سونا کے عوض درخت پر لگی ہوئی کھجور بیچنے کا بیان ۔

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سُلَيْمَانَ حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ عَطَائٍ وَأَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ نَهَی النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الثَّمَرِ حَتَّی يَطِيبَ وَلَا يُبَاعُ شَيْئٌ مِنْهُ إِلَّا بِالدِّينَارِ وَالدِّرْهَمِ إِلَّا الْعَرَايَا-
یحیی بن سلیمان، ابن وہب، ابن جریج، عطاء، ابوزبیر، جابر سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھلوں کے بیچنے سے جب تک اس کی پختگی ظاہر نہ ہو منع فرمایا اور ان میں کوئی چیز نہ بیچی جائے مگر درہم و دینار کے عوض بیچی جائے سوا عرایا کے کہ اس کی اجازت ہے
Narrated Jabir: The Prophet forbade the selling of fruits unless they get ripe, and none of them should be sold except for Dinar or Dirham (i.e. money), except the 'Araya trees (the dates of which could be sold for dates).
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ قَالَ سَمِعْتُ مَالِکًا وَسَأَلَهُ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ الرَّبِيعِ أَحَدَّثَکَ دَاوُدُ عَنْ أَبِي سُفْيَانَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَخَّصَ فِي بَيْعِ الْعَرَايَا فِي خَمْسَةِ أَوْسُقٍ أَوْ دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ قَالَ نَعَمْ-
عبداللہ بن عبدالوہاب، مالک، عبیداللہ بن ربیع، نے مالک سے پوچھا کیا تم سے داؤد نے انہوں نے ابوسفیان سے انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے یہ حدیث روایت کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پانچ وسق یا اس سے کم میں بیع عرایا کی اجازت دی ہے انہوں نے کہا ہاں!
Narrated Abu Huraira: The Prophet allowed the sale of the dates of 'Araya provided they were about five Awsuq (singular: Wasaq which means sixty Sa's) or less (in amount).
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ قَالَ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ سَمِعْتُ بُشَيْرًا قَالَ سَمِعْتُ سَهْلَ بْنَ أَبِي حَثْمَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَی عَنْ بَيْعِ الثَّمَرِ بِالتَّمْرِ وَرَخَّصَ فِي الْعَرِيَّةِ أَنْ تُبَاعَ بِخَرْصِهَا يَأْکُلُهَا أَهْلُهَا رُطَبًا وَقَالَ سُفْيَانُ مَرَّةً أُخْرَی إِلَّا أَنَّهُ رَخَّصَ فِي الْعَرِيَّةِ يَبِيعُهَا أَهْلُهَا بِخَرْصِهَا يَأْکُلُونَهَا رُطَبًا قَالَ هُوَ سَوَائٌ قَالَ سُفْيَانُ فَقُلْتُ لِيَحْيَی وَأَنَا غُلَامٌ إِنَّ أَهْلَ مَکَّةَ يَقُولُونَ إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَخَّصَ فِي بَيْعِ الْعَرَايَا فَقَالَ وَمَا يُدْرِي أَهْلَ مَکَّةَ قُلْتُ إِنَّهُمْ يَرْوُونَهُ عَنْ جَابِرٍ فَسَکَتَ قَالَ سُفْيَانُ إِنَّمَا أَرَدْتُ أَنَّ جَابِرًا مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ قِيلَ لِسُفْيَانَ وَلَيْسَ فِيهِ نَهَی عَنْ بَيْعِ الثَّمَرِ حَتَّی يَبْدُوَ صَلَاحُهُ قَالَ لَا-
علی بن عبداللہ ، سفیان، یحیی بن سعید، بشیر، سہل بن ابی حثمہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خشک کھجور کے عوض درخت سے لگی ہوئی کھجور کے بیچنے سے منع فرمایا اور عریہ میں اس کی اجازت دی کہ اندازہ کر کے بیچی جائے تاکہ اس کا مالک تازہ کھجور کھائے اور سفیان نے دوسری بار یہ بیان کیا مگر عریہ میں اجازت ہے کہ اس کے مالک اندازہ سے بیچیں تاکہ کھجور کھائیں مقصد ایک ہی ہے اور سفیان کا بیان ہے کہ میں کم سن تھا یحیی سے میں نے کہا کہ اہل مکہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیع عرایا کی اجازت دی ہے انہوں نے کہا کہ مکہ والوں کو کہاں سے معلوم ہوا میں نے کہا وہ لوگ حضرت جابر سے روایت کرتے ہیں یحیی خاموش ہو گئے سفیان نے کہا میرا مقصد یہ تھا کہ حضرت جابر تو اہل مدینہ میں سے ہیں سفیان سے کہا گیا اور اس میں پھل کے بیچنے سے منع نہیں کیا ہے جب تک کہ اس کا قابل انتفاع ہونا ظاہر نہ ہو انہوں نے کہا نہیں۔
Narrated Sahl bin Abu Hathma: Allah's Apostle forbade the selling of fruits (fresh dates) for dried dates but allowed the sale of fruits on the 'Araya by estimation and their new owners might eat their dates fresh. Sufyan (in another narration) said, "I told Yahya (a sub-narrator) when I was a mere boy, 'Meccans say that the Prophet allowed them the sale of the fruits on 'Araya by estimation.' Yahya asked, 'How do the Meccans know about it?' I replied, 'They narrated it (from the Prophet ) through Jabir.' On that, Yahya kept quiet." Sufyan said, "I meant that Jabir belonged to Medina." Sufyan was asked whether in Jabir's narration there was any prohibition of selling fruits before their benefit is evident (i.e. no dangers of being spoilt or blighted). He replied that there was none. ________________________________________