إِلَّا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْکُرَهُ وَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ عَجَبًا قَالَ مُوسَی ذَلِکَ مَا کُنَّا نَبْغِ فَارْتَدَّا عَلَی آثَارِهِمَا قَصَصًا قَالَ يَقُصَّانِ آثَارَهُمَا حَتَّی أَتَيَا الصَّخْرَةَ فَرَأَی رَجُلًا مُسَجًّی عَلَيْهِ بِثَوْبٍ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ مُوسَی فَقَالَ لَهُ الْخَضِرُ أَنَّی بِأَرْضِکَ السَّلَامُ قَالَ أَنَا مُوسَی قَالَ مُوسَی بَنِي إِسْرَائِيلَ قَالَ نَعَمْ قَالَ إِنَّکَ عَلَی عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَکَهُ اللَّهُ لَا أَعْلَمُهُ وَأَنَا عَلَی عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَنِيهِ لَا تَعْلَمُهُ قَالَ لَهُ مُوسَی عَلَيْهِ السَّلَام هَلْ أَتَّبِعُکَ عَلَی أَنْ تُعَلِّمَنِي مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا قَالَ إِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا وَکَيْفَ تَصْبِرُ عَلَی مَا لَمْ تُحِطْ بِهِ خُبْرًا قَالَ سَتَجِدُنِي إِنْ شَائَ اللَّهُ صَابِرًا وَلَا أَعْصِي لَکَ أَمْرًا قَالَ لَهُ الْخَضِرُ فَإِنْ اتَّبَعْتَنِي فَلَا تَسْأَلْنِي عَنْ شَيْئٍ حَتَّی أُحْدِثَ لَکَ مِنْهُ ذِکْرًا قَالَ نَعَمْ فَانْطَلَقَ الْخَضِرُ وَمُوسَی يَمْشِيَانِ عَلَی سَاحِلِ الْبَحْرِ فَمَرَّتْ بِهِمَا سَفِينَةٌ فَکَلَّمَاهُمْ أَنْ يَحْمِلُوهُمَا فَعَرَفُوا الْخَضِرَ فَحَمَلُوهُمَا بِغَيْرِ نَوْلٍ فَعَمَدَ الْخَضِرُ إِلَی لَوْحٍ مِنْ أَلْوَاحِ السَّفِينَةِ فَنَزَعَهُ فَقَالَ لَهُ مُوسَی قَوْمٌ حَمَلُونَا بِغَيْرِ نَوْلٍ عَمَدْتَ إِلَی سَفِينَتِهِمْ فَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا إِمْرًا قَالَ أَلَمْ أَقُلْ إِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا قَالَ لَا تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ وَلَا تُرْهِقْنِي مِنْ أَمْرِي عُسْرًا ثُمَّ خَرَجَا مِنْ السَّفِينَةِ فَبَيْنَمَا هُمَا يَمْشِيَانِ عَلَی السَّاحِلِ إِذَا غُلَامٌ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ فَأَخَذَ الْخَضِرُ بِرَأْسِهِ فَاقْتَلَعَهُ بِيَدِهِ فَقَتَلَهُ فَقَالَ مُوسَی أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَاکِيَةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُکْرًا قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَکَ إِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا قَالَ وَهَذِهِ أَشَدُّ مِنْ الْأُولَی قَالَ إِنْ سَأَلْتُکَ عَنْ شَيْئٍ بَعْدَهَا فَلَا تُصَاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْرًا فَانْطَلَقَا حَتَّی إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ فَأَقَامَهُ يَقُولُ مَائِلٌ قَالَ الْخَضِرُ بِيَدِهِ هَکَذَا فَأَقَامَهُ قَالَ لَهُ مُوسَی قَوْمٌ أَتَيْنَاهُمْ فَلَمْ يُضَيِّفُونَا وَلَمْ يُطْعِمُونَا لَوْ شِئْتَ لَتَخِذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا قَالَ هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِکَ سَأُنَبِّئُکَ بِتَأْوِيلِ مَا لَمْ تَسْتَطِعْ عَلَيْهِ صَبْرًا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْحَمُ اللَّهُ مُوسَی لَوَدِدْتُ أَنَّهُ کَانَ صَبَرَ حَتَّی يُقَصَّ عَلَيْنَا مِنْ أَخْبَارِهِمَا قَالَ وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَتْ الْأُولَی مِنْ مُوسَی نِسْيَانًا قَالَ وَجَائَ عُصْفُورٌ حَتَّی وَقَعَ عَلَی حَرْفِ السَّفِينَةِ ثُمَّ نَقَرَ فِي الْبَحْرِ فَقَالَ لَهُ الْخَضِرُ مَا نَقَصَ عِلْمِي وَعِلْمُکَ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ إِلَّا مِثْلَ مَا نَقَصَ هَذَا الْعُصْفُورُ مِنْ الْبَحْرِ قَالَ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ وَکَانَ يَقْرَأُ وَکَانَ أَمَامَهُمْ مَلِکٌ يَأْخُذُ کُلَّ سَفِينَةٍ صَالِحَةٍ غَصْبًا وَکَانَ يَقْرَأُ وَأَمَّا الْغُلَامُ فَکَانَ کَافِرًا-
عمرو بن محمد ناقد اسحاق بن ابراہیم، عبیداللہ بن سعید محمد بن ابی عمر مکی، ابن عیینہ ابن عمر سفیان بن عیینہ، عمرو بن دینار حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ نوف بکالی کا گمان ہے کہ نبی اسرائیل والے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور تھے اور حضرت خضر علیہ السلام کے حضرت موسیٰ اور تھے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اللہ کے اس دشمن نے جھوٹ بولا ہے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ نے فرمایا کہ حضرت موسیٰ کھڑے ہو کر بنی اسرائیل کو خطبہ دے رہے تھے تو ان سے پوچھا گیا کہ لوگوں میں سے سب سے زیادہ علم والا کون ہے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا میں سب سے زیادہ علم والا ہوں آپ نے فرمایا اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر عتاب فرمایا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف علم کو نہیں لوٹایا یعنی اللہ کا علم سب سے زیادہ ہے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کی طرف وحی کی کہ مجمع البحرین میں میرے بندوں میں سے ایک بندہ ایسا ہے کہ جو تجھ سے بھی زیادہ علم رکھتا ہے حضرت موسیٰ نے عرض کیا اے میرے پروردگار میں تیرے اس بندہ تک کیسے پہنچوں گا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا گیا اپنے تھیلے میں ایک مچھلی رکھو جس جگہ وہ مچھلی گم ہو جائے گی تو وہی وہ جگہ کہ جہاں میرا وہ بندہ ہوگا جو تجھ سے زیادہ علم والا ہے یعنی حضرت خضر علیہ السلام پھر حضرت موسیٰ چل پڑے اور حضرت یوشع بن نون علیہ السلام بھی ان کے ساتھ چل پڑے دونوں حضرات چلتے چلتے ایک چٹان کے پاس آ گئے حضرت موسیٰ اور حضرت یوشع علیہ السلام دونوں حضرات سو گئے تھیلے میں مچھلی تڑپی اور تھیلی میں سے باہر نکل کر سمندر میں جا گری اللہ تعالیٰ نے اس مچھلی کی خاطر پانی کے بہنے کو روک دیا یہاں تک کہ مچھلی کے لیے پانی میں مخروطی کی طرح ایک سرنگ بنتی چلی گئی اور مچھلی کے لیے خشک راستہ بن گیا حضرت موسیٰ اور حضرت یوشع علیہ السلام دونوں حضرات کے لیے یہ ایک حیران کن منظر تھا تو وہ باقی سارا دن اور ساری رات وہ دونوں چلتے رہے اور حضرت موسیٰ کے ساتھی ان کو یہ بتانا بھول گئے تو جب صبح ہوئی اور حضرت موسیٰ نے اپنے ساتھی سے کہا ناشتہ لاؤ اس سفر نے تو ہمیں تھکادیا ہے اور تھکاوٹ اس وقت سے شروع ہوئی جب اس جگہ سے آگے نکل گئے جس جگہ جانے کا حکم دیا گیا تھا حضرت موسیٰ کے ساتھی نے کہا کیا آپ کو معلوم نہیں کہ جب ہم صخرہ ایک چٹان تک آئے تو اور شیطان ہی نے تو ہمیں مچھلی کا ذکر کرنے سے بھلا دیا اور بڑی حیرانگی کی بات ہے کہ مچھلی نے سمندر میں اپنا راستہ بنا لیا حضرت موسیٰ نے اپنے ساتھی سے فرمایا ہم اسی جگہ کی تلاش میں تو تھے پھر وہ دونوں حضرات اپنے قدموں کے نشانات پر واپس ہوئے پھر یہاں تک کہ وہ اس صخرہ چٹان پر آ گئے اس جگہ ایک آدمی کو اپنے اوپر کپڑا اوڑھے ہوئے دیکھا حضرت موسیٰ نے ان پر سلام کیا حضرت خضر علیہ السلام نے حضرت موسیٰ سے فرمایا ہمارے علاقے میں سلام کہاں؟ حضرت موسیٰ نے فرمایا میں موسیٰ ہوں حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا کیا بنی اسرائیل کے موسیٰ ؟ حضرت موسیٰ نے فرمایا جی ہاں حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا اے موسیٰ اللہ تعالیٰ نے تمہیں وہ علم دیا ہے کہ جسے میں نہیں جانتا اور مجھے وہ عطا فرمایا ہے کہ جسے آپ نہیں جانتے حضرت موسیٰ نے فرمایا اے خضر! میں آپ کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں تاکہ آپ مجھے وہ علم سکھا دیں جو اللہ نے آپ کو دیا ہے حضرت خضر نے فرمایا کہ تم میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کر سکو گے اور تمہیں اس بات پر کس طرح صبر ہو سکے گا کہ جس کا تمہیں علم نہیں حضرت موسیٰ نے فرمایا اگر اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والا ہی پائیں گے اور میں کسی معاملہ میں آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا حضرت خضر نے حضرت موسیٰ سے فرمایا اگر آپ میرے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو مجھ سے کسی چیز کے بارے میں نہ پوچھنا جب تک کہ میں خود ہی وہ بات آپ سے بیان نہ کر دوں حضرت موسیٰ نے فرمایا اچھا چنانچہ حضرت خضر اور حضرت موسیٰ دونوں حضرات سمندر کے کنارے چلے ان دونوں حضرات کے سامنے سے ایک کشتی گزری انہوں نے کشتی والوں سے بات کی کہ وہ ہمیں اپنی کشتی پر سوار کر لے کشتی والوں نے حضرت خضر کو پہچان لیا تو انہوں نے ان دونوں حضرات کو بغیر کرایہ کے کشتی پر سوار کر لیا تو حضرت خضر نے اس کشتی کے تختوں میں سے ایک تختے کو اکھاڑ پھینکا حضرت موسیٰ نے حضرت خضر سے فرمایا ان کشتی والوں نے ہمیں بغیر کرایہ کے کشتی پر سوار کیا ہے اور آپ نے ان کی کشتی کو توڑ دیا ہے تاکہ کشتی والوں کو غرق کر دیا جائے یہ تو نے بڑا عجیب کام کیا ہے حضرت خضر نے فرمایا کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کر سکیں گے حضرت موسیٰ نے فرمایا اس چیز کو بھی میں بھول گیا ہوں آپ اس پر میری پکڑ نہ کریں اور نہ ہی میرے معاملہ میں کوئی سختی کریں پھر دونوں حضرات کشتی سے نکلے اور سمندر کے ساحل پر چلنے لگے تو انہوں نے ایک لڑکے کو دوسرے لڑکوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھا حضرت خضر نے اس لڑکے کو پکڑ کر اس کا سر تن سے جدا کر دیا حضرت موسیٰ پھر بول پڑے کہ آپ نے ایک لڑکے کو بغیر کسی وجہ کے قتل کر دیا آپ نے بڑا نازیبا کام کیا حضرت خضر نے فرمایا اے موسیٰ کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کر سکیں گے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حضرت خضر علیہ السلام کا یہ انداز پہلے سے بھی زیادہ سخت تھا حضرت موسیٰ نے فرمایا اگر اب میں آپ سے کسی چیز کے بارے میں پوچھوں تو آپ مجھے اپنے ساتھ نہ رکھیں کیونکہ میرا عذر معقول ہے پھر دونوں حضرات چلے یہاں تک کہ ایک گاؤں کے لوگوں تک آئے انہوں نے ان گاؤں والوں سے کھانا مانگا تو انہوں نے ان کو مہمان رکھنے سے انکار کر دیا ان دونوں حضرات نے وہاں ایک دیوار دیکھی جو گر نے کے قریب تھی تو اس دیوار کو سیدھا کر دیا وہ دیوار جھکی ہوئی تھی تو حضرت خضر علیہ السلام نے اپنے ہاتھ سے اس دیوار کو سید ھا کر دیا حضرت موسیٰ فرمانے لگے کہ یہ تو وہ لوگ ہیں کہ جن کے پاس ہم گئے تھے لیکن انہوں نے ہماری مہمان نوازی نہیں کی اور ہمیں کھانا نہیں کھلایا اگر آپ چاہیں تو ان سے اس دیوار کو سیدھا کرنے کی مزدوری لے لیں حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا اب میرے اور آپ کے درمیان جدائی ہے اب میں آپ کو ان باتوں کا بیان بتاتا ہوں کہ جس پر آپ صبر نہیں کر سکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ حضرت موسیٰ پر رحم فرمائے کاش کہ وہ صبر کرتے یہاں تک کہ اللہ ہمیں ان دونوں حضرات کے مزید واقعات بیان فرماتا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حضرت موسیٰ کا پہلی مرتبہ سوال کرنا بھول تھا آپ نے فرمایا ایک چڑیا آئی یہاں تک کہ وہ کشتی کے کنارے بیٹھ گئی پھر اس چڑیا نے اپنی چونچ سمندر میں ڈالی تو حضرت خضر علیہ السلام نے حضرت موسیٰ سے فرمایا کہ میرے اور تیرے علم سے اللہ تعالیٰ کے علم میں اتنی کمی بھی نہیں کی جتنی اس چڑیا نے سمندر میں کی ہے سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ پڑھتے تھے کہ ان کشتی والوں کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر صحیح کشتی کو چھین لیتا تھا اور وہ یہ بھی پڑھتے تھے کہ وہ لڑکا کافر تھا
Sa'id b. jubair reported: I said to Ibn Abbas that Nauf al-Bikali was of the opinion that Moses (peace be upon him), the Apostle of Bani Isra'il, was not the same who accompanied Khadir, whereupon he said: The enemy of Allah tells a lie. I heard Ubayy b. Ka'b say: Moses (peace be upon him) stood up to give sermon to the people of Isra'il. He was asked as to who amongst the people has the best knowledge, whereupon he said: I have the best knowledge. Thereupon Allah was annoyed with him that he did not attribute (the best knowledge) to Him. He revealed to him: A servant amongst My servants is at the junction of two rivers who has more knowledge than yours. Moses said: How can I meet him? It was said to him: Carry a fish in the large basket and the place where you find it missing there you will find him. Thereupon Moses proceeded forth along with a young man (Yusha'). Joshua b. Nun and Moses (peace be upon him) put the fish in the basket and there went along with him the young man (Yusha') until they came to a certain rock and Moses and his companion went to sleep and the fish stirred in that basket and fell into the ocean and Allah stopped the current of water like a vault until the way was made for the fish. Moses and his young companion were astonished and they walked for the rest of the day and the night and the friend of Moses forgot to inform him of this incident. When it was morning, Moses (peace be upon him) said to the young man: Bring for us the breakfast for we are dead tired because of this journey, and they did not feel exhausted until they had passed that place where they had been commanded (to stay). He said: Don't you know that when we reached the Sakhra (rock) I forgot the fisii and noth ng made me forget it but the satan that I. could nit remember it? How strange is it that the fish found a way in the river? Moses said: That was what we had been aiming at. Then both of them retraced their steps until they reached Sakhra; there they saw a man covered with a cloth. Moses greeted him. Khadir said to him: Where is as-Salam in our country? He said: I am Moses, whereupon he (Khadir) said: You mean the Moses of Bani Isra'il? He said: Yes. He (Khadir) said: You have a knowledge out of the knowledge of Allah which in fact Allah imparted to you and about that I know nothing and I have knowledge out of Allah's knowledge which He imparted to me and about that you do not know. Moses (peace be upon him) said to him: May I follow you so that you may teach me that with which you have been taught righteousness. He said: You will not be able to bear with me; how you will be able to bear that about which you do not know? Moses said: Thou will find me patient, nor shalt I disobey you in aught. Khadir said to him: If you were to follow me, then do not ask me about anything until I myself speak to you about it. He said: Yes. So Khadir and Moses set forth on the bank of the river that there came before them a boat. Both of them talked to them (the owners of the boat) so that they might carry both of them. They had recognised Khadir and they carried them free. Khadir thereupon took hold of a plank in the boat and broke it away. Moses said: These people have carried us without any charge and you attempt to break their boat so that the people sailing in the boat may drown. This is (something) grievous that you have done. He said: Did I not say that you would not bear with me? He said: Blame me not for what I forgot and be not hard upon what I did. Then both of them got down from the boat and began to walk along the coastline that they saw a boy who had been playing with other boys. Khadir pulled up his head and killed him. Moses said: Have you killed an innocent person who is in no way guilty of slaying another? You have done something horrible. Thereupon he said: Did I not say to you that you will not be able to bear with me? He (Moses) said: This (act) is more grievous than the first one. He (Moses) further said. If I ask you about anything after this, keep not company with me, then you would no doubt find (a plausible) excuse for this. Then they both walked on until they reached the inhabitants of a village. They asked its inhabitants for food but they refused to entertain them as their guests. They found in it a wall which had been bent on one side and was about to fall. Khadir set it right with his own hand. Moses, said to him: It is the people to whom we came but they showed us no hospitality and they did not serve us food. If you wish you can get wages for it. He (Khadir) said: This is the parting of ways between me and you. Now I wish to reveal to you the significance of that for which you could not bear with me. Allah's Messenger (may peace be upon him) said. May Allah have mercy upon Moses! I wish if Moses could show patience and a (fuller) story of both of them could have been told. Allah's Messenger (may peace be upon him) said that the first thing which Moses said was out of forgetfulness. Then there came a sparrow until it perched on the wall of the boat and took water from the ocean. Thereupon, Khadir said: My knowledge and your knowledge in comparison with the knowledge of Allah is even less than the water taken by the sparrow in its beak in comparison to the water of the ocean, and Sa'id b. jubair used to recite (verses 79 and 80 of Sura Kahf) in this way: There was before them a king who used to seize every boat by force which was in order, the boy was an unbeliever.
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی الْقَيْسِيُّ حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيُّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ رَقَبَةَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ قِيلَ لِابْنِ عَبَّاسٍ إِنَّ نَوْفًا يَزْعُمُ أَنَّ مُوسَی الَّذِي ذَهَبَ يَلْتَمِسُ الْعِلْمَ لَيْسَ بِمُوسَی بَنِي إِسْرَائِيلَ قَالَ أَسَمِعْتَهُ يَا سَعِيدُ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ کَذَبَ نَوْفٌ-
محمد بن عبدالاعلی قیسی معتمر بن سلیمان تیمی اسحاق حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابن عباس سے کہا گیا کہ نوف بکالی کیا کہتا ہے کہ جو حضرت موسیٰ حضرت خضر علیہ السلام کے پاس علم کی تلاش میں گئے تھے وہ نبی اسرائیل کے حضرت موسیٰ نہیں تھے حضرت ابن عباس نے فرمایا اے سعید کیا تو نے اسے یہ کہتے سنا ہے انہوں نے کہا جی ہاں حضرت ابن عباس نے فرمایا نوف جھوٹ کہتا ہے۔
Sa'id b. jubair reported: I said to Ibn Abbas that Nauf al-Bikali was of the opinion that Moses (peace be upon him), the Apostle of Bani Isra'il, was not the same who accompanied Khadir, whereupon he said: The enemy of Allah tells a lie. I heard Ubayy b. Ka'b say: Moses (peace be upon him) stood up to give sermon to the people of Isra'il. He was asked as to who amongst the people has the best knowledge, whereupon he said: I have the best knowledge. Thereupon Allah was annoyed with him that he did not attribute (the best knowledge) to Him. He revealed to him: A servant amongst My servants is at the junction of two rivers who has more knowledge than yours. Moses said: How can I meet him? It was said to him: Carry a fish in the large basket and the place where you find it missing there you will find him. Thereupon Moses proceeded forth along with a young man (Yusha'). Joshua b. Nun and Moses (peace be upon him) put the fish in the basket and there went along with him the young man (Yusha') until they came to a certain rock and Moses and his companion went to sleep and the fish stirred in that basket and fell into the ocean and Allah stopped the current of water like a vault until the way was made for the fish. Moses and his young companion were astonished and they walked for the rest of the day and the night and the friend of Moses forgot to inform him of this incident. When it was morning, Moses (peace be upon him) said to the young man: Bring for us the breakfast for we are dead tired because of this journey, and they did not feel exhausted until they had passed that place where they had been commanded (to stay). He said: Don't you know that when we reached the Sakhra (rock) I forgot the fisii and noth ng made me forget it but the satan that I. could nit remember it? How strange is it that the fish found a way in the river? Moses said: That was what we had been aiming at. Then both of them retraced their steps until they reached Sakhra; there they saw a man covered with a cloth. Moses greeted him. Khadir said to him: Where is as-Salam in our country? He said: I am Moses, whereupon he (Khadir) said: You mean the Moses of Bani Isra'il? He said: Yes. He (Khadir) said: You have a knowledge out of the knowledge of Allah which in fact Allah imparted to you and about that I know nothing and I have knowledge out of Allah's knowledge which He imparted to me and about that you do not know. Moses (peace be upon him) said to him: May I follow you so that you may teach me that with which you have been taught righteousness. He said: You will not be able to bear with me; how you will be able to bear that about which you do not know? Moses said: Thou will find me patient, nor shalt I disobey you in aught. Khadir said to him: If you were to follow me, then do not ask me about anything until I myself speak to you about it. He said: Yes. So Khadir and Moses set forth on the bank of the river that there came before them a boat. Both of them talked to them (the owners of the boat) so that they might carry both of them. They had recognised Khadir and they carried them free. Khadir thereupon took hold of a plank in the boat and broke it away. Moses said: These people have carried us without any charge and you attempt to break their boat so that the people sailing in the boat may drown. This is (something) grievous that you have done. He said: Did I not say that you would not bear with me? He said: Blame me not for what I forgot and be not hard upon what I did. Then both of them got down from the boat and began to walk along the coastline that they saw a boy who had been playing with other boys. Khadir pulled up his head and killed him. Moses said: Have you killed an innocent person who is in no way guilty of slaying another? You have done something horrible. Thereupon he said: Did I not say to you that you will not be able to bear with me? He (Moses) said: This (act) is more grievous than the first one. He (Moses) further said. If I ask you about anything after this, keep not company with me, then you would no doubt find (a plausible) excuse for this. Then they both walked on until they reached the inhabitants of a village. They asked its inhabitants for food but they refused to entertain them as their guests. They found in it a wall which had been bent on one side and was about to fall. Khadir set it right with his own hand. Moses, said to him: It is the people to whom we came but they showed us no hospitality and they did not serve us food. If you wish you can get wages for it. He (Khadir) said: This is the parting of ways between me and you. Now I wish to reveal to you the significance of that for which you could not bear with me. Allah's Messenger (may peace be upon him) said. May Allah have mercy upon Moses! I wish if Moses could show patience and a (fuller) story of both of them could have been told. Allah's Messenger (may peace be upon him) said that the first thing which Moses said was out of forgetfulness. Then there came a sparrow until it perched on the wall of the boat and took water from the ocean. Thereupon, Khadir said: My knowledge and your knowledge in comparison with the knowledge of Allah is even less than the water taken by the sparrow in its beak in comparison to the water of the ocean, and Sa'id b. jubair used to recite (verses 79 and 80 of Sura Kahf) in this way: There was before them a king who used to seize every boat by force which was in order, the boy was an unbeliever.
حَدَّثَنَا أُبَيُّ بْنُ کَعْبٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّهُ بَيْنَمَا مُوسَی عَلَيْهِ السَّلَام فِي قَوْمِهِ يُذَکِّرُهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ وَأَيَّامُ اللَّهِ نَعْمَاؤُهُ وَبَلَاؤُهُ إِذْ قَالَ مَا أَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ رَجُلًا خَيْرًا وَأَعْلَمَ مِنِّي قَالَ فَأَوْحَی اللَّهُ إِلَيْهِ إِنِّي أَعْلَمُ بِالْخَيْرِ مِنْهُ أَوْ عِنْدَ مَنْ هُوَ إِنَّ فِي الْأَرْضِ رَجُلًا هُوَ أَعْلَمُ مِنْکَ قَالَ يَا رَبِّ فَدُلَّنِي عَلَيْهِ قَالَ فَقِيلَ لَهُ تَزَوَّدْ حُوتًا مَالِحًا فَإِنَّهُ حَيْثُ تَفْقِدُ الْحُوتَ قَالَ فَانْطَلَقَ هُوَ وَفَتَاهُ حَتَّی انْتَهَيَا إِلَی الصَّخْرَةِ فَعُمِّيَ عَلَيْهِ فَانْطَلَقَ وَتَرَکَ فَتَاهُ فَاضْطَرَبَ الْحُوتُ فِي الْمَائِ فَجَعَلَ لَا يَلْتَئِمُ عَلَيْهِ صَارَ مِثْلَ الْکُوَّةِ قَالَ فَقَالَ فَتَاهُ أَلَا أَلْحَقُ نَبِيَّ اللَّهِ فَأُخْبِرَهُ قَالَ فَنُسِّيَ فَلَمَّا تَجَاوَزَا قَالَ لِفَتَاهُ آتِنَا غَدَائَنَا لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا قَالَ وَلَمْ يُصِبْهُمْ نَصَبٌ حَتَّی تَجَاوَزَا قَالَ فَتَذَکَّرَ قَالَ أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَی الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنْسَانِيهُ إِلَّا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْکُرَهُ وَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ عَجَبًا قَالَ ذَلِکَ مَا کُنَّا نَبْغِي فَارْتَدَّا عَلَی آثَارِهِمَا قَصَصًا فَأَرَاهُ مَکَانَ الْحُوتِ قَالَ هَا هُنَا وُصِفَ لِي قَالَ فَذَهَبَ يَلْتَمِسُ فَإِذَا هُوَ بِالْخَضِرِ مُسَجًّی ثَوْبًا مُسْتَلْقِيًا عَلَی الْقَفَا أَوْ قَالَ عَلَی حَلَاوَةِ الْقَفَا قَالَ السَّلَامُ عَلَيْکُمْ فَکَشَفَ الثَّوْبَ عَنْ وَجْهِهِ قَالَ وَعَلَيْکُمْ السَّلَامُ مَنْ أَنْتَ قَالَ أَنَا مُوسَی قَالَ وَمَنْ مُوسَی قَالَ مُوسَی بَنِي إِسْرَائِيلَ قَالَ مَجِيئٌ مَا جَائَ بِکَ قَالَ جِئْتُ لِ تُعَلِّمَنِي مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا قَالَ إِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا وَکَيْفَ تَصْبِرُ عَلَی مَا لَمْ تُحِطْ بِهِ خُبْرًا شَيْئٌ أُمِرْتُ بِهِ أَنْ أَفْعَلَهُ إِذَا رَأَيْتَهُ لَمْ تَصْبِرْ قَالَ سَتَجِدُنِي إِنْ شَائَ اللَّهُ صَابِرًا وَلَا أَعْصِي لَکَ أَمْرًا قَالَ فَإِنْ اتَّبَعْتَنِي فَلَا تَسْأَلْنِي عَنْ شَيْئٍ حَتَّی أُحْدِثَ لَکَ مِنْهُ ذِکْرًا فَانْطَلَقَا حَتَّی إِذَا رَکِبَا فِي السَّفِينَةِ خَرَقَهَا قَالَ انْتَحَی عَلَيْهَا قَالَ لَهُ مُوسَی عَلَيْهِ السَّلَام أَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا إِمْرًا قَالَ أَلَمْ أَقُلْ إِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِي صَبْرًا قَالَ لَا تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ وَلَا تُرْهِقْنِي مِنْ أَمْرِي عُسْرًا فَانْطَلَقَا حَتَّی إِذَا لَقِيَا غِلْمَانًا يَلْعَبُونَ قَالَ فَانْطَلَقَ إِلَی أَحَدِهِمْ بَادِيَ الرَّأْيِ فَقَتَلَهُ فَذُعِرَ عِنْدَهَا مُوسَی عَلَيْهِ السَّلَام ذَعْرَةً مُنْکَرَةً قَالَ أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَاکِيَةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُکْرًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ هَذَا الْمَکَانِ رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْنَا وَعَلَی مُوسَی لَوْلَا أَنَّهُ عَجَّلَ لَرَأَی الْعَجَبَ وَلَکِنَّهُ أَخَذَتْهُ مِنْ صَاحِبِهِ ذَمَامَةٌ قَالَ إِنْ سَأَلْتُکَ عَنْ شَيْئٍ بَعْدَهَا فَلَا تُصَاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْرًا وَلَوْ صَبَرَ لَرَأَی الْعَجَبَ قَالَ وَکَانَ إِذَا ذَکَرَ أَحَدًا مِنْ الْأَنْبِيَائِ بَدَأَ بِنَفْسِهِ رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْنَا وَعَلَی أَخِي کَذَا رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْنَا فَانْطَلَقَا حَتَّی إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ لِئَامًا فَطَافَا فِي الْمَجَالِسِ فَ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ فَأَقَامَهُ قَالَ لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا قَالَ هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِکَ وَأَخَذَ بِثَوْبِهِ قَالَ سَأُنَبِّئُکَ بِتَأْوِيلِ مَا لَمْ تَسْتَطِعْ عَلَيْهِ صَبْرًا أَمَّا السَّفِينَةُ فَکَانَتْ لِمَسَاکِينَ يَعْمَلُونَ فِي الْبَحْرِ إِلَی آخِرِ الْآيَةِ فَإِذَا جَائَ الَّذِي يُسَخِّرُهَا وَجَدَهَا مُنْخَرِقَةً فَتَجَاوَزَهَا فَأَصْلَحُوهَا بِخَشَبَةٍ وَأَمَّا الْغُلَامُ فَطُبِعَ يَوْمَ طُبِعَ کَافِرًا وَکَانَ أَبَوَاهُ قَدْ عَطَفَا عَلَيْهِ فَلَوْ أَنَّهُ أَدْرَکَ أَرْهَقَهُمَا طُغْيَانًا وَکُفْرًا فَأَرَدْنَا أَنْ يُبَدِّلَهُمَا رَبُّهُمَا خَيْرًا مِنْهُ زَکَاةً وَأَقْرَبَ رُحْمًا وَأَمَّا الْجِدَارُ فَکَانَ لِغُلَامَيْنِ يَتِيمَيْنِ فِي الْمَدِينَةِ وَکَانَ تَحْتَهُ إِلَی آخِرِ الْآيَةِ-
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کے لوگوں سامنے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کی آزمائشوں کے بارے میں نصیحتیں فرما رہے تھے اور انہوں نے فرمایا میرے علم میں نہیں ہے کہ ساری دنیا میں کوئی آدمی مجھ سے بہتر ہو یا مجھ سے زیادہ علم رکھتا ہو تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کی طرف وحی نازل فرمائی کہ میں اس آدمی کو جانتا ہوں کہ جو تجھ سے بہتر ہے یا تجھ سے زیادہ علم والا ہے حضرت موسیٰ نے عرض کیا اے پروردگار مجھے اس آدمی سے ملا دے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت موسیٰ کو حکم دیا گیا کہ ایک مچھلی کو نمک لگا کر اپنے توشہ میں رکھ جس جگہ وہ مچھلی گم ہو جائے اس جگہ پر وہ آدمی تمہیں مل جائے گا حضرت موسیٰ اور ان کے ساتھی یہ سن کر چل پڑے یہاں تک کہ صخرہ کے مقام پر پہنچ گئے اس جگہ کوئی آدمی نہ ملا حضرت موسیٰ کے ساتھی نے کہا میں اللہ کے نبی سے ملوں اور ان کو اس کی خبر دوں پھر وہ حضرت موسیٰ سے اس واقعہ کا ذکر بھول گئے تو جب ذرا آگے بڑھ گئے تو حضرت موسیٰ نے اپنے ساتھی سے کہا ناشتہ لاؤ اس سفر نے ہمیں تھکا دیا ہے اور حضرت موسیٰ کو یہ تھکاوٹ اس جگہ سے آگے بڑھنے سے نہیں ہوئی حضرت موسیٰ کے ساتھی نے یاد کیا اور کہنے لگا کیا آپ لو معلوم نہیں کہ جب ہم صخرہ کے مقام پر پہنچے تو میں مچھلی کو بھول گیا اور سوائے شیطان کے یہ مجھے کسی نے نہیں بھلایا بڑی حیرانگی کی بات ہے کہ مچھلی نے سمندر میں اپنا راستہ بنا لیا حضرت موسیٰ کے ساتھی نے وہ جگہ بتا دی جس جگہ مچھلی گم ہوگئی تھی اس جگہ پر حضرت موسیٰ تلاش کر رہے تھے کہ حضرت موسیٰ نے اس جگہ حضرت خضر علیہ السلام کو دیکھ لیا کہ یہ ایک کپڑا اوڑھے ہوئے چت لیٹے ہوئے ہیں حضرت موسیٰ نے فرمایا السلام علیکم! حضرت خضر علیہ السلام نے اپنے چہرے سے کپڑا ہٹایا اور فرمایا وعلیکم السلام! آپ کون؟ حضرت موسیٰ نے فرمایا میں موسیٰ ہوں حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا کون موسیٰ ؟ حضرت موسیٰ نے فرمایا کہ بنی اسرائیل کے موسیٰ حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا کیسے آنا ہوا؟ حضرت موسیٰ نے فرمایا اے خضر! اپنے علم میں سے کچھ مجھے بھی دکھا دو حضرت علیہ السلام نے فرمایا تم میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کر سکو گے اور جن چیزوں کا تمہیں علم نہ ہو تو تم ان پر کیسے صبر کر سکو گے تو اگر تم صبر نہ کر سکو گے تو مجھے بتا دو کہ میں اس وقت کیا کروں حضرت موسیٰ فرمانے لگے کہ اگر اللہ نے چاہا تو تم مجھے صبر کرنے والا ہی پاؤ گے اور میں آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا اچھا اگر تم نے میرے ساتھ رہنا ہے تو تم نے مجھ سے کچھ نہیں پوچھنا جب تک کہ میں خود ہی تمہیں اس کے بارے میں بتا نہ دوں پھر دونوں حضرات چلے یہاں تک کہ ایک کشتی میں سوار ہوئے حضرت خضر علیہ السلام نے اس کشتی کا تختہ اکھاڑ دیا حضرت موسیٰ بول پڑھے کہ آپ نے کشتی کو توڑ دیا تاکہ اس کشتی والے غرق ہو جائیں آپ نے بڑا عجیب کام کیا ہے حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا اے موسیٰ ! کیا میں تجھے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کر سکو گے حضرت موسیٰ نے فرمایا جو بات میں بھول گیا ہوں آپ اس پر میرا مؤ اخذہ نہ کریں اور مجھے تنگی میں نہ ڈالیں پھر دونوں حضرات چلے یہاں تک کہ ایک ایسی جگہ پر آ گئے کہ جہاں کچھ لڑکے کھیل رہے تھے حضرت خضر علیہ السلام نے بغیر سوچے سمجھے ان لڑکوں میں سے ایک لڑکے کو پکڑا اور سے قتل کر دیا حضرت موسیٰ یہ دیکھ کر گھبرا گئے اور فرمایا آپ نے ایک بے گنا لڑکے کو قتل کر دیا یہ کام تو آپ نے بڑی ہی نازیبا کیا ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مقام پر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہم پر اور حضرت موسیٰ پر رحم فرمائے اگر موسیٰ جلدی نہ کرتے تو بہت ہی عجیب عجیب باتیں ہم دیکھتے لیکن حضرت موسیٰ کو حضرت خضر سے شرم آ گئی اور فرمایا اگر اب میں آپ سے کوئی بات پوچھوں تو آپ میرا ساتھ چھوڑ دیں کیونکہ میرا عذر معقول ہے اور اگر حضرت موسیٰ صبر کرتے تو عجیب باتیں دیکھتے اور آپ جب بھی انبیاء علیہ السلام میں سے کسی کو یاد فرماتے تو فرماتے کہ ہم پر اللہ کی رحمت ہو اور میرے فلاں بھائی پر اللہ کی رحمت ہو پھر وہ دونوں حضرات (حضرت موسیٰ اور حضرت خضر علیہ السلام چلے یہاں تک کہ ایک گاؤں والوں کے پاس آئے اس گاؤں کے لوگ بڑے کنجوس تھے یہ دونوں حضرات سب مجلسوں میں گھومے اور کھانا طلب کیا لیکن ان گاؤں والوں میں سے کسی نے بھی ان دونوں حضرات کی مہمان نوازی نہیں کی پھر انہوں نے وہاں ایک ایسی دیوار کو پایا کہ جو گرنے کے قریب تھی تو حضرت خضر علیہ السلام نے اس دیوار کو سیدھا کھڑا کر دیا حضرت موسیٰ نے فرمایا اے خضر! اگر آپ چاہتے تو ان لوگوں سے اس دیوار کے سیدھا کر نے کی مزدوری لے لیتے حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا کہ بس اب میرے اور تیرے درمیان جدائی ہے اور حضرت خضر علیہ السلام حضرت موسیٰ کا کپڑا پکڑ کر فرمایا کہ میں اب آپ کو ان کاموں کا راز بتاتا ہوں کہ جن پر تم صبر نہ کر سکے کشتی تو ان مسکینوں کی تھی کہ جو سمندر میں مزدوری کرتے تھے اور ان کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ظلما کشتیوں کو چھین لیتا تھا تو میں نے چاہا کہ میں اس کشتی کو عیب دار کر دوں تو جب کشتی چھیننے والا آیا تو اس نے کشتی کو عیب دار سمجھ کر چھوڑ دیا اور وہ کشتی آگے بڑھ گئی اور کشتی والوں نے ایک لکڑی لگا کر اسے درست کر لیا اور وہ لڑکا جسے میں نے قتل کیا ہے فطرةً کافر تھا اس کے ماں باپ اس سے بڑا پیار کرتے تھے تو جب وہ بڑا ہوا تو وہ اپنے ماں باپ کو بھی سرکشی میں پھنسا دیتا تو ہم نے چاہا کہ اللہ تعالیٰ ان کو اس لڑکے کے بدلہ میں دوسرا لڑکا عطا فرما دے جو کہ اس سے بہتر ہو اور وہ دیوار جسے میں نے درست کیا وہ دو یتیم لڑکوں کی تھی جس کے نیچے خزانہ تھا آخر آیت تک
Sa, id b. jubair reported that it was said to Ibn 'Abbas that Nauf al-Bikali was of the opinion that Moses who went in search of knowledge was not the Moses of Bani Isra'il. He said: Sa'id, did you hear it from him? I said: Yes. Thereupon he said that Nauf had not stated the fact. Ubayy b. Ka'b narrated to us that he had heard Allah's Messenger (may peace be upon him) as saying: Moses had been delivering sermons to his people. And he made this remark: No person upon the earth has better knowledge than I or nothing better than mine. Thereupon Allah revealed to him: I know one who is better than you (in knowledge) or there is a person on the earth having more knowledge than you. Thereupon he said: My Lord, direct me to him. It was said to him: Keep a salted fish as a provision for journey. The place where that fish would be lost (there you will find that man). So he set forth and a young slave along with him until they came to a place Sakhra, but he did not find any clue. So he proceeded on and left that young man there. The fish began to stir in water and the water assumed the form of an ark over the fish. The young man said: I should meet Allah's Apostle (peace be upon him) and inform him, but he was made to forget and when they had gone beyond that place, he (Moses) said to the young man: Bring breakfast. We have been exhausted because of the journey, and he (Moses) was not exhausted until he had crossed that (particular) place (where he had) to meet Khadir, and the youth was reminded and said: Did you not see that as we reached Sakhra I forgot the fish and it is satan alone who has made me forgetful of it'? It is strange that he has been able to find way in the ocean too. He said: This is what we sought for us. They returned retracing their steps, and he (his companion) pointed to him the location (where) the fish (had been lost). Moses began to search him there. He suddenly saw Khadir wrapped in a cloth and lying on his back. He said to him: As-Salamu-'Alaikum. He removed the cloth from his face and said: Wa 'Alaikum-us-Salam! Who are you? He said: I am Moses. He said: Who Moses? He said: Moses of Bani Isra'il. He said: What brought you here? He said: I have come so that you may teach me what you have been taught of righteousness. He said: You shall have to bear with me, and how can you have patience about a thing of which you have no comprehensive knowledge? You will not have patience when you see me doing a thing I have been ordered to do. He said: If Allah pleases, you will find me patient, nor shall I disobey you in aught. Khadir said: If you follow me, don't ask me about anything until I explain it to you. So they went on until they embarked upon a boat. He (Khadir) made a hole in that. Thereupon he (Moses) said: You have done this so that you may drown the persons sitting in the boat. You have done something grievous. Thereupon he said: Did I not tell you that you will not be able to bear with me? He (Moses) said: Blame me not for what I forgot and be not hard upon me for what I did. (Khadir gave him another chance.) So they went on until they reached a place where boys were playing. He went to one of them and caught hold of him (apparently) at random and killed him. Moses (peace be upon him) felt agitated and said: You have killed an innocent person not guilty of slaying another. You have done something abominable . Thereupon Allah's Messenger (may peace be upon him) said: May Allah have mercy upon us and Moses. Had he shown patience he would have seen wonderful things, but fear of blame, with respect to his companion, seized him and he said: If I ask anything after this, keep not company with me. You will then have a valid excuse in my case. He (the narrator) said: Whenever he (the Holy Prophet) made mention of any Prophet, he always said: May there be mercy of Allah upon us and upon my brother so and so. They, however, proceeded on until they came to the inhabitants of a village who were very miserly. They went to the meeting places and asked for hospitality but they refused to show any hospitality to them. They both found in that village a wall which was about to fall. He (Khadir) set it right. Thereupon he (Moses) said: If you so liked, you could get wages for it. Thereupon he said: This is the parting of ways between me and you, and, taking hold of his cloth, he said: Now I will explain to you the real significance (of all these acts) for which you could not show patience. As for the boat, it belonged to the poor people working on the river and I intended to damage it for there was ahead of them (a king) who seized boats by force. (When he came) to catch hold of it he found it a damaged boat, so he spared it (and later on) it was set right with wood. So far as the boy is concerned, he has been by very nature, an unbeliever, whereas his parents loved him very much. Had he grown up he would have involved them in wrongdoing and unbelief, so we wished that their Lord should give them in his place one better in purity and close to mercy. And as for the wall it belonged to two orphan boys in the city and there was beneath it a (treasure) belonging to them,... up to the last verse.
و حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ ح و حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَی کِلَاهُمَا عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ بِإِسْنَادِ التَّيْمِيِّ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ نَحْوَ حَدِيثِهِ-
عبداللہ بن عبدالرحمن دارمی، محمد بن یوسف عبد بن حمید عبیداللہ بن موسیٰ اسرائیل ابواسحاق ، تیمی حضرت ابواسحاق رضی اللہ تعالیٰ عنہ مذکورہ حدیث کی طرح روایت نقل کرتے ہیں
This hadith has been transmitted on the authority of Abu Ishaq.
و حَدَّثَنَا عَمْرٌو النَّاقِدُ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَمْرٍو عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ أُبَيِّ بْنِ کَعْبٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرَأَ لَتَّخِذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا-
عمرو ناقد سفیان بن عیینہ، عمرو بن سعید بن جبیر ابن عباس حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کی یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی (آیت)
Ibn 'Abbas has reported this hadith on the authority of Ubayy b. ka'b that Allah's Apostle (may peace be upon him) used to recite this.
حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَی أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِي يُونُسُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ تَمَارَی هُوَ وَالْحُرُّ بْنُ قَيْسِ بْنِ حِصْنٍ الْفَزَارِيُّ فِي صَاحِبِ مُوسَی عَلَيْهِ السَّلَام فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ هُوَ الْخَضِرُ فَمَرَّ بِهِمَا أُبَيُّ بْنُ کَعْبٍ الْأَنْصَارِيُّ فَدَعَاهُ ابْنُ عَبَّاسٍ فَقَالَ يَا أَبَا الطُّفَيْلِ هَلُمَّ إِلَيْنَا فَإِنِّي قَدْ تَمَارَيْتُ أَنَا وَصَاحِبِي هَذَا فِي صَاحِبِ مُوسَی الَّذِي سَأَلَ السَّبِيلَ إِلَی لُقِيِّهِ فَهَلْ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْکُرُ شَأْنَهُ فَقَالَ أُبَيٌّ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ بَيْنَمَا مُوسَی فِي مَلَإٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ إِذْ جَائَهُ رَجُلٌ فَقَالَ لَهُ هَلْ تَعْلَمُ أَحَدًا أَعْلَمَ مِنْکَ قَالَ مُوسَی لَا فَأَوْحَی اللَّهُ إِلَی مُوسَی بَلْ عَبْدُنَا الْخَضِرُ قَالَ فَسَأَلَ مُوسَی السَّبِيلَ إِلَی لُقِيِّهِ فَجَعَلَ اللَّهُ لَهُ الْحُوتَ آيَةً وَقِيلَ لَهُ إِذَا افْتَقَدْتَ الْحُوتَ فَارْجِعْ فَإِنَّکَ سَتَلْقَاهُ فَسَارَ مُوسَی مَا شَائَ اللَّهُ أَنْ يَسِيرَ ثُمَّ قَالَ لِفَتَاهُ آتِنَا غَدَائَنَا فَقَالَ فَتَی مُوسَی حِينَ سَأَلَهُ الْغَدَائَ أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَی الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنْسَانِيهِ إِلَّا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْکُرَهُ فَقَالَ مُوسَی لِفَتَاهُ ذَلِکَ مَا کُنَّا نَبْغِي فَارْتَدَّا عَلَی آثَارِهِمَا قَصَصًا فَوَجَدَا خَضِرًا فَکَانَ مِنْ شَأْنِهِمَا مَا قَصَّ اللَّهُ فِي کِتَابِهِ إِلَّا أَنَّ يُونُسَ قَالَ فَکَانَ يَتَّبِعُ أَثَرَ الْحُوتِ فِي الْبَحْرِ-
حرملہ بن یحیی ابن وہب، یونس ابن شہاب عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ ابن مسعود حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ان کا اور حر بن قیس بن حصین فرازی کا حضرت موسیٰ کے ساتھی بارے میں مباحثہ ہوا حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ وہ حضرت خضر علیہ السلام تھے پھر حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس طرف سے گزرے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو بلایا اور فرمایا اے ابوالطفیل! ادھر آئیں میں اور میرے یہ ساتھی حضرت موسیٰ کے اس ساتھی کے بارے میں جھگڑ رہے ہیں کہ جن سے حضرت موسیٰ ملنا چاہتے تھے تو کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں کچھ سنا ہے؟ حضرت ابی نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ سے سنا آپ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ بنی اسرائیل کی ایک جماعت میں تشریف فرما تھے کہ ایک آدمی آیا اور اس نے کہا کیا آپ اپنے سے زیادہ کسی کو علم والا سمجھتے ہیں؟ حضرت موسیٰ نے فرمایا نہیں! تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کی طرف وحی فرمائی کہ (اے موسی!) ہمارا بندہ خضر ہے (جو تجھ سے زیادہ علم والا ہے) حضرت موسیٰ نے اس بندے سے ملنے کا راستہ پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے مچھلی کو نشانی بنایا اور ان سے فرمایا کہ جب تم مچھلی کو گم پایا تو فورا واپس پلٹ گئے تو اس بندے سے تمہاری ملاقات ہو جائے گی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام چلے جتنا انکا چلنا اللہ تعالیٰ کو منظور تھا پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے ساتھی سے فرمایا ہمارا ناشتہ لا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی نے کہا کہ کیا آپ کے علم میں ہے کہ جب ہم صخراء کے مقام پر پہنچے تو میں مچھلی بھول گیا اور شیطان نے بھی اس کا ذکر کرنا بھلا دیا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے ساتھی سے فرمایا کہ ہم اسی جگہ کی تو تلاش میں تھے پھر وہ دونوں اپنے قدموں کے نشانات پر واپس پلٹے اور حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات ہوئی اور پھر ان کو جو واقعات پیش آئے اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی کتاب (قرآن مجید) میں بیان کر دیا ہے۔ سوائے یونس کے کہ انہوں نے کہا کہ وہ مچھلی کے نشان پر جو سمندر میں تھے چلے۔
'Utba b. Mas, ud reported that 'Abdullah b. 'Abbas contended with Hurr b. Qais b. Hisn al-Fazari about the companion of Moses (peace be upon him). Ibn 'Abbas said that he was Khadir. There happened to pass Ubayy b. Ka'b Ansari. Ibn Abbas called him and said: Abu Tufail, come to us. There has been a difference of opinion between me and my friend about the companion of Moses whom he wanted to meet on the way. Did hear anything from Allah's messenger (may peace be upon him) making a mention of anything? Ubayy said: I heard Allah's Messenger (may Peace be upon him) as saying: As Moses was amongst the group of Bani Isra'il, there came to him a person and he said to him: Do you know anyone having better knowledge than you? Moses said: No. Thereupon Allah revealed to Moses: Of course, there is amongst Our servants Khadir (who has better knowledge) than you. Moses asked the way of meeting him. Allah made the fish a sign and it was said to him: Where you miss the fish return to that (place) and you will soon find him. So Moses moved on as Allah wished him to move on. He then said to his young companion: Bring for us the breakfast. Thereupon that young man said to Moses, when he asked him for the breakfast: Don't you see that as we had reached the Sakhra I forgot the fish and nobody made it forget (in our mind) but the satan that I should remind you of it? Moses said to that young man: This was what we wanted. So they retraced their steps and met Khadir and the events which followed have been described in His Book except that Yunus (the narrator) said that he followed the traces of fish in the ocean.