تھکی ہوئی اجنبی عورت کو راستہ میں سواری پر پیچھے سوار کرنے کے جواز کے بیان میں ۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَائِ أَبُو کُرَيْبٍ الْهَمْدَانِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ هِشَامٍ أَخْبَرَنِي أَبِي عَنْ أَسْمَائَ بِنْتِ أَبِي بَکْرٍ قَالَتْ تَزَوَّجَنِي الزُّبَيْرُ وَمَا لَهُ فِي الْأَرْضِ مِنْ مَالٍ وَلَا مَمْلُوکٍ وَلَا شَيْئٍ غَيْرَ فَرَسِهِ قَالَتْ فَکُنْتُ أَعْلِفُ فَرَسَهُ وَأَکْفِيهِ مَئُونَتَهُ وَأَسُوسُهُ وَأَدُقُّ النَّوَی لِنَاضِحِهِ وَأَعْلِفُهُ وَأَسْتَقِي الْمَائَ وَأَخْرُزُ غَرْبَهُ وَأَعْجِنُ وَلَمْ أَکُنْ أُحْسِنُ أَخْبِزُ وَکَانَ يَخْبِزُ لِي جَارَاتٌ مِنْ الْأَنْصَارِ وَکُنَّ نِسْوَةَ صِدْقٍ قَالَتْ وَکُنْتُ أَنْقُلُ النَّوَی مِنْ أَرْضِ الزُّبَيْرِ الَّتِي أَقْطَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَی رَأْسِي وَهِيَ عَلَی ثُلُثَيْ فَرْسَخٍ قَالَتْ فَجِئْتُ يَوْمًا وَالنَّوَی عَلَی رَأْسِي فَلَقِيتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِهِ فَدَعَانِي ثُمَّ قَالَ إِخْ إِخْ لِيَحْمِلَنِي خَلْفَهُ قَالَتْ فَاسْتَحْيَيْتُ وَعَرَفْتُ غَيْرَتَکَ فَقَالَ وَاللَّهِ لَحَمْلُکِ النَّوَی عَلَی رَأْسِکِ أَشَدُّ مِنْ رُکُوبِکِ مَعَهُ قَالَتْ حَتَّی أَرْسَلَ إِلَيَّ أَبُو بَکْرٍ بَعْدَ ذَلِکَ بِخَادِمٍ فَکَفَتْنِي سِيَاسَةَ الْفَرَسِ فَکَأَنَّمَا أَعْتَقَتْنِي-
محمد بن علا ابوکریب ہمدانی ابواسامہ ہشام ابی اسماء بنت ابوبکر حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہ بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت زبیر بن العوام نے مجھ سے نکاح کیا اور ان کے پاس نہ زمین تھی نہ مال نہ خادم اور نہ ایک گھوڑے کے سوا اور کوئی چیز میں ان کے گھوڑے کو چارہ ڈالتی تھی اور ان کی طرف سے اس کی خبر گیری اور خدمت کرتی تھی اور ان کے اونٹ کے لئے گٹھلیاں کوٹتی تھی اس کو گھاس ڈالتی اور پانی پلاتی تھی اور ڈول کے ذریعہ پانی نکالتی تھی اور میری انصاری ہمسائیاں مجھے روٹی پکا دیتی تھیں اور وہ بڑے اخلاص والی عورتیں تھیں اور میں حضرت زبیر کی اس زمین سے اپنے سر پر گٹھلیاں لاتی تھی جو انہیں رسول اللہ نے عطا کی تھی اور وہ زمین دو تہائی فرسخ دور تھی میں ایک دن اس حال میں آئی کہ میرے سر پر گٹھلیاں تھیں میری ملاقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوگئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے چند آدمی آپ کے ساتھ تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا پھر اونٹ بٹھانے کے لئے اخ اخ کہا تاکہ آپ مجھے اپنے پیچھے سوار کرلیں فرماتی ہیں مجھے حیاء آئی اور اے زبیر میں تیری غیرت سے واقف تھی تو حضرت زبیر نے کہا تیرا اپنے سر پر گٹھیاں اٹھانا مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سوار ہونے سے زیادہ سخت دشوار تھا یہاں تک کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس واقعہ کے بعد میرے پاس ایک خادمہ بھیج دی پھر اس نے مجھے گھاس کے کام سے دور کردیا گویا کہ اس خادمہ نے مجھے آزاد کردیا۔
Asma' daughter of Abu Bakr reported that she was married to Zubair. He had neither land nor wealth nor slave nor anything else like it except a home. She further said: I grazed his horse, provided fodder to it and looked after it, and ground dates for his camel. Besides this, I grazed the camel, made arrangements for providing it with water and patched up the leather bucket and kneaded the flour. But I was not proficient in baking the bread, so my female neighbours used to bake bread for me and they were sincere women. She further said: I was carrying on my head the stones of the dates from the land of Zubair which Allah's Messenger (may peace be upon him) had endowed him and it was at a distance of two miles (from Medina). She said: As I was one day carrying the stones of dates upon my head I happened to meet Allah's Messenger (may peace be upon him) along with a group of his Companions. He called me and said (to the camel) to sit down so that he should make me ride behind him. (I told my husband: ) I felt shy and remembered your jealousy, whereupon he said: By Allah, the carrying of the stone dates upon your head is more severe a burden than riding with him. She said: (I led the life of hardship) until Abu Bakr sent afterwards a female servant who took upon herself the responsibility of looking after the horse and I felt as if she had emancipated me.
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْغُبَرِيُّ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْکَةَ أَنَّ أَسْمَائَ قَالَتْ کُنْتُ أَخْدُمُ الزُّبَيْرَ خِدْمَةَ الْبَيْتِ وَکَانَ لَهُ فَرَسٌ وَکُنْتُ أَسُوسُهُ فَلَمْ يَکُنْ مِنْ الْخِدْمَةِ شَيْئٌ أَشَدَّ عَلَيَّ مِنْ سِيَاسَةِ الْفَرَسِ کُنْتُ أَحْتَشُّ لَهُ وَأَقُومُ عَلَيْهِ وَأَسُوسُهُ قَالَ ثُمَّ إِنَّهَا أَصَابَتْ خَادِمًا جَائَ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْيٌ فَأَعْطَاهَا خَادِمًا قَالَتْ کَفَتْنِي سِيَاسَةَ الْفَرَسِ فَأَلْقَتْ عَنِّي مَئُونَتَهُ فَجَائَنِي رَجُلٌ فَقَالَ يَا أُمَّ عَبْدِ اللَّهِ إِنِّي رَجُلٌ فَقِيرٌ أَرَدْتُ أَنْ أَبِيعَ فِي ظِلِّ دَارِکِ قَالَتْ إِنِّي إِنْ رَخَّصْتُ لَکَ أَبَی ذَاکَ الزُّبَيْرُ فَتَعَالَ فَاطْلُبْ إِلَيَّ وَالزُّبَيْرُ شَاهِدٌ فَجَائَ فَقَالَ يَا أُمَّ عَبْدِ اللَّهِ إِنِّي رَجُلٌ فَقِيرٌ أَرَدْتُ أَنْ أَبِيعَ فِي ظِلِّ دَارِکِ فَقَالَتْ مَا لَکَ بِالْمَدِينَةِ إِلَّا دَارِي فَقَالَ لَهَا الزُّبَيْرُ مَا لَکِ أَنْ تَمْنَعِي رَجُلًا فَقِيرًا يَبِيعُ فَکَانَ يَبِيعُ إِلَی أَنْ کَسَبَ فَبِعْتُهُ الْجَارِيَةَ فَدَخَلَ عَلَيَّ الزُّبَيْرُ وَثَمَنُهَا فِي حَجْرِي فَقَالَ هَبِيهَا لِي قَالَتْ إِنِّي قَدْ تَصَدَّقْتُ بِهَا-
محمد بن عبیدالغبری حماد بن زید ایوب بن ابی ملیکہ اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ میں حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر کا کام کاج کرتی تھی اور ان کا ایک گھوڑا تھا اور میں اس کی دیکھ بھال کرتی اور میرے لئے گھوڑے کی دیکھ بھال کرنے سے زیادہ سخت کوئی کام نہ تھا پھر انہیں ایک خادمہ مل گئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ قیدی پیش کئے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے ایک خادم انہیں عطا کردیا کہتی ہیں کہ اس نے میرے گھوڑے کی دیکھ بھال کرنے کی مشقت کو اپنے اوپر ڈال لیا ایک آدمی نے آکر کہا اے ام عبداللہ میں غریب آدمی ہوں میں نے تیرے گھر کے سایہ میں خرید و فروخت کرنے کا ارادہ کیا ہے انہوں نے کہا میں اگر تجھے اجازت دے بھی دوں لیکن زبیر اس سے انکار کریں گے اس لئے اس وقت آکر اجازت طلب کرو جب حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ گھر پر موجود ہوں پھر وہ آیا اور عرض کیا اے ام عبداللہ میں ایک غریب آدمی ہوں میں نے آپ کے گھر کے سایہ میں خرید و فروخت کرنے کا ارادہ کیا ہے اسماء نے کہا کیا تیرے لئے میرے گھر کے علاوہ پورے مدینہ میں کوئی اور جگہ نہیں ہے تو اسماء سے حضرت زبیر نے کہا تجھے کیا ہوگیا ہے کہ ایک ضرورت مند آدمی کو خرید و فروخت سے منع کر رہی ہے پس وہ دکانداری کرنے لگا اور خوب کمائی کی اور میں نے وہی باندی اس کے ہاتھ فروخت کر دی پس زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس حال میں آئے کہ میرے پاس اس کی قیمت میری گود میں تھی تو انہوں نے کہا اس رقم کو میرے لئے ہبہ کر دو اسماء نے کہا میں انہیں صدقہ کر چکی ہوں۔
Asma' reported: I performed the household duties of Zubair and he had a horse; I used to look after it. Nothing was more burdensome for me than looking after the horse. I used to bring grass for it and looked after it, then I got a servant as Allah's Apostle (may peace be upon him) had some prisoners of war in his possession. He gave me a female servant. She (the female servant) then began to look after the horse and thus relieved me of this burden. A person came and he said: Mother of 'Abdullah, I am a destitute person and I intend that I should start business under the shadow of your house. I (Asma') said: If I grant you permission, Zubair may not agree to that, so you come and make a demand of it when Zubair is also present there. He came accordingly and said: Mother of 'Abdullah. I am a destitute person. I intend to start a small business in the shadow of your house. I said: Is there not in Medina (any place for starting the business) except my house? Zubair said: Why is it that you prohibit the destitute man to start business here? So he started business and he (earned so much) that we sold our slave-girl to him. There came Zubair to me while the money was in my lap. He said: Give this to me. I said: (I intend) to spend it as charity.