اس امر کا بیان کہ باہم جھگڑا اور اس میں تعمق اور دین میں غلو اور بدعت مکروہ ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا هِشَامٌ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تُوَاصِلُوا قَالُوا إِنَّکَ تُوَاصِلُ قَالَ إِنِّي لَسْتُ مِثْلَکُمْ إِنِّي أَبِيتُ يُطْعِمُنِي رَبِّي وَيَسْقِينِي فَلَمْ يَنْتَهُوا عَنْ الْوِصَالِ قَالَ فَوَاصَلَ بِهِمْ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَيْنِ أَوْ لَيْلَتَيْنِ ثُمَّ رَأَوْا الْهِلَالَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ تَأَخَّرَ الْهِلَالُ لَزِدْتُکُمْ کَالْمُنَکِّلِ لَهُمْ-
عبداللہ بن محمد، ہشام، معمر، زہری، ابوسلمہ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم صوم و صال نہ رکھو، لوگوں نے عرض کیا کہ آپ تو رکھتے ہیں آپ نے فرمایا کہ تم میں مجھ جیسا کون ہے، مجھے تو میرا رب کھلاتا ہے اور پلاتا ہے، لیکن لوگ اس سے باز نہ آئے تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے ساتھ دو دن یا دو رات روزہ رکھا، پھر لوگوں نے چاند دیکھ لیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تنبیہ کرنے والے کی طرح فرمایا کہ اگر چاند نظر نہ آتا تو میں تمہارے ساتھ روزے رکھتا۔
Narrated Abu Huraira: The Prophet said (to his companions), "Do not fast Al-Wisal." They said, "But you fast Al-Wisail." He said, "I am not like you, for at night my Lord feeds me and makes me drink." But the people did not give up Al-Wisal, so the Prophet fasted Al-Wisal with them for two days or two nights, and then they saw the crescent whereupon the Prophet said, "If the crescent had delayed, I would have continued fasting (because of you)," as if he wanted to vanquish them completely (because they had refused to give up Al Wisal).
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ التَّيْمِيُّ حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ خَطَبَنَا عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَی مِنْبَرٍ مِنْ آجُرٍّ وَعَلَيْهِ سَيْفٌ فِيهِ صَحِيفَةٌ مُعَلَّقَةٌ فَقَالَ وَاللَّهِ مَا عِنْدَنَا مِنْ کِتَابٍ يُقْرَأُ إِلَّا کِتَابُ اللَّهِ وَمَا فِي هَذِهِ الصَّحِيفَةِ فَنَشَرَهَا فَإِذَا فِيهَا أَسْنَانُ الْإِبِلِ وَإِذَا فِيهَا الْمَدِينَةُ حَرَمٌ مِنْ عَيْرٍ إِلَی کَذَا فَمَنْ أَحْدَثَ فِيهَا حَدَثًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِکَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا وَإِذَا فِيهِ ذِمَّةُ الْمُسْلِمِينَ وَاحِدَةٌ يَسْعَی بِهَا أَدْنَاهُمْ فَمَنْ أَخْفَرَ مُسْلِمًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِکَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا وَإِذَا فِيهَا مَنْ وَالَی قَوْمًا بِغَيْرِ إِذْنِ مَوَالِيهِ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِکَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا-
عمر بن حفص بن غیاث، حفص بن غیاث، اعمش، ابراہیم تیمی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ حضرت علی نے ہم لوگوں کے سامنے اینٹ کے منبر پر خطبہ دیا، ان کے پاس تلوار تھی، جس سے ایک صحیفہ لٹکا ہوا تھا اس کو انہوں نے کھولا تو اس میں اونٹ کی دیت کے احکام تھے، اس میں یہ بھی تھا، مدینہ کے عیر سے لے کر فلاں مقام تک حرم ہے، جس نے اس میں کوئی نئی بات پیدا کی (بدعت کی (تو اس پر اللہ کی اور تمام فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، اس کی نہ کوئی فرض عبادت اور نہ نفل عبادت مقبول ہو گی، اور اس میں یہ بھی لکھا ہے، کہ مسلمانوں کے ذمہ ایک ان میں ایک آدمی یہ بھی کر سکتا ہے، جس نے کسی مسلمان کے عہد کو توڑا تو اللہ اور فرشتوں کی لعنت ہے اور اس کی نہ کوئی فرض عبادت مقبول ہوگی اور نہ نفل عبادت مقبول ہو گی، اور جس نے کسی قوم سے اپنے مالکوں کی اجازت کے بغیر موالات کیا تو اس پر اللہ کی اور فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے نہ تو اس کی کوئی فرض عبادت مقبول ہوگی اور نہ کوئی نفل عبادت مقبول ہو گی۔
Narrated Ibrahim At Tamii's father: Ali addressed us while he was standing on a brick pulpit and carrying a sword from which was hanging a scroll He said "By Allah, we have no book to read except Allah's Book and whatever is on this scroll," And then he unrolled it, and behold, in it was written what sort of camels were to be given as blood money, and there was also written in it: 'Medina is a sanctuary form 'Air (mountain) to such and such place so whoever innovates in it an heresy or commits a sin therein, he will incur the curse of Allah, the angles, and all the people and Allah will not accept his compulsory or optional good deeds.' There was also written in it: 'The asylum (pledge of protection) granted by any Muslims is one and the same, (even a Muslim of the lowest status is to be secured and respected by all the other Muslims, and whoever betrays a Muslim in this respect (by violating the pledge) will incur the curse of Allah, the angels, and all the people, and Allah will not accept his compulsory or optional good deeds.' There was also written in it: 'Whoever (freed slave) befriends (takes as masters) other than his real masters (manumitters) without their permission will incur the curse of Allah, the angels, and all the people, and Allah will not accept his compulsory or optional good deeds. ' (See Hadith No. 94, Vol. 3)
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا صَنَعَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا تَرَخَّصَ فِيهِ وَتَنَزَّهَ عَنْهُ قَوْمٌ فَبَلَغَ ذَلِکَ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَی عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَتَنَزَّهُونَ عَنْ الشَّيْئِ أَصْنَعُهُ فَوَاللَّهِ إِنِّي أَعْلَمُهُمْ بِاللَّهِ وَأَشَدُّهُمْ لَهُ خَشْيَةً-
عمر بن حفص، اعمش، مسلم، مسروق، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوئی کام کیا اور لوگوں کو اس کی اجازت دیدی، لیکن کچھ لوگوں نے اس سے پرہیز کیا، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ خبر ملی تو آپ نے اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان کی اور فرمایا کہ لوگوں کا کیا حال ہے، وہ ان چیزوں سے بچتے ہیں جن کو میں کرتا ہوں خدا کی قسم میں اللہ کو ان سے زیادہ جانتا ہوں۔ اور ان سے زیادہ ڈرنے والا ہوں۔
Narrated 'Aisha: The Prophet did something as it was allowed from the religious point of view but some people refrained from it. When the Prophet heard of that, he, after glorifying and praising Allah, said, "Why do some people refrain from doing something which I do? By Allah, I know Allah more than they."
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ أَخْبَرَنَا وَکِيعٌ أَخْبَرَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْکَةَ قَالَ کَادَ الْخَيِّرَانِ أَنْ يَهْلِکَا أَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ لَمَّا قَدِمَ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفْدُ بَنِي تَمِيمٍ أَشَارَ أَحَدُهُمَا بِالْأَقْرَعِ بْنِ حَابِسٍ التَّمِيمِيِّ الْحَنْظَلِيِّ أَخِي بَنِي مُجَاشِعٍ وَأَشَارَ الْآخَرُ بِغَيْرِهِ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ لِعُمَرَ إِنَّمَا أَرَدْتَ خِلَافِي فَقَالَ عُمَرُ مَا أَرَدْتُ خِلَافَکَ فَارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمَا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَزَلَتْ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ إِلَی قَوْلِهِ عَظِيمٌ قَالَ ابْنُ أَبِي مُلَيْکَةَ قَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ فَکَانَ عُمَرُ بَعْدُ وَلَمْ يَذْکُرْ ذَلِکَ عَنْ أَبِيهِ يَعْنِي أَبَا بَکْرٍ إِذَا حَدَّثَ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَدِيثٍ حَدَّثَهُ کَأَخِي السِّرَارِ لَمْ يُسْمِعْهُ حَتَّی يَسْتَفْهِمَهُ-
محمد بن مقاتل، وکیع، نافع، بن عمر، ابن ابی ملیکہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ دو آدمی جو سب سے بہتر تھے، یعنی حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہلاک ہو جاتے جب بنی تمیم کا وفد آیا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آیا تو ان میں سے ایک نے بنی مجاشع، کے بھائی اقرع بن جابس حنظلی کی طرف اشارہ کیا اور ایک دوسرے کی طرف اشارہ کیا حضرت ابوبکر نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ تم میری مخالفت کا ارادہ کرتے ہو، حضرت عمر نے کہا کہ میرا ارادہ آپ کی مخالف کا نہ تھا، چنانچہ ان کی آوازیں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک بلند ہوئیں، تو یہ آیت نازل ہوئی، اے ایمان والو، اپنی آوازوں کو بلند نہ کرو، آخر آیت عظیم تک، ابن ابی ملیکہ نے کہا کہ اے بن زبیر نے بیان کیا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی بات کرتے تو اس قدر آہستہ کرتے کہ آپ اس کو سن نہ سکتے جب تک کہ آپ پھر دریافت نہ فرماتے، اور ابن زبیر نے اپنے والد (یعنی نانا) حضرت ابوبکر کا ذکر نہیں کیا۔
Narrated Ibn Abi Mulaika: Once the two righteous men, i.e., Abu Bakr and 'Umar were on the verge of destruction (and that was because): When the delegate of Bani Tamim came to the Prophet, one of them (either Abu Bakr or 'Umar) recommended Al-Aqra' bin Habis At-Tamimi Al-Hanzali, the brother of Bani Majashi (to be appointed as their chief), while the other recommended somebody else. Abu Bakr said to 'Umar, "You intended only to oppose me." 'Umar said, "I did not intend to oppose you!" Then their voices grew louder in front of the Prophet whereupon there was revealed: 'O you who believe! Do not raise your voices above the voice of the Prophet..a great reward.' (49.2-3) Ibn Az-Zubair said, 'Thence forward when 'Umar talked to the Prophet, he would talk like one who whispered a secret and would even fail to make the Prophet hear him, in which case the Prophet would ask him (to repeat his words)."
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ حَدَّثَنِي مَالِکٌ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي مَرَضِهِ مُرُوا أَبَا بَکْرٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ قَالَتْ عَائِشَةُ قُلْتُ إِنَّ أَبَا بَکْرٍ إِذَا قَامَ فِي مَقَامِکَ لَمْ يُسْمِعْ النَّاسَ مِنْ الْبُکَائِ فَمُرْ عُمَرَ فَلْيُصَلِّ لِلنَّاسِ فَقَالَ مُرُوا أَبَا بَکْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ فَقَالَتْ عَائِشَةُ فَقُلْتُ لِحَفْصَةَ قُولِي إِنَّ أَبَا بَکْرٍ إِذَا قَامَ فِي مَقَامِکَ لَمْ يُسْمِعْ النَّاسَ مِنْ الْبُکَائِ فَمُرْ عُمَرَ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ فَفَعَلَتْ حَفْصَةُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّکُنَّ لَأَنْتُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ مُرُوا أَبَا بَکْرٍ فَلْيُصَلِّ لِلنَّاسِ فَقَالَتْ حَفْصَةُ لِعَائِشَةَ مَا کُنْتُ لِأُصِيبَ مِنْکِ خَيْرًا-
اسماعیل، مالک، ہشام بن عروہ، عروہ، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ام المومنین سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بیماری میں فرمایا کہ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے، میں نے عرض کیا کہ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپکی جگہ کھڑے ہوں گے، تو لوگ ان کے رونے کے سبب سے ان کی آواز نہ سن سکیں گے، اس لئے آپ حضرت عمر کو حکم دیں کہ نماز پڑھائیں، آپ نے فرمایا کہ ابوبکر کو کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، عائشہ کا بیان ہے کہ میں نے حفصہ سے کہا کہ تم نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کرو کہ حضرت ابوبکر جب آپ کی جگہ پر کھڑے ہوں گے تو ان کے رونے کے سبب سے لوگ ان کی آواز سن نہ سکیں گے، لہذا عمر کو حکم دیجئے کہ وہ نماز پڑھائیں چنانچہ حفصہ نے ایسا ہی کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم یوسف کی ساتھی عورتیں ہوں ابوبکر کو حکم فرمایا کہ تم لوگوں کو نماز پڑھاؤ حضرت حفصہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا کہ میں نے تم سے کبھی کوئی بھلائی نہیں پائی۔
Narrated 'Aisha: (the mother of believers) Allah's Apostle during his fatal ailment said, "Order Abu Bakr to lead the people in prayer." I said, "If Abu Bakr stood at your place (in prayers, the people will not be able to hear him because of his weeping, so order 'Umar to lead the people in prayer." He again said, "Order Abu Bakr to lead the people in prayer " Then I said to Hafsa, "Will you say (to the Prophet), 'If Abu Bakr stood at your place, the people will not be able to hear him be cause of his weeping, so order 'Umar to lead the people in prayer?" Hafsa did so, whereupon Allah's Apostle said, "You are like the companions of Joseph (See Qur'an, 12:30-32). Order Abu Bakr to lead the people in prayer." Hafsa then said to me, "I have never received any good from you!"
حَدَّثَنَا آدَمُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي ذِئْبٍ حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ قَالَ جَائَ عُوَيْمِرٌ الْعَجْلَانِيُّ إِلَی عَاصِمِ بْنِ عَدِيٍّ فَقَالَ أَرَأَيْتَ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا فَيَقْتُلُهُ أَتَقْتُلُونَهُ بِهِ سَلْ لِي يَا عَاصِمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهُ فَکَرِهَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسَائِلَ وَعَابَهَا فَرَجَعَ عَاصِمٌ فَأَخْبَرَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَرِهَ الْمَسَائِلَ فَقَالَ عُوَيْمِرٌ وَاللَّهِ لَآتِيَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَائَ وَقَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَی الْقُرْآنَ خَلْفَ عَاصِمٍ فَقَالَ لَهُ قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ فِيکُمْ قُرْآنًا فَدَعَا بِهِمَا فَتَقَدَّمَا فَتَلَاعَنَا ثُمَّ قَالَ عُوَيْمِرٌ کَذَبْتُ عَلَيْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ أَمْسَکْتُهَا فَفَارَقَهَا وَلَمْ يَأْمُرْهُ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِفِرَاقِهَا فَجَرَتْ السُّنَّةُ فِي الْمُتَلَاعِنَيْنِ وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْظُرُوهَا فَإِنْ جَائَتْ بِهِ أَحْمَرَ قَصِيرًا مِثْلَ وَحَرَةٍ فَلَا أُرَاهُ إِلَّا قَدْ کَذَبَ وَإِنْ جَائَتْ بِهِ أَسْحَمَ أَعْيَنَ ذَا أَلْيَتَيْنِ فَلَا أَحْسِبُ إِلَّا قَدْ صَدَقَ عَلَيْهَا فَجَائَتْ بِهِ عَلَی الْأَمْرِ الْمَکْرُوهِ-
آدم، ابن ابی ذئب، زہری، سہل بن سعد، ساعدی سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ عویمر عاصم بن عدی کے پاس آئے اور پوچھا کہ بتائیے ایک شخص اپنی بیوی کیساتھ کسی آدمی کو دیکھتا ہوں اور وہ اسے قتل کر دینا چاہتا ہے، تو کیا آپ لوگ اس کو قتل کر دیں، اے عاصم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے میرے لئے دریافت کر لیجئے، انہوں نے آپ سے دریافت کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سوالات کو مکروہ سمجھا، عویمر نے کہا کہ خدا کی قسم میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ضرور جاؤں گا، چنانچہ وہ حاضر ہوئے اور اللہ نے عاصم کے پیچھے آیت نازل کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عویمر سے فرمایا کہ تم دونوں کے متعلق اللہ نے قرآن نازل کیا چنانچہ آپ نے دونوں کو بلایا، پھر وہ آئے تو لعان کرایا، پھر عویمر نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جھوٹا ہوں اگر میں اس کو اپنے پاس رکھ لوں، پھر انہوں نے اس سے جدائی اختیار کرلی حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علیحدگی کا حکم نہیں دیا، اس کے بعد لعان کرنے والوں کے متعلق یہی طریقہ جاری ہو گیا، اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اس عورت کو دیکھو کہ اگر یہ وحرہ کی طرح اور چھوٹا بچہ جنے تو میں سمجھوں گا کہ اس مرد نے جھوٹ کہا، اور اگر سیاہ رنگ کا موٹی سرین والا اور بڑی بڑی آنکھوں والا بچہ جنے تو میں سمجھوں گا کہ اس مرد نے اس عورت کے متعلق درست کہا، چنانچہ اس عورت کو ویسا ہی مکروہ شکل کا بچہ پیدا ہوا۔
Narrated Sahl bin Sa'd As-Sa'idi: 'Uwaimir Al-'Ajlani came to 'Asim bin 'Adi and said, "If a man found another man with his wife and killed him, would you sentence the husband to death (in Qisas,) i.e., equality in punishment)? O 'Asim! Please ask Allah's Apostle about this matter on my behalf." 'Asim asked the Prophet but the Prophet disliked the question and disapproved of it. 'Asim returned and informed 'Uwaimir that the Prophet disliked that type of question. 'Uwaimir said, "By Allah, I will go (personally) to the Prophet." 'Uwaimir came to the Prophet when Allah had already revealed Qur'anic Verses (in that respect), after 'Asim had left (the Prophet ). So the Prophet said to 'Uwaimir, "Allah has revealed Qur'anic Verses regarding you and your wife." The Prophet then called for them, and they came and carried out the order of Lian. Then 'Uwaimir said, "O Allah's Apostle! Now if I kept her with me, I would be accused of telling a lie." So 'Uwaimir divorced her although the Prophet did not order him to do so. Later on this practice of divorcing became the tradition of couples involved in a case of Li'an. The Prophet said (to the people). "Wait for her! If she delivers a red short (small) child like a Wahra (a short red animal). then I will be of the opinion that he ('Uwaimir) has told a lie but if she delivered a black big-eyed one with big buttocks, then I will be of the opinion that he has told the truth about her." 'Ultimately she gave birth to a child that proved the accusation. (See Hadith No. 269, Vol. 6)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي مَالِکُ بْنُ أَوْسٍ النَّصْرِيُّ وَکَانَ مُحَمَّدُ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ذَکَرَ لِي ذِکْرًا مِنْ ذَلِکَ فَدَخَلْتُ عَلَی مَالِکٍ فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ انْطَلَقْتُ حَتَّی أَدْخُلَ عَلَی عُمَرَ أَتَاهُ حَاجِبُهُ يَرْفَا فَقَالَ هَلْ لَکَ فِي عُثْمَانَ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ وَالزُّبَيْرِ وَسَعْدٍ يَسْتَأْذِنُونَ قَالَ نَعَمْ فَدَخَلُوا فَسَلَّمُوا وَجَلَسُوا فَقَالَ هَلْ لَکَ فِي عَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ فَأَذِنَ لَهُمَا قَالَ الْعَبَّاسُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ الظَّالِمِ اسْتَبَّا فَقَالَ الرَّهْطُ عُثْمَانُ وَأَصْحَابُهُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ اقْضِ بَيْنَهُمَا وَأَرِحْ أَحَدَهُمَا مِنْ الْآخَرِ فَقَالَ اتَّئِدُوا أَنْشُدُکُمْ بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَائُ وَالْأَرْضُ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا نُورَثُ مَا تَرَکْنَا صَدَقَةٌ يُرِيدُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَفْسَهُ قَالَ الرَّهْطُ قَدْ قَالَ ذَلِکَ فَأَقْبَلَ عُمَرُ عَلَی عَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ فَقَالَ أَنْشُدُکُمَا بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمَانِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ذَلِکَ قَالَا نَعَمْ قَالَ عُمَرُ فَإِنِّي مُحَدِّثُکُمْ عَنْ هَذَا الْأَمْرِ إِنَّ اللَّهَ کَانَ خَصَّ رَسُولَهُ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْمَالِ بِشَيْئٍ لَمْ يُعْطِهِ أَحَدًا غَيْرَهُ فَإِنَّ اللَّهَ يَقُولُ مَا أَفَائَ اللَّهُ عَلَی رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ الْآيَةَ فَکَانَتْ هَذِهِ خَالِصَةً لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ وَاللَّهِ مَا احْتَازَهَا دُونَکُمْ وَلَا اسْتَأْثَرَ بِهَا عَلَيْکُمْ وَقَدْ أَعْطَاکُمُوهَا وَبَثَّهَا فِيکُمْ حَتَّی بَقِيَ مِنْهَا هَذَا الْمَالُ وَکَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنْفِقُ عَلَی أَهْلِهِ نَفَقَةَ سَنَتِهِمْ مِنْ هَذَا الْمَالِ ثُمَّ يَأْخُذُ مَا بَقِيَ فَيَجْعَلُهُ مَجْعَلَ مَالِ اللَّهِ فَعَمِلَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَلِکَ حَيَاتَهُ أَنْشُدُکُمْ بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمُونَ ذَلِکَ فَقَالُوا نَعَمْ ثُمَّ قَالَ لِعَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ أَنْشُدُکُمَا اللَّهَ هَلْ تَعْلَمَانِ ذَلِکَ قَالَا نَعَمْ ثُمَّ تَوَفَّی اللَّهُ نَبِيَّهُ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَبَضَهَا أَبُو بَکْرٍ فَعَمِلَ فِيهَا بِمَا عَمِلَ فِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنْتُمَا حِينَئِذٍ وَأَقْبَلَ عَلَی عَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ تَزْعُمَانِ أَنَّ أَبَا بَکْرٍ فِيهَا کَذَا وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَنَّهُ فِيهَا صَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ ثُمَّ تَوَفَّی اللَّهُ أَبَا بَکْرٍ فَقُلْتُ أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَکْرٍ فَقَبَضْتُهَا سَنَتَيْنِ أَعْمَلُ فِيهَا بِمَا عَمِلَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَکْرٍ ثُمَّ جِئْتُمَانِي وَکَلِمَتُکُمَا عَلَی کَلِمَةٍ وَاحِدَةٍ وَأَمْرُکُمَا جَمِيعٌ جِئْتَنِي تَسْأَلُنِي نَصِيبَکَ مِنْ ابْنِ أَخِيکِ وَأَتَانِي هَذَا يَسْأَلُنِي نَصِيبَ امْرَأَتِهِ مِنْ أَبِيهَا فَقُلْتُ إِنْ شِئْتُمَا دَفَعْتُهَا إِلَيْکُمَا عَلَی أَنَّ عَلَيْکُمَا عَهْدَ اللَّهِ وَمِيثَاقَهُ لَتَعْمَلَانِ فِيهَا بِمَا عَمِلَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِمَا عَمِلَ فِيهَا أَبُو بَکْرٍ وَبِمَا عَمِلْتُ فِيهَا مُنْذُ وَلِيتُهَا وَإِلَّا فَلَا تُکَلِّمَانِي فِيهَا فَقُلْتُمَا ادْفَعْهَا إِلَيْنَا بِذَلِکَ فَدَفَعْتُهَا إِلَيْکُمَا بِذَلِکَ أَنْشُدُکُمْ بِاللَّهِ هَلْ دَفَعْتُهَا إِلَيْهِمَا بِذَلِکَ قَالَ الرَّهْطُ نَعَمْ فَأَقْبَلَ عَلَی عَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ فَقَالَ أَنْشُدُکُمَا بِاللَّهِ هَلْ دَفَعْتُهَا إِلَيْکُمَا بِذَلِکَ قَالَا نَعَمْ قَالَ أَفَتَلْتَمِسَانِ مِنِّي قَضَائً غَيْرَ ذَلِکَ فَوَالَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَائُ وَالْأَرْضُ لَا أَقْضِي فِيهَا قَضَائً غَيْرَ ذَلِکَ حَتَّی تَقُومَ السَّاعَةُ فَإِنْ عَجَزْتُمَا عَنْهَا فَادْفَعَاهَا إِلَيَّ فَأَنَا أَکْفِيکُمَاهَا-
عبداللہ بن یوسف، لیث، عقیل، ابن شہاب، مالک بن اوس، نصری سے روایت کرتے ہیں (محمد بن جبیر بن مطعم نے بھی اس کا ذکر کیا تھا، کہ میں مالک کے پاس گیا، ان سے پوچھا تو انہوں نے بیان کیا کہ میں چلا، تاکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس جاؤں ، (میں پہنچا) تو ان کا دربان یرفاء آیا اور پوچھا، کیا حضرت عثمان اور عبدالرحمن اور زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سعد کو اندر آنے کی اجازت دیتے ہیں، انہوں نے کہا ہاں۔چنانچہ وہ لوگ اندر آئے سلام کیا اور بیٹھ گئے پھر یرفاء نے کہا کہ حضرت علی و حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اجازت دیتے ان دونوں کو بھی اندر آنے کی اجازت دی، حضرت عباس نے کہا کہ اے امیرالمومنین ان دونوں کے درمیان فیصلہ کر دیں، اور ایک دوسرے سے نجات پالیں، حضرت عمرنے ان سے کہا کہ صبر کرو، میں تمہیں اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ جس کے حکم سے آسمان اور زمین قائم ہیں کیا تم جانتے ہو کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارا کوئی وارث نہ ہوگا، ہم نے جو کچھ چھوڑا وہ صدقہ ہے، اور یہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف اپنی ذات کے متعلق فرمایا ان لوگوں نے ہاں آپ نے فرمایا ہے، پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت علی و عباس کی طرف متوجہ ہوئے، اور کہا کہ میں آپ دونوں کو خدا کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کیا آپ نے یہ فرمایا، انہوں نے کہا ہاں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ میں تم لوگوں سے اس کی حقیقت بیان کر دوں، اللہ نے اپنے رسول کو اس مال میں سے ایک مخصوص حصہ عطا کیا جو آپ کے علاوہ کسی کو نہیں دیا، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، (ما افاء اللہ علی رسولہ منھم فما او جفتم) تو یہ خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے تھا، پھر خدا کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تم لوگوں پر ترجیح دی بلکہ یہ تمہیں کو دے دیا، اور تمہیں میں تقسیم کرتا ہوں۔ حتی کہ اس میں یہ باقی مال بچ گیا، اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے گھر والوں کے لئے ایک سال کا خرچہ رکھتے تھے، پھر باقی کو اللہ کے راستے میں خرچ کر دیتے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زندگی بھر اس طرح کیا، میں تم لوگوں کو خدا کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کیا تم لوگ اس کو جانتے ہو، انہوں نے کہا ہاں، پھر اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اٹھا لیا، تو حضرت ابوبکر نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ولی ہوں، چنانچہ اس پر انہوں نے قبضہ کر لیا، اور جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کرتے تھے، اسی طرح انہوں نے بھی کیا، اور حضرت علی و ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہا کہ آپ دونوں اس وقت موجود تھے، اور آپ کے دونوں گمان کرتے تھے، کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایسے ایسے ہیں، حالانکہ اللہ جانتا ہے، کہ وہ اس معاملہ میں سچے تھے، نیک تھے، راستے پر تھے حق کے تابع تھے، پھر اللہ نے ابوبکر کو اٹھا لیا تو میں نے کہا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ابوبکر نے کہا کہ پھر آپ میرے پاس آئے اور آپ دونوں کی بات یکساں تھی، اور کام بھی ایک تھا، آپ اپنے بھتیجے کے مال سے حصہ مانگنے آئے، اور یہاں پر بیوی کا حصہ اپنے والد کے مال سے مانگنے کے لئے آئے تو میں نے کہا کہ اگر آپ دونوں چاہتے ہیں تو میں آپ کو اس شرط پر دوں گا کہ آپ اللہ کے عہد و میثاق کے مطابق اس میں عمل کریں، جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کرتے تھے، اور جس طرح میں اپنے قبضے میں لینے کے وقت سے عمل کرتا رہا ہوں، ورنہ پھر اس معاملے میں مجھ سے گفتگو نہ کیجئے، تو آپ دونوں نے کہا کہ ہمیں اس شرط پر دیدو، پھر میں نے آپ کو دیدیا، پھر دوسرے لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے، فرمایا کہ میں تم لوگوں کو خدا کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ میں نے یہاں دونوں کو دیدیا تھا؟ ان لوگوں ہاں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ آپ مجھ سے اس کے علاوہ کوئی فیصلہ چاہتے ہیں، تو قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، اور جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں، میں قیامت تک اس کے علاوہ کوئی فیصلہ نہ کروں گا، اگر آپ اس کے انتظام سے عاجز ہیں تو ہمیں واپس کر دیجئے میں آپ کی طرف سے اس کا انتظام کروں گا۔
Narrated Malik bin Aus An-Nasri: I proceeded till I entered upon 'Umar (and while I was sitting there), his gate-keeper Yarfa came to him and said, " 'Uthman, 'Abdur-Rahman, Az-Zubair and Sa'd ask your permission to come in." 'Umar allowed them. So they entered, greeted, and sat down. (After a while the gatekeeper came) and said, "Shall I admit 'Ali and 'Abbas?'' 'Umar allowed them to enter. Al-'Abbas said "O Chief of the believers! Judge between me and the oppressor ('Ali)." Then there was a dispute (regarding the property of Bani Nadir) between them ('Abbas and 'Ali). 'Uthman and his companions said, "O Chief of the Believers! Judge between them and relieve one from the other." Umar said, "Be patient! beseech you by Allah, with Whose permission the Heaven and the Earth Exist! Do you know that Allah's Apostle said, 'Our property is not to be inherited, and whatever we leave is to be given in charity,' and by this Allah's Apostle meant himself?" On that the group said, "He verily said so." 'Umar then faced 'Ali and 'Abbas and said, "I beseech you both by Allah, do you both know that Allah's Apostle said so?" They both replied, "Yes". 'Umar then said, "Now I am talking to you about this matter (in detail) . Allah favored Allah's Apostle with some of this wealth which He did not give to anybody else, as Allah said: 'What Allah bestowed as Fai (Booty on His Apostle for which you made no expedition... ' (59.6) So that property was totally meant for Allah's Apostle, yet he did not collect it and ignore you, nor did he withhold it with your exclusion, but he gave it to you and distributed it among you till this much of it was left behind, and the Prophet, used to spend of this as the yearly expenditures of his family and then take what remained of it and spent it as he did with (other) Allah's wealth. The Prophet did so during all his lifetime, and I beseech you by Allah, do you know that?" They replied, "Yes." 'Umar then addressed 'Ali and 'Abbas, saying, "I beseech you both by Allah, do you know that?" Both of them replied, "Yes." 'Umar added, "Then Allah took His Apostle unto Him. Abu Bakr then said 'I am the successor of Allah's Apostle' and took over all the Prophet's property and disposed of it in the same way as Allah's Apostle used to do, and you were present then." Then he turned to 'Ali and 'Abbas and said, "You both claim that Abu Bakr did so-and-so in managing the property, but Allah knows that Abu Bakr was honest, righteous, intelligent, and a follower of what is right in managing it. Then Allah took Abu Bakr unto Him, 'I said: I am the successor of Allah's Apostle and Abu Bakr.' So I took over the property for two years and managed it in the same way as Allah's Apostle, and Abu Bakr used to do. Then you both ('Ali and 'Abbas) came to me and asked for the same thing! (O 'Abbas! You came to me to ask me for your share from nephew's property; and this ('Ali) came to me asking for his wives share from her father's property, and I said to you both, 'If you wish, I will place it in your custody on condition that you both will manage it in the same way as Allah's Apostle and Abu Bakr did and as I have been doing since I took charge of managing it; otherwise, do not speak to me anymore about it.' Then you both said, 'Give it to us on that (condition).' So I gave it to you on that condition. Now I beseech you by Allah, did I not give it to them on that condition?" The group (whom he had been addressing) replied, "Yes." 'Umar then addressed 'Abbas and 'Ali saying, "I beseech you both by Allah, didn't I give you all that property on that condition?" They said, "Yes." 'Umar then said, "Are you now seeking a verdict from me other than that? By Him with Whose Permission the Heaven and the Earth exists I will not give any verdict other than that till the Hour is established; and if you both are unable to manage this property, then you can hand it back to me, and I will be sufficient for it on your behalf." (See, Hadith No. 326, Vol. 4)