حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے گزر اوقات کا ذکر

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ عَنْ سِمَاکِ بْنِ حَرْبٍ قَالَ سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ يَقُولُ أَلَسْتُمْ فِي طَعَامٍ وَشَرَابٍ مَا شِئِتُمْ لَقَدْ رَأَيْتُ نَبِيَّکُمْ صلی الله عليه وسلم وَمَا يَجِدُ مِنَ الدَّقَلِ مَا يَمْلأُ بَطْنَهُ-
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کیا تم لوگ کھانے پینے میں اپنی مرضی کے موافق منہمک نہیں ہو (اور جتنا دل چاہے تم لوگ نہیں کھاتے ہو) حالانکہ میں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں ردی کھجوریں پیٹ بھر نہیں تھیں ۔
Nu'maan ibn Bashir Radiyallahu 'Anhu says: "Are you not in the luxuries of eating and drinking, whereas, I had observed that Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam did not possess ordinary types of dates to fill his stomach".
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاقَ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ إِنْ کُنَّا آلَ مُحَمَّدٍ نَمکُثُ شَهْرًا مَا نَسْتَوْقِدُ بِنَارٍ إِنْ هُوَ إِلا التَّمْرُ وَالْمَائُ-
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم لوگ یعنی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل وعیال وہ ہیں کہ ایک ایک ماہ تک ہمارے یہاں آگ نہیں جلتی تھی صرف کھجور اور پانی پر گزارا تھا۔
'Aayeshah Radiyallahu 'Anha reports: "We the family of Muhammad Sallallahu 'Alayhi Wasallam did not light a fire for months in our homes. We sustained ourselves on dates and water".
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ قَالَ حَدَّثَنَا سَيَّارٌ قَالَ حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ أَسْلَمَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي مَنْصُورٍ عَنْ أَنَسٍ عَنْ أَبِي طَلْحَةَ قَالَ شَکَوْنَا إِلَی رَسُولِ اللهِ صلی الله عليه وسلم الْجُوعَ وَرَفَعْنَا عَنْ بُطُونِنَا عَنْ حَجَرٍ فَرَفَعَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وسلم عَنْ بَطْنِهِ عَنْ حَجَرَيْنِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ أَبِي طَلْحَةَ لا نَعْرِفُهُ إِلا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَمَعْنَی قَوْلِهِ وَرَفَعْنَا عَنْ بُطُونِنَا عَنْ حَجَرٍ حَجَرٍ کَانَ أَحَدُهُمْ يَشُدُّ فِي بَطْنِهِ الْحَجَرَ مِنَ الْجُهْدِ وَالضَّعْفِ الَّذِي بِهِ مِنَ الْجُوعِ-
حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگوں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے شدت بھوک کی شکایت کی اور اپنے پیٹ پر بندھے ہوئے پتھر دکھلائے کہ ہر شخص کے پیٹ پر بھوک کی شدت کی وجہ سے ایک ایک پتھر بندھا ہوا تھا۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیٹ پر دو پتھر بندھے ہوئے دکھلائے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو شدت بھوک ہم سے زیادہ تھی اور ہم سے زیادہ وقت بدوں کھائے گزر چکا تھا۔
Abu Talhah Radiyallahu 'Anhu says: "We complained to Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam about the severe pangs of hunger, and showed him the stones fastened on our stomachs. A stone was fastened on the stomach of every one of us due to severe hunger. Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam showed us two stones fastened onto his stomach". (Sayyidina Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam experienced more hunger than we did, and he had spent a longer period than us since he had last eaten).
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ قَالَ حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ قَالَ حَدَّثَنَا شَيْبَانُ أَبُو مُعَاوِيَةَ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ عُمَيْرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ خَرَجَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وسلم فِي سَاعَةٍ لا يَخْرُجُ فِيهَا وَلا يَلْقَاهُ فِيهَا أَحَدٌ فَأَتَاهُ أَبُو بَکْرٍ فَقَالَ مَا جَائَ بِکَ يَا أَبَا بَکْرٍ قَالَ خَرَجْتُ أَلْقَی رَسُولَ اللهِ صلی الله عليه وسلم وَأَنْظُرُ فِي وَجْهِهِ وَالتَّسْلِيمَ عَلَيْهِ فَلَمْ يَلْبَثْ أَنْ جَائَ عُمَرُ فَقَالَ مَا جَائَ بِکَ يَا عُمَرُ قَالَ الْجُوعُ يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ صلی الله عليه وسلم وَأَنَا قَدْ وَجَدْتُ بَعْضَ ذَلِکَ فَانْطَلَقُوا إِلَی مَنْزِلِ أَبِي الْهَيْثَمِ بْنِ التَّيْهَانِ الأَنْصَارِيِّ وَکَانَ رَجُلا کَثِيرَ النَّخْلِ وَالشَّائِ وَلَمْ يَکُنْ لَهُ خَدَمٌ فَلَمْ يَجِدُوهُ فَقَالُوا لامْرَأَتِهِ أَيْنَ صَاحِبُکِ فَقَالَتِ انْطَلَقَ يَسْتَعْذِبُ لَنَا الْمَائَ فَلَمْ يَلْبَثُوا أَنْ جَائَ أَبُو الْهَيْثَمِ بِقِرْبَةٍ يَزْعَبُهَا فَوَضَعَهَا ثُمَّ جَائَ يَلْتَزِمُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وسلم وَيُفَدِّيهِ بِأَبِيهِ وَأُمِّهِ ثُمَّ انْطَلَقَ بِهِمْ إِلَی حَدِيقَتِهِ فَبَسَطَ لَهُمْ بِسَاطًا ثُمَّ انْطَلَقَ إِلَی نَخْلَةٍ فَجَائَ بِقِنْوٍ فَوَضَعَهُ فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وسلم أَفَلا تَنَقَّيْتَ لَنَا مِنْ رُطَبِهِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللهِ إِنِّي أَرَدْتُ أَنْ تَخْتَارُوا أَوْ تَخَيَّرُوا مِنْ رُطَبِهِ وَبُسْرِهِ فَأَکَلُوا وَشَرِبُوا مِنْ ذَلِکَ الْمَائِ فَقَالَ صلی الله عليه وسلم هَذَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مِنِ النَّعِيمِ الَّذِي تُسْأَلُونَ عَنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ظِلٌّ بَارِدٌ وَرُطَبٌ طَيِّبٌ وَمَائٌ بَارِدٌ فَانْطَلَقَ أَبُو الْهَيْثَمِ لِيَصْنَعَ لَهُمْ طَعَامًا فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وسلم لا تَذْبَحَنَّ ذَاتَ دَرٍّ فَذَبَحَ لَهُمْ عَنَاقًا أَوْ جَدْيًا فَأَتَاهُمْ بِهَا فَأَکَلُوا فَقَالَ صلی الله عليه وسلم هَلْ لَکَ خَادِمٌ قَالَ لا قَالَ فَإِذَا أَتَانَا سَبْيٌ فَأْتِنَا فَأُتِيَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وسلم بِرَأْسَيْنِ لَيْسَ مَعَهُمَا ثَالِثٌ فَأَتَاهُ أَبُو الْهَيْثَمِ فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وسلم اخْتَرْ مِنْهُمَا فَقَالَ يَا رَسُولَ اللهِ اخْتَرْ لِي فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وسلم إِنَّ الْمُسْتَشَارَ مُؤْتَمَنٌ خُذْ هَذَا فَإِنِّي رَأَيْتُهُ يُصَلِّي وَاسْتَوْصِ بِهِ مَعْرُوفًا فَانْطَلَقَ أَبُو الْهَيْثَمِ إِلَی امْرَأَتِهِ فَأَخْبَرَهَا بِقَوْلِ رَسُولِ اللهِ صلی الله عليه وسلم فَقَالَتِ امْرَأَتُهُ مَا أَنْتَ بِبَالِغٍ حَقَّ مَا قَالَ فِيهِ النَّبِيُّ صلی الله عليه وسلم إِلا بِأَنْ تَعْتِقَهُ قَالَ فَهُوَ عَتِيقٌ فَقَالَ صلی الله عليه وسلم إِنَّ اللَّهَ لَمْ يَبْعَثْ نَبِيًّا وَلا خَلِيفَةً إِلا وَلَهُ بِطَانَتَانِ بِطَانَةٌ تَأْمُرُهُ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَاهُ عَنِ الْمُنْکَرِ وَبِطَانَةٌ لا تَأْلُوهُ خَبَالا وَمَنْ يُوقَ بِطَانَةَ السُّوئِ فَقَدْ وُقِيَ-
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ایسے وقت دولت خانہ سے باہر تشریف لائے کہ اس وقت نہ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت شریفہ باہر تشریف لانے کی تھی نہ کوئی شخص حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس وقت دولت خانہ پر حاضر ہوتا تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی باہر تشریف آوری پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ موجود تھے۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر سے خلاف معمول بے وقت آنے کا سبب دریافت فرمایا۔ انہوں نے عرض کیا کہ جمال جہاں آرا کی زیارت اور سلام کے لئے حاضر ہوا ہوں ( حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے کمال تناسب کی وجہ سے تھا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو اگر خلاف عادت باہر تشریف آوری کی نوبت آئی تو اس یک جان دو قالب پر بھی اس کا اثر ہوا) بندہ کے نزدیک یہی وجہ اولیٰ ہے اور یہی کمال تناسب بڑی وجہ ہے نبوی دور کے ساتھ خلافت صدیقیہ کے اتصال کی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد اگر مناسب تامہ نہ ہونے کی وجہ وقتی احکام میں کچھ تغیر ضرور ہوتا اور صحابہ کرام کے لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فراق کے ساتھ یہ دوسرا مرحلہ مل کر رنج وملال کو ناقابل برداشت بنانے والا ہوتا بخلاف صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس درجہ اتصال اور قلبی یک جہتی تھی کہ جن مواقع پر جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل تھا وہی اکثر حضرت ابوبکر صدیق کا بھی تھا۔ چنانچہ حدیبیہ کا قصہ مشہور ہے جس کا ذکر حکایات صحابہ میں گزر چکا ہے مسلمانوں نے نہایت دب کر ایسی شرائط پر کفار سے صلح کی تھی کہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم اس کا تحمل بھی نہ کرسکے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نہایت جوش میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ صلی اللہ علیہ اللہ تعالیٰ کے برحق نبی نہیں ہیں؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک۔ حضرت عمر نے کہا کیا ہم حق پر اور دشمن باطل پر نہیں ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک ۔ حضرت عمرنے کہا پھر ہم کو دین کے بارے میں یہ ذلت کیوں دی جارہی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اللہ کا رسول ہوں اور اس کی نافرمانی نہیں کر سکتا وہی مددگار ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے یہ نہیں کہا تھا کہ ہم مکہ جائیں گے اور طواف کریں گے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کہا بے شک لیکن کیا میں نے یہ بھی کہا تھا کہ اسی سال مکہ میں جائیں گے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا نہیں یہ تو نہیں کہا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم، بس تو مکہ میں ضرور جائے گا اور طواف کرے گا۔ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسی جوش میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا اے ابوبکر! کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے برحق نبی نہیں ہیں؟ حضرت ابوبکر نے فرمایا بے شک۔ حضرت عمر! کیا ہم حق پر اور دشمن باطل پر نہیں؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ! بے شک ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ! پھر ہم کو دین کے بارے میں یہ ذلت کیوں دی جا رہی ہے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ! اے آدمی! یہ بلاتردد سچے رسول ہیں اور اللہ کی ذرا نافرمانی کرنے والے نہیں ہیں وہی ان کا مددگار ہے تو ان کی رکاب کو مضبوط پکڑے رہ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ! کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے یہ نہیں کہا تھا کہ ہم مکہ جائیں گے اور طواف کریں گے؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ! کیا تجھ سے یہ وعدہ کیا تھا کہ اسی سال مکہ جائیں گے حضرت عمر رضی اللہ عنہ! نہیں یہ تو نہیں فرمایا تھا ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ! بس تو مکہ میں ضرور جائے گا اور طواف کرے گا۔ بخاری شریف میں یہ قصہ مفصل مذکورہ ہے اور بھی اس قسم کے متعدد واقعات حیرت انگیز ہیں ۔ حتیٰ کہ اگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجتہادی خطا ہوئی تو اس میں حضرت ابوبکر شریک ہیں جیساکہ بدر کے قیدیوں کے معاملہ میں جس کا قصہ سورت انفال کے اخیر میں ہے۔ اس صورت میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا اس وقت خلاف معمول باہر آنا دل را بدل رہ یست000، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر کا اثر تھا گو بھوک بھی لگی ہوئی ہو۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا آنا بھی بھوک کے تقاضے کی وجہ سے تھا لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ انور کو دیکھ کر اس کا خیال بھی جاتا رہا اسی لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے استفسار پر اس کا ذکر نہیں کیا (یاد سب کچھ ہیں مجھے ہجر کے صدمے ظالم بھول جاتا ہوں مگر دیکھ کے صورت تیری)۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تشریف آوری بھوک ہی کی وجہ سے تھی مگر اس کا ذکر اس لئے نہیں کیا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو گرانی نہ ہو کہ دوست کی تکلیف اپنی تکلیف پر غالب ہوجایا کرتی ہے) تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حاضر خدمت ہوئے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بے وقت حاضری کا سبب پوچھا انہوں نے عرض کیا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھوک کی وجہ سے حاضر ہوا ہوں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بھوک تو کچھ میں بھی محسوس کر رہا ہوں ۔ اس کے بعد تینوں حضرات ابوالہیثم انصاری کے مکان پر تشریف لے گئے وہ اہل ثروت لوگوں میں سے تھے کھجوروں کا بڑا باغ تھا۔ بکریاں بھی بہت سی تھی۔ البتہ خادم ان کے پاس کوئی نہیں تھا اس لئے گھر کا کام سب خود ہی کرنا پڑتا تھا۔ یہ حضرات جب ان کے مکان پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ وہ گھر والوں کے لئے میٹھا پانی لینے گئے ہیں جو خادم نہ ہونے کی وجہ سے خود ہی لانا پڑتا تھا۔ لیکن ان حضرات کے پہنچنے پر تھوڑی دیر گزری تھی کہ وہ بھی مشکیزہ کو جو مشکل سے اٹھتا تھا۔ بدقت اٹھاتے ہوئے واپس آگئے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہو کر (اپنی خوش قسمتی پر ناز کرتے اور زبان حال ہم نشین جب میرے ایام بھلے آئیں گے بن بلائے میرے گھر آپ چلے آئیں گے پڑھتے ہوئے) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو لپٹ گئے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنے ماں باپ کو نثار کرنے لگے۔ یعنی عرض کرتے تھے کہ میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہوں ۔ اس کے بعد باغ میں چلنے کی درخواست کی وہاں پہنچ کر فرش بچھایا اور دین و دنیا کے سردار مایہ فخر مہمان کو بٹھا کر ایک خوشہ (جس میں طرح طرح کی کچی پکی آدھ کچھری کھجوریں تھیں) سامنے حاضر کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ سارا خوشہ توڑنے کی کیا ضرورت تھی؟ اس میں ابھی کچھ کچی بھی ہیں جو ضائع ہوں گی۔ پکی پکی چھانٹ کر کیوں نہ توڑیں؟ میزبان نے عرض کیا تاکہ اپنی پسند سے پکی اور گرری ہر نوع کی حسب رغبت نوش فرمائیں ۔ تینوں حضرات نے کھجوریں تناول فرمائیں اور پانی نوش فرمایا اس کے بعد حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے (جن کا ہر ہر لحظہ تعلیم امت تھا) ارشاد فرمایا کہ اس ذات پاک کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے یہ بھی اس نعیم میں شامل ہے جس کا سوال قیامت میں ہوگا اور سورت الہٰکم التکاثر کے ختم پر حق تعالیٰ شانہ نے اس کا ذکر فرمایا ان کے شکر کے متعلق سوال ہوگا کہ ہماری نعمتوں کا کس درجہ شکر ادا کیا اللہم لا احصی ثناء علیک انت کما اثنیت علی نفسک پھر اس وقت کی نعمتوں کا اظہار کے طور پر فرمایا کہ) ٹھنڈا سایہ، ٹھنڈا پانی اور ترو تازہ کھجوریں ۔ اس کے بعد میزبان کھانے کی تیاری کے لئے جانے لگے۔ تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ فرط محبت میں کیفما اتفق مت ذبح کر دینا۔ بلکہ ایسا جانور ذبح کرنا جو دودھ کا نہ ہو میزبان نے ایک بکری کا بچہ ذبح کیا اور بعجلت تمام کھانا تیار کر کے حاضر خدمت کیا اور مہمانوں نے تناول فرمایا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس وقت یہ ملاحظہ فرما کر کہ مشتاق میزبان سب کام خود ہی کر رہا ہے اور شروع میں میٹھا پانی بھی خود ہی لاتے دیکھا تھا) دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس کوئی خادم نہیں ۔ نفی میں جواب ملنے پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کہیں سے غلام آجائیں تو تم یاد دلانا اس وقت تمہاری ضرورت کا خیال رکھا جائے گا۔ اتفاقاً ایک جگہ سے دو غلام آئے تو ابوالہیثم نے حاضر ہو کر وعدہ عالی جاہ کی یاد دہانی کرائی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان دونوں غلاموں میں سے جو دل چاہے پسند کر لو۔ جو تمہاری ضرورت کے مناسب ہو (یہ جان نثار حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں اپنی کیا رائے رکھتے اس لئے) درخواست کی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی میرے لئے پسند فرمائیں (وہاں بجز دینداری کے اور کوئی وجہ ترجیح اور پسندیدگی کی ہو ہی نہیں سکتی تھی اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مشورہ دینے والا امین ہوتا ہے اس لئے میں امین ہونے کی حیثیت سے فلاں غلام کو پسند کرتا ہوں اس لئے کہ میں نے اس کو نماز پڑھتے دیکھا ہے لیکن میری ایک وصیت اس کے بارے میں یاد رکھیو کہ اس کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کیجیو (اول حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشورہ کے ضابطہ کو ذکر فرما کر گویا اس پر تنبیہ فرمائی کہ میری جو پسندیدگی ہے وہ ذمہ دارانہ اور امانتداری کی ہے پھر ایک کو پسند فرما کر وجہ ترجیح بھی ظاہر فرمائی کہ وہ نمازی ہے۔ یہ وجہ ہے اس کو راجح قرار دینے کی۔ ہمارے زمانہ میں ملازم کا نمازی ہونا گویا عیب ہے کہ آقا کے کام کا حرج ہوتا ہے) ابوالہیثم خوش خوش اپنی ضرورتوں کے لئے ایک مددگار ساتھ لے کر گھر گئے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالی شان بھی بیوی کو سنادیا۔ بیوی نے کہا کہ حضور اکرم صلی اللہ کے ارشاد کی کماحقہ تعمیل نہ ہوسکے گی اور اس درجہ بھلائی کا معاملہ کہ ارشاد عالی جاہ کا امتثال ہوجائے ہم سے نہ ہوسکے گا اس لئے اس کو آزاد ہی کردو کہ اسی سے امتثال ارشاد ممکن ہے سراپا شجاع اور مجسم اخلاص خاوند نے فوراً آزاد کردیا اور اپنی دقتوں اور تکالیف کی ذرا بھی پرواہ نہ کی۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو جب واقعہ اور جانثار صحابی کے ایثار کا حال معلوم ہوا تو اظہار مسرت اور بیوی کی مدح کے طور پر ارشاد فرمایا کہ ہر نبی اور اس کے جانشینوں کے لئے حق تعالیٰ شانہ دو باطنی مشیر اور اصلاح کار پیدا فرماتے ہیں جن میں سے ایک مشیر تو بھلائی کی ترغیب دیتا اور برائی سے روکتا ہے دوسرا مشیر تباہ وبرباد کرنے میں ذرا بھی کمی نہیں کرتا۔ جو شخص اس کی برائی سے بچا دیا جائے وہ ہر قسم کی برائی سے روک دیا گیا۔
Abu Hurayrah Radiyallahu 'Anhu reports: "Once Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam came out of his house at such a time, that it was not his noble habit to do so at that time. Nor did anyone come to meet him at that time. At that moment Abubakr Radiyallahu 'Anhu came to Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam. He asked: 'What brought you here, O Abubakr?' Abubakr Radiyallahu 'Anhu replied: 'I came out to meet the Rasul of Allah, and look at his noble face. (This was due to the complete relationship of Abubakr Siddiqe Radiyallahu 'Anhu, that when Sayyidina Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam unexpectedly came out of his house, it had an effect on Abubakr Radiyallahu 'Anhu. According to this humble servant, this is the best explanation, and this complete relationship is the reason for the continuity of the khilaafah of Abubakr Radiyallahu 'Anhu with the nabawi period after the death of Sayyidina Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam. If someone else had been elected as a khalifah, then due to the incomplete relationship, there would have been some changes in the laws of the time. It would have been an additional sorrow after the demise of Sayyidina Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam for the Sahaabah, and would have been unacceptable to them, whereas, Abubakr Radiyallahu'Anhu had such a close and deep relationship with Sayyidina Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam that on many aspects Abubakr Siddiqe Radiyallahu 'Anhu had the same thoughts as that of Sayyidina Rasulullah Sallallahu'Alayhi Wasallam. The incident of Hudaybiyyah is a testimony to this, which has already been mentioned in the book: 'Stories of the Sahaabah'. The Muslims felt so much humilation in accepting the harsh conditions of the non-believers that many among the Sahaabah could not bear it. 'Umar Radiyallahu 'Anhu anxiously came to Sayyidina Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam and said: 'O Messenger of Allah, are you not the truthful Nabi of Allah?' Sayyidina Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam replied: 'Indeed, I am'. 'Umar Radiyallahu 'Anhu said: 'Are we not on The Haq (True Path) and the enemy on falsehood?' Sayyidina Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam replied: 'Truly indeed'. 'Umar Radiyallahu 'Anhu said: 'Why are we being degraded in this manner in our deen?' Sayyidina Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam replied: "I am the Messenger of Allah, and I cannot disobey Him. Verily He is my protector'. 'Umar Radiyallahu 'Anhu said: 'Did you not say to us that we are going to Makkah, and are going to perform the tawaaf?' Sayyidina Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam said: 'Verily it is true, but did I say that we will go this year to Makkah?' 'Umar Radiyallahu 'Anhu replied: 'No, you did not say this'. Sayyidina Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam then said: 'We will surely go to Makkah and perform tawaaf'. After this 'Umar Radiyallahu 'Anhu with the same zeal went to Abubakr Radiyallahu 'Anbu and said: 'O Abubakr, is this not the truthful Nabi of Allah?' Abubakr Radiyallahu 'Anhu replied: 'Verily, yes'. 'Umar Radiyallahu 'Anhu asked: 'Are we not on the truth and the non-believers on falsehood?' Abubakr Radiyallahu 'Anhu replied: 'Verily, true'. 'Umar Radiyallahu 'Anhu then said: 'Why are we being disgraced in this manner for our deen?' Abubakr Radiyallahu 'Anhu replied: 'O man, without doubt, he is the truthful nabi, and he does not disobey Allah in the least, and only Allah is his protector. Hold fast unto his reigns'. 'Umar Radiyallahu 'Anhu replied: 'Did he not say to us that we will be going to Makkah, and will be performing the tawaaf?' Abubakr Radiyallahu 'Anhu replied: 'Did he promise you this that we will go this year?' 'Umar Radiyallahu 'Anhu replied: 'No, he did not say this to us'. Abubakr Radiyallahu 'Anhu said. 'You will go to Makkah and will also perform tawaaf '. This incident has been mentioned in detail in the Bukhaari.' There are many other similar amazing incidents. Even when Sayyidina Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam committed an ijtihaadi slip up, Abubakr Radiyallahu 'Anhu would also in that instance have the same opinion, as was the case with the prisoners of the Battle of Badr, the incident of which is mentioned at the end of Suratul Anfaal. In this case Abubakr Radiyallahu 'Anhu presenting himself at an unusual moment is the case of the soul of Sayyidina Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam having an influence on the heart of Abubakr Radiyallahu 'Anhu, as if he was also feeling hungry. I remember everything of the Sorrow of separation O (beloved) Zaalim But I forget everything after seeing your countenance. Some of the 'ulama state the coming of Abubakr Radiyallahu 'Anhu was due to hunger, but after seeing Sayyidina Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam this feeling of hunger vanished. Therefore on the inquiry of Sayyidina Rasulullah Sallallahu'Alayhi Wasallam, he did not mention this. Some of the 'ulama have written that Abubakr Radiyallahu 'Anhu came due to the hunger he experienced, but he did not mention this, because it may become difficult for Sayyidina Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam, for the difficulties of a friend supersedes the difficulties of one's self). A little while passed, when 'Umar Radiyallahu 'Anhu presented himself. Rasulullah Sallallahu'Alayhi Wasallam asked him the reason of presenting himself at such an odd time. He replied: 'Because of hunger, O Messenger of Allah'. Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam said: 'I am also experiencing a bit of that'. All then went to the house of Abul Haytham Ansaari Radiyallahu'Anhu. He was the owner of many date palms, trees and sheep, and he did not have any servants. (For this reason he did all the work himself). They did not find him there. They asked his wife, 'Where is your companion?' She replied: 'He has gone to bring sweet water for us'. A little while had not passed, when Abul Haytham Radiyallahu 'Anhu experiencing difficulty arrived carrying the water bag. He put it down. He then came and honoured Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam, his noble guest, and was pleased by the honour of meeting Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam, (and proud of his good fortune, reciting and embracing him) O companion when my benevolent moments will come. Without invitation you will come away to my home. and began to sacrifice on Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam his father and mother. (i,.e. He was saying, may my father and mother be sacrificed on you). After that he requested them to come to his palm grove. He spread out for them a mat, then went to a palm and brought a,whole bunch (which had ripe, half ripe etc. kinds of dates on it), and put it before them. Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam said: 'Why did you not only pick the ripe ones'. (rather than bringing the whole bunch). He (the host) said. 'Eat what pleases you from it'. They ate from it, and drank water. Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam said there after, (of which every moment of his life was a means of education for the ummah), I swear an oath by the Being in whose hands lies my life, this is also included among those blessings of which one will be asked on the day of qiyaamah, (which Allah Ta'aala has mentioned at the end of Surah Takathur. It will be asked regarding gratitude. He then counted the blessings of that moment), the cool shadow, good fresh dates, and cold water. Thereafter the host started going to prepare meals, whereupon Rasulullah Sallallahu'Alayhi Wasallam said to him, in happiness do not just slaughter any animal, but slaughter an animal that does not give milk. The host slaughtered for them a female or male young goat. (He quickly prepared the food), and presented it before them. They partook of it' (Sayyidina Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam noticed that he was doing all the work by himself, and at the beginning he had brought the sweet water himself too). Sayyidina Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam inquired: 'Have you not any servants?' He replied: 'No' Whereupon Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam said: 'When slaves shall arrive, remind us. Incidentally only two slaves were brought to Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam. Abul Haytham Radiyallahu 'Anhu came to remind Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam of his promise. Rasulullah Sallallahu'Alayhi Wasallam said: 'Choose any one of them'. (Where will such a Sahaabi who has sacrificed himself for Sayyidina Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam put forward his own desire in the presence of Sayyidina Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam. Therefore,) He said: 'O Nabi of Allah, you choose one for me'. (Besides piety, there could have been no other reason for liking and choosing a slave) Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam said: 'An adviser is trustworthy (and by me being the trustworthy person) I choose this slave for you, as I had seen him perform his salaah. Remember my one advice, and that is to treat him well'. (First Sayyidina Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam mentioned the rule an adviser must adopt. Then reminded that my choice will be a responsible and trustworthy one. He then chose one and gave his reason for it, that the slave is one that upkeeps the salaah, therefore this slave was given preference. In our times, for an employee to be punctual with the salaah is a fault,' as it hinders the work of the employer). Abul Haytham Radiyallahu 'Anhu went (happily home, that he had someone to help him in his chores) to his wife, and told her what Rasulullah Sallallahu'Alayhi Wasallam had said. His wife said: "You will not be able to fulfil exactly that which Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam had commanded. It is difficult for us to truly carry out that noble advice, therefore free him, for by this it will be possible to fulfil the commands of Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam'. The husband then said,. 'He is free'. (He did not care the least for his troubles and difficulties. When Sayyidina Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam came to know about this honourable sacrifice) Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam said: 'For every nabi and his successors Allah Ta'aala creates two concealed advisers. One of which induces to do good and saves from committing evil. The other advises not to care the least in ruining and destroying a person. The one that is saved from this persons wickedness, is being saved from all ruin and destruction".
حدثنا عمر بن إسماعيل بن مجالد بن سعيد حدثني أبي عن بيان حدثني قيس بن حازم قال سمعت سعد بن أبي وقاص يقول إني لأَوْل رَجل أَهْرَقَ دَمًا فِي سَبِيلِ اللهِ وَإِنْي لأَوْل رَجلٍ رَمَی بِسَهْمٍ فِی سَبِيلِ اللهِ َلقَدْ رَأَيْتُنِي أغزوا فِي الْعِصَابَةَ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمْدٍ صلی الله عليه وسلم مَا نَأکُلْ إلاَّ وَرَقَ الشَجَرِ وَالْحُبْلَةَ حَتَّی تَقَرَحَتْ أَشْدَاقُنَا وَإِنْ أَحَدُنَا لَيَضَعُ کَمَا تَضَعُ الشَّاةُ وَالبَعِير وَأَصْبَحَتْ بَنُو أَسَدٍ يَعَزِّرُونَنِی فِي الدِّينِ لَقَدْ خِبْتُ إذَنْ وَخَسِرْت وَضَلَ عَمَلِي-
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ امت محمدیہ میں سب سے پہلا شخص جس نے کافر کا خون بہایا ہو میں ہی ہوں اور ایسے ہی پہلا وہ شخص جس نے جہاد میں تیر پھینکا ہو میں ہوں ہم لوگ (یعنی صحابہ کی جماعت ابتداء اسلام میں) ایسی حالت میں جہاد کیا کرتے تھے کہ ہمارے پاس کھانے کی کوئی چیز نہ تھی۔ درختوں کے پتے اور کیکر کی پھلیاں ہم لوگ کھایا کرتے تھے جس کی وجہ سے ہمارے جبڑے زخمی ہو گئے تھے اور پتے کھانے کی وجہ سے پاخانہ میں بھی اونٹ اور بکری کی طرح مینگنیاں نکلا کرتی تھیں اس کے بعد بھی قبیلہ بنو اسد کے لوگ اسلام کے بارے میں مجھ کو دھمکاتے ہیں اگر میرے دین سے ناواقفیت کا یہی حال ہے جیسا یہ لوگ بتاتے ہیں تو خسر الدنیا والآخرة دنیا اس تنگی وعسرت میں گئی اور دین کی یہ حالت کہ نماز سے بھی زیادہ واقفیت نہ ہوئی ۔
Sa'd bin Abi Waqqias Radiyallahu 'Anhu reports that from the ummah of Muhammad Sallallahu 'Alayhi Wasallam I was the first to take the the blood of a non-believer, and I was the first to shoot an arrow in the path of Allah.We (the group of Sahaabah in the early period of Islaam) went for jihaad in such a state, where we had nothing to eat. We ate the leaves of tree and pods of the acacia tree. As a result our jaw became ulcerous and wounded, and because of the leaves our excreta was like that of sheep and camel. After that too the people of Banu Asad threatend me. If the status of my ignorance in the deen is such as these people claim, then this world and the hereafter is lost. (The days in this world have been spent in poverty and difficulty, and the state of the deen is this that I do not have knowledge of salaah too).
حدثنا محمد بن بشار حدثنا صفوان بن عيسی حدثنا محمد بن عمرو بن عيسی أبو نعامة العدوي قال سمعت خَالِدِ بْنِ عُمَيْرٍ وشويسًا أبا الرقاد قالا بعث عمر بن الخطاب عُتْبَةُ بْنُ غَزْوَانَ وقَالَ انطلق أنت ومن معک حتی إذا کنتم في أقصی أرض العرب وأدنی بلاد أرض العجم فأقبلوا حتی إذا کانوا بالمربد وجدوا هذا المکان فقالوا ما هذه هذه البصرة فسارواحتی إذا بلغوا حيال الجسر الصغير فقالوا هاهنا أمرتم فنزلوا فذکروا الحديث بطوله قال فقال عتبة بن غزوان لَقَدْ رَأَيْتُنِي وَإِنِّي لسَابِعَ سَبْعَةٍ مَعَ رَسُولِ اللهِ صلی الله عليه وسلم مَا لَنَا طَعَامٌ إِلاَّ وَرَقُ الشَّجَرِ حَتَّی تَقَرِحَتْ أَشْدَاقُنَا فالْتَقَطْتُ بُرْدَةً فََقسمتهَا بَيْنِي وَبَيْنَ سَعْدٍ بن أبي وقاص فَمَا مِنَّا من أُولَئِکَ السَبْعَة أَحَد إِلاَّ وَهُوَ أَمِيرَ مِصْرٍ مِنَ الأَمْصَارِ وَسَتَجُرُبونَ الأُمَرَائَ بَعْدَنَا-
خالد بن عمیر اور شویس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عتبہ بن غزوان کو حکم فرمایا کہ تم اپنے رفقاء کے ساتھ (جو تین سو مجاہد تھے) عجم کی طرف چلے جاؤ اور جب منتہائے سر زمین عرب پر پہنچو جہاں کی سر زمین عجم بہت ہی قریب رہ جائے تو وہاں قیام کرنا (مقصد ان کی روانگی کا یہ تھا کہ دربار عمری میں یہ اطلاع پہنچی تھی کہ عجم کا ارادہ عرب پر حملہ کرنے کا ہے اور بہ روایت دیگر یزدجر نے عجم سے امداد منگائی ہے جس کا یہ راستہ تھا اس لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس لشکر کو ناکہ بندی کے لئے ارسال فرمایا تھا) وہ لشکر چلا اور جب مربد بصرہ پر پہنچے وہاں عجیب طرح کے سفید سفید پتھروں پر نظر پڑی لوگوں نے اول تعجب سے ایک دوسرے سے پوچھا کہ یہ کیا چیز ہیں ؟ تو انہوں نے کہا کہ یہ بصرہ ہیں (بصرہ اصل لغت میں سفید مائل پتھروں کو کہتے ہیں اس کے بعد پھر شہر کا نام پڑ گیا تو گویا انہوں نے جواب دیا کہ یہ بھی ایک قسم کے پتھر ہیں) اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ہدایت کے موافق آگے بڑھے اور جب دجلہ کے چھوٹے پل کے قریب پہنچے تو لوگوں نے تجویز کیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی متعینہ جگہ یہی ہے اس لئے وہیں پڑاؤ ڈال دیا۔ راوی نے اس جگہ تمام قصہ (یعنی خراسان کے لشکر کے آنے کا اور عتبہ کے فتح کرنے کا پورا قصہ) مفصل ذکر کیا (مگر امام ترمذی کا چونکہ اس جگہ ذکر کرنے سے مقصود اس وقت کی تنگ حالی کا بیان کرنا تھا۔ جس کا ذکر اس حدیث کے اخیر میں ہے اس لئے تمام حدیث کو مختصر کر کے اس جملہ کو ذکر کردیا۔) حضرت عتبہ رضی اللہ عنہ نے فتح کے بعد ایک خطبہ بھی پڑھا تھا جو عربی حاشیہ میں نقل کیا گیا اس میں دنیا کی بے ثباتی آخرت کا دائمی گھر ہونا وغیرہ امور ارشاد فرمائے تھے۔ چنانچہ حمدوصلوة کے بعد فرماتے ہیں کہ دنیا ختم ہو رہی ہے اور منہ پھیر کر جا رہی ہے دنیا کا حصہ اتنا ہی باقی رہ گیا جیساکہ کسی برتن کا پانی ختم ہوجائے اور اخیر میں ذرا سا قطرہ اس میں رہ جائے تم لوگ اس دنیا سے ایک ایسے عالم کی طرف جا رہے ہو جو ہمیشہ رہنے والا ہے کبھی ختم ہونے والا نہیں ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ بہترین ماحضر کے ساتھ اس عالم سے جاؤ اس لئے کہ ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ جہنم (جو اللہ کے نافرمانوں کا گھر ہے) اتنی گہری ہے کہ اگر اس کے اوپر کے کنارے سے ایک ڈھیلا پھینکا جائے تو ستر برس تک بھی وہ جہنم کے نیچے کے حصے میں نہیں پہنچتا اور آدمیوں سے اس مکان کو بھرا جائے گا کس قدر عبرت کا مقام ہے نیز ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ جنت (جو اللہ کے فرمانبردار بندوں کا مکان ہے) اس قدر وسیع ہے کہ اس کے دروازہ کی چوڑائی میں ایک جانب سے دوسری جانب تک چالیس برس کی مسافت ہے اور آدمیوں ہی سے وہ بھی پر کی جائے گی۔ (اس لئے ایسے اعمال اختیار کرو جن کی وجہ سے پہلے مکان سے نجات ملے اور اس مکان میں جو اللہ کی رضا کا مکان ہے داخلہ نصیب ہو اس کے بعد اپنا گذشتہ حال بیان کیا کہ میں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی یہ حالت دیکھی ہے کہ میں ان سات آدمیوں میں سے ہوں جو اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے۔ ہمارے پاس کھانے کے لئے درختوں کے پتوں کے سوا کچھ نہ تھا اس کے کھانے سے ہمارے منہ چھل گئے تھے۔ مجھے اتفاقا ایک چادر مل گئی تھی جس کو میں نے اپنے اور سعد رضی اللہ عنہ کے درمیان نصف نصف تقسیم کر لیا (حق تعالیٰ شانہ نے اس تنگ حالی اور تکالیف کا دنیا میں بھی یہ اجر مرحمت فرمایا کہ) ہم سات میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو کسی جگہ کا امیر نہ ہوا (چونکہ یہ جماعت بڑی تکالیف برداشت کرنے اور مجاہدات کے بعد امیر ہوئی ہے اس لئے اس کا معاملہ اپنی جماعتوں کے ساتھ بہترین معاملہ ہے جو تم کو بعد میں آنے والے امراء کے تجربہ حال سے معلوم ہوگا اس لئے کہ) تم ان امراء کا عنقریب تجربہ کرنے والے ہو جو بعد میں آنے والے ہیں ۔
Khaalid bin 'Umayr Radiyallahu 'Anhu and Shaweesa Radiyallahu 'Anhu Reported that 'Umar Radiyallahu 'Anhu instructed 'Utbah bin "Anhu Ghazwaan Radiyallahu 'Anhu that he should go with his companions (who consisted of three hundred mujahideen) towards the 'Ajami lands. And said: When you reach the boundary of the 'Arabian country, set up camp.there". (The reason was that 'Umar Radiyallahu 'Anhu received 10 reports that the 'Ajamis intended attacking the 'Arab lands. In other narrations Yazdajard had asked the 'Ajamis for aid. This was on their path. For this reason 'Umar Radiyallahu 'Anhu sent an army to set up a blockade and seal the way) The army left, and when they reached Marbad Basrah, they saw strange white stones. The people first began asking one another, 'what is this?' The people said it was Basrah. (Basrah in the original language means whitish stones. Subsequently this became the name of the town. As if they had answered that this was also a type of stone). After that they went forward (according to the instructions of 'Umar Radiyallahu 'Anhu) till they reached the small bridge (of the Dajlah). The people said, this is the place (that 'Umar Radiyallahu 'Anhu had chosen), and set up camp there. The narrator narrated the full incident (i.e. the coming of the army from Khuraasaan and the victory of 'Utbah Radiyallahu 'Anhu). (As the intention of Imaam Tirmidhi is to describe the hardships and poverty, which will be mentioned at the end of the narration, he has shortened this narration. 'Utbah Radiyallahu 'Anhu recited a khutbah after the victory, which is mentioned in the 'Arabic commentary. In this khutbah he mentioned the temporary nature of this world, and that the hereafter is everlasting and eternal etc. After the hamd and thana, he said: "The world is going to come to an end, and it is turning its face and going away. Only so much of the world is left, as when water is used up from a dish, and in the end only a little drop is left in it. You are going towards such a world which is everlasting and which will never come to an end. Therefore it is necessary that you go to such a world with the best you can attain, because it has been shown to us that jahannam- which is the abode for those who disobey Allah is so deep that if a pebble is thrown into it from the upper portion, it will not reach the bottom after seventy years. This place will be packed with people. How important it is that we take heed at this place. We have also been shown that jannah-which is the abode for those who obey Allah is so vast that the width of its door from one side to the other is the distance of forty years. It will also be filled with people. Therefore adopt only such deeds that will save one from the first abode, and will gain for one entrance in the abode of Allah's Pleasure. After that he mentioned his past condition, "I had witnessed with Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam this conditions that I am from among those seven people who were with Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam. We had nothing with us besides the leaves of trees for eating. Our mouths became bruised by eating it. Incidently I obtained a sheet, which I shared in half with Sa'd. (Even in this world of distress and difficulty, Allah Ta'aal, blessed them with this reward). There is none among the seven of us who has not been appointed an amir of some place. (Because this group endured many hardships and made many sacrifices before they were appointed amirs, therefore the treatment of their groups was of the best which will be known from the experiences of the Amirs after this) You will in the near future experience the trials of those who will come after this".
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ أَسْلَمَ أَبُو حَاتِمٍ الْبَصْرِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ قَالَ حَدَّثَنَا ثَابِتٌ عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وسلم لَقَدْ أُخِفْتُ فِي اللهِ وَمَا يَخَافُ أَحَدٌ وَلَقَدْ أُوذِيتُ فِي اللهِ وَمَا يُؤْذَی أَحَدٌ وَلَقَدْ أَتَتْ عَلَيَّ ثَلاثُونَ مِنْ بَيْنِ لَيْلَةٍ وَيَوْمٍ وَمَا لِي وَلِبِلالٍ طَعَامٌ يَأْکُلُهُ ذُو کَبِدٍ إِلا شَيْئٌ يُوَارَيِهِ إِبِطُ بِلالٍ-
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں اللہ کے راستہ میں اس وقت خوف دلایا گیا ہوں جس وقت کوئی بھی نہیں ڈرایا گیا اور اس قدر ستایا گیا ہوں کہ کوئی شخص بھی نہیں ستایا گیا۔ مجھے تیس شب وروز ایسے گزرے ہیں کہ میرے اور بلال کے کھانے کے لئے کوئی چیز ایسی نہ تھی جس کو کوئی جاندار کھا سکے بجز اس تھوڑی سی مقدار کے جو بلال کے بغل میں چھپی ہوئی تھی۔
Anas Radiyallahu 'Anhu says: "Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam said: 'I have been threatened in the path at a time when no one else was threatened, and I have been harassed so much that no other person had experienced such harassments. I experienced thirty such nights and days wherein I and Bilaal Radiyallahu 'Anhu did not possess a thing, which a living creature can eat, except for the little that was hidden under the armpit of Bilaal Radiyallahu 'Anhu"'.
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ قَالَ حَدَّثَنَا أَبَانُ بْنُ يَزِيدَ الْعَطَّارُ قَالَ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وسلم لَمْ يَجْتَمِعْ عِنْدَهُ غَدَائٌ وَلا عَشَائٌ مِنْ خُبْزٍ وَلَحْمٍ إِلا عَلَی ضَفَفٍ قَالَ عَبْدُ اللهِ قَالَ بَعْضُهُمْ هُوَ کَثْرَةُ الأَيْدِي-
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کبھی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے دسترخوان پر صبح کے کھانے میں یا شام کے کھانے میں روٹی اور گوشت دونوں چیزیں جمع نہیں ہوتی تھیں مگر حالت ضعف میں ۔
Anas bin Maalik Radiyallahu 'Anhu reports that: "At lunch or supper bread and meat did not appear together at the same time on the dastarkhan of Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam, besides at the time of dafaf
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي فُدَيْکٍ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ عَنْ مُسْلِمِ بْنِ جُنْدُبٍ عَنْ نَوْفَلِ بْنِ إِيَاسٍ الْهُذَلِيِّ قَال کَانَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ لَنَا جَلِيسًا وَکَانَ نِعْمَ الْجَلِيسُ وَإِنَّهُ انْقَلَبَ بِنَا ذَاتَ يَوْمٍ حَتَّی إِذَا دَخَلْنَا بَيْتَهُ وَدَخَلَ فَاغْتَسَلَ ثُمَّ خَرَجَ وَأُتَيْنَا بِصَحْفَةٍ فِيهَا خُبْزٌ وَلَحْمٌ فَلَمَّا وُضِعَتْ بَکَی عَبْدُ الرَّحْمَنِ فَقُلْتُ لَهُ يَا أَبَا مُحَمَّدٍ مَا يُبْکِيکَ فَقَالَ هَلکَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وسلم وَلَمْ يَشْبَعْ هُوَ وَأَهْلُ بَيْتِهِ مِنْ خُبْزِ الشَّعِيرِ فَلا أَرَانَا أُخِّرْنَا لِمَا هُوَ خَيْرٌ لَنَا-
نوفل بن ایاس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں عبدالرحمن بن عوف جو عشرہ مبشرہ میں سے ایک صحابی ہیں ہمارے ہم نشین تھے اور حقیقت میں بہترین ہم نشین تھے۔ ایک مرتبہ ہم ان کے ساتھ کسی جگہ سے لوٹے واپسی میں ان کے ساتھ ہی ان کے مکان پر چلے گئے ۔ انہوں نے گھر جا کر اول غسل کیا جب وہ غسل سے فارغ ہوچکے تو ایک بڑے برتن میں روٹی اور گوشت لایا گیا۔عبدالرحمن رضی اللہ عنہ اس کو دیکھ کر رونے لگے میں نے پوچھا کہ کیا بات ہوئی کیوں روتے ہو؟ کہنے لگے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو وصال تک کبھی بھی اس کی نوبت نہیں آئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں نے جو کی روٹی ہی سے شکم سیری فرمائی ہو۔ اب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جہاں تک میرا خیال ہم لوگوں کی یہ ثروت کی حالت کسی بہتری کے لئے نہیں ہے۔
Nofal bin lyaas Al Hadhali Radiyallahu 'Anhu says.. "'Abdurrahmaan bin'Awf Radiyallahu'Anhu (who is a Sahaabi from among the 'Ashrah Mubash-sharah) was an associate of ours, and verily he was the best associate. Once we were returning from a place with him. On returning we went with him to his house. When he went home he first took a bath. After he had taken a bath, bread and meat was brought in a big utensil. Upon seeing this 'Abdurrahmaan Radiyallahu 'Anhu began to cry. I asked: 'What happened, why are you crying?'. He began saying: 'Till the demise of Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam, nor did he, nor his family members ever fill their stomachs even if it was only with bread that was made of barley. Now after Rasulullah Sallallahu'Alayhi Wasallam, as far as I can think, this wealthy status of ours is not for any good'