جنگ خیبر کا بیان (جو سن ھ میں ہوئی)

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَکْوَعِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَی خَيْبَرَ فَسِرْنَا لَيْلًا فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْقَوْمِ لِعَامِرٍ يَا عَامِرُ أَلَا تُسْمِعُنَا مِنْ هُنَيْهَاتِکَ وَکَانَ عَامِرٌ رَجُلًا شَاعِرًا فَنَزَلَ يَحْدُو بِالْقَوْمِ يَقُولُ اللَّهُمَّ لَوْلَا أَنْتَ مَا اهْتَدَيْنَا وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّيْنَا فَاغْفِرْ فِدَائً لَکَ مَا أَبْقَيْنَا وَثَبِّتْ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَيْنَا وَأَلْقِيَنْ سَکِينَةً عَلَيْنَا إِنَّا إِذَا صِيحَ بِنَا أَبَيْنَا وَبِالصِّيَاحِ عَوَّلُوا عَلَيْنَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ هَذَا السَّائِقُ قَالُوا عَامِرُ بْنُ الْأَکْوَعِ قَالَ يَرْحَمُهُ اللَّهُ قَالَ رَجُلٌ مِنْ الْقَوْمِ وَجَبَتْ يَا نَبِيَّ اللَّهِ لَوْلَا أَمْتَعْتَنَا بِهِ فَأَتَيْنَا خَيْبَرَ فَحَاصَرْنَاهُمْ حَتَّی أَصَابَتْنَا مَخْمَصَةٌ شَدِيدَةٌ ثُمَّ إِنَّ اللَّهَ تَعَالَی فَتَحَهَا عَلَيْهِمْ فَلَمَّا أَمْسَی النَّاسُ مَسَائَ الْيَوْمِ الَّذِي فُتِحَتْ عَلَيْهِمْ أَوْقَدُوا نِيرَانًا کَثِيرَةً فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا هَذِهِ النِّيرَانُ عَلَی أَيِّ شَيْئٍ تُوقِدُونَ قَالُوا عَلَی لَحْمٍ قَالَ عَلَی أَيِّ لَحْمٍ قَالُوا لَحْمِ حُمُرِ الْإِنْسِيَّةِ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَهْرِيقُوهَا وَاکْسِرُوهَا فَقَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَوْ نُهَرِيقُهَا وَنَغْسِلُهَا قَالَ أَوْ ذَاکَ فَلَمَّا تَصَافَّ الْقَوْمُ کَانَ سَيْفُ عَامِرٍ قَصِيرًا فَتَنَاوَلَ بِهِ سَاقَ يَهُودِيٍّ لِيَضْرِبَهُ وَيَرْجِعُ ذُبَابُ سَيْفِهِ فَأَصَابَ عَيْنَ رُکْبَةِ عَامِرٍ فَمَاتَ مِنْهُ قَالَ فَلَمَّا قَفَلُوا قَالَ سَلَمَةُ رَآنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ آخِذٌ بِيَدِي قَالَ مَا لَکَ قُلْتُ لَهُ فَدَاکَ أَبِي وَأُمِّي زَعَمُوا أَنَّ عَامِرًا حَبِطَ عَمَلُهُ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَذَبَ مَنْ قَالَهُ إِنَّ لَهُ لَأَجْرَيْنِ وَجَمَعَ بَيْنَ إِصْبَعَيْهِ إِنَّهُ لَجَاهِدٌ مُجَاهِدٌ قَلَّ عَرَبِيٌّ مَشَی بِهَا مِثْلَهُ حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَاتِمٌ قَالَ نَشَأَ بِهَا-
عبداللہ بن مسلمہ، حاتم بن اسماعیل، یزید بن ابی عبید، سلمہ بن اکوع سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ خیبر کی جانب (جنگ کے ارادہ سے) چلے ہم رات میں جا رہے تھے کہ ایک شخص نے عامر سے کہا کہ تم ہمیں اپنے اشعار کیوں نہیں سناتے عامر ایک شاعر آدمی تھے (یہ سن کر) وہ نیچے اترے اور اس طرح حدی خوانی کرنے لگے۔ اے خدا اگر تیرا حکم نہ ہوتا تو ہم ہدایت یافتہ نہ ہوتے، نہ صدقے دیتے اور نہ نماز پڑھتے، ہم تیرے نبی اور دین کے اوپر قربان ہماری کو تاہیوں کو معاف فرما اور جنگ میں ثابت قدم رکھ۔ اور ہمیں سکون کی دولت سے نواز جب ہمیں (باطل کی طرف) بلایا جائے گا تو ہم انکار کردیں گے اور کافر غل مچا کر ہمارے خلاف اتر آئے ہیں۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ حدی خوان کون ہے؟ صحابہ نے عرض کیا عامر بن اکوع۔ آپ نے فرمایا اللہ اس پر رحم کرے تو جماعت میں سے ایک آدمی (حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے عرض کیا یا رسول اللہ! اب یہ جنت یا شہادت کا مستحق ہوگیا آپ نے ہمیں اس سے منتفع ہونے دیا ہوتا پھر ہم خیبر پہنچ گئے تو ہم نے یہودیوں کا محاصرہ کرلیا حتیٰ کہ ہمیں سخت بھوک لگی پھر اللہ تعالیٰ نے خیبر میں مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی فتح کے دن مسلمانوں نے شام کو (کچھ پکانے کے لئے) خوب آگ سلگائی تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ کیسی آگ ہے اور تم لوگ اس پر کیا چیز پکا رہے ہو؟ عرض کیا گیا گوشت اور دریافت فرمایا کس کا گوشت؟ عرض کیا پالتوں گدھوں کا گوشت آپ نے فرمایا پھینکدو اور ہانڈیوں کو توڑ دو، ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا ہم (گوشت) پھینک کر ہانڈیاں دھو ڈالیں۔ آپ نے فرمایا ہاں یا ایسا کرلو جب قوم کی صف بندی ہوئی (اور لڑائی شروع ہوئی تو چونکہ) عامر کی تلوار چھوٹی تھی انہوں نے ایک یہودی کی پنڈلی پر تلوار ماری (لیکن) اس کی دھار پلٹ کر ان کے گھٹنے کی چکتی میں لگی اور اسی سے ان کی وفات ہوگئی سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ جب واپسی ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو میرا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے مجھے (کچھ مغموم) دیکھا تو فرمایا تمہیں کیا ہوا ہے؟ میں نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر قربان لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ عامر کے عمل اکارت گئے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو ایسا کہتا ہے وہ جھوٹا ہے اور آپ نے اپنی دونوں انگلیاں ملا کر فرمایا کہ اسے دو گنا اجر ملے گا وہ تو کشش کرنے والا مجاہد تھا بہت کم مدینہ میں چلنے والے عربی اس جیسے ہیں قتیبہ نے بواسطہ حاتم یہ الفاظ روایت کئے ہیں نشابھا۔
Narrated Salama bin Al-Akwa: We went out to Khaibar in the company of the Prophet. While we were proceeding at night, a man from the group said to 'Amir, "O 'Amir! Won't you let us hear your poetry?" 'Amir was a poet, so he got down and started reciting for the people poetry that kept pace with the camels' footsteps, saying:-- "O Allah! Without You we Would not have been guided On the right path Neither would be have given In charity, nor would We have prayed. So please forgive us, what we have committed (i.e. our defects); let all of us Be sacrificed for Your Cause And send Sakina (i.e. calmness) Upon us to make our feet firm When we meet our enemy, and If they will call us towards An unjust thing, We will refuse. The infidels have made a hue and Cry to ask others' help Against us." The Prophet on that, asked, "Who is that (camel) driver (reciting poetry)?" The people said, "He is 'Amir bin Al-Akwa'." Then the Prophet said, "May Allah bestow His Mercy on him." A man amongst the people said, "O Allah's Prophet! has (martyrdom) been granted to him. Would that you let us enjoy his company longer." Then we reached and besieged Khaibar till we were afflicted with severe hunger. Then Allah helped the Muslims conquer it (i.e. Khaibar). In the evening of the day of the conquest of the city, the Muslims made huge fires. The Prophet said, "What are these fires? For cooking what, are you making the fire?" The people replied, "(For cooking) meat." He asked, "What kind of meat?" They (i.e. people) said, "The meat of donkeys." The Prophet said, "Throw away the meat and break the pots!" Some man said, "O Allah's Apostle! Shall we throw away the meat and wash the pots instead?" He said, "(Yes, you can do) that too." So when the army files were arranged in rows (for the clash), 'Amir's sword was short and he aimed at the leg of a Jew to strike it, but the sharp blade of the sword returned to him and injured his own knee, and that caused him to die. When they returned from the battle, Allah's Apostle saw me (in a sad mood). He took my hand and said, "What is bothering you?" I replied, "Let my father and mother be sacrificed for you! The people say that the deeds of 'Amir are lost." The Prophet said, "Whoever says so, is mistaken, for 'Amir has got a double reward." The Prophet raised two fingers and added, "He (i.e. Amir) was a persevering struggler in the Cause of Allah and there are few 'Arabs who achieved the like of (good deeds) 'Amir had done."
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَالِکٌ عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَی خَيْبَرَ لَيْلًا وَکَانَ إِذَا أَتَی قَوْمًا بِلَيْلٍ لَمْ يُغِرْ بِهِمْ حَتَّی يُصْبِحَ فَلَمَّا أَصْبَحَ خَرَجَتْ الْيَهُودُ بِمَسَاحِيهِمْ وَمَکَاتِلِهِمْ فَلَمَّا رَأَوْهُ قَالُوا مُحَمَّدٌ وَاللَّهِ مُحَمَّدٌ وَالْخَمِيسُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرِبَتْ خَيْبَرُ إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَةِ قَوْمٍ فَسَائَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِينَ-
عبداللہ بن یوسف، مالک، حمید طویل، انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کے وقت خیبر پہنچے اور آپ کے عادت یہ تھی کہ جب آپ رات کو پہنچتے تو ان پر صبح تک حملہ نہیں کرتے تھے جب صبح ہوئی تو یہودی اپنے کلہاڑے اور زنبیلیں لے کر نکلے جب انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا تو بے ساختہ کہنے لگے یہ تو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں و اللہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بمعہ لشکر کے موجود ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا خیبر برباد ہوگیا جب ہم کسی قوم کے میدان میں اتر پڑیں تو ان ڈرائے ہوؤں کی صبح بری ہوتی ہے۔
Narrated Anas: Allah's Apostle reached Khaibar at night and it was his habit that, whenever he reached the enemy at night, he will not attack them till it was morning. When it was morning, the Jews came out with their spades and baskets, and when they saw him(i.e. the Prophet ), they said, "Muhammad! By Allah! Muhammad and his army!" The Prophet said, "Khaibar is destroyed, for whenever we approach a (hostile) nation (to fight), then evil will be the morning for those who have been warned." Narrated Anas bin Malik: We reached Khaibar early in the morning and the inhabitants of Khaibar came out carrying their spades, and when they saw the Prophet they said, "Muhammad! By Allah! Muhammad and his army!" The Prophet said, "Allahu-Akbar! Khaibar is destroyed, for whenever we approach a (hostile) nation (to fight) then evil will be the morning for those who have been warned." We then got the meat of donkeys (and intended to eat it), but an announcement was made by the announcer of the Prophet, "Allah and His Apostle forbid you to eat the meat of donkeys as it is an impure thing."
أَخْبَرَنَا صَدَقَةُ بْنُ الْفَضْلِ أَخْبَرَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ صَبَّحْنَا خَيْبَرَ بُکْرَةً فَخَرَجَ أَهْلُهَا بِالْمَسَاحِي فَلَمَّا بَصُرُوا بِالنَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالُوا مُحَمَّدٌ وَاللَّهِ مُحَمَّدٌ وَالْخَمِيسُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّهُ أَکْبَرُ خَرِبَتْ خَيْبَرُ إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَةِ قَوْمٍ فَسَائَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِينَ فَأَصَبْنَا مِنْ لُحُومِ الْحُمُرِ فَنَادَی مُنَادِي النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يَنْهَيَانِکُمْ عَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ فَإِنَّهَا رِجْسٌ-
صدقہ بن فضل، ابن عیینہ، ایوب، محمد بن سیرین، انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ہم لوگ خیبر میں صبح سویرے موجود تھے کہ اہل خیبر اپنے کلہاڑے لے کر نکلے جب انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا تو کہنے لگے یہ تو محمد ہیں بخدا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مع لشکر کے موجود ہیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ اکبر! خیبر برباد ہوگیا جب ہم کسی قوم کے میدان میں اتر پڑیں تو ڈرائے ہوئے لوگوں کی صبح بری ہوتی ہے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں گدھوں کا گوشت ملا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منادی نے اعلان کیا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہیں گوشت سے منع کرتے ہیں کیونکہ وہ ناپاک ہیں۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ عَنْ مُحَمَّدٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَائَهُ جَائٍ فَقَالَ أُکِلَتْ الْحُمُرُ فَسَکَتَ ثُمَّ أَتَاهُ الثَّانِيَةَ فَقَالَ أُکِلَتْ الْحُمُرُ فَسَکَتَ ثُمَّ أَتَاهُ الثَّالِثَةَ فَقَالَ أُفْنِيَتْ الْحُمُرُ فَأَمَرَ مُنَادِيًا فَنَادَی فِي النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يَنْهَيَانِکُمْ عَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الْأَهْلِيَّةِ فَأُکْفِئَتْ الْقُدُورُ وَإِنَّهَا لَتَفُورُ بِاللَّحْمِ-
عبداللہ بن عبدالوہاب، عبدالوہاب، ایوب، محمد، انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے عرض کیا یا رسول اللہ! گدھے کھا لئے گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے پھر اس نے آکر دوبارہ عرض کیا کہ گدھے کھا لئے گئے آپ نے جواب نہ دیا پھر اس نے تیسری مرتبہ آکر عرض کیا کہ (اب تو) گدھے ختم ہو گئے تو آپ نے ایک منادی کو حکم دیا جس نے لوگوں میں یہ اعلان کیا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول تمہیں پالتو گدھوں کے گوشت سے منع کرتے ہیں تو ہانڈیاں الٹ دی گئیں حالانکہ ان میں گوشت خوب پک رہا تھا۔
Narrated Anas bin Malik: Someone came to Allah's Apostles and said, "The donkeys have been eaten (by the Muslims)." The Prophet kept quiet. Then the man came again and said, "The donkeys have been eaten." The Prophet kept quiet. The man came to him the third time and said, "The donkeys have been consumed." On that the Prophet ordered an announcer to announce to the people, "Allah and His Apostle forbid you to eat the meat of donkeys." Then the cooking pots were upset while the meat was still boiling in them.
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ صَلَّی النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصُّبْحَ قَرِيبًا مِنْ خَيْبَرَ بِغَلَسٍ ثُمَّ قَالَ اللَّهُ أَکْبَرُ خَرِبَتْ خَيْبَرُ إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَةِ قَوْمٍ فَسَائَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِينَ فَخَرَجُوا يَسْعَوْنَ فِي السِّکَکِ فَقَتَلَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُقَاتِلَةَ وَسَبَی الذُّرِّيَّةَ وَکَانَ فِي السَّبْيِ صَفِيَّةُ فَصَارَتْ إِلَی دَحْيَةَ الْکَلْبِيِّ ثُمَّ صَارَتْ إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَعَلَ عِتْقَهَا صَدَاقَهَا فَقَالَ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ لِثَابِتٍ يَا أَبَا مُحَمَّدٍ آنْتَ قُلْتَ لِأَنَسٍ مَا أَصْدَقَهَا فَحَرَّکَ ثَابِتٌ رَأْسَهُ تَصْدِيقًا لَهُ-
سلیمان بن حرب، حماد بن زید، ثابت، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے قریب اندھیرے میں صبح کی نماز پڑھی پھر فرمایا اللہ اکبر! خیبر برباد ہوگیا جب ہم کسی قوم کے میدان میں اتر پڑیں تو ان ڈرائے ہوئے لوگوں کی صبح بری ہوتی ہے اہل خیبر نکل کر گلی کوچوں میں بھاگنے لگے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مقابلہ کرنے والوں کو تو قتل کردیا اور بچوں (وغیرہ) کو قید کرلیا قیدیوں میں حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی تھیں (پہلے تو) وہ دحیہ کلبی کے حصہ میں آئیں پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حصہ میں چلی گئیں آپ نے ان سے نکاح کرلیا اور ان کا مہران کی آزادی کو مقرر فرمایا عبدالعزیز بن صہیب نے ثابت سے کہا کہ اے ابومحمد! کیا تم نے انس سے کہا تھا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا کیا مہر مقرر فرمایا تھا تو انہوں نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے اپنا سر ہلادیا۔
Narrated Anas: The Prophet offered the Fajr Prayer near Khaibar when it was still dark and then said, "Allahu-Akbar! Khaibar is destroyed, for whenever we approach a (hostile) nation (to fight), then evil will be the morning for those who have been warned." Then the inhabitants of Khaibar came out running on the roads. The Prophet had their warriors killed, their offspring and woman taken as captives. Safiya was amongst the captives, She first came in the share of Dahya Alkali but later on she belonged to the Prophet . The Prophet made her manumission as her 'Mahr'.
حَدَّثَنَا آدَمُ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ قَالَ سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ سَبَی النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَفِيَّةَ فَأَعْتَقَهَا وَتَزَوَّجَهَا فَقَالَ ثَابِتٌ لِأَنَسٍ مَا أَصْدَقَهَا قَالَ أَصْدَقَهَا نَفْسَهَا فَأَعْتَقَهَا-
آدم، شعبہ، عبدالعزیز بن صہیب، انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قید کیا پھر انہیں آزاد کرکے ان سے نکاح کرلیا تو ثابت نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا کیا مہر مقرر فرمایا؟ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا خود ان کو ہی ان کا مہر مقرر فرمایا کہ انہیں آزاد کردیا۔
Narrated 'Abdul 'Aziz bin Suhaib: Anas bin Malik said, "The Prophet took Safiya as a captive. He manumitted her and married her." Thabit asked Anas, "What did he give her as Mahr (i.e. marriage gift)?" Anas replied. "Her Mahr was herself, for he manumitted her."
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْتَقَی هُوَ وَالْمُشْرِکُونَ فَاقْتَتَلُوا فَلَمَّا مَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَی عَسْکَرِهِ وَمَالَ الْآخَرُونَ إِلَی عَسْکَرِهِمْ وَفِي أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ لَا يَدَعُ لَهُمْ شَاذَّةً وَلَا فَاذَّةً إِلَّا اتَّبَعَهَا يَضْرِبُهَا بِسَيْفِهِ فَقِيلَ مَا أَجْزَأَ مِنَّا الْيَوْمَ أَحَدٌ کَمَا أَجْزَأَ فُلَانٌ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَا إِنَّهُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْقَوْمِ أَنَا صَاحِبُهُ قَالَ فَخَرَجَ مَعَهُ کُلَّمَا وَقَفَ وَقَفَ مَعَهُ وَإِذَا أَسْرَعَ أَسْرَعَ مَعَهُ قَالَ فَجُرِحَ الرَّجُلُ جُرْحًا شَدِيدًا فَاسْتَعْجَلَ الْمَوْتَ فَوَضَعَ سَيْفَهُ بِالْأَرْضِ وَذُبَابَهُ بَيْنَ ثَدْيَيْهِ ثُمَّ تَحَامَلَ عَلَی سَيْفِهِ فَقَتَلَ نَفْسَهُ فَخَرَجَ الرَّجُلُ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَشْهَدُ أَنَّکَ رَسُولُ اللَّهِ قَالَ وَمَا ذَاکَ قَالَ الرَّجُلُ الَّذِي ذَکَرْتَ آنِفًا أَنَّهُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ فَأَعْظَمَ النَّاسُ ذَلِکَ فَقُلْتُ أَنَا لَکُمْ بِهِ فَخَرَجْتُ فِي طَلَبِهِ ثُمَّ جُرِحَ جُرْحًا شَدِيدًا فَاسْتَعْجَلَ الْمَوْتَ فَوَضَعَ نَصْلَ سَيْفِهِ فِي الْأَرْضِ وَذُبَابَهُ بَيْنَ ثَدْيَيْهِ ثُمَّ تَحَامَلَ عَلَيْهِ فَقَتَلَ نَفْسَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِکَ إِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ الْجَنَّةِ فِيمَا يَبْدُو لِلنَّاسِ وَهُوَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ النَّارِ فِيمَا يَبْدُو لِلنَّاسِ وَهُوَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ-
قتیبہ، یعقوب، ابی حازم، سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکین (یعنی یہود و خیبر) صف آراء ہو کر خوب لڑے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے لوگ اپنے اپنے لشکروں کی طرف واپس آئے اور اصحاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم (کے لشکر) میں ایک ایسا بھی آدمی تھا جو کسی اکیلے یہودی کو بغیر تلوار سے قتل کئے نہ چھوڑتا تھا مسلمانوں میں مشہور ہوا کہ ہماری طرف سے جتنا کام آج فلاں شخص نے کیا کسی نے نہیں کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیکھو وہ دوزخی ہے (یہ سن کر) ایک آدمی نے کہا میں (امتحان کے طور پر) اس کے ساتھ رہوں گا چنانچہ وہ اس کے پیچھے ہوگیا کہ جب وہ ٹھہرتا یہ بھی ٹھہر جاتا اور جب وہ تیزی سے چلتا تو یہ بھی چلنے لگتا وہ کہتا ہے کہ پھر اس شخص کے ایک سخت زخم لگا (جس کی تکلیف برداشت نہ کرتے ہوئے) اس نے جلدی سے مرنا چاہا تو اس نے اپنی تلوار زمین پر ٹیک کر اس کی نوک اپنے سینہ کے درمیان رکھی پھر اس پر اپنا بوجھ ڈال کر جھول گیا اور خود کشی کرلی تو یہ آدمی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں آپ نے فرمایا کیا بات ہے اس نے عرض کیا کہ ابھی آپ نے جو ایک شخص کے دوزخی ہونے کے متعلق فرمایا تھا تو لوگوں کو یہ چیز دشوار سی معلوم ہوئی تو میں نے کہا اس کی حقیقت معلوم کرنے کا ذمہ دار ہوں تو میں اس کی تلاش میں چلا پھر وہ سخت زخمی ہوا اور جلدی مرنے کے لئے اپنی تلوار کو زمین پر ٹیک کر اس کی نوک اپنے سینہ کے درمیان رکھ رلی پھر اس پر اپنا بوجھ ڈال کر خود کشی کرلی تو اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انسان لوگوں کی نظر میں جنتیوں جیسا عمل کرتا ہے حالانکہ وہ دوزخی ہوتا ہے کہ کوئی ایسا کام کرتا ہے کہ جس سے پہلے تمام اعمال اکارت ہو جاتے ہیں اور کوئی شخص لوگوں کی نظر میں دوزخیوں جیسا عمل کرتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے۔
Narrated Sahl bin Sad As Saidi: Allah's Apostle (and his army) encountered the pagans and the two armies.,, fought and then Allah's Apostle returned to his army camps and the others (i.e. the enemy) returned to their army camps. Amongst the companions of the Prophet there was a man who could not help pursuing any single isolated pagan to strike him with his sword. Somebody said, "None has benefited the Muslims today more than so-and-so." On that Allah's Apostle said, "He is from the people of the Hell-Fire certainly." A man amongst the people (i.e. Muslims) said, "I will accompany him (to know the fact)." So he went along with him, and whenever he stopped he stopped with him, and whenever he hastened, he hastened with him. The (brave) man then got wounded severely, and seeking to die at once, he planted his sword into the ground and put its point against his chest in between his breasts, and then threw himself on it and committed suicide. On that the person (who was accompanying the deceased all the time) came to Allah's Apostle and said, "I testify that you are the Apostle of Allah." The Prophet said, "Why is that (what makes you say so)?" He said "It is concerning the man whom you have already mentioned as one of the dwellers of the Hell-Fire. The people were surprised by your statement, and I said to them, "I will try to find out the truth about him for you." So I went out after him and he was then inflicted with a severe wound and because of that, he hurried to bring death upon himself by planting the handle of his sword into the ground and directing its tip towards his chest between his breasts, and then he threw himself over it and committed suicide." Allah's Apostle then said, "A man may do what seem to the people as the deeds of the dwellers of Paradise but he is from the dwellers of the Hell-Fire and another may do what seem to the people as the deeds of the dwellers of the Hell-Fire, but he is from the dwellers of Paradise."
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ شَهِدْنَا خَيْبَرَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِرَجُلٍ مِمَّنْ مَعَهُ يَدَّعِي الْإِسْلَامَ هَذَا مِنْ أَهْلِ النَّارِ فَلَمَّا حَضَرَ الْقِتَالُ قَاتَلَ الرَّجُلُ أَشَدَّ الْقِتَالِ حَتَّی کَثُرَتْ بِهِ الْجِرَاحَةُ فَکَادَ بَعْضُ النَّاسِ يَرْتَابُ فَوَجَدَ الرَّجُلُ أَلَمَ الْجِرَاحَةِ فَأَهْوَی بِيَدِهِ إِلَی کِنَانَتِهِ فَاسْتَخْرَجَ مِنْهَا أَسْهُمًا فَنَحَرَ بِهَا نَفْسَهُ فَاشْتَدَّ رِجَالٌ مِنْ الْمُسْلِمِينَ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ صَدَّقَ اللَّهُ حَدِيثَکَ انْتَحَرَ فُلَانٌ فَقَتَلَ نَفْسَهُ فَقَالَ قُمْ يَا فُلَانُ فَأَذِّنْ أَنَّهُ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا مُؤْمِنٌ إِنَّ اللَّهَ يُؤَيِّدُ الدِّينَ بِالرَّجُلِ الْفَاجِرِ تَابَعَهُ مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ وَقَالَ شَبِيبٌ عَنْ يُونُسَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ أَخْبَرَنِي ابْنُ الْمُسَيَّبِ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ کَعْبٍ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ شَهِدْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُنَيْنًا وَقَالَ ابْنُ الْمُبَارَکِ عَنْ يُونُسَ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَابَعَهُ صَالِحٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ وَقَالَ الزُّبَيْدِيُّ أَخْبَرَنِي الزُّهْرِيُّ أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ کَعْبٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ کَعْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي مَنْ شَهِدَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْبَرَ قَالَ الزُّهْرِيُّ وَأَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ وَسَعِيدٌ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-
ابو الیمان، شعیب، زہری، سعید بن مسیب، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ ہم خیبر میں حاضر تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مدعی اسلام کے بارے میں جو آپ کے ساتھ تھا فرمایا کہ یہ شخص دوزخی ہے (لیکن) جب جہاد شروع ہوا تو اس نے زبردست جہاد کیا یہاں تک کہ بہت زیادہ زخمی ہوگیا اب بعض لوگوں کو (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر) کچھ شبہ سا ہوا کہ نہ جانے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس سے کیا مقصد ہے جسے ہم سمجھ نہ سکے اس زخمی شخص کو زخموں کی تکلیف زیادہ محسوس ہوئی تو اس نے اپنا ہاتھ ترکش میں ڈال کر کچھ تیر نکالے اور انہیں اپنے گلے میں بھونک لیا تو کچھ مسلمان تیزی سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ نے آپ کی بات کو سچا کر دکھایا کہ فلاں شخص نے گلے میں تیر بھونک کر خود کشی کرلی ہے آ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (کسی سے) فرمایا کہ اے فلاں شخص کھڑے ہو کر لوگوں میں اعلان کردو کہ جنت میں مومن کے سوا اور کوئی نہیں جائے گا اور اللہ (کبھی) بدکار شخص کے ذریعہ بھی اپنے اس دین کی مدد فرماتا ہے۔ صالح نے زہری سے اس حدیث کے متابع حدیث روایت کی ہے اور شعیب نے ابواسامہ، یونس، ابن شہاب سے روایت کیا ہے کہ مجھے ابن مسیب اور عبدالرحمن بن عبداللہ بن کعب نے خبر دی کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ الفاظ فرمائے شھدنا مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم خیبر اور ابن مبارک نے بواسطہ یونس، زہری، سعید نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے صالح نے زہری سے اس کے متابع حدیث روایت کی ہے اور زبیدی نے بواسطہ زہری، عبدالرحمن بن کعب، عبیداللہ بن کعب یہ الفاظ کہے ہیں اخبرنی من شھد مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم خیبر اور زہری نے بواسطہ عبیداللہ بن عبداللہ اور سعید نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔
Narrated Abu Huraira: We witnessed (the battle of) Khaibar. Allah's Apostle said about one of those who were with him and who claimed to be a Muslim. "This (man) is from the dwellers of the Hell-Fire." When the battle started, that fellow fought so violently and bravely that he received plenty of wounds. Some of the people were about to doubt (the Prophet's statement), but the man, feeling the pain of his wounds, put his hand into his quiver and took out of it, some arrows with which he slaughtered himself (i.e. committed suicide). Then some men amongst the Muslims came hurriedly and said, "O Allah's Apostle! Allah has made your statement true so-and-so has committed suicide. "The Prophet said, "O so-and-so! Get up and make an announcement that none but a believer will enter Paradise and that Allah may support the religion with an unchaste (evil) wicked man.
حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ عَنْ أَبِي مُوسَی الْأَشْعَرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَمَّا غَزَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْبَرَ أَوْ قَالَ لَمَّا تَوَجَّهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَشْرَفَ النَّاسُ عَلَی وَادٍ فَرَفَعُوا أَصْوَاتَهُمْ بِالتَّکْبِيرِ اللَّهُ أَکْبَرُ اللَّهُ أَکْبَرُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ارْبَعُوا عَلَی أَنْفُسِکُمْ إِنَّکُمْ لَا تَدْعُونَ أَصَمَّ وَلَا غَائِبًا إِنَّکُمْ تَدْعُونَ سَمِيعًا قَرِيبًا وَهُوَ مَعَکُمْ وَأَنَا خَلْفَ دَابَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَمِعَنِي وَأَنَا أَقُولُ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ فَقَالَ لِي يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسٍ قُلْتُ لَبَّيْکَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ أَلَا أَدُلُّکَ عَلَی کَلِمَةٍ مِنْ کَنْزٍ مِنْ کُنُوزِ الْجَنَّةِ قُلْتُ بَلَی يَا رَسُولَ اللَّهِ فَدَاکَ أَبِي وَأُمِّي قَالَ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ-
موسى بن اسماعیل، عبدالواحد، عاصم، ابوعثمان، حضرت موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر پر چڑھائی کی یا یہ فرمایا کہ جب آپ خیبر کی طرف چلے تو لوگ ایک وادی پر پہنچ کر بلند آواز سے تکبیر پڑھنے لگے کہ اللَّهُ أَکْبَرُ اللَّهُ أَکْبَرُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے آپ پر نرمی کرو (یعنی زور سے نہ چیخو) کیونکہ تم کسی بہرے یا غیر موجود ذات کو نہیں پکار رہے ہو بلکہ تم سننے والے کو جو قریب بھی ہے پکار رہے ہو اور وہ تمہارے ساتھ ساتھ ہے ابوموسیٰ کہتے ہیں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کے پیچھے تھا آپ نے مجھے لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ کہتے ہوئے سنا تو آپ نے فرمایا اے عبداللہ بن قیس! میں نے عرض کیا لبیک یا رسول اللہ! آپ نے فرمایا کیا میں تمہیں ایک ایسا کلمہ نہ بتاؤں جو جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے میں نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر قربان ضرور بتائیے آپ نے فرمایا (وہ) لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ (ہے)
Narrated Abu Musa Al-Ashari: When Allah's Apostle fought the battle of Khaibar, or when Allah's Apostle went towards it, (whenever) the people, (passed over a high place overlooking a valley, they raised their voices saying, "Allahu-Akbar! Allahu-Akbar! None has the right to be worshipped except Allah." On that Allah's Apostle said (to them), "Lower your voices, for you are not calling a deaf or an absent one, but you are calling a Hearer Who is near and is with you." I was behind the riding animal of Allah's Apostle and he heard me saying. "There Is neither might, nor power but with Allah," On that he said to me, "O Abdullah bin Qais!" I said, "Labbaik. O Allah's Apostle!" He said, "Shall I tell you a sentence which is one of the treasures of Paradise" I said, "Yes, O Allah's Apostle! Let my father and mother be sacrificed for your sake." He said, "It is: There is neither might nor power but with Allah."
حَدَّثَنَا الْمَکِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي عُبَيْدٍ قَالَ رَأَيْتُ أَثَرَ ضَرْبَةٍ فِي سَاقِ سَلَمَةَ فَقُلْتُ يَا أَبَا مُسْلِمٍ مَا هَذِهِ الضَّرْبَةُ فَقَالَ هَذِهِ ضَرْبَةٌ أَصَابَتْنِي يَوْمَ خَيْبَرَ فَقَالَ النَّاسُ أُصِيبَ سَلَمَةُ فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَفَثَ فِيهِ ثَلَاثَ نَفَثَاتٍ فَمَا اشْتَکَيْتُهَا حَتَّی السَّاعَةِ-
مکی بن ابراہیم، یزید بن ابی عبید سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ میں نے سلمہ رضی اللہ عنہا کی پنڈلی میں تلوار کی چوٹ کا نشان دیکھا تو میں نے پوچھا اے ابومسلم! یہ چوٹ کیسی ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ میرے یہ چوٹ خیبر کے دن لگی تھی تو لوگوں نے تو یہ کہا کہ سلمہ مر گیا (لیکن) میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا تو آپ نے اس پر تین مرتبہ دم فرما دیا تو مجھے اس وقت سے اب تک کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوئی۔
Narrated Yazid bin Abi Ubaid: I saw the trace of a wound in Salama's leg. I said to him, "O Abu Muslim! What is this wound?" He said, "This was inflicted on me on the day of Khaibar and the people said, 'Salama has been wounded.' Then I went to the Prophet and he puffed his saliva in it (i.e. the wound) thrice., and since then I have not had any pain in it till this hour."
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي حَازِمٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ سَهْلٍ قَالَ الْتَقَی النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُشْرِکُونَ فِي بَعْضِ مَغَازِيهِ فَاقْتَتَلُوا فَمَالَ کُلُّ قَوْمٍ إِلَی عَسْکَرِهِمْ وَفِي الْمُسْلِمِينَ رَجُلٌ لَا يَدَعُ مِنْ الْمُشْرِکِينَ شَاذَّةً وَلَا فَاذَّةً إِلَّا اتَّبَعَهَا فَضَرَبَهَا بِسَيْفِهِ فَقِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا أَجْزَأَ أَحَدٌ مَا أَجْزَأَ فُلَانٌ فَقَالَ إِنَّهُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ فَقَالُوا أَيُّنَا مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ إِنْ کَانَ هَذَا مِنْ أَهْلِ النَّارِ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْقَوْمِ لَأَتَّبِعَنَّهُ فَإِذَا أَسْرَعَ وَأَبْطَأَ کُنْتُ مَعَهُ حَتَّی جُرِحَ فَاسْتَعْجَلَ الْمَوْتَ فَوَضَعَ نِصَابَ سَيْفِهِ بِالْأَرْضِ وَذُبَابَهُ بَيْنَ ثَدْيَيْهِ ثُمَّ تَحَامَلَ عَلَيْهِ فَقَتَلَ نَفْسَهُ فَجَائَ الرَّجُلُ إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَشْهَدُ أَنَّکَ رَسُولُ اللَّهِ فَقَالَ وَمَا ذَاکَ فَأَخْبَرَهُ فَقَالَ إِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ فِيمَا يَبْدُو لِلنَّاسِ وَإِنَّهُ لَمِنْ أَهْلِ النَّارِ وَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ فِيمَا يَبْدُو لِلنَّاسِ وَهُوَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ-
عبداللہ بن مسلمہ، نے ابی حازم ، ان کے والد، حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک جہاد (یعنی خیبر) میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکین مقابل ہو کر خوب لڑے پھر ہر قوم اپنے اپنے لشکر کی طرف واپس ہوئی مسلمانوں میں ایک شخص تھا جو اکیلے مشرک کو نہ چھوڑتا تھا بلکہ اس کے پیچھے سے آکر اس کے تلوار مارتا (اور قتل کردیتا) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ! جتنا کام فلاں نے کیا کسی نے نہیں کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ تو دوزخی ہے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دل میں کہا اگر وہ دوزخی ہے تو پھر ہم میں جنتی کون ہوگا اتنے میں مسلمانوں میں سے ایک شخص نے کہا کہ میں اس کے پیچھے رہوں گا تاکہ اس کا امتحان کروں جب وہ تیز چلتا یا آہستہ تو میں اسکے ساتھ رہتا حتیٰ کہ وہ زخمی ہوا اور زخموں کی تکلیف سے بے تاب ہو کر جلدی مرنا چاہا لہذا اس نے تلوار کا قبضہ زمین پر ٹکا کر اس کے پھل کو اپنے سینہ کے درمیان رکھا پھر اس پر اپنا بوجھ ڈال کر خود کشی کرلی اب وہ شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں آپ نے فرمایا کیا بات ہوئی؟ تو اس نے وہ واقعہ آپ کو سنا دیا آپ نے فرمایا کہ کوئی آدمی لوگوں کی نظر میں جنتیوں جیسا عمل کرتا ہے حالانکہ وہ دوزخی ہوتا ہے اور کوئی لوگوں کی نظر میں دوزخیوں جیسا عمل کرتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے۔
Narrated Sahl: During one of his Ghazawat, the Prophet encountered the pagans, and the two armies fought, and then each of them returned to their army camps. Amongst the (army of the) Muslims there was a man who would follow every pagan separated from the army and strike him with his sword. It was said, "O Allah's Apostle! None has fought so satisfactorily as so-and-so (namely, that brave Muslim). "The Prophet said, "He is from the dwellers of the Hell-Fire." The people said, "Who amongst us will be of the dwellers of Paradise if this (man) is from the dwellers of the Hell-Fire?" Then a man from amongst the people said, "I will follow him and accompany him in his fast and slow movements." The (brave) man got wounded, and wanting to die at once, he put the handle of his sword on the ground and its tip in between his breasts, and then threw himself over it, committing suicide. Then the man (who had watched the deceased) returned to the Prophet and said, "I testify that you are Apostle of Allah." The Prophet said, "What is this?" The man told him the whole story. The Prophet said, "A man may do what may seem to the people as the deeds of the dwellers of Paradise, but he is of the dwellers of the Hell-Fire and a man may do what may seem to the people as the deeds of the dwellers of the Hell-Fire, but he is from the dwellers of Paradise."
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدٍ الْخُزَاعِيُّ حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ الرَّبِيعِ عَنْ أَبِي عِمْرَانَ قَالَ نَظَرَ أَنَسٌ إِلَی النَّاسِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَرَأَی طَيَالِسَةً فَقَالَ کَأَنَّهُمْ السَّاعَةَ يَهُودُ خَيْبَرَ-
محمد بن سعید خزاعی، زیاد بن ربیع، ابوعمران سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (بصرہ میں) جمعہ کے دن لوگوں پر ایسی چادریں دیکھیں جو یہود خیبر کی چادروں کی طرح رنگین تھیں تو فرمایا کہ یہ لوگ اس وقت خیبر کے یہودیوں کی طرح معلوم ہو رہے ہیں۔
Narrated Abu Imran: Anas looked at the people wearing Tailsans (i.e. a special kind of head covering worn by Jews in old days). On that Anas said, "At this moment they (i.e. those people) look like the Jews of Khaibar."
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ حَدَّثَنَا حَاتِمٌ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ عَنْ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ کَانَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ تَخَلَّفَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي خَيْبَرَ وَکَانَ رَمِدًا فَقَالَ أَنَا أَتَخَلَّفُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَحِقَ بِهِ فَلَمَّا بِتْنَا اللَّيْلَةَ الَّتِي فُتِحَتْ قَالَ لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ غَدًا أَوْ لَيَأْخُذَنَّ الرَّايَةَ غَدًا رَجُلٌ يُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ يُفْتَحُ عَلَيْهِ فَنَحْنُ نَرْجُوهَا فَقِيلَ هَذَا عَلِيٌّ فَأَعْطَاهُ فَفُتِحَ عَلَيْهِ-
عبداللہ بن مسلمہ، حاتم، یزید بن ابوعبید، سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ آشوب چشم میں مبتلا تھے (اس لئے) وہ جنگ خیبر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہ آئے پھر حضرت علی نے کہا کہ میں آنحضرت سے پیچھے رہ جاؤں (یہ نہیں ہو سکتا) لہذا وہ بھی بعد میں آ گئے جب وہ رات آئی جس کی صبح کو خیبر فتح ہوا ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کل میں ایسے شخص کو جھنڈا دوں گا یا یہ فرمایا کل ایسا شخص جھنڈا لے گا جس سے اللہ اور رسول محبت رکھتے ہیں اسی کے ہاتھ پر فتح حاصل ہوگی لہذا ہم اس جھنڈے کے امیدوار تھے کہ آنحضرت سے کہا گیا، لیجئے وہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آ گئے لہذا آپ نے انہیں جھنڈا دیا اور ان کے ہاتھ پر فتح ہوئی۔
Narrated Salama: Ali remained behind the Prophet during the Ghazwa of Khaibar as he was suffering from eye trouble. He then said, "(How can) I remain behind the Prophet ," and followed him. So when he slept on the night of the conquest of Khaibar, the Prophet said, "I will give the flag tomorrow, or tomorrow the flag will be taken by a man who is loved by Allah and His Apostle , and (Khaibar) will be conquered through him, (with Allah's help)" While every one of us was hopeful to have the flag, it was said, "Here is 'Ali" and the Prophet gave him the flag and Khaibar was conquered through him (with Allah's Help).
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي حَازِمٍ قَالَ أَخْبَرَنِي سَهْلُ بْنُ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَوْمَ خَيْبَرَ لَأُعْطِيَنَّ هَذِهِ الرَّايَةَ غَدًا رَجُلًا يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَی يَدَيْهِ يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ قَالَ فَبَاتَ النَّاسُ يَدُوکُونَ لَيْلَتَهُمْ أَيُّهُمْ يُعْطَاهَا فَلَمَّا أَصْبَحَ النَّاسُ غَدَوْا عَلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کُلُّهُمْ يَرْجُو أَنْ يُعْطَاهَا فَقَالَ أَيْنَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ فَقِيلَ هُوَ يَا رَسُولَ اللَّهِ يَشْتَکِي عَيْنَيْهِ قَالَ فَأَرْسَلُوا إِلَيْهِ فَأُتِيَ بِهِ فَبَصَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي عَيْنَيْهِ وَدَعَا لَهُ فَبَرَأَ حَتَّی کَأَنْ لَمْ يَکُنْ بِهِ وَجَعٌ فَأَعْطَاهُ الرَّايَةَ فَقَالَ عَلِيٌّ يَا رَسُولَ اللَّهِ أُقَاتِلُهُمْ حَتَّی يَکُونُوا مِثْلَنَا فَقَالَ انْفُذْ عَلَی رِسْلِکَ حَتَّی تَنْزِلَ بِسَاحَتِهِمْ ثُمَّ ادْعُهُمْ إِلَی الْإِسْلَامِ وَأَخْبِرْهُمْ بِمَا يَجِبُ عَلَيْهِمْ مِنْ حَقِّ اللَّهِ فِيهِ فَوَاللَّهِ لَأَنْ يَهْدِيَ اللَّهُ بِکَ رَجُلًا وَاحِدًا خَيْرٌ لَکَ مِنْ أَنْ يَکُونَ لَکَ حُمْرُ النَّعَمِ-
قتیبہ بن سعید، یعقوب بن عبدالرحمن، ابوحازم ، سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن فرمایا میں کل کو یہ پر چم ایسے شخص کو دوں گا جس کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ فتح عطا فرمائے گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت رکھتے ہیں سہیل کہتے ہیں کہ لوگوں نے وہ رات بڑی بے چینی سے گزاری کہ دیکھئے کل کسے پر چم عطا ہوتا ہے جب صبح ہوئی تو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ گئے اور ہر ایک اس پر چم کے ملنے کا خواہش مند تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا علی بن ابوطالب کہاں ہیں؟ عرض کیا گیا یا رسول اللہ! ان کی آنکھیں دکھتی ہیں آپ نے فرمایا ان کے پاس آدمی بھیج کر انہیں بلاؤ چنانچہ انہیں بلایا گیا تو آنحضرت نے اپنا لعاب دہن ان کی آنکھوں میں لگا کر ان کے لئے دعا کی تو وہ ایسے تندرست ہو گئے گویا انہیں کوئی تکلیف ہی نہ تھی تو آپ نے انہیں پر چم دے دیا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا میں ان سے اس وقت تک جہاد کرتا رہوں جب تک وہ ہماری طرح مسلمان نہ ہو جائیں آپ نے فرمایا تم سیدھے جا کر ان کے میدان میں اتر پڑو پھر انہیں اسلام کی دعوت دو اور اسلام میں اللہ کے جو حقوق ان پر واجب ہوں گے وہ بتاؤ قسم خدا کی! تمہارے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا کسی کو (اسلام کی طرف) ہدایت فرما دینا تمہارے لئے سرخ (عمدہ) اونٹوں سے بہتر ہے۔
Narrated Sahl bin Sad: On the day of Khaibar, Allah's Apostle said, "Tomorrow I will give this flag to a man through whose hands Allah will give us victory. He loves Allah and His Apostle, and he is loved by Allah and His Apostle." The people remained that night, wondering as to who would be given it. In the morning the people went to Allah's Apostle and everyone of them was hopeful to receive it (i.e. the flag). The Prophet said, "Where is Ali bin Abi Talib?" It was said, "He is suffering from eye trouble O Allah's Apostle." He said, "Send for him." 'Ali was brought and Allah's Apostle spat in his eye and invoked good upon him. So 'Ali was cured as if he never had any trouble. Then the Prophet gave him the flag. 'Ali said "O Allah's Apostle! I will fight with them till they become like us." Allah's Apostle said, "Proceed and do not hurry. When you enter their territory, call them to embrace Islam and inform them of Allah's Rights which they should observe, for by Allah, even if a single man is led on the right path (of Islam) by Allah through you, then that will be better for you than the nice red camels.
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْغَفَّارِ بْنُ دَاوُدَ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ح و حَدَّثَنِي أَحْمَدُ حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الزُّهْرِيُّ عَنْ عَمْرٍو مَوْلَی الْمُطَّلِبِ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَدِمْنَا خَيْبَرَ فَلَمَّا فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْحِصْنَ ذُکِرَ لَهُ جَمَالُ صَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيِّ بْنِ أَخْطَبَ وَقَدْ قُتِلَ زَوْجُهَا وَکَانَتْ عَرُوسًا فَاصْطَفَاهَا النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِنَفْسِهِ فَخَرَجَ بِهَا حَتَّی بَلَغْنَا سَدَّ الصَّهْبَائِ حَلَّتْ فَبَنَی بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ صَنَعَ حَيْسًا فِي نِطَعٍ صَغِيرٍ ثُمَّ قَالَ لِي آذِنْ مَنْ حَوْلَکَ فَکَانَتْ تِلْکَ وَلِيمَتَهُ عَلَی صَفِيَّةَ ثُمَّ خَرَجْنَا إِلَی الْمَدِينَةِ فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَوِّي لَهَا وَرَائَهُ بِعَبَائَةٍ ثُمَّ يَجْلِسُ عِنْدَ بَعِيرِهِ فَيَضَعُ رُکْبَتَهُ وَتَضَعُ صَفِيَّةُ رِجْلَهَا عَلَی رُکْبَتِهِ حَتَّی تَرْکَبَ-
عبدالغفار بن داؤد، یعقوب بن عبدالرحمن (دوسری سند) احمد، ابن وہب، یعقوب بن عبدالرحمن، زہری، مطلب کے آزاد کردہ غلام عمرو، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ ہم خیبر آئے جب اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قلعہ خیبر میں فتح عنایت فرمادی تو آپ سے صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بنت حیی کے حسن و جمال کا ذکر کیا گیا وہ نئی دلہن ہی تھیں کہ ان کا شوہر مارا گیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا اپنے لئے انتخاب فرمالیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انہیں لے کر چلے یہاں تک کہ جب ہم مقام سد صہباء میں پہنچے تو صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (حیض سے غسل کرکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے) حلال ہو گئیں آپ نے ان کے ساتھ خلوت فرمائی پھر آپ نے مالیدہ بنا کر چھوٹے دسترخوان پر رکھ کر مجھ سے فرمایا اپنے آس پاس کے لوگوں کو جا کر بتا دو (اور بلا لاؤ) چنانچہ یہی حضرت صفیہ کی شادی کا ولیمہ تھا اور ہم مدینہ کی طرف چلے تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت صفیہ کے لئے اپنے پیچھے ایک چادر بچھاتے ہوئے دیکھا پھر آپ اپنے اونٹ کے قریب بیٹھتے اور اپنا زانوئے مبارک ٹکا دیتے حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کے زانوائے مبارک پر اپنا پاؤں رکھ کر سوار ہو جاتیں۔
Narrated Anas bin Malik: We arrived at Khaibar, and when Allah helped His Apostle to open the fort, the beauty of Safiya bint Huyai bin Akhtaq whose husband had been killed while she was a bride, was mentioned to Allah's Apostle. The Prophet selected her for himself, and set out with her, and when we reached a place called Sidd-as-Sahba,' Safiya became clean from her menses then Allah's Apostle married her. Hais (i.e. an 'Arabian dish) was prepared on a small leather mat. Then the Prophet said to me, "I invite the people around you." So that was the marriage banquet of the Prophet and Safiya. Then we proceeded towards Medina, and I saw the Prophet, making for her a kind of cushion with his cloak behind him (on his camel). He then sat beside his camel and put his knee for Safiya to put her foot on, in order to ride (on the camel).
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ قَالَ حَدَّثَنِي أَخِي عَنْ سُلَيْمَانَ عَنْ يَحْيَی عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقَامَ عَلَی صَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيٍّ بِطَرِيقِ خَيْبَرَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ حَتَّی أَعْرَسَ بِهَا وَکَانَتْ فِيمَنْ ضُرِبَ عَلَيْهَا الْحِجَابُ-
اسماعیل، برادر اسماعیل، سلیمان، یحیی ، حمید طویل، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بنت حیی کے پاس خیبر کے راستہ میں تین دن تک ٹھہرے رہے یہاں تک کہ آپ نے ان سے خلوت فرمائی اور وہ ان عورتوں میں تھیں جن پر پردہ مقرر تھا (یعنی امہات المومنین میں سے تھیں) ۔
Narrated Anas bin Malik: The Prophet stayed with Safiya bint Huyai for three days on the way of Khaibar where he consummated his marriage with her. Safiya was amongst those who were ordered to use a veil.
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي کَثِيرٍ قَالَ أَخْبَرَنِي حُمَيْدٌ أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ أَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ خَيْبَرَ وَالْمَدِينَةِ ثَلَاثَ لَيَالٍ يُبْنَی عَلَيْهِ بِصَفِيَّةَ فَدَعَوْتُ الْمُسْلِمِينَ إِلَی وَلِيمَتِهِ وَمَا کَانَ فِيهَا مِنْ خُبْزٍ وَلَا لَحْمٍ وَمَا کَانَ فِيهَا إِلَّا أَنْ أَمَرَ بِلَالًا بِالْأَنْطَاعِ فَبُسِطَتْ فَأَلْقَی عَلَيْهَا التَّمْرَ وَالْأَقِطَ وَالسَّمْنَ فَقَالَ الْمُسْلِمُونَ إِحْدَی أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ أَوْ مَا مَلَکَتْ يَمِينُهُ قَالُوا إِنْ حَجَبَهَا فَهِيَ إِحْدَی أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ وَإِنْ لَمْ يَحْجُبْهَا فَهِيَ مِمَّا مَلَکَتْ يَمِينُهُ فَلَمَّا ارْتَحَلَ وَطَّأَ لَهَا خَلْفَهُ وَمَدَّ الْحِجَابَ-
سعید بن ابومریم، محمد بن جعفر بن ابی کثیر، حمید، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ اور خیبر کے راستہ میں تین دن فروکش رہے جہاں آپ نے حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے خلوت فرمائیچنانچہ میں نے آپ کے ولیمہ میں مسلمانوں کو بلایا اور اس ولیمہ میں نہ روٹی تھی نہ گوشت اس میں صرف یہ ہوا تھا آپ نے (حضرت) بلال کو دسترخوان بچھانے کا حکم دیا چنانچہ وہ بچھا دیئے گئے تو آپ نے اس پر (چھوہارے) پنیر اور گھی رکھ دیا تو مسلمان آپس میں کہنے لگے کہ صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ امہات المومنین میں سے ہیں یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیز ہیں؟ تو لوگوں نے کہا کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کا پردہ کرائیں گے تو امہات المومنین میں سے ہوں گی اور اگر پردہ نہ کرایا تو پھر کنیز ہیں جب آپ نے کوچ کیا تو ان کے لئے اپنے پیچھے بیٹھنے کی جگہ بنائی اور پردہ کھینچ دیا۔
Narrated Anas: The Prophet stayed for three rights between Khaibar and Medina and was married to Safiya. I invited the Muslim to h s marriage banquet and there wa neither meat nor bread in that banquet but the Prophet ordered Bilal to spread the leather mats on which dates, dried yogurt and butter were put. The Muslims said amongst themselves, "Will she (i.e. Safiya) be one of the mothers of the believers, (i.e. one of the wives of the Prophet ) or just (a lady captive) of what his right-hand possesses" Some of them said, "If the Prophet makes her observe the veil, then she will be one of the mothers of the believers (i.e. one of the Prophet's wives), and if he does not make her observe the veil, then she will be his lady slave." So when he departed, he made a place for her behind him (on his and made her observe the veil.
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ح و حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا وَهْبٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ کُنَّا مُحَاصِرِي خَيْبَرَ فَرَمَی إِنْسَانٌ بِجِرَابٍ فِيهِ شَحْمٌ فَنَزَوْتُ لِآخُذَهُ فَالْتَفَتُّ فَإِذَا النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَحْيَيْتُ-
ابوالولید، شعبه (دوسری سند) عبدالله بن محمد، وهب، شعبه، حمید بن ہلال، عبدالله بن مغفل رضی الله عنه سے روایت کرتے ہیں وه فرماتے ہیں که ہم لوگ خیبر کا محاصره کئے ہوئے تھے که ایک آدمی نے ایک ناشته دان پھینکا جس پر چربی تھی تو میں اسے لینے کو دوڑا جب پهچھے مڑا تو کیا دیکھتا ہوں که آنحضرت صلی الله علیه وسلم موجود ہیں مجھے بڑی شرم آئی (اور اسے چھوڑ دیا) ۔
Narrated 'Abdullah bin Mughaffal: While we were besieging Khaibar, a person threw a leather container containing some fat and I ran to take it. Suddenly I looked behind, and behold! The Prophet was there. So I felt shy (to take it then).
حَدَّثَنِي عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ عَنْ أَبِي أُسَامَةَ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ نَافِعٍ وَسَالِمٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَی يَوْمَ خَيْبَرَ عَنْ أَکْلِ الثُّومِ وَعَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الْأَهْلِيَّةِ نَهَی عَنْ أَکْلِ الثُّومِ هُوَ عَنْ نَافِعٍ وَحْدَهُ وَلُحُومِ الْحُمُرِ الْأَهْلِيَّةِ عَنْ سَالِمٍ-
عبید بن اسماعیل، ابواسامہ، عبیداللہ، نافع و سالم، ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خیبر کے دن لہسن اور پالتو گدھوں کا گوشت کھانے کی ممانعت فرمائی لہسن کے کھانے کی ممانعت کے راوی صرف نافع ہیں اور پالتو گدھوں کے گوشت کی ممانعت سالم سے مروی ہے (پالتو گدھے کا گوشت جمہور علماء کے نزدیک حرام اور کچا بدبودار لہسن مکروہ ہے) ۔
Narrated Ibn Umar: On the day of Khaiber, Allah's Apostle forbade the eating of garlic and the meat of donkeys.
حَدَّثَنِي يَحْيَی بْنُ قَزَعَةَ حَدَّثَنَا مَالِکٌ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ وَالْحَسَنِ ابْنَيْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ أَبِيهِمَا عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَی عَنْ مُتْعَةِ النِّسَائِ يَوْمَ خَيْبَرَ وَعَنْ أَکْلِ لُحُومِ الْحُمُرِ الْإِنْسِيَّةِ-
یحیی بن قزعہ، مالک، ابن شہاب، محمد بن علی کے دونوں لڑکے، عبداللہ اور حسن ان کے والد علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن عورتوں سے نکاح متعہ کرنے اور پالتو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا (اور نکاح متعہ یہ ہے کہ مثلا ایک دو ہفتہ کے لئے نکاح کرلیا جاوے یہ تمام علماء کے نزدیک بالکل حرام ہے) ۔
Narrated 'Ali bin Abi Talib: On the day of Khaibar, Allah's Apostle forbade the Mut'a (i.e. temporary marriage) and the eating of donkey-meat.
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَی يَوْمَ خَيْبَرَ عَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الْأَهْلِيَّةِ-
محمد بن مقاتل، عبداللہ، عبیداللہ بن عمر، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن پالتو گدھوں کے گوشت سے منع فرمایا۔
Narrated Ibn Umar: On the day of Khaibar, Allah's Apostle forbade the eating of donkey meat.
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ نَصْرٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ عَنْ نَافِعٍ وَسَالِمٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ نَهَی النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَکْلِ لُحُومِ الْحُمُرِ الْأَهْلِيَّةِ-
اسحاق بن نصر، محمد بن عبید، عبیداللہ، نافع و سالم، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پالتو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے۔
Narrated Ibn Umar: Allah's Apostle forbade the eating of donkey-meat.
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ عَمْرٍو عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ نَهَی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ خَيْبَرَ عَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الْأَهْلِيَّةِ وَرَخَّصَ فِي الْخَيْلِ-
سلیمان بن حرب، حماد بن زید، عمرو، محمد بن علی، حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن گدھوں کے گوشت سے منع فرمایا اور گھوڑے کے گوشت کی اجازت فرمائی۔
Narrated Jabir bin Abdullah: On the day of Khaibar, Allah's Apostle forbade the eating of donkey meat and allowed the eating of horse meat.
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ حَدَّثَنَا عَبَّادٌ عَنْ الشَّيْبَانِيِّ قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي أَوْفَی رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَصَابَتْنَا مَجَاعَةٌ يَوْمَ خَيْبَرَ فَإِنَّ الْقُدُورَ لَتَغْلِي قَالَ وَبَعْضُهَا نَضِجَتْ فَجَائَ مُنَادِي النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَأْکُلُوا مِنْ لُحُومِ الْحُمُرِ شَيْئًا وَأَهْرِقُوهَا قَالَ ابْنُ أَبِي أَوْفَی فَتَحَدَّثْنَا أَنَّهُ إِنَّمَا نَهَی عَنْهَا لِأَنَّهَا لَمْ تُخَمَّسْ وَقَالَ بَعْضُهُمْ نَهَی عَنْهَا الْبَتَّةَ لِأَنَّهَا کَانَتْ تَأْکُلُ الْعَذِرَةَ-
سعید بن سلیمان، عباد، شیبانی، ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ خیبر کے دن ہم پر بھوک کا غلبہ ہوا (اس وقت) ہانڈیوں میں جوش آ رہا تھا اور کچھ پک گئی تھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی نے آکر کہا کہ گدھوں کا گوشت ذرا سا بھی نہ کھاؤ اور ہانڈیاں اوندھا دو، ابن ابی اوفی کہتے ہیں کہ ہم آپس میں کہنے لگے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اس لئے منع فرمایا ہے کہ ان میں سے ابھی خمس نہیں نکلا ہے اور بعض نے کہا کہ آپ نے یقینا اس لئے منع فرمایا ہے کہ یہ نجاست کھاتا ہے۔
Narrated Ibn Abi Aufa: We where afflicted with severe hunger on the day of Khaibar. While the cooking pots were boiling and some of the food was well-cooked, the announcer of the Prophet came to say, "Do not eat anything the donkey-meat and upset the cooking pots." We then thought that the Prophet had prohibited such food because the Khumus had not been taken out of it. Some others said, "He prohibited the meat of donkeys from the point of view of principle, because donkeys used to eat dirty things."
حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ أَخْبَرَنِي عَدِيُّ بْنُ ثَابِتٍ عَنْ الْبَرَائِ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَی رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَنَّهُمْ کَانُوا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَصَابُوا حُمُرًا فَطَبَخُوهَا فَنَادَی مُنَادِي النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَکْفِئُوا الْقُدُورَ-
حجاج بن منہال، شعبہ، عدی بن ثابت، حضرت براء اور عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (جنگ خیبر کے موقعہ پر) تھے تو انہیں کھانے کو صرف گدھے ملے انہوں نے انہیں پکایا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی نے اعلان کیا کہ ہانڈیاں پھینک دو۔
Narrated Al-Bara and 'Abdullah bin Abl Aufa: That when they were in the company of the Prophet, they got some donkeys which they (slaughtered and) cooked. Then the announcer of the Prophet said, "Turn the cooking pots upside down (i.e. throw out the meat)."
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا عَدِيُّ بْنُ ثَابِتٍ سَمِعْتُ الْبَرَائَ وَابْنَ أَبِي أَوْفَی رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ يُحَدِّثَانِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ يَوْمَ خَيْبَرَ وَقَدْ نَصَبُوا الْقُدُورَ أَکْفِئُوا الْقُدُورَ-
اسحاق ، عبدالصمد، شعبہ، عدی بن ثابت، حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خیبر کے دن جب ہانڈیاں چڑھی ہوئی تھیں فرمایا کہ ہانڈیاں پھینک دو۔
Narrated Al-Bara' and Ibn Abi Aufa: On the day of Khaibar when the cooking pots were put on the fire, the Prophet said, "Turn the cooking pots upside down."
حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ الْبَرَائِ قَالَ غَزَوْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ-
مسلم، شعبہ، عدی بن ثابت، حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد میں تھے پھر پہلے کی طرح روایت ذکر کی۔
Narrated Al-Bara: We took part in a Ghazwa with the Prophet (same as Hadith No. 533).
حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَی أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ أَخْبَرَنَا عَاصِمٌ عَنْ عَامِرٍ عَنْ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ أَمَرَنَا النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ خَيْبَرَ أَنْ نُلْقِيَ الْحُمُرَ الْأَهْلِيَّةَ نِيئَةً وَنَضِيجَةً ثُمَّ لَمْ يَأْمُرْنَا بِأَکْلِهِ بَعْدُ-
ابراہیم بن موسی، ابن ابی زائدہ، عاصم ، عامر، حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خیبر میں پالتو گدھوں کا کچا اور پکا گوشت پھینک دینے کا حکم دیا پھر اس کے بعد ہمیں اس کے کھانے کا حکم نہیں دیا۔
Narrated Al-Bara Bin Azib: During the Ghazwa of Khaibar, the Prophet ordered us to throw away the meat of the donkeys whether it was still raw or cooked. He did not allow us to eat it later on.
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي الحُسَيْنِ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ عَاصِمٍ عَنْ عَامِرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ لَا أَدْرِي أَنَهَی عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَجْلِ أَنَّهُ کَانَ حَمُولَةَ النَّاسِ فَکَرِهَ أَنْ تَذْهَبَ حَمُولَتُهُمْ أَوْ حَرَّمَهُ فِي يَوْمِ خَيْبَرَ لَحْمَ الْحُمُرِ الْأَهْلِيَّةِ-
محمد بن ابوالحسین، عمر بن حفص، ان کے والد، عامر، ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ میں نہیں کہہ سکتا کہ آیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لئے گدھوں کے گوشت سے منع فرمایا تھا کہ وہ لوگوں کی بار برداری کے کام آتا ہے اور ان کے کھالینے سے لوگوں کو تکلیف ہوگی یا آپ نے خیبر کے دن ہمیشہ کے لئے پالتو گدھوں کا گوشت حرام کردیا ہے۔
Narrated Ibn Abbas: I do not know whether the Prophet forbade the eating of donkey-meat (temporarily) because they were the beasts of burden for the people, and he disliked that their means of transportation should be lost, or he forbade it on the day of Khaibar permanently.
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَابِقٍ حَدَّثَنَا زَائِدَةُ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ خَيْبَرَ لِلْفَرَسِ سَهْمَيْنِ وَلِلرَّاجِلِ سَهْمًا قَالَ فَسَّرَهُ نَافِعٌ فَقَالَ إِذَا کَانَ مَعَ الرَّجُلِ فَرَسٌ فَلَهُ ثَلَاثَةُ أَسْهُمٍ فَإِنْ لَمْ يَکُنْ لَهُ فَرَسٌ فَلَهُ سَهْمٌ-
حسن بن اسحاق ، محمد بن سابق، زائدہ، عبیداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ خیبر کے دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (مال غنیمت) اس طرح تقسیم فرمایا کہ گھوڑے کے دو حصے اور پیادہ کا ایک حصہ، نافع نے اس کی تشریح اس طرح فرمائی کہ اگر کسی کے پاس گھوڑا ہوتا تو اسے تین حصے ملتے ایک اس کا اور دو گھوڑے کے اور اگر اس کے پاس گھوڑا نہ ہوتا تو اسے ایک حصہ ملتا۔
Narrated Ibn 'Umar: On the day of Khaibar, Allah's Apostle divided (the war booty of Khaibar) with the ratio of two shares for the horse and one-share for the foot soldier. (The sub-narrator, Nafi' explained this, saying, "If a man had a horse, he was given three shares and if he had no horse, then he was given one share.")
حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ بُکَيْرٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ يُونُسَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ أَنَّ جُبَيْرَ بْنَ مُطْعِمٍ أَخْبَرَهُ قَالَ مَشَيْتُ أَنَا وَعُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْنَا أَعْطَيْتَ بَنِي الْمُطَّلِبِ مِنْ خُمْسِ خَيْبَرَ وَتَرَکْتَنَا وَنَحْنُ بِمَنْزِلَةٍ وَاحِدَةٍ مِنْکَ فَقَالَ إِنَّمَا بَنُو هَاشِمٍ وَبَنُو الْمُطَّلِبِ شَيْئٌ وَاحِدٌ قَالَ جُبَيْرٌ وَلَمْ يَقْسِمْ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِبَنِي عَبْدِ شَمْسٍ وَبَنِي نَوْفَلٍ شَيْئًا-
یحیی بن بکیر، لیث، یونس، ابن شہاب، سعید بن مسیب، حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ میں اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عفان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور ہم نے عرض کیا کہ آپ نے بنو المطلب کو خیبر کے خمس میں سے حصہ دیا اور ہمیں چھوڑ دیا حالانکہ ہم (اور وہ) آپ سے قرابت میں ایک درجہ میں ہیں تو آپ نے جواب دیا کہ بنوہاشم اور عبدالمطلب ایک ہیں، جبیر کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عبد شمس اور بنو نوفل کو کچھ حصہ نہیں دیا۔
Narrated Jubair bin Mutim: Uthman bin 'Affan and I went to the Prophet and said, "You had given Banu Al-Muttalib from the Khumus of Khaibar's booty and left us in spite of the fact that we and Banu Al-Muttalib are similarly related to you." The Prophet said, "Banu Hashim and Banu Al-Muttalib only are one and the same." So the Prophet did not give anything to Banu Abd Shams and Banu Nawfal.
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَائِ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ حَدَّثَنَا بُرَيْدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِي مُوسَی رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ بَلَغَنَا مَخْرَجُ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ بِالْيَمَنِ فَخَرَجْنَا مُهَاجِرِينَ إِلَيْهِ أَنَا وَأَخَوَانِ لِي أَنَا أَصْغَرُهُمْ أَحَدُهُمَا أَبُو بُرْدَةَ وَالْآخَرُ أَبُو رُهْمٍ إِمَّا قَالَ بِضْعٌ وَإِمَّا قَالَ فِي ثَلَاثَةٍ وَخَمْسِينَ أَوْ اثْنَيْنِ وَخَمْسِينَ رَجُلًا مِنْ قَوْمِي فَرَکِبْنَا سَفِينَةً فَأَلْقَتْنَا سَفِينَتُنَا إِلَی النَّجَاشِيِّ بِالْحَبَشَةِ فَوَافَقْنَا جَعْفَرَ بْنَ أَبِي طَالِبٍ فَأَقَمْنَا مَعَهُ حَتَّی قَدِمْنَا جَمِيعًا فَوَافَقْنَا النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ افْتَتَحَ خَيْبَرَ وَکَانَ أُنَاسٌ مِنْ النَّاسِ يَقُولُونَ لَنَا يَعْنِي لِأَهْلِ السَّفِينَةِ سَبَقْنَاکُمْ بِالْهِجْرَةِ وَدَخَلَتْ أَسْمَائُ بِنْتُ عُمَيْسٍ وَهِيَ مِمَّنْ قَدِمَ مَعَنَا عَلَی حَفْصَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَائِرَةً وَقَدْ کَانَتْ هَاجَرَتْ إِلَی النَّجَاشِيِّ فِيمَنْ هَاجَرَ فَدَخَلَ عُمَرُ عَلَی حَفْصَةَ وَأَسْمَائُ عِنْدَهَا فَقَالَ عُمَرُ حِينَ رَأَی أَسْمَائَ مَنْ هَذِهِ قَالَتْ أَسْمَائُ بِنْتُ عُمَيْسٍ قَالَ عُمَرُ الْحَبَشِيَّةُ هَذِهِ الْبَحْرِيَّةُ هَذِهِ قَالَتْ أَسْمَائُ نَعَمْ قَالَ سَبَقْنَاکُمْ بِالْهِجْرَةِ فَنَحْنُ أَحَقُّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْکُمْ فَغَضِبَتْ وَقَالَتْ کَلَّا وَاللَّهِ کُنْتُمْ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُطْعِمُ جَائِعَکُمْ وَيَعِظُ جَاهِلَکُمْ وَکُنَّا فِي دَارِ أَوْ فِي أَرْضِ الْبُعَدَائِ الْبُغَضَائِ بِالْحَبَشَةِ وَذَلِکَ فِي اللَّهِ وَفِي رَسُولِهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَايْمُ اللَّهِ لَا أَطْعَمُ طَعَامًا وَلَا أَشْرَبُ شَرَابًا حَتَّی أَذْکُرَ مَا قُلْتَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ کُنَّا نُؤْذَی وَنُخَافُ وَسَأَذْکُرُ ذَلِکَ لِلنَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَسْأَلُهُ وَاللَّهِ لَا أَکْذِبُ وَلَا أَزِيغُ وَلَا أَزِيدُ عَلَيْهِ فَلَمَّا جَائَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ يَا نَبِيَّ اللَّهِ إِنَّ عُمَرَ قَالَ کَذَا وَکَذَا قَالَ فَمَا قُلْتِ لَهُ قَالَتْ قُلْتُ لَهُ کَذَا وَکَذَا قَالَ لَيْسَ بِأَحَقَّ بِي مِنْکُمْ وَلَهُ وَلِأَصْحَابِهِ هِجْرَةٌ وَاحِدَةٌ وَلَکُمْ أَنْتُمْ أَهْلَ السَّفِينَةِ هِجْرَتَانِ قَالَتْ فَلَقَدْ رَأَيْتُ أَبَا مُوسَی وَأَصْحَابَ السَّفِينَةِ يَأْتُونِي أَرْسَالًا يَسْأَلُونِي عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ مَا مِنْ الدُّنْيَا شَيْئٌ هُمْ بِهِ أَفْرَحُ وَلَا أَعْظَمُ فِي أَنْفُسِهِمْ مِمَّا قَالَ لَهُمْ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-
محمد بن علاء، ابواسامہ، یزید بن عبداللہ، ابوبردہ، حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا ہمیں یمن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ سے ہجرت کی خبر ملی تو میں اور میرے دو بھائی جن سے میں چھوٹا تھا ایک ابوبردہ اور دوسرے ابورحم کچھ اوپر پچاس یا یہ فرمایا کہ یا53یا52 آدمیوں کے ہمراہ جو میری قوم کے تھے (یمن سے) بقصد ہجرت چلے اور کشتی میں بیٹھ گئے اس کشتی نے ہمیں حبشہ میں نجاشی کے پاس پہنچادیا تو وہاں ہمیں جعفر بن ابی طالب ملے ہم ان کے ساتھ مقیم ہو گئے وہاں سے ہم سب مدینہ کی طرف چلے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے فتح خیبر کے موقعہ پر ملاقات ہوئی کچھ لوگ ہم اہل سفینہ سے یہ کہنے لگے کہ ہجرت میں لوگ تم سے سبقت لے گئے اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہ بنت عمیس جو ہمارے ساتھ آئی تھیں ام المومنین حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس زیارت کے واسطے گئیں اور انہوں نے مہاجرین کے ساتھ نجاشی کی طرف بھی ہجرت کی تھی اسماء، حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ہی تھیں کہ حضرت عمر حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے اور اسماء کو دیکھ کر پوچھا یہ کون ہے؟ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنت عمیس ہیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کیا دریا والی حبشیہ اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہیں یعنی جنہوں نے حبشہ ہجرت کی تھی اور اب براہ سمندر آئی ہیں اسماء نے کہا ہاں! حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا ہجرت میں ہم تم پر سبقت لے گئے لہذا ہم تم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زیادہ قریب اور حقدار ہیں حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ سن کر غصہ آ گیا اور کہا ہرگز نہیں بخدا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ آپ تمہارے بھوکے کو کھانا کھلاتے اور ناواقف کو نصیحت و وعظ فرماتے تھے اور ہم غیروں اور دشمنوں کے ملک میں تھے اور یہ سب کچھ (مصائب) اللہ اور اس کے رسول کے راستہ میں ہوتے تھے اور خدا کی قسم! میرے اوپر کھانا پینا حرام ہے جب تک کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تمہاری بات نہ کہہ دوں اور ہمیں تو ایذاء دی جاتی تھی اور خوف دلایا جاتا تھا میں بہت جلد یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرکے آپ سے پوچھوں گی بخدا نہ میں جھوٹ بولوں گی نہ کجراہی اختیار کروں گی اور نہ اس سے زیادہ بات بیان کروں گی پھر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایسا ایسا کہا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے انہیں کیا جواب دیا انہوں نے کہا کہ میں نے ان سے اس اس طرح کہا آپ نے فرمایا وہ تم سے زیادہ میرے قریب اور حقدار نہیں ہیں کیونکہ اس کی اور اس کے ساتھیوں کی ایک مرتبہ ہجرت ہے اور اے اہل سفینہ! تمہاری دو مرتبہ ہجرت ہے اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتی ہیں کہ میں ابوموسیٰ اور اہل سفینہ کو دیکھتی کہ وہ میرے پاس گروہ در گروہ آتے اور یہ حدیث مجھ سے پوچھتے دنیا کی کوئی چیز ان کے دلوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے بڑی اور مسرت بخش نہیں تھی
Narrated Abu Musa: The news of the migration of the Prophet (from Mecca to Medina) reached us while we were in Yemen. So we set out as emigrants towards him. We were (three) I and my two brothers. I was the youngest of them, and one of the two was Abu Burda, and the other, Abu Ruhm, and our total number was either 53 or 52 men from my people. We got on board a boat and our boat took us to Negus in Ethiopia. There we met Ja'far bin Abi Talib and stayed with him. Then we all came (to Medina) and met the Prophet at the time of the conquest of Khaibar. Some of the people used to say to us, namely the people of the ship, "We have migrated before you." Asma' bint 'Umais who was one of those who had come with us, came as a visitor to Hafsa, the wife the Prophet . She had migrated along with those other Muslims who migrated to Negus. 'Umar came to Hafsa while Asma' bint 'Umais was with her. 'Umar, on seeing Asma,' said, "Who is this?" She said, "Asma' bint 'Umais," 'Umar said, "Is she the Ethiopian? Is she the sea-faring lady?" Asma' replied, "Yes." 'Umar said, "We have migrated before you (people of the boat), so we have got more right than you over Allah's Apostle " On that Asma' became angry and said, "No, by Allah, while you were with Allah's Apostle who was feeding the hungry ones amongst you, and advised the ignorant ones amongst you, we were in the far-off hated land of Ethiopia, and all that was for the sake of Allah's Apostle . By Allah, I will neither eat any food nor drink anything till I inform Allah's Apostle of all that you have said. There we were harmed and frightened. I will mention this to the Prophet and will not tell a lie or curtail your saying or add something to it." So when the Prophet came, she said, "O Allah's Prophet 'Umar has said so-and-so." He said (to Asma'), "What did you say to him?" Asma's aid, "I told him so-and-so." The Prophet said, "He (i.e. 'Umar) has not got more right than you people over me, as he and his companions have (the reward of) only one migration, and you, the people of the boat, have (the reward of) two migrations." Asma' later on said, "I saw Abu Musa and the other people of the boat coming to me in successive groups, asking me about this narration,, and to them nothing in the world was more cheerful and greater than what the Prophet had said about them." Narrated Abu Burda: Asma' said, "I saw Abu Musa requesting me to repeat this narration again and again." Narrated Abu Burda: Abu Musa said, "The Prophet said, "I recognize the voice of the group of Al-Ashariyun, when they recite the Qur'an, when they enter their homes at night, and I recognize their houses by (listening) to their voices when they are reciting the Qur'an at night although I have not seen their houses when they came to them during the day time. Amongst them is Hakim who, on meeting the cavalry or the enemy, used to say to them (i.e. the enemy). My companions order you to wait for them.' "
قَالَ أَبُو بُرْدَةَ قَالَتْ أَسْمَائُ فَلَقَدْ رَأَيْتُ أَبَا مُوسَی وَإِنَّهُ لَيَسْتَعِيدُ هَذَا الْحَدِيثَ مِنِّي وقَالَ أَبُو بُرْدَةَ عَنْ أَبِي مُوسَی قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنِّي لَأَعْرِفُ أَصْوَاتَ رُفْقَةِ الْأَشْعَرِيِّينَ بِالْقُرْآنِ حِينَ يَدْخُلُونَ بِاللَّيْلِ وَأَعْرِفُ مَنَازِلَهُمْ مِنْ أَصْوَاتِهِمْ بِالْقُرْآنِ بِاللَّيْلِ وَإِنْ کُنْتُ لَمْ أَرَ مَنَازِلَهُمْ حِينَ نَزَلُوا بِالنَّهَارِ وَمِنْهُمْ حَکِيمٌ إِذَا لَقِيَ الْخَيْلَ أَوْ قَالَ الْعَدُوَّ قَالَ لَهُمْ إِنَّ أَصْحَابِي يَأْمُرُونَکُمْ أَنْ تَنْظُرُوهُمْ-
ابوبردہ کہتے ہیں اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ابوموسیٰ اس حدیث کو بار بار مجھ سے سنتے تھے ابوبردہ واسطہ ابوموسیٰ روایت کرتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اشعری احباب کے قرآن پڑھنے کی آواز کو جب وہ رات میں آتے ہیں پہچان لیتا ہوں اور میں ان کے رات میں قرآن پڑھنے کی آواز سے ان کی منزلوں کو پہچان جاتا ہوں اگرچہ دن میں میں نے ان کی فرودگاہ نہ دیکھی ہو ان میں سے حکیم بھی ہیں جب وہ کسی جماعت یا دشمن (شک روای) سے مقابلہ کرتے تو ان سے کہتے میرے احباب تمہیں انتظار کرنے کا حکم دیتے ہیں۔
-
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ سَمِعَ حَفْصَ بْنَ غِيَاثٍ حَدَّثَنَا بُرَيْدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِي مُوسَی قَالَ قَدِمْنَا عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ أَنْ افْتَتَحَ خَيْبَرَ فَقَسَمَ لَنَا وَلَمْ يَقْسِمْ لِأَحَدٍ لَمْ يَشْهَدْ الْفَتْحَ غَيْرَنَا-
اسحاق بن ابراہیم، حفص بن غیاث، برید بن عبداللہ، ابوبردہ، ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فتح خیبر کے بعد آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مال غنیمت میں ہمارے لئے تقسیم کرتے وقت حصہ مقرر فرمایا حالانکہ ہم غزوہ خیبر میں شریک نہیں ہوئے تھے اور آپ نے ہمارے علاوہ کسی کو بھی جو فتح خیبر میں شریک نہ تھا حصہ نہیں دیا۔
Narrated Abu Musa: We came upon the Prophet after he had conquered Khaibar. He then gave us a share (from the booty), but apart from us he did not give to anybody else who did not attend the Conquest.
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ عَنْ مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ قَالَ حَدَّثَنِي ثَوْرٌ قَالَ حَدَّثَنِي سَالِمٌ مَوْلَی ابْنِ مُطِيعٍ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ افْتَتَحْنَا خَيْبَرَ وَلَمْ نَغْنَمْ ذَهَبًا وَلَا فِضَّةً إِنَّمَا غَنِمْنَا الْبَقَرَ وَالْإِبِلَ وَالْمَتَاعَ وَالْحَوَائِطَ ثُمَّ انْصَرَفْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَی وَادِي الْقُرَی وَمَعَهُ عَبْدٌ لَهُ يُقَالُ لَهُ مِدْعَمٌ أَهْدَاهُ لَهُ أَحَدُ بَنِي الضِّبَابِ فَبَيْنَمَا هُوَ يَحُطُّ رَحْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ جَائَهُ سَهْمٌ عَائِرٌ حَتَّی أَصَابَ ذَلِکَ الْعَبْدَ فَقَالَ النَّاسُ هَنِيئًا لَهُ الشَّهَادَةُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَلْ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّ الشَّمْلَةَ الَّتِي أَصَابَهَا يَوْمَ خَيْبَرَ مِنْ الْمَغَانِمِ لَمْ تُصِبْهَا الْمَقَاسِمُ لَتَشْتَعِلُ عَلَيْهِ نَارًا فَجَائَ رَجُلٌ حِينَ سَمِعَ ذَلِکَ مِنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشِرَاکٍ أَوْ بِشِرَاکَيْنِ فَقَالَ هَذَا شَيْئٌ کُنْتُ أَصَبْتُهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شِرَاکٌ أَوْ شِرَاکَانِ مِنْ نَارٍ-
عبداللہ بن محمد، معاویہ بن عمرو، ابواسحاق، مالک بن انس، ثور ، ابن مطیع کے آزاد کردہ غلام سالم، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ ہم نے خیبر فتح کیا اور ہمیں مال غنیمت میں سونا چاندی نہیں ملا بلکہ گائے، اونٹ اسباب اور باغ ملے۔ پھر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وادی القری میں آئے اور آپ کے ہمراہ مدعم نامی آپ کا غلام تھا جو بنو الضباب کے ایک آدمی نے آپ کو نذرانہ میں دیا تھا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کجاوہ اتار رہا تھا کہ اتنے میں ایک ایسا تیر جس کے مارنے والے کا پتہ نہ تھا اس طرف آیا اور اس غلام کے لگ گیا لوگوں نے کہا اس کو شہادت مبارک ہو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں نہیں اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ میں میری جان ہے جو چادر اس نے خیبر کے دن مال غنیمت میں سے تقسیم ہونے سے پہلے لے لی تھی اس پر آگ کا شعلہ بنے گی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات سن کر ایک آدمی ایک یا دو تسمہ لے کر آیا اور کہنے لگا یہ چیز مجھے ملی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تسمے (بھی) آگ کے ہو جاتے۔
Narrated Abu Huraira: When we conquered Khaibar, we gained neither gold nor silver as booty, but we gained cows, camels, goods and gardens. Then we departed with Allah's Apostle to the valley of Al-Qira, and at that time Allah's Apostle had a slave called Mid'am who had been presented to him by one of Banu Ad-Dibbab. While the slave was dismounting the saddle of Allah's Apostle an arrow the thrower of which was unknown, came and hit him. The people said, "Congratulations to him for the martyrdom." Allah's Apostle said, "No, by Him in Whose Hand my soul is, the sheet (of cloth) which he had taken (illegally) on the day of Khaibar from the booty before the distribution of the booty, has become a flame of Fire burning him." On hearing that, a man brought one or two leather straps of shoes to the Prophet and said, "These are things I took (illegally)." On that Allah's Apostle said, "This is a strap, or these are two straps of Fire."
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ أَخْبَرَنِي زَيْدٌ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ سَمِعَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ أَمَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْلَا أَنْ أَتْرُکَ آخِرَ النَّاسِ بَبَّانًا لَيْسَ لَهُمْ شَيْئٌ مَا فُتِحَتْ عَلَيَّ قَرْيَةٌ إِلَّا قَسَمْتُهَا کَمَا قَسَمَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْبَرَ وَلَکِنِّي أَتْرُکُهَا خِزَانَةً لَهُمْ يَقْتَسِمُونَهَا-
سعید بن ابومریم، محمد بن جعفر، زید، زید کے والد، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر مجھے آنے والی نسلوں کے مفلس ہونے کا اندیشہ نہ ہوتا تو جو ملک بھی فتح ہوتا میں اسے اسی طرح (مجاہدین میں) تقسیم کر دیتا جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا لیکن میں اسے آنے والوں کے لئے خزانہ کے طور پر چھوڑ رہا ہوں جسے وہ تقسیم کرلیں گے۔
Narrated 'Umar bin Al-Khattab: By Him in Whose Hand my soul is, were I not afraid that the other Muslims might be left in poverty, I would divide (the land of) whatever village I may conquer (among the fighters), as the Prophet divided the land of Khaibar. But I prefer to leave it as a (source of) a common treasury for them to distribute it revenue amongst themselves.
حَدَّثَنا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا ابْنُ مَهْدِيٍّ عَنْ مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَوْلَا آخِرُ الْمُسْلِمِينَ مَا فُتِحَتْ عَلَيْهِمْ قَرْيَةٌ إِلَّا قَسَمْتُهَا کَمَا قَسَمَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْبَرَ-
محمد بن مثنیٰ، ابن مہدی، مالک بن انس، زید بن اسلم، ان کے والد، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ اگر آنے والے مسلمانوں کا خیال نہ ہوتا تو جو علاقہ بھی فتح ہوتا میں اسے (انہیں میں) تقسیم کر دیتا جس طرح کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خبیر کو تقسیم کیا تھا۔
Narrated 'Umar: But for the other Muslims (i.e. coming generations) I would divide (the land of) whatever villages the Muslims might conquer (among the fighters), as the Prophet divided (the land of) Khaibar.
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ وَسَأَلَهُ إِسْمَاعِيلُ بْنُ أُمَيَّةَ قَالَ أَخْبَرَنِي عَنْبَسَةُ بْنُ سَعِيدٍ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَتَی النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهُ قَالَ لَهُ بَعْضُ بَنِي سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ لَا تُعْطِهِ فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ هَذَا قَاتِلُ ابْنِ قَوْقَلٍ فَقَالَ وَا عَجَبَاهْ لِوَبْرٍ تَدَلَّی مِنْ قَدُومِ الضَّأْنِ وَيُذْکَرُ عَنْ الزُّبَيْدِيِّ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي عَنْبَسَةُ بْنُ سَعِيدٍ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يُخْبِرُ سَعِيدَ بْنَ الْعَاصِ قَالَ بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَانَ عَلَی سَرِيَّةٍ مِنْ الْمَدِينَةِ قِبَلَ نَجْدٍ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ فَقَدِمَ أَبَانُ وَأَصْحَابُهُ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِخَيْبَرَ بَعْدَ مَا افْتَتَحَهَا وَإِنَّ حُزْمَ خَيْلِهِمْ لَلِيفٌ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَا تَقْسِمْ لَهُمْ قَالَ أَبَانُ وَأَنْتَ بِهَذَا يَا وَبْرُ تَحَدَّرَ مِنْ رَأْسِ ضَأْنٍ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا أَبَانُ اجْلِسْ فَلَمْ يَقْسِمْ لَهُمْ-
علی بن عبداللہ، سفیان، زہری، اسماعیل بن امیہ نے زہری سے پوچھا تو انہوں نے اس طرح سند بیان کی کہ عنبسہ بن سعید، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے سوال کیا کہ غنیمت خیبر میں سے مجھے بھی حصہ ملے تو سعید بن عاص کے کسی لڑکے نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ابوہریرہ کو حصہ نہ دیجئے ، ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اسی کو نہ دیجئے کیونکہ یہ ابن قوقل کا قاتل ہے تو اس نے کہا تعجب ہے اس اوبلے پر جو کوہ ضان کی چوٹیوں سے ابھی اتر کر آیا ہے، زبیدی ، زہری، عنبسہ بن سعید، ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سعید بن عاص سے مذکور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابان کو مدینہ سے نجد کی طرف کسی لشکر کا سردار مقرر کرکے روانہ کیا تھا ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ خیبر میں فتح خیبر کے بعد ابان اور ان کے ساتھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس آئے اور ان کے گھوڑوں کی پیٹیاں چھال کی تھیں یعنی بے سروسامان تھے تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! انہیں مال غنیمت میں سے حصہ نہ دیجئے تو ابان نے کہا اوبلے جو کوہ ضان کی چوٹیوں سے ابھی اتر کر آیا ہے تو یہ بات کہتا ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابے ابان بیٹھ جاؤ اور انہیں حصہ نہ دیا۔
Narrated 'Anbasa bin Said: Abu Huraira came to the Prophet and asked him (for a share from the Khaibar booty). On that, one of the sons of Said bin Al-'As said to him, "O Allah's Apostle! Do not give him." Abu Huraira then said (to the Prophet ) "This is the murderer of Ibn Qauqal." Sa'id's son said, "How strange! A guinea pig coming from Qadum Ad-Dan!" Narrated Abu Huraira: Allah's Apostle sent Aban from Medina to Najd as the commander of a Sariya. Aban and his companions came to the Prophet at Khaibar after the Prophet had conquered it, and the reins of their horses were made of the fire of date palm trees. I said, "O Allah's Apostle! Do not give them a share of the booty." on, that, Aban said (to me), "Strange! You suggest such a thing though you are what you are, O guinea pig coming down from the top of Ad-Dal (a lotus tree)! "On that the Prophet said, "O Aban, sit down ! " and did not give them any share.
حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ قَالَ أَخْبَرَنِي جَدِّي أَنَّ أَبَانَ بْنَ سَعِيدٍ أَقْبَلَ إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا قَاتِلُ ابْنِ قَوْقَلٍ وَقَالَ أَبَانُ لِأَبِي هُرَيْرَةَ وَاعَجَبًا لَکَ وَبْرٌ تَدَأْدَأَ مِنْ قَدُومِ ضَأْنٍ يَنْعَی عَلَيَّ امْرَأً أَکْرَمَهُ اللَّهُ بِيَدِي وَمَنَعَهُ أَنْ يُهِينَنِي بِيَدِهِ-
موسی بن اسماعیل، عمرو بن یحیی بن سعید، ان کے دادا، ابان بن سعید سے روایت کرتے ہیں کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ کو سلام کیا تو ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا یا رسول اللہ یہ ابن قوقل کا قاتل ہے تو ابان نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ تجھ پر تعجب ہے کہ تو ایک اوبلہ ہے جو کوہ ضان سے اتر کر آیا ہے اور ایسے شخص کے مارنے کا مجھ پر عیب لگاتا ہے جسے اللہ نے میرے ہاتھوں (شہادت دے کر) بزرگی دی اور مجھے اس کے ہاتھ سے (حالت کفر میں قتل کرا کے) ذلیل ہونے سے بچا لیا۔
Narrated Said: Aban bin Said came to the Prophet and greeted him. Abu Huraira said, "O Allah's Apostle! This (Aban) is the murderer of the Ibn Qauqal." (On hearing that), Aban said to Abu Huraira, "How strange your saying is! You, a guinea pig, descending from Qadum Dan, blaming me for (killing) a person whom Allah favored (with martyrdom) with my hand, and whom He forbade to degrade me with his hand.'
حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ بُکَيْرٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَام بِنْتَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَتْ إِلَی أَبِي بَکْرٍ تَسْأَلُهُ مِيرَاثَهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا أَفَائَ اللَّهُ عَلَيْهِ بِالْمَدِينَةِ وَفَدَکٍ وَمَا بَقِيَ مِنْ خُمُسِ خَيْبَرَ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا نُورَثُ مَا تَرَکْنَا صَدَقَةٌ إِنَّمَا يَأْکُلُ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْمَالِ وَإِنِّي وَاللَّهِ لَا أُغَيِّرُ شَيْئًا مِنْ صَدَقَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ حَالِهَا الَّتِي کَانَ عَلَيْهَا فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَأَعْمَلَنَّ فِيهَا بِمَا عَمِلَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَبَی أَبُو بَکْرٍ أَنْ يَدْفَعَ إِلَی فَاطِمَةَ مِنْهَا شَيْئًا فَوَجَدَتْ فَاطِمَةُ عَلَی أَبِي بَکْرٍ فِي ذَلِکَ فَهَجَرَتْهُ فَلَمْ تُکَلِّمْهُ حَتَّی تُوُفِّيَتْ وَعَاشَتْ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِتَّةَ أَشْهُرٍ فَلَمَّا تُوُفِّيَتْ دَفَنَهَا زَوْجُهَا عَلِيٌّ لَيْلًا وَلَمْ يُؤْذِنْ بِهَا أَبَا بَکْرٍ وَصَلَّی عَلَيْهَا وَکَانَ لِعَلِيٍّ مِنْ النَّاسِ وَجْهٌ حَيَاةَ فَاطِمَةَ فَلَمَّا تُوُفِّيَتْ اسْتَنْکَرَ عَلِيٌّ وُجُوهَ النَّاسِ فَالْتَمَسَ مُصَالَحَةَ أَبِي بَکْرٍ وَمُبَايَعَتَهُ وَلَمْ يَکُنْ يُبَايِعُ تِلْکَ الْأَشْهُرَ فَأَرْسَلَ إِلَی أَبِي بَکْرٍ أَنْ ائْتِنَا وَلَا يَأْتِنَا أَحَدٌ مَعَکَ کَرَاهِيَةً لِمَحْضَرِ عُمَرَ فَقَالَ عُمَرُ لَا وَاللَّهِ لَا تَدْخُلُ عَلَيْهِمْ وَحْدَکَ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ وَمَا عَسَيْتَهُمْ أَنْ يَفْعَلُوا بِي وَاللَّهِ لآتِيَنَّهُمْ فَدَخَلَ عَلَيْهِمْ أَبُو بَکْرٍ فَتَشَهَّدَ عَلِيٌّ فَقَالَ إِنَّا قَدْ عَرَفْنَا فَضْلَکَ وَمَا أَعْطَاکَ اللَّهُ وَلَمْ نَنْفَسْ عَلَيْکَ خَيْرًا سَاقَهُ اللَّهُ إِلَيْکَ وَلَکِنَّکَ اسْتَبْدَدْتَ عَلَيْنَا بِالْأَمْرِ وَکُنَّا نَرَی لِقَرَابَتِنَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَصِيبًا حَتَّی فَاضَتْ عَيْنَا أَبِي بَکْرٍ فَلَمَّا تَکَلَّمَ أَبُو بَکْرٍ قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَرَابَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ أَصِلَ مِنْ قَرَابَتِي وَأَمَّا الَّذِي شَجَرَ بَيْنِي وَبَيْنَکُمْ مِنْ هَذِهِ الْأَمْوَالِ فَلَمْ آلُ فِيهَا عَنْ الْخَيْرِ وَلَمْ أَتْرُکْ أَمْرًا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُهُ فِيهَا إِلَّا صَنَعْتُهُ فَقَالَ عَلِيٌّ لِأَبِي بَکْرٍ مَوْعِدُکَ الْعَشِيَّةَ لِلْبَيْعَةِ فَلَمَّا صَلَّی أَبُو بَکْرٍ الظُّهْرَ رَقِيَ عَلَی الْمِنْبَرِ فَتَشَهَّدَ وَذَکَرَ شَأْنَ عَلِيٍّ وَتَخَلُّفَهُ عَنْ الْبَيْعَةِ وَعُذْرَهُ بِالَّذِي اعْتَذَرَ إِلَيْهِ ثُمَّ اسْتَغْفَرَ وَتَشَهَّدَ عَلِيٌّ فَعَظَّمَ حَقَّ أَبِي بَکْرٍ وَحَدَّثَ أَنَّهُ لَمْ يَحْمِلْهُ عَلَی الَّذِي صَنَعَ نَفَاسَةً عَلَی أَبِي بَکْرٍ وَلَا إِنْکَارًا لِلَّذِي فَضَّلَهُ اللَّهُ بِهِ وَلَکِنَّا نَرَی لَنَا فِي هَذَا الْأَمْرِ نَصِيبًا فَاسْتَبَدَّ عَلَيْنَا فَوَجَدْنَا فِي أَنْفُسِنَا فَسُرَّ بِذَلِکَ الْمُسْلِمُونَ وَقَالُوا أَصَبْتَ وَکَانَ الْمُسْلِمُونَ إِلَی عَلِيٍّ قَرِيبًا حِينَ رَاجَعَ الْأَمْرَ الْمَعْرُوفَ-
یحیی بن بکیر، لیث، عقیل، ابن شہاب، عروہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ دختر نبی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے (کسی کو) حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ان کے زمانہ خلافت میں بھیجا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مال کی جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو مدینہ اور فدک میں دیا تھا اور خیبر کے بقیہ خمس کی میراث چاہتے ہیں تو ابوبکر نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ہمارے مال کا کوئی وارث نہیں، جو کچھ ہم چھوڑیں وہ صدقہ ہے ہاں آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے (بقدر ضرورت) کھا سکتی ہے اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقہ میں آپ کے عہد مبارک کے عمل کے خلاف بالکل تبدیلی نہیں کر سکتا اور میں اس میں اسی طرح عمل درآمد کروں گا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے یعنی حضرت ابوبکر نے اس میں ذرا سی بھی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حوالے کرنے سے انکار کردیا تو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس مسئلہ میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ناراض ہو گئیں اور انہوں نے اپنی وفات تک حضرت ابوبکر سے گفتگو نہ کی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد چھ ماہ زندہ رہیں جب ان کا انتقال ہوگیا تو ان کے شوہر حضرت علی نے انہیں رات ہی کو دفن کردیا اور حضرت ابوبکر کو اس کی اطلاع بھی نہ دی، اور خود ہی ان کے جنازہ کی نماز پڑھ لی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حیات میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لوگوں میں وجاہت حاصل تھی جب ان کی وفات ہوگئی تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں کا رخ پھرا ہوا پایا تو ابوبکر سے صلح اور بیعت کی درخواست کی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے (چھ) مہینوں میں (حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی تیمارداری اور دیگر مشاغل و اسباب کی بناء پر) حضرت ابوبکر سے بیعت نہیں کی تھی تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابوبکر کے پاس پیغام بھیجا کہ آپ ہمارے یہاں تشریف لائیں اور آپ کے ساتھ کوئی دوسرا نہ ہو یہ اس لئے کہا کہ کہیں عمر نہ آجائیں حضرت عمر کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے فرمایا بخدا! آپ وہاں تنہا نہ جائیں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا مجھے ان سے یہ امید نہیں کہ وہ میرے ساتھ کچھ برائی کریں بخدا! میں ان کے پاس جاؤں گا لہذا ابوبکر ان کے پاس چلے گئے تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تشہد کے بعد فرمایا کہ ہم آپ کی فضیلت اور اللہ کے عطا کردہ انعامات کو بخوبی جانتے ہیں نیز ہمیں اس بھلائی میں (یعنی خلافت میں) جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائی ہے کوئی حسد نہیں لیکن آپ نے اس امر خلافت میں ہم پر زیادتی کی ہے حالانکہ قرابت رسول کی بناء پر ہم سمجھتے تھے کہ یہ خلافت ہمارا حصہ ہے حضرت ابوبکر یہ سن کر رونے لگے اور فرمایا قسم ہے خدا کی! قرابت رسول کی رعایت میری نظر میں اپنی قرابت کی رعایت سے زیادہ پسندیدہ ہے اور میرے اور تمہارے درمیان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جو اختلاف ہوا ہے تو میں نے اس میں ہرگز امر خیر سے کوتاہی نہیں کی اور اس مال میں میں نے جو کام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے دیکھا اسے نہیں چھوڑا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ زوال کے بعد آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بعیت کرنے کا وعدہ ہے جب حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ظہر کی نماز پڑھ لی تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ منبر پر بیٹھے اور تشہد کے بعد حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حال، بیعت سے ان کے پیچھے رہنے اور انہوں نے جو عذر پیش کئے تھے انہیں بیان فرمایا، پھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے استغفار و تشہد کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حقوق کی عظمت و بزرگی بیان کرکے فرمایا کہ میرے اس فعل کا باعث حضرت ابوبکر پر حسد اور اللہ نے انہیں جس خلافت سے نوازا ہے اس کا انکار نہیں تھا لیکن ہم سمجھتے تھے کہ امر خلافت میں ہمارا بھی حصہ تھا لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس میں ہمیں چھوڑ کر خود مختار بن گئے تو اس سے ہمارے دل میں کچھ تکدر تھا، تمام مسلمان اس سے خوش ہو گئے اور کہا کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے درست کام کیا اور مسلمان حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس وقت پھر ساتھی ہو گئے جب انہوں نے امر بالمعروف کی طرف رجوع کر لیا۔
Narrated 'Aisha: Fatima the daughter of the Prophet sent someone to Abu Bakr (when he was a caliph), asking for her inheritance of what Allah's Apostle had left of the property bestowed on him by Allah from the Fai (i.e. booty gained without fighting) in Medina, and Fadak, and what remained of the Khumus of the Khaibar booty. On that, Abu Bakr said, "Allah's Apostle said, "Our property is not inherited. Whatever we leave, is Sadaqa, but the family of (the Prophet) Muhammad can eat of this property.' By Allah, I will not make any change in the state of the Sadaqa of Allah's Apostle and will leave it as it was during the lifetime of Allah's Apostle, and will dispose of it as Allah's Apostle used to do." So Abu Bakr refused to give anything of that to Fatima. So she became angry with Abu Bakr and kept away from him, and did not task to him till she died. She remained alive for six months after the death of the Prophet. When she died, her husband 'Ali, buried her at night without informing Abu Bakr and he said the funeral prayer by himself. When Fatima was alive, the people used to respect 'Ali much, but after her death, 'Ali noticed a change in the people's attitude towards him. So Ali sought reconciliation with Abu Bakr and gave him an oath of allegiance. 'Ali had not given the oath of allegiance during those months (i.e. the period between the Prophet's death and Fatima's death). 'Ali sent someone to Abu Bakr saying, "Come to us, but let nobody come with you," as he disliked that 'Umar should come, 'Umar said (to Abu Bakr), "No, by Allah, you shall not enter upon them alone " Abu Bakr said, "What do you think they will do to me? By Allah, I will go to them' So Abu Bakr entered upon them, and then 'Ali uttered Tashah-hud and said (to Abu Bakr), "We know well your superiority and what Allah has given you, and we are not jealous of the good what Allah has bestowed upon you, but you did not consult us in the question of the rule and we thought that we have got a right in it because of our near relationship to Allah's Apostle ." Thereupon Abu Bakr's eyes flowed with tears. And when Abu Bakr spoke, he said, "By Him in Whose Hand my soul is to keep good relations with the relatives of Allah's Apostle is dearer to me than to keep good relations with my own relatives. But as for the trouble which arose between me and you about his property, I will do my best to spend it according to what is good, and will not leave any rule or regulation which I saw Allah's Apostle following, in disposing of it, but I will follow." On that 'Ali said to Abu Bakr, "I promise to give you the oath of allegiance in this after noon." So when Abu Bakr had offered the Zuhr prayer, he ascended the pulpit and uttered the Tashah-hud and then mentioned the story of 'Ali and his failure to give the oath of allegiance, and excused him, accepting what excuses he had offered; Then 'Ali (got up) and praying (to Allah) for forgiveness, he uttered Tashah-hud, praised Abu Bakr's right, and said, that he had not done what he had done because of jealousy of Abu Bakr or as a protest of that Allah had favored him with. 'Ali added, "But we used to consider that we too had some right in this affair (of rulership) and that he (i.e. Abu Bakr) did not consult us in this matter, and therefore caused us to feel sorry." On that all the Muslims became happy and said, "You have done the right thing." The Muslims then became friendly with 'Ali as he returned to what the people had done (i.e. giving the oath of allegiance to Abu Bakr).
حَدَّثَنا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا حَرَمِيٌّ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ أَخْبَرَنِي عُمَارَةُ عَنْ عِکْرِمَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ لَمَّا فُتِحَتْ خَيْبَرُ قُلْنَا الْآنَ نَشْبَعُ مِنْ التَّمْرِز-
محمد بن بشار، خرمی، شعبہ، عمارہ، عکرمہ، عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتی ہیں کہ جب خیبر فتح ہوا تو ہم نے کہا کہ اب ہم کھجوریں پیٹ بھر کر کھایا کریں گے۔
Narrated 'Aisha: When Khaibar was conquered, we said, "Now we will eat our fill of dates!"Narrated Ibn Umar: We did not eat our fill except after we had conquered Khaibar.
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ حَدَّثَنَا قُرَّةُ بْنُ حَبِيبٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ مَا شَبِعْنَا حَتَّی فَتَحْنَا خَيْبَرَ-
حسن، قرہ بن حبیب، عبدالرحمن بن عبداللہ بن دینار، عبداللہ بن دینار کے والد، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ فتح خیبر سے پہلے ہم نے پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا۔
-