زمانہ جاہلیت کا بیان

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَحْيَی حَدَّثَنَا هِشَامٌ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ کَانَ يَوْمُ عَاشُورَائَ يَوْمًا تَصُومُهُ قُرَيْشٌ فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَکَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُهُ فَلَمَّا قَدِمَ الْمَدِينَةَ صَامَهُ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ فَلَمَّا نَزَلَ رَمَضَانُ کَانَ مَنْ شَائَ صَامَهُ وَمَنْ شَائَ لَا يَصُومُهُ-
مسدد یحیی ہشام ان کے والد حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ وہ فرماتی ہیں کہ عاشورہ کے دن قریش بھی روزہ رکھتے تھے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے عاشورہ کا خود بھی روزہ رکھا اور اس کے روزہ کا دوسرے مسلمانوں کو بھی حکم دیا۔ رمضان کے روزوں کی فرضیت نازل ہونے کے بعد جس کا دل چاہتا عاشورہ کا روزہ رکھا اور جس کا دل چاہے نہ رکھتا۔
Narrated 'Aisha: 'Ashura' (i.e. the tenth of Muharram) was a day on which the tribe of Quraish used to fast in the pre-lslamic period of ignorance. The Prophet also used to fast on this day. So when he migrated to Medina, he fasted on it and ordered (the Muslims) to fast on it. When the fasting of Ramadan was enjoined, it became optional for the people to fast or not to fast on the day of Ashura.
حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ حَدَّثَنَا ابْنُ طَاوُسٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ کَانُوا يَرَوْنَ أَنَّ الْعُمْرَةَ فِي أَشْهُرِ الْحَجِّ مِنْ الْفُجُورِ فِي الْأَرْضِ وَکَانُوا يُسَمُّونَ الْمُحَرَّمَ صَفَرًا وَيَقُولُونَ إِذَا بَرَا الدَّبَرْ وَعَفَا الْأَثَرْ حَلَّتْ الْعُمْرَةُ لِمَنْ اعْتَمَرْ قَالَ فَقَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ رَابِعَةً مُهِلِّينَ بِالْحَجِّ وَأَمَرَهُمْ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَجْعَلُوهَا عُمْرَةً قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيُّ الْحِلِّ قَالَ الْحِلُّ کُلُّهُ-
مسلم وہیب ابن طاؤس ان کے والد حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں لوگوں کا عقیدہ یہ تھا کہ اشہر حج میں عمرہ کرنا دنیا میں بڑا گناہ ہے، نیز وہ ماہ محرم کے صفر کہتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ جب اونٹ کا زخم اچھا ہوجائے اور نشان مٹ جائے تو عمرہ کرنے والے کے لئے عمرہ درست ہوجاتا ہے انہوں نے فرمایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب چوتھی تاریخ کو حج کا احرام باندھے ہوئے (مکہ) پہنچے اور نبی اکرم نے اپنے اصحاب کو حکم دیا کہ وہ اس کو عمرہ بنالیں۔ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! کس قدر احرام کھولیں؟ آپ نے فرمایا پورا احرام کھول دو۔
Narrated Ibn 'Abbas: The people used to consider the performance of 'Umra in the months of Hajj an evil deed on the earth, and they used to call the month of Muharram as Safar and used to say, "When (the wounds over) the backs (of the camels) have healed and the foot-marks (of the camels) have vanished (after coming from Hajj), then 'Umra becomes legal for the one who wants to perform 'Umra." Allah's Apostle and his companions reached Mecca assuming Ihram for Hajj on the fourth of Dhul-Hijja. The Prophet ordered his companions to perform 'Umra (with that lhram instead of Hajj). They asked, "O Allah's Apostle! What kind of finishing of Ihram?" The Prophet said, "Finish the Ihram completely.'
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ کَانَ عَمْرٌو يَقُولُ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ جَائَ سَيْلٌ فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَکَسَا مَا بَيْنَ الْجَبَلَيْنِ قَالَ سُفْيَانُ وَيَقُولُ إِنَّ هَذَا لَحَدِيثٌ لَهُ شَأْنٌ-
علی بن عبداللہ سفیان عمر سعید بن مسیب اپنے والد اور اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ان کے دادا کہتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں سیلاب آیا تو وہ دونوں پہاڑوں کے درمیان کی جگہ پر چھا گیا سفیان نے کہا کہ اس حدیث کا بڑا واقعہ ہے۔
Narrated Sa'id bin Al-Musaiyab's grand-father: In the pre-lslamic period of ignorance a flood of rain came and filled the valley in between the two mountains (around the Ka'ba)......
حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ بَيَانٍ أَبِي بِشْرٍ عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ قَالَ دَخَلَ أَبُو بَکْرٍ عَلَی امْرَأَةٍ مِنْ أَحْمَسَ يُقَالُ لَهَا زَيْنَبُ فَرَآهَا لَا تَکَلَّمُ فَقَالَ مَا لَهَا لَا تَکَلَّمُ قَالُوا حَجَّتْ مُصْمِتَةً قَالَ لَهَا تَکَلَّمِي فَإِنَّ هَذَا لَا يَحِلُّ هَذَا مِنْ عَمَلِ الْجَاهِلِيَّةِ فَتَکَلَّمَتْ فَقَالَتْ مَنْ أَنْتَ قَالَ امْرُؤٌ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ قَالَتْ أَيُّ الْمُهَاجِرِينَ قَالَ مِنْ قُرَيْشٍ قَالَتْ مِنْ أَيِّ قُرَيْشٍ أَنْتَ قَالَ إِنَّکِ لَسَئُولٌ أَنَا أَبُو بَکْرٍ قَالَتْ مَا بَقَاؤُنَا عَلَی هَذَا الْأَمْرِ الصَّالِحِ الَّذِي جَائَ اللَّهُ بِهِ بَعْدَ الْجَاهِلِيَّةِ قَالَ بَقَاؤُکُمْ عَلَيْهِ مَا اسْتَقَامَتْ بِکُمْ أَئِمَّتُکُمْ قَالَتْ وَمَا الْأَئِمَّةُ قَالَ أَمَا کَانَ لِقَوْمِکِ رُئُوسٌ وَأَشْرَافٌ يَأْمُرُونَهُمْ فَيُطِيعُونَهُمْ قَالَتْ بَلَی قَالَ فَهُمْ أُولَئِکِ عَلَی النَّاسِ-
ابو نعمان ابوعوانہ بیان ابوالبشر قیس بن حازم سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ قبیلہ احمس کی ایک عورت کے پاس آئے جس کا نام زینب تھا تو آپ نے اسے دیکھا کہ بات نہیں کرتی آپ نے فرمایا اسے کیا ہوگیا کہ بولتی بھی نہیں؟ لوگوں نے کہا اس نے خاموشی کے حج کی نیت کی ہے آپ نے اس سے کہا کہ بات چیت کر۔ کیونکہ یہ طریقہ جائز نہیں یہ زمانہ جاہلیت کا عمل ہے تو اس نے بات شروع کی اور کہا آپ کون ہیں؟ آپ نے فرمایا میں ایک مہاجر آدمی ہوں۔ اس نے کہا کون سے مہاجر؟ آپ نے فرمایا قریشی اس نے کہا قریش میں سے کون؟ آپ نے فرمایا تو بڑی پوچھنے والی ہے۔ میں ابوبکر ہوں اس نے کہا اس نیک کام پر جو اللہ تعالیٰ نے جاہلیت کے بعد ہمارے پاس بھیجا ہم کب تک چلتے رہیں گے؟ آپ نے فرمایا جب تک تمہارے پیشوا اس پر قائم رہیں گے اس نے کہا پیشوا کیسے؟ آپ نے فرمایا کیا تمہاری قوم میں ایسے شریف و رئیس نہیں۔ جو لوگوں کو حکم دیتے ہیں تو وہ ان کی اطاعت کرتے ہیں؟ اس نے کہا کیوں نہیں۔ آپ نے فرمایا تو یہی لوگ پیشوا ہیں۔
Narrated Qais bin Abi Hazim: Abu Bakr went to a lady from the Ahmas tribe called Zainab bint Al-Muhajir and found that she refused to speak. He asked, "Why does she not speak." The people said, "She has intended to perform Hajj without speaking." He said to her, "Speak, for it is illegal not to speak, as it is an action of the pre-islamic period of ignorance. So she spoke and said, "Who are you?" He said, "A man from the Emigrants." She asked, "Which Emigrants?" He replied, "From Quraish." She asked, "From what branch of Quraish are you?" He said, "You ask too many questions; I am Abu Bakr." She said, "How long shall we enjoy this good order (i.e. Islamic religion) which Allah has brought after the period of ignorance?" He said, "You will enjoy it as long as your Imams keep on abiding by its rules and regulations." She asked, "What are the Imams?" He said, "Were there not heads and chiefs of your nation who used to order the people and they used to obey them?" She said, "Yes." He said, "So they (i.e. the Imams) are those whom I meant."
حَدَّثَنِي فَرْوَةُ بْنُ أَبِي الْمَغْرَائِ أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ عَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ أَسْلَمَتْ امْرَأَةٌ سَوْدَائُ لِبَعْضِ الْعَرَبِ وَکَانَ لَهَا حِفْشٌ فِي الْمَسْجِدِ قَالَتْ فَکَانَتْ تَأْتِينَا فَتَحَدَّثُ عِنْدَنَا فَإِذَا فَرَغَتْ مِنْ حَدِيثِهَا قَالَتْ وَيَوْمُ الْوِشَاحِ مِنْ تَعَاجِيبِ رَبِّنَا أَلَا إِنَّهُ مِنْ بَلْدَةِ الْکُفْرِ أَنْجَانِي فَلَمَّا أَکْثَرَتْ قَالَتْ لَهَا عَائِشَةُ وَمَا يَوْمُ الْوِشَاحِ قَالَتْ خَرَجَتْ جُوَيْرِيَةٌ لِبَعْضِ أَهْلِي وَعَلَيْهَا وِشَاحٌ مِنْ أَدَمٍ فَسَقَطَ مِنْهَا فَانْحَطَّتْ عَلَيْهِ الْحُدَيَّا وَهِيَ تَحْسِبُهُ لَحْمًا فَأَخَذَتْهُ فَاتَّهَمُونِي بِهِ فَعَذَّبُونِي حَتَّی بَلَغَ مِنْ أَمْرِي أَنَّهُمْ طَلَبُوا فِي قُبُلِي فَبَيْنَاهُمْ حَوْلِي وَأَنَا فِي کَرْبِي إِذْ أَقْبَلَتْ الْحُدَيَّا حَتَّی وَازَتْ بِرُئُوسِنَا ثُمَّ أَلْقَتْهُ فَأَخَذُوهُ فَقُلْتُ لَهُمْ هَذَا الَّذِي اتَّهَمْتُمُونِي بِهِ وَأَنَا مِنْهُ بَرِيئَةٌ-
فروہ بن ابی المغراء علی بن مسہر ہشام ان کے والد حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتی ہیں کہ ایک حبشی عورت جو کسی عرب کی لونڈی تھی۔ ایمان لائی اور مسجد (کے قریب) میں اس کی ایک جھونپڑی تھی جس میں وہ رہتی تھی وہ فرماتی ہیں کہ وہ ہمارے پاس آکر ہم سے باتیں کرتی اور جب وہ اپنی بات سے فارغ ہو جاتی تو یہ کہا کرتی کہ اور ہار والا دن پروردگار کی عجائبات قدرت میں سے ہے ہاں اسی نے مجھے کفر کے شہر سے نجات عطا فرمائی! جب اس نے بہت دفعہ یہ کہا تو اس سے حضرت عائشہ نے پوچھا۔ ہار والا دن (کیسا واقعہ ہے) اس نے کہا میرے آقا کی ایک لڑکی باہر نکلی اس پر ایک چمڑے کا ہار تھا وہ ہار اس کے پاس سے گر گیا تو ایک چیل گوشت سمجھ کر اس پر جھپٹی اور لے گئی۔ لوگوں نے مجھ پر تہمت لگائی اور مجھے سزادی۔ حتی کہ میرا معاملہ یہاں تک بڑھا کہ انہوں نے میر شرمگاہ کی بھی تلاشی لی۔ لوگ میرے ارد گرد تھے اور میں اپنی مصیبت میں مبتلا تھی۔ کہ دفعتا وہ چیل آئی جب وہ ہمارے سروں پر آگئی تو اس نے وہ ہار ڈال دیا۔ لوگوں نے اسے لے لیا تو میں نے کہا تم نے اسی کی تہمت مجھ پر لگائی تھی حالانکہ میں اس سے بالکل بری تھی۔
Narrated 'Aisha: A black lady slave of some of the 'Arabs embraced Islam and she had a hut in the mosque. She used to visit us and talk to us, and when she finished her talk, she used to say: "The day of the scarf was one of our Lord's wonders: Verily! He has delivered me from the land of Kufr." When she said the above verse many times, I (i.e. 'Aisha) asked her, "What was the day of the scarf?" She replied, "Once the daughter of some of my masters went out and she was wearing a leather scarf (round her neck) and the leather scarf fell from her and a kite descended and picked it up, mistaking it for a piece of meat. They (i.e. my masters) accused me of stealing it and they tortured me to such an extent that they even looked for it in my private parts. So, while they all were around me, and I was in my great distress, suddenly the kite came over our heads and threw the scarf, and they took it. I said to them 'This is what you accused me of stealing, though I was innocent."
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَلَا مَنْ کَانَ حَالِفًا فَلَا يَحْلِفْ إِلَّا بِاللَّهِ فَکَانَتْ قُرَيْشٌ تَحْلِفُ بِآبَائِهَا فَقَالَ لَا تَحْلِفُوا بِآبَائِکُمْ-
قتیبہ اسماعیل بن جعفر عبداللہ بن دینار حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دیکھو جو قسم کھانا چاہے تو اسے اللہ کے سوا کسی کی قسم نہ کھانا چاہئے اور قریش اپنے باپ دادوں کی قسم کھاتے تھے تو آپ نے فرمایا کہ اپنے باپ دادوں کی قسم نہ کھاؤ۔
Narrated 'Umar: The Prophet said, "If anybody has to take an oath, he should swear only by Allah." The people of Quraish used to swear by their fathers, but the Prophet said, "Do not swear by your fathers. "
حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سُلَيْمَانَ قَالَ حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عَمْرٌو أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْقَاسِمِ حَدَّثَهُ أَنَّ الْقَاسِمَ کَانَ يَمْشِي بَيْنَ يَدَيْ الْجَنَازَةِ وَلَا يَقُومُ لَهَا وَيُخْبِرُ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ کَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ يَقُومُونَ لَهَا يَقُولُونَ إِذَا رَأَوْهَا کُنْتِ فِي أَهْلِکِ مَا أَنْتِ مَرَّتَيْنِ-
یحیی بن سلیمان ابن وہب عمرو عبدالرحمن بن قاسم سے روایت کرتے ہیں کہ قاسم جنازہ کے آگے آگے جاتے تھے اور اسے دیکھ کر کھڑے نہ ہوتے تھے تو وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے واسطے سے بیان کرتے تھے کہ انہوں نے فرمایا زمانہ جاہلیت میں لوگ جنازہ کو دیکھ کر کھڑے ہو جاتے اور دو مرتبہ کہا کرتے تھے کہ تو اپنے عزیزوں کے پاس ہے جیسے پہلے تھا۔
Narrated 'Abdur-Rahman bin Al-Qasim: Al-Qasim used to walk in front of the funeral procession. He used not to get up for the funeral procession (in case it passed by him). And he narrated from 'Aisha that she said, "The people of the pre-lslamic period of ignorance used to stand up for the funeral procession. When they saw it they used to say twice: 'You were noble in your family. What are you now?"
حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ عَبَّاسٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ قَالَ قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِنَّ الْمُشْرِکِينَ کَانُوا لَا يُفِيضُونَ مِنْ جَمْعٍ حَتَّی تَشْرُقَ الشَّمْسُ عَلَی ثَبِيرٍ فَخَالَفَهُمْ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَفَاضَ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ-
عمرو بن عباس عبدالرحمن سفیان ابواسحاق عمرو بن میمون سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ مشرکین ثیبر نامی پہاڑ پر دھوپ آ جانے کے بعد مزدلفہ سے نکلا کرتے تھے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے طلوع آفتاب سے پہلے ہی وہاں سے نکل کر ان کی مخالفت کی۔
Narrated 'Umar: The pagans used not to leave Jam' (i.e. Muzdalifa) till the sun had risen on Thabir mountain. The Prophet contradicted them by leaving (Muzdalifa) before the sun rose.
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ قُلْتُ لِأَبِي أُسَامَةَ حَدَّثَکُمْ يَحْيَی بْنُ الْمُهَلَّبِ حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ عَنْ عِکْرِمَةَ وَکَأْسًا دِهَاقًا قَالَ مَلْأَی مُتَتَابِعَةً قَالَ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ اسْقِنَا کَأْسًا دِهَاقًا-
اسحاق بن ابراہیم ابواسامہ یحیی بن مہلب حضرت حصین سے روایت کرتے ہیں کہ عکرمہ نے فرمایا کہ وکاسا دھاقا کے معنی ہیں مسلسل بھرا ہوا پیالہ نیز یہ بھی کہتے تھے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں نے اپنے والد سے سنا وہ زمانہ جاہلیت میں کہتے تھے ہمیں لبالب جام شراب پلا دے۔
Narrated Husain: That Ikrima said, "Kasan Dihaqa means glass full (of something) followed successively with other full glasses." Ibn 'Abbas said, "In the pre-lslamic period of ignorance I heard my father saying, "Provide us with Kasan Dihaqa."
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصْدَقُ کَلِمَةٍ قَالَهَا الشَّاعِرُ کَلِمَةُ لَبِيدٍ أَلَا کُلُّ شَيْئٍ مَا خَلَا اللَّهَ بَاطِلٌ وَکَادَ أُمَيَّةُ بْنُ أَبِي الصَّلْتِ-
ابو نعیم سفیان عبدالملک ابوسلمہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شاعر کی سب سے سچی بات لبید کی بات ہے کہ دیکھو اللہ تعالیٰ کے سوائے ہر چیز باطل ہے اور قریب تھا کہ امیہ بن صلت اسلام لے آتا۔
Narrated Abu Huraira: The Prophet said, "The most true words said by a poet was the words of Labid." He said, Verily, Everything except Allah is perishable and Umaiya bin As-Salt was about to be a Muslim (but he did not embrace Islam).
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ حَدَّثَنِي أَخِي عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلَالٍ عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ کَانَ لِأَبِي بَکْرٍ غُلَامٌ يُخْرِجُ لَهُ الْخَرَاجَ وَکَانَ أَبُو بَکْرٍ يَأْکُلُ مِنْ خَرَاجِهِ فَجَائَ يَوْمًا بِشَيْئٍ فَأَکَلَ مِنْهُ أَبُو بَکْرٍ فَقَالَ لَهُ الْغُلَامُ أَتَدْرِي مَا هَذَا فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ وَمَا هُوَ قَالَ کُنْتُ تَکَهَّنْتُ لِإِنْسَانٍ فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَمَا أُحْسِنُ الْکِهَانَةَ إِلَّا أَنِّي خَدَعْتُهُ فَلَقِيَنِي فَأَعْطَانِي بِذَلِکَ فَهَذَا الَّذِي أَکَلْتَ مِنْهُ فَأَدْخَلَ أَبُو بَکْرٍ يَدَهُ فَقَائَ کُلَّ شَيْئٍ فِي بَطْنِهِ-
اسماعیل ان کے بھائی سلیمان یحیی بن سعید عبدالرحمن بن قاسم قاسم بن محمد حضرت عائشہ سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ ابوبکر کا ایک غلام تھا جو انہیں کچھ محصول دیا کرتا تھا اور آپ اس کا محصول کھانے کے کام میں لاتے تھے ایک دن وہ کوئی چیز لایا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے کھا لیا تو ان سے غلام نے کہا آپ کو معلوم ہے یہ کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا کیا تھی؟ اس نے کہا میں نے زمانہ جاہلیت میں آئندہ ہونے والی بات (کہانت) ایک آدمی کو بتادی تھی حالانکہ میں خود یہ فن نہیں جانتا تھا بلکہ میں نے اسے دھوکہ دیا تھا تو (آج) وہ مجھ سے ملا اور (یہ چیز) اس نے مجھے اسی کے عوض دی ہے اور اسی کو آپ نے کھایا ہے تو ابوبکر نے اپنی انگلی منہ میں ڈال کر پیٹ کی ہر چیز کو قے کر کے نکال دیا۔
Narrated 'Aisha: Abu Bakr had a slave who used to give him some of his earnings. Abu Bakr used to eat from it. One day he brought something and Abu Bakr ate from it. The slave said to him, "Do you know what this is?" Abu Bakr then enquired, "What is it?" The slave said, "Once, in the pre-Islamic period of ignorance I foretold somebody's future though I did not know this knowledge of foretelling but I, cheated him, and when he met me, he gave me something for that service, and that is what you have eaten from." Then Abu Bakr put his hand in his mouth and vomited whatever was present in his stomach.
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَحْيَی عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ أَخْبَرَنِي نَافِعٌ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ کَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ يَتَبَايَعُونَ لُحُومَ الْجَزُورِ إِلَی حَبَلِ الْحَبَلَةِ قَالَ وَحَبَلُ الْحَبَلَةِ أَنْ تُنْتَجَ النَّاقَةُ مَا فِي بَطْنِهَا ثُمَّ تَحْمِلَ الَّتِي نُتِجَتْ فَنَهَاهُمْ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِکَ-
مسدد یحیی عبیداللہ نافع حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ حبل الحبلۃ کے وعدے پر خرید و فروخت کیا کرتے تھے اور حبل الحبلہ یہ ہے کہ اونٹنی کے بچہ پیدا ہو پھر وہ بچہ حاملہ ہوجائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فعل سے ممانعت فرما دی ہے۔
Narrated Ibn 'Umar: In the pre-lslamic period of ignorance the people used to bargain with the meat of camels on the principle of Habal-al-Habala which meant the sale of a she-camel that would be born by a she-camel that had not yet been born. The Prophet forbade them such a transaction.
حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا مَهْدِيٌّ قَالَ غَيْلَانُ بْنُ جَرِيرٍ کُنَّا نَأْتِي أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ فَيُحَدِّثُنَا عَنْ الْأَنْصَارِ وَکَانَ يَقُولُ لِي فَعَلَ قَوْمُکَ کَذَا وَکَذَا يَوْمَ کَذَا وَکَذَا وَفَعَلَ قَوْمُکَ کَذَا وَکَذَا يَوْمَ کَذَا وَکَذَا-
ابو النعمان مہدی غیلان بن جریر سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو وہ ہمیں انصار کی باتیں سنایا کرتے تھے اور مجھ سے فرماتے تھے کہ تیری قوم (انصار) نے فلاں دن ایسا کیا اور فلاں دن ایسا کیا۔
Narrated Ghailan bin Jarir: We used to visit Anas bin Malik and he used to talk to us about the Ansar, and used to say to me: "Your people did so-and-so on such-and-such a day, and your people did so-and-so on such-and-such a day."