وفد بنو حنیفہ اور ثمامہ بن اثال کے قصہ کا بیان

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ قَالَ حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْلًا قِبَلَ نَجْدٍ فَجَائَتْ بِرَجُلٍ مِنْ بَنِي حَنِيفَةَ يُقَالُ لَهُ ثُمَامَةُ بْنُ أُثَالٍ فَرَبَطُوهُ بِسَارِيَةٍ مِنْ سَوَارِي الْمَسْجِدِ فَخَرَجَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَا عِنْدَکَ يَا ثُمَامَةُ فَقَالَ عِنْدِي خَيْرٌ يَا مُحَمَّدُ إِنْ تَقْتُلْنِي تَقْتُلْ ذَا دَمٍ وَإِنْ تُنْعِمْ تُنْعِمْ عَلَی شَاکِرٍ وَإِنْ کُنْتَ تُرِيدُ الْمَالَ فَسَلْ مِنْهُ مَا شِئْتَ فَتُرِکَ حَتَّی کَانَ الْغَدُ ثُمَّ قَالَ لَهُ مَا عِنْدَکَ يَا ثُمَامَةُ قَالَ مَا قُلْتُ لَکَ إِنْ تُنْعِمْ تُنْعِمْ عَلَی شَاکِرٍ فَتَرَکَهُ حَتَّی کَانَ بَعْدَ الْغَدِ فَقَالَ مَا عِنْدَکَ يَا ثُمَامَةُ فَقَالَ عِنْدِي مَا قُلْتُ لَکَ فَقَالَ أَطْلِقُوا ثُمَامَةَ فَانْطَلَقَ إِلَی نَجْلٍ قَرِيبٍ مِنْ الْمَسْجِدِ فَاغْتَسَلَ ثُمَّ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَقَالَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ يَا مُحَمَّدُ وَاللَّهِ مَا کَانَ عَلَی الْأَرْضِ وَجْهٌ أَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْ وَجْهِکَ فَقَدْ أَصْبَحَ وَجْهُکَ أَحَبَّ الْوُجُوهِ إِلَيَّ وَاللَّهِ مَا کَانَ مِنْ دِينٍ أَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْ دِينِکَ فَأَصْبَحَ دِينُکَ أَحَبَّ الدِّينِ إِلَيَّ وَاللَّهِ مَا کَانَ مِنْ بَلَدٍ أَبْغَضُ إِلَيَّ مِنْ بَلَدِکَ فَأَصْبَحَ بَلَدُکَ أَحَبَّ الْبِلَادِ إِلَيَّ وَإِنَّ خَيْلَکَ أَخَذَتْنِي وَأَنَا أُرِيدُ الْعُمْرَةَ فَمَاذَا تَرَی فَبَشَّرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَمَرَهُ أَنْ يَعْتَمِرَ فَلَمَّا قَدِمَ مَکَّةَ قَالَ لَهُ قَائِلٌ صَبَوْتَ قَالَ لَا وَلَکِنْ أَسْلَمْتُ مَعَ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا وَاللَّهِ لَا يَأْتِيکُمْ مِنْ الْيَمَامَةِ حَبَّةُ حِنْطَةٍ حَتَّی يَأْذَنَ فِيهَا النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-
عبداللہ بن یوسف، لیث، سعید بن ابوسیعد، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نجد کی طرف کچھ سواروں کو بھیجا وہ بنی حنیفہ کے آدمی ثمامہ بن اثال کو پکڑ لائے اور مسجد نبوی کے ایک ستون کے ساتھ اسے باندھ دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے پاس سے گزرے تو آپ نے فرمایا اے ثمامہ! کیا خیال ہے؟ اس نے کہا اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میرا خیال بہتر ہے اگر آپ مجھے قتل کردیں گے تو ایک خونی کو قتل کریں گے اور اگر احسان کریں گے تو ایک شکر گزار پر احسان کریں گے اور اگر آپ مال چاہتے ہیں تو جتنا دل چاہے مانگ لیجئے حتیٰ کہ دوسرا دن ہوگیا پھر آپ نے اس سے فرمایا کیا خیال ہے؟ اے ثمامہ! اس نے کہا میرا وہی خیال ہے جو میں آپ سے کہہ چکا کہ اگر آپ احسان کریں گے تو ایک شکر گزار پر احسان کریں گے آپ نے اسے (اسی حال پر) چھوڑ دیا حتیٰ کہ تیسرا دن ہوا پھر آپ نے پوچھا کیا خیال ہے اے ثمامہ؟ اس نے کہا میرا وہی خیال ہے جو میں آپ سے کہہ چکا، آپ نے فرمایا ثمامہ کو رہا کردو چنانچہ ثمامہ نے مسجد کے قریب ایک باغ میں جا کر غسل کیا پھر مسجد میں آکر کہا (أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ) اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! روئے زمین پر آپ سے زیادہ بغض مجھے کسی سے نہ تھا مگر اب آپ سے زیادہ محبوب مجھے روئے زمین پر کوئی نہیں بخدا آپ کے دین سے زیادہ دشمنی مجھے کسی دین سے نہیں تھی مگر اب آپ کے دین سے زیادہ محبت مجھے کسی دین سے نہیں اللہ کی قسم! آپ کے شہر سے زیادہ ناپسند مجھے کوئی شہر نہیں تھا مگر اب آپ کے شہر سے زیادہ پسندیدہ کوئی شہر نہیں آپ کے سواروں نے مجھے اس وقت پکڑا جب میں عمرہ کے ارادہ سے جا رہا تھا اب آپ کا کیا حکم ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے بشارت دی اور اسے عمرہ کرنے کا حکم دیا جب وہ مکہ آیا تو اس سے کسی نے کہا تو بے دین ہوگیا ہے انہوں نے جواب دیا نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہوا ہوں اور اللہ کی قسم! تمہارے پاس نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اجازت کے بغیر یمامہ سے گندم کا ایک دانہ بھی نہیں پہنچ سکتا۔
Narrated Abu Huraira: The Prophet sent some cavalry towards Najd and they brought a man from the tribe of Banu Hanifa who was called Thumama bin Uthal. They fastened him to one of the pillars of the Mosque. The Prophet went to him and said, "What have you got, O Thumama?" He replied," I have got a good thought, O Muhammad! If you should kill me, you would kill a person who has already killed somebody, and if you should set me free, you would do a favor to one who is grateful, and if you want property, then ask me whatever wealth you want." He was left till the next day when the Prophet said to him, "What have you got, Thumama? He said, "What I told you, i.e. if you set me free, you would do a favor to one who is grateful." The Prophet left him till the day after, when he said, "What have you got, O Thumama?" He said, "I have got what I told you. "On that the Prophet said, "Release Thumama." So he (i.e. Thumama) went to a garden of date-palm trees near to the Mosque, took a bath and then entered the Mosque and said, "I testify that None has the right to be worshipped except Allah, and also testify that Muhammad is His Apostle! By Allah, O Muhammad! There was no face on the surface of the earth most disliked by me than yours, but now your face has become the most beloved face to me. By Allah, there was no religion most disliked by me than yours, but now it is the most beloved religion to me. By Allah, there was no town most disliked by me than your town, but now it is the most beloved town to me. Your cavalry arrested me (at the time) when I was intending to perform the 'Umra. And now what do you think?" The Prophet gave him good tidings (congratulated him) and ordered him to perform the 'Umra. So when he came to Mecca, someone said to him, "You have become a Sabian?" Thumama replied, "No! By Allah, I have embraced Islam with Muhammad, Apostle of Allah. No, by Allah! Not a single grain of wheat will come to you from Jamaica unless the Prophet gives his permission."
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَدِمَ مُسَيْلِمَةُ الْکَذَّابُ عَلَی عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَعَلَ يَقُولُ إِنْ جَعَلَ لِي مُحَمَّدٌ الْأَمْرَ مِنْ بَعْدِهِ تَبِعْتُهُ وَقَدِمَهَا فِي بَشَرٍ کَثِيرٍ مِنْ قَوْمِهِ فَأَقْبَلَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ ثَابِتُ بْنُ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ وَفِي يَدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِطْعَةُ جَرِيدٍ حَتَّی وَقَفَ عَلَی مُسَيْلِمَةَ فِي أَصْحَابِهِ فَقَالَ لَوْ سَأَلْتَنِي هَذِهِ الْقِطْعَةَ مَا أَعْطَيْتُکَهَا وَلَنْ تَعْدُوَ أَمْرَ اللَّهِ فِيکَ وَلَئِنْ أَدْبَرْتَ لَيَعْقِرَنَّکَ اللَّهُ وَإِنِّي لَأَرَاکَ الَّذِي أُرِيتُ فِيهِ مَا رَأَيْتُ وَهَذَا ثَابِتٌ يُجِيبُکَ عَنِّي ثُمَّ انْصَرَفَ عَنْهُ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَسَأَلْتُ عَنْ قَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّکَ أُرَی الَّذِي أُرِيتُ فِيهِ مَا أَرَيْتُ فَأَخْبَرَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ رَأَيْتُ فِي يَدَيَّ سِوَارَيْنِ مِنْ ذَهَبٍ فَأَهَمَّنِي شَأْنُهُمَا فَأُوحِيَ إِلَيَّ فِي الْمَنَامِ أَنْ انْفُخْهُمَا فَنَفَخْتُهُمَا فَطَارَا فَأَوَّلْتُهُمَا کَذَّابَيْنِ يَخْرُجَانِ بَعْدِي أَحَدُهُمَا الْعَنْسِيُّ وَالْآخَرُ مُسَيْلِمَةُ-
ابو الیمان، شعیب، عبداللہ بن ابی حسین، نافع بن جبیر، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ مسیلمہ کذاب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں (مدینہ) میں آکر کہنے لگا کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے بعد مجھے خلیفہ بنا دیں تو میں ان کا متبع ہو جاؤں اور مدینہ میں اپنی قوم کے بہت سے آدمیوں کو لے کر آیا تھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ثابت بن قیس بن شماس کو ہمراہ لے کر اس کی طرف چلے آپ کے ہاتھ میں کھجور کی ایک ٹہنی تھی حتیٰ کہ آپ اپنے اصحاب کے ساتھ مسیلمہ کے پاس ٹھہر گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تو مجھ سے یہ ٹہنی بھی مانگے گا تو میں تجھے نہ دوں گا (چہ جائیکہ خلافت) اور تیرے بارے میں اللہ کا حکم غلط نہیں ہو سکتا (کہ تو دوزخی ہے) اگر تو نے (مجھ سے) روگردانی کی تو اللہ تجھے ہلاک کردے گا اور میں تو تجھے ویسا ہی دیکھ رہا ہوں جیسا مجھے خواب میں نظر آیا ہے اور یہ ثابت ہیں جو میری طرف سے تجھے جواب دیں گے پھر آپ واپس آگئے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول کہ میں تو تجھے ایسا ہی دیکھ رہا ہوں جیسا مجھے خواب میں نظر آیا ہے کا مطلب دریافت کیا تو مجھے ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ایک دن میں سو رہا تھا کہ میں نے اپنے ہاتھ میں سونے دو کنگن دیکھے مجھے ان کی حالت سے رنج ہوا تو خواب میں ہی مجھے وحی کی گئی کہ ان پر پھونک مارو میں نے پھونک ماری تو وہ غائب ہو گئے تو میں نے اس کی تعبیر ان دو کذابوں سے کی جو میرے بعد ظاہر ہونگے، ایک عنسی، دوسرے مسیلمہ۔
Narrated Ibn Abbas: Musailima Al-Kadhdhab came during the lifetime of the Prophet and started saying, "If Muhammad gives me the rule after him, I will follow him." And he came to Medina with a great number of the people of his tribe. Allah's Apostle went to him in the company of Thabit bin Qais bin Shammas, and at that time, Allah's Apostle had a stick of a date-palm tree in his hand. When he (i.e. the Prophet ) stopped near Musailima while the latter was amidst his companions, he said to him, "If you ask me for this piece (of stick), I will not give it to you, and Allah's Order you cannot avoid, (but you will be destroyed), and if you turn your back from this religion, then Allah will destroy you. And I think you are the same person who was shown to me in my dream, and this is Thabit bin Qais who will answer your questions on my behalf." Then the Prophet went away from him. I asked about the statement of Allah's Apostle : "You seem to be the same person who was shown to me in my dream," and Abu Huraira informed me that Allah's Apostle said, "When I was sleeping, I saw (in a dream) two bangles of gold on my hands and that worried me. And then I was inspired Divinely in the dream that I should blow on them, so I blew on them and both the bangles flew away. And I interpreted it that two liars (who would claim to be prophets) would appear after me. One of them has proved to be Al Ansi and the other, Musailima."
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ نَصْرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ هَمَّامٍ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ أُتِيتُ بِخَزَائِنِ الْأَرْضِ فَوُضِعَ فِي کَفِّي سِوَارَانِ مِنْ ذَهَبٍ فَکَبُرَا عَلَيَّ فَأَوْحَی اللَّهُ إِلَيَّ أَنْ انْفُخْهُمَا فَنَفَخْتُهُمَا فَذَهَبَا فَأَوَّلْتُهُمَا الْکَذَّابَيْنِ اللَّذَيْنِ أَنَا بَيْنَهُمَا صَاحِبَ صَنْعَائَ وَصَاحِبَ الْيَمَامَةِ-
اسحاق بن نصر، عبدالرزاق، معمر، ہمام، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں ایک دن سورہا تھا کہ مجھے دنیا کے تمام خزانے دے دئیے گئے، پھر میرے ہاتھ میں سونے کے دو کنگن رکھے گئے، جو مجھ پر شاق گزرے، تو مجھے وحی کی گئی کہ ان پر پھونک مارو، میں نے پھونک ماری تو وہ غائب ہوگئے تو میں نے اسکی تعبیران دو کذابوں سے کی، جن کے درمیان میں ہوں، یعنی صنعاء والا (عنسی) اور یمامہ والا (مسیلمہ)
Narrated Abu Huraira: Allah's Apostle said, "While I was sleeping, I was given the treasures of the earth and two gold bangles were put in my hands, and I did not like that, but I received the inspiration that I should blow on them, and I did so, and both of them vanished. I interpreted it as referring to the two liars between whom I am present; the ruler of Sana and the Ruler of Yamaha."
حَدَّثَنَا الصَّلْتُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ سَمِعْتُ مَهْدِيَّ بْنَ مَيْمُونٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا رَجَائٍ الْعُطَارِدِيَّ يَقُولُ کُنَّا نَعْبُدُ الْحَجَرَ فَإِذَا وَجَدْنَا حَجَرًا هُوَ أَخْيَرُ مِنْهُ أَلْقَيْنَاهُ وَأَخَذْنَا الْآخَرَ فَإِذَا لَمْ نَجِدْ حَجَرًا جَمَعْنَا جُثْوَةً مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ جِئْنَا بِالشَّاةِ فَحَلَبْنَاهُ عَلَيْهِ ثُمَّ طُفْنَا بِهِ فَإِذَا دَخَلَ شَهْرُ رَجَبٍ قُلْنَا مُنَصِّلُ الْأَسِنَّةِ فَلَا نَدَعُ رُمْحًا فِيهِ حَدِيدَةٌ وَلَا سَهْمًا فِيهِ حَدِيدَةٌ إِلَّا نَزَعْنَاهُ وَأَلْقَيْنَاهُ شَهْرَ رَجَبٍ وَسَمِعْتُ أَبَا رَجَائٍ يَقُولُ کُنْتُ يَوْمَ بُعِثَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غُلَامًا أَرْعَی الْإِبِلَ عَلَی أَهْلِي فَلَمَّا سَمِعْنَا بِخُرُوجِهِ فَرَرْنَا إِلَی النَّارِ إِلَی مُسَيْلِمَةَ الْکَذَّابِ-
صلت بن محمد، مہدی بن میمون، ابورجاء عطاردی کہتے ہیں کہ ہم پتھروں کی عبادت کرتے تھے اگر ہمیں اس سے اچھا پتھر مل جاتا تو ہم پہلے کو پھینک کر وہ اٹھا لیتے اور اگر ہمیں کوئی پتھر نہ ملتا تو ہم مٹی کا ڈھیر جمع کرکے ایک بکری لاتے اور اس پر اس کا دودھ دوھ کر اس کا طواف کرتے اور جب رجب کا مہینہ آتا تو ہم کہتے کہ (یہ مہینہ) تیروں وغیرہ کی انی دور کرنے والا ہے چنانچہ ہم کسی نیزہ اور تیر کے پیکان کو نکالے بغیر نہ چھوڑتے اور اسے ہم رجب کے پورے مہینہ پھینکتے رہتے (مہدی کہتے ہیں کہ) ابورجاء یہ بھی فرماتے تھے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث ہوئے تو میں بچہ تھا اور اپنے گھر والوں کے اونٹ چرایا کرتا تھا جب ہم نے آپ کے ظہور کے بارہ میں سنا تو ہم دوزخ یعنی مسیلمہ کذاب کی طرف بھاگے۔
Narrated Abu Raja Al-Utaridi: We used to worship stones, and when we found a better stone than the first one, we would throw the first one and take the latter, but if we could not get a stone then we would collect some earth (i.e. soil) and then bring a sheep and milk that sheep over it, and perform the Tawaf around it. When the month of Rajab came, we used (to stop the military actions), calling this month the iron remover, for we used to remove and throw away the iron parts of every spear and arrow in the month of Rajab. Abu Raja' added: When the Prophet sent with (Allah's) Message, I was a boy working as a shepherd of my family camels. When we heard the news about the appearance of the Prophet, we ran to the fire, i.e. to Musailima al-Kadhdhab.