اس باب میں کوئی عنوان نہیں ہے۔

حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَی أَخْبَرَنَا هِشَامٌ أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ أَخْبَرَهُمْ قَالَ أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْکَرِيمِ أَنَّهُ سَمِعَ مِقْسَمًا مَوْلَی عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ يُحَدِّثُ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ سَمِعَهُ يَقُولُ لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ عَنْ بَدْرٍ وَالْخَارِجُونَ إِلَی بَدْرٍ-
ابراہیم بن موسیٰ ہشام ابن جریج عبدالکریم بن مالک مقسم (علام عبداللہ بن حارث) عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا کہ اس آیت (لَا يَسْتَوِي الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ) 4۔ النسآء : 95) الخ سے مراد یہ ہے کہ جنگ بدر میں شامل ہونے والے اور گھروں میں بیٹھے رہنے والے مرتبہ میں برابر نہیں ہو سکتے۔
Narrated Ibn Abbas: The believers who failed to join the Ghazwa of Badr and those who took part in it are not equal (in reward).
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْجُعْفِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْغَسِيلِ عَنْ حَمْزَةَ بْنِ أَبِي أُسَيْدٍ وَالزُّبَيْرِ بْنِ الْمُنْذِرِ بْنِ أَبِي أُسَيْدٍ عَنْ أَبِي أُسَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ بَدْرٍ إِذَا أَکْثَبُوکُمْ فَارْمُوهُمْ وَاسْتَبْقُوا نَبْلَکُمْ-
عبداللہ بن محمد جعفی، ابواحمد زبیری، عبدالرحمن بن غسیل، حمزہ بن ابی اسید، زبیر بن منذر، حضرت ابواسید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے دن ہی لوگوں سے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ جب کافر تمہارے قریب آجائیں تو اس وقت تیر مارو اور اپنے تیروں کو ضائع نہ کرو۔
Narrated Usaid: On the day of Badr, Allah's Apostle said to us, "When the enemy comes near to you, shoot at them but use your arrows sparingly (so that your arrows should not be wasted)."
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْغَسِيلِ عَنْ حَمْزَةَ بْنِ أَبِي أُسَيْدٍ وَالْمُنْذِرِ بْنِ أَبِي أُسَيْدٍ عَنْ أَبِي أُسَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ بَدْرٍ إِذَا أَکْثَبُوکُمْ يَعْنِي کَثَرُوکُمْ فَارْمُوهُمْ وَاسْتَبْقُوا نَبْلَکُمْ-
محمد بن عبدالرحیم، ابواحمد زبیری، عبدالرحمن بن غسیل، حمزہ بن ابی اسید، منذر بن ابی اسید، حضرت ابواسید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے دن ارشاد فرمایا کہ جب کافر تمہارے اوپر حملہ کریں تو ان کو تیر مارو اور اپنے تیر ضرورت کے لئے محفوظ رکھو۔
Narrated Abu Usaid: On the day of (the battle of) Badr, Allah's Apostle said to us, "When your enemy comes near to you (i.e. overcome you by sheer number), shoot at them but use your arrows sparingly."
حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ قَالَ سَمِعْتُ الْبَرَائَ بْنَ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ جَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَی الرُّمَاةِ يَوْمَ أُحُدٍ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ جُبَيْرٍ فَأَصَابُوا مِنَّا سَبْعِينَ وَکَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ أَصَابُوا مِنْ الْمُشْرِکِينَ يَوْمَ بَدْرٍ أَرْبَعِينَ وَمِائَةً سَبْعِينَ أَسِيرًا وَسَبْعِينَ قَتِيلًا قَالَ أَبُو سُفْيَانَ يَوْمٌ بِيَوْمِ بَدْرٍ وَالْحَرْبُ سِجَالٌ-
عمرو بن خالد زہیر، حضرت ابواسحاق سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میں نے براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ احد میں عبداللہ بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پچاس تیراندازوں پر سردار مقرر کیا کافروں نے ستر مسلمانوں کو شہید کردیا اور جنگ بدر میں آنحضرت کے اصحاب نے کافروں کے ایک سو چالیس آدمیوں کو قتل کیا اور قیدی بنایا تھا ستر کو قید کیا تھا ستر کو مار ڈالا تھا۔ جنگ احد کے دن ابوسفیان نے کہا! بدر کے دن کا بدلہ آج ہے اور لڑائی ڈول کی طرح ہے۔
Narrated Al-Bara' bin 'Azib: On the day of Uhud the Prophet appointed 'Abdullah bin Jubair as chief of the archers, and seventy among us were injured and martyred. On the day (of the battle) of Badr, the Prophet and his companions had inflicted 140 casualties on the pagans, 70 were taken prisoners, and 70 were killed. Abu Sufyan said, "This is a day of (revenge) for the day of Badr and the issue of war is undecided ."
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَائِ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ بُرَيْدٍ عَنْ جَدِّهِ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِي مُوسَی أُرَاهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَإِذَا الْخَيْرُ مَا جَائَ اللَّهُ بِهِ مِنْ الْخَيْرِ بَعْدُ وَثَوَابُ الصِّدْقِ الَّذِي آتَانَا بَعْدَ يَوْمِ بَدْرٍ-
محمد بن علاء، ابواسامه، برید اپنے دادا حضرت ابوبرده سے روایت کرتے ہیں، میں گمان کرتاهوں که ابوموسی نے رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی که آپ نے فرمایا که میں نے خواب میں جو خیر کا لفظ دیکھا، اس کی تعبیر یهی ہے که خدا نے جنگ احد کے بعد مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی اور سچائی کابدله وه ہے جو بدر کی لڑائی میں الله نے ہم کو عنایت فرمایا۔
Narrated Abu Musa: That the Prophet said, "The good is what Allah gave us later on (after Uhud), and the reward of truthfulness is what Allah gave us after the day (of the battle) of Badr."
حَدَّثَنِي يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ إِنِّي لَفِي الصَّفِّ يَوْمَ بَدْرٍ إِذْ الْتَفَتُّ فَإِذَا عَنْ يَمِينِي وَعَنْ يَسَارِي فَتَيَانِ حَدِيثَا السِّنِّ فَکَأَنِّي لَمْ آمَنْ بِمَکَانِهِمَا إِذْ قَالَ لِي أَحَدُهُمَا سِرًّا مِنْ صَاحِبِهِ يَا عَمِّ أَرِنِي أَبَا جَهْلٍ فَقُلْتُ يَا ابْنَ أَخِي وَمَا تَصْنَعُ بِهِ قَالَ عَاهَدْتُ اللَّهَ إِنْ رَأَيْتُهُ أَنْ أَقْتُلَهُ أَوْ أَمُوتَ دُونَهُ فَقَالَ لِي الْآخَرُ سِرًّا مِنْ صَاحِبِهِ مِثْلَهُ قَالَ فَمَا سَرَّنِي أَنِّي بَيْنَ رَجُلَيْنِ مَکَانَهُمَا فَأَشَرْتُ لَهُمَا إِلَيْهِ فَشَدَّا عَلَيْهِ مِثْلَ الصَّقْرَيْنِ حَتَّی ضَرَبَاهُ وَهُمَا ابْنَا عَفْرَائَ-
یعقوب، ابراہیم بن سعد، اپنے والد، دادا ، حضرت عبدالرحمن بن عوف سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا بدر کے روز میں صف میں کھڑا تھا مڑ کر دیکھا تو دائیں بائیں دو نوجوان لڑکے کھڑے ہیں۔ میں ان کو دیکھ کر خوف محسوس کرنے لگا اور میرا اطمینان جاتا رہا۔ اتنے میں ایک نے چپکے سے مجھ سے پوچھا چچا! ذرا مجھے ابوجہل کو تو دکھا دو تاکہ میں دیکھوں وہ کون شخص ہے؟ میں نے کہا! بھتیجے تم ابوجہل کا کیا کرو گے؟ جو ان نے کہا! میں نے خدا سے عہد کیا ہے کہ جب ابوجہل کو دیکھوں گا تو قتل کروں گا یا خود مر جاؤں گا پھر دوسرے نے بھی اپنے ساتھی سے چھپا کر وہی بات پوچھی اب تو مجھ کو ان سے دلچسپی پیدا ہو گئی۔ آخر میں نے ان کو اشارہ سے ابوجہل کی پہچان کرادی۔ یہ سنتے ہی دونوں عقاب کی طرح جھپٹے اور مار مار کر اس کا کام تمام کردیا یہ دونوں جوان عفراء کے بیٹے معاذ اور معوذ تھے۔
Narrated 'Abdur-Rahman bin 'Auf: While I was fighting in the front file on the day (of the battle) of Badr, suddenly I looked behind and saw on my right and left two young boys and did not feel safe by standing between them. Then one of them asked me secretly so that his companion may not hear, "O Uncle! Show me Abu Jahl." I said, "O nephew! What will you do to him?" He said, "I have promised Allah that if I see him (i.e. Abu Jahl), I will either kill him or be killed before I kill him." Then the other said the same to me secretly so that his companion should not hear. I would not have been pleased to be in between two other men instead of them. Then I pointed him (i.e. Abu Jahl) out to them. Both of them attacked him like two hawks till they knocked him down. Those two boys were the sons of 'Afra' (i.e. an Ansari woman).
حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ أَسِيدِ بْنِ جَارِيَةَ الثَّقَفِيُّ حَلِيفُ بَنِي زُهْرَةَ وَکَانَ مِنْ أَصْحَابِ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشَرَةً عَيْنًا وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ عَاصِمَ بْنَ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِيَّ جَدَّ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ حَتَّی إِذَا کَانُوا بِالْهَدَةِ بَيْنَ عَسْفَانَ وَمَکَّةَ ذُکِرُوا لِحَيٍّ مِنْ هُذَيْلٍ يُقَالُ لَهُمْ بَنُو لِحْيَانَ فَنَفَرُوا لَهُمْ بِقَرِيبٍ مِنْ مِائَةِ رَجُلٍ رَامٍ فَاقْتَصُّوا آثَارَهُمْ حَتَّی وَجَدُوا مَأْکَلَهُمْ التَّمْرَ فِي مَنْزِلٍ نَزَلُوهُ فَقَالُوا تَمْرُ يَثْرِبَ فَاتَّبَعُوا آثَارَهُمْ فَلَمَّا حَسَّ بِهِمْ عَاصِمٌ وَأَصْحَابُهُ لَجَئُوا إِلَی مَوْضِعٍ فَأَحَاطَ بِهِمْ الْقَوْمُ فَقَالُوا لَهُمْ انْزِلُوا فَأَعْطُوا بِأَيْدِيکُمْ وَلَکُمْ الْعَهْدُ وَالْمِيثَاقُ أَنْ لَا نَقْتُلَ مِنْکُمْ أَحَدًا فَقَالَ عَاصِمُ بْنُ ثَابِتٍ أَيُّهَا الْقَوْمُ أَمَّا أَنَا فَلَا أَنْزِلُ فِي ذِمَّةِ کَافِرٍ ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ أَخْبِرْ عَنَّا نَبِيَّکَ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَمَوْهُمْ بِالنَّبْلِ فَقَتَلُوا عَاصِمًا وَنَزَلَ إِلَيْهِمْ ثَلَاثَةُ نَفَرٍ عَلَی الْعَهْدِ وَالْمِيثَاقِ مِنْهُمْ خُبَيْبٌ وَزَيْدُ بْنُ الدَّثِنَةِ وَرَجُلٌ آخَرُ فَلَمَّا اسْتَمْکَنُوا مِنْهُمْ أَطْلَقُوا أَوْتَارَ قِسِيِّهِمْ فَرَبَطُوهُمْ بِهَا قَالَ الرَّجُلُ الثَّالِثُ هَذَا أَوَّلُ الْغَدْرِ وَاللَّهِ لَا أَصْحَبُکُمْ إِنَّ لِي بِهَؤُلَائِ أُسْوَةً يُرِيدُ الْقَتْلَی فَجَرَّرُوهُ وَعَالَجُوهُ فَأَبَی أَنْ يَصْحَبَهُمْ فَانْطُلِقَ بِخُبَيْبٍ وَزَيْدِ بْنِ الدَّثِنَةِ حَتَّی بَاعُوهُمَا بَعْدَ وَقْعَةِ بَدْرٍ فَابْتَاعَ بَنُو الْحَارِثِ بْنِ عَامِرِ بْنِ نَوْفَلٍ خُبَيْبًا وَکَانَ خُبَيْبٌ هُوَ قَتَلَ الْحَارِثَ بْنَ عَامِرٍ يَوْمَ بَدْرٍ فَلَبِثَ خُبَيْبٌ عِنْدَهُمْ أَسِيرًا حَتَّی أَجْمَعُوا قَتْلَهُ فَاسْتَعَارَ مِنْ بَعْضِ بَنَاتِ الْحَارِثِ مُوسًی يَسْتَحِدُّ بِهَا فَأَعَارَتْهُ فَدَرَجَ بُنَيٌّ لَهَا وَهِيَ غَافِلَةٌ حَتَّی أَتَاهُ فَوَجَدَتْهُ مُجْلِسَهُ عَلَی فَخِذِهِ وَالْمُوسَی بِيَدِهِ قَالَتْ فَفَزِعْتُ فَزْعَةً عَرَفَهَا خُبَيْبٌ فَقَالَ أَتَخْشَيْنَ أَنْ أَقْتُلَهُ مَا کُنْتُ لِأَفْعَلَ ذَلِکَ قَالَتْ وَاللَّهِ مَا رَأَيْتُ أَسِيرًا قَطُّ خَيْرًا مِنْ خُبَيْبٍ وَاللَّهِ لَقَدْ وَجَدْتُهُ يَوْمًا يَأْکُلُ قِطْفًا مِنْ عِنَبٍ فِي يَدِهِ وَإِنَّهُ لَمُوثَقٌ بِالْحَدِيدِ وَمَا بِمَکَّةَ مِنْ ثَمَرَةٍ وَکَانَتْ تَقُولُ إِنَّهُ لَرِزْقٌ رَزَقَهُ اللَّهُ خُبَيْبًا فَلَمَّا خَرَجُوا بِهِ مِنْ الْحَرَمِ لِيَقْتُلُوهُ فِي الْحِلِّ قَالَ لَهُمْ خُبَيْبٌ دَعُونِي أُصَلِّي رَکْعَتَيْنِ فَتَرَکُوهُ فَرَکَعَ رَکْعَتَيْنِ فَقَالَ وَاللَّهِ لَوْلَا أَنْ تَحْسِبُوا أَنَّ مَا بِي جَزَعٌ لَزِدْتُ ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ أَحْصِهِمْ عَدَدًا وَاقْتُلْهُمْ بَدَدًا وَلَا تُبْقِ مِنْهُمْ أَحَدًا ثُمَّ أَنْشَأَ يَقُولُ فَلَسْتُ أُبَالِي حِينَ أُقْتَلُ مُسْلِمًا عَلَی أَيِّ جَنْبٍ کَانَ لِلَّهِ مَصْرَعِي وَذَلِکَ فِي ذَاتِ الْإِلَهِ وَإِنْ يَشَأْ يُبَارِکْ عَلَی أَوْصَالِ شِلْوٍ مُمَزَّعِ ثُمَّ قَامَ إِلَيْهِ أَبُو سِرْوَعَةَ عُقْبَةُ بْنُ الْحَارِثِ فَقَتَلَهُ وَکَانَ خُبَيْبٌ هُوَ سَنَّ لِکُلِّ مُسْلِمٍ قُتِلَ صَبْرًا الصَّلَاةَ وَأَخْبَرَ أَصْحَابَهُ يَوْمَ أُصِيبُوا خَبَرَهُمْ وَبَعَثَ نَاسٌ مِنْ قُرَيْشٍ إِلَی عَاصِمِ بْنِ ثَابِتٍ حِينَ حُدِّثُوا أَنَّهُ قُتِلَ أَنْ يُؤْتَوْا بِشَيْئٍ مِنْهُ يُعْرَفُ وَکَانَ قَتَلَ رَجُلًا عَظِيمًا مِنْ عُظَمَائِهِمْ فَبَعَثَ اللَّهُ لِعَاصِمٍ مِثْلَ الظُّلَّةِ مِنْ الدَّبْرِ فَحَمَتْهُ مِنْ رُسُلِهِمْ فَلَمْ يَقْدِرُوا أَنْ يَقْطَعُوا مِنْهُ شَيْئًا وَقَالَ کَعْبُ بْنُ مَالِکٍ ذَکَرُوا مَرَارَةَ بْنَ الرَّبِيعِ الْعَمْرِيَّ وَهِلَالَ بْنَ أُمَيَّةَ الْوَاقِفِيَّ رَجُلَيْنِ صَالِحَيْنِ قَدْ شَهِدَا بَدْرًا-
موسی بن اسماعیل، ابراہیم ابن شہاب زہری، عمر بن اسید بن جاریہ ثقفی جو بنو زہرہ کے حلیف اور ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دوست تھے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس آدمیوں کی ایک جماعت پر عاصم رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن ثابت انصاری کو سردار بنا کر جاسوسی کے لئے روانہ فرمایا۔ جب یہ لوگ ہدہ میں پہنچے جو عسفان اور مکہ کے درمیان میں ہے تو قبیلہ لحیان جو قبیلہ ہذیل کی ایک شاخ ہے اسے کسی نے ان کے آنے کی خبر کردی۔ انہوں نے سو تیر اندازوں کو ان کے تعاقب میں پتہ لگانے کے لئے روانہ کردیا۔ ایک جگہ جہاں اس جماعت نے قیام کیا تھا اور مدینہ کی کھجوریں کھائیں تھیں ان کی گٹھلیوں کو دیکھ کر ان تیر اندازوں نے سمجھ لیا اور پھر پیروں کے نشان سے پتہ لگانے لگے۔ جب حضرت عاصم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے دیکھا کہ یہ قریب آ گئے ہیں تو ایک پہاڑی پر پناہ لی تیر اندازوں نے پہاڑی کو گھیر لیا اور کہا کہ تم سے ہم وعدہ کرتے ہیں اگر تم نے خود کو ہمارے حوالے کردیا تو کسی کو نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ حضرت عاصم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ساتھیوں سے کہا کہ میں تو کافر کی پناہ پسند نہیں کرتا ہوں پھر کہا اے اللہ! ہمارے حال سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مطلع فرما دے! بنی لحیان نے ان پر تیر برسانا شروع کردیئے۔ آخر حضرت عاصم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے سات ساتھی شہید ہو گئے اور خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ زید بن وثنہ اور عبداللہ بن طارق نے مجبور ہو کر خود کو کافروں کے حوالہ کردیا۔ کافروں نے کمان کی تانت نکال کر ان کی مشکیں کسیں تو عبداللہ بن طارق نے کہا یہ پہلا دغا ہے خدا کی قسم! میں تمہارے ساتھ ہرگز نہ جاؤں گا۔ میں تو اپنے ساتھیوں ہی میں جانا پسند کرتا ہوں کافروں نے بہت کھینچا کہ کسی طرح مکہ لے جائیں مگر وہ نہیں گئے آخر خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لے گئے اور مکہ جا کر بیچ ڈالا۔ چونکہ یہ واقعہ بدر کے بعد ہوا تھا اس لئے خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حارث بن عامر بن نوفل کے بیٹوں نے خرید لیا کیونکہ خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بدر میں حارث بن عامر کو قتل کیا تھا۔ حضرت خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت دن قید رہے جب انہوں نے قتل کی ٹھان لی تو ایک دن حضرت خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حارث کی بیٹی سے استرہ مانگا اس نے دے دیا۔ اتفاق سے اسی وقت اس کا بچہ خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس چلا گیا خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی ران پر بٹھا لیا عورت نے دیکھا کہ بچہ خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ران پر بیٹھا ہے اور استرہ خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں ہے تو وہ سخت پریشان ہوگئی اور خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی پریشانی پہچان لی اور کہا کیا تو اس وجہ سے خوف کھا رہی ہے کہ میں اس بچہ کو مار ڈالوں گا؟ میں ایسا نہیں کروں گا اس عورت نے کہا خدا کی قسم! میں نے کوئی قیدی خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے زیادہ نیک نہیں دیکھا۔ خدا کی قسم میں نے ایک دن دیکھا کہ خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ انگور کا خوشہ لئے ہوئے کھا رہا ہے حالانکہ وہ لوہے کی زنجیروں میں بندھا ہوا تھا اور پھر اس زمانہ میں کوئی میوہ مکہ میں نہیں تھا۔ عورت کا بیان ہے کہ یہ میوہ اللہ تعالیٰ نے خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھیجا تھا۔ غرض جب حارث کے بیٹے خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قتل کرنے کے لئے حرم مکہ کی حد سے باہر لے گئے تو خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا ذرا مجھے دو نفل پڑھ لینے دو!چنانچہ اجازت کے بعد دو رکعت پڑھیں پھر کہا! بخدا اگر یہ خیال نہ کرو کہ میں موت سے ڈرتا ہوں تو اور نماز پڑھتا! اس کے بعد خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ دعا مانگی یا اللہ! ان کو تباہ کردے اور کسی ایک کو زندہ مت چھوڑ پھر یہ اشعار پڑھے جب میں اسلام پر مر رہا ہوں تو کوئی ڈر نہیں ہے کسی بھی کروٹ پر گروں میرا مرنا خدا کی محبت میں ہے اگر وہ چاہے تو ہر ٹکڑے اور جسم کے اعضاء کے بدلہ میں بہترین ثواب عطا فرمائے اور برکت دے اس کے بعد حارث کے بیٹے ابوسروعہ عقبہ نے خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کردیا۔ یہ سنت خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نکلی کہ جب کوئی مسلمان بے بس ہو کر مارا جانے لگے تو دو رکعت نماز پڑھ لے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو عاصم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کی خبراسی دن دے دی جس دن وہ شہید ہوئے قریش نے عاصم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مرنے کی خبر سنکر کچھ لوگ بھیجے تاکہ وہ عاصم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی لاش سے کوئی حصہ کاٹ کر لائیں تاکہ ہم پہچانیں۔ کیونکہ عاصم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کافروں کے ایک بڑے آدمی کو قتل کیا تھا۔ اللہ نے بے شمار بھڑوں کو ان کی لاش پر بھیج دیا تاکہ قریش کے آدمی لاش کے قریب نہ آنے پائیں اور کچھ کاٹنے نہ پائیں کعب بن مالک فرماتے ہیں کہ مجھ سے لوگوں نے بیان کیا ہے کہ مرارہ بن ربیع عمری اور بلال بن امیہ واقعی دو نیک آدمی تھے جو بدر میں شریک تھے (مگر تبوک میں پیچھے رہ گئے تھے) ۔
Narrated Abu Huraira: Allah's Apostle sent out ten spies under the command of 'Asim bin Thabit Al-Ansari, the grand-father of 'Asim bin 'Umar Al-Khattab. When they reached (a place called) Al-Hadah between 'Usfan and Mecca, their presence was made known to a sub-tribe of Hudhail called Banu Lihyan. So they sent about one hundred archers after them. The archers traced the footsteps (of the Muslims) till they found the traces of dates which they had eaten at one of their camping places. The archers said, "These dates are of Yathrib (i.e. Medina)," and went on tracing the Muslims' footsteps. When 'Asim and his companions became aware of them, they took refuge in a (high) place. But the enemy encircled them and said, "Come down and surrender. We give you a solemn promise and covenant that we will not kill anyone of you." 'Asim bin Thabit said, "O people! As for myself, I will never get down to be under the protection of an infidel. O Allah! Inform your Prophet about us." So the archers threw their arrows at them and martyred 'Asim. Three of them came down and surrendered to them, accepting their promise and covenant and they were Khubaib, Zaid bin Ad-Dathina and another man. When the archers got hold of them, they untied the strings of the arrow bows and tied their captives with them. The third man said, "This is the first proof of treachery! By Allah, I will not go with you for I follow the example of these." He meant the martyred companions. The archers dragged him and struggled with him (till they martyred him). Then Khubaib and Zaid bin Ad-Dathina were taken away by them and later on they sold them as slaves in Mecca after the event of the Badr battle. The sons of Al-Harit bin 'Amr bin Naufal bought Khubaib for he was a person who had killed (their father) Al-Hari bin 'Amr on the day (of the battle) of Badr. Khubaib remained imprisoned by them till they decided unanimously to kill him. One day Khubaib borrowed from a daughter of Al-Harith, a razor for shaving his public hair, and she lent it to him. By chance, while she was inattentive, a little son of hers went to him (i.e. Khubaib) and she saw that Khubaib had seated him on his thigh while the razor was in his hand. She was so much terrified that Khubaib noticed her fear and said, "Are you afraid that I will kill him? Never would I do such a thing." Later on (while narrating the story) she said, "By Allah, I had never seen a better captive than Khubaib. By Allah, one day I saw him eating from a bunch of grapes in his hand while he was fettered with iron chains and (at that time) there was no fruit in Mecca." She used to say," It was food Allah had provided Khubaib with." When they took him to Al-Hil out of Mecca sanctuary to martyr him, Khubaib requested them. "Allow me to offer a two-Rak'at prayer." They allowed him and he prayed two Rakat and then said, "By Allah! Had I not been afraid that you would think I was worried, I would have prayed more." Then he (invoked evil upon them) saying, "O Allah! Count them and kill them one by one, and do not leave anyone of them"' Then he recited: "As I am martyred as a Muslim, I do not care in what way I receive my death for Allah's Sake, for this is for the Cause of Allah. If He wishes, He will bless the cut limbs of my body." Then Abu Sarva, 'Ubqa bin Al-Harith went up to him and killed him. It was Khubaib who set the tradition of praying for any Muslim to be martyred in captivity (before he is executed). The Prophet told his companions of what had happened (to those ten spies) on the same day they were martyred. Some Quraish people, being informed of 'Asim bin Thabit's death, sent some messengers to bring a part of his body so that his death might be known for certain, for he had previously killed one of their leaders (in the battle of Badr). But Allah sent a swarm of wasps to protect the dead body of 'Asim, and they shielded him from the messengers who could not cut anything from his body.
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا لَيْثٌ عَنْ يَحْيَی عَنْ نَافِعٍ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ذُکِرَ لَهُ أَنَّ سَعِيدَ بْنَ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ وَکَانَ بَدْرِيًّا مَرِضَ فِي يَوْمِ جُمُعَةٍ فَرَکِبَ إِلَيْهِ بَعْدَ أَنْ تَعَالَی النَّهَارُ وَاقْتَرَبَتْ الْجُمُعَةُ وَتَرَکَ الْجُمُعَةَ-
قتیبہ بن سعید، لیث، یحیی ، حضرت نافع سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ کسی نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جمعہ کے دن بیان کیا کہ سعید بن زید عمرو بن نفیل بدری بیمار ہیں۔ وہ سوار ہو کر ان کو دیکھنے گئے دن چڑھ چکا تھا اور جمعہ کا وقت قریب تھا اور انہوں نے جمعہ ترک کردیا۔
Narrated Nafi: Ibn 'Umar was once told that Said bin Zaid bin 'Amr bin Nufail, one of the Badr warriors, had fallen ill on a Friday. Ibn 'Umar rode to him late in the forenoon. The time of the Friday prayer approached and Ibn 'Umar did not take part in the Friday prayer.
وَقَالَ اللَّيْثُ حَدَّثَنِي يُونُسُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ أَنَّ أَبَاهُ کَتَبَ إِلَی عُمَرَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَرْقَمِ الزُّهْرِيِّ يَأْمُرُهُ أَنْ يَدْخُلَ عَلَی سُبَيْعَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ الْأَسْلَمِيَّةِ فَيَسْأَلَهَا عَنْ حَدِيثِهَا وَعَنْ مَا قَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ اسْتَفْتَتْهُ فَکَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَرْقَمِ إِلَی عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ يُخْبِرُهُ أَنَّ سُبَيْعَةَ بِنْتَ الْحَارِثِ أَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا کَانَتْ تَحْتَ سَعْدِ بْنِ خَوْلَةَ وَهُوَ مِنْ بَنِي عَامِرِ بْنِ لُؤَيٍّ وَکَانَ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا فَتُوُفِّيَ عَنْهَا فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ وَهِيَ حَامِلٌ فَلَمْ تَنْشَبْ أَنْ وَضَعَتْ حَمْلَهَا بَعْدَ وَفَاتِهِ فَلَمَّا تَعَلَّتْ مِنْ نِفَاسِهَا تَجَمَّلَتْ لِلْخُطَّابِ فَدَخَلَ عَلَيْهَا أَبُو السَّنَابِلِ بْنُ بَعْکَکٍ رَجُلٌ مِنْ بَنِي عَبْدِ الدَّارِ فَقَالَ لَهَا مَا لِي أَرَاکِ تَجَمَّلْتِ لِلْخُطَّابِ تُرَجِّينَ النِّکَاحَ فَإِنَّکِ وَاللَّهِ مَا أَنْتِ بِنَاکِحٍ حَتَّی تَمُرَّ عَلَيْکِ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَعَشْرٌ قَالَتْ سُبَيْعَةُ فَلَمَّا قَالَ لِي ذَلِکَ جَمَعْتُ عَلَيَّ ثِيَابِي حِينَ أَمْسَيْتُ وَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِکَ فَأَفْتَانِي بِأَنِّي قَدْ حَلَلْتُ حِينَ وَضَعْتُ حَمْلِي وَأَمَرَنِي بِالتَّزَوُّجِ إِنْ بَدَا لِي تَابَعَهُ أَصْبَغُ عَنْ ابْنِ وَهْبٍ عَنْ يُونُسَ وَقَالَ اللَّيْثُ حَدَّثَنِي يُونُسُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ وَسَأَلْنَاهُ فَقَالَ أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَوْبَانَ مَوْلَی بَنِي عَامِرِ بْنِ لُؤَيٍّ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ إِيَاسِ بْنِ الْبُکَيْرِ وَکَانَ أَبُوهُ شَهِدَ بَدْرًا أَخْبَرَهُ-
لیث بن سعد، یونس، حضرت ابن شہاب سے روایت کرتے ہیں کہ مجھ سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے بیان کیا کہ میرے والد عبداللہ نے عمر بن عبداللہ بن ارقم کو خط لکھا کہ تم سبیعہ بنت حارث اسلمیہ کے پاس جاؤ اور اس سے اس کا قصہ دریافت کرو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سوال کا جو جواب دیا تھا وہ بھی معلوم کرو! عمر بن عبداللہ نے جواب میں لکھا کہ سبیعہ بنت حارث کہتی ہیں کہ میں سعد بن خولہ کے نکاح میں تھی اور وہ عامر بن لوی کے قبیلہ سے تھے یا ان کے حلیف تھے اور وہ ان لوگوں میں سے تھے جو جنگ بدر میں شریک تھے اور حجۃ الوداع میں انتقال کر گئے اور سبیعہ کو حاملہ چھوڑ گئے تھوڑے دن بعد وضع حمل ہوا جب وہ نفاس سے پاک ہوئی تو نکاح کا پیغام بھیجنے والوں کے لئے بناؤ سنگھار کیا اس وقت عبدالدار قبیلہ کا ایک شخص جس کا نام ابوالسنابل تھا اس کے پاس آیا اور کہنے لگا سبیعہ کیا حال ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ تو پیغام دینے والوں کے لئے تیار ہو کر بیٹھی ہے کیا تو نکاح کرنا چاہتی ہے؟ خدا کی قسم جب تک چار ماہ دس دن نہیں گزر جاتے تو ہرگز نکاح نہیں کرسکتی سبیعہ کہتی ہے کہ جب میں نے ابوالسنابل کی بات سنی تو اپنے کپڑے پہنے اور شام کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی اور آپ سے مسئلہ پوچھا آپ نے جواب دیا جب تو وضع حمل سے فارغ ہوگئی تو دوسرا نکاح درست ہوگیا جب تم چاہو نکاح کرلو۔ امام بخاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے بیان کرنے میں اصبغ نے لیث کی پیروری کی ہے لیث نے کہا ہم نے یونس سے اس حدیث کو بیان کیا اور ابن شہاب زہری سے یونس نے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ عبدالرحمن بن ثوبان جو بنی عامر بن لوئی کا غلام ہے مجھے اس کی خبر دی اور ان کو ایاس بن بکر نے جو بدری تھے۔
Narrated Subaia bint Al-Harith: That she was married to Sad bin Khaula who was from the tribe of Bani 'Amr bin Luai, and was one of those who fought the Badr battle. He died while she wa pregnant during Hajjat-ul-Wada.' Soon after his death, she gave birth to a child. When she completed the term of deliver (i.e. became clean), she prepared herself for suitors. Abu As-Sanabil bin Bu'kak, a man from the tribe of Bani Abd-ud-Dal called on her and said to her, "What! I see you dressed up for the people to ask you in marriage. Do you want to marry By Allah, you are not allowed to marry unless four months and ten days have elapsed (after your husband's death)." Subai'a in her narration said, "When he (i.e. Abu As-Sanabil) said this to me. I put on my dress in the evening and went to Allah's Apostle and asked him about this problem. He gave the verdict that I was free to marry as I had already given birth to my child and ordered me to marry if I wished."