امام کا عید کے دن عورتوں کو نصیحت کرنے کا بیان

حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ نَصْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عَطَائٌ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ قَامَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْفِطْرِ فَصَلَّی فَبَدَأَ بِالصَّلَاةِ ثُمَّ خَطَبَ فَلَمَّا فَرَغَ نَزَلَ فَأَتَی النِّسَائَ فَذَکَّرَهُنَّ وَهُوَ يَتَوَکَّأُ عَلَی يَدِ بِلَالٍ وَبِلَالٌ بَاسِطٌ ثَوْبَهُ يُلْقِي فِيهِ النِّسَائُ الصَّدَقَةَ قُلْتُ لِعَطَائٍ زَکَاةَ يَوْمِ الْفِطْرِ قَالَ لَا وَلَکِنْ صَدَقَةً يَتَصَدَّقْنَ حِينَئِذٍ تُلْقِي فَتَخَهَا وَيُلْقِينَ قُلْتُ أَتُرَی حَقًّا عَلَی الْإِمَامِ ذَلِکَ وَيُذَکِّرُهُنَّ قَالَ إِنَّهُ لَحَقٌّ عَلَيْهِمْ وَمَا لَهُمْ لَا يَفْعَلُونَهُ-
اسحاق بن ابراہیم بن نصر، عبدالرزاق، ابن جریج، عطاء، جابر بن عبداللہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے ان کو کہتے ہوئے سنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عید الفطر کے دن کھڑے ہوئے اور نماز پڑھی، پہلے تو نماز پڑھی پھر خطبہ کہا۔ جب خطبہ سے فارغ ہوئے تو منبر سے نیچے اترے اور عورتوں کے پاس آئے اور انہیں نصیحت کی، اس حال میں کہ بلال کے ہاتھ پر ٹیکا دیئے ہوئے تھے اور بلال اپنے کپڑے پھیلائے ہوئے تھے جس میں عورتیں خیرات ڈال رہی تھیں۔
Narrated Ibn Juraij: 'Ata' told me that he had heard Jabir bin 'Abdullah saying, "The Prophet stood up to offer the prayer of the 'Id ul Fitr. He first offered the prayer and then delivered the Khutba. After finishing it he got down (from the pulpit) and went towards the women and advised them while he was leaning on Bilal's hand. Bilal was spreading out his garment where the women were putting their alms." I asked 'Ata' whether it was the Zakat of 'Id ul Fitr. He said, "No, it was just alms given at that time. Some lady put her finger ring and the others would do the same." I said, (to 'Ata'), "Do you think that it is incumbent upon the Imam to give advice to the women (on 'Id day)?" He said, "No doubt, it is incumbent upon the Imams to do so and why should they not do so?" Al-Hasan bin Muslim told me that Ibn Abbas had said, "I join the Prophet, Abu Bakr, Umar and 'Uthman in the 'Id ul Fitr prayers. They used to offer the prayer before the Khutba and then they used to deliver the Khutba afterwards. Once the Prophet I came out (for the 'Id prayer) as if I were just observing him waving to the people to sit down. He, then accompanied by Bilal, came crossing the rows till he reached the women. He recited the following verse: 'O Prophet! When the believing women come to you to take the oath of fealty to you . . . (to the end of the verse) (60.12).' After finishing the recitation he said, "O ladies! Are you fulfilling your covenant?" None except one woman said, "Yes." Hasan did not know who was that woman. The Prophet said, "Then give alms." Bilal spread his garment and said, "Keep on giving alms. Let my father and mother sacrifice their lives for you (ladies)." So the ladies kept on putting their Fatkhs (big rings) and other kinds of rings in Bilal's garment." Abdur-Razaq said, " 'Fatkhs' is a big ring which used to be worn in the (Pre-lslamic) period of ignorance.
قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ وَأَخْبَرَنِي الْحَسَنُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ طَاوُسٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ شَهِدْتُ الْفِطْرَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَکْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ يُصَلُّونَهَا قَبْلَ الْخُطْبَةِ ثُمَّ يُخْطَبُ بَعْدُ خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ حِينَ يُجَلِّسُ بِيَدِهِ ثُمَّ أَقْبَلَ يَشُقُّهُمْ حَتَّی جَائَ النِّسَائَ مَعَهُ بِلَالٌ فَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَائَکَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَکَ الْآيَةَ ثُمَّ قَالَ حِينَ فَرَغَ مِنْهَا آنْتُنَّ عَلَی ذَلِکِ قَالَتْ امْرَأَةٌ وَاحِدَةٌ مِنْهُنَّ لَمْ يُجِبْهُ غَيْرُهَا نَعَمْ لَا يَدْرِي حَسَنٌ مَنْ هِيَ قَالَ فَتَصَدَّقْنَ فَبَسَطَ بِلَالٌ ثَوْبَهُ ثُمَّ قَالَ هَلُمَّ لَکُنَّ فِدَائٌ أَبِي وَأُمِّي فَيُلْقِينَ الْفَتَخَ وَالْخَوَاتِيمَ فِي ثَوْبِ بِلَالٍ قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ الْفَتَخُ الْخَوَاتِيمُ الْعِظَامُ کَانَتْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ-
میں نے عطاء سے پوچھا کیا صدقہ فطر دے رہی تھیں؟ تو انہوں نے کہا نہیں بلکہ خیرات کر رہی تھیں، اس وقت اگر ایک عورت اپنا چھلا ڈالتی تو دوسری بھی ڈالتیں، میں نے عطاء سے پوچھا کہ کیا آپ کے خیال میں امام پر یہ واجب ہے کہ وہ عورتوں کو نصیحت کرے؟ انہوں نے نے کہا کہ بلاشبہ یہ واجب ہے، انہیں کیا ہوگیا ہے کہ ایسا نہیں کرتے، ابن جریج نے کہا کہ مجھ سے حسن بن مسلم نے بہ سند طاؤس، عباس بیان کیا کہ ابن عباس نے کہا کہ میں عیدالفطر میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ و عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ شریک ہوا۔ سب کے سب قبل خطبہ نماز پڑھتے پھر خطبہ دیتے، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نکلے، گویا میں آپ کو دیکھ رہا ہوں، جب آپ لوگوں کو اپنے ہاتھوں کے اشارہ سے بٹھلا رہے تھے، پھر آپ ان صفوں کو چیرتے ہوئے آگے بڑھے، یہاں تک کہ عورتوں کے پاس پہنچ گئے اور آپ کے ساتھ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے آپ نے یا ایہا النبی اذاجائک الخ آخر تک پڑھی پھر جب اس سے فارغ ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ تم اس پر قائم رہو، تو ان عورتوں میں سے صرف ایک عورت نے کہا ہاں، اور اس کے علاوہ کسی عورت نے آپ کی بات کا جواب نہیں دیا۔ حسن کو معلوم نہیں کہ وہ کون عورت تھی۔ آپ نے فرمایا تو تم لوگ خیرات کرو اور بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے کپڑے پھیلا دیئے اور کہا تم لوگ لاؤ، میرے ماں باپ تم پر نثار ہوں، تو وہ عورتیں اپنی انگوٹھیاں اور چھلے بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کپڑے میں ڈالنے لگیں، عبدالرزاق نے کہا کہ فتخ سے مراد بڑی انگوٹھیاں ہیں جن کا رواج عہد جاہلیت میں تھا۔
-