ابن صیاد کے تذکرے کے بیان میں

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَإِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ وَاللَّفْظُ لِعُثْمَانَ قَالَ إِسْحَقُ أَخْبَرَنَا و قَالَ عُثْمَانُ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ کُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَرَرْنَا بِصِبْيَانٍ فِيهِمْ ابْنُ صَيَّادٍ فَفَرَّ الصِّبْيَانُ وَجَلَسَ ابْنُ صَيَّادٍ فَکَأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَرِهَ ذَلِکَ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَرِبَتْ يَدَاکَ أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ فَقَالَ لَا بَلْ تَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ذَرْنِي يَا رَسُولَ اللَّهِ حَتَّی أَقْتُلَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنْ يَکُنْ الَّذِي تَرَی فَلَنْ تَسْتَطِيعَ قَتْلَهُ-
عثمان بن ابی شیبہ اسحاق بن ابراہیم، عثمان اسحاق عثمان جریر، اعمش، ابووائل حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ چند بچوں کے پاس سے گزرے ان میں ابن صیاد بھی تھا پس بچے بھاگ گئے اور ابن صیاد بیٹھا رہا تو گویا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو پسند نہ کیا تو رسول اللہ نے اس سے فرمایا تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں اس نے کہا نہیں بلکہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم گواہی دیں گے کہ میں اللہ کا رسول ہوں عمر بن خطاب نے عرض کیا اے اللہ کے رسول مجھے اجازت دیں کہ میں اسے قتل کر دوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر یہ وہی ہو جس کے بارے میں تمہارا گمان ہے تو تم اسے قتل کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔
'Abdullah reported: We were along with Allah's Messenger (may peace be upon him) that we happened to pass by children amongst whom there was Ibn Sayyad. The children made their way but Ibn Sayyad kept sitting there (and it seemed) as if Allah's Messenger (may peace be upon him) did not like it (his sitting with the children) and said to him: May your nose he besmeared with dust, don't you bear testimony to the fact that I am the Messenger of Allah? Thereupon he said: No, but you should bear testimony that I am the messenger of Allah. Thereupon 'Umar b. Khattab said: Allah's Messenger, permit me that I should kill him. Thereupon Allah's Messenger (may peace be upon him) said: If he is that person who is in your mind (Dajjal ), you will not be able to kill him.
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ وَإِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ وَأَبُو کُرَيْبٍ وَاللَّفْظُ لِأَبِي کُرَيْبٍ قَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ حَدَّثَنَا و قَالَ الْآخَرَانِ أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ شَقِيقٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ کُنَّا نَمْشِي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَرَّ بِابْنِ صَيَّادٍ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ خَبَأْتُ لَکَ خَبِيئًا فَقَالَ دُخٌّ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اخْسَأْ فَلَنْ تَعْدُوَ قَدْرَکَ فَقَالَ عُمَرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ دَعْنِي فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعْهُ فَإِنْ يَکُنْ الَّذِي تَخَافُ لَنْ تَسْتَطِيعَ قَتْلَهُ-
محمد بن عبداللہ بن نمیر، اسحاق بن ابراہیم، ابی کریب ابن نمیر، ابومعاویہ اعمش، شقیق حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ پیدل چل رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابن صیاد کے پاس سے گزرے تو رسول اللہ نے اس سے فرمایا میں نے تیرے لئے ایک بات چھپائی ہوئی ہے؟ بتا وہ کیا ہے؟ اس نے کہا دخ ہے رسول اللہ نے فرمایا دور ہو جا اور تو اپنے اندازے سے تجاوز نہیں کر سکتا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول مجھے اجازت دیں تاکہ میں اس کی گردن مار دوں رسول اللہ نے فرمایا اسے چھوڑ دو پس اگر یہ وہی ہے جس کا تمہیں خدشہ ہے تو تم اس کو قتل کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔
'Abdullah reported: We were walking with Allah's Messenger (may peace be upon him) that Ibn Sayyad happened to pass by him. Allah's Messenger (may peace be upon him) said to him: I have concealed for you (something to test you, so tell me that). He said: It is Dukh. Thereupon Allah's Messenger (may peace be upon him) said to him: Be off. You cannot get farther than your rank, whereupon 'Umar said: Allah's Messenger, permit me to strike his neck. Thereupon Allah's Messenger (may peace be upon him) said: Leave him; if he is that one (Dajjal) whom you apprehend, you will not be able to kill him.
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا سَالِمُ بْنُ نُوحٍ عَنْ الْجُرَيْرِيِّ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ لَقِيَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ فِي بَعْضِ طُرُقِ الْمَدِينَةِ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ فَقَالَ هُوَ أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آمَنْتُ بِاللَّهِ وَمَلَائِکَتِهِ وَکُتُبِهِ مَا تَرَی قَالَ أَرَی عَرْشًا عَلَی الْمَائِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَرَی عَرْشَ إِبْلِيسَ عَلَی الْبَحْرِ وَمَا تَرَی قَالَ أَرَی صَادِقَيْنِ وَکَاذِبًا أَوْ کَاذِبَيْنِ وَصَادِقًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لُبِسَ عَلَيْهِ دَعُوهُ-
محمد بن مثنی، سالم بن نوح جریر، ابی نضرہ حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ مدینہ کے راستوں میں سے کسی راستہ میں ابن صیاد سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ملاقات ہوگئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں اس نے کہا کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم گواہی دیتیہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں ایمان لایا اللہ پر اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر۔ تو نے کیا دیکھا اس نے کہا میں نے پانی پر تخت دیکھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو نے سمندر پر ابلیس کا تخت دیکھا ہے اور کیا دیکھا اس نے کہا میں نے دو سچوں اور ایک جھوٹے یا دو جھوٹوں اور ایک سچے کو دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس پر اس کا معاملہ مشتبہ ہوگیا ہے اس لئے اسے چھوڑ دو۔
Abu Sa'id reported that Allah's Messenger (may peace be upon him) met him (Ibn Sayyad) and so did Abu Bakr and 'Umar on some of the roads of Medina. Allah's Messenger (may peace be upon him) said: Do you bear testimony to the fact that I am the Messenger of Allah? Thereupon he said: Do you bear testimony to the fact that I am the messenger of Allah? Thereupon Allah's Messenger (may peace be upon him) said: I affirm my faith in Allah and in His Angels and in His Books, and what do you see? He said: I see the throne over water. Whereupon Allah's Messenger (may peace be upon him) said: You see the throne of Iblis upon the water, and what else do you see? He said: I see two truthful ones and a liar or two liars and one truthful. Thereupon Allah's Messenger (may peace be upon him) said: Leave him He has been confounded.
حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ حَبِيبٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی قَالَا حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ قَالَ سَمِعْتُ أَبِي قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو نَضْرَةَ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ لَقِيَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ابْنَ صَائِدٍ وَمَعَهُ أَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ وَابْنُ صَائِدٍ مَعَ الْغِلْمَانِ فَذَکَرَ نَحْوَ حَدِيثِ الْجُرَيْرِيِّ-
یحیی بن حبیب، محمد بن عبدالاعلی معتمر ابونضرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ابن صائد سے ملے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ابوبکر وعمر بھی تھے اور ابن صائد کے ساتھ لڑکے تھے باقی حدیث جریری کی حدیث ہی کی طرح ہے۔
Jabir b 'Abdullah reported that Allah's Messenger (may peace be upon him) met Ibn Sa'id (Sayyad) and there were with him Abu Bakr and 'Umar and Ibn Sayyad was in the company of children. The rest of the hadith is the same.
حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی قَالَا حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَی حَدَّثَنَا دَاوُدُ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ صَحِبْتُ ابْنَ صَائِدٍ إِلَی مَکَّةَ فَقَالَ لِي أَمَا قَدْ لَقِيتُ مِنْ النَّاسِ يَزْعُمُونَ أَنِّي الدَّجَّالُ أَلَسْتَ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّهُ لَا يُولَدُ لَهُ قَالَ قُلْتُ بَلَی قَالَ فَقَدْ وُلِدَ لِي أَوَلَيْسَ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا يَدْخُلُ الْمَدِينَةَ وَلَا مَکَّةَ قُلْتُ بَلَی قَالَ فَقَدْ وُلِدْتُ بِالْمَدِينَةِ وَهَذَا أَنَا أُرِيدُ مَکَّةَ قَالَ ثُمَّ قَالَ لِي فِي آخِرِ قَوْلِهِ أَمَا وَاللَّهِ إِنِّي لَأَعْلَمُ مَوْلِدَهُ وَمَکَانَهُ وَأَيْنَ هُوَ قَالَ فَلَبَسَنِي-
عبیداللہ بن عمر قواریری محمد بن مثنی، عبدالاعلی داؤد ابی نضرہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں مکہ میں ابن صائد کے ساتھ رہا تو اس نے مجھے کہا میں جن لوگوں سے ملا ہوں وہ گمان کرتے ہیں کہ میں دجال ہوں کیا تو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ دجال کی کوئی اولاد نہ ہوگی میں نے کہا کیوں نہیں اس نے کہا حالانکہ میری تو اولاد ہے پھر اس نے کہا کیا تو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا کہ وہ مکہ اور مدینہ میں داخل نہیں ہوسکے گا میں نے کہا کیوں نہیں اس نے کہا میں تو مدینہ میں پیدا ہوچکا ہوں اور یہ کہ میں اب مکہ کا ارادہ کرتا ہوں پھر اس نے اپنی آخری بات میں مجھے کہا اللہ کی قسم میں دجال کے پیدا ہونے اور اس کے رہنے اور اس کے رہنے کی جگہ کو اور اس وقت وہ کہاں ہے جانتا ہوں اس اخیری کلام نے معاملہ کو مجھ پر مشتبہ کردیا۔
Abu Sa'id reported: I accompanied Ibn Sayyad to Mecca and he said to me: What I have gathered from people is that they think that I am Dajjal. Have you not heard Allah's Messenger (may peace upon him) as saying: He will have no children, I said: Yes, of course. Thereupon he said: But I have children. Have you not heard Allah's Messenger (may peace be upon him) as saying: He would not enter Mecca and Medina? I said: Yes, of course. Thereupon he said I have been once in Medina and now I intend to go to Mecca. And he said to me at the end of his talk: By Allah: I know his place of birth his abode where he is just now. He (Abu Sa'id) said: This caused confusion in my mind (in regard to his identity).
حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ حَبِيبٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی قَالَا حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ قَالَ سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ قَالَ لِي ابْنُ صَائِدٍ وَأَخَذَتْنِي مِنْهُ ذَمَامَةٌ هَذَا عَذَرْتُ النَّاسَ مَا لِي وَلَکُمْ يَا أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ أَلَمْ يَقُلْ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّهُ يَهُودِيٌّ وَقَدْ أَسْلَمْتُ قَالَ وَلَا يُولَدُ لَهُ وَقَدْ وُلِدَ لِي وَقَالَ إِنَّ اللَّهَ قَدْ حَرَّمَ عَلَيْهِ مَکَّةَ وَقَدْ حَجَجْتُ قَالَ فَمَا زَالَ حَتَّی کَادَ أَنْ يَأْخُذَ فِيَّ قَوْلُهُ قَالَ فَقَالَ لَهُ أَمَا وَاللَّهِ إِنِّي لَأَعْلَمُ الْآنَ حَيْثُ هُوَ وَأَعْرِفُ أَبَاهُ وَأُمَّهُ قَالَ وَقِيلَ لَهُ أَيَسُرُّکَ أَنَّکَ ذَاکَ الرَّجُلُ قَالَ فَقَالَ لَوْ عُرِضَ عَلَيَّ مَا کَرِهْتُ-
یحیی بن حبیب، محمد بن عبد الاعلی معتمر ابی نضرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ابن صائد نے مجھ سے بات کہی جس سے مجھے شرم آئی کہنے لگا کہ لوگوں کو تو میں نے معذور جانا اور تمہیں میرے بارے میں اصحاب محمد کیا ہوگیا؟ کیا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ دجال یہودی ہوگا حالانکہ میں اسلام لا چکا ہوں اور کہنے لگا کہ اور اس کی اولاد نہ ہوگی حالانکہ میری تو اولاد بھی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ نے اس پر مکہ کو حرام کردیا ہے میں تحقیق حج کر چکا ہوں اور وہ مسلسل ایسی باتیں کرتا رہا قریب تھا کہ میں اس کی باتوں میں آجاتا اس نے کہا اللہ کی قسم میں جانتا ہوں کہ اس وقت کہاں ہے اور میں اس کے باپ اور والدہ کو بھی جانتا ہوں اور اس سے کہا گیا کیا تجھے یہ بات پسند ہے کہ تو ہی وہ آدمی ہو اس نے کہا اگر یہ بات مجھ پر پیش کی گئی تو میں اسے ناپسند نہ کروں گا۔
Abu Sa'id Khudri reported: Ibn Sa'id said to me something for which I felt ashamed. He said: I can excuse others; but what has gone wrong with you, O Companions of Muhammad, that you take me as Dajjal? Has Allah's Apostle (may peace be upon him) not said that he would be a Jew whereas I am a Muslim and he also said that he would not have children, whereas I have children, and he also said: verily, Allah has prohibited him to enter Mecca whereas I have performed Pilgrimage, and he went on saying this that I was about to be impressed by his talk. He (however) said this also: I know where he (Dajjal) is and I know his father and mother, and it was said to him: Won't you feel pleased if you would be the same person? Thereupon he said: If this offer is made to me, I would not resent that.
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا سَالِمُ بْنُ نُوحٍ أَخْبَرَنِي الْجُرَيْرِيُّ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ خَرَجْنَا حُجَّاجًا أَوْ عُمَّارًا وَمَعَنَا ابْنُ صَائِدٍ قَالَ فَنَزَلْنَا مَنْزِلًا فَتَفَرَّقَ النَّاسُ وَبَقِيتُ أَنَا وَهُوَ فَاسْتَوْحَشْتُ مِنْهُ وَحْشَةً شَدِيدَةً مِمَّا يُقَالُ عَلَيْهِ قَالَ وَجَائَ بِمَتَاعِهِ فَوَضَعَهُ مَعَ مَتَاعِي فَقُلْتُ إِنَّ الْحَرَّ شَدِيدٌ فَلَوْ وَضَعْتَهُ تَحْتَ تِلْکَ الشَّجَرَةِ قَالَ فَفَعَلَ قَالَ فَرُفِعَتْ لَنَا غَنَمٌ فَانْطَلَقَ فَجَائَ بِعُسٍّ فَقَالَ اشْرَبْ أَبَا سَعِيدٍ فَقُلْتُ إِنَّ الْحَرَّ شَدِيدٌ وَاللَّبَنُ حَارٌّ مَا بِي إِلَّا أَنِّي أَکْرَهُ أَنْ أَشْرَبَ عَنْ يَدِهِ أَوْ قَالَ آخُذَ عَنْ يَدِهِ فَقَالَ أَبَا سَعِيدٍ لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ آخُذَ حَبْلًا فَأُعَلِّقَهُ بِشَجَرَةٍ ثُمَّ أَخْتَنِقَ مِمَّا يَقُولُ لِي النَّاسُ يَا أَبَا سَعِيدٍ مَنْ خَفِيَ عَلَيْهِ حَدِيثُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا خَفِيَ عَلَيْکُمْ مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ أَلَسْتَ مِنْ أَعْلَمِ النَّاسِ بِحَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلَيْسَ قَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ کَافِرٌ وَأَنَا مُسْلِمٌ أَوَلَيْسَ قَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ عَقِيمٌ لَا يُولَدُ لَهُ وَقَدْ تَرَکْتُ وَلَدِي بِالْمَدِينَةِ أَوَلَيْسَ قَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَدْخُلُ الْمَدِينَةَ وَلَا مَکَّةَ وَقَدْ أَقْبَلْتُ مِنْ الْمَدِينَةِ وَأَنَا أُرِيدُ مَکَّةَ قَالَ أَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ حَتَّی کِدْتُ أَنْ أَعْذِرَهُ ثُمَّ قَالَ أَمَا وَاللَّهِ إِنِّي لَأَعْرِفُهُ وَأَعْرِفُ مَوْلِدَهُ وَأَيْنَ هُوَ الْآنَ قَالَ قُلْتُ لَهُ تَبًّا لَکَ سَائِرَ الْيَوْمِ-
محمد بن مثنی، سالم بن نوح جریر، ابی نضرہ حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم حج یا عمرہ کرنے کی غرض سے چلے اور ابن صائد ہمارے ساتھ تھا ہم ایک جگہ اترے تو لوگ منتشر ہو گئے میں اور وہ باقی رہ گئے اور مجھے اس سے سخت وحشت و خوف آیا جو اس کے بارے میں کہا جاتا تھا اور اس نے اپنا سامان لا کر میرے سامان کے ساتھ رکھ دیا تو میں نے کہا گرمی سخت ہے اگر تو اپنا سامان درخت کے نیچے رکھ دے تو بہتر ہے پس اس نے ایسا ہی کیا پھر ہمیں کچھ بکریاں نظر پڑیں وہ گیا اور ایک بھرا ہو پیالہ لے آیا اور کہنے لگا اے ابوسعید پیو میں نے کہا گرمی بہت سخت ہے اور دودھ بھی گرم ہے اور دودھ کے ناپسند کرنے کے سوائے اس کے ہاتھ سے بچنے کی اور کوئی بات نہ تھی یا کہا اس کے ہاتھ سے لینا ہی ناپسند تھا تو اس نے کہا اے ابوسعید میں نے ارادہ کیا ہے کہ ایک رسی لے کر درخت کے ساتھ لٹکاؤں پھر اپنا گلا گھونٹ لوں اس وجہ سے جو میرے بارے میں لوگ باتیں کرتے ہیں اے ابوسعید جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مخفی ہے ان کی تو الگ بات ہے اے انصار کی جماعت تجھ پر تو پوشیدہ نہیں ہے کیا تو لوگوں میں سب سے زیادہ رسول اللہ کی حدیث کو جاننے والا نہیں حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دجال کافر ہوگا اور میں مسلمان ہوں کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا وہ بانجھ ہوگا کہ اس کی کوئی اولاد نہ ہوگی حالانکہ میں اپنی اولاد مدینہ میں چھوڑ کر آیا ہوں کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا تھا کہ وہ مدینہ اور مکہ میں داخل نہ ہوگا حالانکہ میں مدینہ سے آرہا ہوں اور مکہ کا ارادہ ہے حضرت ابوسعید خدری نے کہا قریب تھا کہ میں اس کے عذر قبول کر لیتا پھر اس نے کہا اللہ کی قسم میں اسے پہچانتا ہوں اور اس کی جائے پیدائش سے بھی واقف ہوں اور یہ بھی معلوم ہے کہ وہ اس وقت کہاں ہے میں نے اس سے کہا تیرے لئے سارے دن کی ہلاکت و بربادی ہو۔
Abu Sa'id Khudri reported: We came back after having performed Pilgrimage or 'Umra and lbn Sa'id was along with us. And we encamped at a place and the people dispersed and I and he were left behind. I felt terribly frightened from him as it was said about him that he was the Dajjal. He brought his goods and placed them by my luggage and I said: It is intense heat. Would you not place that under that tree? And he did that. Then there appeared before us a flock of sheep. He went and brought a cup of milk and said: Abu Sa'id, drink that. I said it is intense heat and the milk is also hot (whereas the fact was) that I did not like to drink from his hands (or said: to take it from his hand) and he said: Abu Sa'id, I think that I should take a rope and suspend it by the tree and then commit suicide because of the talks of the people, and he further said. Abu Sa'id he who is ignorant of the saying of Allah's Messenger (may peace be upon him) (he is to be pardoned), but O people of Ansar, is this hadith of Allah's Messenger (may peace be upon him) concealed from you whereas you have the best knowledge of this hadith of Allah's Messenger (may peace be upon him) amongst people? Did Allah's Messenger (may peace be upon him) not say that he (Dajjal) would be a non believer whereas I am a believer? Did Allah's Messenger (may peace be upon him) not say he would be barren and no child would be born to him, whereas I have left my children in Medina? Did Allah's Messenger (may peace upon him) not say: He would not get into Medina and Mecca whereas I have been coming from Medina and now I intend to go to Mecca? Abu Sa'id said: I was about to accept the excuse put forward by him. That he said: I know the place where he would be born and where he is now. So I said to him: May your whole days be spent in grief for you.
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ حَدَّثَنَا بِشْرٌ يَعْنِي ابْنَ مُفَضَّلٍ عَنْ أَبِي مَسْلَمَةَ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِابْنِ صَائِدٍ مَا تُرْبَةُ الْجَنَّةِ قَالَ دَرْمَکَةٌ بَيْضَائُ مِسْکٌ يَا أَبَا الْقَاسِمِ قَالَ صَدَقْتَ-
نصر بن علی بشر ابن مفضل ابی مسلمہ ابی نضرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ابن صائد سے فرمایا جنت کی مٹی کیسی ہوگی اس نے کہا اے ابوالقاسم سفید باریک مشک کی طرح ہوگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو نے سچ کہا۔
This hadith has transmitted on the authority of Abu Sa'id that Allah's Messenger (may peace be upon him) asked Ibn Sa'id about the earth of Paradise. Thereupon he said: Abu'l-Qasim, It is like a fine white musk, whereupon he (the Holy Prophet) said: 'You have told the the truth.
و حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ الْجُرَيْرِيِّ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ أَنَّ ابْنَ صَيَّادٍ سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ تُرْبَةِ الْجَنَّةِ فَقَالَ دَرْمَکَةٌ بَيْضَائُ مِسْکٌ خَالِصٌ-
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابواسامہ جریر، ابی نضرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ابن صیاد نے نبی سے جنت کی مٹی کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خالص سفید باریک مشک۔
Abu Sa'id reported that Ibn Sayyad asked Allah's Messenger (may peace be upon him) about the earth of Paradise. Whereupon he said: It is like white shining pure musk.
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ قَالَ رَأَيْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَحْلِفُ بِاللَّهِ أَنَّ ابْنَ صَائِدٍ الدَّجَّالُ فَقُلْتُ أَتَحْلِفُ بِاللَّهِ قَالَ إِنِّي سَمِعْتُ عُمَرَ يَحْلِفُ عَلَی ذَلِکَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُنْکِرْهُ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-
عبیداللہ بن معاذ ابی شعبہ، سعد بن ابراہیم، حضرت محمد بن منکدر سے روایت ہے کہ میں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قسم کھا کر کہتے ہوئے دیکھا کہ ابن صائد دجال ہے تو میں نے کہا کیا تم اللہ کی قسم اٹھاتے ہو انہوں نے کہا میں نے عمر کو سنا وہ اس بات پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قسم اٹھا رہے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار نہ فرمایا۔
'Muhammad b. Munkadir reported: As I saw Jabir b. 'Abdullah taking an oath in the name of Allah that it was Ibn Sa'id who was the Dajjal I said: Do you take an oath in the name of Allah? Thereupon he said: I heard 'Umar taking an oath in the presence of Allah's Apostle (may peace be upon him) to this effect but Allah's Apostle (may peace be upon him) did not disapprove of it.
حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَی بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَرْمَلَةَ بْنِ عِمْرَانَ التُّجِيبِيُّ أَخْبَرَنِي ابْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِي يُونُسُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَخْبَرَهُ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ أَخْبَرَهُ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ انْطَلَقَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَهْطٍ قِبَلَ ابْنِ صَيَّادٍ حَتَّی وَجَدَهُ يَلْعَبُ مَعَ الصِّبْيَانِ عِنْدَ أُطُمِ بَنِي مَغَالَةَ وَقَدْ قَارَبَ ابْنُ صَيَّادٍ يَوْمَئِذٍ الْحُلُمَ فَلَمْ يَشْعُرْ حَتَّی ضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ظَهْرَهُ بِيَدِهِ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِابْنِ صَيَّادٍ أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ فَنَظَرَ إِلَيْهِ ابْنُ صَيَّادٍ فَقَالَ أَشْهَدُ أَنَّکَ رَسُولُ الْأُمِّيِّينَ فَقَالَ ابْنُ صَيَّادٍ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ فَرَفَضَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ آمَنْتُ بِاللَّهِ وَبِرُسُلِهِ ثُمَّ قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَاذَا تَرَی قَالَ ابْنُ صَيَّادٍ يَأْتِينِي صَادِقٌ وَکَاذِبٌ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خُلِّطَ عَلَيْکَ الْأَمْرُ ثُمَّ قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنِّي قَدْ خَبَأْتُ لَکَ خَبِيئًا فَقَالَ ابْنُ صَيَّادٍ هُوَ الدُّخُّ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اخْسَأْ فَلَنْ تَعْدُوَ قَدْرَکَ فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ذَرْنِي يَا رَسُولَ اللَّهِ أَضْرِبْ عُنُقَهُ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنْ يَکُنْهُ فَلَنْ تُسَلَّطَ عَلَيْهِ وَإِنْ لَمْ يَکُنْهُ فَلَا خَيْرَ لَکَ فِي قَتْلِهِ-
حرملہ بن یحیی بن عبداللہ بن حرملہ بن عمران ابن وہب، یونس ابن شہاب سالم بن عبداللہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ایک جماعت میں ابن صیاد کی طرف نکلے یہاں تک کہ اسے بنی مغالہ کے مکانوں کے پاس بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے پایا اور ابن صیاد ان دنوں قریب البلوغ تھا اور اسے کچھ معلوم نہ ہو سکا یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اس کی کمر پر ضرب ماری پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن صیاد سے فرمایا کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں ابن صیاد نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھ کر کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم امیوں کے رسول ہیں پھر ابن صیاد نے رسول اللہ سے کہا کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چھوڑ دیا اور فرمایا میں ایمان لایا اللہ پر اس کے رسولوں پر پھر رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا تو کیا دیکھتا ہے ابن صیاد نے کہا میرے پاس سچا بھی آتا ہے اور جھوٹا بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تجھ پر اصل معاملہ تو پھر مشتبہ ہوگیا پھر رسول اللہ نے اس سے فرمایا میں نے تجھ سے پوچھنے کے لئے ایک بات چھپائی ہوئی ہے تو ابن صیاد نے کہا وہ دخ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا دور ہو تو اپنے اندازہ سے آگے نہیں بڑھ سکتا پھر عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا مجھے اجازت دیں اے اللہ کے رسول میں اس کی گردن مار دوں رسول اللہ نے ان سے فرمایا اگر یہ وہی ہے تو تم اس پر مسلط نہ ہو سکو گے اور اگر یہ وہ نہیں ہے تو اس کے قتل کرنے میں تمہارے لئے کوئی بھلائی نہیں ہے۔
Abdullah b. Umar reported: 'Umar b. Khattab went along with Allah's Messenger (may peace be upon him) in the company of some persons to Ibn Sayyad that he found him playing with children near the battlement of Bani Maghala and Ibn Sayyad was at that time just at the threshold of adolescence and he did not perceive (the presence of Holy Prophet) until Allah's Messenger (may peace be upon him) struck his back with his hands. Allah's Messenger (may peace be upon him) said: Ibn Sayyad, don't you bear witness that I am the messenger of Allah? Ibn Sayyad looked toward him and he said: I bear witness to the fact that you are the messenger of the unlettered. Ibn Sayyad said to the Allah's Messenger (may peace be upon him): Do you bear witness to the fact that I am the messenger of Allah? Allah's Messenger (may peace be upon him) rejected this and said: I affirm my faith in Allah and in His messengers. Then Allah's Messenger (may peace be upon him) said to him: What do you see? Ibn Sayyad said: It us a Dukh. Thereupon Allah's Messenger (may peace be upon him) said: May you be disgraced and dishonoured, you would not not be able to go beyond your rank. 'Umar b. Khattab said: Allah's Messenger, permit me that I should strike his neck. Therupon Allah's Messenger (may peace be upon him) said: If he is the same (Dajjal) who would appear near the Last Hour, you would not be able to overpower him, and if he is not, then there is no good for you to kill him. 'Abdullah b. 'Umar further narrated that after some time Allah's Messenger (may peace be upon him) and Ubayy b. Ka'b went towards the palm trees where Ibn Sayyad was. When Allah's Messenger (may peace be upon him) went near the tree he hid himself behind a tree with the intention of hearing something from Ibn Sayyad before Ibn Sayyad could see him, but Allah's Messenger (may peace be upon him) saw him on a bed with a blanket around him from which a murmuring sound was being heard and Ibn Sayyad's mother saw Allah's Messenger (may peace be upon him) behind the trunk of the palm tree. She said to Ibn Sayyad: Saf (that being his name), here is Muhammad. Thereupon Ibn Sayyad jumped up murmuring and Allah's Messenger (may peace be upon him) said: If she had left him alone he would have made things clear. Abdullah b. Umar told that Allah's Messenger (may peace be upon him) stood up amongst the people and lauded Allah as He deserved, then he made a mention of the Dajjal and said: I warn you of him and there is no Prophet who has not warned his people against the Dajjal. Even Noah warned (against him) but I am going to tell you a thing which no Prophet told his people. You must know that he (the Dajjal) is one-eyed and Allah, the Exalted and Glorious, is not one-eyed. Ibn Shihab said: 'Umar b. Thabit al-Ansari informed me that some of the Companions of Allah's Messenger (may peace be upon him) informed him that the day when Allah's Messenger (may peace be upon him) warned people against the Dajjal, he also said: There would be written between his two eyes (the word) Kafir (infidel) and everyone who would resent his deeds would be able to read or every Muslim would be about to read, and he also said: Bear this thing in mind that none amongst you would be able to see Allah, the Exalted and Glorious, until he dies.
وَقَالَ سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ يَقُولُ انْطَلَقَ بَعْدَ ذَلِکَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأُبَيُّ بْنُ کَعْبٍ الْأَنْصَارِيُّ إِلَی النَّخْلِ الَّتِي فِيهَا ابْنُ صَيَّادٍ حَتَّی إِذَا دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّخْلَ طَفِقَ يَتَّقِي بِجُذُوعِ النَّخْلِ وَهُوَ يَخْتِلُ أَنْ يَسْمَعَ مِنْ ابْنِ صَيَّادٍ شَيْئًا قَبْلَ أَنْ يَرَاهُ ابْنُ صَيَّادٍ فَرَآهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُضْطَجِعٌ عَلَی فِرَاشٍ فِي قَطِيفَةٍ لَهُ فِيهَا زَمْزَمَةٌ فَرَأَتْ أُمُّ ابْنِ صَيَّادٍ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَتَّقِي بِجُذُوعِ النَّخْلِ فَقَالَتْ لِابْنِ صَيَّادٍ يَا صَافِ وَهُوَ اسْمُ ابْنِ صَيَّادٍ هَذَا مُحَمَّدٌ فَثَارَ ابْنُ صَيَّادٍ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ تَرَکَتْهُ بَيَّنَ-
سالم بن عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت سالم بن عبداللہ سے روایت ہے کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اس واقعہ کے بعد رسول اللہ اور حضرت ابی بن کعب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس باغ کی طرف چلے جس میں ابن صیاد تھا یہاں تک کہ جب رسول اللہ اس باغ میں داخل ہوئے تو کھجوروں کے تنوں میں چھپنے لگے تاکہ ابن صیاد کے دیکھنے سے پہلے اس کی کچھ گفتگو سن سکیں پس رسول اللہ نے اسے دیکھا کہ وہ اپنی ایک چادر میں لپٹا لیٹا ہوا ہے اور کچھ گنگنا رہا ہے پس ابن صیاد کی والدہ نے رسول اللہ کو کھجور کے تنوں کی آڑ میں چھپتے ہوئے دیکھ لیا تو اس نے ابن صیاد سے کہا اے صاف اور یہ ابن صیاد کا نام تھا یہ محمد ہیں تو ابن صیاد فورا اٹھ کھڑا ہوا رسول اللہ نے فرمایا اگر وہ اسے چھوڑ دیتی تو وہ کچھ بیان کر دیتا۔
Ibn 'Umar reported that Allah's Messenger (may peace be upon him) happened to pass by Ibn Sayyad along with his Companions including 'Umar b. Khattab as he was playing with children near the battlement of Bani Maghala and he was also a child by that time. The rest of the hadith is the same as narrated by Ibn Umar (in which there is a mention of) setting out of Allah's Apostle (may peace be upon him) along with Ubayy b. Ka'b towards the date-palm trees.
قَالَ سَالِمٌ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّاسِ فَأَثْنَی عَلَی اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ ذَکَرَ الدَّجَّالَ فَقَالَ إِنِّي لَأُنْذِرُکُمُوهُ مَا مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا وَقَدْ أَنْذَرَهُ قَوْمَهُ لَقَدْ أَنْذَرَهُ نُوحٌ قَوْمَهُ وَلَکِنْ أَقُولُ لَکُمْ فِيهِ قَوْلًا لَمْ يَقُلْهُ نَبِيٌّ لِقَوْمِهِ تَعَلَّمُوا أَنَّهُ أَعْوَرُ وَأَنَّ اللَّهَ تَبَارَکَ وَتَعَالَی لَيْسَ بِأَعْوَرَ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ وَأَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِيُّ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ بَعْضُ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَوْمَ حَذَّرَ النَّاسَ الدَّجَّالَ إِنَّهُ مَکْتُوبٌ بَيْنَ عَيْنَيْهِ کَافِرٌ يَقْرَؤُهُ مَنْ کَرِهَ عَمَلَهُ أَوْ يَقْرَؤُهُ کُلُّ مُؤْمِنٍ وَقَالَ تَعَلَّمُوا أَنَّهُ لَنْ يَرَی أَحَدٌ مِنْکُمْ رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ حَتَّی يَمُوتَ-
سالم بن عبداللہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے درمیان کھڑے ہوئے اور اللہ کی تعریف اس کی شان کے مطابق بیان کی پھر دجال کا ذکر کیا تو فرمایا میں تمہیں اس سے ڈراتا ہوں اور ہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم کو اس سے ڈرایا ہے تحقیق نوح بھی اپنی قوم کو اس سے ڈرا چکے ہیں لیکن میں تمہیں ایسی بات بتاتا ہوں جو کسی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم کو نہیں بتائی جان رکھو کہ وہ بے شک کانا ہوگا اور اللہ تبارک وتعالی کانا نہیں ہے ابن شہاب نے کہا مجھے عمر بن ثابت انصاری نے خبر دی کہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابہ نے خبر دی کہ آپ نے دجال سے ڈراتے ہوئے اس دن فرمایا اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہوا ہوگا جسے وہی پڑھ سکے گا جو اس کے عمل کو ناپسند کرتا ہوگا یا ہر مومن اسے پڑھ سکے گا اور آپ نے فرمایا تم میں سے کوئی بھی اپنے رب العزت کو مرنے تک ہرگز نہ دیکھ سکے گا۔
00000
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ قَالَا حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ وَهُوَ ابْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ صَالِحٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ قَالَ انْطَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ رَهْطٌ مِنْ أَصْحَابِهِ فِيهِمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ حَتَّی وَجَدَ ابْنَ صَيَّادٍ غُلَامًا قَدْ نَاهَزَ الْحُلُمَ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ عِنْدَ أُطُمِ بَنِي مُعَاوِيَةَ وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِمِثْلِ حَدِيثِ يُونُسَ إِلَی مُنْتَهَی حَدِيثِ عُمَرَ بْنِ ثَابِتٍ وَفِي الْحَدِيثِ عَنْ يَعْقُوبَ قَالَ قَالَ أُبَيٌّ يَعْنِي فِي قَوْلِهِ لَوْ تَرَکَتْهُ بَيَّنَ قَالَ لَوْ تَرَکَتْهُ أُمُّهُ بَيَّنَ أَمْرَهُ-
حسن بن علی حلوانی بن حمید یعقوب بن ابراہیم، سعد ابوصالح ابن شہاب سالم بن عبداللہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ چلے اور آپکے ساتھ آپکے صحابہ کی ایک جماعت تھی جن میں عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے یہاں تک کہ ابن صیاد بچے کو پایا جو کہ بلوغت کے قریب تھا اور بچوں کے ساتھ بنو معاویہ کے مکانوں کے پاس کھیل رہا تھا باقی حدیث گزر چکی ہے اس میں یہ ہے کہ آپ نے فرمایا کاش اس کی والدہ اسے چھوڑ دیتی تو اس کا سارا معاملہ واضح ہو جاتا۔
00000
و حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ وَسَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ جَمِيعًا عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِابْنِ صَيَّادٍ فِي نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِهِ فِيهِمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَهُوَ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ عِنْدَ أُطُمِ بَنِي مَغَالَةَ وَهُوَ غُلَامٌ بِمَعْنَی حَدِيثِ يُونُسَ وَصَالِحٍ غَيْرَ أَنَّ عَبْدَ بْنَ حُمَيْدٍ لَمْ يَذْکُرْ حَدِيثَ ابْنِ عُمَرَ فِي انْطِلَاقِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ أُبَيِّ بْنِ کَعْبٍ إِلَی النَّخْلِ-
عبد بن حمید سلمہ بن شبیب عبدالرزاق، معمر، زہری سالم حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ اپنے صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ جن میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے ابن صیاد کے پاس سے گزرے تو وہ بنی مغالہ کے مکانوں کے پاس بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا اور وہ بھی لڑکا تھا حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس حدیث میں یہ مذکور نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ابی بن کعب کے ساتھ کھجوروں کے باغ کی طرف تشریف لے گئے۔
00000
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ حَدَّثَنَا هِشَامٌ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ قَالَ لَقِيَ ابْنُ عُمَرَ ابْنَ صَائِدٍ فِي بَعْضِ طُرُقِ الْمَدِينَةِ فَقَالَ لَهُ قَوْلًا أَغْضَبَهُ فَانْتَفَخَ حَتَّی مَلَأَ السِّکَّةَ فَدَخَلَ ابْنُ عُمَرَ عَلَی حَفْصَةَ وَقَدْ بَلَغَهَا فَقَالَتْ لَهُ رَحِمَکَ اللَّهُ مَا أَرَدْتَ مِنْ ابْنِ صَائِدٍ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّمَا يَخْرُجُ مِنْ غَضْبَةٍ يَغْضَبُهَا-
عبد بن حمید روح بن عبادہ، ہشام ایوب حضرت نافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ابن صیاد سے مدینہ کے کسی راستہ میں ملاقات ہوگئی تو ابن عمر نے اس سے ایسی بات کہی جو اسے غصۃ دلانے والی تھی پس وہ اتنا پھولا کہ راستہ بھر گیا پھر ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ام المومنین سیدہ حفصہ کے پاس حاضر ہوئے اور انہیں یہ خبر مل چکی تھی تو انہوں نے ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا اللہ آپ پر رحم فرمائے تو نے ابن صائد کے بارے میں کیا ارادہ کیا تھا کیا تو نہیں جانتا تھا کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ دجال کسی پر غصہ کرنے کی وجہ سے ہی نکلے گا۔
Nafi' reported that Ibn 'Umar met Ibn Si'id on some of the paths of Medina and he said to him a word which enraged him and he was so much swollen with anger that the way was blocked. Ibn 'Umar went to Hafsa and informed her about this. Thereupon she said: May Allah have mercy upon you, why did you incite Ibn Sayyad in spite of the fact that you knew it would be the extreme anger which would make Dajjal appear in the world?
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ يَعْنِي ابْنَ حَسَنِ بْنِ يَسَارٍ حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ عَنْ نَافِعٍ قَالَ کَانَ نَافِعٌ يَقُولُ ابْنُ صَيَّادٍ قَالَ قَالَ ابْنُ عُمَرَ لَقِيتُهُ مَرَّتَيْنِ قَالَ فَلَقِيتُهُ فَقُلْتُ لِبَعْضِهِمْ هَلْ تَحَدَّثُونَ أَنَّهُ هُوَ قَالَ لَا وَاللَّهِ قَالَ قُلْتُ کَذَبْتَنِي وَاللَّهِ لَقَدْ أَخْبَرَنِي بَعْضُکُمْ أَنَّهُ لَنْ يَمُوتَ حَتَّی يَکُونَ أَکْثَرَکُمْ مَالًا وَوَلَدًا فَکَذَلِکَ هُوَ زَعَمُوا الْيَوْمَ قَالَ فَتَحَدَّثْنَا ثُمَّ فَارَقْتُهُ قَالَ فَلَقِيتُهُ لَقْيَةً أُخْرَی وَقَدْ نَفَرَتْ عَيْنُهُ قَالَ فَقُلْتُ مَتَی فَعَلَتْ عَيْنُکَ مَا أَرَی قَالَ لَا أَدْرِي قَالَ قُلْتُ لَا تَدْرِي وَهِيَ فِي رَأْسِکَ قَالَ إِنْ شَائَ اللَّهُ خَلَقَهَا فِي عَصَاکَ هَذِهِ قَالَ فَنَخَرَ کَأَشَدِّ نَخِيرِ حِمَارٍ سَمِعْتُ قَالَ فَزَعَمَ بَعْضُ أَصْحَابِي أَنِّي ضَرَبْتُهُ بِعَصًا کَانَتْ مَعِيَ حَتَّی تَکَسَّرَتْ وَأَمَّا أَنَا فَوَاللَّهِ مَا شَعَرْتُ قَالَ وَجَائَ حَتَّی دَخَلَ عَلَی أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ فَحَدَّثَهَا فَقَالَتْ مَا تُرِيدُ إِلَيْهِ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّهُ قَدْ قَالَ إِنَّ أَوَّلَ مَا يَبْعَثُهُ عَلَی النَّاسِ غَضَبٌ يَغْضَبُهُ-
محمد بن مثنی حسین ابن حسن بن یسار ابن عون حضرت نافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ابن عمر نے کہا میں نے ابن صیاد سے دو مرتبہ ملاقات کی میں اس سے ملا تو میں نے بعض لوگوں سے کہا کیا تم بیان کرتے ہو کہ وہ وہی ہے انہوں نے کہا اللہ کی قسم نہیں میں نے کہا تم نے مجھے جھوٹا کر دیا اللہ کی قسم تم میں سے بعض نے مجھے خبر دی کہ وہ ہرگز نہیں مرے گا یہاں تک کہ تم میں سے زیادہ مالدار اور صاحب اولاد ہو جائے گا پس وہ ان دنوں لوگوں کے گمان میں ایسا ہی ہے پھر ابن صیاد ہم سے باتیں کر کے جدا ہو گیا پھر میں اس سے دوسری مرتبہ ملا تو اس کی آنکھ پھول چکی تھی تو میں نے اس سے کہا میں تیری آنکھ جو اس طرح دیکھ رہا ہوں یہ کب سے ہوئی ہے اس نے کہا میں نہیں جانتا میں نے کہا تو جانتا ہی نہیں حالانکہ یہ تو تیرے سر میں موجود ہے اس نے کہا اگر اللہ نے چاہا تو وہ تیری لاٹھی میں اسے پیدا کر دے گا پھر اس نے گدھے کی طرح زور سے آواز نکالی اس سے زیادہ سخت آواز میں نے نہیں سنی تھی اور میرے بعض ساتھیوں نے اندازہ لگایا کہ میں نے اسے اپنے پاس موجود لاٹھی سے مارا ہے یہاں تک کہ وہ ٹوٹ گئی ہے حالانکہ اللہ کی قسم مجھے اس کا علم تک نہ تھا یہاں تک کہ ام المومنین کے پاس حاضر ہوئے تو انہیں یہ واقعہ بیان کیا انہوں نے کہا تیرا اس سے کیا کام تھا کیا تو جانتا نہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگوں کے پاس دجال کو بھینے والی سب سے پہلے وہ غصہ ہوگا جو اسے کسی پر آئے گا۔
Nafi' reported that Ibn 'Umar said: I met lbn Sayyad twice and said to some of them (his friends): You state that it was he (the Dajjal). He said: By Allah, it is not so. I said: You have not told me the truth; by Allah some of you informed me that he would not die until he would have the largest number of offspring and huge wealth and it is he about whom it is thought so. Then Ibn Sayyad talked to us. I then departed and met him again for the second time and his eye had been swollen. I said: What has happened to your eye? He said: I do not know. I said: This is in your head and you do not know about it? He said: If Allah so wills He can create it (eye) in your staff. He then produced a sound like the braying of a donkey. Some of my companions thought that I had struck him with the staff as he was with me that the staff broke into pieces, but, by Allah, I was not conscious of it. He then came to the Mother of the Faithful (Hafsa) and narrated it to her and she said: What concern do you have with him? Don't you know that Allah's Apostle (may peace be upon him) said that the first thing (by the incitement of which) he would come out before the public would be his anger?