سوئے ہوئے مشرک کو قتل کر دینے کا بیان

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ زَکَرِيَّائَ بْنِ أَبِي زَائِدَةَ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَهْطًا مِنْ الْأَنْصَارِ إِلَی أَبِي رَافِعٍ لِيَقْتُلُوهُ فَانْطَلَقَ رَجُلٌ مِنْهُمْ فَدَخَلَ حِصْنَهُمْ قَالَ فَدَخَلْتُ فِي مَرْبِطِ دَوَابَّ لَهُمْ قَالَ وَأَغْلَقُوا بَابَ الْحِصْنِ ثُمَّ إِنَّهُمْ فَقَدُوا حِمَارًا لَهُمْ فَخَرَجُوا يَطْلُبُونَهُ فَخَرَجْتُ فِيمَنْ خَرَجَ أُرِيهِمْ أَنَّنِي أَطْلُبُهُ مَعَهُمْ فَوَجَدُوا الْحِمَارَ فَدَخَلُوا وَدَخَلْتُ وَأَغْلَقُوا بَابَ الْحِصْنِ لَيْلًا فَوَضَعُوا الْمَفَاتِيحَ فِي کَوَّةٍ حَيْثُ أَرَاهَا فَلَمَّا نَامُوا أَخَذْتُ الْمَفَاتِيحَ فَفَتَحْتُ بَابَ الْحِصْنِ ثُمَّ دَخَلْتُ عَلَيْهِ فَقُلْتُ يَا أَبَا رَافِعٍ فَأَجَابَنِي فَتَعَمَّدْتُ الصَّوْتَ فَضَرَبْتُهُ فَصَاحَ فَخَرَجْتُ ثُمَّ جِئْتُ ثُمَّ رَجَعْتُ کَأَنِّي مُغِيثٌ فَقُلْتُ يَا أَبَا رَافِعٍ وَغَيَّرْتُ صَوْتِي فَقَالَ مَا لَکَ لِأُمِّکَ الْوَيْلُ قُلْتُ مَا شَأْنُکَ قَالَ لَا أَدْرِي مَنْ دَخَلَ عَلَيَّ فَضَرَبَنِي قَالَ فَوَضَعْتُ سَيْفِي فِي بَطْنِهِ ثُمَّ تَحَامَلْتُ عَلَيْهِ حَتَّی قَرَعَ الْعَظْمَ ثُمَّ خَرَجْتُ وَأَنَا دَهِشٌ فَأَتَيْتُ سُلَّمًا لَهُمْ لِأَنْزِلَ مِنْهُ فَوَقَعْتُ فَوُثِئَتْ رِجْلِي فَخَرَجْتُ إِلَی أَصْحَابِي فَقُلْتُ مَا أَنَا بِبَارِحٍ حَتَّی أَسْمَعَ النَّاعِيَةَ فَمَا بَرِحْتُ حَتَّی سَمِعْتُ نَعَايَا أَبِي رَافِعٍ تَاجِرِ أَهْلِ الْحِجَازِ قَالَ فَقُمْتُ وَمَا بِي قَلَبَةٌ حَتَّی أَتَيْنَا النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْنَاهُ-
علی یحیی زکریا ابواسحاق حضرت براء بن عازب سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چند انصاریوں کو ابورافع کے پاس بھیجا تاکہ وہ اس کو قتل کردیں چنانچہ ایک انصاری اس کے قلعہ میں داخل ہوا اور وہ کہتا تھا کہ میں گھوڑوں کے اصطبل میں چھپ گیا اور قلعہ کا دروازہ بند ہوگیا اس کے بعد ایک چوکیدار اپنا گدھا تلاش کرنے باہر نکلا میں بھی ان لوگوں کے ساتھ باہر نکل آیا اور میں یہ دکھلا رہا تھا کہ میں بھی ان کے ساتھ گدھا تلاش کر رہا ہوں جب ان کو گدھا مل گیا تو میں ان کے ساتھ قلعہ میں چلا آیا اور انہوں نے قلعہ کا دروازہ بند کرکے اس کی کنجیاں ایک سوراخ میں رکھ دیں جس کو میں دیکھ رہا تھا اور جب وہ سب سو گئے تو میں نے کنجیاں لے کر قلعہ کا دروازہ کھولا ابورافع کی طرف چلا اور آواز دی اے ابورافع! اس نے مجھے جواب دیا تو میں آواز کی طرف لپکا اور اس پر وار کیا وہ چیخنے لگا تو میں باہر نکل آیا اس کے بعد پھر اسی طرح گیا گویا میں فریاد رس ہوں اور میں نے آواز بدل کر کہا اے ابورافع! اس نے کہا تو کون ہے؟ تیری ماں کی خرابی ہو میں نے کہا کیا بات ہے؟ تو اس نے کہا مجھے کچھ معلوم نہیں پس اس آدمی نے مجھ پر تلوار کا وار کیا ہے (اتنا سن کر) میں نے اپنی تلوار اس کے پیٹ پر رکھ دی اور اس پر اتنا زور دیا کہ وہ اس کی ہڈیوں میں اتر گئی اور اس کے بعد میں باہر نکل آیا اور میں خوفزدہ تھا جوں توں کرکے اترنے کے لیے سیڑھی کے پاس آیا مگر گر پڑا اور میرا پیر ٹوٹ گیا اور پھر میں نے اس حالت میں اپنے دوستوں کے پاس پہنچ کر کہا میں اس وقت تک نہیں جاؤں گا جب تک رونے والوں کی آواز نہ سن لو چنانچہ میں اس وقت تک باہر نہیں گیا جب تک میں نے اہل حجاز کے تاجر ابورافع پر رونے والیوں کی آواز نہ سن لی میں وہاں کھڑا رہا مگر مجھ میں چلنے کی قوت نہ رہی تھی آخر ہم سب نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضری دے کر پورا واقعہ بیان کیا۔
Narrated Al-Bara bin Azib: Allah's Apostle sent a group of Ansari men to kill Abu-Rafi. One of them set out and entered their (i.e. the enemies) fort. That man said, "I hid myself in a stable for their animals. They closed the fort gate. Later they lost a donkey of theirs, so they went out in its search. I, too, went out along with them, pretending to look for it. They found the donkey and entered their fort. And I, too, entered along with them. They closed the gate of the fort at night, and kept its keys in a small window where I could see them. When those people slept, I took the keys and opened the gate of the fort and came upon Abu Rafi and said, 'O Abu Rafi. When he replied me, I proceeded towards the voice and hit him. He shouted and I came out to come back, pretending to be a helper. I said, 'O Abu Rafi, changing the tone of my voice. He asked me, 'What do you want; woe to your mother?' I asked him, 'What has happened to you?' He said, 'I don't know who came to me and hit me.' Then I drove my sword into his belly and pushed it forcibly till it touched the bone. Then I came out, filled with puzzlement and went towards a ladder of theirs in order to get down but I fell down and sprained my foot. I came to my companions and said, 'I will not leave till I hear the wailing of the women.' So, I did not leave till I heard the women bewailing Abu Rafi, the merchant pf Hijaz. Then I got up, feeling no ailment, (and we proceeded) till we came upon the Prophet and informed him."
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ آدَمَ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ أَبِي زَائِدَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَهْطًا مِنْ الْأَنْصَارِ إِلَی أَبِي رَافِعٍ فَدَخَلَ عَلَيْهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَتِيکٍ بَيْتَهُ لَيْلًا فَقَتَلَهُ وَهُوَ نَائِمٌ-
عبداللہ بن محمد یحیی بن آدم یحیی بن ابی زائدہ ان کے والد ابواسحاق حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے چند انصاریوں کو ابورافع کے (قتل) کے لیے بھیجا تھا چنانچہ حضرت عبداللہ بن عتیک نے رات کے وقت اس کے کمرہ میں داخل ہو کر سوتے ہی میں اس کو مار ڈالا۔
Narrated Al-Bara bin Azib: Allah's Apostle sent a group of the Ansar to Abu Rafi. Abdullah bin Atik entered his house at night and killed him while he was sleeping.