بچوں کو اسلامی اصول بتانے کی ترکیب کا بیان

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا هِشَامٌ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ عُمَرَ انْطَلَقَ فِي رَهْطٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِبَلَ ابْنِ صَيَّادٍ حَتَّی وَجَدُوهُ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ عِنْدَ أُطُمِ بَنِي مَغَالَةَ وَقَدْ قَارَبَ يَوْمَئِذٍ ابْنُ صَيَّادٍ يَحْتَلِمُ فَلَمْ يَشْعُرْ بِشَيْئٍ حَتَّی ضَرَبَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ظَهْرَهُ بِيَدِهِ ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ فَنَظَرَ إِلَيْهِ ابْنُ صَيَّادٍ فَقَالَ أَشْهَدُ أَنَّکَ رَسُولُ الْأُمِّيِّينَ فَقَالَ ابْنُ صَيَّادٍ لِلنَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ قَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آمَنْتُ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَاذَا تَرَی قَالَ ابْنُ صَيَّادٍ يَأْتِينِي صَادِقٌ وَکَاذِبٌ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خُلِطَ عَلَيْکَ الْأَمْرُ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنِّي قَدْ خَبَأْتُ لَکَ خَبِيئًا قَالَ ابْنُ صَيَّادٍ هُوَ الدُّخُّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اخْسَأْ فَلَنْ تَعْدُوَ قَدْرَکَ قَالَ عُمَرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ائْذَنْ لِي فِيهِ أَضْرِبْ عُنُقَهُ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنْ يَکُنْهُ فَلَنْ تُسَلَّطَ عَلَيْهِ وَإِنْ لَمْ يَکُنْهُ فَلَا خَيْرَ لَکَ فِي قَتْلِهِ-
عبداللہ بن محمد ہشام معمر زہری سالم عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر اور دیگر اصحاب نے سرور عالم کے ساتھ ابن صیاد کی طرف جانے کے لیے رخت سفر باندھا اور بنو مغالہ کے ٹیلوں کے پاس اس کو بچوں کے ساتھ کھیلتا ہوا پایا ابن صیاد بچہ نہیں تھا بلکہ وہ تقریبا بالغ ہو چکا تھا لیکن سرور عالم کی تشریف آوری کی اس کو کچھ خبر نہیں ہوئی یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اس کی پیٹھ ٹھونکی اور فرمایا کیا تو اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں تو ابن صیاد نے آپ کی طرف دیکھ کر کہا میں یقینا اس بات کی شہادت دیتا ہوں کہ آپ امیوں کے رسول ہیں اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ کیا آپ اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں تو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر کہ میں تو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا ہوں فرمایا اب تو کیا دیکھتا ہے جس پر ابن صیاد نے کہا میرے پاس کوئی خبر سچی آتی ہے اور کوئی جھوٹی تو سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تجھ پر اصل حقیقت کا پردہ پڑ گیا ہے اور اس کے بعد فرمایا میں اپنے دل میں ایک بات کہتا ہوں بتاؤ وہ کیا ہے اس پر ابن صیاد نے جواب دیا وہ دھواں ہے جس کے جواب میں سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا دور ہو جا تو اپنی حد سے زیادہ نہیں بڑھ سکتا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھے اجازت مرحمت فرمائیے کہ میں اس کی گردن صاف کردوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر یہ دجال ہے تو اس کو مار ڈالنا تمہارے بس کی بات نہیں ہے اور اگر یہ دجال نہیں ہے تو اس کے قتل سے تم کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا
Narrated Ibn 'Umar: Umar and a group of the companions of the Prophet set out with the Prophet to Ibn Saiyad. He found him playing with some boys near the hillocks of Bani Maghala. Ibn Saiyad at that time was nearing his puberty. He did not notice (the Prophet's presence) till the Prophet stroked him on the back with his hand and said, "Ibn Saiyad! Do you testify that I am Allah's Apostle?" Ibn Saiyad looked at him and said, "I testify that you are the Apostle of the illiterates." Then Ibn Saiyad asked the Prophet. "Do you testify that I am the apostle of Allah?" The Prophet said to him, "I believe in Allah and His Apostles." Then the Prophet said (to Ibn Saiyad). "What do you see?" Ibn Saiyad replied, "True people and false ones visit me." The Prophet said, "Your mind is confused as to this matter." The Prophet added, " I have kept something (in my mind) for you." Ibn Saiyad said, "It is Ad-Dukh." The Prophet said (to him), "Shame be on you! You cannot cross your limits." On that 'Umar said, "O Allah's Apostle! Allow me to chop his head off." The Prophet said, "If he should be him (i.e. Ad-Dajjal) then you cannot overpower him, and should he not be him, then you are not going to benefit by murdering him."
قَالَ ابْنُ عُمَرَ انْطَلَقَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأُبَيُّ بْنُ کَعْبٍ يَأْتِيَانِ النَّخْلَ الَّذِي فِيهِ ابْنُ صَيَّادٍ حَتَّی إِذَا دَخَلَ النَّخْلَ طَفِقَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَّقِي بِجُذُوعِ النَّخْلِ وَهُوَ يَخْتِلُ ابْنَ صَيَّادٍ أَنْ يَسْمَعَ مِنْ ابْنِ صَيَّادٍ شَيْئًا قَبْلَ أَنْ يَرَاهُ وَابْنُ صَيَّادٍ مُضْطَجِعٌ عَلَی فِرَاشِهِ فِي قَطِيفَةٍ لَهُ فِيهَا رَمْزَةٌ فَرَأَتْ أُمُّ ابْنِ صَيَّادٍ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَتَّقِي بِجُذُوعِ النَّخْلِ فَقَالَتْ لِابْنِ صَيَّادٍ أَيْ صَافِ وَهُوَ اسْمُهُ فَثَارَ ابْنُ صَيَّادٍ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ تَرَکَتْهُ بَيَّنَ-
ابن عمر کا بیان ہے کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم اور ابی بن کعب اس باغ میں جس میں ابن صیاد رہا کرتا تھا ایک دن جا رہے تھے اور جب باغ میں پہنچ گئے تو درختوں کے تنوں میں چھپنے لگے تاکہ وہ آپ کو دیکھ نہ سکے اور آپ اس کی کچھ باتیں سن سکیں آپ نے دیکھا کہ وہ اپنے بچھونے پر اپنی چادر میں لپٹا پڑا تھا جس میں ایک گنگناہٹ تھی آپ کھجوروں کے تنوں میں چھپے ہوئے تھے کہ ابن صیاد کی ماں نے آپ کو دیکھ لیا اور اپنے بیٹے ابن صیاد سے اس کا نام لے کر کہا ارے او بیٹا صاف چنانچہ ابن صیاد اٹھ بیٹھا تو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر یہ عورت اپنے بیٹے صاف کو اس کی اصلی حالت پر رہنے دیتی تو حقیقت حال صاف ہو جاتی
-
وَقَالَ سَالِمٌ قَالَ ابْنُ عُمَرَ ثُمَّ قَامَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّاسِ فَأَثْنَی عَلَی اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ ذَکَرَ الدَّجَّالَ فَقَالَ إِنِّي أُنْذِرُکُمُوهُ وَمَا مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا قَدْ أَنْذَرَهُ قَوْمَهُ لَقَدْ أَنْذَرَهُ نُوحٌ قَوْمَهُ وَلَکِنْ سَأَقُولُ لَکُمْ فِيهِ قَوْلًا لَمْ يَقُلْهُ نَبِيٌّ لِقَوْمِهِ تَعْلَمُونَ أَنَّهُ أَعْوَرُ وَأَنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِأَعْوَرَ-
سالم کا بیان ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اس کے بعد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے مجمع میں کھڑے ہو کر سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی تعریف و توصیف کی اور پھر دجال کا تذکرہ کرکے فرمایا میں تمہیں دجال سے ڈراتا ہوں اور ہر نبی نے اپنی قوم کو دجال سے ڈرایا ہے اور حضرت نوح علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کو دجال سے ڈرایا ہے لیکن میں ایسی بات بھی بتائے دیتا ہوں جو کسی نبی نے اپنی قوم سے نہیں کہی سنو وہ بات یہ ہے کہ دجال کانا ہوگا اور اللہ تعالیٰ یک چشمی نہیں ہے۔
-