ابوذر کے فضائل کے بیان میں

حَدَّثَنَا هَدَّابُ بْنُ خَالِدٍ الْأَزْدِيُّ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ أَخْبَرَنَا حُمَيْدُ بْنُ هِلَالٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ قَالَ أَبُو ذَرٍّ خَرَجْنَا مِنْ قَوْمِنَا غِفَارٍ وَکَانُوا يُحِلُّونَ الشَّهْرَ الْحَرَامَ فَخَرَجْتُ أَنَا وَأَخِي أُنَيْسٌ وَأُمُّنَا فَنَزَلْنَا عَلَی خَالٍ لَنَا فَأَکْرَمَنَا خَالُنَا وَأَحْسَنَ إِلَيْنَا فَحَسَدَنَا قَوْمُهُ فَقَالُوا إِنَّکَ إِذَا خَرَجْتَ عَنْ أَهْلِکَ خَالَفَ إِلَيْهِمْ أُنَيْسٌ فَجَائَ خَالُنَا فَنَثَا عَلَيْنَا الَّذِي قِيلَ لَهُ فَقُلْتُ أَمَّا مَا مَضَی مِنْ مَعْرُوفِکَ فَقَدْ کَدَّرْتَهُ وَلَا جِمَاعَ لَکَ فِيمَا بَعْدُ فَقَرَّبْنَا صِرْمَتَنَا فَاحْتَمَلْنَا عَلَيْهَا وَتَغَطَّی خَالُنَا ثَوْبَهُ فَجَعَلَ يَبْکِي فَانْطَلَقْنَا حَتَّی نَزَلْنَا بِحَضْرَةِ مَکَّةَ فَنَافَرَ أُنَيْسٌ عَنْ صِرْمَتِنَا وَعَنْ مِثْلِهَا فَأَتَيَا الْکَاهِنَ فَخَيَّرَ أُنَيْسًا فَأَتَانَا أُنَيْسٌ بِصِرْمَتِنَا وَمِثْلِهَا مَعَهَا قَالَ وَقَدْ صَلَّيْتُ يَا ابْنَ أَخِي قَبْلَ أَنْ أَلْقَی رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِثَلَاثِ سِنِينَ قُلْتُ لِمَنْ قَالَ لِلَّهِ قُلْتُ فَأَيْنَ تَوَجَّهُ قَالَ أَتَوَجَّهُ حَيْثُ يُوَجِّهُنِي رَبِّي أُصَلِّي عِشَائً حَتَّی إِذَا کَانَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ أُلْقِيتُ کَأَنِّي خِفَائٌ حَتَّی تَعْلُوَنِي الشَّمْسُ فَقَالَ أُنَيْسٌ إِنَّ لِي حَاجَةً بِمَکَّةَ فَاکْفِنِي فَانْطَلَقَ أُنَيْسٌ حَتَّی أَتَی مَکَّةَ فَرَاثَ عَلَيَّ ثُمَّ جَائَ فَقُلْتُ مَا صَنَعْتَ قَالَ لَقِيتُ رَجُلًا بِمَکَّةَ عَلَی دِينِکَ يَزْعُمُ أَنَّ اللَّهَ أَرْسَلَهُ قُلْتُ فَمَا يَقُولُ النَّاسُ قَالَ يَقُولُونَ شَاعِرٌ کَاهِنٌ سَاحِرٌ وَکَانَ أُنَيْسٌ أَحَدَ الشُّعَرَائِ قَالَ أُنَيْسٌ لَقَدْ سَمِعْتُ قَوْلَ الْکَهَنَةِ فَمَا هُوَ بِقَوْلِهِمْ وَلَقَدْ وَضَعْتُ قَوْلَهُ عَلَی أَقْرَائِ الشِّعْرِ فَمَا يَلْتَئِمُ عَلَی لِسَانِ أَحَدٍ بَعْدِي أَنَّهُ شِعْرٌ وَاللَّهِ إِنَّهُ لَصَادِقٌ وَإِنَّهُمْ لَکَاذِبُونَ قَالَ قُلْتُ فَاکْفِنِي حَتَّی أَذْهَبَ فَأَنْظُرَ قَالَ فَأَتَيْتُ مَکَّةَ فَتَضَعَّفْتُ رَجُلًا مِنْهُمْ فَقُلْتُ أَيْنَ هَذَا الَّذِي تَدْعُونَهُ الصَّابِئَ فَأَشَارَ إِلَيَّ فَقَالَ الصَّابِئَ فَمَالَ عَلَيَّ أَهْلُ الْوَادِي بِکُلٍّ مَدَرَةٍ وَعَظْمٍ حَتَّی خَرَرْتُ مَغْشِيًّا عَلَيَّ قَالَ فَارْتَفَعْتُ حِينَ ارْتَفَعْتُ کَأَنِّي نُصُبٌ أَحْمَرُ قَالَ فَأَتَيْتُ زَمْزَمَ فَغَسَلْتُ عَنِّي الدِّمَائَ وَشَرِبْتُ مِنْ مَائِهَا وَلَقَدْ لَبِثْتُ يَا ابْنَ أَخِي ثَلَاثِينَ بَيْنَ لَيْلَةٍ وَيَوْمٍ مَا کَانَ لِي طَعَامٌ إِلَّا مَائُ زَمْزَمَ فَسَمِنْتُ حَتَّی تَکَسَّرَتْ عُکَنُ بَطْنِي وَمَا وَجَدْتُ عَلَی کَبِدِي سُخْفَةَ جُوعٍ قَالَ فَبَيْنَا أَهْلِ مَکَّةَ فِي لَيْلَةٍ قَمْرَائَ إِضْحِيَانَ إِذْ ضُرِبَ عَلَی أَسْمِخَتِهِمْ فَمَا يَطُوفُ بِالْبَيْتِ أَحَدٌ وَامْرَأَتَيْنِ مِنْهُمْ تَدْعُوَانِ إِسَافًا وَنَائِلَةَ قَالَ فَأَتَتَا عَلَيَّ فِي طَوَافِهِمَا فَقُلْتُ أَنْکِحَا أَحَدَهُمَا الْأُخْرَی قَالَ فَمَا تَنَاهَتَا عَنْ قَوْلِهِمَا قَالَ فَأَتَتَا عَلَيَّ فَقُلْتُ هَنٌ مِثْلُ الْخَشَبَةِ غَيْرَ أَنِّي لَا أَکْنِي فَانْطَلَقَتَا تُوَلْوِلَانِ وَتَقُولَانِ لَوْ کَانَ هَاهُنَا أَحَدٌ مِنْ أَنْفَارِنَا قَالَ فَاسْتَقْبَلَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَکْرٍ وَهُمَا هَابِطَانِ قَالَ مَا لَکُمَا قَالَتَا الصَّابِئُ بَيْنَ الْکَعْبَةِ وَأَسْتَارِهَا قَالَ مَا قَالَ لَکُمَا قَالَتَا إِنَّهُ قَالَ لَنَا کَلِمَةً تَمْلَأُ الْفَمَ وَجَائَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّی اسْتَلَمَ الْحَجَرَ وَطَافَ بِالْبَيْتِ هُوَ وَصَاحِبُهُ ثُمَّ صَلَّی فَلَمَّا قَضَی صَلَاتَهُ قَالَ أَبُو ذَرٍّ فَکُنْتُ أَنَا أَوَّلَ مَنْ حَيَّاهُ بِتَحِيَّةِ الْإِسْلَامِ قَالَ فَقُلْتُ السَّلَامُ عَلَيْکَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ وَعَلَيْکَ وَرَحْمَةُ اللَّهِ ثُمَّ قَالَ مَنْ أَنْتَ قَالَ قُلْتُ مِنْ غِفَارٍ قَالَ فَأَهْوَی بِيَدِهِ فَوَضَعَ أَصَابِعَهُ عَلَی جَبْهَتِهِ فَقُلْتُ فِي نَفْسِي کَرِهَ أَنْ انْتَمَيْتُ إِلَی غِفَارٍ فَذَهَبْتُ آخُذُ بِيَدِهِ فَقَدَعَنِي صَاحِبُهُ وَکَانَ أَعْلَمَ بِهِ مِنِّي ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ ثُمَّ قَالَ مَتَی کُنْتَ هَاهُنَا قَالَ قُلْتُ قَدْ کُنْتُ هَاهُنَا مُنْذُ ثَلَاثِينَ بَيْنَ لَيْلَةٍ وَيَوْمٍ قَالَ فَمَنْ کَانَ يُطْعِمُکَ قَالَ قُلْتُ مَا کَانَ لِي طَعَامٌ إِلَّا مَائُ زَمْزَمَ فَسَمِنْتُ حَتَّی تَکَسَّرَتْ عُکَنُ بَطْنِي وَمَا أَجِدُ عَلَی کَبِدِي سُخْفَةَ جُوعٍ قَالَ إِنَّهَا مُبَارَکَةٌ إِنَّهَا طَعَامُ طُعْمٍ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ يَا رَسُولَ اللَّهِ ائْذَنْ لِي فِي طَعَامِهِ اللَّيْلَةَ فَانْطَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَکْرٍ وَانْطَلَقْتُ مَعَهُمَا فَفَتَحَ أَبُو بَکْرٍ بَابًا فَجَعَلَ يَقْبِضُ لَنَا مِنْ زَبِيبِ الطَّائِفِ وَکَانَ ذَلِکَ أَوَّلَ طَعَامٍ أَکَلْتُهُ بِهَا ثُمَّ غَبَرْتُ مَا غَبَرْتُ ثُمَّ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنَّهُ قَدْ وُجِّهَتْ لِي أَرْضٌ ذَاتُ نَخْلٍ لَا أُرَاهَا إِلَّا يَثْرِبَ فَهَلْ أَنْتَ مُبَلِّغٌ عَنِّي قَوْمَکَ عَسَی اللَّهُ أَنْ يَنْفَعَهُمْ بِکَ وَيَأْجُرَکَ فِيهِمْ فَأَتَيْتُ أُنَيْسًا فَقَالَ مَا صَنَعْتَ قُلْتُ صَنَعْتُ أَنِّي قَدْ أَسْلَمْتُ وَصَدَّقْتُ قَالَ مَا بِي رَغْبَةٌ عَنْ دِينِکَ فَإِنِّي قَدْ أَسْلَمْتُ وَصَدَّقْتُ فَأَتَيْنَا أُمَّنَا فَقَالَتْ مَا بِي رَغْبَةٌ عَنْ دِينِکُمَا فَإِنِّي قَدْ أَسْلَمْتُ وَصَدَّقْتُ فَاحْتَمَلْنَا حَتَّی أَتَيْنَا قَوْمَنَا غِفَارًا فَأَسْلَمَ نِصْفُهُمْ وَکَانَ يَؤُمُّهُمْ أَيْمَائُ بْنُ رَحَضَةَ الْغِفَارِيُّ وَکَانَ سَيِّدَهُمْ وَقَالَ نِصْفُهُمْ إِذَا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ أَسْلَمْنَا فَقَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ فَأَسْلَمَ نِصْفُهُمْ الْبَاقِي وَجَائَتْ أَسْلَمُ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِخْوَتُنَا نُسْلِمُ عَلَی الَّذِي أَسْلَمُوا عَلَيْهِ فَأَسْلَمُوا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غِفَارُ غَفَرَ اللَّهُ لَهَا وَأسْلَمُ سَالَمَهَا اللَّهُ-
ہداب بن خالد ازدی سلیمان بن مغیرہ حمید بن ہلال عبداللہ بن صامت حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم اپنی قوم غفار سے نکلے اور وہ حرمت والے مہینے کو بھی حلال جانتے تھے پس میں اور میرا بھائی انیس اور ہماری والدہ نکلے پس ہم اپنے ماموں کے ہاں اترے پس ہمارے ماموں نے اعزاز واکرام کیا اور خوب خاطر مدارت کی جس کی وجہ سے ان کی قوم نے ہم پر حسد کیا تو انہوں نے کہا کہ جب تو اپنے اہل سے نکل کر جاتا ہے تو انیس ان سے بدکاری کرتا ہے پس ہمارے ماموں آئے اور انہیں جو کچھ کہا گیا تھا وہ الزام ہم پر لگا میں نے کہا تو نے ہمارے ساتھ جو احسان و نیکی کی تھی اسے تو نے اس الزام کے وجہ سے خراب کردیا ہے پس اب اس کے بعد ہمارا آپ سے تعلق اور نبھاؤ نہیں ہو سکتا پس ہم اپنے اونٹوں کے قریب آئے اور ان پر اپنا سامان سوار کیا اور ہمارے ماموں نے کپڑا ڈال کر رونا شروع کردیا پس ہم چل پڑے یہاں تک کہ مکہ کے قریب پہنچے پس انیس نے ہمارے اونٹوں اور اتنے ہی اور اونٹوں پر شرط لگائی کہ کس کے اونٹ عمدہ ہیں پس وہ دونوں کاہن کے پاس گئے تو اس نے انہیں کے اونٹوں کو پسند کیا پس انیس ہمارے پاس ہمارے اونٹوں کو اور اتنے ہی اور اونٹوں کو لے کر آیا اور میں رسول اللہ سے ملاقات سے تین سال پہلے ہی اے میرے بھیجتے نماز پڑھا کرتا تھا حضرت عبداللہ بن صامت کہتے ہیں کہ میں نے کہا کس کی رضا کے لئے انہوں نے کہا اللہ کی رضا کے لئے میں نے کہا تو اپنا رخ کس طرف کرتا تھا انہوں نے کہا جہاں میرا رب رخ کر دیتا اسی طرف میں عشاء کی نماز ادا کرلیتا تھا یہاں تک کہ جب رات کا آخری حصہ ہوتا تو میں اپنے آپ کو اس طرح ڈال لیتا گویا کہ میں چادر ہی ہوں یہاں تک کہ سورج بلند ہو جاتا انیس نے کہا مجھے مکہ میں ایک کام ہے تو میرے معاملات کی دیکھ بھال کرنا پس انیس چلا یہاں تک کہ مکہ آیا اور کچھ عرصہ کے بعد واپس آیا تو میں نے کہا تو نے کیا کیا اس نے کہا میں مکہ میں ایک آدمی سے ملا جو تیرے دین پر ہے اور دعوی کرتا ہے کہ اللہ نے اسے رسول بنا کر بھیجا ہے میں نے کہا لوگ کیا کہتے ہیں اس نے کہا لوگ اسے شاعر کاہن اور جادوگر کہتے ہیں اور انیس خود شاعروں میں سے تھا انیس نے کہا میں کاہنوں کی باتیں سن چکا ہوں پس اس کا کلام کاہنوں جیسا نہیں ہے اور تحقیق میں نے اس کے اقوال کا شعراء کے اشعار سے بھی موزانہ کیا لیکن کسی شخص کی زبان پر ایسے شعر بھی مناسب نہیں۔ اللہ کی قسم وہ سچا ہے اور دوسرے لوگ جھوٹے ہیں میں نے کہا تم میرے معاملات کی نگرانی کرو یہاں تک کہ میں جاتا ہوں اور دیکھتا ہوں پس میں مکہ میں آیا اور ان میں سے ایک کمزور آدمی کو مل کر پوچھا کہ وہ کہاں ہے جسے تم صابی کہتے ہو پس اس نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا یہ دین بدلنے والا ہے پس وادی والوں میں سے ہر ایک سنتے ہی مجھ پر ڈھیلوں اور ہڈیوں کے ساتھ ٹوٹ پڑا یہاں تک کہ میں بے ہوش ہو کر گر پڑا پس جب میں بے ہوشی سے ہوش میں آ کر اٹھا تو میں گویا سرخ بت تھا میں زمزم کے پاس آیا اور اپنا خون دھویا پھر اس کا پانی پیا اور میں اے بھتیجے تین رات اور دن وہاں ٹھہرا رہا اور میرے لئے زمزم کے پانی کے سوا کوئی خوراک نہ تھی پس میں موٹا ہو گیا یہاں تک کہ میرے پیٹ کی سلوٹیں ختم ہو گئیں اور نہ ہی میں نے اپنے جگر میں بھوک کی وجہ سے گرمی محسوس کی پس اس دوران ایک چاند نی رات میں جب اہل مکہ سو گئے اور اس وقت کوئی بھی بیت اللہ کا طواف نہیں کرتا تھا اور ان میں سے دو عورتیں اساف اور نائلہ کو پکار رہی تھیں پس وہ جب اپنے طواف کے دوران میری طرف آئیں تو میں نے کہا ان میں سے ایک کا دوسرے کے ساتھ نکاح کر دو لیکن وہ اپنی بات سے باز نہیں آئیں پس جب وہ میرے قریب آئیں تو میں نے بغیر کنایہ اور اشارہ کے فلاں کہہ دیا کہ فلاں پس وہ چلاتی اور یہ کہتی ہوئی گئیں کہ اس وقت ہمارے لوگوں میں سے کوئی موجود ہوتا راستہ میں انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر پہاڑی سے اترتے ہوئے ملے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں کیا ہو گیا ہے انہوں نے کہا کعبہ اور اس کے پردوں کے درمیان ایک دین کو بدلنے والا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس نے کیا کہا ہے انہوں نے کہا اس نے ہمیں ایسی بات کہی ہے جو منہ کو بھر دیتی ہے پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے یہاں تک کہ حجر اسود کا بوسہ لیا اور بیت اللہ کا طواف کیا پھر نماز ادا کی حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں وہ پہلا آدمی ہوں جس نے اسلام کے طریقہ کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا میں نے کہا اے اللہ کے رسول آپ پر سلام ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو کون ہے میں نے عرض کیا میں قبیلہ غفار سے ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اٹھایا اور اپنی انگلیاں پیشانی پر رکھیں میں نے اپنے دل میں کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو میرا قبیلہ غفار سے ہونا ناپسند ہوا ہے پس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑنے کے لئے آگے بڑھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی نے مجھے پکڑ لیا اور وہ مجھ سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں واقفیت رکھتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر مبارک اٹھایا اور فرمایا تو یہاں کب سے ہے میں نے عرض کیا میں یہاں تین دن رات سے ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تجھے کھانا کون کھلاتا ہے میں نے عرض کیا میرے لئے زمزم کے پانی کے علاوہ کوئی کھانا نہیں ہے پس اس سے موٹا ہو گیا ہوں یہاں تک کہ میرے پیٹ کے بل مڑ گئے ہیں اور میں اپنے جگر میں بھوک کی وجہ سے گرمی بھی محسوس نہیں کرتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ پانی بابرکت ہے اور کھانے کی طرح پیٹ بھی بھر دیتا ہے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول مجھے اس کے رات کے کھانے کی اجازت دے دیں پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر چلے اور میں بھی ان کے ساتھ ساتھ چلا پس ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دروازہ کھولا اور میرے لئے طائف کی کشمش نکالنے لگے اور یہ میرا پہلا کھانا تھا جو میں نے مکہ میں کھایا پھر میں رہا جب تک رہا پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے کھجوروں والی زمین دکھائی گئی ہے اور میرا خیال ہے کہ وہ یثرب کے علاوہ کوئی اور علاقہ نہیں ہے کیا تو میری طرف سے اپنی قوم کو تبلیغ کرے گا عنقریب اللہ انہیں تیری وجہ سے فائدہ عطا کرے گا اور تمہیں ثواب عطا کیا جائے گا پھر میں انیس کے پاس آیا تو اس نے کہا تونے کیا کیا میں نے کہا میں اسلام قبول کر چکا ہوں اور تصدیق کر چکا ہوں اس نے کہا مجھے بھی تجھ سے نفرت نہیں ہے میں بھی اسلام قبول کرتا ہوں اور تصدیق کرتا ہوں پھر ہم اپنی والدہ کے پاس گئے تو اس نے کہا مجھے تم دونوں کے دین سے نفرت نہیں میں بھی اسلام قبول کرتی اور تصدیق کرتی ہوں پھر ہم نے اپنا سامان لادا اور اپنی قوم غفار کے پاس آئے تو ان میں سے آدھے لوگ مسلمان ہو گئے اور ان کی امامت ان کے سرادر ایماء بن رحضہ انصاری کراتے تھے اور باقی آدھے لوگوں نے کہا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائیں گے تو ہم مسلمان ہو جائیں گے پس جب رسول اللہ مدینہ تشریف لائے تو باقی آدھے لوگ بھی مسلمان ہو گئے اور قبیلہ اسلام کے لوگ بھی حاضر ہوئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ہم بھی اس بات پر اسلام قبول کرتے ہیں جس پر ہمارے بھائی مسلمان ہوئے ہیں پس وہ بھی مسلمان ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قبیلہ غفار کو اللہ نے معاف فرما دیا اور قبیلہ کی اللہ نے حفاظت کی (قتل اور قید سے)
'Abdullah b. Samit reported that Abu Dharr said: We set out from our tribe Ghafir who look upon the prohibited months as permissible months. I and my brother Unais and our mother stayed with our maternal uncle who treated us well. The men of his tribe fell jealous and they said: When you are anay from your house, Unais commits adultery with your wife. Our -naternal uncle came and he accused us of the sin which was conveyed to him. I said: You have undone the good you did to us. We cannot stay with you after this. We came to our camels and loaded (our) luggage. Our maternal uncle began to weep covering himself with (a piece of) cloth. We proceeded on until we encamped by the side of Mecca. Unais cast lot on the camels (we had) and an equal number (above that). They both went to a Kahin and he made Unais win and Unais came with our camels and an equal number along with them. He (Abu Dharr) said: My nephew, I used to observe prayer three years before my meeting with Allah's Messenger (may peace be upon him). I said: For whom did you say prayer? He said: For Allah. I said: To which direction did you turn your face (for observing prayer)? He said: I used to turn my face as Allah has directed me to turn my face. I used to observe the night prayer at the time of the end of night and I fell down in prostration like the mantle until the sun rose over me. Unais said: I have a work in Mecca, so you better stay here. Unais went until he came to Mecca and he came to me late. I said: What did you do? He said: I met a person in Mecca who is on your religion and he claims that verily it is Allah Who has sent him. I said: What do the people say about him? He said: They say that he is a poet or a Kahin or a magician. Unais who was himself one of the poets said. I have heard the words of a Kahin but his words in no way resemble his (words). And 1 also compared his words to the verses of poets but such words cannot be uttered by any poet. By Allah, he is truthful and they are liars. Then I said: you stay here, until I go, so that I should see him. He said: I came to Mecca and I selected an insignificant person from amongst them and said to him: Where is he whom you call as-Sabi? He pointed out towards me saying: He is Sabi. Thereupon the people of the valley attacked me with sods and bows until I fell down unconscious. I stood up after havin. regained my consciousness and I found as if I was a red idol. I came to Zamzarn and washed blood from me and drank water from it and listen, O son of my brother, I stayed there for thirty nights or days and there was no food for me but the water of Zamzarn. And I became so bulky that there appeared wrinkles upon my stomach, and I did not feel any hunger in my stomach. It was during this time that the people of Mecca slept in the moonlit night and none was there to eircumambulate the House but only two women who had been invoking the name of Isafa, and Na'ila (the two idols). They came to me while in their circuit and I said: Marry one with the other, but they did not dissuade from their invoking. They came to me and I said to them: Insert wood (in the idols' private parts). (I said this to them in such plain words) as I could not express in metaphorical terms. These women went away crying and saying: Had there been one amongst our people (he would have taught a lesson to you for the obscene words used for our idols before us). These women met Allah's Messenger (may peace be upon him) and Abu Bakr who had also been coming down the hill. He asked them: What has happened to you? They said: There is Sabi, who has hidden himself between the Ka'ba and its curtain. He said: What did he say to you? They said: He uttered such words before us as we cannot express. Allah's Messenger (may peace be upon him) came and he kissed the Black Stone and circumambulated the House along with his Companion and then observed prayer, and when he had finished his prayer, Abu Dharr said: I was the first to greet him with the salutation of peace and uttered (these words) in this way; Allah's Messen- ger, may there be peace upon you, whereupon he said: It may be upon you too and the mercy of Allah. He then said: Who are you? I said: From the tribe of Ghifar. He leaned his hand and placed his finger on his forehead and I said to myself: Perhaps he has not liked it that I belong to the tribe of Ghifar. I attempted to catch hold of his hand but his friend who knew about him more than I dissuaded me f rom doing so. He then lifted his head and said: Since how long have you been here? I said: I have been here for the last thirty nights or days. He said: Who has been feeding you? I said: There has been no food for me but the water of Zamzam. I have grown so bulky that there appear wrinkles upon my stomach and I do not feel any hunger. He said: It is blessed (water) and it also serves as food. Thereupon Abu Bakr said: Allah's Messenger, let me serve as a host to him for tonight, and then Allah's Messenger (may peace be upon him) proceeded forth and so did Abu Bakr and I went along with them. Abu Bakr opened the door and then he brought for us the raisins of Ta'if and that was the first food which I ate there. Then I stayed as long as I had to stay. I then came to Allah's Messenaer (may peace be upon him) and he said: I have been shown the land abound- ing in trees and I think it cannot be but that of Yathrib (that is the old name of Medina). You are a preacher to your people on my behalf. I hope Allah would benefit them through you and He would reward you. I came to Unais and he said: What have you done? I said: I have done that I have embraced Islam and I have testified (to the prophethood of Allah's Messenger). He said: I have no aversion for your religion and I also embrace Islam and testify (to the prophethood of Muhammad). Then both of us came to our mother and she said: I have no aversion for your religion and I also embrace Islam and testify to the prophethood of Muhammad. We then loaded our camels and came to our tribe Ghifir and half of the tribe embraced Islam and their chief was Aimi' b. Rahada Ghifirl and he was their leader and hall of the tribe said: We will embrace Islam when Allah's Messenger (may p,. ace be upon him) would come to Medina, and when Allah's Messenger (may peace be upon him) came to Medina the remaining half also embraced Islam. Then a tribe Aslam came to the Holy Prophet (may peace be upon him) and said: Allah's Messenger, we also embrace Islam like our brothers who have embraced Islam. And they also embraced Islam. Thereupon Allah's Messenger (may peace be upon him) said: Allah granted pardon to the tribe of Ghifar and Allah saved (from destruction) the tribe of Aslam.
حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ أَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ هِلَالٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ وَزَادَ بَعْدَ قَوْلِهِ قُلْتُ فَاکْفِنِي حَتَّی أَذْهَبَ فَأَنْظُرَ قَالَ نَعَمْ وَکُنْ عَلَی حَذَرٍ مِنْ أَهْلِ مَکَّةَ فَإِنَّهُمْ قَدْ شَنِفُوا لَهُ وَتَجَهَّمُوا-
اسحاق بن ابراہیم حنظلی، نضر بن شمیل سلیمان بن مغیرہ حمید بن ہلال اس سند سے بھی یہ حدیث مروی ہے لیکن اس میں یہ اضافہ ہے کہ حضرت ابوذر نے بیان کیا کہ میں نے کہا تم میرے معاملات کی نگرانی کرو یہاں تک کہ میں جا کر دیکھ آؤں انیس نے کہا جی ہاں جاؤ لیکن اہل مکہ سے بچتے رہنا کیونکہ وہ اس آدمی کے دشمن ہیں اور برے طریقوں سے لڑتے ہیں۔
This hadlth has been narrated on the authority of Humaid b. Hilal with the same chain of transmitters but with this addition:" As I came to Mecca, Unais said: (Well), go but be on your guard against the Meccans for they are his enemies and are annoyed with him."
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی الْعَنَزِيُّ حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ قَالَ أَنْبَأَنَا ابْنُ عَوْنٍ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ قَالَ أَبُو ذَرٍّ يَا ابْنَ أَخِي صَلَّيْتُ سَنَتَيْنِ قَبْلَ مَبْعَثِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قُلْتُ فَأَيْنَ کُنْتَ تَوَجَّهُ قَالَ حَيْثُ وَجَّهَنِيَ اللَّهُ وَاقْتَصَّ الْحَدِيثَ بِنَحْوِ حَدِيثِ سُلَيْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ وَقَالَ فِي الْحَدِيثِ فَتَنَافَرَا إِلَی رَجُلٍ مِنْ الْکُهَّانِ قَالَ فَلَمْ يَزَلْ أَخِي أُنَيْسٌ يَمْدَحُهُ حَتَّی غَلَبَهُ قَالَ فَأَخَذْنَا صِرْمَتَهُ فَضَمَمْنَاهَا إِلَی صِرْمَتِنَا وَقَالَ أَيْضًا فِي حَدِيثِهِ قَالَ فَجَائَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَطَافَ بِالْبَيْتِ وَصَلَّی رَکْعَتَيْنِ خَلْفَ الْمَقَامِ قَالَ فَأَتَيْتُهُ فَإِنِّي لَأَوَّلُ النَّاسِ حَيَّاهُ بِتَحِيَّةِ الْإِسْلَامِ قَالَ قُلْتُ السَّلَامُ عَلَيْکَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ وَعَلَيْکَ السَّلَامُ مَنْ أَنْتَ وَفِي حَدِيثِهِ أَيْضًا فَقَالَ مُنْذُ کَمْ أَنْتَ هَاهُنَا قَالَ قُلْتُ مُنْذُ خَمْسَ عَشَرَةَ وَفِيهِ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ أَتْحِفْنِي بِضِيَافَتِهِ اللَّيْلَةَ-
محمد بن مثنی عنزی ابن ابی عدی، ابن عون حمید بن ہلال حضرت عبداللہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اے بھیجتے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے دو سال پہلے نماز پڑھا کرتا تھا میں نے کہا تو اپنا رخ کس طرف کرتا تھا انہوں نے کہا جہاں اللہ تعالیٰ میرا رخ فرما دیا کرتے باقی حدیث گزر چکی اس میں یہ اضافہ ہے کہ وہ دونوں کاہنوں میں سے ایک آدمی کے پاس گئے اور میرا بھائی برابر اس کی تعریف کرتا رہا یہاں تک کہ اس پر غالب آ گیا پس ہم نے اس سے اونٹ لے لیا اور انہیں اپنے اونٹوں کے ساتھ ملا لیا اس حدیث میں اضافہ بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور بیت اللہ کا طواف کیا اور مقام ابراہیم کے پیچھ دو رکعتیں ادا کیں پس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور میں لوگوں میں سب سے پہلے ہوں جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسلام کے مطابق سلام کیا میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلامتی ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تجھ پر بھی سلامتی ہوں تو کون ہے اور یہ بھی اضافہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم کب سے یہاں ہو میں نے عرض کیا پندرہ دن سے اور مزید یہ ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا انہیں رات کی مہمان نوازی کے لئے میرے ساتھ کر دیں۔
Abdullah b. Samit reported that Abu Dharr said: Son of my brother, I used to observe prayer two years before the advent of Allah's Apostle (may peace be upon him). I said: To which direction did you turn your face? He said: To which Allah directed me to turn my face. The rest of the hadith is the same but with this addition that they went to a Kahin and his brother Unais began to praise him until he (in verses declared) him (Unais) as winner (in the contest of poetry), and so we got his camels, mixed them with our camels, and there is in this hadith also these words that Allah's Apostle (may peace be upon him) came there and he circumambulated the House and observed two Rak'ahs of prayer behind the Station (of Ibrahim). I came to him and I was the first amongst persons to greet him with Assalam-o-'Alaikum, and I said to Allah's Messenger Let there be peace upon you. And he said: Let there be peace upon you too; who are you? And in the hadith (these words are) also found: Since how long have you been here? And Abu Bakr said: Let him be my guest tonight.
و حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَرْعَرَةَ السَّامِيُّ وَمُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ وَتَقَارَبَا فِي سِيَاقِ الْحَدِيثِ وَاللَّفْظُ لِابْنِ حَاتِمٍ قَالَا حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ حَدَّثَنَا الْمُثَنَّی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ أَبِي جَمْرَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ لَمَّا بَلَغَ أَبَا ذَرٍّ مَبْعَثُ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَکَّةَ قَالَ لِأَخِيهِ ارْکَبْ إِلَی هَذَا الْوَادِي فَاعْلَمْ لِي عِلْمَ هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ يَأْتِيهِ الْخَبَرُ مِنْ السَّمَائِ فَاسْمَعْ مِنْ قَوْلِهِ ثُمَّ ائْتِنِي فَانْطَلَقَ الْآخَرُ حَتَّی قَدِمَ مَکَّةَ وَسَمِعَ مِنْ قَوْلِهِ ثُمَّ رَجَعَ إِلَی أَبِي ذَرٍّ فَقَالَ رَأَيْتُهُ يَأْمُرُ بِمَکَارِمِ الْأَخْلَاقِ وَکَلَامًا مَا هُوَ بِالشِّعْرِ فَقَالَ مَا شَفَيْتَنِي فِيمَا أَرَدْتُ فَتَزَوَّدَ وَحَمَلَ شَنَّةً لَهُ فِيهَا مَائٌ حَتَّی قَدِمَ مَکَّةَ فَأَتَی الْمَسْجِدَ فَالْتَمَسَ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا يَعْرِفُهُ وَکَرِهَ أَنْ يَسْأَلَ عَنْهُ حَتَّی أَدْرَکَهُ يَعْنِي اللَّيْلَ فَاضْطَجَعَ فَرَآهُ عَلِيٌّ فَعَرَفَ أَنَّهُ غَرِيبٌ فَلَمَّا رَآهُ تَبِعَهُ فَلَمْ يَسْأَلْ وَاحِدٌ مِنْهُمَا صَاحِبَهُ عَنْ شَيْئٍ حَتَّی أَصْبَحَ ثُمَّ احْتَمَلَ قِرْبَتَهُ وَزَادَهُ إِلَی الْمَسْجِدِ فَظَلَّ ذَلِکَ الْيَوْمَ وَلَا يَرَی النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّی أَمْسَی فَعَادَ إِلَی مَضْجَعِهِ فَمَرَّ بِهِ عَلِيٌّ فَقَالَ مَا أَنَی لِلرَّجُلِ أَنْ يَعْلَمَ مَنْزِلَهُ فَأَقَامَهُ فَذَهَبَ بِهِ مَعَهُ وَلَا يَسْأَلُ وَاحِدٌ مِنْهُمَا صَاحِبَهُ عَنْ شَيْئٍ حَتَّی إِذَا کَانَ يَوْمُ الثَّالِثِ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِکَ فَأَقَامَهُ عَلِيٌّ مَعَهُ ثُمَّ قَالَ لَهُ أَلَا تُحَدِّثُنِي مَا الَّذِي أَقْدَمَکَ هَذَا الْبَلَدَ قَالَ إِنْ أَعْطَيْتَنِي عَهْدًا وَمِيثَاقًا لَتُرْشِدَنِّي فَعَلْتُ فَفَعَلَ فَأَخْبَرَهُ فَقَالَ فَإِنَّهُ حَقٌّ وَهُوَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا أَصْبَحْتَ فَاتَّبِعْنِي فَإِنِّي إِنْ رَأَيْتُ شَيْئًا أَخَافُ عَلَيْکَ قُمْتُ کَأَنِّي أُرِيقُ الْمَائَ فَإِنْ مَضَيْتُ فَاتَّبِعْنِي حَتَّی تَدْخُلَ مَدْخَلِي فَفَعَلَ فَانْطَلَقَ يَقْفُوهُ حَتَّی دَخَلَ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَدَخَلَ مَعَهُ فَسَمِعَ مِنْ قَوْلِهِ وَأَسْلَمَ مَکَانَهُ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ارْجِعْ إِلَی قَوْمِکَ فَأَخْبِرْهُمْ حَتَّی يَأْتِيَکَ أَمْرِي فَقَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَأَصْرُخَنَّ بِهَا بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِمْ فَخَرَجَ حَتَّی أَتَی الْمَسْجِدَ فَنَادَی بِأَعْلَی صَوْتِهِ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ وَثَارَ الْقَوْمُ فَضَرَبُوهُ حَتَّی أَضْجَعُوهُ فَأَتَی الْعَبَّاسُ فَأَکَبَّ عَلَيْهِ فَقَالَ وَيْلَکُمْ أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنَّهُ مِنْ غِفَارٍ وَأَنَّ طَرِيقَ تُجَّارِکُمْ إِلَی الشَّامِ عَلَيْهِمْ فَأَنْقَذَهُ مِنْهُمْ ثُمَّ عَادَ مِنْ الْغَدِ بِمِثْلِهَا وَثَارُوا إِلَيْهِ فَضَرَبُوهُ فَأَکَبَّ عَلَيْهِ الْعَبَّاسُ فَأَنْقَذَهُ-
ابرہیم بن محمد بن عرعرہ سامی محمد بن حاتم، ابن حاتم عبدالرحمن بن مہدی، مثنی بن سعد ابی جمرہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی خبر پہنچی تو انہوں نے اپنے بھائی سے کہا اس وادی کے طرف سوار ہو کر جاؤ اور میرے لئے اس آدمی کے بارے میں معلومات لے کر آؤ جو دعوی کرتا ہے کہ اس کے پاس آسمان سے خبریں آتی ہیں اور اس کی گفتگو سن کر میرے پاس واپس آ وہ چلے یہاں تک کہ مکہ مکرمہ پہنچ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سنی پھر حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف لوٹے اور کہا میں نے انہیں عمدہ اخلاق کا حکم دیتے دیکھا ہے اور گفتگو ایسی ہے جو شعر نہیں ہے تو ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا جس چیز کا میں نے ارادہ کیا تھا تم اس کی تسلی بخش جواب نہیں لائے ہو پھر انہوں نے زاد راہ لیا اور ایک مشکیزہ جس میں پانی تھا لادا یہاں تک کہ مکہ پہنچ گئے مسجد میں پہنچے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈھونڈنا شروع کر دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانتے نہ تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پوچھنا مناسب نہ سمجھا یہاں تک کہ رات ہوگئی اور لیٹ گئے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انہیں دیکھا تو اندازہ لگا کہ یہ مسافر ہے پس وہ انہیں دیکھنے ان کے پیچھے گئے اور ان دونوں میں سے کسی ایک نے بھی اپنے ساتھ سے کوئی گفتگو نہ کی یہاں تک کہ صبح ہوگئی انہوں نے پھر اپنی مسک اور زاد راہ اٹھایا اور مسجد کی طرف چل دئیے پس یہ دن بھی اسی طرح گزر گیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ نہ سکے یہاں تک کہ شام ہوگئی اور اپنے ٹھکانے کی طرف لوٹے پس علی ان کے پاس سے گزرے تو کہا اس آدمی کو ابھی تک اپنی منزل کا علم نہیں ہو سکا پس انہیں اٹھایا اور اپنے ساتھ لے گئے اور ان دونوں میں سے کسی ایک نے بھی اپنے ساتھ سے کسی چیز کے بارے میں نہ پوچھا یہاں تک کہ تیسرے دن بھی اسی طرح ہوا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ انہیں اٹھا کر اپنے ساتھ لے گئے اور ان سے کہا کیا تم مجھے بتاؤ گے نہیں کہ تم اس شہر میں کس غرض سے آئے ہو ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اگر تم مجھ سے پختہ وعدہ کرو کہ تم میری صحیح راہنمائی کرو گے تو میں بتا دیتا ہوں پس حضرت علی نے وعدہ کر لیا حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا مقصد بیان کیا تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سچے اور اللہ کے رسول ہیں جب صبح ہوئی تو تم میرے ساتھ چلنا اگر میں نے تمہارے بارے میں کوئی خطرہ محسوس کیا تو میں کھڑا ہو جاؤں گا گویا کہ میں پانی بہا رہا ہوں اور اگر میں چلتا رہا تو تم میری اتباع کرنا یہاں تک کہ جہاں میں داخل ہوں تم بھی داخل ہو جانا پس انہوں نے ایسا ہی کیا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پیچھے پیچھے چلتے رہے یہاں تک کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو سنی اور اسی جگہ اسلام قبول کر لیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا اپنی قوم کی طرف لوٹ جا اور انہیں اس تبلیغ کر یہاں تک کہ تیرے پاس میرا حکم پہنچ جائے ابوذر نے عرض کیا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ و قدرت میں میری جان ہے میں تو یہ بات مکہ والوں کے سامنے پکار کر کروں گا پس وہ نکلے یہاں تک کہ مسجد میں آئے اور اپنی بلند آواز سے کہا (أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ) میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوائے کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور قوم ان پر ٹوٹ پڑی انہیں مارنا شروع کر دیا یہاں تک کہ انہیں لٹا دیا پس حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے اور ان پر جھک گئے اور کہا تمہارے لئے افسوس ہے کیا تم جانتے نہیں ہو کہ یہ قبیلہ غفار سے ہیں اور تمہاری شام کی طرف تجارت کا راستہ ان کے پاس سے گزرتا ہے پھر ابوذر کو ان سے چھڑا لیا انہوں نے اگلی صبح پھر اسی جملہ کو دہرایا اور مشرکین ان پر ٹوٹ پڑے اور مارنا شروع کر دیا حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان پر جھک کر انہیں بچایا اور چھڑا کر لے گئے۔
Ibn 'Abbas reported that when Abu Dharr heard of the advent of the Apostle (may peace be upon him) in Mecca he said: Brother, ride in this valley and bring information for me about the person who claims that there comes to him information from the Heavens. Listen to his words and then come to me. So he rode on until he came to Mecca and he heard his words (the sacred words of the Holy Prophet) and then came back to Abu Dharr and said: I have seen him exhorting (people) to develop good morals and his expressions can in no way be termed as poetry. He (Abu Dharr) said: I have not been satisfied with it regarding that which I had in my mind (as I sent you). So he took up provisions for the journey and a small water-skin con- taining water (and set forth) until he came to Mecca. He came to the mosque (Ka'ba) and began to find out Allah's Apostle (may peace be upon him) and he did not re- cognise him (the Holy Prophet) and he did not even like that he should ask about him from anyone until it was night, and he slept. 'All saw him and found him to be a stranger. So he went with him. He followed hive but one did not make any inquiry from the other about anything until it was morning. He then brought the water and his provisions to the mosque and spent a day there, but he did not see Allah's Apostle (may peace be upon him) until it was night. He then returned to his bed that there happened to pass 'Ali and he said: This man has not been able to find his destination until this time. He made him stand and he went with him and no one made an in- quiry from his companion about anything. And when it was the third day he did the same. 'Ali made him stand up and brought him along with him. He said: By Him, besides Whom there is no god, why don't you tell me (the reason) which brought you here to this town? He said: (I shall do this) provided you hold me promise and a covenant that you would guide me aright. He then did that. He ('Ali) said: Verily, he Is truthful and he is a Messenger of Allah (may peace be upon him) and when it is morning, follow me and if I would say anything from which I would sense fear about you I would stand (in a manner) as if I was throwing water and if I move on, you then follow me until I get in (some house). He did that and I followed him until he came to Allah's Messenger (may peace be upon him). He entered (the house) of Allah's Apostle (may peace be upon him) along with him and listened to his words and embraced Islam at his very place. Allah's Apostle (may peace be upon him) said to him: Go to your people and inform them until my command reaches you. Thereupon he said: By Him in Whose Hand is my life, I shall say to the people of Mecca this thing at the top of my voice So he set forth until he came to the mosque and then spoke at the top of his voice (saying): I bear testimony to the fact that there is no god but Allah and that Muhammad is the Messenger of Allah. The people attacked him and made him fall down when 'Abbas came and he leaned over him and said: Woe be upon you, don't you know that he is from amongst the tribe of Ghifar and your trad- ing route to Syria passes through (the settlements of this tribe), and he rescued him. He (Abu Dharr) did the same on the next day and they (the Meccans) again attacked him and Abbas leaned upon him and he rescued him.