TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
صحیح بخاری
وضو کا بیان
منی دھونے اور اس کے رگڑ نے اور اس تری کے دھونے کا بیان جو عورت کو لگ جائے
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ قَالَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَکِ قَالَ أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَيْمُونٍ الْجَزَرِيُّ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ کُنْتُ أَغْسِلُ الْجَنَابَةَ مِنْ ثَوْبِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَخْرُجُ إِلَی الصَّلَاةِ وَإِنَّ بُقَعَ الْمَائِ فِي ثَوْبِهِ-
عبدان، عبداللہ بن مبارک، عمرو بن میمون جزری، سلیمان بن یسار، عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کپڑے سے جنابت کو دھو دیتی تھی، آپ (اسی کپڑے کو پہن کر) نماز کے لئے باہر تشریف لے جاتے تھے، حالانکہ کپڑے میں پانی (کی تری) باقی ہوتی تھی۔
Narrated 'Aisha: I used to wash the traces of Janaba (semen) from the clothes of the Prophet and he used to go for prayers while traces of water were still on it (water spots were still visible).
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ قَالَ حَدَّثَنَا عَمْرٌو يَعْنِي ابْنَ مَيْمُونٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ قَالَ سَمِعْتُ عَائِشَةَ ح و حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ قَالَ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَيْمُونٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ قَالَ سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنْ الْمَنِيِّ يُصِيبُ الثَّوْبَ فَقَالَتْ کُنْتُ أَغْسِلُهُ مِنْ ثَوْبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَخْرُجُ إِلَی الصَّلَاةِ وَأَثَرُ الْغَسْلِ فِي ثَوْبِهِ بُقَعُ الْمَائِ-
قتیبہ، یزید، عمرو، سلیمان بن یسار، عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، ح، مسدد، عبدالواحد، عمرو بن میمون، سلیمان بن یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے اس منی کے بارے میں پوچھا جو کپڑے پر لگ جائے، تو انہوں نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے سے دھو ڈالتی تھی اور آپ نماز کے لئے باہر تشریف لے جاتے تھے، حالانکہ آپ کے لباس میں دھونے کا اثر یعنی پانی کے دھبے ہوتے تھے۔
Narrated Sulaiman bin Yasar: I asked 'Aisha about the clothes soiled with semen. She replied, "I used to wash it off the clothes of Allah's Apostle and he would go for the prayer while water spots were still visible.”