اللہ تعالیٰ کا قول کہ جس نے آپ پر قرآن فرض کیا ہے وہ تم کو دوبارہ لو ٹنے کی جگہ واپس لے آئے گا ۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ أَخْبَرَنَا يَعْلَی حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الْعُصْفُرِيُّ عَنْ عِکْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ لَرَادُّکَ إِلَی مَعَادٍ قَالَ إِلَی مَکَّةَ-
محمد بن مقاتل، یعلی، سفیان، عصفری، عکر مہ، حضرت ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ " لَرَادُّکَ إِلَی مَعَادٍ " کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تم کو پھر مکہ لائے گا۔
Narrated Ibn Abbas: '...will bring you home' means to Mecca.
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کَثِيرٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ وَالْأَعْمَشُ عَنْ أَبِي الضُّحَی عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ بَيْنَمَا رَجُلٌ يُحَدِّثُ فِي کِنْدَةَ فَقَالَ يَجِيئُ دُخَانٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيَأْخُذُ بِأَسْمَاعِ الْمُنَافِقِينَ وَأَبْصَارِهِمْ يَأْخُذُ الْمُؤْمِنَ کَهَيْئَةِ الزُّکَامِ فَفَزِعْنَا فَأَتَيْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ وَکَانَ مُتَّکِئًا فَغَضِبَ فَجَلَسَ فَقَالَ مَنْ عَلِمَ فَلْيَقُلْ وَمَنْ لَمْ يَعْلَمْ فَلْيَقُلْ اللَّهُ أَعْلَمُ فَإِنَّ مِنْ الْعِلْمِ أَنْ يَقُولَ لِمَا لَا يَعْلَمُ لَا أَعْلَمُ فَإِنَّ اللَّهَ قَالَ لِنَبِيِّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْ مَا أَسْأَلُکُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنْ الْمُتَکَلِّفِينَ وَإِنَّ قُرَيْشًا أَبْطَئُوا عَنْ الْإِسْلَامِ فَدَعَا عَلَيْهِمْ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَيْهِمْ بِسَبْعٍ کَسَبْعِ يُوسُفَ فَأَخَذَتْهُمْ سَنَةٌ حَتَّی هَلَکُوا فِيهَا وَأَکَلُوا الْمَيْتَةَ وَالْعِظَامَ وَيَرَی الرَّجُلُ مَا بَيْنَ السَّمَائِ وَالْأَرْضِ کَهَيْئَةِ الدُّخَانِ فَجَائَهُ أَبُو سُفْيَانَ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ جِئْتَ تَأْمُرُنَا بِصِلَةِ الرَّحِمِ وَإِنَّ قَوْمَکَ قَدْ هَلَکُوا فَادْعُ اللَّهَ فَقَرَأَ فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَائُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ إِلَی قَوْلِهِ عَائِدُونَ أَفَيُکْشَفُ عَنْهُمْ عَذَابُ الْآخِرَةِ إِذَا جَائَ ثُمَّ عَادُوا إِلَی کُفْرِهِمْ فَذَلِکَ قَوْلُهُ تَعَالَی يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْکُبْرَی يَوْمَ بَدْرٍ وَ لِزَامًا يَوْمَ بَدْرٍ الم غُلِبَتْ الرُّومُ إِلَی سَيَغْلِبُونَ وَالرُّومُ قَدْ مَضَی-
محمد بن کیثر، سفیان، منصور، اعمش، ابوالضحیٰ، حضرت مسروق سے روایت ہیں کہ ایک شخص کندہ میں بیان کر رہا تھا کہ قیامت کے دن دھواں سا پیدا ہوگا جو منافقوں کے کان اور آنکھ میں گھسے گا اور ایمانداروں کو زکام جیسا ہوجائے گا میں یہ سن کر ڈرا اور پھر عبداللہ بن مسعود کے پاس آیا وہ تکیہ کے سہارے بیٹھے تھے میں نے ان سے وہ واقعہ بیان کیا آپ کو غصہ آگیا فرمانے لگے کہ آدمی کو چاہئے جو بات معلوم ہو وہ بیان کرے ورنہ کہہ دے کہ اللہ بہتر جا نتا ہے اس لئے کہ یہ بھی ایک طرح کا علم ہے کہ جو نہ معلوم ہو اس کیلئے کہہ دے کہ میں نہیں جا نتا اللہ تعالیٰ اپنے رسول سے فرماتا ہے کہ آپ کہہ دیجئے کہ میں اپنی تبلیغ ونصیحت پر کوئی صلہ تم سے نہیں چاہتا اور نہ میں تم سے کسی طرح کی بناوٹی باتیں کرتا ہوں اصل یہ ہے کہ اہل مکہ کے ایمان میں جب دیر ہوئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ سے عرض کیا کہ اے اللہ! تو ان پر حضرت یوسف کے زمانہ کی طرح قحط مسلط کردے دعا قبول ہوئی قحط پڑا آدمی اور جانور مرنے لگے لوگ مردار کا گوشت کھانے لگے اور لوگوں کی آنکھوں میں دھواں دھواں سا نظر آنے لگا۔چنانچہ ابوسفیان آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ تو ہمیں ہمدردی اور صلہ رحمی کی تعلیم دیتے ہیں دیکھئے آپ کی قوم کے کتنے آدمی مرچکے ہیں لہذا آپ دعا فرمائیے چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی اور پھر اس آیت کو پڑھا (فَارْتَ قِبْ يَوْمَ تَاْتِي السَّمَا ءُ بِدُخَانٍ مُّبِيْنٍ إِلَی قَوْلِهِ عَائِدُونَ) 44۔ الدخان : 10)چونکہ اس آیت میں عذاب ہٹ جانے کا ذکر ہے جو صرف دنیاوی عذاب ہو سکتا ہے کیونکہ آخرت کا عذاب ہٹنے والا نہیں اور نہ ہی کافر وہاں اپنے کفر کی طرف لوٹ سکتا ہے لہذا دھوئیں سے مراد یہی قحط سالی والا دھواں ہے اور " البطشۃ" سے بدر کی لڑائی مراد ہے اور " الزام" کا مطلب بدر میں قید ہونا جنگ بدر اور واقعہ روم بھی گزر چکے۔
Narrated Masruq: While a man was delivering a speech in the tribe of Kinda, he said, "Smoke will prevail on the Day of Resurrection and will deprive the hypocrites their faculties of hearing and seeing. The believers will be afflicted with something like cold only thereof." That news scared us, so I went to (Abdullah) Ibn Mas'ud while he was reclining (and told him the story) whereupon he became angry, sat up and said, "He who knows a thing can say, it, but if he does not know, he should say, 'Allah knows best,' for it is an aspect of knowledge to say, 'I do not know,' if you do not know a certain thing. Allah said to His prophet. 'Say (O Muhammad): No wage do I ask of you for this (Qur'an), nor I am one of the pretenders (a person who pretends things which do not exist.)' (38.86) The Qur'aish delayed in embracing Islam for a period, so the Prophet invoked evil on them, saying, 'O Allah! Help me against them by sending seven years of (famine) like those of Joseph.' So they were afflicted with such a severe year of famine that they were destroyed therein and ate dead animals and bones. They started seeing something like smoke between the sky and the earth (because of severe hunger). Abu Sufyan then came (to the Prophet) and said, "O Muhammad! You came to order us for to keep good relations with Kith and kin, and your kinsmen have now perished, so please invoke Allah (to relieve them).' Then Ibn Mas'ud recited:-- 'Then watch you for the day that the sky will bring forth a kind of smoke plainly visible....but truly you will return! (to disbelief) (44.10-15) Ibn Mas'ud added, Then the punishment was stopped, but truly, they reverted to heathenism (their old way). So Allah (threatened them thus): 'On the day when we shall seize you with a mighty grasp.' (44.16) And that was the day of the Battle of Badr. Allah's saying- "Lizama" (the punishment) refers to the day of Badr Allah's Statement: 'Alif-Lam-Mim, the Romans have been defeated, and they, after their defeat, will be victorious,' (30.1-3) (This verse): Indicates that the defeat of Byzantine has already passed.