ابا طلحہ انصار کے فضائل کے بیان میں

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمِ بْنِ مَيْمُونٍ حَدَّثَنَا بَهْزٌ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ مَاتَ ابْنٌ لِأَبِي طَلْحَةَ مِنْ أُمِّ سُلَيْمٍ فَقَالَتْ لِأَهْلِهَا لَا تُحَدِّثُوا أَبَا طَلْحَةَ بِابْنِهِ حَتَّی أَکُونَ أَنَا أُحَدِّثُهُ قَالَ فَجَائَ فَقَرَّبَتْ إِلَيْهِ عَشَائً فَأَکَلَ وَشَرِبَ فَقَالَ ثُمَّ تَصَنَّعَتْ لَهُ أَحْسَنَ مَا کَانَ تَصَنَّعُ قَبْلَ ذَلِکَ فَوَقَعَ بِهَا فَلَمَّا رَأَتْ أَنَّهُ قَدْ شَبِعَ وَأَصَابَ مِنْهَا قَالَتْ يَا أَبَا طَلْحَةَ أَرَأَيْتَ لَوْ أَنَّ قَوْمًا أَعَارُوا عَارِيَتَهُمْ أَهْلَ بَيْتٍ فَطَلَبُوا عَارِيَتَهُمْ أَلَهُمْ أَنْ يَمْنَعُوهُمْ قَالَ لَا قَالَتْ فَاحْتَسِبْ ابْنَکَ قَالَ فَغَضِبَ وَقَالَ تَرَکْتِنِي حَتَّی تَلَطَّخْتُ ثُمَّ أَخْبَرْتِنِي بِابْنِي فَانْطَلَقَ حَتَّی أَتَی رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ بِمَا کَانَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَارَکَ اللَّهُ لَکُمَا فِي غَابِرِ لَيْلَتِکُمَا قَالَ فَحَمَلَتْ قَالَ فَکَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ وَهِيَ مَعَهُ وَکَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَتَی الْمَدِينَةَ مِنْ سَفَرٍ لَا يَطْرُقُهَا طُرُوقًا فَدَنَوْا مِنْ الْمَدِينَةِ فَضَرَبَهَا الْمَخَاضُ فَاحْتُبِسَ عَلَيْهَا أَبُو طَلْحَةَ وَانْطَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَقُولُ أَبُو طَلْحَةَ إِنَّکَ لَتَعْلَمُ يَا رَبِّ إِنَّهُ يُعْجِبُنِي أَنْ أَخْرُجَ مَعَ رَسُولِکَ إِذَا خَرَجَ وَأَدْخُلَ مَعَهُ إِذَا دَخَلَ وَقَدْ احْتَبَسْتُ بِمَا تَرَی قَالَ تَقُولُ أُمُّ سُلَيْمٍ يَا أَبَا طَلْحَةَ مَا أَجِدُ الَّذِي کُنْتُ أَجِدُ انْطَلِقْ فَانْطَلَقْنَا قَالَ وَضَرَبَهَا الْمَخَاضُ حِينَ قَدِمَا فَوَلَدَتْ غُلَامًا فَقَالَتْ لِي أُمِّي يَا أَنَسُ لَا يُرْضِعُهُ أَحَدٌ حَتَّی تَغْدُوَ بِهِ عَلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا أَصْبَحَ احْتَمَلْتُهُ فَانْطَلَقْتُ بِهِ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَصَادَفْتُهُ وَمَعَهُ مِيسَمٌ فَلَمَّا رَآنِي قَالَ لَعَلَّ أُمَّ سُلَيْمٍ وَلَدَتْ قُلْتُ نَعَمْ فَوَضَعَ الْمِيسَمَ قَالَ وَجِئْتُ بِهِ فَوَضَعْتُهُ فِي حَجْرِهِ وَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَجْوَةٍ مِنْ عَجْوَةِ الْمَدِينَةِ فَلَاکَهَا فِي فِيهِ حَتَّی ذَابَتْ ثُمَّ قَذَفَهَا فِي فِي الصَّبِيِّ فَجَعَلَ الصَّبِيُّ يَتَلَمَّظُهَا قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْظُرُوا إِلَی حُبِّ الْأَنْصَارِ التَّمْرَ قَالَ فَمَسَحَ وَجْهَهُ وَسَمَّاهُ عَبْدَ اللَّهِ-
محمد بن حاتم، بن میمون بہز سلیمان بن مغیرہ ثابت حضرت انس سے روایت ہے کہ حضرت ابوطلحہ کا ایک بیٹا جو کہ حضرت ام سلیم سے تھا فوت ہو گیا تو حضرت ام سلیم نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ تم ابوطلحہ کو اس کے بیٹے کی خبر نہ بیان کرنا بلکہ میں خود ان سے بات کروں گی حضرت انس فرماتے ہیں کہ پھر حضرت ابوطلحة آئے تو ام سلیم ان کے سامنے شام کا کھانا لائیں انہوں نے کھانا کھایا اور پیا پھر ام سلیم نے ان کا خوب بناؤ سنگھار کیا یہاں تک کہ حضرت ابوطلحہ نے ام سلیم سے ہم بستری کی تو جب حضرت ابوطلحہ نے دیکھا کہ وہ خوب سیر ہو گئے ہیں اور ان کے ساتھ صحبت بھی کرلی ہے تو پھر حضرت ام سلیم کہنے لگیں اے ابوطلحہ آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر کچھ لوگ کسی کو کوئی چیز ادھار دے دیں پھر وہ لوگ اپنی چیز واپس مانگیں تو کیا وہ ان کو واپس کرنے سے روک سکتے ہیں حضرت ابوطلحہ نے کہا نہیں حضرت ام سلیم کہنے لگیں کہ میں آپ کو آپ کے بیٹے کی وفات کی خبر دیتی ہوں حضرت ابوطلحہ غصے میں ہوئے کہ تو نے مجھے بتایا کیوں نہیں یہاں تک کہ جب میں آلودہ ہوا پھر تو نے مجھے میرے بیٹے کی خبر دی پھر حضرت ابوطلحہ چلے یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آگئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس چیز کی خبر دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ تمہاری گزری رات میں برکت عطا فرمائے راوی کہتے ہیں کہ پھر حضرت ام سلیم حاملہ ہو گئیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی سفر میں تھے اور حضرت ام سلیم بھی آپ کے ساتھ تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر سے واپس مدینہ منورہ آئے تھے تو رات کو مدینہ منورہ میں داخل نہیں ہوتے تھے جب لوگ مدینہ منورہ کے قریب پہنچے تو حضرت ام سلیم کو درد زہ شروع ہو گیا اور حضرت ابوطلحة ان کے پاس ٹھہر گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چل پڑے حضرت ابوطلحہ کہنے لگے اے میرے پروردگار تو جانتا ہے کہ مجھے تیرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلنا پسند ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نکلیں اور مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ داخل ہونا پسند ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم داخل ہوں تو جانتا کہ جس کی وجہ سے میں رک گیا ہوں حضرت انس کہتے ہیں کہ حضرت ام سلیم کہنے لگیں اے ابوطلحہ مجھے اب اس طرح درد نہیں ہے جس طرح پہلے درد تھی چلو ہم بھی چلتے ہیں حضرت انس کہتے ہیں کہ جس وقت وہ دونوں مدینہ میں آ گئے تو پھر حضرت ام سلیم کو وہی درد زہ شروع ہوگئی پھر ایک بچہ پیدا ہوا حضرت انس فرماتے ہیں کہ مجھے میری والدہ نے کہا اے انس کوئی اس بچے کو دودھ نہ پلائے یہاں تک کہ جب صبح ہوگئی تو اسے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے کے جانا پھر جب صبح ہوئی تو میں نے اس بچے کو اٹھایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چل پڑا حضرت انس کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں اونٹوں کو داغ دینے کا آلہ ہے تو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شاید کہ یہ بچہ حضرت ام سلیم نے جنا ہے میں نے عرض کیا جی ہاں تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ بچہ گود میں ڈال دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کی عجوہ کھجور منگوائی اور پھر اسے اپنے منہ میں چبایا یہاں تک کہ جب وہ نرم ہوگئی تو وہ اس بچے کے منہ میں ڈالی بچہ اس کو چوسنے لگا حضرت انس کہتے ہیں پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیکھو انصار کو کھجور سے کس قدر محبت ہے راوی کہتے ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے چہرے پر ہاتھ پھیرا اور اس کا نام عبداللہ رکھا۔
Anas reported that the son of Abu Talha who was born of Umm Sulaim died. She (Umm Sulaim) said to the members of her family: Do not narrate to Abu Talha about his son until I narrate it to him. Abu Talha came (home) ; she presented to him the supper. He took it and drank water. She then embellished herself which she did not do before. He (Abu Talha) had a sexual intercourse with her and when she saw that he was satisfied after sexual intercourse with her, she said: Abu Talha, if some people borrow something from another family and then (the members of the family) ask for its return, would they resist its return? He said: No. She said: I inform you about the death of your son. He was annoyed, and said: You did not inform me until I had a sexual intercourse with you and you later on gave me information about my son. He went to Allah's Messenger (may peace be upon him) and informed him what had happened. Thereupon Allah's Messenger (may peace be upon him) said: May Allah bless both of you in the night spent by you! He (the narrator) said: She became pregnant. Allah's Messenger (may peace be upon him) was in the course of a journey and she was along with him and when Allah's Messenger (may peace be upon him) came back to Medina from the journey he did not enter (his house) (during the night). When the people came near Medina, she felt the pangs of delivery. He (Abu Talha) remained with her and Allah's Messenger (may peace be upon him) proceeded on. Abu Talha said: O Lord, you know that I love to go along with Allah's Messenger when he goes out and enter along with him when he enters and I have been detained as Thou seest. Umm Sulaim said: Abu Talha, I do not feel (so much pain) as I was feeling formerly, so better proceed on. So we proceeded on and she felt the pangs of delivery as they reached (Medina) and a child was born and my mother said to me: Anas, none should suckle him until you go to Allah's Messenger (may peace be upon him) tomorrow morning. And when it was morning I carried him (the child) and went along with him to Allah's Messenger (may peace beupon him). He said: I saw that he had in his hand the instrument for the cauterisation of the camels. When he saw me. he said: This is, perhaps, what Umm Sulaim has given birth to. I said: Yes. He laid down that instrument on the ground. I brought that child to him and placed it in his lap and Allah's Messenger (may peace be upon him) asked Ajwa dates of Medina to be brought and softened them in his month. When these had become palatable he placed them in the mouth of that child. The child began to taste them. Then Allah's Messenger (may peace be upon him) said: See what love the Ansar have for dates. He then wiped his face and named him 'Abdullah.
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ خِرَاشٍ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ حَدَّثَنَا ثَابِتٌ حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ قَالَ مَاتَ ابْنٌ لِأَبِي طَلْحَةَ وَاقْتَصَّ الْحَدِيثَ بِمِثْلِهِ-
احمد بن حسن بن خراش عمرو بن عاصم، سلیمان بن مغیرہ ثابت حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوطلحہ کا ایک بیٹا فوت ہو گیا مذکورہ حدیث کی طرح روایت نقل کی۔
This hadith has been narrated on the authority of Anas b. Malik through another chain of transmitters.