غزوہ رجیع کا بیان

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرٍو سَمِعَ جَابِرًا يَقُولُ الَّذِي قَتَلَ خُبَيْبًا هُوَ أَبُو سِرْوَعَةَ-
عبداللہ بن محمد، سفیان، عمرو بن دینار سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا کہ خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ابوسروعہ (عقبہ بن حارث) نے قتل کیا تھا۔
Narrated Jabir: The person who killed Khubaib was Abu Sarua (i.e. 'Uqba bin Al-Harith).
حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْعِينَ رَجُلًا لِحَاجَةٍ يُقَالُ لَهُمْ الْقُرَّائُ فَعَرَضَ لَهُمْ حَيَّانِ مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ رِعْلٌ وَذَکْوَانُ عِنْدَ بِئْرٍ يُقَالُ لَهَا بِئْرُ مَعُونَةَ فَقَالَ الْقَوْمُ وَاللَّهِ مَا إِيَّاکُمْ أَرَدْنَا إِنَّمَا نَحْنُ مُجْتَازُونَ فِي حَاجَةٍ لِلنَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَتَلُوهُمْ فَدَعَا النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ شَهْرًا فِي صَلَاةِ الْغَدَاةِ وَذَلِکَ بَدْئُ الْقُنُوتِ وَمَا کُنَّا نَقْنُتُ قَالَ عَبْدُ الْعَزِيزِ وَسَأَلَ رَجُلٌ أَنَسًا عَنْ الْقُنُوتِ أَبَعْدَ الرُّکُوعِ أَوْ عِنْدَ فَرَاغٍ مِنْ الْقِرَائَةِ قَالَ لَا بَلْ عِنْدَ فَرَاغٍ مِنْ الْقِرَائَةِ-
ابو معمر، عبدالوارث بن سعید، عبدالعزیز، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ستر صحابیوں کو جن کو ہم قاری کہتے تھے کسی کام کے لئے بھیجا بنو سلیم کے دو قبیلے رعل اور ذکوان نے بیرمعونہ کے پاس ان کو گھیر لیا اور مارنے لگے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا خدا کی قسم! ہم لڑنے کے لئے نہیں آئے بلکہ ہم کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کام کی غرض سے روانہ کیا ہے مگر کفار نے کوئی دھیان نہیں دیا اور سب کو شہید کردیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینہ تک صبح کی نماز میں بد دعا فرمائی یہاں سے قنوت کی ابتدا ہوتی ہے اس سے قبل ہم قنوت نہیں پڑھتے تھے عبدالعزیز (شاگرد انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کہتے ہیں کہ کسی نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ قنوت رکوع کے بعد ہے یا قراۃ سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے جواب دیا قرات سے فارغ ہو کر رکوع سے پہلے۔
Narrated 'Abdul Aziz: Anas said, "The Prophet sent seventy men, called Al-Qurra 'for some purpose. The two groups of Bani Sulaim called Ri'l and Dhakwan, appeared to them near a well called Bir Ma'una. The people (i.e. Al-Qurra) said, 'By Allah, we have not come to harm you, but we are passing by you on our way to do something for the Prophet.' But (the infidels) killed them. The Prophet therefore invoked evil upon them for a month during the morning prayer. That was the beginning of Al Qunut and we used not to say Qunut before that." A man asked Anas about Al-Qunut, "Is it to be said after the Bowing (in the prayer) or after finishing the Recitation (i.e. before Bowing)?" Anas replied, "No, but (it is to be said) after finishing the Recitation."
حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ حَدَّثَنَا هِشَامٌ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَنَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَهْرًا بَعْدَ الرُّکُوعِ يَدْعُو عَلَی أَحْيَائٍ مِنْ الْعَرَبِ-
مسلم بن ابراہیم، ہشام، قتادہ، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ماہ تک رکوع کے بعد قنوت پڑھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرب کے چند قبائل کے لئے بد دعا فرماتے تھے۔
Narrated Anas: Allah's Apostle said Al-Qunut for one month after the posture of Bowing, invoking evil upon some 'Arab tribes.
حَدَّثَنِي عَبْدُ الْأَعْلَی بْنُ حَمَّادٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رِعْلًا وَذَکْوَانَ وَعُصَيَّةَ وَبَنِي لَحْيَانَ اسْتَمَدُّوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَی عَدُوٍّ فَأَمَدَّهُمْ بِسَبْعِينَ مِنْ الْأَنْصَارِ کُنَّا نُسَمِّيهِمْ الْقُرَّائَ فِي زَمَانِهِمْ کَانُوا يَحْتَطِبُونَ بِالنَّهَارِ وَيُصَلُّونَ بِاللَّيْلِ حَتَّی کَانُوا بِبِئْرِ مَعُونَةَ قَتَلُوهُمْ وَغَدَرُوا بِهِمْ فَبَلَغَ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَنَتَ شَهْرًا يَدْعُو فِي الصُّبْحِ عَلَی أَحْيَائٍ مِنْ أَحْيَائِ الْعَرَبِ عَلَی رِعْلٍ وَذَکْوَانَ وَعُصَيَّةَ وَبَنِي لَحْيَانَ قَالَ أَنَسٌ فَقَرَأْنَا فِيهِمْ قُرْآنًا ثُمَّ إِنَّ ذَلِکَ رُفِعَ بَلِّغُوا عَنَّا قَوْمَنَا أَنَّا لَقِينَا رَبَّنَا فَرَضِيَ عَنَّا وَأَرْضَانَا وَعَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ حَدَّثَهُ أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَنَتَ شَهْرًا فِي صَلَاةِ الصُّبْحِ يَدْعُو عَلَی أَحْيَائٍ مِنْ أَحْيَائِ الْعَرَبِ عَلَی رِعْلٍ وَذَکْوَانَ وَعُصَيَّةَ وَبَنِي لِحْيَانَ زَادَ خَلِيفَةُ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ عَنْ قَتَادَةَ حَدَّثَنَا أَنَسٌ أَنَّ أُولَئِکَ السَّبْعِينَ مِنْ الْأَنْصَارِ قُتِلُوا بِبِئْرِ مَعُونَةَ قُرْآنًا کِتَابًا نَحْوَهُ-
عبدالاعلی بن حماد، یزید بن زریع، سعید بن ابی عروبہ، قتادہ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ رعل و ذکوان، عصیہ اور بنی لحیان نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے دشمنوں کے مقابل میں مدد چاہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ستر اصحاب کو انصار سے ان کی مدد کے لئے روانہ کیا ہم ان کو قاری کہا کرتے تھے یہ لوگ دن کو لکڑیاں لاتے اور رات کو عبادت کیا کرتے تھے یہ حضرات جب بیرمعونہ پہنچے تو قبیلے کے آدمیوں نے ان کو دھوکے سے مار ڈالا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس واقعہ کی خبر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ماہ تک صبح کی نماز میں ان قبیلے والوں کے لئے بد دعا فرمائی یعنی رعل، ذکوان، عصیہ اور بنی لحیان پر حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے تو ان کے صدمہ میں کئی آیتیں پڑھیں پھر ان کی تلاوت موقوف ہوگئی وہ آیات یہ تھی (بَلِّغُوا عَنَّا قَوْمَنَا أَنَّا لَقِينَا رَبَّنَا فَرَضِيَ عَنَّا وَأَرْضَانَا)۔ قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت انس بن مالک نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز میں ایک مہینہ تک قنوت پڑھی آپ عرب کے چند قبیلوں پر بد دعا فرماتے تھے یعنی رعل، ذکوان، عصیہ اور بنی لحیان پر خلیفہ بن خیاط شیخ بخاری نے اتنا اضافہ کیا ہے کہ ہم سے ابن زریع نے، ان سے سعید بن ابی عروہ نے، انہوں نے قتادہ سے سنا کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ یہ ستر قاری بیرمعونہ پر شہید کئے گئے یہ سب انصاری تھے اس حدیث میں قراناً سے کتاباً مراد ہے یعنی اللہ کی کتاب۔
Narrated Anas bin Malik: (The tribes of) Ril, Dhakwan, 'Usaiya and Bani Lihyan asked Allah's Apostle to provide them with some men to support them against their enemy. He therefore provided them with seventy men from the Ansar whom we used to call Al-Qurra' in their lifetime. They used to collect wood by daytime and pray at night. When they were at the well of Ma'una, the infidels killed them by betraying them. When this news reached the Prophet , he said Al-Qunut for one month In the morning prayer, invoking evil upon some of the 'Arab tribes, upon Ril, Dhakwan, 'Usaiya and Bani Libyan. We used to read a verse of the Qur'an revealed in their connection, but later the verse was cancelled. It was: "convey to our people on our behalf the information that we have met our Lord, and He is pleased with us, and has made us pleased." (Anas bin Malik added:) Allah's Prophet said Qunut for one month in the morning prayer, invoking evil upon some of the 'Arab tribes (namely), Ril, Dhakwan, Usaiya, and Bani Libyan. (Anas added:) Those seventy Ansari men were killed at the well of Mauna.
حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ قَالَ حَدَّثَنِي أَنَسٌ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ خَالَهُ أَخٌ لِأُمِّ سُلَيْمٍ فِي سَبْعِينَ رَاکِبًا وَکَانَ رَئِيسَ الْمُشْرِکِينَ عَامِرُ بْنُ الطُّفَيْلِ خَيَّرَ بَيْنَ ثَلَاثِ خِصَالٍ فَقَالَ يَکُونُ لَکَ أَهْلُ السَّهْلِ وَلِي أَهْلُ الْمَدَرِ أَوْ أَکُونُ خَلِيفَتَکَ أَوْ أَغْزُوکَ بِأَهْلِ غَطَفَانَ بِأَلْفٍ وَأَلْفٍ فَطُعِنَ عَامِرٌ فِي بَيْتِ أُمِّ فُلَانٍ فَقَالَ غُدَّةٌ کَغُدَّةِ الْبَکْرِ فِي بَيْتِ امْرَأَةٍ مِنْ آلِ فُلَانٍ ائْتُونِي بِفَرَسِي فَمَاتَ عَلَی ظَهْرِ فَرَسِهِ فَانْطَلَقَ حَرَامٌ أَخُو أُمِّ سُلَيْمٍ وَهُوَ رَجُلٌ أَعْرَجُ وَرَجُلٌ مِنْ بَنِي فُلَانٍ قَالَ کُونَا قَرِيبًا حَتَّی آتِيَهُمْ فَإِنْ آمَنُونِي کُنْتُمْ وَإِنْ قَتَلُونِي أَتَيْتُمْ أَصْحَابَکُمْ فَقَالَ أَتُؤْمِنُونِي أُبَلِّغْ رِسَالَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَعَلَ يُحَدِّثُهُمْ وَأَوْمَئُوا إِلَی رَجُلٍ فَأَتَاهُ مِنْ خَلْفِهِ فَطَعَنَهُ قَالَ هَمَّامٌ أَحْسِبُهُ حَتَّی أَنْفَذَهُ بِالرُّمْحِ قَالَ اللَّهُ أَکْبَرُ فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَةِ فَلُحِقَ الرَّجُلُ فَقُتِلُوا کُلُّهُمْ غَيْرَ الْأَعْرَجِ کَانَ فِي رَأْسِ جَبَلٍ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْنَا ثُمَّ کَانَ مِنْ الْمَنْسُوخِ إِنَّا قَدْ لَقِينَا رَبَّنَا فَرَضِيَ عَنَّا وَأَرْضَانَا فَدَعَا النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ ثَلَاثِينَ صَبَاحًا عَلَی رِعْلٍ وَذَکْوَانَ وَبَنِي لَحْيَانَ وَعُصَيَّةَ الَّذِينَ عَصَوْا اللَّهَ وَرَسُولَهُ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-
موسی بن اسماعیل، ہمام، اسحاق، عبداللہ بن ابی طلحہ، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (حرام بن ملحان) ام سلیم کے بھائی یعنی انس کے ماموں کو ستر سواروں کے ساتھ بنی عامر کے پاس بھیجا وجہ یہ ہوئی کہ مشرکوں کے سردار عامر بن طفیل نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تین باتوں میں سے ایک بات کا اختیار دیا تھا اس نے کہا یا تو یہ ہونا چاہیے کہ گنوار اور دیہاتیوں پر آپ حکومت کریں اور شہر والوں پر میں حکومت کروں یا میں آپ کا خلیفہ یعنی جانشین بنوں یا پھر میں دوہزار غطفانی لشکر سے آپ پر چڑھائی کروں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لئے بد دعا فرمائی اور کہا : اے اللہ! تو مجھے عامر کے شر سے بچانا!چنانچہ اس دعا کے بعد عامر ایک عورت ام فلاں کے گھر طاعون میں مبتلا ہوگیا اور کہنے لگا کہ فلاں خاندان کے گھر کے یہاں اونٹ کے غدود کی طرح میرے بھی غدود نکل آیا پھر اس نے کہا میرا گھوڑا لاؤ جب گھوڑا آیا تو وہ اس کی پیٹھ پر بیٹھتے ہی مر گیا، حرام بن ملحان ایک لنگڑے آدمی اور ایک اور آدمی کے ساتھ عامر کے پاس گئے حرام نے ان دونوں سے کہا تم دونوں میرے قریب ہی رہنا پہلے میں ان کے پاس جاتا ہوں اگر کافروں نے مجھے امن دے دیا تو تم ٹھہرے رہنا اور اگر مار ڈالیں تو تم اپنے ساتھیوں کے پاس چلے جانا چنانچہ حرام نے کافروں سے جا کر کہا کیا تم مجھ کو امن دیتے ہو کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث تمہارے سامنے بیان کروں آخر حرام حدیث بیان کرنے لگے ان لوگوں نے ایک آدمی کو اشارہ کیا اس نے پیچھے سے آکر حرام کے ایک نیزہ مارا (ہمام راوی کہتے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ اسحاق نے اس طرح کہا کہ وہ نیزہ ان کے آرپار نکل گیا) نیزہ لگتے ہیں حرام نے کہا اللہ اکبر! رب کعبہ کی قسم! میں اپنی مراد کو پہنچ گیا (اس کے بعد شہید ہو گئے) پھر وہ لوگ حرام کے ساتھیوں کے پیچھے لگے حتیٰ کہ سب مارے گئے صرف ایک لنگڑا باقی رہ گیا جو پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گیا، اس وقت یہ آیت نازل ہوئی جو بعد کو منسوخ ہوگئی (ترجمہ) ہم اپنے پروردگار سے مل گئے وہ ہم سے راضی ہم اس سے راضی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیس دن تک رعل، ذکوان، بنی لحیان اور بنی عصیۃ کے لئے بد دعا فرمائی جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔
Narrated Anas: That the Prophet sent his uncle, the brother of Um Sulaim at the head of seventy riders. The chief of the pagans, 'Amir bin At-Tufail proposed three suggestions (to the Prophet ) saying, "Choose one of three alternatives: (1) that the bedouins will be under your command and the townspeople will be under my command; (2) or that I will be your successor, (3) or otherwise I will attack you with two thousand from Bani Ghatafan." But 'Amir was infected with plague in the House of Um so-and-so. He said, "Shall I stay in the house of a lady from the family of so-and-so after having a (swelled) gland like that she-camel? Get me my horse." So he died on the back of his horse. Then Haram, the brother of Um Sulaim and a lame man along with another man from so-and-so (tribe) went towards the pagans (i.e. the tribe of 'Amir). Haram said (to his companions), "Stay near to me, for I will go to them. If they (i.e. infidels) should give me protection, you will be near to me, and if they should kill me, then you should go back to your companions. Then Haram went to them and said, "Will you give me protection so as to convey the message of Allah's Apostle ?" So, he started talking to them' but they signalled to a man (to kill him) and he went behind him and stabbed him (with a spear). He (i.e. Haram) said, "Allahu Akbar! I have succeeded, by the Lord of the Ka'ba!" The companion of Haram was pursued by the infidels, and then they (i.e. Haram's companions) were all killed except the lame man who was at the top of a mountain. Then Allah revealed to us a verse that was among the cancelled ones later on. It was: 'We have met our Lord and He is pleased with us and has made us pleased.' (After this event) the Prophet invoked evil on the infidels every morning for 30 days. He invoked evil upon the (tribes of) Ril, Dhakwan, Bani Lihyan and Usaiya who disobeyed Allah and His Apostle
حَدَّثَنِي حِبَّانُ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ قَالَ حَدَّثَنِي ثُمَامَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسٍ أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ لَمَّا طُعِنَ حَرَامُ بْنُ مِلْحَانَ وَکَانَ خَالَهُ يَوْمَ بِئْرِ مَعُونَةَ قَالَ بِالدَّمِ هَکَذَا فَنَضَحَهُ عَلَی وَجْهِهِ وَرَأْسِهِ ثُمَّ قَالَ فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَةِ-
حبان، عبداللہ بن مبارک، معمر، ثمامہ بن عبداللہ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ جب میرے ماموں حرام بن ملحان نیزہ سے شہید کئے گئے بیرمعونہ کے دن تو انہوں نے اپنا خون اپنے ہاتھ سے اپنے منہ پر مل لیا اور کہا رب کعبہ کی قسم! میں اپنی مراد کو پہنچ گیا۔
Narrated Anas bin Malik: That when Haram bin Milhan, his uncle was stabbed on the day of Bir Ma'una he sprinkled his blood over his face and his head this way and then said, "I have succeeded, by the Lord of the Ka'ba.'
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ اسْتَأْذَنَ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبُو بَکْرٍ فِي الْخُرُوجِ حِينَ اشْتَدَّ عَلَيْهِ الْأَذَی فَقَالَ لَهُ أَقِمْ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَتَطْمَعُ أَنْ يُؤْذَنَ لَکَ فَکَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنِّي لَأَرْجُو ذَلِکَ قَالَتْ فَانْتَظَرَهُ أَبُو بَکْرٍ فَأَتَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ ظُهْرًا فَنَادَاهُ فَقَالَ أَخْرِجْ مَنْ عِنْدَکَ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ إِنَّمَا هُمَا ابْنَتَايَ فَقَالَ أَشَعَرْتَ أَنَّهُ قَدْ أُذِنَ لِي فِي الْخُرُوجِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ الصُّحْبَةَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصُّحْبَةَ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ عِنْدِي نَاقَتَانِ قَدْ کُنْتُ أَعْدَدْتُهُمَا لِلْخُرُوجِ فَأَعْطَی النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِحْدَاهُمَا وَهِيَ الْجَدْعَائُ فَرَکِبَا فَانْطَلَقَا حَتَّی أَتَيَا الْغَارَ وَهُوَ بِثَوْرٍ فَتَوَارَيَا فِيهِ فَکَانَ عَامِرُ بْنُ فُهَيْرَةَ غُلَامًا لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الطُّفَيْلِ بْنِ سَخْبَرَةَ أَخُو عَائِشَةَ لِأُمِّهَا وَکَانَتْ لِأَبِي بَکْرٍ مِنْحَةٌ فَکَانَ يَرُوحُ بِهَا وَيَغْدُو عَلَيْهِمْ وَيُصْبِحُ فَيَدَّلِجُ إِلَيْهِمَا ثُمَّ يَسْرَحُ فَلَا يَفْطُنُ بِهِ أَحَدٌ مِنْ الرِّعَائِ فَلَمَّا خَرَجَ خَرَجَ مَعَهُمَا يُعْقِبَانِهِ حَتَّی قَدِمَا الْمَدِينَةَ فَقُتِلَ عَامِرُ بْنُ فُهَيْرَةَ يَوْمَ بِئْرِ مَعُونَةَ وَعَنْ أَبِي أُسَامَةَ قَالَ قَالَ هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ فَأَخْبَرَنِي أَبِي قَالَ لَمَّا قُتِلَ الَّذِينَ بِبِئْرِ مَعُونَةَ وَأُسِرَ عَمْرُو بْنُ أُمَيَّةَ الضَّمْرِيُّ قَالَ لَهُ عَامِرُ بْنُ الطُّفَيْلِ مَنْ هَذَا فَأَشَارَ إِلَی قَتِيلٍ فَقَالَ لَهُ عَمْرُو بْنُ أُمَيَّةَ هَذَا عَامِرُ بْنُ فُهَيْرَةَ فَقَالَ لَقَدْ رَأَيْتُهُ بَعْدَ مَا قُتِلَ رُفِعَ إِلَی السَّمَائِ حَتَّی إِنِّي لَأَنْظُرُ إِلَی السَّمَائِ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْأَرْضِ ثُمَّ وُضِعَ فَأَتَی النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَبَرُهُمْ فَنَعَاهُمْ فَقَالَ إِنَّ أَصْحَابَکُمْ قَدْ أُصِيبُوا وَإِنَّهُمْ قَدْ سَأَلُوا رَبَّهُمْ فَقَالُوا رَبَّنَا أَخْبِرْ عَنَّا إِخْوَانَنَا بِمَا رَضِينَا عَنْکَ وَرَضِيتَ عَنَّا فَأَخْبَرَهُمْ عَنْهُمْ وَأُصِيبَ يَوْمَئِذٍ فِيهِمْ عُرْوَةُ بْنُ أَسْمائَ بْنِ الصَّلْتِ فَسُمِّيَ عُرْوَةُ بِهِ وَمُنْذِرُ بْنُ عَمْرٍو سُمِّيَ بِهِ مُنْذِرًا-
عبید بن اسماعیل، ابواسامہ، ہشام، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مکہ والوں کی ایذاء دیکھتے ہوئے مکہ سے باہر جانے کی اجازت چاہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ٹھہر جاؤ! حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی یا رسول اللہ! کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ میں اس وقت تک ٹھہروں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی چلنے کی اجازت مل جائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! مجھے اپنے رب سے اس کی امید ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ انتظار کرتے رہے ایک دن ظہر کے وقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے، آواز دی اور فرمایا : تمہارے پاس کوئی ہو تو اسے ہٹا دو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کوئی نہیں ہے میری دو لڑکیاں (عائشہ اور اسماء) ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم کو معلوم ہے کہ مجھے ہجرت کی اجازت مل گئی ہے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں بھی آپ کے ہمرا چلوں گا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھی بات ہے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا میرے پاس دو اونٹنیاں تیز رفتار ہیں جن کو سفر کے لئے خوب تیار کیا گیا ہے، چنانچہ اس میں سے ایک اونٹنی جس کا نام جدعا تھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دی اور پھر خود بھی سوار ہو کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ چل دیئے اور غارثور میں آکر روپوش ہو گئے عامر بن فہیرہ عبداللہ بن طفیل کا غلام تھا عبداللہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ماں جائے بھائی تھے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس دودھ والی اونٹنی صبح شام لاتے تھے اور رات کو بھی ان کے پاس آتے اور جاتے تھے کوئی چرواہا اس راز سے آگاہ نہ تھا جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس غار سے برآمد ہوئے تو ان کو ہمراہ لے لیا اور یہ دونوں راستہ بتاتے جاتے تھے راستہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ باری باری ان کو اپنی سواری پر بٹھاتے رہے یہ عامر بن فہیرہ بیرمعونہ کے دن شہید ہوئے ابواسامہ روایت کرتے ہیں کہ ہشام بن عروہ نے کہا کہ میرے ماں باپ نے مجھ سے بیان کیا کہ جب عامر بن فہیرہ بیرمعونہ والے دن شہید کئے گئے اور عمرو بن امیہ ضمری قید کئے گئے تو عامر بن طفیل نے اشارہ کرتے ہوئے پوچھا یہ لاش کس کی ہے انہوں نے کہا یہ عامر بن فہیرہ ہیں عامر بن طفیل کہتے ہیں کہ جب یہ شہید ہوئے تو ان کی نعش آسمان پر اٹھائی گئی میں نے دیکھا کہ آسمان وز میں کے درمیان معلق ہے پھر زمین پر رکھ دی گئی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جبریل علیہ السلام نے اس واقعہ کی خبر دی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا تمہارے بھائی شہید کئے گئے اور انہوں نے وقت شہادت یہ دعا مانگی یا اللہ ہماری خبر ہمارے بھائیوں کو کردے کہ ہم تجھ سے راضی ہوئے اور تو ہم سے خوش ہوا اللہ نے ان کی خبر مسلمانوں کو پہنچا دی انہیں شہیدوں میں عروہ بن اسماء بن صلت بھی تھے اسی لئے عروہ بن زبیر جب پیدا ہوئے تو ان کا نام عروہ رکھا گیا اور ان ہی شہیدوں میں منذر بن عمر بھی تھے چنانچہ اسی وجہ سے منذر (بن زبیر) کا نام رکھا گیا۔
Narrated 'Aisha: Abu Bakr asked the Prophet to allow him to go out (of Mecca) when he was greatly annoyed (by the infidels). But the Prophet said to him, ''Wait." Abu Bakr said, O Allah's Apostle! Do you hope that you will be allowed (to migrate)?" Allah's Apostle replied, "I hope so." So Abu Bakr waited for him till one day Allah's Apostle came at noon time and addressed him saying "Let whoever is present with you, now leave you." Abu Bakr said, "None is present but my two daughters." The Prophet said, "Have you noticed that I have been allowed to go out (to migrate)?" Abu Bakr said, "O Allah's Apostle, I would like to accompany you." The Prophet said, "You will accompany me." Abu Bakr said, "O Allah's Apostle! I have got two she-camels which I had prepared and kept ready for (our) going out." So he gave one of the two (she-camels) to the Prophet and it was Al-Jad'a . They both rode and proceeded till they reached the Cave at the mountain of Thaur where they hid themselves. Amir bin Fuhaira was the slave of 'Abdullah bin Al-Tufail bin Sakhbara 'Aisha's brother from her mother's side. Abu Bakr had a milch she-camel. Amir used to go with it (i.e. the milch she-camel) in the afternoon and come back to them before noon by setting out towards them in the early morning when it was still dark and then he would take it to the pasture so that none of the shepherds would be aware of his job. When the Prophet (and Abu Bakr) went away (from the Cave), he (i.e. 'Amir) too went along with them and they both used to make him ride at the back of their camels in turns till they reached Medina. 'Amir bin Fuhaira was martyred on the day of Bir Ma'una. Narrated 'Urwa: When those (Muslims) at Bir Ma'una were martyred and 'Amr bin Umaiya Ad-Damri was taken prisoner, 'Amir bin At-Tufail, pointing at a killed person, asked Amr, "Who is this?" 'Amr bin Umaiya said to him, "He is 'Amir bin Fuhaira." 'Amir bin At-Tufail said, "I saw him lifted to the sky after he was killed till I saw the sky between him and the earth, and then he was brought down upon the earth. Then the news of the killed Muslims reached the Prophet and he announced the news of their death saying, "Your companions (of Bir Ma'una) have been killed, and they have asked their Lord saying, 'O our Lord! Inform our brothers about us as we are pleased with You and You are pleased with us." So Allah informed them (i.e. the Prophet and his companions) about them (i.e. martyrs of Bir Mauna). On that day, 'Urwa bin Asma bin As-Salt who was one of them, was killed, and Urwa (bin Az-Zubair) was named after 'Urwa bin Asma and Mundhir (bin AzZubair) was named after Mundhir bin 'Amr (who had also been martyred on that day).
حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَنَتَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ الرُّکُوعِ شَهْرًا يَدْعُو عَلَی رِعْلٍ وَذَکْوَانَ وَيَقُولُ عُصَيَّةُ عَصَتْ اللَّهَ وَرَسُولَهُ-
محمد بن مقاتل، عبداللہ بن مبارک، سلیمان تمیمی، ابومجلز، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ماہ تک رکوع کے بعد قنوت پڑھتے رہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم رعل ، ذکوان اور عصیہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نافرمان کے لئے بد دعا فرماتے رہے۔
Narrated Anas: The Prophet said Al-Qunut after Bowing (i.e. Ar-Ruku') for one month, invoking evil upon (the tribes of) Ril and Dhakwan. He used to say, "Usaiya disobeyed Allah and His Apostle."
حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ بُکَيْرٍ حَدَّثَنَا مَالِکٌ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ دَعَا النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَی الَّذِينَ قَتَلُوا يَعْنِي أَصْحَابَهُ بِبِئْرِ مَعُونَةَ ثَلَاثِينَ صَبَاحًا حِينَ يَدْعُو عَلَی رِعْلٍ وَلَحْيَانَ وَعُصَيَّةَ عَصَتْ اللَّهَ وَرَسُولَهُ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَنَسٌ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَی لِنَبِيِّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الَّذِينَ قُتِلُوا أَصْحَابِ بِئْرِ مَعُونَةَ قُرْآنًا قَرَأْنَاهُ حَتَّی نُسِخَ بَعْدُ بَلِّغُوا قَوْمَنَا فَقَدْ لَقِينَا رَبَّنَا فَرَضِيَ عَنَّا وَرَضِينَا عَنْهُ-
یحیی بن بکیر، امام مالک، اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تیس دن تک ان لوگوں کے لئے جنہوں نے بیرمعونہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کو شہید کیا تھا یعنی رعل، ذکوان اور بنی لحیان کے لئے بد دعا فرماتے رہے اور فرمایا کہ عصیہ نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ان شہداء بیرمعونہ کے حق میں آیات نازل فرمائی مگر بعد کو ان کا پڑھنا موقوف ہوگیا وہ آیات یہ ہیں ۔ بَلِّغُوا قَوْمَنَا فَقَدْ لَقِينَا رَبَّنَا فَرَضِيَ عَنَّا وَرَضِينَا عَنْهُ۔
Narrated Anas bin Malik : The Prophet invoked evil upon those (people) who killed his companions at Bir Mauna for 30 days (in the morning prayer). He invoked evil upon (tribes of) Ril, Lihyan and Usaiya who disobeyed Allah and His Apostle. Allah revealed a Quranic Verse to His Prophet regarding those who had been killed, i.e. the Muslims killed at Bir Ma'una, and we recited the Verse till later it was cancelled. (The Verse was:) 'Inform our people that we have met our Lord, and He is pleased with us, and we are pleased with Him."
حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ حَدَّثَنَا عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ قَالَ سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ الْقُنُوتِ فِي الصَّلَاةِ فَقَالَ نَعَمْ فَقُلْتُ کَانَ قَبْلَ الرُّکُوعِ أَوْ بَعْدَهُ قَالَ قَبْلَهُ قُلْتُ فَإِنَّ فُلَانًا أَخْبَرَنِي عَنْکَ أَنَّکَ قُلْتَ بَعْدَهُ قَالَ کَذَبَ إِنَّمَا قَنَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ الرُّکُوعِ شَهْرًا أَنَّهُ کَانَ بَعَثَ نَاسًا يُقَالُ لَهُمْ الْقُرَّائُ وَهُمْ سَبْعُونَ رَجُلًا إِلَی نَاسٍ مِنْ الْمُشْرِکِينَ وَبَيْنَهُمْ وَبَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهْدٌ قِبَلَهُمْ فَظَهَرَ هَؤُلَائِ الَّذِينَ کَانَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهْدٌ فَقَنَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ الرُّکُوعِ شَهْرًا يَدْعُو عَلَيْهِمْ-
موسی بن اسماعیل، عبدالواحد بن زیاد، عاصم بن سلیمان سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ نماز میں قنوت پڑھنا کیسا ہے؟ انہوں نے کہا ٹھیک ہے۔ میں نے کہا : رکوع سے پہلے یا بعد، انہوں نے کہا : رکوع سے پہلے، میں نے کہا : فلاں صاحب (محمد بن سیرین یا کوئی اور) تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالہ سے کہتے ہیں کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ رکوع کے بعد انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا وہ غلط کہتے ہیں رکوع کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایک ماہ تک قنوت پڑھی تھی اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ستر قاریوں کو مشرکوں کی طرف بھیجا تھا کیونکہ ان سے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عہد تھا ان معاہدین کفار نے عہد توڑ دیا اور دھوکہ سے ان قاریوں کو شہید کر ڈالا چنانچہ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ماہ تک رکوع کے بعد قنوت پڑھتے رہے اور ان کے لئے بد دعا فرماتے رہے۔
Narrated Asim Al-Ahwal: I asked Anas bin Malik regarding Al-Qunut during the prayer. Anas replied, "Yes (Al-Qunut was said by the Prophet in the prayer)." I said, "Is it before Bowing or after Bowing?" Anas replied, "(It was said) before (Bowing)." I said, "So-and-so informed me that you told him that it was said after Bowing." Anas replied, "He was mistaken, for Allah's Apostle said Al-Qunut after Bowing for one month. The Prophet had sent some people called Al-Qurra who were seventy in number, to some pagan people who had concluded a peace treaty with Allah's Apostle . But those who had concluded the treaty with Allah's Apostle violated the treaty (and martyred all the seventy men). So Allah's Apostle said Al-Qunut after Bowing (in the prayer) for one month, invoking evil upon them.