ایمان اور اسلام اور احسان اور اللہ سبحانہ وتعالی کی تقدیر کے اثبات کے بیان میں

حَدَّثَنِي أَبُو خَيْثَمَةَ زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا وَکِيعٌ عَنْ کَهْمَسٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ يَحْيَی بْنِ يَعْمَرَ ح و حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ وَهَذَا حَدِيثُهُ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا کَهْمَسٌ عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ يَحْيَی بْنِ يَعْمَرَ قَالَ کَانَ أَوَّلَ مَنْ قَالَ فِي الْقَدَرِ بِالْبَصْرَةِ مَعْبَدٌ الْجُهَنِيُّ فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَحُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيُّ حَاجَّيْنِ أَوْ مُعْتَمِرَيْنِ فَقُلْنَا لَوْ لَقِينَا أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلْنَاهُ عَمَّا يَقُولُ هَؤُلَائِ فِي الْقَدَرِ فَوُفِّقَ لَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ دَاخِلًا الْمَسْجِدَ فَاکْتَنَفْتُهُ أَنَا وَصَاحِبِي أَحَدُنَا عَنْ يَمِينِهِ وَالْآخَرُ عَنْ شِمَالِهِ فَظَنَنْتُ أَنَّ صَاحِبِي سَيَکِلُ الْکَلَامَ إِلَيَّ فَقُلْتُ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِنَّهُ قَدْ ظَهَرَ قِبَلَنَا نَاسٌ يَقْرَئُونَ الْقُرْآنَ وَيَتَقَفَّرُونَ الْعِلْمَ وَذَکَرَ مِنْ شَأْنِهِمْ وَأَنَّهُمْ يَزْعُمُونَ أَنْ لَا قَدَرَ وَأَنَّ الْأَمْرَ أُنُفٌ قَالَ فَإِذَا لَقِيتَ أُولَئِکَ فَأَخْبِرْهُمْ أَنِّي بَرِيئٌ مِنْهُمْ وَأَنَّهُمْ بُرَآئُ مِنِّي وَالَّذِي يَحْلِفُ بِهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ لَوْ أَنَّ لِأَحَدِهِمْ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا فَأَنْفَقَهُ مَا قَبِلَ اللَّهُ مِنْهُ حَتَّی يُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ ثُمَّ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَالَ بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ إِذْ طَلَعَ عَلَيْنَا رَجُلٌ شَدِيدُ بَيَاضِ الثِّيَابِ شَدِيدُ سَوَادِ الشَّعَرِ لَا يُرَی عَلَيْهِ أَثَرُ السَّفَرِ وَلَا يَعْرِفُهُ مِنَّا أَحَدٌ حَتَّی جَلَسَ إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْنَدَ رُکْبَتَيْهِ إِلَی رُکْبَتَيْهِ وَوَضَعَ کَفَّيْهِ عَلَی فَخِذَيْهِ وَقَالَ يَا مُحَمَّدُ أَخْبِرْنِي عَنْ الْإِسْلَامِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْإِسْلَامُ أَنْ تَشْهَدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ وَتُؤْتِيَ الزَّکَاةَ وَتَصُومَ رَمَضَانَ وَتَحُجَّ الْبَيْتَ إِنْ اسْتَطَعْتَ إِلَيْهِ سَبِيلًا قَالَ صَدَقْتَ قَالَ فَعَجِبْنَا لَهُ يَسْأَلُهُ وَيُصَدِّقُهُ قَالَ فَأَخْبِرْنِي عَنْ الْإِيمَانِ قَالَ أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِکَتِهِ وَکُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ قَالَ صَدَقْتَ قَالَ فَأَخْبِرْنِي عَنْ الْإِحْسَانِ قَالَ أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ کَأَنَّکَ تَرَاهُ فَإِنْ لَمْ تَکُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاکَ قَالَ فَأَخْبِرْنِي عَنْ السَّاعَةِ قَالَ مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنْ السَّائِلِ قَالَ فَأَخْبِرْنِي عَنْ أَمَارَتِهَا قَالَ أَنْ تَلِدَ الْأَمَةُ رَبَّتَهَا وَأَنْ تَرَی الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الْعَالَةَ رِعَائَ الشَّائِ يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبُنْيَانِ قَالَ ثُمَّ انْطَلَقَ فَلَبِثْتُ مَلِيًّا ثُمَّ قَالَ لِي يَا عُمَرُ أَتَدْرِي مَنْ السَّائِلُ قُلْتُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ فَإِنَّهُ جِبْرِيلُ أَتَاکُمْ يُعَلِّمُکُمْ دِينَکُمْ-
ابوخیثمہ، زہیر بن حرب، وکیع، کہمس، عبداللہ بن بریدہ، یحیی بن یعمر سے دو سلسلوں کے ساتھ روایت ہے اور دونوں سلسلوں میں کہمس راوی ہیں کہ سب سے پہلے بصرہ میں معبد جہنی نے انکار تقدیر کا قول کیا یحیی کہتے ہیں کہ اتفاقا میں اور حمید بن عبدالرحمن حمیری ساتھ ساتھ حج یا عمرہ کرنے گئے اور ہم نے آپس میں کہہ لیا تھا کہ اگر کسی صحابی سے ملاقات ہوئی تو ان سے تقدیر الہی کا انکار کرنے والوں کا مقولہ دریافت کریں گے اللہ تعالیٰ کی توفیق سے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملاقات ہوگئی آپ مسجد میں داخل ہو رہے تھے ہم دونوں نے دائیں بائیں سے گھیر لیا چونکہ میرا خیال تھا کہ میرا ساتھی سلسلہ کلام میرے ہی سپرد کرے گا اس لئے میں نے کہنا شروع کیا، اے ابوعبدالرحمن ہمارے ہاں کچھ ایسے آدمی پیدا ہوگئے ہیں جو قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں اور علم دین کی تحقیقات کرتے ہیں اور راوی نے ان کی تعریف کی مگر ان کا خیال ہے کہ تقدیر الہی کوئی چیز نہیں ہے ہر بات بغیر تقدیر کے ہوتی ہے اور سارے کام ناگہاں ہوتے ہیں حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اگر تمہاری ان لوگوں سے ملاقات ہو جائے تو کہہ دینا کہ نہ میرا ان سے کوئی تعلق ہے اور نہ ان کا مجھ سے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ قسم کھا کر فرماتے تھے کہ اگر ان میں سے کسی کے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو اور وہ سب کا سب اللہ تعالیٰ کی راہ میں خیرات کر دے تب بھی اللہ اس کی خیرات قبول نہیں کرے گا تاوقتیکہ اس کا تقدیر پر ایمان نہ ہو مجھ سے میرے باپ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک حدیث بیان کی تھی فرمایا کہ ایک روز ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے اچانک ایک شخص نمودار ہوا نہایت سفید کپڑے بہت سیاہ بال سفر کا کوئی اثر یعنی گردو غبار وغیرہ اس پر نمایاں نہ تھا اور ہم میں سے کوئی اس کو جانتا بھی نہ تھا بالآخر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے زانو بزانو ہو کر بیٹھ گیا اپنے دونوں ہاتھوں کو رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رانوں پر رکھ دیا اور عرض کیا یا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسلام کی کیفت تبائیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اسلام یہ ہے کہ تم کلمہ تو حید یعنی اس بات کی گواہی دو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت (کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں) کا اقرار کرو، نماز پابندی سے بتعدیل ارکان ادا کرو، زکوة دو، رمضان کے روزے رکھو اور اگر استطاعتِ زاد راہ ہو تو حج بھی کرو۔ آنے والے نے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سچ فرمایا۔ ہم کو تعجب ہوا کہ خود ہی سوال کرتا ہے اور خود ہی تصدیق کرتا ہے، اس کے بعد اس شخص نے عرض کیا کہ ایمان کی حالت بتائیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ایمان کے معنی یہ ہیں کہ تم اللہ تعالیٰ کا اور اس کے فرشتوں کا، اس کی کتابوں کا، اس کے رسولوں کا اور قیامت کا یقین رکھو، تقدیر الٰہی کو یعنی ہر خیر وشر کے مقدم ہونے کو سچا جانو۔ آنے والے نے عرض کیا : آپ نے سچ فرمایا۔ پھر کہنے لگا احسان کی حقیقت بتائیے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : احسان کی حقیقت یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو کہ گویا تم اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہے ہو اگر یہ مرتبہ حاصل نہ ہو تو (تو کم از کم) اتنا یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ تم کو دیکھ رہا ہے۔ آنے والے نے عرض کیا کہ قیامت کے بارے میں بتائیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عرض کیا کہ قیامت کے بارے میں جس سے سوال کیا گیا ہے وہ سائل سے زیادہ اس بات سے واقف نہیں ہے اس نے عرض کیا اچھا قیامت کی علامات بتائیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا قیامت کی علامات میں سے یہ بات ہے کہ لونڈی اپنی مالکہ کو جنے گی اور تو دیکھے گا کہ ننگے پاؤں ننگے جسم تنگ دست چرواہے بڑی بڑی عمارتوں پر اترائیں گے اس کے بعد وہ آدمی چلا گیا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں کچھ دیر تک ٹھہرا رہا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے عمر کیا تم جانتے ہو کہ یہ سوال کرنے والا کون تھا میں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ حضرت جبرائیل علیہ السلام تھے جو تمہیں تمہارا دین سکھانے کے لئے آئے تھے۔
It is narrated on the authority of Yahya b. Ya'mur that the first man who discussed about Qadr (Divine Decree) in Basra was Ma'bad al-Juhani. I along with Humaid b. 'Abdur-Rahman Himyari set out for prilgrimage or for 'Umrah and said: Should it so happen that we come into contact with one of the Companions of the Messenger of Allah (peace be upon him) we shall ask him a bout what is talked about Taqdir (Division Decree). Accidentally we came across Abdullah ibn Umar ibn al-Khattab, while he was entering the mosque. My companion and I surrounded him. One of us (stood) on his right and the other stood on his left. I expected that my companion would authorize me to speak. I therefore said: Abu Abdur Rahman! there have appeared some people in our land who recite the Holy Qur'an and pursue knowledge. And then after talking about their affairs, added: They (such people) claim that there is no such thing as Divine Decree and events are not predestined. He (Abdullah ibn Umar) said: When you happen to meet such people tell them that I have nothing to do with them and they have nothing to do with me. And verily they are in no way responsible for my (belief). Abdullah ibn Umar swore by Him (the Lord) (and said): If any one of them (who does not believe in the Divine Decree) had with him gold equal to the bulk of (the mountain) Uhud and then, it (in the way of Allah), Allah would not accept it unless he affirmed his faith in Divine Decree. He further said: My father, Umar ibn al-Khattab, told me: One day we were sitting in the company of Allah's Apostle (peace be upon him) when there appeared before us a man dressed in pure white clothes, his hair extraordinarily black. There were no signs of travel on him. None amongst us recognized him. At last he sat with the Apostle (peace be upon him) He knelt before him placed his palms on his thighs and said: Muhammad, inform me about al-Islam. The Messenger of Allah (peace be upon him) said: Al-Islam implies that you testify that there is no god but Allah and that Muhammad is the messenger of Allah, and you establish prayer, pay Zakat, observe the fast of Ramadan, and perform pilgrimage to the (House) if you are solvent enough (to bear the expense of) the journey. He (the inquirer) said: You have told the truth. He (Umar ibn al-Khattab) said: It amazed us that he would put the question and then he would himself verify the truth. He (the inquirer) said: Inform me about Iman (faith). He (the Holy Prophet) replied: That you affirm your faith in Allah, in His angels, in His Books, in His Apostles, in the Day of Judgment, and you affirm your faith in the Divine Decree about good and evil. He (the inquirer) said: You have told the truth. He (the inquirer) again said: Inform me about al-Ihsan (performance of good deeds). He (the Holy Prophet) said: That you worship Allah as if you are seeing Him, for though you don't see Him, He, verily, sees you. He (the enquirer) again said: Inform me about the hour (of the Doom). He (the Holy Prophet) remarked: One who is asked knows no more than the one who is inquiring (about it). He (the inquirer) said: Tell me some of its indications. He (the Holy Prophet) said: That the slave-girl will give birth to her mistress and master, that you will find barefooted, destitute goat-herds vying with one another in the construction of magnificent buildings. He (the narrator, Umar ibn al-Khattab) said: Then he (the inquirer) went on his way but I stayed with him (the Holy Prophet) for a long while. He then, said to me: Umar, do you know who this inquirer was? I replied: Allah and His Apostle knows best. He (the Holy Prophet) remarked: He was Gabriel (the angel). He came to you in order to instruct you in matters of religion.
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْغُبَرِيُّ وَأَبُو کَامِلٍ الْجَحْدَرِيُّ وَأَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ قَالُوا حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ مَطَرٍ الْوَرَّاقِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ يَحْيَی بْنِ يَعْمَرَ قَالَ لَمَّا تَکَلَّمَ مَعْبَدٌ بِمَا تَکَلَّمَ بِهِ فِي شَأْنِ الْقَدَرِ أَنْکَرْنَا ذَلِکَ قَالَ فَحَجَجْتُ أَنَا وَحُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيُّ حَجَّةً وَسَاقُوا الْحَدِيثَ بِمَعْنَی حَدِيثِ کَهْمَسٍ وَإِسْنَادِهِ وَفِيهِ بَعْضُ زِيَادَةٍ وَنُقْصَانُ أَحْرُفٍ-
محمد بن عبید الغبری، ابوکامل الفضیل بن الحسین الجحدری و احمد بن عبدہ الضبی، حماد بن زید، مطر الوراق، عبداللہ بن بریدہ، یحیی بن یعمر کہتے ہیں کہ جب معبد نے تقدیر کا انکار کیا تو ہمیں اس مسئلہ میں تردد ہوا۔ اتفاق سے میں اور حمید بن عبدالرحمن حمیری حج کے لئے گئے امام مسلم فرماتے ہیں کہ اس کے بعد یحیی بن یعمر نے وہی حدیث کچھ لفظی فرق کے ساتھ بیان کی جو اس سے پہلے گزر چکی ہے۔
It is narrated on the authority of Yahya b. Ya'mur that when Ma'bad discussed the problem pertaining to Divine Decree, we refuted that. He (the narrator) said: I and Humaid b. Abdur-Rahman Himyari argued. And they carried on the conversation about the purport of the hadith related by Kahmas and its chain of transmission too, and there is some variation of words.
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ غِيَاثٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ عَنْ يَحْيَی بْنِ يَعْمَرَ وَحُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَا لَقِينَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ فَذَکَرْنَا الْقَدَرَ وَمَا يَقُولُونَ فِيهِ فَاقْتَصَّ الْحَدِيثَ کَنَحْوِ حَدِيثِهِمْ عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِيهِ شَيْئٌ مِنْ زِيَادَةٍ وَقَدْ نَقَصَ مِنْهُ شَيْئًا-
محمد بن حاتم، یحیی بن سعید القطان، عثمان بن غیاث عبداللہ بن بریدہ، حضرت یحیی بن یعمر اور حمید بن عبدالرحمن دونوں بیان کرتے ہیں کہ ہماری ملاقات حضرت ابن عمر سے ہوئی ہم نے ان سے تقدیر کا انکار کرنے والوں کا ذکر کیا اس کے بعد انہوں نے وہی پورا واقعہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت بیان کی (جو گزر چکی ہے) مگر اس روایت کے بعض الفاظ میں کمی بیشی ہے۔
It is narrated on the authority of Yahya b. Ya'mur and Humaid b. 'Abdur-Rahman that they said: We met Abdullah b. 'Umar and we discussed about the Divine Decree, and what they talked about it and he narrated the hadith that has been transmitted by 'Umar (may Allah be pleased with him) from the Apostle (may peace be upon him). There is a slight variation in that.
حَدَّثَنِي حَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ عَنْ أَبِيهِ عَنْ يَحْيَی بْنِ يَعْمَرَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَحْوِ حَدِيثِهِمْ-
حجاج بن الشاعر، یونس بن محمد، معتمر اپنے والد سے، یحیی بن یعمر، ابن عمر، عمر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اسی حدیث کی طرح روایت کرتے ہیں جو کہ گزر چکی ہے۔
It is narrated on the authority of Yahya b. Ya'mur and Humaid b. 'Abdur-Rahman that they said: We met Abdullah b. 'Umar and we discussed about the Divine Decree, and what they talked about it and he narrated the hadith that has been transmitted by 'Umar (may Allah be pleased with him) from the Apostle (may peace be upon him). There is a slight variation in that.
حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ جَمِيعًا عَنْ ابْنِ عُلَيَّةَ قَالَ زُهَيْرٌ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِي حَيَّانَ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا بَارِزًا لِلنَّاسِ فَأَتَاهُ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا الْإِيمَانُ قَالَ أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِکَتِهِ وَکِتَابِهِ وَلِقَائِهِ وَرُسُلِهِ وَتُؤْمِنَ بِالْبَعْثِ الْآخِرِ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا الْإِسْلَامُ قَالَ الْإِسْلَامُ أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ وَلَا تُشْرِکَ بِهِ شَيْئًا وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ الْمَکْتُوبَةَ وَتُؤَدِّيَ الزَّکَاةَ الْمَفْرُوضَةَ وَتَصُومَ رَمَضَانَ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا الْإِحْسَانُ قَالَ أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ کَأَنَّکَ تَرَاهُ فَإِنَّکَ إِنْ لَا تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاکَ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَتَی السَّاعَةُ قَالَ مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنْ السَّائِلِ وَلَکِنْ سَأُحَدِّثُکَ عَنْ أَشْرَاطِهَا إِذَا وَلَدَتْ الْأَمَةُ رَبَّهَا فَذَاکَ مِنْ أَشْرَاطِهَا وَإِذَا کَانَتْ الْعُرَاةُ الْحُفَاةُ رُئُوسَ النَّاسِ فَذَاکَ مِنْ أَشْرَاطِهَا وَإِذَا تَطَاوَلَ رِعَائُ الْبَهْمِ فِي الْبُنْيَانِ فَذَاکَ مِنْ أَشْرَاطِهَا فِي خَمْسٍ لَا يَعْلَمُهُنَّ إِلَّا اللَّهُ ثُمَّ تَلَا صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَکْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ قَالَ ثُمَّ أَدْبَرَ الرَّجُلُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رُدُّوا عَلَيَّ الرَّجُلَ فَأَخَذُوا لِيَرُدُّوهُ فَلَمْ يَرَوْا شَيْئًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا جِبْرِيلُ جَائَ لِيُعَلِّمَ النَّاسَ دِينَهُمْ-
ابوبکر بن ابی شیبہ، زہیر بن حرب، ابن علیہ، زہیر، اسماعیل بن ابراہیم، ابی حیان، ابی زرعہ بن عمرو بن جریر، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک دن لوگوں کے سامنے تشریف فرما تھے اتنے میں ایک آدمی نے حاضر ہو کر عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایمان کیا چیز ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ایمان یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کا، اس کے فرشتوں کا، اس کی کتابوں کا، اس سے ملنے کا، اس کے پیغمبروں کا اور حشر کا یقین رکھو اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول اسلام کیا ہے؟ فرمایا : اسلام یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، فرض نماز پابندی سے پڑھو، فرض کی گئی زکوۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو۔ اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول احسان کس کو کہتے ہیں؟ فرمایا احسان یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اس کو دیکھ رہے ہو اور اگر تم اس کو نہیں دیکھ رہے تو (کم از کم اتنا یقین رکھو) کہ وہ تم کو دیکھ رہا ہے۔ اس نے عرض کیا قیامت کب ہوگی؟ ارشاد فرمایا جس سے سوال کیا گیا ہے وہ سوال کرنے والے سے اس بات کا زیادہ جاننے والا نہیں ہے، ہاں میں تمہیں اس کی علامات بتاتا ہوں : جب لونڈی اپنی مالکہ کو جنے گی یہ قیامت کی علامات میں سے ہے جب ننگے بدن اور ننگے پاؤں رہنے والے لوگوں کے سردار ہو جائیں گے تو یہ قیامت کی علامت ہے جب اونٹوں کے چرواہے اونچی اونچی عمارتیں بنا کر فخر کریں گے تو یہ قیامت کی علامات میں سے ہے، قیامت کا علم ان پانچ چیزوں میں سے ہے جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آیت مبارکہ تلاوت فرمائی (اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَه عِلْمُ السَّاعَةِ) 31۔لقمان : 34) پھر وہ شخص پشت پھیر کر چلا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس کو واپس لاؤ لوگوں نے اس کو تلاش کیا مگر وہ نہ ملا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ جبرائیل آئے تھے تاکہ لوگوں کو ان کا دین سکھائیں۔
Abu Huraira reported: One day the Messenger of Allah (may peace be upon him) appeared before the public that a man came to him and said: Prophet of Allah, (tell me) what is Iman (Faith). Upon this he (the Holy Prophet) replied: That you affirm your faith in Allah, His angels, His Books, His meeting, His Messengers and that you affirm your faith in the Resurrection hereafter. He (again) said: Messenger of Allah, (tell me) what does al-Islam signify. He (the Holy Prophet) replied: Al-Islam signifies that you worship Allah and do not associate anything with Him and you establish obligatory prayer and you pay the obligatory poor-rate (Zakat) and you observe the fast of Ramadan. He (the inquirer) again said: Messenger of Allah, what does al-Ihsan imply? He (the Holy Prophet) replied: That you worship Allah as if you are seeing Him, and in case you fail to see Him, then observe prayer (with this idea in your mind) that (at least) He is seeing you. He (the inquirer ) again said: Messenger of Allah, when would there be the Hour (of Doom)? He (the Holy Prophet) replied: The one who is asked about it is no better informed than the inquirer. I, however, narrate some of its signs (and these are): when the slave-girl will give birth to her master, when the naked, barefooted would become the chiefs of the people - these are some of the signs of (Doom). (Moreover) when the shepherds of the black (camels) would exult themselves and compete with others in the construction of higher buildings, this is one of the signs of (Doom). (Doom) is one of the five (happenings wrapped in the unseen) which no one knows but Allah. Then he (the Messenger of Allah) recited (the verse):" Verily Allah! with Him Alone is the knowledge of the Hour and He it is Who sends (down the rain) and knows that which is in the wombs and no person knows whatsoever he shall earn tomorrow, and a person knows not in whatsoever land he shall die. Verily Allah is Knowing, Aware. He (the narrator, Abu Huraira) said: Then the person turned back and went away. The Messenger of Allah (may peace be upon him) said: Bring that man back to me. They (the Companions of the Holy Prophet present there) went to bring him back, but they saw nothing there. Upon this the Messenger of Allah remarked: he was Gabriel, who came to teach the people their religion
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو حَيَّانَ التَّيْمِيُّ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ غَيْرَ أَنَّ فِي رِوَايَتِهِ إِذَا وَلَدَتْ الْأَمَةُ بَعْلَهَا يَعْنِي السَّرَارِيَّ-
محمد بن عبداللہ بن نمیر، محمد بن بشر، حضرت ابوحیان تیمی کی روایت بھی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کے مطابق ہے صرف اتنا لفظ بدلا ہوا ہے کہ بجائے رب کے بعل کا لفظ ہے ترجمہ یہ ہے کہ جب لونڈی اپنے شوہر کی مالک ہوگی۔
This hadith is narrated to us on the authority of Muhammad b. 'Abdullah b. Numair, on the authority of Muhammad b. Bishr, on the authority of Abd Hayyan al-Taymi with the exception that in this narration (instead of the words (Iza Waladat al'amah rabbaha), the words are (Iza Waladat al'amah Ba'laha), i, e, when slave-girl gives birth to her master.
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ عُمَارَةَ وَهُوَ ابْنُ الْقَعْقَاعِ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَلُونِي فَهَابُوهُ أَنْ يَسْأَلُوهُ فَجَائَ رَجُلٌ فَجَلَسَ عِنْدَ رُکْبَتَيْهِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا الْإِسْلَامُ قَالَ لَا تُشْرِکُ بِاللَّهِ شَيْئًا وَتُقِيمُ الصَّلَاةَ وَتُؤْتِي الزَّکَاةَ وَتَصُومُ رَمَضَانَ قَالَ صَدَقْتَ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا الْإِيمَانُ قَالَ أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِکَتِهِ وَکِتَابِهِ وَلِقَائِهِ وَرُسُلِهِ وَتُؤْمِنَ بِالْبَعْثِ وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ کُلِّهِ قَالَ صَدَقْتَ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا الْإِحْسَانُ قَالَ أَنْ تَخْشَی اللَّهَ کَأَنَّکَ تَرَاهُ فَإِنَّکَ إِنْ لَا تَکُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاکَ قَالَ صَدَقْتَ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَتَی تَقُومُ السَّاعَةُ قَالَ مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنْ السَّائِلِ وَسَأُحَدِّثُکَ عَنْ أَشْرَاطِهَا إِذَا رَأَيْتَ الْمَرْأَةَ تَلِدُ رَبَّهَا فَذَاکَ مِنْ أَشْرَاطِهَا وَإِذَا رَأَيْتَ الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الصُّمَّ الْبُکْمَ مُلُوکَ الْأَرْضِ فَذَاکَ مِنْ أَشْرَاطِهَا وَإِذَا رَأَيْتَ رِعَائَ الْبَهْمِ يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبُنْيَانِ فَذَاکَ مِنْ أَشْرَاطِهَا فِي خَمْسٍ مِنْ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهُنَّ إِلَّا اللَّهُ ثُمَّ قَرَأَ إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَکْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ قَالَ ثُمَّ قَامَ الرَّجُلُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رُدُّوهُ عَلَيَّ فَالْتُمِسَ فَلَمْ يَجِدُوهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا جِبْرِيلُ أَرَادَ أَنْ تَعَلَّمُوا إِذْ لَمْ تَسْأَلُوا-
زہیر بن حرب، جریر بن عمارہ یعنی ابن قعقاع، ابی زرعہ، حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو کچھ چاہو مجھ سے پوچھو۔ لوگوں پر ہیبت چھا گئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کچھ پوچھیں۔ اتنے میں ایک آدمی آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زانوں کے پاس بیٹھ کر عرض کرنے لگا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسلام کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اسلام یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو، نماز پابندی سے پڑھو، زکوة ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو۔ اس نے عرض کیا آپ نے سچ فرمایا۔ اس نے پھر عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایمان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ایمان یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کا، اس کے فرشتوں کا، اس کی کتابوں کا، اس سے ملنے کا اور اس کے پیغمبروں کا یقین رکھو، حشر کو سچا جانو اور ہر طرح کی تقدیر الہی کو خواہ خیر ہو یا شر ہو دل سے مانو اس نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سچ فرمایا اس نے پھر عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم احسان کس کو کہتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا احسان یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کا خوف اتنا رکھو گویا ہر وقت اس کو دیکھ رہے ہو اگر یہ بات نہ ہو تم کم از کم اتنا یقین رکھو کہ وہ تم کو دیکھ رہا ہے۔ اس نے عرض کیا آپ نے سچ فرمایا۔ پھر عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قیامت کب ہوگی؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس سے سوال کیا گیا ہے وہ اس بات کو سائل سے زیادہ نہیں جانتا ہاں میں اس کی علامات تمہیں بتا دیتا ہوں جب تم دیکھو کہ عورتیں اپنے مالکوں کو جنم دے رہی ہیں تو یہ قیامت کی نشانی ہے اور جب دیکھو کہ ننگے پاؤں بہرے گونگے جاہل زمین کے بادشاہ ہو رہے ہیں تو یہ قیامت کی نشانی ہے اور جب دیکھو کہ اونٹوں کے چرانے والے اونچی اونچی عمارتیں بنا کر اترا رہے ہیں تو یہ قیامت کی نشانی ہے قیامت ان پانچ غیبی چیزوں میں سے ہے جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آیت (اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَه عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْاَرْحَامِ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ بِاَيِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ) 31۔لقمان : 34) پڑھی اس کے بعد وہ شخص اٹھ کر چلا گیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس کو واپس بلاؤ لوگوں نے اس کو تلاش کیا مگر وہ نہ ملا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ جبرائیل علیہ السلام تھے چونکہ تم نے خود سوال نہیں کیا تھا اس لئے انہوں نے چاہا کہ تم لوگ دین کی باتیں سیکھ لو۔
It is narrated on the authority of Abu Huraira that the Messenger of Allah (may peace be upon him) said: Ask me (about matters pertaining to religion), but they (the Companions of the Holy Prophet) were too much overawed out of profound respect for him to ask him (anything). In the meanwhile a man came there, and sat near his knees and said: Messenger of Allah, what al-lslam is? -to which he (the Holy Prophet) replied: You must not associate anything with Allah, and establish prayer, pay the poor-rate (Zakat) and observe (the fasts) of Ramadan. He said: You (have) told the truth. He (again) said: Messenger of Allah, what al-Iman (the faith) is? He (the Holy Prophet) said: That you affirm your faith in Allah, His angels, His Books, His meeting, His Apostles, and that you believe in Resurrection and that you believe in Qadr (Divine Decree) in all its entirety, He (the inquirer) said: You (have) told the truth. He (again) said: Messenger of Allah, what al-Ihsan is? Upon this he (the Holy Prophet) said: (Al-Ihsan implies) that you fear Allah as if you are seeing Him, and though you see Him not, verily He is seeing you. He (the inquirer) said: You (have) told the truth. He (the inquirer) said: When there would be the hour (of Doom)? (Upon this) he (the HolyProphet said: The one who is being asked about it is no better informed than the inquirer himself. I, however, narrate some of its signs (and these are): when you see a slave (woman) giving birth to her master - that is one of the signs of (Doom) ; when you see barefooted, naked, deaf and dumb (ignorant and foolish persons) as the rulers of the earth - that is one of the signs of the Doom. And when you see the shepherds of black camels exult in buildings - that is one of the signs of Doom. The (Doom) is one of the five things (wrapped) in the unseen. No one knows them except Allah. Then (the Holy Prophet) recited (the folowing verse):" Verily Allah! with Him alone is the knowledge of the hour and He it is Who sends down the rain and knows that which is in the wombs and no person knows whatsoever he shall earn on morrow and a person knows not in whatsoever land he shall die. Verily Allah is Knowing, Aware. He (the narrator, Abu Huraira) said: Then the person stood up an (made his way). The Messenger of Allah (may peace be upon him) said: Bring him back to me. He was searched for, but they (the Companions of the Holy Prophet) could not find him. The Messenger of Allah (may peace be upon him) thereupon said: He was Gabriel and he wanted to teach you (things pertaining to religion) when you did not ask (them yourselves).