اسلام میں نبوت کی علامتوں کا بیان

حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ حَدَّثَنَا سَلْمُ بْنُ زَرِيرٍ سَمِعْتُ أَبَا رَجَائٍ قَالَ حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ أَنَّهُمْ کَانُوا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَسِيرٍ فَأَدْلَجُوا لَيْلَتَهُمْ حَتَّی إِذَا کَانَ وَجْهُ الصُّبْحِ عَرَّسُوا فَغَلَبَتْهُمْ أَعْيُنُهُمْ حَتَّی ارْتَفَعَتْ الشَّمْسُ فَکَانَ أَوَّلَ مَنْ اسْتَيْقَظَ مِنْ مَنَامِهِ أَبُو بَکْرٍ وَکَانَ لَا يُوقَظُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَنَامِهِ حَتَّی يَسْتَيْقِظَ فَاسْتَيْقَظَ عُمَرُ فَقَعَدَ أَبُو بَکْرٍ عِنْدَ رَأْسِهِ فَجَعَلَ يُکَبِّرُ وَيَرْفَعُ صَوْتَهُ حَتَّی اسْتَيْقَظَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَزَلَ وَصَلَّی بِنَا الْغَدَاةَ فَاعْتَزَلَ رَجُلٌ مِنْ الْقَوْمِ لَمْ يُصَلِّ مَعَنَا فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ يَا فُلَانُ مَا يَمْنَعُکَ أَنْ تُصَلِّيَ مَعَنَا قَالَ أَصَابَتْنِي جَنَابَةٌ فَأَمَرَهُ أَنْ يَتَيَمَّمَ بِالصَّعِيدِ ثُمَّ صَلَّی وَجَعَلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَکُوبٍ بَيْنَ يَدَيْهِ وَقَدْ عَطِشْنَا عَطَشًا شَدِيدًا فَبَيْنَمَا نَحْنُ نَسِيرُ إِذَا نَحْنُ بِامْرَأَةٍ سَادِلَةٍ رِجْلَيْهَا بَيْنَ مَزَادَتَيْنِ فَقُلْنَا لَهَا أَيْنَ الْمَائُ فَقَالَتْ إِنَّهُ لَا مَائَ فَقُلْنَا کَمْ بَيْنَ أَهْلِکِ وَبَيْنَ الْمَائِ قَالَتْ يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ فَقُلْنَا انْطَلِقِي إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ وَمَا رَسُولُ اللَّهِ فَلَمْ نُمَلِّکْهَا مِنْ أَمْرِهَا حَتَّی اسْتَقْبَلْنَا بِهَا النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَدَّثَتْهُ بِمِثْلِ الَّذِي حَدَّثَتْنَا غَيْرَ أَنَّهَا حَدَّثَتْهُ أَنَّهَا مُؤْتِمَةٌ فَأَمَرَ بِمَزَادَتَيْهَا فَمَسَحَ فِي الْعَزْلَاوَيْنِ فَشَرِبْنَا عِطَاشًا أَرْبَعِينَ رَجُلًا حَتَّی رَوِينَا فَمَلَأْنَا کُلَّ قِرْبَةٍ مَعَنَا وَإِدَاوَةٍ غَيْرَ أَنَّهُ لَمْ نَسْقِ بَعِيرًا وَهِيَ تَکَادُ تَنِضُّ مِنْ الْمِلْئِ ثُمَّ قَالَ هَاتُوا مَا عِنْدَکُمْ فَجُمِعَ لَهَا مِنْ الْکِسَرِ وَالتَّمْرِ حَتَّی أَتَتْ أَهْلَهَا قَالَتْ لَقِيتُ أَسْحَرَ النَّاسِ أَوْ هُوَ نَبِيٌّ کَمَا زَعَمُوا فَهَدَی اللَّهُ ذَاکَ الصِّرْمَ بِتِلْکَ الْمَرْأَةِ فَأَسْلَمَتْ وَأَسْلَمُوا-
ابو الولید سلم ابورجاء حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ کسی سفر میں ہم (صحابہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رات بھر چلتے رہے جب صبح نزدیک ہوئی، تو سب سے پہلے جو شخص بیدار ہوا وہ ابوبکر تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نیند سے بیدار نہ کیا جاتا تھا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود بیدار ہوں پھر عمر بیدار ہوئے اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک کے پاس بیٹھ گئے اور بلند آواز سے تکبیر کہنے لگے یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم لوگوں کو صبح کی نماز پڑھائی۔ قوم میں سے ایک آدمی علیحدہ رہا اس نے ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے فلاں! تجھ کو ہمارے ساتھ نماز پڑھنے سے کس چیز نے باز رکھا؟ اس نے عرض کیا مجھے جنابت پیش آ گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ مٹی سے تیمم کر لو! اس کے بعد اس نے نماز ادا کی اور مجھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند سواروں کے ہمراہ آگے بھیج دیا ہم لوگ سخت پیاسے تھے لیکن چلے جا رہے تھے۔ اچانک ہم کو ایک عورت ملی جو اپنے دو پیر بڑی مشکوں کے درمیان لٹکائے ہوئے تھی۔ ہم نے اس عورت سے پوچھا پانی کہاں ہے؟ اس نے کہا پانی نہیں ہے۔ ہم نے دریافت کیا تیرے گھر اور پانی کے درمیان کتنا فاصلہ ہے؟ اس نے کہا ایک دن رات کا! پھر ہم نے کہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چل۔ اس نے کہا کون رسول اللہ ؟ ہم اس کو مجبور کر کے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی اس نے ویسا کہا جیسا ہم سے کہا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس نے یہ بھی بیان کیا کہ وہ یتیم بچوں کی ماں ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی دونوں مشکوں کے کھولنے کا حکم دیا۔ اور ان کے دہانہ پر ہاتھ پھیرا چنانچہ ہم چالیس پیاسے آدمیوں نے خوب پانی پیا اور ہم سب سیراب ہو گئے اور ہم نے جس قدر مشکیں اور برتن ہمارے پاس تھے سب بھر لئے صرف ہم نے اونٹوں کو پانی نہ پلایا پھر بھی اس کی مشک زیادہ بھری ہونے کی وجہ سے پھٹنے والی تھی، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو کچھ پاس ہے۔ لے آؤ چنانچہ اس کے لئے روٹی کے ٹکڑے اور چھوہارے جمع کردیئے گئے۔ حتیٰ کہ وہ اپنے گھر والوں کے پاس گئی اور اس نے کہا! میں نے ایک بڑے جادوگر کو دیکھا، لوگ خیال کرتے ہیں کہ وہ نبی ہے۔ اللہ نے اس کے ذریعے اس گاؤں کے لوگوں کو ہدایت کی وہ بھی مسلمان ہوگئی اور وہ سب بھی مسلمان ہو گئے۔
Narrated Imran bin Husain: That they were with the Prophet on a journey. They travelled the whole night, and when dawn approached, they took a rest and sleep overwhelmed them till the sun rose high in the sky. The first to get up was Abu Bakr. Allah's Apostles used not to be awakened from his sleep, but he would wake up by himself. 'Umar woke up and then Abu Bakr sat by the side of the Prophet's head and started saying: Allahu-Akbar raising his voice till the Prophet woke up, (and after traveling for a while) he dismounted and led us in the morning prayer. A man amongst the people failed to join us in the prayer. When the Prophet had finished the prayer, he asked (the man), "O so-and-so! What prevented you from offering the prayer with us?" He replied, "I am Junub," Alllah's Apostle ordered him to perform Tayammam with clean earth. The man then offered the prayer. Allah's Apostle ordered me and a few others to go ahead of him. We had become very thirsty. While we were on our way (looking for water), we came across a lady (riding an animal), hanging her legs between two water-skins. We asked her, "Where can we get water?" She replied, "Oh ! There is no water." We asked, "how far is your house from the water?" She replied, "A distance of a day and a night travel." We said, "Come on to Allah's Apostle, "She asked, "What is Allah's Apostle ?" So we brought her to Allah's Apostle against her will, and she told him what she had told us before and added that she was the mother of orphans. So the Prophet ordered that her two water-skins be brought and he rubbed the mouths of the water-skins. As we were thirsty, we drank till we quenched our thirst and we were forty men. We also filled all our waterskins and other utensils with water, but we did not water the camels. The waterskin was so full that it was almost about to burst. The Prophet then said, "Bring what (foodstuff) you have." So some dates and pieces of bread were collected for the lady, and when she went to her people, she said, "I have met either the greatest magician or a prophet as the people claim." So Allah guided the people of that village through that lady. She embraced Islam and they all embraced Islam.
حَدَّثَنِا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِإِنَائٍ وَهُوَ بِالزَّوْرَائِ فَوَضَعَ يَدَهُ فِي الْإِنَائِ فَجَعَلَ الْمَائُ يَنْبُعُ مِنْ بَيْنِ أَصَابِعِهِ فَتَوَضَّأَ الْقَوْمُ قَالَ قَتَادَةُ قُلْتُ لِأَنَسٍ کَمْ کُنْتُمْ قَالَ ثَلَاثَ مِائَةٍ أَوْ زُهَائَ ثَلَاثِ مِائَةٍ-
محمد ابوعدی سعید قتادہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پانی کا ایک برتن لایا گیا (اس وقت) آپ صلی اللہ علیہ وسلم (مدینہ کے بازار کے نزدیک) مقام زوراء میں تشریف فرما تھے اس برتن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ رکھ دیا اور پانی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں سے ابلنے لگا جس سے تمام لوگوں نے وضو کر لیا قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں میں نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت کیا کہ تم لوگ کس قدر تھے انہوں نے کہا تین سو یا تین سو کے قریب۔
Narrated Anas: A bowl of water was brought to the Prophet while he was at Az-Zawra. He placed his hand in it and the water started flowing among his fingers. All the people performed ablution (with that water). Qatada asked Anas, "How many people were you?" Anas replied, "Three hundred or nearly three-hundred."
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ عَنْ مَالِکٍ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَانَتْ صَلَاةُ الْعَصْرِ فَالْتُمِسَ الْوَضُوئُ فَلَمْ يَجِدُوهُ فَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِوَضُوئٍ فَوَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ فِي ذَلِکَ الْإِنَائِ فَأَمَرَ النَّاسَ أَنْ يَتَوَضَّئُوا مِنْهُ فَرَأَيْتُ الْمَائَ يَنْبُعُ مِنْ تَحْتِ أَصَابِعِهِ فَتَوَضَّأَ النَّاسُ حَتَّی تَوَضَّئُوا مِنْ عِنْدِ آخِرِهِمْ-
عبداللہ بن مسلمہ مالک اسحاق حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور عصر کی نماز کا وقت آ گیا تھا لوگوں نے وضو کے واسطے پانی تلاش کیا مگر جب پانی نہ ملا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ تھوڑا سا پانی لایا گیا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس برتن میں اپنا ہاتھ رکھ دیا اور لوگوں کو حکم دیا کہ اس سے وضو کریں تو میں نے پانی کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کے نیچے سے ابلتا تھا۔ لوگوں نے وضو کرنا شروع کیا یہاں تک کہ سب لوگوں نے وضو کر لیا۔
Narrated Anas bin Malik: I saw Allah's Apostle at the 'time when the Asr prayer was due. Then the people were searching for water for ablution but they could not find any. Then some water was brought to Allah's Apostle and he placed his hand in the pot and ordered the people to perform the ablution with the water. I saw water flowing from underneath his fingers and the people started performing the ablution till all of them did it.
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُبَارَکٍ حَدَّثَنَا حَزْمٌ قَالَ سَمِعْتُ الْحَسَنَ قَالَ حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ مَخَارِجِهِ وَمَعَهُ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِهِ فَانْطَلَقُوا يَسِيرُونَ فَحَضَرَتْ الصَّلَاةُ فَلَمْ يَجِدُوا مَائً يَتَوَضَّئُونَ فَانْطَلَقَ رَجُلٌ مِنْ الْقَوْمِ فَجَائَ بِقَدَحٍ مِنْ مَائٍ يَسِيرٍ فَأَخَذَهُ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ مَدَّ أَصَابِعَهُ الْأَرْبَعَ عَلَی الْقَدَحِ ثُمَّ قَالَ قُومُوا فَتَوَضَّئُوا فَتَوَضَّأَ الْقَوْمُ حَتَّی بَلَغُوا فِيمَا يُرِيدُونَ مِنْ الْوَضُوئِ وَکَانُوا سَبْعِينَ أَوْ نَحْوَه-
عبدالرحمن بن مبارک حزم حسن حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کسی سفر میں باہر تشریف لے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمراہی میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کچھ اصحاب بھی تھے۔ چلتے چلتے نماز کا وقت آ گیا تو ان کو وضو کرنے کے لئے پانی نہیں ملا۔ ان میں سے ایک شخص گیا اور ایک پیالہ جس میں تھوڑا سا پانی تھا لے آیا اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لیا اور وضو فرمایا اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چار انگلیاں پیالہ کے اوپر رکھ دیں اور فرمایا کھڑے ہو جاؤ اور وضو کرو چنانچہ لوگوں نے وضو کرنا شروع کیا یہاں تک کہ سب لوگوں نے وضو کر لیا اور وہ سب ستر یا ستر کے قریب آدمی تھے۔
Narrated Anas bin Malik: The Prophet went out on one of his journeys with some of his companions. They went on walking till the time of the prayer became due. They could not find water to perform the ablution. One of them went away and brought a little amount of water in a pot. The Prophet took it and performed the ablution, and then stretched his four fingers on to the pot and said (to the people), "Get up to perform the ablution." They started performing the ablution till all of them did it, and they were seventy or so persons.
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُنِيرٍ سَمِعَ يَزِيدَ أَخْبَرَنَا حُمَيْدٌ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ حَضَرَتْ الصَّلَاةُ فَقَامَ مَنْ کَانَ قَرِيبَ الدَّارِ مِنْ الْمَسْجِدِ يَتَوَضَّأُ وَبَقِيَ قَوْمٌ فَأُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِخْضَبٍ مِنْ حِجَارَةٍ فِيهِ مَائٌ فَوَضَعَ کَفَّهُ فَصَغُرَ الْمِخْضَبُ أَنْ يَبْسُطَ فِيهِ کَفَّهُ فَضَمَّ أَصَابِعَهُ فَوَضَعَهَا فِي الْمِخْضَبِ فَتَوَضَّأَ الْقَوْمُ کُلُّهُمْ جَمِيعًا قُلْتُ کَمْ کَانُوا قَالَ ثَمَانُونَ رَجُلًا-
عبداللہ یزید حمید حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا (ایک دفعہ) نماز کا وقت آ گیا۔ تو پانی نہ تھا جس شخص کا گھر مسجد کے قریب تھا۔ وہ وضو کرنے چلا گیا۔ اور کچھ آدمی باقی رہ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک برتن پتھر کا لایا گیا۔ جس میں کچھ پانی تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اس کے اندر پھیلانا چاہا لیکن وہ برتن چھوٹا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس میں اپنا ہاتھ نہ پھیلا سکے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیاں ملا لیں۔ اور ان کو اس برتن کے اندر رکھ لیا۔ پس تمام آدمیوں نے وضو کر لیا میں نے پوچھا وہ لوگ کتنے تھے حضرت انس نے فرمایا اسی (80) آدمی تھے۔
Narrated Humaid: Anas bin Malik said, "Once the time of the prayer became due and the people whose houses were close to the Mosque went to their houses to perform ablution, while the others remained (sitting there). A stone pot containing water was brought to the Prophet, who wanted to put his hand in it, but It was too small for him to spread his hand in it, and so he had to bring his fingers together before putting his hand in the pot. Then all the people performed the ablution (with that water)." I asked Anas, "How many persons were they." He replied, "There were eighty men."
حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ عَطِشَ النَّاسُ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ وَالنَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ يَدَيْهِ رِکْوَةٌ فَتَوَضَّأَ فَجَهِشَ النَّاسُ نَحْوَهُ فَقَالَ مَا لَکُمْ قَالُوا لَيْسَ عِنْدَنَا مَائٌ نَتَوَضَّأُ وَلَا نَشْرَبُ إِلَّا مَا بَيْنَ يَدَيْکَ فَوَضَعَ يَدَهُ فِي الرِّکْوَةِ فَجَعَلَ الْمَائُ يَثُورُ بَيْنَ أَصَابِعِهِ کَأَمْثَالِ الْعُيُونِ فَشَرِبْنَا وَتَوَضَّأْنَا قُلْتُ کَمْ کُنْتُمْ قَالَ لَوْ کُنَّا مِائَةَ أَلْفٍ لَکَفَانَا کُنَّا خَمْسَ عَشْرَةَ مِائَةً-
موسی عبدالعزیز حصین سالم بن ابی جعد حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبداللہ سے بیان کرتے ہیں کہ حدیبیہ کے واقعہ میں لوگ پیاسے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک چھاگل تھی جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وضو کر چکے تو لوگ اس کی طرف جھکے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تمہارا کیا حال ہے؟ عرض کیا ہمارے پاس وضو کرنے اور پینے کے لئے پانی نہیں ہے، صرف یہی پانی ہے۔ جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چھاگل میں ہے۔ جو کافی نہیں ہو سکتا۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا ہاتھ چھاگل پر رکھ دیا اور پانی اس کے اندر سے ابلنے لگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کے درمیان میں سے گویا پانی کے چشمے جاری ہو گئے۔چنانچہ ہم سب نے پیا اور وضو کیا میں نے دریافت کیا۔ تم سب کتنے آدمی تھے؟ حضرت جابر نے کہا کہ اگر ہم ایک لاکھ ہوتے تب بھی وہ پانی کافی ہوتا۔ اس وقت ہم پندرہ سو تھے۔
Narrated Salim bin Abi Aj-Jad: Jabir bin 'Abdullah said, "The people became very thirsty on the day of Al-Hudaibiya (Treaty). A small pot containing some water was in front of the Prophet and when he had finished the ablution, the people rushed towards him. He asked, 'What is wrong with you?' They replied, 'We have no water either for performing ablution or for drinking except what is present in front of you.' So he placed his hand in that pot and the water started flowing among his fingers like springs. We all drank and performed ablution (from it)." I asked Jabir, "How many were you?" he replied, "Even if we had been one-hundred-thousand, it would have been sufficient for us, but we were fifteen-hundred."
حَدَّثَنَا مَالِکُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ الْبَرَائِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ کُنَّا يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ أَرْبَعَ عَشْرَةَ مِائَةً وَالْحُدَيْبِيَةُ بِئْرٌ فَنَزَحْنَاهَا حَتَّی لَمْ نَتْرُکْ فِيهَا قَطْرَةً فَجَلَسَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَی شَفِيرِ الْبِئْرِ فَدَعَا بِمَائٍ فَمَضْمَضَ وَمَجَّ فِي الْبِئْرِ فَمَکَثْنَا غَيْرَ بَعِيدٍ ثُمَّ اسْتَقَيْنَا حَتَّی رَوِينَا وَرَوَتْ أَوْ صَدَرَتْ رَکَائِبُنَا-
مالک اسرائیل ابواسحاق حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ حدیبیہ کے واقعہ میں ہماری تعداد چودہ سو تھی۔ حدیبیہ ایک کنواں ہے۔ ہم نے اس کے اندر سے پانی کھینچا یہاں تک کہ اس میں ایک قطرہ پانی نہ رہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس کی خبر پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کنویں پر تشریف لائے اور کنویں کے کنارے بیٹھ کر پانی (کا برتن) منگایا اور کلی کر کے کنویں میں ڈال دیا۔ تھوڑی دیر میں ہم نے کنویں کو پانی سے بھرا ہوا دیکھا۔ ہم نے خوب پانی پیا اور سیراب ہو گئے اور ہمارے مویشی بھی سیراب ہو گئے۔
Narrated Al-Bara: We were one-thousand-and-four-hundred persons on the day of Al-Hudaibiya (Treaty), and (at) Al-Hudaibiya (there) was a well. We drew out its water not leaving even a single drop. The Prophet sat at the edge of the well and asked for some water with which he rinsed his mouth and then he threw it out into the well. We stayed for a short while and then drew water from the well and quenched our thirst, and even our riding animals drank water to their satisfaction.
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَالِکٌ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ يَقُولُ قَالَ أَبُو طَلْحَةَ لِأُمِّ سُلَيْمٍ لَقَدْ سَمِعْتُ صَوْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَعِيفًا أَعْرِفُ فِيهِ الْجُوعَ فَهَلْ عِنْدَکِ مِنْ شَيْئٍ قَالَتْ نَعَمْ فَأَخْرَجَتْ أَقْرَاصًا مِنْ شَعِيرٍ ثُمَّ أَخْرَجَتْ خِمَارًا لَهَا فَلَفَّتْ الْخُبْزَ بِبَعْضِهِ ثُمَّ دَسَّتْهُ تَحْتَ يَدِي وَلَاثَتْنِي بِبَعْضِهِ ثُمَّ أَرْسَلَتْنِي إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَذَهَبْتُ بِهِ فَوَجَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ وَمَعَهُ النَّاسُ فَقُمْتُ عَلَيْهِمْ فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آرْسَلَکَ أَبُو طَلْحَةَ فَقُلْتُ نَعَمْ قَالَ بِطَعَامٍ فَقُلْتُ نَعَمْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَنْ مَعَهُ قُومُوا فَانْطَلَقَ وَانْطَلَقْتُ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ حَتَّی جِئْتُ أَبَا طَلْحَةَ فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ يَا أُمَّ سُلَيْمٍ قَدْ جَائَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّاسِ وَلَيْسَ عِنْدَنَا مَا نُطْعِمُهُمْ فَقَالَتْ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ فَانْطَلَقَ أَبُو طَلْحَةَ حَتَّی لَقِيَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو طَلْحَةَ مَعَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلُمِّي يَا أُمَّ سُلَيْمٍ مَا عِنْدَکِ فَأَتَتْ بِذَلِکَ الْخُبْزِ فَأَمَرَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَفُتَّ وَعَصَرَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ عُکَّةً فَأَدَمَتْهُ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِ مَا شَائَ اللَّهُ أَنْ يَقُولَ ثُمَّ قَالَ ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَذِنَ لَهُمْ فَأَکَلُوا حَتَّی شَبِعُوا ثُمَّ خَرَجُوا ثُمَّ قَالَ ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَذِنَ لَهُمْ فَأَکَلُوا حَتَّی شَبِعُوا ثُمَّ خَرَجُوا ثُمَّ قَالَ ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَذِنَ لَهُمْ فَأَکَلُوا حَتَّی شَبِعُوا ثُمَّ خَرَجُوا ثُمَّ قَالَ ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَکَلَ الْقَوْمُ کُلُّهُمْ وَشَبِعُوا وَالْقَوْمُ سَبْعُونَ أَوْ ثَمَانُونَ رَجُلًا-
عبداللہ مالک اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے حضرت انس بن مالک کو یہ کہتے ہوئے سنا۔ ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ کے دوسرے شوہر) نے ام سلیم (انس کی والدہ) سے کہا کہ میں نے (آج) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز کو کمزور اور سست پایا ہے۔ میرے خیال میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھوکے ہیں۔ کیا تمہارے پاس کھانے پینے کی کوئی چیز ہے؟ ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا ہاں ہے یہ کہہ کر ام سلیم نے جو کی چند روٹیاں نکالیں۔ پھر اپنی اوڑھنی لی اور اس میں ان روٹیوں کو لپیٹا اور چھپا کر میرے ہاتھ میں دے دیں۔ اور کچھ اوڑھنی مجھے اڑھا دی اس کے بعد مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں میں گیا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد میں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ اور لوگ بھی تھے۔ بس میں (خاموش) کھڑا ہوا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کیا تم کو ابوطلحہ نے بھیجا ہے؟ میں نے عرض کیا جی ہاں! پھر دریافت کیا کھانا دے کر بھیجا ہے؟ میں نے عرض کیا جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں سے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس موجود تھے فرمایا کہ اٹھو چلو! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (بمعہ لوگوں کے) چلے میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آگے آگے چلا اور ابوطلحہ کے پاس پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری کی خبر دی اور ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ام سلیم سے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لوگ ہمارے پاس تشریف لا رہے ہیں۔ اور اتنا سامان نہیں کہ ہم ان (سب کو) کھلا سکیں ام سلیم نے کہا! اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (استقبال کے لئے) گھر سے باہر نکلے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تشریف لائے پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ام سلیم جو کچھ تمہارے پاس ہے لے آؤ۔ ام سلیم وہی روٹیاں جو ان کے پاس تھیں لے آئیں۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ وہ ان کے ٹکڑے کریں۔ ( چنانچہ ان کو ریزہ ریزہ کیا گیا) اور ام سلیم نے کپی میں سے گھی نچوڑا جو سالن ہو گیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ پڑھ کر دم کردیا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ دس دس آدمیوں کو بلاؤ چنانچہ دس آدمیوں کو بلا کر کھانے کی اجازت دی گئی اور انہوں نے پیٹ بھر کر کھا لیا پھر جب یہ اٹھ گئے تو دس کو اور بلایا گیا۔ یہاں تک کہ اسی طرح تمام لوگوں نے پیٹ بھر کر کھا لیا یہ سب ستر یا اسی آدمی تھے۔
Narrated Anas bin Malik: Abu Talha said to Um Sulaim, "I have noticed feebleness in the voice of Allah's Apostle which I think, is caused by hunger. Have you got any food?" She said, "Yes." She brought out some loaves of barley and took out a veil belonging to her, and wrapped the bread in part of it and put it under my arm and wrapped part of the veil round me and sent me to Allah's Apostle. I went carrying it and found Allah's Apostle in the Mosque sitting with some people. When I stood there, Allah's Apostle asked, "Has Abu Talha sent you?" I said, "Yes". He asked, "With some food? I said, "Yes" Allah's Apostle then said to the men around him, "Get up!" He set out (accompanied by them) and I went ahead of them till I reached Abu Talha and told him (of the Prophet's visit). Abu Talha said, "O Um Sulaim! Allah's Apostle is coming with the people and we have no food to feed them." She said, "Allah and His Apostle know better." So Abu Talha went out to receive Allah's Apostle. Allah's Apostle came along with Abu Talha. Allah's Apostle said, "O Um Sulaim! Bring whatever you have." She brought the bread which Allah's Apostle ordered to be broken into pieces. Um Sulaim poured on them some butter from an oilskin. Then Allah's Apostle recited what Allah wished him to recite, and then said, "Let ten persons come (to share the meal)." Ten persons were admitted, ate their fill and went out. Then he again said, "Let another ten do the same." They were admitted, ate their fill and went out. Then he again said, '"'Let another ten persons (do the same.)" They were admitted, ate their fill and went out. Then he said, "Let another ten persons come." In short, all of them ate their fill, and they were seventy or eighty men.
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ کُنَّا نَعُدُّ الْآيَاتِ بَرَکَةً وَأَنْتُمْ تَعُدُّونَهَا تَخْوِيفًا کُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَقَلَّ الْمَائُ فَقَالَ اطْلُبُوا فَضْلَةً مِنْ مَائٍ فَجَائُوا بِإِنَائٍ فِيهِ مَائٌ قَلِيلٌ فَأَدْخَلَ يَدَهُ فِي الْإِنَائِ ثُمَّ قَالَ حَيَّ عَلَی الطَّهُورِ الْمُبَارَکِ وَالْبَرَکَةُ مِنْ اللَّهِ فَلَقَدْ رَأَيْتُ الْمَائَ يَنْبُعُ مِنْ بَيْنِ أَصَابِعِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَقَدْ کُنَّا نَسْمَعُ تَسْبِيحَ الطَّعَامِ وَهُوَ يُؤْکَلُ-
محمد بن اسمائیل ، احمد اسرائیل منصور ابراہیم علقمہ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ (بن مسعود) سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ ہم لوگ (یعنی صحابہ) آیات قرآن یا معجزات نبوی کو باعث برکت قرار دیتے تھے اور تم لوگ باعث خوف (یعنی کافروں کے ڈرانے کا سبب) سمجھتے ہو۔ (ایک مرتبہ) ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے۔ کہ پانی کم ہو گیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ کہیں سے تھوڑا سا بچا ہوا پانی لاؤ چنانچہ صحابہ ایک برتن جس میں تھوڑا سا بچا ہوا پانی تھا لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس برتن میں اپنا ہاتھ ڈالا اور فرمایا! پاک کرنے والے بابرکت پانی کی طرف آؤ۔ اور برکت اللہ کی طرف سے ہے۔ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انگلیوں سے پانی ابل رہا ہے اور ہم کھانے کی تسبیح بھی (بطور معجزہ کبھی کبھی) سنا کرتے تھے جو کھایا جاتا تھا۔
Narrated 'Abdullah: We used to consider miracles as Allah's Blessings, but you people consider them to be a warning. Once we were with Allah's Apostle on a journey, and we ran short of water. He said, "Bring the water remaining with you." The people brought a utensil containing a little water. He placed his hand in it and said, "Come to the blessed water, and the Blessing is from Allah." I saw the water flowing from among the fingers of Allah's Apostle , and no doubt, we heard the meal glorifying Allah, when it was being eaten (by him).
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا زَکَرِيَّائُ قَالَ حَدَّثَنِي عَامِرٌ قَالَ حَدَّثَنِي جَابِرٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ أَبَاهُ تُوُفِّيَ وَعَلَيْهِ دَيْنٌ فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ إِنَّ أَبِي تَرَکَ عَلَيْهِ دَيْنًا وَلَيْسَ عِنْدِي إِلَّا مَا يُخْرِجُ نَخْلُهُ وَلَا يَبْلُغُ مَا يُخْرِجُ سِنِينَ مَا عَلَيْهِ فَانْطَلِقْ مَعِي لِکَيْ لَا يُفْحِشَ عَلَيَّ الْغُرَمَائُ فَمَشَی حَوْلَ بَيْدَرٍ مِنْ بَيَادِرِ التَّمْرِ فَدَعَا ثَمَّ آخَرَ ثُمَّ جَلَسَ عَلَيْهِ فَقَالَ انْزِعُوهُ فَأَوْفَاهُمْ الَّذِي لَهُمْ وَبَقِيَ مِثْلُ مَا أَعْطَاهُمْ-
ابو نعیم زکریا عامر حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ میرے والد کا انتقال ہوا اور ان پر کچھ قرض تھا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میرے والد نے اپنے اوپر کچھ قرض چھوڑا ہے۔ اور میرے پاس بجز اس کے جو ان کے کھجور کے درختوں سے پیدا ہو کچھ نہیں ہے۔ اور اس کی پیداوار کئی کئی سال تک ان کے قرض کی ادائیگی کے لئے کافی نہ ہوگی لہذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے ساتھ چلئے تاکہ قرض خواہ مجھ پر سختی نہ کریں۔چنانچہ حضور تشریف لے گئے اور ان کھجور کے ڈھیروں میں سے ایک کے گرد گھومے اور دعا کی پھر دوسرے ڈھیر پر (ایسا ہی کیا) اس کے بعد ایک ڈھیر پر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ چھوہارے نکالو، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کا قرض پورا کر دیا اور جتنا ان کو دیا اتنے چھوہارے بچ بھی رہے۔
Narrated Jabir: My father had died in debt. So I came to the Prophet and said, "My father (died) leaving unpaid debts, and I have nothing except the yield of his date palms; and their yield for many years will not cover his debts. So please come with me, so that the creditors may not misbehave with me." The Prophet went round one of the heaps of dates and invoked (Allah), and then did the same with another heap and sat on it and said, "Measure (for them)." He paid them their rights and what remained was as much as had been paid to them.
حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ عَنْ أَبِيهِ حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ أَنَّهُ حَدَّثَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَکْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ أَصْحَابَ الصُّفَّةِ کَانُوا أُنَاسًا فُقَرَائَ وَأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَرَّةً مَنْ کَانَ عِنْدَهُ طَعَامُ اثْنَيْنِ فَلْيَذْهَبْ بِثَالِثٍ وَمَنْ کَانَ عِنْدَهُ طَعَامُ أَرْبَعَةٍ فَلْيَذْهَبْ بِخَامِسٍ أَوْ سَادِسٍ أَوْ کَمَا قَالَ وَأَنَّ أَبَا بَکْرٍ جَائَ بِثَلَاثَةٍ وَانْطَلَقَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَشَرَةٍ وَأَبُو بَکْرٍ ثَلَاثَةً قَالَ فَهُوَ أَنَا وَأَبِي وَأُمِّي وَلَا أَدْرِي هَلْ قَالَ امْرَأَتِي وَخَادِمِي بَيْنَ بَيْتِنَا وَبَيْنَ بَيْتِ أَبِي بَکْرٍ وَأَنَّ أَبَا بَکْرٍ تَعَشَّی عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ لَبِثَ حَتَّی صَلَّی الْعِشَائَ ثُمَّ رَجَعَ فَلَبِثَ حَتَّی تَعَشَّی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَائَ بَعْدَ مَا مَضَی مِنْ اللَّيْلِ مَا شَائَ اللَّهُ قَالَتْ لَهُ امْرَأَتُهُ مَا حَبَسَکَ عَنْ أَضْيَافِکَ أَوْ ضَيْفِکَ قَالَ أَوَعَشَّيْتِهِمْ قَالَتْ أَبَوْا حَتَّی تَجِيئَ قَدْ عَرَضُوا عَلَيْهِمْ فَغَلَبُوهُمْ فَذَهَبْتُ فَاخْتَبَأْتُ فَقَالَ يَا غُنْثَرُ فَجَدَّعَ وَسَبَّ وَقَالَ کُلُوا وَقَالَ لَا أَطْعَمُهُ أَبَدًا قَالَ وَايْمُ اللَّهِ مَا کُنَّا نَأْخُذُ مِنْ اللُّقْمَةِ إِلَّا رَبَا مِنْ أَسْفَلِهَا أَکْثَرُ مِنْهَا حَتَّی شَبِعُوا وَصَارَتْ أَکْثَرَ مِمَّا کَانَتْ قَبْلُ فَنَظَرَ أَبُو بَکْرٍ فَإِذَا شَيْئٌ أَوْ أَکْثَرُ قَالَ لِامْرَأَتِهِ يَا أُخْتَ بَنِي فِرَاسٍ قَالَتْ لَا وَقُرَّةِ عَيْنِي لَهِيَ الْآنَ أَکْثَرُ مِمَّا قَبْلُ بِثَلَاثِ مَرَّاتٍ فَأَکَلَ مِنْهَا أَبُو بَکْرٍ وَقَالَ إِنَّمَا کَانَ الشَّيْطَانُ يَعْنِي يَمِينَهُ ثُمَّ أَکَلَ مِنْهَا لُقْمَةً ثُمَّ حَمَلَهَا إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَصْبَحَتْ عِنْدَهُ وَکَانَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمٍ عَهْدٌ فَمَضَی الْأَجَلُ فَتَفَرَّقْنَا اثْنَا عَشَرَ رَجُلًا مَعَ کُلِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ أُنَاسٌ اللَّهُ أَعْلَمُ کَمْ مَعَ کُلِّ رَجُلٍ غَيْرَ أَنَّهُ بَعَثَ مَعَهُمْ قَالَ أَکَلُوا مِنْهَا أَجْمَعُونَ أَوْ کَمَا قَالَ-
موسی معتمر ابوعثمان حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ اصحاب صفہ مفلس اور فقیر لوگ تھے ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (صحابہ سے) فرمایا جس شخص کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو تو وہ ایک تیسرا آدمی (ان میں سے) لے جائے۔ اور جس کے پاس چار آدمیوں کا کھانا ہو تو وہ پانچویں اور اس سے زیادہ ہو تو چھٹے کو لے جائے۔چنانچہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تین آدمیوں کو لائے اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم دس آدمیوں کو لے گئے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر میں تین آدمی تھے میرے والد اور میری والدہ اور ایک خادم جو ہمارا اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مشترک تھا (اس رات کو) ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شب کا کھانا بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ کھایا پھر وہیں تو قف کیا اور عشاء کی نماز بھی وہیں پڑھی۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے پاس ٹھرے رہے اس کے بعد بہت رات گئے گھر لوٹے تو ان سے ان کی بیوی نے کہا۔ آپ کو اپنے مہمانوں کا خیال نہ آیا۔ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کیا تم نے انہیں کھانا نہیں کھلایا ہے؟ ان کی بیوی نے کہا انہوں نے اس وقت تک کھانا کھانے سے انکار کیا جب تک تم نہ آ جاؤ۔ لوگوں نے ان کے سامنے کھانا پیش کیا مگر انہوں نے نہ مانا (عبدالرحمن کہتے ہیں) میں تو مارے خوف کے چھپ رہا ابوبکر نے کہا ارے غنثر (یہ ایک سخت کلمہ ہے جو ڈانٹ ڈپٹ کے وقت بولا جاتا ہے) پھر انہوں نے مجھے بہت سخت کہا اور کہا تم لوگ کھاؤ میں اس کھانے کو ہرگز نہ کھاؤں گا عبدالرحمن کہتے ہیں خدا کی قسم ہم جو لقمہ اس کے نیچے سے اٹھاتے اس سے زیادہ بڑھ جاتا ہے (یعنی جس جگہ سے کھانا اٹھاتے تھے وہ خالی ہونے کی بجائے کھانے سے بھر جاتی اور کھانے میں زیادتی ہو جاتی تھی یہاں تک کہ سب لوگ شکم سیر ہو گئے اور وہ کھانا اس سے بھی تین گنا زیادہ ہو گیا۔ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی بیوی سے کہا اے بنی فراس کی بہن! یہ کھانا تو پہلے سے بھی زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا اپنی ٹھنڈی آنکھ کی قسم ہے۔ بے شک وہ کھانا تو پہلے سے تین گنا زیادہ ہے۔ پھر ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس میں سے کھایا اور کہا وہ قسم شیطان کی وجہ سے تھی اس کے بعد اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے صبح تک وہ کھانا حضرت کے ہاں رہا ہمارے اور کچھ لوگوں کے درمیان معاہدہ تھا جب مدت معاہدہ گزر گئی تو ہم نے بارہ آدمی حکم اور جج بنائے ان میں ہر شخص کے ساتھ کچھ لوگ تھے خدا معلوم ہر شخص کے ہمراہ کتنے آدمی تھے۔ بہر حال پانچوں کے ساتھ ان لوگوں کو بھیجا گیا عبدالرحمن کہتے ہیں کہ اسی کھانے میں سے سب لوگوں نے کھایا۔
Narrated Abdur-Rahman bin Abi Bakr: The companions of Suffa were poor people. The Prophet once said, "Whoever has food enough for two persons, should take a third one (from among them), and whoever has food enough for four persons, should take a fifth or a sixth (or said something similar)." Abu Bakr brought three persons while the Prophet took ten. And Abu Bakr with his three family member (who were I, my father and my mother) (the sub-narrator is in doubt whether 'Abdur-Rahman said, "My wife and my servant who was common for both my house and Abu Bakr's house.") Abu Bakr took his supper with the Prophet and stayed there till he offered the 'Isha' prayers. He returned and stayed till Allah's Apostle took his supper. After a part of the night had passed, he returned to his house. His wife said to him, "What has detained you from your guests?" He said, "Have you served supper to them?" She said, "They refused to take supper) until you come. They (i.e. some members of the household) presented the meal to them but they refused (to eat)" I went to hide myself and he said, "O Ghunthar!" He invoked Allah to cause my ears to be cut and he rebuked me. He then said (to them): Please eat!" and added, I will never eat the meal." By Allah, whenever we took a handful of the meal, the meal grew from underneath more than that handful till everybody ate to his satisfaction; yet the remaining food was more than the original meal. Abu Bakr saw that the food was as much or more than the original amount. He called his wife, "O sister of Bani Firas!" She said, "O pleasure of my eyes. The food has been tripled in quantity." Abu Bakr then started eating thereof and said, "It (i.e. my oath not to eat) was because of Sa all." He took a handful from it, and carried the rest to the Prophet. SO that food was with the Prophet . There was a treaty between us and some people, and when the period of that treaty had elapsed, he divided US into twelve groups, each being headed by a man. Allah knows how many men were under the command of each leader. Anyhow, the Prophet surely sent a leader with each group. Then all of them ate of that meal.
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ عَنْ أَنَسٍ وَعَنْ يُونُسَ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أَصَابَ أَهْلَ الْمَدِينَةِ قَحْطٌ عَلَی عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَيْنَا هُوَ يَخْطُبُ يَوْمَ جُمُعَةٍ إِذْ قَامَ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلَکَتْ الْکُرَاعُ هَلَکَتْ الشَّائُ فَادْعُ اللَّهَ يَسْقِينَا فَمَدَّ يَدَيْهِ وَدَعَا قَالَ أَنَسٌ وَإِنَّ السَّمَائَ لَمِثْلُ الزُّجَاجَةِ فَهَاجَتْ رِيحٌ أَنْشَأَتْ سَحَابًا ثُمَّ اجْتَمَعَ ثُمَّ أَرْسَلَتْ السَّمَائُ عَزَالِيَهَا فَخَرَجْنَا نَخُوضُ الْمَائَ حَتَّی أَتَيْنَا مَنَازِلَنَا فَلَمْ نَزَلْ نُمْطَرُ إِلَی الْجُمُعَةِ الْأُخْرَی فَقَامَ إِلَيْهِ ذَلِکَ الرَّجُلُ أَوْ غَيْرُهُ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ تَهَدَّمَتْ الْبُيُوتُ فَادْعُ اللَّهَ يَحْبِسْهُ فَتَبَسَّمَ ثُمَّ قَالَ حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا فَنَظَرْتُ إِلَی السَّحَابِ تَصَدَّعَ حَوْلَ الْمَدِينَةِ کَأَنَّهُ إِکْلِيلٌ-
مسدد عبدالعزیز انس یونس ثابت حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں (ایک) مرتبہ قحط پڑا۔ ان ہی ایام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن خطبہ پڑھ رہے تھے، کہ ایک شخص نے کھڑے ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھوڑے مر گئے بکریاں ہلاک ہو گئیں۔ خدا تعالیٰ سے ہمارے لئے دعا فرمایئے کہ وہ آب رحمت برسائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا کے لئے دونوں ہاتھ اٹھا دیئے اور دعا کی۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں اس وقت آسمان شیشے کی طرح بالکل صاف تھا اس پر ابر کا ایک ٹکڑا بھی نہ تھا۔ ایک ہوا چلی بادل آئے اور آسمان نے اپنا منہ کھول دیا اتنی بارش ہوئی کہ ہم پانی میں اپنے گھر پہنچے اور دوسرے جمعہ تک برابر بارش ہوتی رہی دوسرے جمعہ اسی شخص نے کھڑے ہو کر کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکانات گر پڑے آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ پانی کو روک دے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکرائے اس کے بعد فرمایا ہمارے آس پاس برس ہمارے اوپر نہ برس۔ بس میں نے ابر کی طرف دیکھا کہ وہ مدینہ کے آس پاس ہٹ گیا ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا وہ بادلوں کے درمیان تاج کی طرح نظر آ رہا ہے۔
Narrated Anas: Once during the lifetime of Allah's Apostle, the people of Medina suffered from drought. So while the Prophet was delivering a sermon on a Friday a man got up saying, "O Allah's Apostle! The horses and sheep have perished. Will you invoke Allah to bless us with rain?" The Prophet lifted both his hands and invoked. The sky at that time was as clear as glass. Suddenly a wind blew, raising clouds that gathered together, and it started raining heavily. We came out (of the Mosque) wading through the flowing water till we reached our homes. It went on raining till the next Friday, when the same man or some other man stood up and said, "O Allah's Apostle! The houses have collapsed; please invoke Allah to withhold the rain." On that the Prophet smiled and said, "O Allah, (let it rain) around us and not on us." I then looked at the clouds to see them separating forming a sort of a crown round Medina.
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ کَثِيرٍ أَبُو غَسَّانَ حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ وَاسْمُهُ عُمَرُ بْنُ الْعَلَائِ أَخُو أَبِي عَمْرِو بْنِ الْعَلَائِ قَالَ سَمِعْتُ نَافِعًا عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا کَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ إِلَی جِذْعٍ فَلَمَّا اتَّخَذَ الْمِنْبَرَ تَحَوَّلَ إِلَيْهِ فَحَنَّ الْجِذْعُ فَأَتَاهُ فَمَسَحَ يَدَهُ عَلَيْهِ وَقَالَ عَبْدُ الْحَمِيدِ أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ أَخْبَرَنَا مُعَاذُ بْنُ الْعَلَائِ عَنْ نَافِعٍ بِهَذَا وَرَوَاهُ أَبُو عَاصِمٍ عَنْ ابْنِ أَبِي رَوَّادٍ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-
محمد بن مثنیٰ یحیی بن کثیر ابوغسان ابوحفص عمر بن العلاء نافع حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کی لکڑی سے ٹیک لگا کے خطبہ پڑھا کرتے تھے۔ جب منبر بنایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر تشریف لے گئے تو یہ ستون زارو قطار رونے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے پاس آئے اور اپنا دست مبارک اس پر پھیرا۔ عبدالحمید عثمان بن عمر معاذ بن العلاء نافع سے اسی طرح روایت کرتے ہیں (نیز) ابوعاصم ابن ابی رواد نافع ابن عمر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح بیان کرتے ہیں۔
Narrated Ibn Umar: The Prophet used to deliver his sermons while standing beside a trunk of a datepalm. When he had the pulpit made, he used it instead. The trunk started crying and the Prophet went to it, rubbing his hand over it (to stop its crying).
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ أَيْمَنَ قَالَ سَمِعْتُ أَبِي عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَ يَقُومُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ إِلَی شَجَرَةٍ أَوْ نَخْلَةٍ فَقَالَتْ امْرَأَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ أَوْ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَا نَجْعَلُ لَکَ مِنْبَرًا قَالَ إِنْ شِئْتُمْ فَجَعَلُوا لَهُ مِنْبَرًا فَلَمَّا کَانَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ دُفِعَ إِلَی الْمِنْبَرِ فَصَاحَتْ النَّخْلَةُ صِيَاحَ الصَّبِيِّ ثُمَّ نَزَلَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَضَمَّهُ إِلَيْهِ تَئِنُّ أَنِينَ الصَّبِيِّ الَّذِي يُسَکَّنُ قَالَ کَانَتْ تَبْکِي عَلَی مَا کَانَتْ تَسْمَعُ مِنْ الذِّکْرِ عِنْدَهَا-
ابو نعیم عبدالواحد بن ایمن حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کا خطبہ پڑھتے وقت ایک کھجور کے درخت کے تنا سے کمر لگا لیتے تھے تو ایک انصاری عورت یا کسی مرد نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے منبر کیوں نہ بنا دیں فرمایا اگر چاہو تو (بنا دو) چنانچہ ان لوگوں نے آپ کے لئے منبر بنا دیا جب جمعہ کا دن ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر تشریف لے گئے کھجور کی لکڑی کا وہ ٹکڑا بچوں کی طرح رونے اور چلانے لگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر سے اتر کر اس لکڑی کو (سینہ سے) لگا لیا وہ ایسی آواز سے رونے لگا جس طرح وہ بچہ روئے جو چپ کرایا جاتا ہے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں وہ اس ذکر کی یاد میں رونے لگا جو اس کے پاس ہوا کرتا تھا۔
Narrated Jabir bin 'Abdullah: The Prophet used to stand by a tree or a date-palm on Friday. Then an Ansari woman or man said. "O Allah's Apostle! Shall we make a pulpit for you?" He replied, "If you wish." So they made a pulpit for him and when it was Friday, he proceeded towards the pulpit (for delivering the sermon). The date-palm cried like a child! The Prophet descended (the pulpit) and embraced it while it continued moaning like a child being quietened. The Prophet said, "It was crying for (missing) what it used to hear of religious knowledge given near to it."
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ قَالَ حَدَّثَنِي أَخِي عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلَالٍ عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ قَالَ أَخْبَرَنِي حَفْصُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَقُولُ کَانَ الْمَسْجِدُ مَسْقُوفًا عَلَی جُذُوعٍ مِنْ نَخْلٍ فَکَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا خَطَبَ يَقُومُ إِلَی جِذْعٍ مِنْهَا فَلَمَّا صُنِعَ لَهُ الْمِنْبَرُ وَکَانَ عَلَيْهِ فَسَمِعْنَا لِذَلِکَ الْجِذْعِ صَوْتًا کَصَوْتِ الْعِشَارِ حَتَّی جَائَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَيْهَا فَسَکَنَتْ-
اسماعیل سلیمان یحیی حفص حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبداللہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ (ابتداء میں) مسجد (نبوی) میں کھجور کی شاخوں سے بنی ہوئی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ پڑھتے تو کھجور کے ایک ستون سے سہارا لگا لیتے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے منبر بنایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس پر جلوہ افروز ہوئے۔ اس کی وجہ سے ہم نے اس کھجور کے ستون سے ایک آواز سنی مثل اونٹنی کی آواز کے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دست مبارک اس پر رکھا تو وہ چپ ہوا۔
Narrated Anas bin Malik: That he heard Jabir bin 'Abdullah saying, "The roof of the Mosque was built over trunks of date-palms working as pillars. When the Prophet delivered a sermon, he used to stand by one of those trunks till the pulpit was made for him, and he used it instead. Then we heard the trunk sending a sound like of a pregnant she-camel till the Prophet came to it, and put his hand over it, then it became quiet."
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنْ شُعْبَةَ ح حَدَّثَنِي بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ سُلَيْمَانَ سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ يُحَدِّثُ عَنْ حُذَيْفَةَ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أَيُّکُمْ يَحْفَظُ قَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْفِتْنَةِ فَقَالَ حُذَيْفَةُ أَنَا أَحْفَظُ کَمَا قَالَ قَالَ هَاتِ إِنَّکَ لَجَرِيئٌ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِتْنَةُ الرَّجُلِ فِي أَهْلِهِ وَمَالِهِ وَجَارِهِ تُکَفِّرُهَا الصَّلَاةُ وَالصَّدَقَةُ وَالْأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيُ عَنْ الْمُنْکَرِ قَالَ لَيْسَتْ هَذِهِ وَلَکِنْ الَّتِي تَمُوجُ کَمَوْجِ الْبَحْرِ قَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ لَا بَأْسَ عَلَيْکَ مِنْهَا إِنَّ بَيْنَکَ وَبَيْنَهَا بَابًا مُغْلَقًا قَالَ يُفْتَحُ الْبَابُ أَوْ يُکْسَرُ قَالَ لَا بَلْ يُکْسَرُ قَالَ ذَاکَ أَحْرَی أَنْ لَا يُغْلَقَ قُلْنَا عَلِمَ عُمَرُ الْبَابَ قَالَ نَعَمْ کَمَا أَنَّ دُونَ غَدٍ اللَّيْلَةَ إِنِّي حَدَّثْتُهُ حَدِيثًا لَيْسَ بِالْأَغَالِيطِ فَهِبْنَا أَنْ نَسْأَلَهُ وَأَمَرْنَا مَسْرُوقًا فَسَأَلَهُ فَقَالَ مَنْ الْبَابُ قَالَ عُمَرُ-
محمد ابن ابی عدی شعبہ سلیمان سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابووائل کو حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کرتے ہوئے سنا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دن کہا کہ فتنہ کے بارہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول تم سب میں کس کو زیادہ یاد ہے۔ حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا مجھے اسی طرح یاد ہے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا بیان کرو۔ بے شک تم بڑے جری ہو۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدمی کا فتنہ اس کے اہل خانہ اور مال اور اس کے پڑوسی میں ہے جو نماز صدقہ خیرات اور اچھے کام کرنے اور بری بات کے منع کرنے سے رفع ہو جاتا ہے۔ حضرت عمر نے فرمایا میں یہ نہیں پوچھتا بلکہ وہ فتنہ جو دریا کی طرح موجیں مارے گا حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ امیرالمومنین! آپ کو اس فتنه کا کچھ خوف نہیں بے شک آپ کے اور فتنه کے درمیان ایک بند دروازه ہے ۔ حضرت عمر نے فرمایا دروازه کھولا جائے گا یا توڑا جائے گا حذیفه رضی الله عنه نے کہا جی ہاں! توڑا جائے گا۔ حضرت عمر نے کہا پھر وه اس قابل ہوگا کہ کبھی بند نہ کیا جائے ۔ ہم لوگوں نے (حذیفه سے) پوچھا کیا حضرت عمر اس دروازه کو جانتے تھے؟ انهوں نے کہا ہاں! وه اسی طرح جانتے تھے جس طرح تم کل کے بعد رات کا یقین رکهتے ہو۔ میں نے ان سے ایک ایسی حدیث بیان کی تھی جس میں شک نہ تھا پھر ہمیں ان سے زیاده پوچھتے ہوئے خوف معلوم ہوا اور ہم نے مسروق سے کہا انهوں نے دریافت کیا وه دروازه کون تھا، حذیفه نے کہا وه حضرت عمر رضی الله عنه کی ذات تھی۔
Narrated Hudhaifa: Once 'Umar bin Al-Khattab said, said, "Who amongst you remembers the statement of Allah's Apostle regarding the afflictions?" Hudhaifa replied, "I remember what he said exactly." 'Umar said. "Tell (us), you are really a daring man!'' Hudhaifa said, "Allah's Apostle said, 'A man's afflictions (i.e. wrong deeds) concerning his relation to his family, his property and his neighbors are expiated by his prayers, giving in charity and enjoining what is good and forbidding what is evil.' " 'Umar said, "I don't mean these afflictions but the afflictions that will be heaving up and down like waves of the sea." Hudhaifa replied, "O chief of the believers! You need not fear those (afflictions) as there is a closed door between you and them." 'Umar asked, "Will that door be opened or broken?" Hudhaifa replied, "No, it will be broken." 'Umar said, "Then it is very likely that the door will not be closed again." Later on the people asked Hudhaifa, "Did 'Umar know what that door meant?" He said. "Yes, 'Umar knew it as everyone knows that there will be night before the tomorrow morning. I narrated to 'Umar an authentic narration, not lies." We dared not ask Hudhaifa; therefore we requested Masruq who asked him, "What does the door stand for?" He said, "Umar."
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّی تُقَاتِلُوا قَوْمًا نِعَالُهُمْ الشَّعَرُ وَحَتَّی تُقَاتِلُوا التُّرْکَ صِغَارَ الْأَعْيُنِ حُمْرَ الْوُجُوهِ ذُلْفَ الْأُنُوفِ کَأَنَّ وُجُوهَهُمْ الْمَجَانُّ الْمُطْرَقَةُ وَتَجِدُونَ مِنْ خَيْرِ النَّاسِ أَشَدَّهُمْ کَرَاهِيَةً لِهَذَا الْأَمْرِ حَتَّی يَقَعَ فِيهِ وَالنَّاسُ مَعَادِنُ خِيَارُهُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ خِيَارُهُمْ فِي الْإِسْلَامِ وَلَيَأْتِيَنَّ عَلَی أَحَدِکُمْ زَمَانٌ لَأَنْ يَرَانِي أَحَبُّ إِلَيْهِ مِنْ أَنْ يَکُونَ لَهُ مِثْلُ أَهْلِهِ وَمَالِهِ-
ابوالیمان شعیب ابوزناد اعرج حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس وقت تک قیامت قائم نہ ہوگی، جب تک تم ایسی قوم سے جنگ نہ کرو جن کی جوتیاں بال کی ہوں گی اور جب تک تم ترکوں سے قتال نہ کروگے۔ جن کی آنکھیں چھوٹی ہوں گی چہرے سرخ ہوں گے ناکیں چپٹی ہوں گی گویا ان کے چہرے پٹی ہوئی ڈھالیں ہیں اور تم ان میں سے اچھے اشخاص کو بھی پاؤ گے کہ وہ سب سے زیادہ اس خلافت سے نفرت کرنے والا ہوگا یہاں تک کہ اس کو مجبور کیا جائے گا لوگوں کی مثال معدن اور کان کی طرح ہے ان میں جو لوگ زمانہ جاہلیت میں اچھے تھے وہی اسلام میں بھی اچھے ہیں اور تم میں سے کسی ایک پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ اس کو میرا دیکھنا اس کے گھر والوں اور مال سے زیادہ پسند و مرغوب ہوگا۔
Narrated Abu Huraira: The Prophet said, "The Hour will not be established till you fight a nation wearing hairy shoes, and till you fight the Turks, who will have small eyes, red faces and flat noses; and their faces will be like flat shields. And you will find that the best people are those who hate responsibility of ruling most of all till they are chosen to be the rulers. And the people are of different natures: The best in the pre-lslamic period are the best in Islam. A time will come when any of you will love to see me rather than to have his family and property doubled."
حَدَّثَنِي يَحْيَی حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ هَمَّامٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّی تُقَاتِلُوا خُوزًا وَکَرْمَانَ مِنْ الْأَعَاجِمِ حُمْرَ الْوُجُوهِ فُطْسَ الْأُنُوفِ صِغَارَ الْأَعْيُنِ وُجُوهُهُمْ الْمَجَانُّ الْمُطْرَقَةُ نِعَالُهُمْ الشَّعَرُ تَابَعَهُ غَيْرُهُ عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ-
یحیی عبدالرزاق معمر ہمام حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں قیامت نہ آئے گی جب تک خوز اور کرمان سے تم جنگ نہ کر لوگے، یہ عجمی ہیں ان کے چہرے سرخ ناکیں چپٹی اور آنکھیں چھوٹی ہوں گی گویا ان کے چہرے پٹی ہوئی ڈھالیں ہیں اور ان کے جوتے بالوں کے ہوں گے یحیی کے علاوہ دوسروں نے عبدالرزاق سے اس کی متابعت میں روایت کی ہے۔
Narrated Abu Huraira: The Prophet said, "The Hour will not be established till you fight with the Khudh and the Kirman from among the non-Arabs. They will be of red faces, flat noses and small eyes; their faces will look like flat shields, and their shoes will be of hair."
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ قَالَ إِسْمَاعِيلُ أَخْبَرَنِي قَيْسٌ قَالَ أَتَيْنَا أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ صَحِبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَ سِنِينَ لَمْ أَکُنْ فِي سِنِيَّ أَحْرَصَ عَلَی أَنْ أَعِيَ الْحَدِيثَ مِنِّي فِيهِنَّ سَمِعْتُهُ يَقُولُ وَقَالَ هَکَذَا بِيَدِهِ بَيْنَ يَدَيْ السَّاعَةِ تُقَاتِلُونَ قَوْمًا نِعَالُهُمْ الشَّعَرُ وَهُوَ هَذَا الْبَارِزُ وَقَالَ سُفْيَانُ مَرَّةً وَهُمْ أَهْلُ الْبَازِرِ-
علی بن عبداللہ سفیان اسماعیل قیس سے روایت ہے انہوں نے کہا ہم (ایک مرتبہ) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے تو انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں تین سال صرف کئے، اپنی تمام عمر میں حدیث یاد کرنے کا مجھے اس قدر شوق نہ تھا جس قدر ان تین سال میں اشتیاق بڑھ گیا۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے ہاتھ کا اشارہ کرتے ہوئے یہ سنا کہ قیامت سے پہلے تم ایک ایسی قوم سے جنگ کرو گے جس کی جوتیاں بالدار ہوں گی اور وہی اہل عجم ہیں۔
Narrated Abu Huraira: I enjoyed the company of Allah's Apostle for three years, and during the other years of my life, never was I so anxious to understand the (Prophet's) traditions as I was during those three years. I heard him saying, beckoning with his hand in this way, "Before the Hour you will fight with people who will have hairy shoes and live in Al-Bariz." (Sufyan, the sub-narrator once said, "And they are the people of Al-Bazir.")
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ سَمِعْتُ الْحَسَنَ يَقُولُ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ تَغْلِبَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ بَيْنَ يَدَيْ السَّاعَةِ تُقَاتِلُونَ قَوْمًا يَنْتَعِلُونَ الشَّعَرَ وَتُقَاتِلُونَ قَوْمًا کَأَنَّ وُجُوهَهُمْ الْمَجَانُّ الْمُطْرَقَةُ-
سلیمان بن حرب حریر بن حازم حسن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن تغلب سے روایت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے قیامت سے پہلے تم ایسی قوم سے جنگ کرو گے جن کی جوتیاں بال دار ہوں گی اور ایسی قوم سے بھی لڑو گے جن کے چہرے گویا تہ بتہ (چمڑے کی) ڈھالیں ہیں۔
Narrated 'Umar bin Taghlib: I heard Allah's Apostle saying, "Near the Hour you will fight with people who will wear hairy shoes; and you will also fight people with flat faces like shields."
حَدَّثَنَا الْحَکَمُ بْنُ نَافِعٍ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ تُقَاتِلُکُمْ الْيَهُودُ فَتُسَلَّطُونَ عَلَيْهِمْ ثُمَّ يَقُولُ الْحَجَرُ يَا مُسْلِمُ هَذَا يَهُودِيٌّ وَرَائِي فَاقْتُلْهُ-
حکم شعیب زہری سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کرتے ہیں انہوں نے کہا حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عمر کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ یہودی تم سے جنگ کریں گے۔ پھر تم ان پر غالب آ جاؤ گے، یہاں تک کہ (یہودی پتھر کے پیچھے چھپتا پھرے گا) پتھر تم سے کہیں گے کہ اے مسلمان! ادھر آ میرے پیچھے یہ یہودی (چھپا بیٹھا) ہے اس کو موت کے گھاٹ اتار دے۔
Narrated 'Abdullah bin 'Umar: I heard Allah's Apostle saying, "The Jews will fight with you, and you will be given victory over them so that a stone will say, 'O Muslim! There is a Jew behind me; kill him!' "
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرٍو عَنْ جَابِرٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَأْتِي عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ يَغْزُونَ فَيُقَالُ لَهُمْ فِيکُمْ مَنْ صَحِبَ الرَّسُولَ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَقُولُونَ نَعَمْ فَيُفْتَحُ عَلَيْهِمْ ثُمَّ يَغْزُونَ فَيُقَالُ لَهُمْ هَلْ فِيکُمْ مَنْ صَحِبَ مَنْ صَحِبَ الرَّسُولَ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَقُولُونَ نَعَمْ فَيُفْتَحُ لَهُمْ-
قتیبہ سفیان عمرو جابر حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ وہ جہاد کریں گے تو ان سے دریافت کیا جائے گا کیا تم میں کوئی ایسا شخص موجود ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اٹھائی ہو؟ وہ کہیں گے ہاں تو ان کو فتح دی جائے گی پھر وہ جہاد کریں گے تو ان سے پوچھا جائے گا کیا تم میں کوئی ایسا شخص موجود ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی کی صحبت سے فیض یاب ہوا ہے؟ وہ کہیں گے ہاں موجود ہیں۔ تو ان کو بھی فتح دے دی جائے گی۔
Narrated Abu Said Al-Khudri: The Prophet said, "A time will come when the people will wage holy war, and it will be asked, 'Is there any amongst you who has enjoyed the company of Allah's Apostle?' They will say: 'Yes.' And then victory will be bestowed upon them. They will wage holy war again, and it will be asked: 'Is there any among you who has enjoyed the company of the companions of Allah's Apostle ?' They will say: 'Yes.' And then victory will be bestowed on them."
حَدَّثَنِا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَکَمِ أَخْبَرَنَا النَّضْرُ أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ أَخْبَرَنَا سَعْدٌ الطَّائِيُّ أَخْبَرَنَا مُحِلُّ بْنُ خَلِيفَةَ عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ بَيْنَا أَنَا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ أَتَاهُ رَجُلٌ فَشَکَا إِلَيْهِ الْفَاقَةَ ثُمَّ أَتَاهُ آخَرُ فَشَکَا إِلَيْهِ قَطْعَ السَّبِيلِ فَقَالَ يَا عَدِيُّ هَلْ رَأَيْتَ الْحِيرَةَ قُلْتُ لَمْ أَرَهَا وَقَدْ أُنْبِئْتُ عَنْهَا قَالَ فَإِنْ طَالَتْ بِکَ حَيَاةٌ لَتَرَيَنَّ الظَّعِينَةَ تَرْتَحِلُ مِنْ الْحِيرَةِ حَتَّی تَطُوفَ بِالْکَعْبَةِ لَا تَخَافُ أَحَدًا إِلَّا اللَّهَ قُلْتُ فِيمَا بَيْنِي وَبَيْنَ نَفْسِي فَأَيْنَ دُعَّارُ طَيِّئٍ الَّذِينَ قَدْ سَعَّرُوا الْبِلَادَ وَلَئِنْ طَالَتْ بِکَ حَيَاةٌ لَتُفْتَحَنَّ کُنُوزُ کِسْرَی قُلْتُ کِسْرَی بْنِ هُرْمُزَ قَالَ کِسْرَی بْنِ هُرْمُزَ وَلَئِنْ طَالَتْ بِکَ حَيَاةٌ لَتَرَيَنَّ الرَّجُلَ يُخْرِجُ مِلْئَ کَفِّهِ مِنْ ذَهَبٍ أَوْ فِضَّةٍ يَطْلُبُ مَنْ يَقْبَلُهُ مِنْهُ فَلَا يَجِدُ أَحَدًا يَقْبَلُهُ مِنْهُ وَلَيَلْقَيَنَّ اللَّهَ أَحَدُکُمْ يَوْمَ يَلْقَاهُ وَلَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ تَرْجُمَانٌ يُتَرْجِمُ لَهُ فَلَيَقُولَنَّ لَهُ أَلَمْ أَبْعَثْ إِلَيْکَ رَسُولًا فَيُبَلِّغَکَ فَيَقُولُ بَلَی فَيَقُولُ أَلَمْ أُعْطِکَ مَالًا وَأُفْضِلْ عَلَيْکَ فَيَقُولُ بَلَی فَيَنْظُرُ عَنْ يَمِينِهِ فَلَا يَرَی إِلَّا جَهَنَّمَ وَيَنْظُرُ عَنْ يَسَارِهِ فَلَا يَرَی إِلَّا جَهَنَّمَ قَالَ عَدِيٌّ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ اتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقَّةِ تَمْرَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ شِقَّةَ تَمْرَةٍ فَبِکَلِمَةٍ طَيِّبَةٍ قَالَ عَدِيٌّ فَرَأَيْتُ الظَّعِينَةَ تَرْتَحِلُ مِنْ الْحِيرَةِ حَتَّی تَطُوفَ بِالْکَعْبَةِ لَا تَخَافُ إِلَّا اللَّهَ وَکُنْتُ فِيمَنْ افْتَتَحَ کُنُوزَ کِسْرَی بْنِ هُرْمُزَ وَلَئِنْ طَالَتْ بِکُمْ حَيَاةٌ لَتَرَوُنَّ مَا قَالَ النَّبِيُّ أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخْرِجُ مِلأَ کَفِّهِ-
محمد بن حکم نضر سعد محل حضرت عدی بن حاتم سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ ایک شخص نے آ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فاقہ کی شکایت کی دوسرے نے آپ کے پاس آ کر ڈاکہ زنی کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا عدی کیا تم نے حیرہ دیکھا ہے۔ میں نے عرض کیا میں نے وہ جگہ نہیں دیکھی لیکن اس کا محل وقوع مجھے معلوم ہے۔ فرمایا اگر تمہاری زندگی زیادہ ہوئی تو یقینا تم دیکھ لوگے کہ ایک بڑھیا عورت حیرہ سے چل کر کعبہ کا طواف کرے گی۔ خدا کے علاوہ اس کو کسی کا خوف نہ ہوگا میں نے اپنے جی میں کہا (قبیلہ) طے کے ڈاکو کدھر جائیں گے۔ جنہوں نے تمام شہروں میں آگ لگا رکھی ہے آپ نے فرمایا تمہاری زندگی زیادہ ہوئی تو یقینا تم کسری کے خزانوں کو فتح کرو گے۔ میں نے دریافت کیا کسری بن ہرمز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہاں (کسری بن ہرمز) اور اگر تمہاری زندگی زیادہ ہوئی تو یقینا تم دیکھ لوگے کہ ایک شخص مٹھی بھر سونا یا چاندی لے کر نکلے گا اور ایسے آدمی کو تلاش کرے گا جو اسے لے لے، لیکن اس کو کوئی نہ ملے گا جو یہ رقم لے لے۔ یقینا تم میں سے ہر شخص قیامت میں اللہ سے ملے گا (اس وقت) اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہوگا۔ جو اس کی گفتگو کا ترجمہ کرے۔ خدا تعالیٰ اس سے فرمائے گا کیا میں نے تیرے پاس رسول نہ بھیجا تھا جو تجھے تبلیغ کرتا؟ وہ عرض کرے گا ہاں پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا میں نے تجھ کو مال و زر اور فرزند سے نہیں نوازا تھا؟ وہ عرض کرے گا ہاں! پھر وہ اپنی داہنی جانب دیکھے گا دوزخ کے سوا کچھ نہ دیکھے گا حضرت عدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آگ سے بچو اگرچہ چھوارے کا ایک ٹکڑا ہی سہی یہ بھی نہ ہو سکے تو کوئی عمدہ بات کہہ کر ہی سہی۔ عدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں میں نے بڑھیا کو دیکھ لیا کہ حیرہ سے سفر شروع کرتی ہے اور کعبہ کا طواف کرتی ہے اور اللہ کے سوا اس کو کسی کا ڈر نہیں تھا اور میں ان لوگوں میں سے ہوں جنہوں نے کسریٰ بن ہرمز کے خزانے فتح کیے تھے اگر تم لوگوں کی زندگی زیادہ ہوئی تو جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ایک شخص مٹھی بھر سونا لے کر نکلے تو تم یہ بھی دیکھ لوگے۔ عبد الله، ابوعاصم، سعدان بن بشیر، ابومجاهد، محل بن خلیفه، حضرت عدی سے کنت عند النبی کے الفاظ بیان کرتے ہیں ۔
Narrated 'Adi bin Hatim: While I was in the city of the Prophet, a man came and complained to him (the Prophet, ) of destitution and poverty. Then another man came and complained of robbery (by highwaymen). The Prophet said, "Adi! Have you been to Al-Hira?" I said, "I haven't been to it, but I was informed about it." He said, "If you should live for a long time, you will certainly see that a lady in a Howdah traveling from Al-Hira will (safely reach Mecca and) perform the Tawaf of the Ka'ba, fearing none but Allah." I said to myself, "What will happen to the robbers of the tribe of Tai who have spread evil through out the country?" The Prophet further said. "If you should live long, the treasures of Khosrau will be opened (and taken as spoils)." I asked, "You mean Khosrau, son of Hurmuz?" He said, "Khosrau, son of Hurmuz; and if you should live long, you will see that one will carry a handful of gold or silver and go out looking for a person to accept it from him, but will find none to accept it from him. And any of you, when meeting Allah, will meet Him without needing an interpreter between him and Allah to interpret for him, and Allah will say to him: 'Didn't I send a messenger to teach you?' He will say: 'Yes.' Allah will say: 'Didn't I give you wealth and do you favors?' He will say: 'Yes.' Then he will look to his right and see nothing but Hell, and look to his left and see nothing but Hell." 'Adi further said: I heard the Prophet saying, "Save yourself from the (Hell) Fire even with half a date (to be given in charity) and if you do not find a half date, then with a good pleasant word." 'Adi added: (later on) I saw a lady in a Howdah traveling from Al-Hira till she performed the Tawaf of the Ka'ba, fearing none but Allah. And I was one of those who opened (conquered) the treasures of Khosrau, son of Hurmuz. If you should live long, you will see what the Prophet Abu-l-Qasim had said: 'A person will come out with a handful. of gold...etc.
حَدَّثَنِا سَعِيدُ بْنُ شُرَحْبِيلٍ حَدَّثَنَا لَيْثٌ عَنْ يَزِيدَ عَنْ أَبِي الْخَيْرِ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمًا فَصَلَّی عَلَی أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَی الْمَيِّتِ ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَی الْمِنْبَرِ فَقَالَ إِنِّي فَرَطُکُمْ وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْکُمْ إِنِّي وَاللَّهِ لَأَنْظُرُ إِلَی حَوْضِي الْآنَ وَإِنِّي قَدْ أُعْطِيتُ خَزَائِنَ مَفَاتِيحِ الْأَرْضِ وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَخَافُ بَعْدِي أَنْ تُشْرِکُوا وَلَکِنْ أَخَافُ أَنْ تَنَافَسُوا فِيهَا-
سعید لیث یزید ابوالخیر حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہداء احد پر اس طرح نماز پڑھی جس طرح میت پر نماز پڑھی جاتی ہے اس کے بعد منبر پر تشریف لا کر فرمایا میں تمہارا پیش خیمہ ہوں اور گواہ ہوں اور خدا کی قسم میں اس وقت حوض کوثر کی طرف دیکھ رہا ہوں اور بے شک مجھ کو تمام روئے زمین کے خزانوں کی کنجیاں عطا کی گئی ہیں۔ خدا کی قسم میں اپنے بعد تمہارے مشرک ہو جانے کا خوف نہیں کرتا بلکہ اس بات سے ڈر رہا ہوں کہ تم صرف دنیا میں لگ جاؤ۔
Narrated 'Uqba bin 'Amr: The Prophet once came out and offered the funeral prayer for the martyrs of Uhud, and proceeded to the pulpit and said, "I shall be your predecessor and a witness on you, and I am really looking at my sacred Fount now, and no doubt, I have been given the keys of the treasures of the world. By Allah, I am not afraid that you will worship others along with Allah, but I am afraid that you will envy and fight one another for worldly fortunes."
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ أُسَامَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أَشْرَفَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَی أُطُمٍ مِنْ الْآطَامِ فَقَالَ هَلْ تَرَوْنَ مَا أَرَی إِنِّي أَرَی الْفِتَنَ تَقَعُ خِلَالَ بُيُوتِکُمْ مَوَاقِعَ الْقَطْرِ-
ابونعیم ابن عیینہ زہری عروہ حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک دن) مدینہ کے بلند ٹیلہ پر چڑھ کر (صحابہ کو مخاطب کر کے) فرمایا کیا تم اس چیز کو دیکھتے ہو جس کو میں دیکھ رہا ہوں؟ میں وہ فتنے دیکھ رہا ہوں جو تمہارے گھروں پر اس طرح برس رہے ہیں جس طرح مینہ برستا ہے۔
Narrated Usama: Once the Prophet stood on one of the high buildings (of Medina) and said, "Do you see what I see? I see affliction pouring among your hours like raindrops."
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ زَيْنَبَ بِنْتَ أَبِي سَلَمَةَ حَدَّثَتْهُ أَنَّ أُمَّ حَبِيبَةَ بِنْتَ أَبِي سُفْيَانَ حَدَّثَتْهَا عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيْهَا فَزِعًا يَقُولُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَيْلٌ لِلْعَرَبِ مِنْ شَرٍّ قَدْ اقْتَرَبَ فُتِحَ الْيَوْمَ مِنْ رَدْمِ يَأْجُوجَ وَمأْجُوجَ مِثْلُ هَذَا وَحَلَّقَ بِإِصْبَعِهِ وَبِالَّتِي تَلِيهَا فَقَالَتْ زَيْنَبُ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَهْلِکُ وَفِينَا الصَّالِحُونَ قَالَ نَعَمْ إِذَا کَثُرَ الْخَبَثُ-
ابوالیمان شعیب زہری عروہ بن زبیر زینب ام حبیبہ حضرت زینب بنت جحش سے روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ایک دن) خوف کی حالت میں یہ کہتے ہوئے تشریف لے گئے کہ لا الہ الا اللہ عرب کی خرابی ہو گئی۔ اس شر سے جو نزدیک آ گیا ہے یاجوج ماجوج نے دیوار میں اس قدر سوراخ کر لیا جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگلیوں کا حلقہ بنا کر بتایا حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا ہم ہلاک ہو جائیں گے؟ حالانکہ ہم میں نیک لوگ بھی موجود ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہاں! جس وقت برائی زیادہ پھیل جائے گی
Narrated Zainab bint Jahsh: That the Prophet came to her in a state of fear saying, "None has the right to be worshiped but Allah! Woe to the Arabs because of evil that has come near. Today a hole has been made in the wall of Gog and Magog as large as this." pointing with two of his fingers making a circle. Zainab said, "I said, 'O Allah's Apostle! Shall we be destroyed though amongst us there are pious people? ' He said, 'Yes, if evil increases." Narrated Um Salama: The Prophet woke up and said, "Glorified be Allah: What great (how many) treasures have been sent down, and what great (how many ) afflictions have been sent down!"
وَعَنْ الزُّهْرِيِّ حَدَّثَتْنِي هِنْدُ بِنْتُ الْحَارِثِ أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ قَالَتْ اسْتَيْقَظَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ سُبْحَانَ اللَّهِ مَاذَا أُنْزِلَ مِنْ الْخَزَائِنِ وَمَاذَا أُنْزِلَ مِنْ الْفِتَنِ-
ایک دوسری روایت میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیدار ہو کر فرمایا کہ سبحان اللہ کس قدر خزانے نازل کئے گئے ہیں اور کس قدر فتنے لائے گئے ہیں۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ الْمَاجِشُونِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي صَعْصَعَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ لِي إِنِّي أَرَاکَ تُحِبُّ الْغَنَمَ وَتَتَّخِذُهَا فَأَصْلِحْهَا وَأَصْلِحْ رُعَامَهَا فَإِنِّي سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ يَأْتِي عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ تَکُونُ الْغَنَمُ فِيهِ خَيْرَ مَالِ الْمُسْلِمِ يَتْبَعُ بِهَا شَعَفَ الْجِبَالِ أَوْ سَعَفَ الْجِبَالِ فِي مَوَاقِعِ الْقَطْرِ يَفِرُّ بِدِينِهِ مِنْ الْفِتَنِ-
ابونعیم عبدالعزیز بن ابی سلمہ عبدالرحمن بن ابی صعصعہ ان کے والد حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا میں تم کو دیکھتا ہوں کہ تم بکریوں کو پسند کرتے ہو اور ان کو پالتے ہو تم ان کی ہر طرح نگہداشت کرو ان کی بیماری کا خیال رکھو۔ اس لئے کہ میں نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا جس میں مسلمان کا بہترین مال بکریاں ہوں گی کہ ان کو لے کر پہاڑ کے دروں میں پانی برسنے کی جگہوں میں چلا جائے گا اور فتنوں سے بھاگ کر اپنے دین کو بچالے گا۔
Narrated Sasaa: Abu Said Al-Khudr said to me, "I notice that you like sheep and you keep them; so take care of them and their food, for I have heard Allah's Apostle saying, 'A time will come upon the people when the best of a Muslim's property will be sheep, which he will take to the tops of mountains and to the places of rain-falls to run away with his religion in order to save it from afflictions.' "
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ الْأُوَيْسِيُّ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ عَنْ صَالِحِ بْنِ کَيْسَانَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ ابْنِ الْمُسَيَّبِ وَأَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَتَکُونُ فِتَنٌ الْقَاعِدُ فِيهَا خَيْرٌ مِنْ الْقَائِمِ وَالْقَائِمُ فِيهَا خَيْرٌ مِنْ الْمَاشِي وَالْمَاشِي فِيهَا خَيْرٌ مِنْ السَّاعِي وَمَنْ يُشْرِفْ لَهَا تَسْتَشْرِفْهُ وَمَنْ وَجَدَ مَلْجَأً أَوْ مَعَاذًا فَلْيَعُذْ بِهِ وَعَنْ ابْنِ شِهَابٍ حَدَّثَنِي أَبُو بَکْرِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مُطِيعِ بْنِ الْأَسْوَدِ عَنْ نَوْفَلِ بْنِ مُعَاوِيَةَ مِثْلَ حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ هَذَا إِلَّا أَنَّ أَبَا بَکْرٍ يَزِيدُ مِنْ الصَّلَاةِ صَلَاةٌ مَنْ فَاتَتْهُ فَکَأَنَّمَا وُتِرَ أَهْلَهُ وَمَالَهُ-
عبدالعزیز الاویسی ابراہیم صالح بن کیسان ابن شہاب ابن المسیب ابی سلمہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عنقریب فتنوں کا ظہور ہوگا، ان فتنوں کے زمانہ میں بیٹھنے والا بہتر ہوگا چلنے والے سے اور چلنے والا بہتر ہوگا دوڑنے والے سے، جو شخص ان فتنوں کی طرف جھانکے گا فتنہ اس کو اپنی طرف کھینچ لے گا (اس زمانہ میں) اگر کوئی پناہ کی جگہ پائے تو وہاں جا کر پناہ حاصل کر لے ابن شہاب ابوبکر بن عبدالرحمن بن الحارث عبدالرحمن بن مطیع بن الاسود نوفل بن معاویہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک روایت میں اتنے الفاظ زیادہ ہیں نمازوں میں سے ایک نماز ایسی ہے کہ جس شخص سے وہ فوت ہو جائے تو گویا اس کا گھر بار اور مال و متاع اس سے چھین لیا گیا۔
Narrated Abu Huraira: Allah's Apostle said, "There will be afflictions (and at the time) the sitting person will be better than the standing one, and the standing one will be better than the walking, and the walking will be better than the running. And whoever will look towards those afflictions, they will overtake him, and whoever will find a refuge or a shelter, should take refuge in it." The same narration is reported by Abu Bakr, with the addition, "(The Prophet said), 'Among the prayers there is a prayer the missing of which will be to one like losing one's family and property."
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کَثِيرٍ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ سَتَکُونُ أَثَرَةٌ وَأُمُورٌ تُنْکِرُونَهَا قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ فَمَا تَأْمُرُنَا قَالَ تُؤَدُّونَ الْحَقَّ الَّذِي عَلَيْکُمْ وَتَسْأَلُونَ اللَّهَ الَّذِي لَکُمْ-
محمد بن کثیر سفیان اعمش زید بن وہب حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عنقریب تم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے گی اور چند باتیں ایسی ہوں گی جن کو تم برا سمجھو گے صحابہ نے عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس معاملہ میں ہم کو کیا حکم دیتے ہیں؟ فرمایا تم پر جو حق ان کا ہو وہ ادا کرو اور اپنا حق اللہ تعالیٰ سے مانگو۔
Narrated Ibn Mas'ud: The Prophet said, "Soon others will be preferred to you, and there will be things which you will not like." The companions of the Prophet asked, "O Allah's Apostle! What do you order us to do (in this case)? " He said, "(I order you) to give the rights that are on you and to ask your rights from Allah."
حَدَّثَنِا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُهْلِکُ النَّاسَ هَذَا الْحَيُّ مِنْ قُرَيْشٍ قَالُوا فَمَا تَأْمُرُنَا قَالَ لَوْ أَنَّ النَّاسَ اعْتَزَلُوهُمْ قَالَ مَحْمُودٌ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ سَمِعْتُ أَبَا زُرْعَةَ-
محمد بن عبدالرحیم ابومعمر اسماعیل بن ابراہیم ابواسامہ شعبہ ابوتیاح ابوزرعہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ قبیلہ قریش عام لوگوں کو ہلاک کر دے گا صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم کو کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کاش لوگ ان سے علیحدہ رہتے۔ محمود نے کہا کہ بذریعہ ابوداؤد شعبہ ابوتیاح ابوزرعہ سے میں نے سنا۔
Narrated Abu Huraira: Allah's Apostle said, "This branch from Quraish will ruin the people." The companions of the Prophet asked, "What do you order us to do (then)?" He said, "I would suggest that the people keep away from them.''
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَکِّيُّ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ الْأُمَوِيُّ عَنْ جَدِّهِ قَالَ کُنْتُ مَعَ مَرْوَانَ وَأَبِي هُرَيْرَةَ فَسَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ سَمِعْتُ الصَّادِقَ الْمَصْدُوقُ يَقُولُ هَلَاکُ أُمَّتِي عَلَی يَدَيْ غِلْمَةٍ مِنْ قُرَيْشٍ فَقَالَ مَرْوَانُ غِلْمَةٌ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ إِنْ شِئْتَ أَنْ أُسَمِّيَهُمْ بَنِي فُلَانٍ وَبَنِي فُلَانٍ-
احمد بن محمد المکی عمرو بن یحیی بن سعید الاموی ان کے دادا نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ میں نے صادق و مصدوق حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ میری امت کی ہلاکت قریش کے چند نوجوانوں کے ہاتھ ہے مروان نے کہا چند نوجوانوں کے ہاتھ میں، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اگر تو چاہے تو میں ان کے نام بھی تجھ کو بتلا دوں۔
Narrated Said Al-Umawi: I was with Marwan and Abu Huraira and heard Abu Huraira saying, "I heard the trustworthy, truly inspired one (i.e. the Prophet ) saying, 'The destruction of my followers will be brought about by the hands of some youngsters from Quraish." Marwan asked, "Youngsters?" Abu Huraira said, "If you wish, I would name them: They are the children of so-and-so and the children of so-and-so."
حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ قَالَ حَدَّثَنِي ابْنُ جَابِرٍ قَالَ حَدَّثَنِي بُسْرُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الْحَضْرَمِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيُّ أَنَّهُ سَمِعَ حُذَيْفَةَ بْنَ الْيَمَانِ يَقُولُ کَانَ النَّاسُ يَسْأَلُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْخَيْرِ وَکُنْتُ أَسْأَلُهُ عَنْ الشَّرِّ مَخَافَةَ أَنْ يُدْرِکَنِي فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا کُنَّا فِي جَاهِلِيَّةٍ وَشَرٍّ فَجَائَنَا اللَّهُ بِهَذَا الْخَيْرِ فَهَلْ بَعْدَ هَذَا الْخَيْرِ مِنْ شَرٍّ قَالَ نَعَمْ قُلْتُ وَهَلْ بَعْدَ ذَلِکَ الشَّرِّ مِنْ خَيْرٍ قَالَ نَعَمْ وَفِيهِ دَخَنٌ قُلْتُ وَمَا دَخَنُهُ قَالَ قَوْمٌ يَهْدُونَ بِغَيْرِ هَدْيِي تَعْرِفُ مِنْهُمْ وَتُنْکِرُ قُلْتُ فَهَلْ بَعْدَ ذَلِکَ الْخَيْرِ مِنْ شَرٍّ قَالَ نَعَمْ دُعَاةٌ إِلَی أَبْوَابِ جَهَنَّمَ مَنْ أَجَابَهُمْ إِلَيْهَا قَذَفُوهُ فِيهَا قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ صِفْهُمْ لَنَا فَقَالَ هُمْ مِنْ جِلْدَتِنَا وَيَتَکَلَّمُونَ بِأَلْسِنَتِنَا قُلْتُ فَمَا تَأْمُرُنِي إِنْ أَدْرَکَنِي ذَلِکَ قَالَ تَلْزَمُ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَإِمَامَهُمْ قُلْتُ فَإِنْ لَمْ يَکُنْ لَهُمْ جَمَاعَةٌ وَلَا إِمَامٌ قَالَ فَاعْتَزِلْ تِلْکَ الْفِرَقَ کُلَّهَا وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ بِأَصْلِ شَجَرَةٍ حَتَّی يُدْرِکَکَ الْمَوْتُ وَأَنْتَ عَلَی ذَلِکَ-
یحیی ولید ابن جابر بسر ابوادریس سے بیان کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن یمان کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ لوگ (اکثر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کی بابت دریافت کرتے رہتے تھے اور میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شر اور فتنوں کی بابت پوچھا کرتا تھا اس خیال سے کہ کہیں میں کسی شر و فتنہ میں مبتلا نہ ہو جاؤں۔ ایک روز میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم جاہلیت میں گرفتار اور شر میں مبتلا تھے پھر خداوند تعالیٰ نے ہم کو اس بھلائی (یعنی اسلام) سے سرفراز کیا کیا اس بھلائی کے بعد بھی کوئی برائی پیش آنے والی ہے؟ فرمایا ہاں! میں نے عرض کیا اس بدی و برائی کے بعد بھلائی ہو گی؟ فرمایا ہاں! لیکن اس میں کدورتیں ہوں گی۔ میں نے عرض کیا وہ کدورت کیا ہو گی؟ فرمایا کدورت سے مراد وہ لوگ ہیں جو میرے طریقہ کے خلاف طریقہ اختیار کر کے اور لوگوں کو میری راہ کے خلاف راہ بتائیں گے تو ان میں دین بھی دیکھے گا اور دین کے خلاف امور بھی ہیں۔ عرض کیا کیا اس بھلائی کے بعد بھی برائی ہو گی؟ فرمایا ہاں! کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو دوزخ کے دروازوں پر کھڑے ہو کر لوگوں کو بلائیں گے جو ان کی بات مان لیں گے وہ ان کو دوزخ میں دھکیل دیں گے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ان کا حال مجھ سے بیان فرمائیے فرمایا وہ ہماری قوم سے ہوں گے اور ہماری زبان میں گفتگو کریں گے۔ میں نے عرض کیا اگر میں وہ زمانہ پاؤں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ کو کیا حکم دیتے ہیں فرمایا مسلمانوں کی جماعت کو لازم پکڑو اور ان کے امام کی اطاعت کرو، میں نے عرض کیا کہ اگر اس وقت مسلمانوں کی جماعت نہ ہو اور امام بھی نہ ہو۔ (تو کیا کروں) فرمایا تو ان تمام فرقوں سے علیحدہ ہو جا اگرچہ تجھے کسی درخت کی جڑ میں پناہ لینی پڑے یہاں تک کہ اسی حالت میں تجھ کو موت آ جائے۔
Narrated Hudhaifa bin Al-Yaman: The people used to ask Allah's Apostle about good, but I used to ask him about evil for fear that it might overtake me. Once I said, "O Allah's Apostle! We were in ignorance and in evil and Allah has bestowed upon us the present good; will there by any evil after this good?" He said, "Yes." I asked, "Will there be good after that evil?" He said, "Yes, but it would be tained with Dakhan (i.e. Little evil)." I asked, "What will its Dakhan be?" He said, "There will be some people who will lead (people) according to principles other than my tradition. You will see their actions and disapprove of them." I said, "Will there by any evil after that good?" He said, "Yes, there will be some people who will invite others to the doors of Hell, and whoever accepts their invitation to it will be thrown in it (by them)." I said, "O Allah's Apostle! Describe those people to us." He said, "They will belong to us and speak our language" I asked, "What do you order me to do if such a thing should take place in my life?" He said, "Adhere to the group of Muslims and their Chief." I asked, "If there is neither a group (of Muslims) nor a chief (what shall I do)?" He said, "Keep away from all those different sects, even if you had to bite (i.e. eat) the root of a tree, till you meet Allah while you are still in that state."
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى قَالَ حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنِي قَيْسٌ عَنْ حُذَيْفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ تَعَلَّمَ أَصْحَابِي الْخَيْرَ وَتَعَلَّمْتُ الشَّرَّ-
-
-
حَدَّثَنَا الْحَکَمُ بْنُ نَافِعٍ حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّی يَقْتَتِلَ فِئَتَانِ دَعْوَاهُمَا وَاحِدَةٌ-
حکم بن نافع شعیب زہری ابوسلمہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ دو گروہوں میں جنگ ہوگی اور ان دونوں کا دعویٰ ایک ہی ہوگا۔
Narrated Abu Huraira: Allah's Apostle said, "The Day of (Judgment) will not be established till there is a war between two groups whose claims (or religion) will be the same."
حَدَّثَنِا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ هَمَّامٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّی يَقْتَتِلَ فِئَتَانِ فَيَکُونَ بَيْنَهُمَا مَقْتَلَةٌ عَظِيمَةٌ دَعْوَاهُمَا وَاحِدَةٌ وَلَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّی يُبْعَثَ دَجَّالُونَ کَذَّابُونَ قَرِيبًا مِنْ ثَلَاثِينَ کُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ-
عبداللہ بن محمد عبدالرزاق معمر ہمام حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ دو گروہ آپس میں لڑیں گے ان کے درمیان جنگ عظیم ہوگی اور ان دونوں کا دعویٰ ایک ہی ہوگا اور اس وقت تک قیامت نہ ہوگی جب تک تقریبا تیس جھوٹ بولنے والے دجال پیدا نہ ہوں گے اور وہ سب یہی دعویٰ کریں گے کہ ہم اللہ کے رسول اور پیغمبر ہیں۔
Narrated Abu Huraira: The Prophet said, "The Hour will not be established till there is a war between two groups among whom there will be a great number of casualties, though the claims (or religion) of both of them will be one and the same. And the Hour will not be established till there appear about thirty liars, all of whom will be claiming to be the messengers of Allah. "
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقْسِمُ قِسْمًا أَتَاهُ ذُو الْخُوَيْصِرَةِ وَهُوَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ اعْدِلْ فَقَالَ وَيْلَکَ وَمَنْ يَعْدِلُ إِذَا لَمْ أَعْدِلْ قَدْ خِبْتَ وَخَسِرْتَ إِنْ لَمْ أَکُنْ أَعْدِلُ فَقَالَ عُمَرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ائْذَنْ لِي فِيهِ فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ فَقَالَ دَعْهُ فَإِنَّ لَهُ أَصْحَابًا يَحْقِرُ أَحَدُکُمْ صَلَاتَهُ مَعَ صَلَاتِهِمْ وَصِيَامَهُ مَعَ صِيَامِهِمْ يَقْرَئُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنْ الدِّينِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنْ الرَّمِيَّةِ يُنْظَرُ إِلَی نَصْلِهِ فَلَا يُوجَدُ فِيهِ شَيْئٌ ثُمَّ يُنْظَرُ إِلَی رِصَافِهِ فَمَا يُوجَدُ فِيهِ شَيْئٌ ثُمَّ يُنْظَرُ إِلَی نَضِيِّهِ وَهُوَ قِدْحُهُ فَلَا يُوجَدُ فِيهِ شَيْئٌ ثُمَّ يُنْظَرُ إِلَی قُذَذِهِ فَلَا يُوجَدُ فِيهِ شَيْئٌ قَدْ سَبَقَ الْفَرْثَ وَالدَّمَ آيَتُهُمْ رَجُلٌ أَسْوَدُ إِحْدَی عَضُدَيْهِ مِثْلُ ثَدْيِ الْمَرْأَةِ أَوْ مِثْلُ الْبَضْعَةِ تَدَرْدَرُ وَيَخْرُجُونَ عَلَی حِينِ فُرْقَةٍ مِنْ النَّاسِ قَالَ أَبُو سَعِيدٍ فَأَشْهَدُ أَنِّي سَمِعْتُ هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَشْهَدُ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ قَاتَلَهُمْ وَأَنَا مَعَهُ فَأَمَرَ بِذَلِکَ الرَّجُلِ فَالْتُمِسَ فَأُتِيَ بِهِ حَتَّی نَظَرْتُ إِلَيْهِ عَلَی نَعْتِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي نَعَتَهُ-
ابوالیمان شعیب زہری ابوسلمہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کچھ مال تقسیم کر رہے تھے کہ آپ کے پاس ذوالخویصرہ جو قبیلہ بنی تمیم کا ایک شخص تھا حاضر ہوا۔ اس نے کہا یا رسول اللہ! انصاف کیجئے! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تیری خرابی ہو اگر میں انصاف نہ کروں گا تو کون ہے جو انصاف کرے گا؟ اگر میں انصاف نہ کروں تو بہت ناکام و نامراد ہوں گا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھ کو اجازت دیجئے کہ میں اس کی گردن اڑا دوں فرمایا اس کو رہنے دو اس کے چند ساتھی ایسے ہیں جن کی نمازوں کو دیکھ کر تم اپنی نمازوں کو حقیر سمجھو گے۔ اور ان کے روزوں کے سامنے اپنے روزہ کو کمتر وہ قرآن کی تلاوت کریں گے مگر وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا یہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح کمان سے تیر نکل جاتا ہے اس کے پکڑنے کی جگہ دیکھی جائے تو اس میں کوئی چیز معلوم نہ ہو گی۔ اس کے پر دیکھے جائیں تو ان میں کوئی چیز معلوم نہ ہو گی۔ اس کے پر اور پکڑنے کی جگہ کے درمیانی مقام کو دیکھا جائے تو اس میں کوئی چیز دکھائی نہ دے گی حالانکہ وہ گندگی اور خون سے ہو کر گزرا ہے ان کی نشانی یہ ہے کہ ان میں ایک سیاہ آدمی ہوگا اس کا ایک مونڈھا عورت کے پستان یا پھڑکتے ہوئے گوشت کے لوتھڑے کی طرح ہوگا جب لوگوں میں اختلاف پیدا ہوگا تو یہ ظاہر ہوں گے۔ حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں اس امر کی شہادت دیتا ہوں کہ میں نے یہ حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے اور یہ کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن ابی طالب نے ان لوگوں سے جنگ کی ہے۔ میں ان کے ساتھ تھا انہوں نے حکم دیا وہ شخص تلاش کر کے لایا گیا میں نے اس میں وہی خصوصیات پائیں جن کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں بیان فرمایا تھا۔
Narrated Abu Said Al-Khudri: While we were with Allah's Apostle who was distributing (i.e. some property), there came Dhu-l-Khuwaisira, a man from the tribe of Bani Tamim and said, "O Allah's Apostle! Do Justice." The Prophet said, "Woe to you! Who could do justice if I did not? I would be a desperate loser if I did not do justice." 'Umar said, "O Allah's Apostle! Allow me to chop his head off." The Prophet said, "Leave him, for he has companions who pray and fast in such a way that you will consider your fasting negligible in comparison to theirs. They recite Qur'an but it does not go beyond their throats (i.e. they do not act on it) and they will desert Islam as an arrow goes through a victim's body, so that the hunter, on looking at the arrow's blade, would see nothing on it; he would look at its Risaf and see nothing: he would look at its Na,di and see nothing, and he would look at its Qudhadh ( 1 ) and see nothing (neither meat nor blood), for the arrow has been too fast even for the blood and excretions to smear. The sign by which they will be recognized is that among them there will be a black man, one of whose arms will resemble a woman's breast or a lump of meat moving loosely. Those people will appear when there will be differences amongst the people." I testify that I heard this narration from Allah's Apostle and I testify that 'Ali bin Abi Talib fought with such people, and I was in his company. He ordered that the man (described by the Prophet ) should be looked for. The man was brought and I looked at him and noticed that he looked exactly as the Prophet had described him.
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کَثِيرٍ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ خَيْثَمَةَ عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ قَالَ قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِذَا حَدَّثْتُکُمْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَأَنْ أَخِرَّ مِنْ السَّمَائِ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَکْذِبَ عَلَيْهِ وَإِذَا حَدَّثْتُکُمْ فِيمَا بَيْنِي وَبَيْنَکُمْ فَإِنَّ الْحَرْبَ خَدْعَةٌ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ يَأْتِي فِي آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ حُدَثَائُ الْأَسْنَانِ سُفَهَائُ الْأَحْلَامِ يَقُولُونَ مِنْ خَيْرِ قَوْلِ الْبَرِيَّةِ يَمْرُقُونَ مِنْ الْإِسْلَامِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنْ الرَّمِيَّةِ لَا يُجَاوِزُ إِيمَانُهُمْ حَنَاجِرَهُمْ فَأَيْنَمَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاقْتُلُوهُمْ فَإِنَّ قَتْلَهُمْ أَجْرٌ لِمَنْ قَتَلَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ-
محمد بن کثیر سفیان اعمش خیثمہ حضرت سوید بن غفلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث تمہارے سامنے بیان کرتا ہوں تو بے شک یہ بات کہ میں آسمان سے گر پڑوں مجھ کو زیادہ پسند ہے بہ نسبت اس کے کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹا بہتان باندھوں اور جب تم سے میں وہ باتیں بیان کروں جو میرے اور تمہارے درمیان ہیں تو بے شک لڑائی ایک فریب ہے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آخری زمانہ میں کچھ لوگ نوعمر بے وقوف ہوں گے جو تمام مخلوق سے بہترین باتیں کریں گے وہ لوگ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے کمان سے تیر نکل جاتا ہے ایمان ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گا جب تم ان سے ملو تو ان کو قتل کر دینا قیامت کے روز اس شخص کے لئے بڑا اجر ہے جو ان کو قتل کر دے گا۔
Narrated 'Ali: I relate the traditions of Allah's Apostle to you for I would rather fall from the sky than attribute something to him falsely. But when I tell you a thing which is between you and me, then no doubt, war is guile. I heard Allah's Apostle saying, "In the last days of this world there will appear some young foolish people who will use (in their claim) the best speech of all people (i.e. the Qur'an) and they will abandon Islam as an arrow going through the game. Their belief will not go beyond their throats (i.e. they will have practically no belief), so wherever you meet them, kill them, for he who kills them shall get a reward on the Day of Resurrection."
حَدَّثَنِا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا يَحْيَی عَنْ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا قَيْسٌ عَنْ خَبَّابِ بْنِ الْأَرَتِّ قَالَ شَکَوْنَا إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُتَوَسِّدٌ بُرْدَةً لَهُ فِي ظِلِّ الْکَعْبَةِ قُلْنَا لَهُ أَلَا تَسْتَنْصِرُ لَنَا أَلَا تَدْعُو اللَّهَ لَنَا قَالَ کَانَ الرَّجُلُ فِيمَنْ قَبْلَکُمْ يُحْفَرُ لَهُ فِي الْأَرْضِ فَيُجْعَلُ فِيهِ فَيُجَائُ بِالْمِنْشَارِ فَيُوضَعُ عَلَی رَأْسِهِ فَيُشَقُّ بِاثْنَتَيْنِ وَمَا يَصُدُّهُ ذَلِکَ عَنْ دِينِهِ وَيُمْشَطُ بِأَمْشَاطِ الْحَدِيدِ مَا دُونَ لَحْمِهِ مِنْ عَظْمٍ أَوْ عَصَبٍ وَمَا يَصُدُّهُ ذَلِکَ عَنْ دِينِهِ وَاللَّهِ لَيُتِمَّنَّ هَذَا الْأَمْرَ حَتَّی يَسِيرَ الرَّاکِبُ مِنْ صَنْعَائَ إِلَی حَضْرَمَوْتَ لَا يَخَافُ إِلَّا اللَّهَ أَوْ الذِّئْبَ عَلَی غَنَمِهِ وَلَکِنَّکُمْ تَسْتَعْجِلُونَ-
محمد یحیی اسماعیل قیس حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس وقت بطور شکایت کے عرض کیا جب کہ آپ اپنی چادر اوڑھے ہوئے کعبہ کے سایہ میں تکیہ لگائے بیٹھے تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے لئے مدد کیوں نہیں مانگتے ہمارے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا تعالیٰ سے دعا کیوں نہیں کرتے؟ فرمایا تم سے پہلے بعض لوگ ایسے ہوتے تھے کہ ان کے لئے زمین میں گڑھا کھودا جاتا وہ اس میں کھڑے کردیئے جاتے پھر آرا چلایا جاتا اور ان کے سر پر رکھ کر دو ٹکڑے کر دیئے جاتے اور یہ عمل ان کو ان کے دین سے نہ روکتا تھا نیز لوہے کی کنگھیاں ان کے گوشت کے نیچے اور پٹھوں پر کی جاتی تھیں اور یہ بات ان کو ان کے دین سے نہ روکتی تھی خدا کی قسم! یہ دین (اسلام) کامل نہ ہوگا حتیٰ کہ اگر ایک سوار صنعاء سے حضرموت تک چلا جائے گا تو اس کو خدا تعالیٰ کے سوا کسی کا خوف نہ ہوگا اور نہ کوئی شخص اپنی بکریوں پر بھیڑیئے کا خوف کرے گا لیکن اس معاملہ میں تم عجلت چاہتے ہو۔
Narrated Khabbab bin Al-Arat: We complained to Allah's Apostle (of the persecution inflicted on us by the infidels) while he was sitting in the shade of the Ka'ba, leaning over his Burd (i.e. covering sheet). We said to him, "Would you seek help for us? Would you pray to Allah for us?" He said, "Among the nations before you a (believing) man would be put in a ditch that was dug for him, and a saw would be put over his head and he would be cut into two pieces; yet that (torture) would not make him give up his religion. His body would be combed with iron combs that would remove his flesh from the bones and nerves, yet that would not make him abandon his religion. By Allah, this religion (i.e. Islam) will prevail till a traveler from Sana (in Yemen) to Hadrarmaut will fear none but Allah, or a wolf as regards his sheep, but you (people) are hasty.
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ سَعْدٍ حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ قَالَ أَنْبَأَنِي مُوسَی بْنُ أَنَسٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ افْتَقَدَ ثَابِتَ بْنَ قَيْسٍ فَقَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَا أَعْلَمُ لَکَ عِلْمَهُ فَأَتَاهُ فَوَجَدَهُ جَالِسًا فِي بَيْتِهِ مُنَکِّسًا رَأْسَهُ فَقَالَ مَا شَأْنُکَ فَقَالَ شَرٌّ کَانَ يَرْفَعُ صَوْتَهُ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ فَأَتَی الرَّجُلُ فَأَخْبَرَهُ أَنَّهُ قَالَ کَذَا وَکَذَا فَقَالَ مُوسَی بْنُ أَنَسٍ فَرَجَعَ الْمَرَّةَ الْآخِرَةَ بِبِشَارَةٍ عَظِيمَةٍ فَقَالَ اذْهَبْ إِلَيْهِ فَقُلْ لَهُ إِنَّکَ لَسْتَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ وَلَکِنْ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ-
علی بن عبداللہ ازہر ابن عون موسیٰ بن انس حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت بن قیس کو (ایک روز) نہ دیکھ کر فرمایا کہ کوئی شخص ہے جو ثابت کی خبر لائے؟ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں اس کی خبر لاتا ہوں چنانچہ وہ جوانمرد ثابت بن قیس کے پاس گیا اور ان کو ان کے گھر میں سرنگوں بیٹھا ہوا پایا۔ اس نے دریافت کیا تمہارا کیا حال ہے؟ ثابت نے کہا برا حال ہے یہ نالائق اپنی آواز کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے بلند کرتا تھا۔ اس لئے اس کا نیک عمل برباد ہو گیا اور دوزخی ہو گیا چنانچہ اس شخص نے واپس آ کر حضرت کو خبر دی کہ ثابت نے ایسا ایسا کہا ہے۔ موسیٰ بن انس کہتے ہیں پھر وہ شخص دوبارہ ایک بڑی بشارت لے کر ثابت کے پاس آیا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو ثابت کے پاس جا اور ان سے کہو تم دوزخیوں میں سے نہیں بلکہ جنتی ہو۔
Narrated Anas bin Malik: The Prophet noticed the absence of Thabit bin Qais. A man said, "O Allah's Apostle! I shall bring you his news." So he went to him and saw him sitting in his house drooping his head (sadly). He asked Thabit, "What's the matter?" Thabit replied, "An evil situation: A man used to raise his voice over the voice of the Prophet and so all his good deeds have been annulled and he is from the people of Hell." The man went back and told the Prophet that Thabit had said so-and-so. (The sub-narrator, Musa bin Anas said, "The man went to Thabit again with glad tidings)." The Prophet said to him, "Go and say to Thabit: 'You are not from the people of Fire, but from the people of Paradise."
حَدَّثَنِا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ سَمِعْتُ الْبَرَائَ بْنَ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَرَأَ رَجُلٌ الْکَهْفَ وَفِي الدَّارِ الدَّابَّةُ فَجَعَلَتْ تَنْفِرُ فَسَلَّمَ فَإِذَا ضَبَابَةٌ أَوْ سَحَابَةٌ غَشِيَتْهُ فَذَکَرَهُ لِلنَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ اقْرَأْ فُلَانُ فَإِنَّهَا السَّکِينَةُ نَزَلَتْ لِلْقُرْآنِ أَوْ تَنَزَّلَتْ لِلْقُرْآنِ-
محمد بن بشار غندر شعبہ ابواسحاق سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے براء بن عازب کو یہ کہتے ہوئے سنا ایک شخص نے (نماز میں) سورت کہف پڑھی جس کے گھر میں ایک گھوڑا بندھا تھا وہ بدکنے لگا جب اس نے سلام پھیرا تو دیکھا کہ ایک ابر کا ٹکڑا اس پر سایہ فگن ہے پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے فلاں! پڑھے جا اس لئے کہ یہ سکینہ قرآن پاک کی وجہ سے نازل ہوئی تھی۔
Narrated Al-Bara' bin 'Azib: A man recited Surat-al-Kahf (in his prayer) and in the house there was a (riding) animal which got frightened and started jumping. The man finished his prayer with Taslim, but behold! A mist or a cloud hovered over him. He informed the Prophet of that and the Prophet said, "O so-and-so! Recite, for this (mist or cloud) was a sign of peace descending for the recitation of Quran."
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يَزِيدَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ أَبُو الْحَسَنِ الْحَرَّانِيُّ حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُعَاوِيَةَ حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ سَمِعْتُ الْبَرَائَ بْنَ عَازِبٍ يَقُولُ جَائَ أَبُو بَکْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَی أَبِي فِي مَنْزِلِهِ فَاشْتَرَی مِنْهُ رَحْلًا فَقَالَ لِعَازِبٍ ابْعَثْ ابْنَکَ يَحْمِلْهُ مَعِي قَالَ فَحَمَلْتُهُ مَعَهُ وَخَرَجَ أَبِي يَنْتَقِدُ ثَمَنَهُ فَقَالَ لَهُ أَبِي يَا أَبَا بَکْرٍ حَدِّثْنِي کَيْفَ صَنَعْتُمَا حِينَ سَرَيْتَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ نَعَمْ أَسْرَيْنَا لَيْلَتَنَا وَمِنْ الْغَدِ حَتَّی قَامَ قَائِمُ الظَّهِيرَةِ وَخَلَا الطَّرِيقُ لَا يَمُرُّ فِيهِ أَحَدٌ فَرُفِعَتْ لَنَا صَخْرَةٌ طَوِيلَةٌ لَهَا ظِلٌّ لَمْ تَأْتِ عَلَيْهِ الشَّمْسُ فَنَزَلْنَا عِنْدَهُ وَسَوَّيْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَکَانًا بِيَدِي يَنَامُ عَلَيْهِ وَبَسَطْتُ فِيهِ فَرْوَةً وَقُلْتُ نَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَأَنَا أَنْفُضُ لَکَ مَا حَوْلَکَ فَنَامَ وَخَرَجْتُ أَنْفُضُ مَا حَوْلَهُ فَإِذَا أَنَا بِرَاعٍ مُقْبِلٍ بِغَنَمِهِ إِلَی الصَّخْرَةِ يُرِيدُ مِنْهَا مِثْلَ الَّذِي أَرَدْنَا فَقُلْتُ لَهُ لِمَنْ أَنْتَ يَا غُلَامُ فَقَالَ لِرَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ أَوْ مَکَّةَ قُلْتُ أَفِي غَنَمِکَ لَبَنٌ قَالَ نَعَمْ قُلْتُ أَفَتَحْلُبُ قَالَ نَعَمْ فَأَخَذَ شَاةً فَقُلْتُ انْفُضْ الضَّرْعَ مِنْ التُّرَابِ وَالشَّعَرِ وَالْقَذَی قَالَ فَرَأَيْتُ الْبَرَائَ يَضْرِبُ إِحْدَی يَدَيْهِ عَلَی الْأُخْرَی يَنْفُضُ فَحَلَبَ فِي قَعْبٍ کُثْبَةً مِنْ لَبَنٍ وَمَعِي إِدَاوَةٌ حَمَلْتُهَا لِلنَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْتَوِي مِنْهَا يَشْرَبُ وَيَتَوَضَّأُ فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَکَرِهْتُ أَنْ أُوقِظَهُ فَوَافَقْتُهُ حِينَ اسْتَيْقَظَ فَصَبَبْتُ مِنْ الْمَائِ عَلَی اللَّبَنِ حَتَّی بَرَدَ أَسْفَلُهُ فَقُلْتُ اشْرَبْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ فَشَرِبَ حَتَّی رَضِيتُ ثُمَّ قَالَ أَلَمْ يَأْنِ لِلرَّحِيلِ قُلْتُ بَلَی قَالَ فَارْتَحَلْنَا بَعْدَمَا مَالَتْ الشَّمْسُ وَاتَّبَعَنَا سُرَاقَةُ بْنُ مَالِکٍ فَقُلْتُ أُتِينَا يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا فَدَعَا عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَارْتَطَمَتْ بِهِ فَرَسُهُ إِلَی بَطْنِهَا أُرَی فِي جَلَدٍ مِنْ الْأَرْضِ شَکَّ زُهَيْرٌ فَقَالَ إِنِّي أُرَاکُمَا قَدْ دَعَوْتُمَا عَلَيَّ فَادْعُوَا لِي فَاللَّهُ لَکُمَا أَنْ أَرُدَّ عَنْکُمَا الطَّلَبَ فَدَعَا لَهُ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَجَا فَجَعَلَ لَا يَلْقَی أَحَدًا إِلَّا قَالَ قَدْ کَفَيْتُکُمْ مَا هُنَا فَلَا يَلْقَی أَحَدًا إِلَّا رَدَّهُ قَالَ وَوَفَی لَنَا-
محمد بن یوسف احمد زبیر ابواسحاق حضرت براء بن عازب سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں (ایک دن) حضرت ابوبکر میرے والد کے پاس گھر تشریف لائے اور ان سے ایک کجاوہ خریدا پھر فرمایا اپنے بیٹے سے کہہ دو کہ وہ اس کو میرے ساتھ لے چلے پھر ان سے میرے والد نے کہا مجھ کو بتلائیے جب آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ہجرت کو چلے تھے تو اس وقت آپ دونوں پر کیا گزری حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ (غار سے نکل کر) ہم ساری رات چلے اور دوسرے دن بھی آدھے دن تک سفر کرتے رہے جب دوپہر ہوگئی اور راستہ بالکل سونا ہو گیا اس پر کوئی شخص چلنے والا نہ رہا تو ہم کو ایک بڑا پتھر نظر آیا جس کے نیچے سایہ تھا دھوپ نہ تھی ہم اس کے پاس اتر پڑے اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک جگہ اپنے ہاتھوں سے صاف و ہموار کر دی تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس پر سو رہیں۔ پہر اس پر ایک پوستین بچھا کر عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ تھوڑی دیر کے لئے آرام فرمائیے اور میں ڈھونڈ کر ادھر ادھر سے دودھ لاتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سو رہے اور میں دودھ لینے کے لئے ادھر ادھر چلا ناگہاں میں نے ایک چرواہے کو دیکھا جو اپنی بکریاں لئے ہوئے اسی پتھر کی طرف آ رہا تھا وہ بھی اس پتھر سے وہی بات چاہتا تھا جو ہم نے چاہی تھی میں نے اس سے دریافت کیا تو کس کا غلام ہے؟ اس نے مدینہ یا مکہ والوں میں سے کسی شخص کا بتلایا میں نے پوچھا کیا تیری بکریوں میں دودھ ہے؟ اس نے کہا ہاں میں نے کہا تو دودھ دوہے گا؟ اس نے کہا ہاں! یہ کہہ کر اس نے ایک بکری کو پکڑ لیا میں نے کہا اس کے تھن سے مٹی و نجاست اور بال صاف کرلو اسحاق کہتے ہیں میں نے براء کو دیکھا وہ اپنا ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر مار کر جھاڑتے کہ اس طرح اس نے تھن جھاڑ کر صاف کیا اور ایک پیالہ میں دودھ دھو دیا۔ میرے پاس ایک چھاگل تھی میں اس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر اپنے ہمراہ رکھتا تھا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے پانی پی سکیں اور وضو کر سکیں۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس واپس آیا اور مجھے آپ کو بیدار کرنا اچھا نہ معلوم ہوا لیکن میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس حال میں پایا کہ آپ بیدار ہو چکے تھے پھر میں نے دودھ میں تھوڑا سا پانی ڈالا حتیٰ کہ وہ ٹھنڈا ہوگیا اور پھر عرض کیا یا رسول اللہ پی لیجئے آپ نے پی لیا میں بہت خوش ہوا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا ابھی کوچ کا وقت نہیں آیا؟ میں نے عرض کیا ہاں! وقت آ گیا چنانچہ آفتاب ڈھل جانے کے بعد ہم نے کوچ کیا اور سراقہ بن مالک ہمارے پیچھے پیچھے چلا جس کو مکہ کے کافروں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاش میں بھیجا تھا اور سو اونٹ مقرر کیا تھا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہمارا کوئی تعاقب کر رہا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم فکر نہ کرو خدا ہمارے ساتھ ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سراقہ پر بد دعا کی تو اس کا گھوڑا پیٹ تک مع اس کے زمین میں دھنس گیا زمین کے سخت اور پتھریلے ہونے کا زبیر نے شک کیا ہے۔ سراقہ نے کہا میں جانتا ہوں کہ تم دونوں نے میرے لئے بد دعا کی ہے تم میرے لئے دعا کرو تاکہ میں زمین سے نکل آؤں بخدا میں تمہاری تلاش کرنے والوں کو واپس کر دوں گا۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے لئے دعا کی اور اس نے نجات پائی پھر سراقہ جس کسی سے ملتا تو کہتا میں تلاش کر چکا ہوں غرض جس سے ملتا اس کو واپس کر دیتا ابوبکر کہتے ہیں اس نے اپنا وعدہ پورا کیا۔
Narrated Al-Bara' bin 'Azib: Abu Bakr came to my father who was at home and purchased a saddle from him. He said to 'Azib. "Tell your son to carry it with me." So I carried it with him and my father followed us so as to take the price (of the saddle). My father said, "O Abu Bakr! Tell me what happened to you on your night journey with Allah's Apostle (during Migration)." He said, "Yes, we travelled the whole night and also the next day till midday. when nobody could be seen on the way ( because of the severe heat) . Then there appeared a long rock having shade beneath it, and the sunshine had not come to it yet. So we dismounted there and I levelled a place and covered it with an animal hide or dry grass for the Prophet to sleep on (for a while). I then said, 'Sleep, O Allah's Apostle, and I will guard you.' So he slept and I went out to guard him. Suddenly I saw a shepherd coming with his sheep to that rock with the same intention we had when we came to it. I asked (him). 'To whom do you belong, O boy?' He replied, 'I belong to a man from Medina or Mecca.' I said, 'Do your sheep have milk?' He said, 'Yes.' I said, 'Will you milk for us?' He said, 'Yes.' He caught hold of a sheep and I asked him to clean its teat from dust, hairs and dirt. (The sub-narrator said that he saw Al-Bara' striking one of his hands with the other, demonstrating how the shepherd removed the dust.) The shepherd milked a little milk in a wooden container and I had a leather container which I carried for the Prophet to drink and perform the ablution from. I went to the Prophet, hating to wake him up, but when I reached there, the Prophet had already awakened; so I poured water over the middle part of the milk container, till the milk was cold. Then I said, 'Drink, O Allah's Apostle!' He drank till I was pleased. Then he asked, 'Has the time for our departure come?' I said, 'Yes.' So we departed after midday. Suraqa bin Malik followed us and I said, 'We have been discovered, O Allah's Apostle!' He said, Don't grieve for Allah is with us.' The Prophet invoked evil on him (i.e. Suraqa) and so the legs of his horse sank into the earth up to its belly. (The subnarrator, Zuhair is not sure whether Abu Bakr said, "(It sank) into solid earth.") Suraqa said, 'I see that you have invoked evil on me. Please invoke good on me, and by Allah, I will cause those who are seeking after you to return.' The Prophet invoked good on him and he was saved. Then, whenever he met somebody on the way, he would say, 'I have looked for him here in vain.' So he caused whomever he met to return. Thus Suraqa fulfilled his promise."
حَدَّثَنَا مُعَلَّی بْنُ أَسَدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُخْتَارٍ حَدَّثَنَا خَالِدٌ عَنْ عِکْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَی أَعْرَابِيٍّ يَعُودُهُ قَالَ وَکَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ عَلَی مَرِيضٍ يَعُودُهُ قَالَ لَا بَأْسَ طَهُورٌ إِنْ شَائَ اللَّهُ فَقَالَ لَهُ لَا بَأْسَ طَهُورٌ إِنْ شَائَ اللَّهُ قَالَ قُلْتُ طَهُورٌ کَلَّا بَلْ هِيَ حُمَّی تَفُورُ أَوْ تَثُورُ عَلَی شَيْخٍ کَبِيرٍ تُزِيرُهُ الْقُبُورَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَعَمْ إِذًا-
معلیٰ بن اسد عبدالعزیز بن مختار خالد عکرمہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ (ایک دن) رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم عیادت کرنے کے لئے ایک اعرابی کے پاس تشریف لے گئے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی کی عیادت کو جاتے تو فرماتے خدا نے چاہا تو یہ اچھا ہو جائے گا اور اس کے گناہ دہل گئے۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے بھی کہا (لا باس طہور ان شاء اللہ تعالیٰ) اگر خدا نے چاہا تو کچھ حرج نہیں۔ گناہ کی معافی کا سبب ہے، اور اعرابی نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (طہور) کہتے ہیں ہرگز طہور نہیں بلکہ یہ تو ایک مارنے والا بخار ہے جو مجھ بوڑھے کو قبر تک پہنچا دے گا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں اب یہی ہوگا۔
Narrated Ibn 'Abbas: The Prophet paid a visit to a sick bedouin. The Prophet when visiting a patient used to say, "No harm will befall you! May Allah cure you! May Allah cure you!" So the Prophet said to the bedouin. "No harm will befall you. May Allah cure you!" The bedouin said, "You say, may Allah cure me? No, for it is a fever which boils in (the body of) an old man, and will lead him to the grave." The Prophet said, "Yes, then may it be as you say."
حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ کَانَ رَجُلٌ نَصْرَانِيًّا فَأَسْلَمَ وَقَرَأَ الْبَقَرَةَ وَآلَ عِمْرَانَ فَکَانَ يَکْتُبُ لِلنَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَادَ نَصْرَانِيًّا فَکَانَ يَقُولُ مَا يَدْرِي مُحَمَّدٌ إِلَّا مَا کَتَبْتُ لَهُ فَأَمَاتَهُ اللَّهُ فَدَفَنُوهُ فَأَصْبَحَ وَقَدْ لَفَظَتْهُ الْأَرْضُ فَقَالُوا هَذَا فِعْلُ مُحَمَّدٍ وَأَصْحَابِهِ لَمَّا هَرَبَ مِنْهُمْ نَبَشُوا عَنْ صَاحِبِنَا فَأَلْقَوْهُ فَحَفَرُوا لَهُ فَأَعْمَقُوا فَأَصْبَحَ وَقَدْ لَفَظَتْهُ الْأَرْضُ فَقَالُوا هَذَا فِعْلُ مُحَمَّدٍ وَأَصْحَابِهِ نَبَشُوا عَنْ صَاحِبِنَا لَمَّا هَرَبَ مِنْهُمْ فَأَلْقَوْهُ فَحَفَرُوا لَهُ وَأَعْمَقُوا لَهُ فِي الْأَرْضِ مَا اسْتَطَاعُوا فَأَصْبَحَ وَقَدْ لَفَظَتْهُ الْأَرْضُ فَعَلِمُوا أَنَّهُ لَيْسَ مِنْ النَّاسِ فَأَلْقَوْهُ-
ابو معمر عبدالوارث عبدالعزیز حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک نصرانی اسلام لایا اور اس نے سورت بقرہ اور سورت آل عمران پڑھی پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کاتب وحی مقرر ہو گیا اس کے بعد پھر وہ نصرانی ہو گیا اور مشرکوں سے جا ملا وہ کہا کرتا کہ محمد صرف اتنا ہی جانتے ہیں جتنا میں نے ان کو لکھ دیا ہے پھر اس کو خدا تعالیٰ نے موت دی تو لوگوں نے اس کو دفن کر دیا جب صبح کو دیکھا گیا تو زمین نے اس کی لاش کو باہر پھینک دیا تھا لوگوں نے کہا یہ محمد اور اس کے ساتھیوں کا فعل ہے چونکہ ان کے ہاں سے بھاگ آیا تھا اس لئے انہوں نے اس کی قبر کھود ڈالیچنانچہ ان لوگوں نے اس کو دوبارہ حتی الامکان بہت گہرائی میں دفن کیا۔ دوسری صبح بھی اس کی لاش کو جب زمین نے باہر پھینک دیا تو لوگوں نے کہا یہ محمد اور ان کے اصحاب کا فعل ہے کیونکہ وہ بھاگ آیا تھا پھر انہوں نے جتنا گہرا کھود سکتے تھے کھود کر اس کی لاش کو دفن کر دیا لیکن تیسری صبح بھی جب زمین نے اس کی لاش کو باہر پھینک دیا تب لوگوں نے سمجھا کہ یہ بات آدمیوں کی طرف سے نہیں تب انہوں نے یوں ہی پڑا رہنے دیا۔
Narrated Anas: There was a Christian who embraced Islam and read Surat-al-Baqara and Al-Imran, and he used to write (the revelations) for the Prophet. Later on he returned to Christianity again and he used to say: "Muhammad knows nothing but what I have written for him." Then Allah caused him to die, and the people buried him, but in the morning they saw that the earth had thrown his body out. They said, "This is the act of Muhammad and his companions. They dug the grave of our companion and took his body out of it because he had run away from them." They again dug the grave deeply for him, but in the morning they again saw that the earth had thrown his body out. They said, "This is an act of Muhammad and his companions. They dug the grave of our companion and threw his body outside it, for he had run away from them." They dug the grave for him as deep as they could, but in the morning they again saw that the earth had thrown his body out. So they believed that what had befallen him was not done by human beings and had to leave him thrown (on the ground).
حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ بُکَيْرٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ يُونُسَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ وَأَخْبَرَنِي ابْنُ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا هَلَکَ کِسْرَی فَلَا کِسْرَی بَعْدَهُ وَإِذَا هَلَکَ قَيْصَرُ فَلَا قَيْصَرَ بَعْدَهُ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَتُنْفِقُنَّ کُنُوزَهُمَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ-
یحیی لیث یونس ابن شہاب ابن المسیب حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب کسری ہلاک ہو جائے گا تو اس کے بعد کوئی کسریٰ نہیں ہوگا اور جب قیصر ہلاک ہو جائے گا تو اس کے بعد کوئی قیصر نہ ہوگا۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم عنقریب ان لوگوں کے خزانے اللہ تعالیٰ کی راہ میں صرف کرو گے۔
Narrated Abu Huraira: Allah's Apostle said, "When Khosrau perishes, there will be no (more) Khosrau after him, and when Caesar perishes, there will be no more Caesar after him. By Him in Whose Hands Muhammad's life is, you will spend the treasures of both of them in Allah's Cause."
حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رَفَعَهُ قَالَ إِذَا هَلَکَ کِسْرَی فَلَا کِسْرَی بَعْدَهُ وَذَکَرَ وَقَالَ لَتُنْفَقَنَّ کُنُوزُهُمَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ-
قبیصہ سفیان عبدالملک حضرت جابر بن سمرہ سے مرفوعا روایت کرتے ہیں فرمایا جب کسری ہلاک ہو جائے گا تو اس کے بعد کوئی کسری نہ ہوگا اور جب قیصر ہلاک ہو جائے گا تو اس کے بعد کوئی قیصر نہ ہوگا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا کہ (عنقریب) تم ان دونوں کے خزانے اللہ تعالیٰ کی راہ میں صرف کرو گے۔
Narrated Jabir bin Samura: The Prophet said, "When Khosrau perishes, there will be no more Khosrau a after him, and when Caesar perishes, there will be no more Caesar after him," The Prophet also said, "You will spend the treasures of both of them in Allah's Cause."
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَدِمَ مُسَيْلِمَةُ الْکَذَّابُ عَلَی عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَعَلَ يَقُولُ إِنْ جَعَلَ لِي مُحَمَّدٌ الْأَمْرَ مِنْ بَعْدِهِ تَبِعْتُهُ وَقَدِمَهَا فِي بَشَرٍ کَثِيرٍ مِنْ قَوْمِهِ فَأَقْبَلَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ ثَابِتُ بْنُ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ وَفِي يَدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِطْعَةُ جَرِيدٍ حَتَّی وَقَفَ عَلَی مُسَيْلِمَةَ فِي أَصْحَابِهِ فَقَالَ لَوْ سَأَلْتَنِي هَذِهِ الْقِطْعَةَ مَا أَعْطَيْتُکَهَا وَلَنْ تَعْدُوَ أَمْرَ اللَّهِ فِيکَ وَلَئِنْ أَدْبَرْتَ ليَعْقِرَنَّکَ اللَّهُ وَإِنِّي لَأَرَاکَ الَّذِي أُرِيتُ فِيکَ مَا رَأَيْتُ فَأَخْبَرَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ بَيْنَمَا أَنَا نَائِمٌ رَأَيْتُ فِي يَدَيَّ سِوَارَيْنِ مِنْ ذَهَبٍ فَأَهَمَّنِي شَأْنُهُمَا فَأُوحِيَ إِلَيَّ فِي الْمَنَامِ أَنْ انْفُخْهُمَا فَنَفَخْتُهُمَا فَطَارَا فَأَوَّلْتُهُمَا کَذَّابَيْنِ يَخْرُجَانِ بَعْدِي فَکَانَ أَحَدُهُمَا الْعَنْسِيَّ وَالْآخَرُ مُسَيْلِمَةَ الْکَذَّابَ صَاحِبَ الْيَمَامَةِ-
ابوالیمان شعیب عبداللہ بن ابی حسین نافع بن جبیر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں مسیلمہ کذاب نے آ کر عرض کیا کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے بعد مجھے خلافت عطا کر دیں تو میں ان کا تابع ہو جاتا ہوں اور وہ اپنی قوم کے بہت لوگوں کو اپنے ساتھ لایا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف چلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ثابت بن قیس بن شماس بھی تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک میں ایک لکڑی کا ٹکڑا تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسیلمہ کذاب کے پاس معہ اصحاب جا کر کھڑے ہو گئے اور فرمایا اگر تو مجھ سے بقدر اس لکڑی کے ٹکڑے کے طلب کرے تو میں تجھ کو نہ دوں گا اور خدا تعالیٰ کا جو حکم تیرے بارے میں ہو چکا ہے تو اس سے تجاوز نہیں کر سکتا۔ اور اگر تو کچھ روز زندہ رہا تو خدا تجھ کو ہلاک کر دے اور یقینا میں تجھ کو وہی شخص سمجھتا ہوں جس کی نسبت میں نے خواب میں دیکھا ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی ہے کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ میں سو رہا تھا تو میں نے اپنے ہاتھ میں سونے کے دو کنگن دیکھے تو مجھے فکر ہوئی اور خواب میں وحی آئی کہ آپ ان کو پھونک دیجئے، میں نے ان کو پھونک دیا تو وہ اڑگئے میں نے اس کی تعبیر ان دو کذابوں سے لی جو میرے بعد ظاہر ہوں گے پس ان میں سے ایک عنسی اور دوسرا یمامہ کا رہنے والا مسیلمہ کذاب تھا۔
Narrated Ibn Abbas: Musailama-al-Kadhdhab (i.e. the liar) came in the life-time of Allah's Apostle with many of his people (to Medina) and said, "If Muhammad makes me his successor, I will follow him." Allah's Apostle went up to him with Thabit bin Qais bin Shams; and Allah's Apostle was carrying a piece of a date-palm leaf in his hand. He stood before Musailama (and his companions) and said, "If you asked me even this piece (of a leaf), I would not give it to you. You cannot avoid the fate you are destined to, by Allah. If you reject Islam, Allah will destroy you. I think that you are most probably the same person whom I have seen in the dream." Abu Huraira told me that Allah's Apostle; said, "While I was sleeping, I saw (in a dream) two gold bracelets round my arm, and that worried me too much. Then I was instructed divinely in my dream, to blow them off and so I blew them off, and they flew away. I interpreted the two bracelets as symbols of two liars who would appear after me. And so one of them was Al-Ansi and the other was Musailama Al-Kadhdhab from Al-Yamama."
حَدَّثَنِا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَائِ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ أُسَامَةَ عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ جَدِّهِ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِي مُوسَی أُرَاهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ رَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ أَنِّي أُهَاجِرُ مِنْ مَکَّةَ إِلَی أَرْضٍ بِهَا نَخْلٌ فَذَهَبَ وَهَلِي إِلَی أَنَّهَا الْيَمَامَةُ أَوْ هَجَرُ فَإِذَا هِيَ الْمَدِينَةُ يَثْرِبُ وَرَأَيْتُ فِي رُؤْيَايَ هَذِهِ أَنِّي هَزَزْتُ سَيْفًا فَانْقَطَعَ صَدْرُهُ فَإِذَا هُوَ مَا أُصِيبَ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ أُحُدٍ ثُمَّ هَزَزْتُهُ بِأُخْرَی فَعَادَ أَحْسَنَ مَا کَانَ فَإِذَا هُوَ مَا جَائَ اللَّهُ بِهِ مِنْ الْفَتْحِ وَاجْتِمَاعِ الْمُؤْمِنِينَ وَرَأَيْتُ فِيهَا بَقَرًا وَاللَّهُ خَيْرٌ فَإِذَا هُمْ الْمُؤْمِنُونَ يَوْمَ أُحُدٍ وَإِذَا الْخَيْرُ مَا جَائَ اللَّهُ بِهِ مِنْ الْخَيْرِ وَثَوَابِ الصِّدْقِ الَّذِي آتَانَا اللَّهُ بَعْدَ يَوْمِ بَدْرٍ-
محمد بن العلاء حماد بن اسامہ برید بن عبداللہ ابی بردۃ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں مکہ سے ہجرت کر کے ایک ایسی جگہ کی طرف جا رہا ہوں جہاں کھجور کے درخت ہیں تو میرا خیال ہوا وہ مقام یمامہ ہے یا ہجر لیکن درحقیقت وہ مدینہ تھا اور یثرب نیز میں نے اپنے خواب میں دیکھا کہ میں نے ایک تلوار ہلائی تو اس کی دھار ٹوٹ گئی پس یہ وہی مصیبت تھی جو احد کے دن مسلمانوں کو پہنچی پھر اس تلوار کو دوبارہ ہلایا تو پہلے سے زیادہ عمدہ ہوگئی اور وہ یہی تھا جو خدا تعالیٰ نے فتح دی اور مسلمان کو جمعیت عنایت فرمائی۔ نیز میں نے خواب میں ایک گائے دیکھی ہے تو یہ گائے احد کے دن مسلمان تھے اور خیر وہ تھا جو خدا تعالیٰ نے بھلائی اور سچائی کا ثواب ہم کو بدر کے بعد سے عنایت و مرحمت فرمایا ہے۔
Narrated Abu Musa: The Prophet said, "In a dream I saw myself migrating from Mecca to a place having plenty of date trees. I thought that it was Al-Yamama or Hajar, but it came to be Medina i.e. Yathrib. In the same dream I saw myself moving a sword and its blade got broken. It came to symbolize the defeat which the Muslims suffered from, on the Day of Uhud. I moved the sword again, and it became normal as before, and that was the symbol of the victory Allah bestowed upon Muslims and their gathering together. I saw cows in my dream, and by Allah, that was a blessing, and they symbolized the believers on the Day of Uhud. And the blessing was the good Allah bestowed upon us and the reward of true belief which Allah gave us after the day of Badr.
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا زَکَرِيَّائُ عَنْ فِرَاسٍ عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِيِّ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ أَقْبَلَتْ فَاطِمَةُ تَمْشِي کَأَنَّ مِشْيَتَهَا مَشْيُ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرْحَبًا بِابْنَتِي ثُمَّ أَجْلَسَهَا عَنْ يَمِينِهِ أَوْ عَنْ شِمَالِهِ ثُمَّ أَسَرَّ إِلَيْهَا حَدِيثًا فَبَکَتْ فَقُلْتُ لَهَا لِمَ تَبْکِينَ ثُمَّ أَسَرَّ إِلَيْهَا حَدِيثًا فَضَحِکَتْ فَقُلْتُ مَا رَأَيْتُ کَالْيَوْمِ فَرَحًا أَقْرَبَ مِنْ حُزْنٍ فَسَأَلْتُهَا عَمَّا قَالَ فَقَالَتْ مَا کُنْتُ لِأُفْشِيَ سِرَّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّی قُبِضَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلْتُهَا فَقَالَتْ أَسَرَّ إِلَيَّ إِنَّ جِبْرِيلَ کَانَ يُعَارِضُنِي الْقُرْآنَ کُلَّ سَنَةٍ مَرَّةً وَإِنَّهُ عَارَضَنِي الْعَامَ مَرَّتَيْنِ وَلَا أُرَاهُ إِلَّا حَضَرَ أَجَلِي وَإِنَّکِ أَوَّلُ أَهْلِ بَيْتِي لَحَاقًا بِي فَبَکَيْتُ فَقَالَ أَمَا تَرْضَيْنَ أَنْ تَکُونِي سَيِّدَةَ نِسَائِ أَهْلِ الْجَنَّةِ أَوْ نِسَائِ الْمُؤْمِنِينَ فَضَحِکْتُ لِذَلِکَ-
ابونعیم، زکریا، فراس، عامرمسروق حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ (ایک روز) فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آئیں اور انکی چال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چال کیطرح تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بیٹی خوش آمدید اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انکو اپنی داہنی طرف یا اپنی بائیں طرف بٹھا لیا پھر آہستہ سے کوئی بات کہی تو وہ رونے لگیں میں نے ان سے پوچھا تم روتی کیوں ہو؟ پھر ایک بات ان سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آہستہ سے کہی تو وہ ہنسنے لگیں۔ میں نے کہا آج کی طرح میں نے خوشی کو رنج سے اس قدر قریب نہیں دیکھا۔ میں نے دریافت کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا فرمایا تھا؟ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے راز کو افشاء کرنا پسند نہیں کرتی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات ہوگئی تو میں نے فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھا تو انہوں نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلی مرتبہ مجھ سے فرمایا تھا کہ جبریل علیہ السلام ہر سال مجھ سے ایک بار قرآن کا دور کیا کرتے تھے اس سال انہوں نے مجھ سے دو بار دور کیا ہے، اس سے میرا خیال ہے کہ میری موت کا وقت قریب آ گیا اور تم میرے تمام گھر والوں میں سب سے پہلے مجھ سے ملو گی تو یہ (سن کر) میں رونے لگی پھر (دوسری مرتبہ) فرمایا کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تمام جنتی عورتوں کی یا ساری مومنوں کی عورتوں کی سردار ہوگی اس وجہ سے مجھے ہنسی آ گئی۔
Narrated 'Aisha: Once Fatima came walking and her gait resembled the gait of the Prophet . The Prophet said, "Welcome, O my daughter!" Then he made her sit on his right or on his left side, and then he told her a secret and she started weeping. I asked her, "Why are you weeping?" He again told her a secret and she started laughing. I said, "I never saw happiness so near to sadness as I saw today." I asked her what the Prophet had told her. She said, "I would never disclose the secret of Allah's Apostle ." When the Prophet died, I asked her about it. She replied. "The Prophet said.) 'Every year Gabriel used to revise the Qur'an with me once only, but this year he has done so twice. I think this portends my death, and you will be the first of my family to follow me.' So I started weeping. Then he said. 'Don't you like to be the mistress of all the ladies of Paradise or the mistress of all the lady believers? So I laughed for that."
حَدَّثَنِا يَحْيَی بْنُ قَزَعَةَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ دَعَا النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاطِمَةَ ابْنَتَهُ فِي شَکْوَاهُ الَّذِي قُبِضَ فِيهِ فَسَارَّهَا بِشَيْئٍ فَبَکَتْ ثُمَّ دَعَاهَا فَسَارَّهَا فَضَحِکَتْ قَالَتْ فَسَأَلْتُهَا عَنْ ذَلِکَ فَقَالَتْ سَارَّنِي النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَنِي أَنَّهُ يُقْبَضُ فِي وَجَعِهِ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ فَبَکَيْتُ ثُمَّ سَارَّنِي فَأَخْبَرَنِي أَنِّي أَوَّلُ أَهْلِ بَيْتِهِ أَتْبَعُهُ فَضَحِکْتُ-
یحیی بن قزعہ، ابراہیم بن سعد، عروہ، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مرض وفات میں اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بلایا اور آہستہ سے ایک بات کہی تو ہنسنے لگیں، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں میں نے ان سے اسکی وجہ دریافت کی تو انہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے آہستہ سے یہ خبر بیان کی تھی کہ وہ اس مرض میں جس میں رحلت فرمائی وفات پائیں گے، تو میں رونے لگی اس کے بعد مجھ سے آہستہ سے بیان کیا کہ اہل بیت میں سب سے پہلے میں ان سے ملونگی تو میں ہنسنے لگی۔
Narrated 'Aisha: The Prophet in his fatal illness, called his daughter Fatima and told her a secret because of which she started weeping. Then he called her and told her another secret, and she started laughing. When I asked her about that, she replied, The Prophet told me that he would die in his fatal illness, and so I wept, but then he secretly told me that from amongst his family, I would be the first to join him, and so I laughed."
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَرْعَرَةَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي بِشْرٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ کَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُدْنِي ابْنَ عَبَّاسٍ فَقَالَ لَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ إِنَّ لَنَا أَبْنَائً مِثْلَهُ فَقَالَ إِنَّهُ مِنْ حَيْثُ تَعْلَمُ فَسَأَلَ عُمَرُ ابْنَ عَبَّاسٍ عَنْ هَذِهِ الْآيَةِ إِذَا جَائَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ فَقَالَ أَجَلُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْلَمَهُ إِيَّاهُ قَالَ مَا أَعْلَمُ مِنْهَا إِلَّا مَا تَعْلَمُ-
محمد بن عرعرہ، شعبہ، ابی بشر سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب مجھے اپنے پاس بٹھلایا کرتے تھے حضرت عبدالرحمن بن عوف نے ان سے کہا ہمارے لڑکے ان کے برابر ہیں اور آپ انکو ہم پر ترجیح دیتے ہیں تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا یہ صاحب علم وفضل ہیں پھر ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حضرت عمر نے ایک آیت کا مطلب پوچھا (اِذَا جَا ءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَالْفَتْحُ) 110۔ النصر : 1 تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو انکی وفات سے اس میں مطلع کیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا جو تم جانتے ہو میں بھی اس کا مطلب یہی سمجھتا ہوں۔
Narrated Said bin Jubair: About Ibn 'Abbas: 'Umar bin Al-Khattab used to treat Ibn 'Abbas very favorably 'Abdur Rahman bin 'Auf said to him. "We also have sons that are equal to him (but you are partial to him.)" Umar said, "It is because of his knowledge." Then 'Umar asked Ibn 'Abbas about the interpretation of the Verse:- 'When come the Help of Allah and the conquest (of Mecca) (110.1) Ibn 'Abbas said. "It portended the death of Allah's Apostle, which Allah had informed him of." 'Umar said, "I do not know from this Verse but what you know."
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ حَنْظَلَةَ بْنِ الْغَسِيلِ حَدَّثَنَا عِکْرِمَةُ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ بِمِلْحَفَةٍ قَدْ عَصَّبَ بِعِصَابَةٍ دَسْمَائَ حَتَّی جَلَسَ عَلَی الْمِنْبَرِ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَی عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ النَّاسَ يَکْثُرُونَ وَيَقِلُّ الْأَنْصَارُ حَتَّی يَکُونُوا فِي النَّاسِ بِمَنْزِلَةِ الْمِلْحِ فِي الطَّعَامِ فَمَنْ وَلِيَ مِنْکُمْ شَيْئًا يَضُرُّ فِيهِ قَوْمًا وَيَنْفَعُ فِيهِ آخَرِينَ فَلْيَقْبَلْ مِنْ مُحْسِنِهِمْ وَيَتَجَاوَزْ عَنْ مُسِيئِهِمْ فَکَانَ آخِرَ مَجْلِسٍ جَلَسَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-
ابونعیم، عبدالرحمن بن سلیمان، عکرمہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے مرض میں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وفات پائی ایک چادر اوڑھے ہوئے باہر نکلے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سر ایک چکنی پٹی سے باندھ لیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر رونق افروز ہوئے اور خدا تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کر کے فرمایا لوگ زیادہ ہوتے جائیں گے لیکن انصار کم ہوتے جائیں گے یہاں تک کہ اور لوگوں میں وہ کھانے میں نمک کی طرح ہو جائیں گی لہذا جو شخص تم میں ایسا صاحب اختیار ہو جو لوگوں کو کچھ نفع پہنچا سکے اور کچھ لوگوں کو ضرر تو اس کو چاہیے کہ انصار میں سے نیک لوگوں کی نیکی قبول کرے اور خطاکاروں کی خطا سے درگزر کرے یہی آخری مجلس تھی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیٹھے تھے۔
Narrated Ibn 'Abbas: Allah's Apostle in his fatal illness came out, wrapped with a sheet, and his head was wrapped with an oiled bandage. He sat on the pulpit, and praising and glorifying Allah, he said, "Now then, people will increase but the Ansar will decrease in number, so much so that they, compared with the people, will be just like the salt in the! meals. So, if any of you should take over the authority by which he can either benefit some people or harm some others, he should accept the goodness of their good people (i.e. Ansar) and excuse the faults of their wrong-doers." That was the last gathering which the Prophet attended.
حَدَّثَنِا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ آدَمَ حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْجُعْفِيُّ عَنْ أَبِي مُوسَی عَنْ الْحَسَنِ عَنْ أَبِي بَکْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَخْرَجَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ الْحَسَنَ فَصَعِدَ بِهِ عَلَی الْمِنْبَرِ فَقَالَ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ مِنْ الْمُسْلِمِينَ-
عبداللہ بن محمد، یحیی بن آدم، حسین جعفی، ابوموسی، حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک روز باہر لے کر نکلے اور انکو منبر پر چڑھا کر ارشاد فرمایا کہ یہ میرا بیٹا سید ہے اور امید ہے کہ خدا تعالیٰ اسکے ذریعہ سے مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح کرا دے گا۔
Narrated Abu Bakra: Once the Prophet brought out Al-Hasan and took him up the pulpit along with him and said, "This son of mine is a Saiyid (i.e. chief) and I hope that Allah will help him bring about reconciliation between two Muslim groups."
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَعَی جَعْفَرًا وَزَيْدًا قَبْلَ أَنْ يَجِيئَ خَبَرُهُمْ وَعَيْنَاهُ تَذْرِفَانِ-
سلیمان بن حرب، حماد، ایوب، حمید بن ہلال، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جعفر اور زید کے مارے جانے کی خبر بیان کی اس سے پہلے کہ ان (کے مارے جانے) کی آئے اور آپ کی دو آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔
Narrated Anas bin Malik: The Prophet had informed us of the death of Ja'far and Zaid before the news of their death reached us, and his eyes were shedding tears.
حَدَّثَنِا عَمْرُو بْنُ عَبَّاسٍ حَدَّثَنَا ابْنُ مَهْدِيٍّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلْ لَکُمْ مِنْ أَنْمَاطٍ قُلْتُ وَأَنَّی يَکُونُ لَنَا الْأَنْمَاطُ قَالَ أَمَا إِنَّهُ سَيَکُونُ لَکُمْ الْأَنْمَاطُ فَأَنَا أَقُولُ لَهَا يَعْنِي امْرَأَتَهُ أَخِّرِي عَنِّي أَنْمَاطَکِ فَتَقُولُ أَلَمْ يَقُلْ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّهَا سَتَکُونُ لَکُمْ الْأَنْمَاطُ فَأَدَعُهَا-
عمرو، ابن مہدی، سفیان، محمد، حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (ایک روز) فرمایا کیا تم لوگوں کے پاس فرش ہیں؟ ہم نے عرض کیا کہ ہمارے پاس فرش کہاں! آپ نے فرمایا یاد رکھو عنقریب تمہارے پاس فرش ہونگے حضرت جابر کہتے ہیں اب میں جو اپنی بیوی سے کہتا ہوں کہ اپنا فرش میرے پاس سے ہٹا لو تو وہ کہتی ہیں کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں فرمایا تھا کہ عنقریب تمہارے پاس فرش ہوں گے اس لئے میں نے انکو رہنے دیا ہے۔
Narrated Jabir: (Once) the Prophet said, "Have you got carpets?" I replied, "Whence can we get carpets?" He said, "But you shall soon have carpets." I used to say to my wife, "Remove your carpets from my sight," but she would say, "Didn't the Prophet tell you that you would soon have carpets?" So I would give up my request.
حَدَّثَنِا أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ انْطَلَقَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ مُعْتَمِرًا قَالَ فَنَزَلَ عَلَی أُمَيَّةَ بْنِ خَلَفٍ أَبِي صَفْوَانَ وَکَانَ أُمَيَّةُ إِذَا انْطَلَقَ إِلَی الشَّأْمِ فَمَرَّ بِالْمَدِينَةِ نَزَلَ عَلَی سَعْدٍ فَقَالَ أُمَيَّةُ لِسَعْدٍ انْتَظِرْ حَتَّی إِذَا انْتَصَفَ النَّهَارُ وَغَفَلَ النَّاسُ انْطَلَقْتُ فَطُفْتُ فَبَيْنَا سَعْدٌ يَطُوفُ إِذَا أَبُو جَهْلٍ فَقَالَ مَنْ هَذَا الَّذِي يَطُوفُ بِالْکَعْبَةِ فَقَالَ سَعْدٌ أَنَا سَعْدٌ فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ تَطُوفُ بِالْکَعْبَةِ آمِنًا وَقَدْ آوَيْتُمْ مُحَمَّدًا وَأَصْحَابَهُ فَقَالَ نَعَمْ فَتَلَاحَيَا بَيْنَهُمَا فَقَالَ أُمَيَّةُ لسَعْدٍ لَا تَرْفَعْ صَوْتَکَ عَلَی أَبِي الْحَکَمِ فَإِنَّهُ سَيِّدُ أَهْلِ الْوَادِي ثُمَّ قَالَ سَعْدٌ وَاللَّهِ لَئِنْ مَنَعْتَنِي أَنْ أَطُوفَ بِالْبَيْتِ لَأَقْطَعَنَّ مَتْجَرَکَ بِالشَّامِ قَالَ فَجَعَلَ أُمَيَّةُ يَقُولُ لِسَعْدٍ لَا تَرْفَعْ صَوْتَکَ وَجَعَلَ يُمْسِکُهُ فَغَضِبَ سَعْدٌ فَقَالَ دَعْنَا عَنْکَ فَإِنِّي سَمِعْتُ مُحَمَّدًا صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَزْعُمُ أَنَّهُ قَاتِلُکَ قَالَ إِيَّايَ قَالَ نَعَمْ قَالَ وَاللَّهِ مَا يَکْذِبُ مُحَمَّدٌ إِذَا حَدَّثَ فَرَجَعَ إِلَی امْرَأَتِهِ فَقَالَ أَمَا تَعْلَمِينَ مَا قَالَ لِي أَخِي الْيَثْرِبِيُّ قَالَتْ وَمَا قَالَ قَالَ زَعَمَ أَنَّه سَمِعَ مُحَمَّدًا يَزْعُمُ أَنَّهُ قَاتِلِي قَالَتْ فَوَاللَّهِ مَا يَکْذِبُ مُحَمَّدٌ قَالَ فَلَمَّا خَرَجُوا إِلَی بَدْرٍ وَجَائَ الصَّرِيخُ قَالَتْ لَهُ امْرَأَتُهُ أَمَا ذَکَرْتَ مَا قَالَ لَکَ أَخُوکَ الْيَثْرِبِيُّ قَالَ فَأَرَادَ أَنْ لَا يَخْرُجَ فَقَالَ لَهُ أَبُو جَهْلٍ إِنَّکَ مِنْ أَشْرَافِ الْوَادِي فَسِرْ يَوْمًا أَوْ يَوْمَيْنِ فَسَارَ مَعَهُمْ فَقَتَلَهُ اللَّهُ-
احمد، عبیداللہ ، اسرائیل، ابواسحاق ، عمرو بن میمون، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ سعد بن معاذ عمرہ کرنے کی نیت سے چلے اور امیہ بن خلف ابی صفوان کے پاس ٹھرے اور جب امیہ شام جاتا اور اسکا مدینہ سے گزر ہوتا تو وہ سعد کے پاس ٹھرتا، امیہ نے سعد سے کہا ذرا تو قف کرو تاکہ دوپہر ہو جائے اور لوگ اپنے کام کاج میں مشغول ہو کر غافل ہو جائیں تو چلیں گے اور طواف کریں گے جس وقت سعد طواف کر رہے تھے تو اچانک ابوجہل آ گیا اور کہا کعبہ کا طواف کون کر رہا ہے؟ سعد نے کہا میں سعد ہوں۔ ابوجہل نے کہا تم کعبہ کا طواف اس اطمینان سے کر رہے ہو حالانکہ تم نے محمد اور انکے ساتھیوں کو (اپنے شہر میں) رہائش کے لئے جگہ دی ہے سعد نے کہا ہاں! پس ان دونوں نے باہم چیخنا شروع کر دیا۔ امیہ نے سعد سے کہا ابوالحکم (ابوجہل) پر اپنی آواز کو بلند نہ کرو اسلئے کہ وادی (مکہ) کے تمام لوگوں کا سردار ہے۔ سعد نے کہا اگر تو مجھ کو طواف کرنے سے روکے گا! تو خدا کی قسم میں تیری شام کی تجارت بند کر دوں گا۔ حضرت عبداللہ کہتے ہیں سعد سے امیہ یہی کہتا رہا اور انکو روکتا رہا۔ سعد کو غصہ آ گیا اور کہا تو میرے سامنے سے ہٹ جا اس لئے کہ میں نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ وہ تجھے قتل کر دیں گے۔ امیہ نے کہا مجھ کو؟ سعد نے کہا ہاں تجھے! امیہ کہنے لگا اللہ تعالیٰ کی قسم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کوئی بات کہتے ہیں تو جھوٹ نہیں کہتے ہیں امیہ اپنی بیوی کے پاس لوٹ گیا اور اس سے کہا تم کو معلوم ہے کہ میرے یثربی بھائی نے مجھ سے کیا کہا؟ اس نے پوچھا کیا کہا امیہ نے کہا وہ کہتے ہیں کہ میں نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ وہ مجھے قتل کریں گے۔ اسکی بیوی نے کہا بخدا وہ جھوٹ نہیں بولتے۔ حضرت عبداللہ کہتے ہیں کہ جب کفار میدان بدر کی طرف جانے لگے اور اس کا اعلان ہو گیا تو امیہ سے اس کی بیوی نے کہا کیا تمہیں یاد نہیں رہا تمہارے یثربی بھائی نے تم سے کیا کہا تھا۔ ابن مسعود کہتے فرماتے ہیں امیہ نے نہ جانے کا مصمم ارادہ کر لیا تھا لیکن ابوجہل نے اس سے کہا تو مکہ کے سردار اور شرفاء میں سے ہے ایک دو دن ہمارے ہمراہ چلچنانچہ وہ ان کے ساتھ ہو لیا خدا تعالیٰ نے اس کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔
Narrated 'Abdullah bin Mas'ud: Sa'd bin Mu'adh came to Mecca with the intention of performing 'Umra, and stayed at the house of Umaiya bin Khalaf Abi Safwan, for Umaiya himself used to stay at Sa'd's house when he passed by Medina on his way to Sham. Umaiya said to Sad, "Will you wait till midday when the people are (at their homes), then you may go and perform the Tawaf round the Ka'ba?" So, while Sad was going around the Ka'ba, Abu Jahl came and asked, "Who is that who is performing Tawaf?" Sad replied, "I am Sad." Abu Jahl said, "Are you circumambulating the Ka'ba safely although you have given refuge to Muhammad and his companions?" Sad said, "Yes," and they started quarreling. Umaiya said to Sad, "Don't shout at Abi-l-Hakam (i.e. Abu Jahl), for he is chief of the valley (of Mecca)." Sad then said (to Abu Jahl). 'By Allah, if you prevent me from performing the Tawaf of the Ka'ba, I will spoil your trade with Sham." Umaiya kept on saying to Sad, "Don't raise your voice." and kept on taking hold of him. Sad became furious and said, (to Umaiya), "Be away from me, for I have heard Muhammad saying that he will kill you." Umaiiya said, "Will he kill me?" Sad said, "Yes,." Umaiya said, "By Allah! When Muhammad says a thing, he never tells a lie." Umaiya went to his wife and said to her, "Do you know what my brother from Yathrib (i.e. Medina) has said to me?" She said, "What has he said?" He said, "He claims that he has heard Muhammad claiming that he will kill me." She said, By Allah! Muhammad never tells a lie." So when the infidels started to proceed for Badr (Battle) and declared war (against the Muslims), his wife said to him, "Don't you remember what your brother from Yathrib told you?" Umaiya decided not to go but Abu Jahl said to him, "You are from the nobles of the valley of Mecca), so you should accompany us for a day or two." He went with them and thus Allah got him killed.
حَدَّثَنِا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ شَيْبَةَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْمُغِيرَةِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ مُوسَی بْنِ عُقْبَةَ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ رَأَيْتُ النَّاسَ مُجْتَمِعِينَ فِي صَعِيدٍ فَقَامَ أَبُو بَکْرٍ فَنَزَعَ ذَنُوبًا أَوْ ذَنُوبَيْنِ وَفِي بَعْضِ نَزْعِهِ ضَعْفٌ وَاللَّهُ يَغْفِرُ لَهُ ثُمَّ أَخَذَهَا عُمَرُ فَاسْتَحَالَتْ بِيَدِهِ غَرْبًا فَلَمْ أَرَ عَبْقَرِيًّا فِي النَّاسِ يَفْرِي فَرِيَّهُ حَتَّی ضَرَبَ النَّاسُ بِعَطَنٍ وَقَالَ هَمَّامٌ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَزَعَ أَبُو بَکْرٍ ذَنُوبًا أَوْ ذَنُوبَيْنِ-
عبدالرحمن بن شیبہ، عبدالرحمن بن المغیرہ، مغیرہ، موسیٰ بن عقبہ، سالم بن عبداللہ ، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے سوتے میں لوگوں کو ایک ٹیلہ پر دیکھا ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اٹھے اور ایک یا دو ڈول پانی کھینچا ان کے ڈول کھینچنے میں سستی اور کمزوری پائی جاتی تھی۔ خدا تعالیٰ (انکی سستی اور کمزوری) معاف فرمائے، پھر وہ ڈول حضرت عمر نے لے لیا تو انکے ہاتھ میں وہ ڈول چرس بن گیا میں نے لوگوں میں کسی ایسے مضبوط اور طاقتور شخص نہیں دیکھا جو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کیطرح زور کیساتھ پانی کھینچتا ہو، انہوں نے اتنا پانی کھینچا کہ سب لوگ سیراب ہو گئے۔
Narrated 'Abdullah: Allah's Apostle said, "I saw (in a dream) the people assembled in a gathering, and then Abu Bakr got up and drew one or two buckets of water (from a well) but there was weakness in his drawing. May Allah forgive him. Then 'Umar took the bucket and in his hands it turned into a very large bucket. I had never seen anyone amongst: the people who could draw the water as strongly as 'Umar till all the people drank their fill and watered their camels that knelt down there.
حَدَّثَنِا عَبَّاسُ بْنُ الْوَلِيدِ النَّرْسِيُّ حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ قَالَ سَمِعْتُ أَبِي حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ قَالَ أُنْبِئْتُ أَنَّ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام أَتَی النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ أُمُّ سَلَمَةَ فَجَعَلَ يُحَدِّثُ ثُمَّ قَامَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأُمِّ سَلَمَةَ مَنْ هَذَا أَوْ کَمَا قَالَ قَالَ قَالَتْ هَذَا دِحْيَةُ قَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ ايْمُ اللَّهِ مَا حَسِبْتُهُ إِلَّا إِيَّاهُ حَتَّی سَمِعْتُ خُطْبَةَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخْبِرُ جِبْرِيلَ أَوْ کَمَا قَالَ قَالَ فَقُلْتُ لِأَبِي عُثْمَانَ مِمَّنْ سَمِعْتَ هَذَا قَالَ مِنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ-
عباس بن ولید، معتمر، ابومعتمر، حضرت ابوعثمان انہوں نے کہا کہ مجھے خبر ملی کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوئے جبکہ آپ کے پاس ام سلمہ بیٹھی ہوئیں تھیں، پس جبریل سے باتیں کرنے لگے۔ اسکے بعد اٹھ کر چلے گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھا یہ کون تھے؟ انہوں نے کہا دحیہ تھے، حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں اللہ تعالیٰ کی قسم میں انکو بس دحیہ سمجھی جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خطبہ دیتے وقت جبریل کی اطلاع پائی تب سمجھی کہ دحیہ یہی جبریل ہیں (راوی نے کہا) میں نے ابوعثمان سے دریافت کیا کہ تم نے یہ حدیث کس سے سنی ہے انہوں نے کہا اسامہ بن زید سے میں نے خود سنا ہے۔
Narrated Abu Uthman: I got the news that Gabriel came to the Prophet while Um Salama was present. Gabriel started talking (to the Prophet and then left. The Prophet said to Um Salama, "(Do you know) who it was?" (or a similar question). She said, "It was Dihya (a handsome person amongst the companions of the Prophet )." Later on Um Salama said, "By Allah! I thought he was none but Dihya, till I heard the Prophet talking about Gabriel in his sermon." (The Sub-narrator asked Abu 'Uthman, "From where have you heard this narration?" He replied, "From Usama bin Zaid.")