حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق وعادات میں

حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِئِ قَالَ حَدَّثَنَا لَيْثُ بْنُ سَعْدٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو عُثْمَانَ الْوَلِيدُ بْنُ أَبِي الْوَلِيدِ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ خَارِجَةَ عَنْ خَارِجَةَ بْنِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ دَخَلَ نَفَرٌ عَلَی زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ فَقَالُوا لَهُ حَدِّثْنَا أَحَادِيثَ رَسُولِ اللهِ صلی الله عليه وسلم قَالَ مَاذَا أُحَدِّثُکُمْ کُنْتُ جَارَهُ فَکَانَ إِذَا نَزَلَ عَلَيْهِ الْوَحْيُ بَعَثَ إِلَيَّ فَکَتَبْتُهُ لَهُ فَکُنَّا إِذَا ذَکَرْنَا الدُّنْيَا ذَکَرَهَا مَعَنَا وَإِذَا ذَکَرْنَا الآخِرَةَ ذَکَرَهَا مَعَنَا وَإِذَا ذَکَرْنَا الطَّعَامَ ذَکَرَهُ مَعَنَا فَکُلُّ هَذَا أُحَدِّثُکُمْ عَنِ رَسُولِ اللهِ صلی الله عليه وسلم-
خارجہ کہتے ہیں کہ ایک جماعت زید بن ثابت کے پاس حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ حالات سنائیں انہوں نے فرمایا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کیا حالات سناؤں ( وہ احاطہ بیان سے باہر ہیں) میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ہمسایہ تھا (اس لئے تو یا ہر وقت حاضر باش تھا اور اکثر حالات سے واقف اس کے ساتھ ہی کاتب وحی بھی تھا) جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے بلا بھیجتے میں حاضر ہو کر اس کو لکھ لیتا تھا (حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہم لوگوں کے ساتھ غایت درجہ دلداری اور بے تکلفی فرماتے تھے جس قسم کا تذکرہ ہم کرتے تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہمارے ساتھ ویسا ہی تذکرہ فرماتے تھے۔ جب ہم لوگ کچھ دنیاوی ذکر کرتے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس قسم کا تذکرہ فرماتے (یہ نہیں کہ بس آخرت ہی کا ذکر ہمارے ساتھ کرتے ہوں اور دنیا کی بات سننا بھی گوارا نہ کریں) اور جس وقت ہم آخرت کی طرف متوجہ ہوتے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی آخرت کے تذکرے فرماتے، یعنی جب آخرت کا کوئی تذکرہ شروع ہوجاتا تو اسی کے حالات اور تفصیلات حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیان فرماتے اور جب کچھ کھانے پینے کا ذکر ہوتا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ویسا ہی تذکرہ فرماتے۔ (کھانے کے آداب، فوائد، لذیذ کھانوں کا ذکر، مضر کھانوں کا تذکرہ وغیرہ وغیرہ۔ چنانچہ گذشتہ ابواب میں بہت سے ارشادات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس نوع کے گزر چکے ہیں کہ سرکہ کیا ہی اچھا سالن ہے، زیتون کا تیل استعمال کیا کرو کہ مبارک درخت سے ہے وغیرہ) یہ سب کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے حالات کا تذکرہ کر رہا ہوں ۔
Khaarijah bin Zayd bin Thaabit Radiyallahu 'Anhu says that a group came to Zayd bin Thaabit (his father) and requested him to describe to them some facts about Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam. He replied. "What can I describe to you of Rasulullah Sallallahu 'Alayhi 'Wasallam. (It is beyond my means to describe them). I was the neighbour of Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam. (Therefore he was mostly present and knew many facts. He was also a writer of the wahi-revelation). When wahi was revealed to Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam, he sent for me, I came and wrote it. (Sayyidina Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam always showed kindness, and made us feel at ease). Whatever we discussed, he discussed the same. If we discussed some worldly affairs, he also spoke of it. (It was not that he only spoke about the hereafter to us,'and despised the talking of worldly affairs). When we spoke of the hereafter, he too spoke of the hereafter. When we began speaking of the hereafter, he described its events etc in detail). 'When we spoke of food, Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam also spoke of it. (Its etiquette, benefits, tasty foods, foods that are harmful, etc. In the previous chapters many such commands of Sayyidina Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam are mentioned. i.e. 'What a wonderful curry vinegar is'. 'Use olive oil, it is from a mubaarak tree'. etc.). All this I am saying are facts on Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam"'.
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَی قَالَ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُکَيْرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ عَنْ زِيَادِ بْنِ أَبِي زِيَادٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ کَعْبٍ الْقُرَظِيِّ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ کَانَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وسلم يُقْبِلُ بِوَجْهِهِ وَحَدِيثِهِ عَلَی أَشَرِّ الْقَوْمِ يَتَأَلَّفُهُمْ بِذَلِکَ فَکَانَ يُقْبِلُ بِوَجْهِهِ وَحَدِيثِهِ عَلَيَّ حَتَّی ظَنَنْتُ أَنِّي خَيْرُ الْقَوْمِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ أَنَا خَيْرٌ أَوْ أَبُو بَکْرٍ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ أَنَا خَيْرٌ أَوْ عُمَرُ فَقَالَ عُمَرُ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ أَنَا خَيْرٌ أَوْ عُثْمَانُ فَقَالَ عُثْمَانُ فَلَمَّا سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صلی الله عليه وسلم فَصَدَقَنِي فَلَوَدِدْتُ أَنِّي لَمْ أَکُنْ سَأَلْتُهُ-
حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قوم کے بدترین شخص کی طرف سے بھی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم تالیف قلوب کے خیال سے اپنی توجہ اور اپنی خصوصی گفتگو مبذول فرماتے تھے، (جس کی وجہ سے اس کو اپنی خصوصیت کا خیال ہوجاتا تھا) چنانچہ خود میری طرف بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہات عالیہ اور کلام کا رخ بہت زیادہ رہتا تھا، حتیٰ کہ میں یہ سمجھنے لگا کہ میں قوم کا بہترین شخص ہوں اسی وجہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ توجہ فرماتے ہیں ۔ میں اسی خیال سے ایک دن دریافت کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ میں افضل ہوں یا ابوبکر رضی اللہ عنہ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ابوبکر ( رضی اللہ عنہ)۔ پھر میں نے پوچھا کہ میں افضل ہوں یا عمر رضی اللہ عنہ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا عمر ( رضی اللہ عنہ)۔ پھر میں نے پوچھا کہ میں افضل ہوں یا عثمان رضی اللہ عنہ ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عثمان (رضی اللہ عنہ)؟۔
'Amr ibnul 'Aas Radiyallahu 'Anhu reports: "(Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam gave attention, spoke and showed love to the worst person of a nation. So that, the person may feel he is being given special attention). He used to give attention, and spoke to me also in a manner, that I began to feel that I was the best among the community. (Therefore one day) I asked: 'O Messenger of Allah, am I better or is Abubakr better?' He replied: 'Abubakr'. I then asked: 'Am I better, or 'Umar?' He replied. "Umar'. I asked: 'Am I better or 'Uthmaan?' He replied: 'Uthmaan'.When I asked him these questions, Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam told me the truth. (He did not tell me I was better to keep me happy. Afterwards I felt ashamed of myself on this deed). I felt I should not have asked such a question".
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الضُّبَعِيُّ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ خَدَمْتُ رَسُولَ اللهِ صلی الله عليه وسلم عَشْرَ سِنِينَ فَمَا قَالَ لِي أُفٍّ قَطُّ وَمَا قَالَ لِشَيْئٍ صَنَعْتُهُ لِمَ صَنَعْتَهُ وَلا لِشَيْئٍ تَرَکْتُهُ لِمَ تَرَکْتَهُ وَکَانَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وسلم مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ خُلُقًا وَلا مَسَسْتُ خَزًّا وَلا حَرِيرًا وَلا شَيْئًا کَانَ أَلْيَنَ مِنْ کَفِّ رَسُولِ اللهِ صلی الله عليه وسلم وَلا شَمَمْتُ مِسْکًا قَطُّ وَلا عِطْرًا کَانَ أَطْيَبَ مِنْ عَرَقِ رسول الله صلی الله عليه وسلم-
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے دس برس حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی مجھے کسی بات پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اف تک بھی نہیں فرمایا نہ کسی کام کے کرنے پر یہ فرمایا کہ کیوں کیا اور اسی طرح نہ کبھی کسی کام کے نہ کرنے پر یہ فرمایا کہ کیوں نہیں کیا۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اخلاق میں تمام دنیا سے بہتر تھے (ایسے خلقت کے اعتبار سے بھی حتی کہ) میں نے کبھی کوئی ریشمی کپڑا یا خالص ریشم یا کوئی اور نرم چیز ایسی چھوئی جو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی بابرکت ہتھیلی سے زیادہ نرم ہو اور میں نے کبھی کسی قسم کا مشک یا کوئی عطر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پسینہ کی خوشبو سے زیادہ خوشبو دار نہیں سونگھا۔
Anas bin Maalik Radiyallahu 'Anhu says: "I remained in the service (of Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam for ten years. He never once told me 'Oof '. When I did something, he never asked me, why did you do so? When I did not do a certain task, he never asked me why I did not do it. Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam had the best character among all people. (and also possessed the most excellent features, so much so,) that I never felt a silk cloth, nor pure silk, nor any other thing softer than the palm of Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam. Nor did I smell any musk or any other fragrance, more sweet smelling than the sweat of Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam".
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ وَأَحَمْدُ بْنُ عَبْدَةَ هُوَ الضَّبِّيُّ وَالْمَعْنَی وَاحِدٌ قَالا حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ سَلْمٍ الْعَلَوِيِّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ عَنْ رَسُولِ اللهِ صلی الله عليه وسلم أَنَّهُ کَانَ عِنْدَهُ رَجُلٌ بِهِ أَثَرُ صُفْرَةٍ قَالَ وَکَانَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وسلم لا يکَادُ يُواجِهُ أَحَدًا بِشَيْئٍ يَکْرَهُهُ فَلَمَّا قَامَ قَالَ لِلْقَوْمِ لَوْ قُلْتُمْ لَهُ يَدَعُ هَذِهِ الصُّفْرَةَ-
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص بیٹھا تھا جس پر زرد رنگ کا کپڑا تھا۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت شریفہ یہ تھی کہ ناگوار بات کو منہ در منہ منع نہ فرماتے تھے اس لئے سکوت فرمایا اور جب وہ شخص چلا گیا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حاضرین سے ارشاد فرمایا کہ تم لوگ اس کو زرد کپڑے سے منع کر دیتے تو اچھا ہوتا۔
Anas Radiyallahu 'Anhu says: "A person who was wearing yellow coloured clothing was sitting by Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam. It was the habit of Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam not to bluntly express things he did not approve of. (Therefore he kept silent). When that person left, Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam said to those present 'It would have been better if you had told him not to wear yellow clothing"'.
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللهِ الْجَدَلِيِّ وَاسْمُهُ عَبْدُ بْنُ عَبْدٍ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ لَمْ يَکُنْ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وسلم فَاحِشًا وَلا مُتَفَحِّشًا وَلا صَخَّابًا فِي الأَسْوَاقِ وَلا يَجْزِئُ بِالسَّيِّئَةِ السَّيِّئَةَ وَلَکِنْ يَعْفُو وَيَصْفَحُ-
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نہ تو طبعا فحش گو تھے نہ بتکلف فحش بات فرماتے تھے، نہ بازاروں میں چلا کر (خلاف وقار) باتیں کرتے تھے۔ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے تھے، بلکہ معاف فرما دیتے تھے اور اس کا تذکرہ بھی نہ فرماتے تھے۔
'Aayeshah Radiyallahu 'Anha reports, that: "It was not the nature of Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam to talk indecently, nor did he engage himself in the use of obscene language. Nor did he shout and talk in the bazaars (which is against dignity). He did not avenge a bad deed with a bad one, but forgave it, and thereafter did not even mention it".
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاقَ الْهَمْدَانِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ مَا ضَرَبَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وسلم بِيَدِهِ شَيْئًا قَطُّ إِلا أَنْ يُجَاهِدَ فِي سَبِيلِ اللهِ وَلا ضَرَبَ خَادِمًا َوِلا امْرَأَةً-
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کے علاوہ کبھی کسی کو نہیں مارا۔ نہ کبھی کسی خادم کو نہ کسی عورت (بیوی باندی وغیرہ) کو۔
'Aayeshah Radiyallahu 'Anha reports: ''Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam did noy hit anything with his mubaarak hands, besides the time when he made jihaad in the Path of Allah. He did not hit a servant nor a women (wife, slave girl etc.)''.
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ قَالَ حَدَّثَنَا فُضَيْلُ بْنُ عِيَاضٍ عَنْ مَنْصُورٍ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صلی الله عليه وسلم مُنْتَصِرًا مِنْ مَظْلَمَةٍ ظُلِمَهَا قَطُّ مَا لَمْ يُنْتَهَکْ مِنْ مَحَارِمِ اللهِ تَعَالَی شَيْئٌ فَإِذَا انْتُهِکَ مِنْ مَحَارِمِ اللهِ شَيْئٌ کَانَ مِنْ أَشَدِّهِمْ فِي ذَلِکَ غَضَبًا وَمَا خُيِّرَ بَيْنَ أَمْرَيْنِ إِلا اخْتَارَ أَيْسَرَهُمَا مَا لَمْ يَکُنْ مَأْثَمًا-
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کے لئے کبھی کسی ظلم کا بدلہ لیا ہو۔ البتہ اللہ کی حرمتوں میں سے کسی حرمت کا مرتکب ہوتا (یعنی مثلا کسی حرام فعل کا کوئی مرتکب ہوتا۔ شراح حدیث نے لکھا ہے کہ اسی میں آدمیوں کے حقوق بھی داخل ہیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ غصے والا کوئی شخص نہیں ہوتا تھا۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی دو امروں میں اختیار دئیے جاتے تو ہمیشہ سہل کو اختیار فرماتے تاوقتیکہ اس میں کسی قسم کی معصیت وغیرہ نہ ہو ۔
'Aayeshah Radiyallahu 'Anha says: ''I have never seen Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam avenge himself for a personal affliction, but if one transgressed a prohibited thing from those prohibited by Allah, (To commit a haraam act. The commentators on hadith say the rights of man are also included) then there was no one more angry than Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam. Whenever Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam was given a choice between two things, he always chose the one that was simple, if it did not lead to any type of sin".
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتِ اسْتَأْذَنَ رَجُلٌ عَلَی رَسُولِ اللهِ صلی الله عليه وسلم وَأَنَا عِنْدَهُ فَقَالَ بِئْسَ ابْنُ الْعَشِيرَةِ أَوْ أَخُو الْعَشِيرَةِ ثُمَّ أَذِنَ لَهُ فَأَلانَ لَهُ الْقَوْلَ فَلَمَّا خَرَجَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ قُلْتَ مَا قُلْتَ ثُمَّ أَلَنْتَ لَهُ الْقَوْلَ فَقَالَ يَا عَائِشَةُ إِنَّ مِنْ شَرِّ النَّاسِ مَنْ تَرَکَهُ النَّاسُ أَوْ وَدَعَهُ النَّاسُ اتِّقَائَ فُحْشِهِ-
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے حاضری کی اجازت چاہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ شخص اپنے قبیلہ کا کیسا برا آدمی ہے۔ یہ ارشاد فرمانے کے بعد اس کو حاضری کی اجازت مرحمت فرمادی اور اس کے اندر آنے پر اس کے ساتھ نہایت نرمی سے باتیں کیں جب وہ چلا گیا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں حاضر ہونے سے پہلے تو یہ لفظ ارشاد فرمایا تھا، پھر اس قدر نرمی سے اس کے ساتھ کلام فرمایا یہ کیا بات ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عائشہ! بدترین لوگوں میں سے ہے وہ شخص کہ لوگ اس کی بدکلامی کی وجہ سے اس کو چھوڑ دیں ۔
'Aayeshah Radiyallahu 'Anha reports. "A person asked permission to present himself before Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam while I was with him. Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam said: 'What a bad person is he among his community'. After saying this, he gave him permission to enter. After the person entered, he spoke very softly to him. When the person left I said: 'O Rasulullah, you said what you said before he entered, then you spoke so softly to him,. Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam said: 'O 'Aayeshah, the worst person is that who stops speaking to one because of his indecency"'.
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَکِيعٍ قَالَ حَدَّثَنَا جُمَيْعُ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْعِجْلِيُّ قَالَ أَنْبَأَنَا رَجُلٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ مِنْ وَلَدِ أَبِي هَالَةَ زَوْجِ خَدِيجَةَ وَيُکْنَی أَبَا عَبْدِ اللهِ عَنِ ابْنٍ لأَبِي هَالَةَ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ قَالَ الْحُسَيْنُ سَأَلْتُ أَبي عَنْ سِيرَةِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وسلم فِي جُلَسَائِهِ فَقَالَ کَانَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وسلم دَائِمَ الْبِشْرِ سَهْلَ الْخُلُقِ لَيِّنَ الْجَانِبِ لَيْسَ بِفَظٍّ وَلا غَلِيظٍ وَلا صَخَّابٍ وَلا فَحَّاشٍ وَلا عَيَّابٍ وَلا مُشَاحٍ يَتَغَافَلُ عَمَّا لا يَشْتَهِي وَلا يُؤْيِسُ مِنْهُ رَاجِيهِ وَلا يُخَيَّبُ فِيهِ قَدْ تَرَکَ نَفْسَهُ مِنْ ثَلاثٍ الْمِرَائِ وَالإِکْثَارِ وَمَا لا يَعْنِيهِ وَتَرَکَ النَّاسَ مِنْ ثَلاثٍ کَانَ لا يَذُمُّ أَحَدًا وَلا يَعِيبُهُ وَلا يَطْلُبُ عَوْرتَهُ وَلا يَتَکَلَّمُ إِلا فِيمَا رَجَا ثَوَابَهُ وَإِذَا تَکَلَّمَ أَطْرَقَ جُلَسَاؤُهُ کَأَنَّمَا عَلَی رُؤُوسِهِمُ الطَّيْرُ فَإِذَا سَکَتَ تَکَلَّمُوا لا يَتَنَازَعُونَ عِنْدَهُ الْحَدِيثَ وَمَنْ تَکَلَّمَ عِنْدَهُ أَنْصَتُوا لَهُ حَتَّی يَفْرُغَ حَدِيثُهُمْ عِنْدَهُ حَدِيثُ أَوَّلِهِمْ يَضْحَکُ مِمَّا يَضْحَکُونَ مِنْهُ وَيَتَعَجَّبُ مِمَّا يَتَعَجَّبُونَ مِنْهُ وَيَصْبِرُ لِلْغَرِيبِ عَلَی الْجَفْوَةِ فِي مَنْطِقِهِ وَمَسْأَلَتِهِ حَتَّی إِنْ کَانَ أَصْحَابُهُ وَيَقُولُ إِذَا رَأَيْتُمْ طَالِبَ حَاجَةٍ يِطْلُبُهَا فَأَرْفِدُوهُ وَلا يَقْبَلُ الثَّنَائَ إِلا مِنْ مُکَافِئٍ وَلا يَقْطَعُ عَلَی أَحَدٍ حَدِيثَهُ حَتَّی يَجُوزَ فَيَقْطَعُهُ بِنَهْيٍ أَوْ قِيَامٍ-
حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے (میرے چھوٹے بھائی) حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے اپنے والد حضرت علی رضی اللہ عنہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے اہل مجلس کے ساتھ کا طرز پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ خندہ پیشانی اور خوش خلقی کے ساتھ متصف رہتے تھے (یعنی چہرہ انور پر تبسم اور بشاشت کا اثر نمایاں ہوتا تھا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نرم مزاج تھے (یعنی کسی بات میں لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موافقت کی ضرورت ہوتی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سہولت سے موافق ہوجاتے تھے) نہ آپ سخت گو تھے اور نہ سخت دل تھے۔ نہ آپ چلا کر بولتے تھے نہ فحش گوئی اور بدکلامی فرماتے تھے نہ عیب گیر تھے کہ دوسروں کے عیوب پکڑیں نہ زیادہ مبالغہ سے تعریف کرنے والے نہ زیادہ مذاق کرنے والے نہ بخیل (تین لفظ) اس جگہ نقل کیے گئے تینوں کا ترجمہ لکھ دیا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناپسند بات سے اعراض فرماتے تھے۔ یعنی ادھر التفات نہ فرماتے گویا سنی ہی نہیں دوسرے کی کوئی خواہش اگر آپ کو پسند نہ آتی تو اس کو مایوس بھی نہ فرماتے تھے اور اس کا وعدہ بھی نہ فرماتے تھے آپ نے تین باتوں سے اپنے آپ کو بالکل علیحدہ فرما رکھا تھا۔ جھگڑے سے اور تکبر سے اور بیکار بات سے اور تین باتوں سے لوگوں کو بچا رکھا تھا، نہ کسی کی مذمت فرماتے تھے، نہ کسی کو عیب لگاتے تھے، نہ کسی کے عیوب تلاش فرماتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف وہی کلام فرماتے تھے جو باعث اجر وثواب ہو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم گفتگو فرماتے تو حاضرین مجلس اس طرح گردن جھکا کر بیٹھتے جیسے ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں ( کہ ذرا بھی حرکت ان میں ہوتی تھی کہ پرندہ ذرا سی حرکت سے اڑجاتا ہے) جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم چپ ہوجاتے تب وہ حضرات کلام کرتے (یعنی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو کے درمیان کوئی شخص نہ بولتا تھا جو کچھ کہنا ہوتا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چپ ہونے کے بعد کہتا تھا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کسی بات میں نزاع نہ کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب کوئی شخص بات کرتا تو اس کے خاموش ہونے تک سب ساکت رہتے ۔ ہر شخص کی بات (توجہ سے سننے میں) ایسی ہوتی جیسے پہلے شخص کی گفتگو یعنی بے قدری سے کسی کی بات نہیں سنی جاتی تھی، ورنہ عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ مجلس کی ابتداء میں تو توجہ تام ہوتی ہے پھر کچھ دیر ہونے سے اکتانا شروع کردیتے ہیں اور کچھ بے توجہی سی ہوجایا کرتی ہے) جس بات سے سب ہنستے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تبسم فرماتے اور جس سے سب لوگ تعجب کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تعجب میں شریک رہتے یہ نہیں کہ سب سے الگ چپ چاپ بیٹھے رہیں بلکہ معاشرت اور طرز کلام میں شرکاء مجلس کے شریک حال رہتے) اجنبی مسافر آدمی کی سخت گفتگو اور بے تمیزی کے سوال پر صبر فرماتے (یعنی گاؤں کے لوگ جا بے جا سوالات کرتے آداب کی رعایت نہ کر کے ہر قسم کے سوالات کرتے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان پر گرفت نہ فرماتے ان پر صبر کرتے) اور اس وجہ سے وہ لوگ ہر قسم کے سوالات کر لیتے تھے۔ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس اقدس تک مسافروں کو لے کر آیا کرتے تھے (تاکہ ان کے ہر قسم کے سوالات سے خود بھی منتفع ہوں اور ایسی باتیں جن کو ادب کی وجہ سے یہ حضرات خود نہ پوچھ سکتے تھے وہ بھی معلوم ہوجائیں) آپ یہ بھی تاکید فرماتے رہتے تھے کہ جب کسی طالب حاجت کو دیکھو تو اس کی امداد کیا کرو ( اگر آپ کی کوئی تعریف کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو گوارا نہ فرماتے البتہ) بطور شکریہ اور ادائے احسان کے کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سکوت فرماتے۔ یعنی حد سے تجاوز کرتا تو روک دیتے۔ کسی کی گفتگو قطع نہ فرماتے تھے کہ دوسرے کی بات کاٹ کر اپنی شروع نہ فرمائیں ۔ البتہ اگر کوئی حد سے تجاوز لگتا تو اسے روک دیتے تھے یا مجلس سے تشریف لے جاتے تاکہ وہ خود رک جائے ۔
Imaam Hasan Radiyallahu 'Anhu says, (my younger brother) Husayn said: "I asked my father (Sayyidina 'Ali Radiyallahu 'Anhu) about the conduct of Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam in his assemblies' He replied.. 'Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam was always happy and easy mannered. There was always a smile and a sign of happiness on his blessed face. He was soft-natured and when the people needed his approval, he easily gave consent. He did not speak in a harsh tone nor was he stone-hearted. He did not scream while speaking, nor was he rude or spoke indecently. He did not seek other's faults. He never overpraised anything nor exceeded in joking, nor was he a miser. He kept away from undesirable language and did not make as if he did not hear anything. If he did not agree with the next person's wish he did not make that person feel disheartened, nor did he promise anything to that person. He completely kept himself away from three things: from arguments, pride and senseless utterances. He prohibited people from three things. He did not disgrace or insult anyone, nor look for the faults of others, he only spoke that from which thawaab and reward was attained. When he spoke, those present bowed their heads in such a manner, as if birds were sitting on their heads. (They did not shift about, as birds will fly away on the slightest move). When he completed his talks, the others would begin speaking. (No one would speak while Sayyidina Rasulullah Sallallahu'Alayhi Wasallam spoke. Whatever one wanted to say, it would be said after he had completed speaking). They did not argue before him regarding anything. Whenever one spoke to him the other would keep quiet and listen till he would finish. The speech of every person was as if the first person was speaking. (They gave attention to what every person said. It was not as is generally found that in the beginning people pay full attention, and if the talk is lengthened they became bored, and begin to pay less attention). When all laughed for something, he would laugh too. The things that surprised the people, he would also show his surprise regarding that. (He would not sit quietly and keep himself aloof from everyone, but made himself part of the gathering). He exercised patience at the harshness and indecent questions of a traveller. (Villagers usually ask irrelevant questions. They do not show courtesy and ask all types of questions. Sayyidina Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam did not reprimand them but exercised patience). The Sahaabah would bring travellers to his assemblies (so that they thernselves could benefit from the various types of questions asked by these people, and also hear some questions regarding which they themselves, due to etiquette, would not ask). Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam' would say: 'When you see a person in need, then always 'help that person'. (If someone praised him, he would detest it). If someone, by way of thanks praised him, he would remain silent, (because it is necessary that one 'thank a person for a good favour or good deed. It is like one fulfilling one's duty. Some of the 'ulama have translated this as: 'If one did not exceed in praising him, he would keep silent'. That means if he exceeded he would prohibit him). He did not interrupt someone talking and did not begin speaking when someone else was busy speaking. If one exceeded the limits he would stop him or would get up and leave (so that that person would stop)".
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ قَالَ سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ يَقُولُ مَا سُئِلَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وسلم شَيْئًا قَطُّ فَقَالَ لا-
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی شخص کے کوئی چیز مانگنے پر انکار نہیں فرمایا۔
Jaabir Radiyallahu 'Anhu says. "Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam never said 'No' to a request of a person".
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ عِمْرَانَ أَبُو الْقَاسِمِ الْقُرَشِيُّ الْمَکِّيُّ قَالَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُبَيْدِ اللهِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ کَانَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وسلم أَجْوَدَ النَّاسِ بِالْخَيْرِ وَکَانَ أَجْوَدَ مَا يَکُونُ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ حَتَّی يَنْسَلِخَ فَيَأْتِيهِ جِبْرِيلُ فَيَعْرِضُ عَلَيْهِ الْقُرْآنَ فَإِذَا لَقِيَهُ جِبْرِيلُ کَانَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وسلم أَجْوَدَ بِالْخَيْرِ مِنَ الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ-
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اول تو تمام لوگوں سے زیادہ ہر وقت ہی سخی تھے (کہ کوئی بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا کہ خود فقیرانہ زندگی بسر کرتے تھے اور عطاؤں میں بادشاہوں کو شرمندہ کرتے تھے۔ نہایت سخت احتیاج کی حالت میں ایک عورت نے چادر پیش کی اور سخت ضرورت کے درجہ میں پہنی۔ جب ہی ایک شخص نے مانگ لی اور اس کو مرحمت فرمادی۔ قرض لے کر ضرورت مندوں کی ضرورت کو پورا کرنا اور قرض خواہ کے سخت تقاضے کے وقت کہیں سے اگر کچھ آگیا اور ادائے قرض کے بعد بچ گیا تو جب تک وہ تقسیم نہ ہوجائے گھر نہ جانا ایسے مشہور واقعات اتنی کثرت سے ہیں کہ ان کا احاطہ ہو ہی نہیں سکتا) بالخصوص رمضان المبارک میں تمام مہینہ اخیر تک بہت ہی فیاض رہتے ( کہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی گیارہ مہینے کی فیاضی بھی اس مہینے کی فیاضی کے برابر نہ ہوتی تھی) اور اس مہینہ میں بھی جس وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام تشریف لا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کلام اللہ شریف سناتے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھلائی اور نفع پہنچانے میں تیز بارش لانے والی ہوا سے بھی زیادہ سخاوت فرماتے تھے۔
Ibn 'Abbaas Radiyallahu 'Anhu says: "Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam was the most generous among people in performing good deeds (No one could compare with him in generosity. He himself led a simple life, but in giving he would put a king to shame.At a time of great need a woman presented him a sheet, and he wore it as he was in need of it.A person came to him, and asked him for it, he presented the sheet to that person. Taking of loans and fulfilling the needs of.others, when the creditors came, and if something had come from somewhere, he would pay the debts, and did not go home till everything was given to the needy. There exists many incidents of this nature, so much so that it is not possible to enumerate them). Particularly in the month of Ramadaan, he would be more generous till the month ended. (His generosity in this month exceeded all the other months). In this month when Jibra-eel 'Alayhis Salaam came and recited the Qur-aan to Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam, at that time his generosity exceeded the wind that brings forth heavy rains".
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وسلم لا يَدَّخِرُ شَيْئًا لِغَدٍ-
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے دن کے لئے کسی چیز کو ذخیرہ بنا کر نہیں رکھتے تھے۔
Anas Radiyallahu 'Anhu says: "Rasulullah. Sallallahu 'Alayhi Wasallam did not store anything for the next day".
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مُوسَی بْنِ أَبِي عَلْقَمَةَ الْمَدِينِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ هِشَامِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَنَّ رَجُلا جَائَ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وسلم فَسَأَلَهُ أَنْ يُعْطِيَهُ فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وسلم مَا عِنْدِي شَيْئٌ وَلَکِنِ ابْتَعْ عَلَيَّ فَإِذَا جَائَنِي شَيْئٌ قَضَيْتُهُ فَقَالَ عُمَرُ يَا رَسُولَ اللهِ قَدْ أَعْطَيْتُهُ فَمَّا کَلَّفَکَ اللَّهُ مَا لا تَقْدِرُ عَلَيْهِ فَکَرِهَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وسلم قَوْلَ عُمَرَ فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ يَا رَسُولَ اللهِ أَنْفِقْ وَلا تَخَفْ مِنْ ذِي الْعَرْشِ إِقْلالا فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وسلم وَعُرِفَ فِي وَجْهِهِ الْبِشْرَ لِقَوْلِ الأَنْصَارِيِّ ثُمَّ قَالَ بِهَذَا أُمِرْتُ-
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ کسی ضرورت مند نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ سوال کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میرے پاس تو اس وقت کچھ موجود نہیں ہے۔ تم میرے نام سے خرید لو جب کچھ آجائے گا تو میں ادا کردوں گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے پاس جو کچھ تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم دے چکے ہیں (اور جو چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قدرت میں نہیں ہے اس کا حق تعالیٰ شانہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکلف نہیں بنایا۔) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ مقولہ نا گوار گزرا تو ایک انصاری صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) جس قدر جی چاہے خرچ کیجئے اور عرش کے مالک سے کمی کا اندیشہ نہ کیجئے (کہ جو ذات پاک عرش بریں کی مالک ہے اس کے یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دینے کیا کمی ہو سکتی ہے)۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو انصاری کا یہ کہنا بہت پسند آیا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبسم فرمایا جس کا اثر چہرہ انور پر ظاہر ہوتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حق تعالیٰ شانہ نے مجھے اس کا حکم فرمایا ہے۔
'Umar Radiyallahu 'Anhu reports that once a needy person came to ask Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam for his need. Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam replied: "I do not have anything at present. Go and purchase something on my behalf. When something arrives I will pay for it". 'Umar Radiyallahu 'Anhu said: "O Messenger of Allah, whatever you possessed you have already given away. Allah Ta'aala did not make you responsible for that which is not in your means". Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam felt annoyed at this saying of 'Umar Radiyallahu'Anhu. Thereupon a person from among, the Ansaar said: "O Rasul, of Allah, spend whatever you wish, and do not fear any lessening from the Lord of the 'Arsh (Throne)". (That Great Deity that is the Lord of the'Arsh, nothing will decrease in His Bounties by giving you). Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam smiled and the happiness could be seen on his mubaarak face due to the saying of the Ansaari. Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam than said: "Allah Ta'aala has commanded me to do this".
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ أَخْبَرَنَا شَرِيکٌ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ عَنِ الرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذِ بْنِ عَفْرَائَ قَالَتْ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وسلم بِقِنَاعٍ مِنْ رُطَبٍ وَأَجْرٍ زُغْبٍ فَأَعْطَانِي مِلْئَ کَفِّهِ حُلِيًّا وَذَهَبًا-
ربیع کہتی ہیں کہ میں ایک طباق کھجوروں کا اور کچھ چھوٹی چھوٹی پتلی پتلی ککڑیاں لے کر حاضر خدمت ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنا دستِ مبارک بھر کر سونا اور زیور مرحمت فرمایا۔
Rubayyi' bint Mu'awwidh bin 'Af-raa Radiyallahu 'Anha says: "I brought to Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam a tray full of dates, and some small cucumbers. Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam gave me a handful of jewellery".
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا عِيسَی بْنُ يُونُسَ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وسلم کَانَ يَقْبَلُ الْهَدِيَّةَ وَيُثِيبُ عَلَيْهَا-
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ہدیہ قبول فرماتے تھے اور اس پر بدلہ بھی دیا کرتے تھے۔
'Aayeshah Radiyallahu 'Anha reports that Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam accepted gifts, and also gave presents in return.