مال غنیمت کے پانچویں حصہ کی فرضیت کا بیان

حَدَّثَنَا عَبْدَانُ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ أَخْبَرَنَا يُونُسُ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ أَنَّ حُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ عَلَيْهِمَا السَّلَام أَخْبَرَهُ أَنَّ عَلِيًّا قَالَ کَانَتْ لِي شَارِفٌ مِنْ نَصِيبِي مِنْ الْمَغْنَمِ يَوْمَ بَدْرٍ وَکَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْطَانِي شَارِفًا مِنْ الْخُمُسِ فَلَمَّا أَرَدْتُ أَنْ أَبْتَنِيَ بِفَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاعَدْتُ رَجُلًا صَوَّاغًا مِنْ بَنِي قَيْنُقَاعَ أَنْ يَرْتَحِلَ مَعِيَ فَنَأْتِيَ بِإِذْخِرٍ أَرَدْتُ أَنْ أَبِيعَهُ الصَّوَّاغِينَ وَأَسْتَعِينَ بِهِ فِي وَلِيمَةِ عُرْسِي فَبَيْنَا أَنَا أَجْمَعُ لِشَارِفَيَّ مَتَاعًا مِنْ الْأَقْتَابِ وَالْغَرَائِرِ وَالْحِبَالِ وَشَارِفَايَ مُنَاخَتَانِ إِلَی جَنْبِ حُجْرَةِ رَجُلٍ مِنْ الْأَنْصَارِ رَجَعْتُ حِينَ جَمَعْتُ مَا جَمَعْتُ فَإِذَا شَارِفَايَ قَدْ اجْتُبَّ أَسْنِمَتُهُمَا وَبُقِرَتْ خَوَاصِرُهُمَا وَأُخِذَ مِنْ أَکْبَادِهِمَا فَلَمْ أَمْلِکْ عَيْنَيَّ حِينَ رَأَيْتُ ذَلِکَ الْمَنْظَرَ مِنْهُمَا فَقُلْتُ مَنْ فَعَلَ هَذَا فَقَالُوا فَعَلَ حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَهُوَ فِي هَذَا الْبَيْتِ فِي شَرْبٍ مِنْ الْأَنْصَارِ فَانْطَلَقْتُ حَتَّی أَدْخُلَ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ زَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ فَعَرَفَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي وَجْهِي الَّذِي لَقِيتُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا لَکَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا رَأَيْتُ کَالْيَوْمِ قَطُّ عَدَا حَمْزَةُ عَلَی نَاقَتَيَّ فَأَجَبَّ أَسْنِمَتَهُمَا وَبَقَرَ خَوَاصِرَهُمَا وَهَا هُوَ ذَا فِي بَيْتٍ مَعَهُ شَرْبٌ فَدَعَا النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرِدَائِهِ فَارْتَدَی ثُمَّ انْطَلَقَ يَمْشِي وَاتَّبَعْتُهُ أَنَا وَزَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ حَتَّی جَائَ الْبَيْتَ الَّذِي فِيهِ حَمْزَةُ فَاسْتَأْذَنَ فَأَذِنُوا لَهُمْ فَإِذَا هُمْ شَرْبٌ فَطَفِقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَلُومُ حَمْزَةَ فِيمَا فَعَلَ فَإِذَا حَمْزَةُ قَدْ ثَمِلَ مُحْمَرَّةً عَيْنَاهُ فَنَظَرَ حَمْزَةُ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ صَعَّدَ النَّظَرَ فَنَظَرَ إِلَی رُکْبَتِهِ ثُمَّ صَعَّدَ النَّظَرَ فَنَظَرَ إِلَی سُرَّتِهِ ثُمَّ صَعَّدَ النَّظَرَ فَنَظَرَ إِلَی وَجْهِهِ ثُمَّ قَالَ حَمْزَةُ هَلْ أَنْتُمْ إِلَّا عَبِيدٌ لِأَبِي فَعَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَدْ ثَمِلَ فَنَکَصَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَی عَقِبَيْهِ الْقَهْقَرَی وَخَرَجْنَا مَعَهُ-
عبدان عبداللہ یونس زہری علی بن حسین حسین بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ علی نے کہا کہ بدر کے دن مال غنیمت میں سے ایک اونٹنی میرے حصہ میں آئی تھی اور خمس کے مال میں سے ایک اونٹنی رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے مرحمت فرمائی تھی پھر جب میں نے حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شب زفاف کا ارادہ کیا تو میں نے بنو قینقاع کے ایک سنار سے ٹھہرا لیا کہ وہ میرے ہمرا چل کر اذخر لے آئیں اور میں وہ ازخرسناروں کے ہاتھ بیچ کر اس سے اپنے نکاح کی دعوت ولیمہ میں امداد حاصل کروں اور اس دوران میں کہ میں اپنی اونٹنی پر متعلقہ سامان از قبیل کجاوہ گھاس رکھنے کا جال اور رسیاں رکھنے کے لئے جمع کر رہا تھا اور میری یہ دونوں اونٹنیاں ایک انصاری کے کمرہ کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں جب کہ میں سامان لے کر لوٹا تو دیکھا کہ میری دونوں اونٹنیوں کے کوہان کاٹ لئے گئے ہیں اور ان کے کولہے توڑ دئیے گئے ہیں اور ان کی کلچیاں نکال لی گئیں ہیں تو یہ منظر دیکھ کر مجھے اپنی آنکھوں پر قابو نہیں رہا اور میں نے پوچھا کہ یہ کس کی حرکت ہے؟ تو لوگوں نے بیان کیا کہ حمزہ بن عبدالمطلب نے سب کاروائی کی ہے اور جو اسی گھر میں چند شرابی انصاریوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے چنانچہ میں روانہ ہو کر سیدھا رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا اور اس وقت آپ کے پاس زید بن حارثہ بیٹھے ہوئے تھے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے چہرے سے میری کیفیات دلی کو پہچان کر فرمایا کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آج کے جیسا دن میں نے کبھی نہیں دیکھا حمزہ نے میری اونٹنیوں پر ظلم کیا ان کے کوہان کاٹ لئے اور ان کے کولہے توڑ ڈالے اور وہ ایک گھر میں بیٹھا ہوا شراب پی رہا تھا تو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر منگوا کر اوڑھی اور چل دیئے اور آپ کے ساتھ میں اور زید بن حارثہ تھے جہاں حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے آپ نے اس گھر میں پہنچ کر اندر آنے کی اجازت طلب کی اور ان کی اجازت پر آپ اندر تشریف لائے تو آپ نے سب کو شراب نوشی کرتے تھے اور حمزہ کو ان کی حرکت پر ملامت کرنے لگے مگر حمزہ بد مست تھے اور ان کی سرخ سرخ آنکھیں باہر نکلی پڑ رہی تھیں انہوں نے پہلے تو نظریں اٹھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گھٹنوں تک دیکھا پھر ناف تک دیکھا پھر آنکھیں اونچی کر کے آپ کے چہرے کو دیکھ کر کہا تم لوگ تو میرے باپ کے غلام ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سمجھ گئے کہ حمزہ شراب کے نشے میں بالکل مست ہے پھر آپ الٹے پاؤں لوٹ آئے اور ہم بھی آپ کے ساتھ ہی واپس آگئے۔
Narrated Ali: I got a she-camel in my share of the war booty on the day (of the battle) of Badr, and the Prophet had given me a she-camel from the Khumus. When I intended to marry Fatima, the daughter of Allah's Apostle, I had an appointment with a goldsmith from the tribe of Bani Qainuqa' to go with me to bring Idhkhir (i.e. grass of pleasant smell) and sell it to the goldsmiths and spend its price on my wedding party. I was collecting for my she-camels equipment of saddles, sacks and ropes while my two she-camels were kneeling down beside the room of an Ansari man. I returned after collecting whatever I collected, to see the humps of my two she-camels cut off and their flanks cut open and some portion of their livers was taken out. When I saw that state of my two she-camels, I could not help weeping. I asked, "Who has done this?" The people replied, "Hamza bin Abdul Muttalib who is staying with some Ansari drunks in this house." I went away till I reached the Prophet and Zaid bin Haritha was with him. The Prophet noticed on my face the effect of what I had suffered, so the Prophet asked. "What is wrong with you." I replied, "O Allah's Apostle! I have never seen such a day as today. Hamza attacked my two she-camels, cut off their humps, and ripped open their flanks, and he is sitting there in a house in the company of some drunks." The Prophet then asked for his covering sheet, put it on, and set out walking followed by me and Zaid bin Haritha till he came to the house where Hamza was. He asked permission to enter, and they allowed him, and they were drunk. Allah's Apostle started rebuking Hamza for what he had done, but Hamza was drunk and his eyes were red. Hamza looked at Allah's Apostle and then he raised his eyes, looking at his knees, then he raised up his eyes looking at his umbilicus, and again he raised up his eyes look in at his face. Hamza then said, "Aren't you but the slaves of my father?" Allah's Apostle realized that he was drunk, so Allah's Apostle retreated, and we went out with him.
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ صَالِحٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ عَائِشَةَ أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَخْبَرَتْهُ أَنَّ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَام ابْنَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَلَتْ أَبَا بَکْرٍ الصِّدِّيقَ بَعْدَ وَفَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَقْسِمَ لَهَا مِيرَاثَهَا مِمَّا تَرَکَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا أَفَائَ اللَّهُ عَلَيْهِ فَقَالَ لَهَا أَبُو بَکْرٍ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا نُورَثُ مَا تَرَکْنَا صَدَقَةٌ فَغَضِبَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَهَجَرَتْ أَبَا بَکْرٍ فَلَمْ تَزَلْ مُهَاجِرَتَهُ حَتَّی تُوُفِّيَتْ وَعَاشَتْ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِتَّةَ أَشْهُرٍ قَالَتْ وَکَانَتْ فَاطِمَةُ تَسْأَلُ أَبَا بَکْرٍ نَصِيبَهَا مِمَّا تَرَکَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ خَيْبَرَ وَفَدَکٍ وَصَدَقَتَهُ بِالْمَدِينَةِ فَأَبَی أَبُو بَکْرٍ عَلَيْهَا ذَلِکَ وَقَالَ لَسْتُ تَارِکًا شَيْئًا کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْمَلُ بِهِ إِلَّا عَمِلْتُ بِهِ فَإِنِّي أَخْشَی إِنْ تَرَکْتُ شَيْئًا مِنْ أَمْرِهِ أَنْ أَزِيغَ فَأَمَّا صَدَقَتُهُ بِالْمَدِينَةِ فَدَفَعَهَا عُمَرُ إِلَی عَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ وَأَمَّا خَيْبَرُ وَفَدَکٌ فَأَمْسَکَهَا عُمَرُ وَقَالَ هُمَا صَدَقَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَتَا لِحُقُوقِهِ الَّتِي تَعْرُوهُ وَنَوَائِبِهِ وَأَمْرُهُمَا إِلَی مَنْ وَلِيَ الْأَمْرَ قَالَ فَهُمَا عَلَی ذَلِکَ إِلَی الْيَوْمِ قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ اعْتَرَاکَ افْتَعَلْتَ مِنْ عَرَوْتُهُ فَأَصَبْتُهُ وَمِنْهُ يَعْرُوهُ وَاعْتَرَانِي-
عبدالعزیز بن عبداللہ ابراہیم بن سعد صالح ابن شہاب عروہ بن زبیر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے استدعا کی کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ترکہ میں سے جو اللہ تعالیٰ نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بطور فئے عنایت فرمایا تھا ان کا میراثی حصہ ان کو دیدیں تو صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماگئے ہیں کہ ہمارے مال میں عمل میراث نہیں ہوتا ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ سب صدقہ ہے اس پر جناب فاطمہ ناخوش سی ہوئیں اور اپنی وفات تک صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے گفتگو نہ کی رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد آپ چھ ماہ تک زندہ رہیں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ جناب فاطمہ نے صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اپنا حصہ رسول اللہ کے مال متروکہ خیبر و فد میں سے اور اس مال صدقہ میں سے جو مدینہ منورہ موجود تھا طلب کیا تو صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے دینے سے انکار کیا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو کچھ اس میں تصرف فرمایا ہے میں اس میں سے آپ کے کسی عمل کو نہیں چھوڑ سکتا میں ڈرتا ہوں کہ اگر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ اس میں تصرف فرمایا میں اس میں سے آپ کے کسی عمل کو نہیں چھوڑ سکتا میں ڈرتا ہوں کہ اگر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ عمل سے کچھ بھی چھوڑ دوں گا تو گم کردہ راہ ہو جاؤں گا سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مال موقوفہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضر علی اور حضرت عباس کو دے دیا تھا لیکن خیبر اور فدک اپنی نگرانی میں رکھا تھا اور کہا تھا کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا وقف ہے اور آپ نے ان دونوں کو ان مصارف و ضروریات کے لیے رکھا تھا جو درپیش ہوتے رہتے تھے اور ان کے انتظام کا اختیار خلیفہ وقت کو دیا تھا امام بخاری نے کہا ہے کہ یہ دونوں آج کی تاریخ تک اپنی اسی حالت و کیفیت میں بطور واقف موجود ہیں۔
Narrated 'Aisha: (mother of the believers) After the death of Allah 's Apostle Fatima the daughter of Allah's Apostle asked Abu Bakr As-Siddiq to give her, her share of inheritance from what Allah's Apostle had left of the Fai (i.e. booty gained without fighting) which Allah had given him. Abu Bakr said to her, "Allah's Apostle said, 'Our property will not be inherited, whatever we (i.e. prophets) leave is Sadaqa (to be used for charity)." Fatima, the daughter of Allah's Apostle got angry and stopped speaking to Abu Bakr, and continued assuming that attitude till she died. Fatima remained alive for six months after the death of Allah's Apostle. She used to ask Abu Bakr for her share from the property of Allah's Apostle which he left at Khaibar, and Fadak, and his property at Medina (devoted for charity). Abu Bakr refused to give her that property and said, "I will not leave anything Allah's Apostle used to do, because I am afraid that if I left something from the Prophet's tradition, then I would go astray." (Later on) Umar gave the Prophet's property (of Sadaqa) at Medina to 'Ali and 'Abbas, but he withheld the properties of Khaibar and Fadak in his custody and said, "These two properties are the Sadaqa which Allah's Apostle used to use for his expenditures and urgent needs. Now their management is to be entrusted to the ruler." (Az-Zuhrl said, "They have been managed in this way till today.")
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْفَرْوِيُّ حَدَّثَنَا مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ مَالِکِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ وَکَانَ مُحَمَّدُ بْنُ جُبَيْرٍ ذَکَرَ لِي ذِکْرًا مِنْ حَدِيثِهِ ذَلِکَ فَانْطَلَقْتُ حَتَّی أَدْخُلَ عَلَی مَالِکِ بْنِ أَوْسٍ فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِکَ الْحَدِيثِ فَقَالَ مَالِکٌ بَيْنَا أَنَا جَالِسٌ فِي أَهْلِي حِينَ مَتَعَ النَّهَارُ إِذَا رَسُولُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ يَأْتِينِي فَقَالَ أَجِبْ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ فَانْطَلَقْتُ مَعَهُ حَتَّی أَدْخُلَ عَلَی عُمَرَ فَإِذَا هُوَ جَالِسٌ عَلَی رِمَالِ سَرِيرٍ لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ فِرَاشٌ مُتَّکِئٌ عَلَی وِسَادَةٍ مِنْ أَدَمٍ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ ثُمَّ جَلَسْتُ فَقَالَ يَا مَالِ إِنَّهُ قَدِمَ عَلَيْنَا مِنْ قَوْمِکَ أَهْلُ أَبْيَاتٍ وَقَدْ أَمَرْتُ فِيهِمْ بِرَضْخٍ فَاقْبِضْهُ فَاقْسِمْهُ بَيْنَهُمْ فَقُلْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ لَوْ أَمَرْتَ بِهِ غَيْرِي قَالَ اقْبِضْهُ أَيُّهَا الْمَرْئُ فَبَيْنَا أَنَا جَالِسٌ عِنْدَهُ أَتَاهُ حَاجِبُهُ يَرْفَا فَقَالَ هَلْ لَکَ فِي عُثْمَانَ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ وَالزُّبَيْرِ وَسَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ يَسْتَأْذِنُونَ قَالَ نَعَمْ فَأَذِنَ لَهُمْ فَدَخَلُوا فَسَلَّمُوا وَجَلَسُوا ثُمَّ جَلَسَ يَرْفَا يَسِيرًا ثُمَّ قَالَ هَلْ لَکَ فِي عَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ قَالَ نَعَمْ فَأَذِنَ لَهُمَا فَدَخَلَا فَسَلَّمَا فَجَلَسَا فَقَالَ عَبَّاسٌ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ هَذَا وَهُمَا يَخْتَصِمَانِ فِيمَا أَفَائَ اللَّهُ عَلَی رَسُولِهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَالِ بَنِي النَّضِيرِ فَقَالَ الرَّهْطُ عُثْمَانُ وَأَصْحَابُهُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ اقْضِ بَيْنَهُمَا وَأَرِحْ أَحَدَهُمَا مِنْ الْآخَرِ قَالَ عُمَرُ تَيْدَکُمْ أَنْشُدُکُمْ بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَائُ وَالْأَرْضُ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا نُورَثُ مَا تَرَکْنَا صَدَقَةٌ يُرِيدُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَفْسَهُ قَالَ الرَّهْطُ قَدْ قَالَ ذَلِکَ فَأَقْبَلَ عُمَرُ عَلَی عَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ فَقَالَ أَنْشُدُکُمَا اللَّهَ أَتَعْلَمَانِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ قَالَ ذَلِکَ قَالَا قَدْ قَالَ ذَلِکَ قَالَ عُمَرُ فَإِنِّي أُحَدِّثُکُمْ عَنْ هَذَا الْأَمْرِ إِنَّ اللَّهَ قَدْ خَصَّ رَسُولَهُ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْفَيْئِ بِشَيْئٍ لَمْ يُعْطِهِ أَحَدًا غَيْرَهُ ثُمَّ قَرَأَ وَمَا أَفَائَ اللَّهُ عَلَی رَسُولِهِ مِنْهُمْ إِلَی قَوْلِهِ قَدِيرٌ فَکَانَتْ هَذِهِ خَالِصَةً لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاللَّهِ مَا احْتَازَهَا دُونَکُمْ وَلَا اسْتَأْثَرَ بِهَا عَلَيْکُمْ قَدْ أَعْطَاکُمُوهَا وَبَثَّهَا فِيکُمْ حَتَّی بَقِيَ مِنْهَا هَذَا الْمَالُ فَکَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنْفِقُ عَلَی أَهْلِهِ نَفَقَةَ سَنَتِهِمْ مِنْ هَذَا الْمَالِ ثُمَّ يَأْخُذُ مَا بَقِيَ فَيَجْعَلُهُ مَجْعَلَ مَالِ اللَّهِ فَعَمِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَلِکَ حَيَاتَهُ أَنْشُدُکُمْ بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمُونَ ذَلِکَ قَالُوا نَعَمْ ثُمَّ قَالَ لِعَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ أَنْشُدُکُمَا بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمَانِ ذَلِکَ قَالَ عُمَرُ ثُمَّ تَوَفَّی اللَّهُ نَبِيَّهُ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَبَضَهَا أَبُو بَکْرٍ فَعَمِلَ فِيهَا بِمَا عَمِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُ فِيهَا لَصَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ ثُمَّ تَوَفَّی اللَّهُ أَبَا بَکْرٍ فَکُنْتُ أَنَا وَلِيَّ أَبِي بَکْرٍ فَقَبَضْتُهَا سَنَتَيْنِ مِنْ إِمَارَتِي أَعْمَلُ فِيهَا بِمَا عَمِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا عَمِلَ فِيهَا أَبُو بَکْرٍ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنِّي فِيهَا لَصَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ ثُمَّ جِئْتُمَانِي تُکَلِّمَانِي وَکَلِمَتُکُمَا وَاحِدَةٌ وَأَمْرُکُمَا وَاحِدٌ جِئْتَنِي يَا عَبَّاسُ تَسْأَلُنِي نَصِيبَکَ مِنْ ابْنِ أَخِيکَ وَجَائَنِي هَذَا يُرِيدُ عَلِيًّا يُرِيدُ نَصِيبَ امْرَأَتِهِ مِنْ أَبِيهَا فَقُلْتُ لَکُمَا إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا نُورَثُ مَا تَرَکْنَا صَدَقَةٌ فَلَمَّا بَدَا لِي أَنْ أَدْفَعَهُ إِلَيْکُمَا قُلْتُ إِنْ شِئْتُمَا دَفَعْتُهَا إِلَيْکُمَا عَلَی أَنَّ عَلَيْکُمَا عَهْدَ اللَّهِ وَمِيثَاقَهُ لَتَعْمَلَانِ فِيهَا بِمَا عَمِلَ فِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِمَا عَمِلَ فِيهَا أَبُو بَکْرٍ وَبِمَا عَمِلْتُ فِيهَا مُنْذُ وَلِيتُهَا فَقُلْتُمَا ادْفَعْهَا إِلَيْنَا فَبِذَلِکَ دَفَعْتُهَا إِلَيْکُمَا فَأَنْشُدُکُمْ بِاللَّهِ هَلْ دَفَعْتُهَا إِلَيْهِمَا بِذَلِکَ قَالَ الرَّهْطُ نَعَمْ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَی عَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ فَقَالَ أَنْشُدُکُمَا بِاللَّهِ هَلْ دَفَعْتُهَا إِلَيْکُمَا بِذَلِکَ قَالَا نَعَمْ قَالَ فَتَلْتَمِسَانِ مِنِّي قَضَائً غَيْرَ ذَلِکَ فَوَاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَائُ وَالْأَرْضُ لَا أَقْضِي فِيهَا قَضَائً غَيْرَ ذَلِکَ فَإِنْ عَجَزْتُمَا عَنْهَا فَادْفَعَاهَا إِلَيَّ فَإِنِّي أَکْفِيکُمَاهَا-
اسحاق مالک بن انس ابن شہاب مالک بن اوس سے روایت کرتے ہیں کہ محمد بن جبیر نے مجھ سے یہ حدیث بیان کی ہے تو میں روانہ ہو کر مالک بن اوس کے پاس پہنچا اور ان سے اس حدیث کے بارے میں دریافت کیا تو مالک نے کہا کہ میں اپنے اہل و عیال میں بیٹھا ہوا تھا اور دن چڑھ آیا تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قاصد نے آکر کہا کہ تم فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس چلو تو میں اس کے ساتھ چل دیا اور فاروق اعظم کے پاس پہنچا تو وہ کھجور کی چھال سے بنی ہوئی کھری چارپائی پر چمڑے کے ایک تکیہ سے ٹیک لگائے ہوئے رونق افروز تھے میں انہیں سلام کرکے بیٹھ گیا تو آپ نے فرمایا اے مالک! میرے پاس تمہاری قوم کے کچھ گھر والے آئے اور میں نے ان کو کچھ دینے کا حکم دیا ہے لہذا تم وہ مال لے کر ان میں تقسیم کردو اس پر مالک نے عرض کیا کہ اے امیرالمومنین اگر آپ میرے علاوہ کسی اور کو حکم دیتے تو زیادہ مناسب ہے تو آپ نے فرمایا کہ اے بندہ خدا ان کو کچہ دیدے اس ثناء میں کہ میں آپ کے پاس بیٹھا ہی ہوا تھا کہ یرفا دربان نے عرض کیا کہ عثمان، عبدالرحمن بن عوف، زبیر، اور سعد بن ابی وقاص آپ سے ملنا چاہتے ہیں جواب دیا کہ وہ شوق سے آئیں، چنانچہ وہ لوگ آکر سلام کرکے بیٹھ گئے اس کے کچھ دیر بعد یرفا جو دروازے پر بیٹھا تھا اندرآیا اور اس نے کہا کہ علی اور عباس آپ سے ملنا چاہتے ہیں آپ نے فرمایا بصد شوق سے آئیں چنانچہ یہ دونوں بھی اندر آکر سلام کے بعد بیٹھ گئے پھر حضرت عباس نے کہا امیرالمومنین آپ میرے اور ان (علی) کے درمیان تصفیہ کردیں اور دونوں اس چیز کے بارے میں جھگڑ رہے تھے جو اللہ نے رسالت مآب کو بنونضیر کے مال میں سے بطور فئے دیا تھا جس پر حضرت عثمان اور ان کے ساتھیوں نے کہا کہ اے امیرالمومنین آپ ان دونوں کے جھگڑے کے درمیان فیصلہ فرمادیں اور ایک کو دوسرے سے چھٹکارا دلا دیں (یہ سن کر) حضرت عمرنے کہا کہ ٹھہرو میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں جس کے حکم سے آسمان و زمین ٹھہرے ہوئے ہیں تم سب جانتے ہو کہ رسالت مآب نے فرمایا کہ ہمارا کوئی وارث نہیں ہے جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ سب صدقہ ہے اور سرور عالم اپنے ہی مال کے لیے یہ فرمایا کرتے تھے، اس پر لوگوں نے کہا جی ہاں سرور دوعالم نے یہی فرمایا ہے اس کے بعد فاروق اعظم نے جناب علی و جناب عباس کی طرف رخ کرکے کہا کہ میں تم دونوں کو اللہ کی قسم دلاتا ہوں کہ کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ نے یہی فرمایا ہے تو دونوں نے کہا جی ہاں۔ اس کے بعد فاروق اعظم نے کہا کہ اب میں تم سے اس معاملہ پر گفتگو کرتا ہوں بے شک اللہ نے رسالت مآب کو اس مال غنیمت میں سے ایک چیز کے ساتھ مختص کردیا تھا جو فئی ہے۔ جو آپ کے علاوہ کسی اور کو نہیں دی گئی پھر یہ آیت پڑھی اور جو مال غنیمت بطور فئے اللہ نے رسول اللہ کو دیا ہے اس پر نہ تم نے گھوڑے دوڑائے اور نہ سوار، اور اللہ اپنے رسول کو جس پر چاہتا ہے مسلط کر دیتا ہے اور اللہ ہر کام پر قادر ہے پس یہ مال خالص سرور عالم کے لیے تھا اللہ کی قسم تم کو چھوڑ کر یہ مال سرور عالم نے نہیں لیا اور یہ یہ مال صرف اکیلے تمہاری ذات کو دیا بلکہ اس مال میں سے تم سب کو دیا اور تم سب میں بانٹ دیا تھا اور اس مال میں سے جو باقی بچ جاتا تھا تو سرور عالم اس مال میں سے اپنا یا اہل وعیال کی سال بھی کی ضروریات کے لئے خرچ کر دیتے اور اس کے بعد جو کچھ بچ جاتا تو آپ اس مال کو اسی مصرف میں خرچ کر دیتے جس میں اللہ کا مال یعنی صدقہ خرچ کیا جاتا نیز رسول اللہ اپنی عمر بھر کے لیے یہی عمل کرتے رہے اے لوگو تم سے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم یہ جانتے ہو؟ لوگوں نے جواب دیا جی ہاں پھر جناب علی اور جناب عباس کی طرف متوجہ ہو کر کہا میں آپ دونوں کو بھی اللہ کی قسم دلا کر پوچھتا ہوں کہ آپ دونوں بھی اس سے واقف ہیں؟ انہوں نے جواب دیا جی ہاں۔ پھر فرمایا فاروق اعظم نے اللہ نے رسالت مآب کو وفات دی تو ان کی جگہ صدیق اکبر نے یہ کہہ کر کہ میں رسالت مآب کا جانشین ہوں اس مال موقوفہ کو اپنی نگرانی میں لیا اور اس میں انہوں نے وہی کام کیا جو رسالت مآب کا عمل تھا اور اللہ جانتا ہے کہ وہ اس معاملہ میں سچے، نیکوکار، ہدایت یافتہ اور حق کے پابند تھے، ان کی وفات کے بعد میں ان کا جانشین ہوں میں نے اپنی خلافت کے دو سال میں وہی کام کیا ہے جو سرور عالم اور صدیق اکبر کا عمل تھا اور اللہ جانتا ہے کہ میں اس معاملہ میں سچا، نیکوکار، ہدایت یافتہ اور حق کا پیروکار ہوں، آج تم دونوں میرے پاس آئے ہو اور گفتگو کر رہے ہو اور تم دونوں کا مقصد واحد ہے اور بات بھی ایک ہی ہے اے عباس تم اپنا حصہ اپنے بھتیجے کے مال میں سے طلب کر رہے ہو اور یہ علی اپنا حصہ اپنے خسر کے مال میں سے مانگ رہے ہں اور میں تمام احکام تمہیں بتا چکا ہوں جن کو تم سب جانتے ہو کہ رسول اللہ نے فرمایا ہمارا کوئی وارث نہیں اور ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ سب صدقہ ہے اور پھر جب مجھے یہ مناسب معلوم ہوا کہ اس کو تمہاری تحویل میں دیدوں تو میں نے تم سے کہا تھا کہ اگر تم چاہتے ہو تو میں اس کو اس شرط پر تمہارے حوالہ کردوں کہ تم اللہ سے قول وقرار اور عہدو پیمان باندھ لو کہ تم اس میں وہی کرو گے جو رسول اللہ اور صدیق اکبر اور میں نے اپنی ابتدائی خلافت سے اب تک عمل کیا ہے اور تم دونوں نے کہا تھا کہ اس شرط پر یہ مال ہمارے حوالہ کردو تو میں نے وہ مال تمہیں سونپ دیا اب میں تم سے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ وہ مال اسی مندرجہ بالا شرط پر دیا تھا یا نہیں، تو انہوں نے کہا جی بس اسی شرط پر جو سرور عالم کا عمل تھا اس کے بعد فاروق اعظم نے ان دونوں جناب علی وجناب عباس کی جانب متوجہ ہو کر کہا کہ میں نے اسی شرط پر مال تمہیں سپرد کیا تھا یا نہیں؟ تو انہوں نے یک زبان ہو کر کہا جی ہاں اس کے بعد حضرت فاروق اعظم نے کہا تو اب تم مجھ سے اس امر فیصل شدہ کے خلاف تصفیہ کرانے کی خواہش کیوں کرتے ہو قسم ہے اللہ کی جس کے حکم سے زمین و آسمان قائم ہیں، میں اس معاملہ میں رسول اللہ کے احکام عمل کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کروں گا اور اگر تم اب اس کے انتظام سے عاجز آگئے ہو تو اس کا انتظام مجھے لوٹا دو میں تمہاری طرف سے اس کے انتظام کے لیے بہت کافی ہوں۔
Narrated Malik bin Aus: While I was at home, the sun rose high and it got hot. Suddenly the messenger of 'Umar bin Al-Khattab came to me and said, "The chief of the believers has sent for you." So, I went along with him till I entered the place where 'Umar was sitting on a bedstead made of date-palm leaves and covered with no mattress, and he was leaning over a leather pillow. I greeted him and sat down. He said, "O Malik! Some persons of your people who have families came to me and I have ordered that a gift should be given to them, so take it and distribute it among them." I said, "O chief of the believers! I wish that you order someone else to do it." He said, "O man! Take it." While I was sitting there with him, his doorman Yarfa' came saying, "'Uthman, 'Abdur-Rahman bin 'Auf, Az-Zubair and Sad bin Abi Waqqas are asking your permission (to see you); may I admit them?" 'Umar said, "Yes", So they were admitted and they came in, greeted him, and sat down. After a while Yarfa' came again and said, "May I admit 'Ali and 'Abbas?" 'Umar said, "yes." So, they were admitted and they came in and greeted (him) and sat down. Then 'Abbas said, "O chief of the believers! Judge between me and this (i.e. 'Ali)." They had a dispute regarding the property of Bani An-Nadir which Allah had given to His Apostle as Fai. The group (i.e. 'Uthman and his companions) said, "O chief of the believers! Judge between them and relieve both of them front each other." 'Umar said, "Be patient! I beseech you by Allah by Whose Permission the Heaven and the Earth exist, do you know that Allah's Apostle said, 'Our (i.e. prophets') property will not be inherited, and whatever we leave, is Sadaqa (to be used for charity),' and Allah's Apostle meant himself (by saying "we'')?" The group said, "He said so." 'Umar then turned to 'Ali and 'Abbas and said, "I beseech you by Allah, do you know that Allah's Apostle said so?" They replied, " He said so." 'Umar then said, "So, I will talk to you about this matter. Allah bestowed on His Apostle with a special favor of something of this Fai (booty) which he gave to nobody else." 'Umar then recited the Holy Verses: "What Allah bestowed as (Fai) Booty on his Apostle (Muhammad) from them --- for this you made no expedition with either cavalry or camelry: But Allah gives power to His Apostles over whomever He will 'And Allah is able to do all things." 9:6) 'Umar added "So this property was especially given to Allah's Apostle, but, by Allah, neither did he take possession of it and leave your, nor did he favor himself with it to your exclusion, but he gave it to all of you and distributed it amongst you till this property remained out of it. Allah's Apostle used to spend the yearly expenses of his family out of this property and used to keep the rest of its revenue to be spent on Allah 's Cause. Allah 's Apostle kept on doing this during all his lifetime. I ask you by Allah do you know this?" They replies in the affirmative. 'Umar then said to 'Ali and 'Abbas. "I ask you by Allah, do you know this?" 'Umar added, "When Allah had taken His Prophet unto Him, 'Abu Bakr said, 'I am the successor of Allah's Apostle so, Abu Bakr took over that property and managed it in the same way as Allah's Apostle used to do, and Allah knows that he was true, pious and rightly-guided, and he was a follower of what was right. Then Allah took Abu Bakr unto Him and I became Abu Bakr's successor, and I kept that property in my possession for the first two years of my Caliphate, managing it in the same way as Allah's Apostle used to do and as Abu Bakr used to do, and Allah knows that I have been true, pious, rightly guided, and a follower of what is right. Now you both (i.e. 'Ah and 'Abbas) came to talk to me, bearing the same claim and presenting the same case; you, 'Abbas, came to me asking for your share from your nephew's property, and this man, i.e. 'Ali, came to me asking for his wife's share from her father's property. I told you both that Allah's Apostle said, 'Our (prophets') properties are not to be inherited, but what we leave is Sadaqa (to be used for charity).' When I thought it right that I should hand over this property to you, I said to you, 'I am ready to hand over this property to you if you wish, on the condition that you would take Allah's Pledge and Convention that you would manage it in the same way as Allah's Apostle used to, and as Abu Bakr used to do, and as I have done since I was in charge of it.' So, both of you said (to me), 'Hand it over to us,' and on that condition I handed it over to you. So, I ask you by Allah, did I hand it over to them on this condition?" The group aid, "Yes." Then 'Umar faced 'Ali and Abbas saying, "I ask you by Allah, did I hand it over to you on this condition?" They said, "Yes. " He said, " Do you want now to give a different decision? By Allah, by Whose Leave both the Heaven and the Earth exist, I will never give any decision other than that (I have already given). And if you are unable to manage it, then return it to me, and I will do the job on your behalf.