حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات درباب اشعار

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا شَرِيکٌ عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ شُرَيْحٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قِيلَ لَهَا هَلْ کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وسلم يَتَمَثَّلُ بِشَيْئٍ مِنَ الشِّعْرِ قَالَتْ کَانَ يَتَمَثَّلُ بِشِعْرِ ابْنِ رَوَاحَةَ وَيَتَمَثَّلُ بِقَوْلِهِ يَأْتِيکَ بِالأَخْبَارِ مَنْ لَمْ تُزَوَّدِ-
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کسی نے پوچھا کیا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کبھی شعر بھی پڑھتے تھے؟ انہوں نے فرمایا کہ ہاں ۔ مثال کے طور پر کبھی عبداللہ بن رواحہ کا کوئی شعر بھی پڑھ لیتے تھے ( اور کبھی کبھی کسی اور کا بھی) چنانچہ کبھی طرفہ کا یہ مصرعہ بھی پڑھ لیا کرتے تھے ومایائتیک بالاخبار من لم تزود یعنی تیرے پاس خبریں کبھی وہ شخص بھی لے آتا ہے جس کو تو نے کسی قسم کا معاوضہ نہیں دیا، یعنی واقعات کی تحقیق کے لئے کسی جگہ کے حالات معلوم کرنے کے لئے تنخواہ دینا پڑتی ہے ، سفر کا خرچ دے کر آدمی کو حالات معلوم کرنے کے لئے بھیجنا پڑتا ہے، مگر کبھی گھر بیٹھے بٹھائے کوئی آ کر خود ہی سارے حالات سنا جاتا ہے ، کسی قسم کا خرچ بھی اس کے لئے نہیں کرنا پڑتا۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ یہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مثال ارشاد فرمائی کہ بلا کسی اجرت اور معاوضہ کے گھر بیٹھے جنت دوزخ آخرت قیامت پچھلے انبیاء کے حالات اور آئندہ آنے والے واقعات سناتا ہوں پھر بھی یہ کفار قدر نہیں کرتے ۔ اس حدیث میں دو شاعروں کا ذکر ہے ، حضرت عبداللہ بن رواحہ تو مشہور صحابی ہیں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے پہلے یہ مسلمان ہو گئے تھے اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہی غزوہ موتہ میں شہید ہو گئے تھے۔ طرفہ عرب کا مشہور شاعر ہے ادب کی مشہور کتاب سبعہ معلقہ میں دوسرا معلقہ اسی کا ہے ۔ اس نے اسلام کا زمانہ نہیں پایا۔
Someone enquired from Aisha radiyallahu anha: “Did Rasoolullah sallallahu alaihe wasallam recite poetry?” She replied, “He sometimes as an example recited the poetry of Abdullah ibn Rawahah (and sometimes of other poets). He sometimes recited this couplet of Tarfah: ‘Sometimes that person brings news to you whom you have not compensated.” (That means if one wants to know anything about a place, one will have to pay a person for obtaining information. A person has to be given money etc., for the journey in order to obtain information. At times it may so happen that the news is received without having to spend anything. Someone comes and gives full news. Some of the ulama have written that this example given by Sayyidina Rasoolullah sallallahu alaihe wasallam, that without any remuneration, he has given (humanity) the news of Jannah, Jahannum, Qiyaamah, particulars and information regarding the Ambiyaa alaihis salaam, the signs of the future etc. Yet the kuffar (non-believers) do not appreciate this. In this hadith two poets are mentioned, Sayyidina Abdullah ibn Rawahah radiyallahu anhu a famous Sahaabi who accepted Islam before the Hijrah of Sayyidina Rasoolullah sallallahu alaihe wasallam in the Battle of Mu’ata. The second poet is Tarfah, a famous poet of Arabia. In the famous book of Arabic literature ‘Sab’ah Mu’allaqah’, the second Mu’allaqah has been written by him. He lived before the advent of Islam.)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَيْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وسلم إِنَّ أَصْدَقَ کَلِمَةٍ قَالَهَا الشَّاعِرُ کَلِمَةُ لَبِيدٍ أَلا کُلُّ شَيْئٍ مَا خَلا اللَّهَ بَاطِلٌ وَکَادَ أُمَيَّةُ بْنُ أَبِي الصَّلْتِ أَنْ يُسْلِمَ-
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ سب سے زیادہ سچا کلمہ جو کسی شاعر نے کہا ہے وہ لبید بن ربیعہ کا یہ کلمہ ہے الا کل شئی ماخلا اللہ باطل۔ آگاہ ہو جاؤ اللہ جل شانہ کے سوا دنیا کی ہر چیز فانی ہے اور امیہ بن ابی الصلت قریب تھا کہ اسلام لے آئے ۔
Abu Hurayrah Radiyallahu anhu reports that Rasulullah sallallahu Alayhi Wasallam said: "The most truthful couplet recited by a poet is that of Labeed bin Rabi'ah: 'verirly be aware, besides the Almighty everything else is futile'. And Ummayyah bin Abis-Sault was about to accept Islaam".
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ قَيْسٍ عَنْ جُنْدُبِ بْنِ سُفْيَانَ الْبَجَلِيِّ قَالَ أَصَابَ حَجَرٌ أُصْبُعَ رَسُولِ اللهِ صلی الله عليه وسلم فَدَمِيَتْ فَقَالَ هَلْ أَنْتِ إِلا أُصْبُعٌ دَمِيتِ وَفِي سَبِيلِ اللهِ مَا لَقِيتِ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ قَيْسٍ عَنْ جُنْدُبِ بْنِ عَبْدِ اللهِ الْبَجَلِيِّ نَحْوَهُ-
جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک پتھر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلی میں لگ گیا تھا، جس کی وجہ سے وہ خون آلود ہوگئی، تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ شعر پڑھا جس کا ترجمہ : یہ تو ایک انگلی ہے جس کو اس کے سوا کوئی مضرت نہیں پہنچی کہ خون آلود ہو گئی، اور یہ بھی رائیگاں نہیں بلکہ اللہ جل شانہ کی راہ میں یہ تکلیف پہنچی جس کا ثواب ہوگا۔
Jundub bin Sufyaan Radiyallahu 'Anhu relates: "Once a stone hit the Mubaarak fingers of Rasulullah Sallallahu'Alayhi Wasallam and injured them, they became covered in blood. Rasulullah Sallallahu'Alayhi Wasallam thereupon recited this couplet: 'You are but a finger, no damage has overcome you, besides covering you in blood. This is not fruitless, for reward has been obtained in the path of Allah'".
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ قَالَ أَنْبَأَنَا أَبُو إِسْحَاقَ عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ قَالَ لَهُ رَجُلٌ أَفَرَرْتُمْ عَنْ رَسُولِ اللهِ صلی الله عليه وسلم يَا أَبَا عُمَارَةَ فَقَالَ لا وَاللَّهِ مَا وَلَّی رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وسلم وَلَکِنْ وَلَّی سَرَعَانُ النَّاسِ تَلَقَّتْهُمْ هَوَازِنُ بِالنَّبْلِ وَرَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وسلم عَلَی بَغْلَتِهِ وَأَبُو سُفْيَانَ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ آخِذٌ بِلِجَامِهَا وَرَسُولُ اللهِ يَقُولُ أَنَا النَّبِيُّ لا کَذِبْ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ-
براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا ، کیا تم سب لوگ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر جنگ حنین میں بھاگ گئے تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ نہیں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے پشت نہیں پھیری بلکہ فوج میں سے بعض جلد بازوں نے (جن میں اکثر قبیلہ بنوسلیم اور مکہ کے نومسلم نوجوان تھے) قبیلہ ہوازن کے سامنے تیروں کی وجہ سے منہ پھیر لیا تھا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم (جن کے ساتھ اکابر صحابہ کا ہونا ظاہر ہے) اپنے خچر پر سوار تھے اور ابوسفیان اس کی لگام پکڑے ہوئے تھے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت یہ فرما رہے تھے انا النبی لا کذب انا ابن عبدالمطلب میں بلا شک وشبہ نبی ہوں اور عبد المطلب کی اولاد (پوتا) ہوں ۔
Baraa ibn Aazib radiyallahu anhu was once asked, “You all deserted Rasoolullah sallallahu alaihe wasallam and ran away in the Battle of Hunayn?” He replied, “No, Rasoolullah sallallahu alaihe wasallam did not turn away, except a few people in the army who were in a hurry (many of whom were from the tribe of Sulaym and a few newly converted youth of Makkah) turned away when the people of the tribe of Hawaazin began to shower arrows. Rasoolullah sallallahu alaihe wasallam (with whom there naturally were the great Sahaabah radiyallahu anhum) was riding a mule Abu Sufyan ibn Al-Haarith ibn Abdul Muttalib radiyallahu anhu was leading it by its reins. Sayyidina Rasoolullah sallallahu alaihe wasallam was reciting the following couplet: “Verily, without doubt I am a Prophet. I am from the children (grandsons) of Abdul Muttalib”
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ قَالَ حَدَّثَنَا ثَابِتٌ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وسلم دَخَلَ مَکَّةَ فِي عُمْرَةِ الْقَضَائِ وَابْنُ رَوَاحَةَ يَمْشِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُوَ يَقُولُ خَلُّوا بَنِي الْکُفَّارِ عَنْ سَبِيلِهِ الْيَوْمَ نَضْرِبُکُمْ عَلَی تَنْزِيلِهِ ضَرْبًا يُزِيلُ الْهَامَ عَنْ مَقِيلِهِ وَيُذْهِلُ الْخَلِيلَ عَنْ خَلِيلِهِ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ يَا ابْنَ رَوَاحَةَ بَيْنَ يَدِي رَسُولِ اللهِ صلی الله عليه وسلم وَفِي حَرَمِ اللهِ تَقُولُ الشِّعْرَ فَقَالَ صلی الله عليه وسلم خَلِّ عَنْهُ يَا عُمَرُ فَلَهِيَ أَسْرَعُ فِيهِمْ مِنْ نَضْحِ النَّبْلِ-
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم عمرة القضاء کے لئے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے تو عبداللہ بن رواحہ (اپنی گردن میں تلوار ڈالے ہوئے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کی مہار پکڑے ہوئے) آگے آگے چل رہے تھے اور یہ اشعار پڑھ رہے تھے ۔ خَلُّوا بَنِي الْکُفَّارِ عَنْ سَبِيلِہ الی قولی ۔۔۔عَنْ خَلِيلِہ اے کافر زادو ہٹو۔ آپ کا راستہ چھوڑو ۔ آج حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ مکرمہ آنے سے روک دینے پر جیساکہ تم گذشتہ سال کر چکے ہو ہم تم لوگوں کی ایسی خبر لیں گے کہ کھوپڑیوں کو تن سے جدا کر دیں گے اور دوست کو دوست سے بھلا دیں گے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابن رواحہ کو روکا کہ اللہ کے حرم میں اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ شعر پڑھتے جا رہے ہو۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عمر روکو مت یہ اشعار اثر کرنے میں تیر برسانے سے زیادہ سخت ہیں۔
Anas radiyallahu anhu reports that Rasoolullah sallallahu alaihe wasallam went to Makkah for Umratul Qada. Abdullah ibne Rawahah radiyallahu anhu (throwing his sword over his shoulder and holding the reins of the camel of Sayyidina Rasoolullah sallallahu alaihe wasallam) was walking ahead of him reciting these couplets: ‘O’ non-believers clear his path (and leave today. Do not prohibit Sayyidina Rasoolullah sallallahu alaihe wasallam from entering Makkah as you had done last year) for today we shall smite you. We will take such action against you that we will separate the brain from its body. And will make a friend forget a friend.’ Umar radiyallahu anhu stopped him and said, “O’ Ibne Rawahah, in the presence of Rasoolullah sallallahu alaihe wasallam and the Haram of Allah you are reciting poetry?” Rasoolullah sallallahu alaihe wasallam said, “Leave him O’ Umar, these couplets are more forceful than showering arrows onto them.”
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا شَرِيکٌ عَنْ سِمَاکِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ جَالَسْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وسلم أَکْثَرَ مِنْ مِائَةِ مَرَّةٍ وَکَانَ أَصْحَابُهُ يَتَنَاشَدُونَ الشِّعْرَ وَيَتَذَاکَرُونَ أَشْيَائَ مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ وَهُوَ سَاکِتٌ وَرُبَّمَا تَبَسَّمَ مَعَهُمْ-
جابر بن سمرة رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سو مجلسوں سے زیادہ بیٹھا ہوں جن میں صحابہ اشعار پڑھتے تھے اور جاہلیت کے زمانے کے قصے اور قصائص نقل فرماتے تھے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم (ان کو روکتے نہیں تھے) خاموشی سے سنتے تھے بلکہ کبھی کبھی ان کے ساتھ ہنسنے میں بھی شرکت فرماتے تھے ۔
Jabir ibn Samurah radiyallahu anhu says, “I attended the assemblies of Rasoolullah sallallahu alaihe wasallam more than a hundred times, wherein the Sahaabah radiyallahu anhum recited poetry and related stories of the Jaahiliyyah (pre-Islamic era). Rasoolullah sallallahu alaihe wasallam silently listened to them (and did not forbid them). At times he smiled with them.”
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا شَرِيکٌ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وسلم قَالَ أَشْعَرُ کَلِمَةٍ تَکَلَّمَتْ بِهَا الْعَرَبُ کَلِمَةُ لَبِيدٍ أَلا کُلُّ شَيْئٍ مَا خَلا اللَّهَ بَاطِلٌ-
ابوہریرة رضی اللہ عنہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ شاعران عرب کے کلام میں بہترین کلمہ لبید کا یہ مقولہ ہے أَلا کُلُّ شَيْئٍ مَا خَلا اللَّہ بَاطِل۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ سب چیزیں باطل ہیں۔
Abu Hurairah radiyallahu anhu relates from Rasoolullah sallallahu alaihe wasallam that the best words from among the poets of Arabia is that of Labeed, ‘Verily be aware, that everything besides the Almighty Allah will perish.’
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ قَالَ حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الطَّائِفِيِّ عَنْ عَمْرِو بْنِ الشَّرِيدِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ کُنْتُ رِدْفَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وسلم فَأَنْشَدْتُهُ مِائَةَ قَافِيَةٍ مِنْ قَوْلِ أُمَيَّةَ بْنِ أَبِي الصَّلْتِ الثَّقَفِيِّ کُلَّمَا أَنْشَدْتُهُ بَيْتًا قَالَ لِيَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وسلم هِيهْ حَتَّی أَنْشَدْتُهُ مِائَةً يَعْنِي بَيْتًا فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وسلم إِنْ کَادَ لَيُسْلِمُ-
حضرت شرید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سواری پر آپ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا اس وقت میں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو امیہ کے سو شعر سنائے ہر شعر پر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے تھے اور سناؤ۔ اخیر میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ اس کا اسلام لے آنا بہت ہی قریب تھا ۔
Amr ibn Shareed radiyallahu anhu reports that his father said, “I once accompanied Rasoolullah sallallahu alaihe wasallam and sat behind him on a conveyance. I recited a hundred couplets of Umayyah ibn Sault to Rasoolullah sallallahu alaihe wasallam. After reciting a couplet Rasoolullah sallallahu alaihe wasallam said ‘continue’ till I recited a hundred couplets. In the end Rasoolullah sallallahu alaihe wasallam said, ‘He (Umayyah) was close to accepting Islam.”
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُوسَی الْفَزَارِيُّ وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ وَالْمَعْنَی وَاحِدٌ قَالا حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ کَانَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وسلم يَضَعُ لِحَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ مِنْبَرًا فِي الْمَسْجِدِ يَقُومُ عَلَيْهِ قَائِمًا يُفَاخِرُ عَنْ رَسُولِ اللهِ صلی الله عليه وسلم أَوْ قَالَ يُنَافِحُ عَنْ رَسُولِ اللهِ صلی الله عليه وسلم وَيَقُولُ صلی الله عليه وسلم إِنَّ اللَّهَ يُؤَيِّدُ حَسَّانَ بِرُوحِ الْقُدُسِ مَا يُنَافِحُ أَوْ يُفَاخِرُ عَنْ رَسُولِ اللهِ صلی الله عليه وسلم حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُوسَی وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وسلم مِثْلَهُ-
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے لئے مسجد میں منبر رکھایا کرتے تھے، تاکہ اس پر کھڑے ہو کر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مفاخرت کریں ۔ یعنی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں فخریہ اشعار پڑھیں یا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مدافعت کریں ، یعنی کفار کے الزامات کا جواب دیں۔ یہ شک راوی کا ہے اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم یہ بھی فرماتے تھے کہ حق تعالیٰ جل شانہ روح القدس سے حسان کی امداد فرماتے ہیں ۔ جب تک کہ وہ دین کی امداد کرتے ہیں ۔
Aisha radiyallahu anha says, “Rasoolullah sallallahu alaihe wasallam would place a mimbar (pulpit) in the Masjid for Hassaan ibn Thaabit, so that he stands upon it and recites poetry on the praises of, and on behalf of Rasoolullah sallallahu alaihe wasallam, or said that he used to defend Rasoolullah sallallahu alaihe wasallam (in reply to the accusation of the kuffar). Rasoolullah sallallahu alaihe wasallam would say, ‘May Allah assist Hassaan with Ruhul Qudus till he defends, or praises, on behalf of Rasoolullah sallallahu alaihe wasallam.”
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ صَبَّاحٍ الْبَزَّارُ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو عَقِيلٍ الثَّقَفِيُّ عَبْدُ اللهِ بْنُ عَقِيلٍ عَنْ مُجَالِدٍ عَنِ الشَّعْبِيِّ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ حَدَّثَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وسلم ذَاتَ لَيْلَةٍ نِسَائَهُ حَدِيثًا فَقَالَتِ امْرَأَةٌ مِنْهُنَّ کَأَنَّ الْحَدِيثَ حَدِيثُ خُرَافَةَ فَقَالَ أَتَدْرُونَ مَا خُرَافَةُ إِنَّ خُرَافَةَ کَانَ رَجُلا مِنْ عُذْرَةَ أَسَرَتْهُ الْجِنُّ فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَمَکَثَ فِيهِمْ دَهْرًا ثُمَّ رَدُّوهُ إِلَی الإِنْسِ فَکَانَ يُحَدِّثُ النَّاسَ بِمَا رَأَی فِيهِمْ مِنَ الأَعَاجِيبِ فَقَالَ النَّاسُ حَدِيثُ خُرَافَةَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا عِيسَی بْنُ يُونُسَ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنِ أَخِيهِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ جَلَسَتْ إِحْدَی عَشْرَةَ امْرَأَةً فَتَعَاهَدْنَ وَتَعَاقَدْنَ أَنْ لا يَکْتُمْنَ مِنْ أَخْبَارِ أَزْوَاجِهِنَّ شَيْئًا فَقَالَتِ الأُولَی زَوْجِي لَحْمُ جَمَلٍ غَثٍّ عَلَی رَأْسِ جَبَلٍ وَعْرٍ لا سَهْلٌ فَيُرْتَقَی وَلا سَمِينٌ فَيُنْتَقَلُ قَالَتِ الثَّانِيَةُ زَوْجِي لا أَبُثُّ خَبَرَهُ إِنِّي أَخَافُ أَنْ لا أَذَرَهُ إِنْ أَذْکُرْهُ أَذْکُرْ عُجَرَهُ وَبُجَرَهُ قَالَتِ الثَّالِثَةُ زَوْجِي الْعَشَنَّقُ إِنْ أَنْطِقْ أُطَلَّقْ وَإِنْ أَسْکُتْ أُعَلَّقْ قَالَتِ الرَّابِعَةُ زَوْجِي کَلَيْلِ تِهَامَةَ لا حَرٌّ وَلا قُرٌّ وَلا مَخَافَةَ وَلا سَآمَةَ قَالَتِ الْخَامِسَةُ زَوْجِي إِنْ دَخَلَ فَهِدَ وَإِنْ خَرَجَ أَسِدَ وَلا يَسْأَلُ عَمَّا عَهِدَ قَالَتِ السَّادِسَةُ زَوْجِي إِنْ أَکَلَ لَفَّ وَإِنْ شَرِبَ اشْتَفَّ وَإِنِ اضْطَجَعَ الْتَفَّ وَلا يُولِجُ الْکَفَّ لِيَعْلَمَ الْبَثَّ قَالَتِ السَّابِعَةُ زَوْجِي عَيَايَائُ أَوْ غَيَايَائُ طَبَاقَائُ کُلُّ دَائٍ لَهُ دَائٌ شَجَّکِ أَوْ فَلَّکِ أَوْ جَمَعَ کُلا لَکِ قَالَتِ الثَّامِنَةُ زَوْجِي الْمَسُّ مَسُّ أَرْنَبٍ وَالرِّيحُ رِيحُ زَرْنَبٍ قَالَتِ التَّاسِعَةُ زَوْجِي رَفِيعُ الْعِمَادِ طَوِيلُ النِّجَادِ عَظِيمُ الرَّمَادِ قَرِيبُ الْبَيْتِ مِنَ النَّادِ قَالَتِ الْعَاشِرَةُ زَوْجِي مَالِکٌ وَمَا مَالِکٌ مَالِکٌ خَيْرٌ مِنْ ذَلِکِ لَهُ إِبِلٌ کَثِيرَاتُ الْمَبَارِکِ قَلِيلاتُ الْمَسَارِحِ إِذَا سَمِعْنَ صَوْتَ الْمِزْهَرِ أَيْقَنَّ أَنَّهُنَّ هَوَالِکُ قَالَتِ الْحَادِيَةَ عَشْرَةَ زَوْجِي أَبُو زَرْعٍ وَمَا أَبُو زَرْعٍ أَنَاسَ مِنْ حُلِيٍّ أُذُنَيَّ وَمَلأَ مِنْ شَحْمٍ عَضُدَيَّ وَبَجَّحَنِي فَبَجَحَتْ إِلَيَّ نَفْسِي وَجَدَنِي فِي أَهْلِ غُنَيْمَةٍ بِشَقٍّ فَجَعَلَنِي فِي أَهْلِ صَهِيلٍ وَأَطِيطٍ وَدَائِسٍ وَمُنَقٍّ فَعِنْدَهُ أَقُولُ فَلا أُقَبَّحُ وَأَرْقُدُ فَأَتَصَبَّحُ وَأَشْرَبُ فَأَتَقَمَّحُ أُمُّ أَبِي زَرْعٍ فَمَا أُمُّ أَبِي زَرْعٍ عُکُومُهَا رَدَاحٌ وَبَيْتُهَا فَسَاحٌ ابْنُ أَبِي زَرْعٍ فَمَا ابْنُ أَبِي زَرْعٍ مَضْجَعُهُ کَمَسَلِّ شَطْبَةٍ وَتُشْبِعُهُ ذِرَاعُ الْجَفْرَةِ بِنْتُ أَبِي زَرْعٍ فَمَا بِنْتُ أَبِي زَرْعٍ طَوْعُ أَبِيهَا وَطَوْعُ أُمِّهَا مِلْئُ کِسَائِهَا وَغَيْظُ جَارَتِهَا جَارِيَةُ أَبِي زَرْعٍ فَمَا جَارِيَةُ أَبِي زَرْعٍ لا تَبُثُّ حَدِيثَنَا تَبْثِيثًا وَلا تُنَقِّثُ مِيرَتَنَا تَنْقِيثًا وَلا تَمْلأُ بَيْتَنَا تَعْشِيشًا قَالَتْ خَرَجَ أَبُو زَرْعٍ وَالأَوْطَابُ تُمْخَضُ فَلَقِيَ امْرَأَةً مَعَهَا وَلَدَانِ لَهَا کَالْفَهْدَيْنِ يَلْعَبَانِ مِنْ تَحْتِ خَصْرِهَا بِرُمَّانَتَيْنِ فَطَلَّقَنِي وَنَکَحَهَا فَنَکَحْتُ بَعْدَهُ رَجُلا سَرِيًّا رَکِبَ شَرِيًّا وَأَخَذَ خَطِّيًّا وَأَرَاحَ عَلَيَّ نَعَمًا ثَرِيًّا وَأَعْطَانِي مِنْ کُلِّ رَائِحَةٍ زَوْجًا وَقَالَ کُلِي أُمَّ زَرْعٍ وَمِيرِي أَهْلَکِ فَلَوْ جَمَعْتُ کُلَّ شَيْئٍ أَعْطَانِيهِ مَا بَلَغَ أَصْغَرَ آنِيَةِ أَبِي زَرْعٍ قَالَتْ عَائِشَةُ فَقَالَ لِي رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وسلم کُنْتُ لَکِ کَأَبِي زَرْعٍ لأُمِّ زَرْعٍ-
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر والوں کو ایک قصہ سنایا ایک عورت نے کہا یہ قصہ حیرت اور تعجب میں بالکل خرافہ کے قصوں جیسا ہے (عرب میں خرافہ کے قصے ضرب المثل تھے) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ جانتی بھی ہو خرافہ کا اصل قصہ کیا تھا؟ خرافہ بنو عذرہ کا ایک شخص تھا جس کو جنات پکڑ کر لے گئے تھے۔ ایک عرصہ تک انہوں نے اس کو اپنے پاس رکھا پھر لوگوں میں چھوڑ گئے۔ وہاں کے زمانہ قیام کے عجائبات وہ لوگوں سے نقل کرتا تھا تو وہ متحیر ہوتے تھے اس کے بعد سے لوگ ہر حیرت انگیز قصے کو حدیث خرافہ کہنے لگے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ گیارہ عورتیں یہ معاہدہ کر کے بیٹھیں کہ اپنے اپنے خاوند کا پورا پورا حال سچا سچا بیان کر دیں کچھ چھپائیں گی نہیں ایک عورت ان میں سے بولی کہ میرا خاوند ناکارہ دبلے اونٹ کے گوشت کی طرح ہے (گویا بالکل گوشت کا ایک ٹکڑا ہے جس میں زندگی باقی ہی نہیں رہی اور گوشت بھی اونٹ کا جو زیادہ مرغوب بھی نہیں ہوتا) اور گوشت بھی سخت دشوار گزار پہاڑ کی چوٹی پر رکھا ہو کہ نہ پہاڑ کا راستہ سہل ہے جس کی وجہ سے وہاں چڑھنا ممکن ہو اور نہ وہ گوشت ایسا ہے کہ اس کی وجہ سے سو دقت اٹھا کر اس کے اتارنے کی کوشش ہی کی جائے اور اس کو اختیار کیا ہی جائے ۔ دوسری بولی (کہ میں اپنے خاوند کی بات کہوں تو کیا کہوں ؟ اس کے متعلق کچھ کہہ نہیں سکتی) مجھے یہ ڈر ہے کہ اگر اس کے عیوب شروع کروں تو پھر خاتمہ کا ذکر نہیں اگر کہوں تو ظاہری اور باطنی عیوب سب ہی کہوں ۔ تیسری بولی کہ میرا خاوند لم ڈھینگ ہے یعنی بہت زیادہ لمبے قد کا آدمی ہے، اگر میں کبھی کسی بات پر بول پڑوں تو فوراً طلاق، اور چپ رہوں تو اَدھر لٹکی رہوں ۔ چوتھی نے کہا کہ میرا خاوند تہامہ کی رات کی طرح معتدل مزاج ہے، نہ گرم ہے، نہ ٹھنڈا نہ اس سے کسی کا خوف ہے نہ ملال۔ پانچویں نے کہا کہ میرا خاوند جب گھر میں آتا ہے تو چیتا بن جاتا ہے اور جب باہر جاتا ہے تو شیر بن جاتا ہے اور جو کچھ گھر میں ہوتا ہے اس کی تحقیقات نہیں کرتا۔ چھٹی بولی کہ میرا خاوند اگر کھاتا ہے تو سب نمٹا دیتا ہے اور جب پیتا ہے تو سب چڑھا جاتا ہے جب لیٹتا ہے تو اکیلا ہی کپڑے میں لپٹ جاتا ہے میری طرف ہاتھ بھی نہیں بڑھاتا جس سے میری پراگندگی معلوم ہو سکے۔ ساتویں کہنے لگی کہ میرا خاوند صحبت سے عاجز نامرد اور اتنا بے وقوف کہ بات بھی نہیں کرسکتا، دنیا میں کوئی بیماری کسی میں ہوگی وہ اس میں موجود ہے۔ اخلاق ایسے کہ میرا سر پھوڑ دے یا بدن زخمی کردے یا دونوں ہی کر گزرے۔ آٹھویں نے کہا کہ میرا خاوند چھونے میں خرگوش کی طرح نرم ہے اور خوشبو میں زعفران کی طرح مہکتا ہوا ہے۔ نویں نے کہا کہ میرا خاوند رفیع الشان بڑا مہمان نواز اونچے مکان والا بڑی راکھ والا ہے دراز قد والا ہے اس کا مکان مجلس اور دارالمشورہ کے قریب ہے۔ دسویں نے کہا کہ میرا خاوند مالک ہے مالک کا کیا حال بیان کروں وہ ان سب سے جو اب تک کسی نے تعریف کی ہے یا ان سب تعریفوں سے جو میں بیان کروں گی، بہت ہی زیادہ قابل تعریف ہے۔ اس کے اونٹ بکثرت ہیں جو اکثر مکان کے قریب بٹھائے جاتے ہیں ۔ چراگاہ میں چرنے کے لئے کم جاتے ہیں وہ اونٹ جب باجہ کی آواز سنتے ہیں تو سمجھ لیتے ہیں کہ اب ہلاکت کا وقت آگیا۔ گیارہویں عورت ام زرعہ نے کہا میرا خاوند ابوزرع تھا۔ ابوزرع کی کیا تعریف کروں ؟ زیوروں سے میرے کان جھکا دئیے، (اور کھلا کھلا کر چربی سی میرے بازو پر کردیئے مجھے ایسا خوش و خرم رکھتا تھا کہ میں خود پسندی اور عجب میں اپنے آپ کو بھلی لگنے لگی، مجھے اس نے ایسے ایک غریب گھرانہ سے پایا تھا جو بڑی تنگی کے ساتھ چند بکریوں پر گزارہ کرتے تھے اور وہاں سے ایسے خوشحال خاندان میں لے آیا تھا جن کے یہاں گھوڑے اونٹ کھیتی کے بیل اور کسان تھے، (یعنی ہر قسم کی ثروت موجود تھی ان سب کے علاوہ) اس کی خوش خلقی کہ میری کسی بات پر بھی مجھے برا نہیں کہتا تھا، میں دن چڑھے تک سوتے رہتی تو کوئی جگا نہیں سکتا تھا، کھانے پینے میں ایسی ہی وسعت کہ میں سیر ہو کر چھوڑ دیتی تھی (اور ختم نہ ہوتا تھا) ابوزرع کی ماں (میری خوش دامن) بھلا اس کی کیا تعریف کروں اس کے بڑے بڑے برتن ہمیشہ بھر پور رہتے تھے۔ اس کا مکان نہایت وسیع تھا، (یعنی مالدار بھی تھی اور عورتوں کی عادت کے موافق بخیل بھی نہیں ۔ اس لئے مکان کی وسعت سے مہمانوں کی کثرت مراد لی جاتی ہے) ابوزرع کا بیٹا بھلا اس کا کیا کہنا وہ بھی نور علی نور ایسا پتلا دبلا چھریرے بدن کا کہ اس کے سونے کا حصہ (یعنی پسلی وغیرہ) ستی ہوئی ٹہنی یا ستی ہوئی تلوار کی طرح سے باریک بکری کے بچہ کا ایک دست اس کے پیٹ بھرنے کے لئے کافی (یعنی بہادر کے سونے کے لئے لمبے چوڑے انتظامات کی ضرورت نہ تھی۔ سپاہیانہ زندگی ذرا سی جگہ میں تھوڑا بہت لیٹ لیا، اسی طرح کھانے میں بھی مختصر مگر بہادری کے مناسب گوشت کے دو چار ٹکڑے اس کی غذا تھی)۔ ابوزرع کی بیٹی بھلا اس کی کیا بات ماں کی تابعدار، باپ کی فرمانبردار، موٹی تازی سوکن کی جلن تھی (یعنی سوکن کو اس کے کمالات سے جلن پیدا ہو عرب میں مرد کے لئے چھریرا ہونا اور عورت کے لئے موٹی تازی ہونا ممدوح شمار کیا جاتا) ابوزرع کی باندی کا بھی کیا کمال بتاؤں ، ہمارے گھر کی بات کبھی بھی باہر جا کر نہ کہتی تھی، کھانے تک کی چیز بھی بے جا اجازت خرچ نہ کرتی تھی۔ گھر میں کوڑا کباڑ نہیں ہونے دیتی تھی۔ مکان کو صاف شفاف رکھتی تھی، ہماری یہ حالت تھی کہ لطف سے دن گزر رہے تھے کہ ایک دن صبح کے وقت جب دودھ کے برتن بلوئے جا رہے تھے، ابوزرع گھر سے نکلا۔ راستہ میں ایک عورت پڑی ہوئی ملی جس کی کمر کے نیچے چیتے جیسے دو بچے اناروں سے کھیل رہے تھے، (چیتے کے ساتھ تشبیہ کھیل کود میں ہے اور اناروں سے یا تو حقیقةً انار مراد ہیں کہ ان کو لڑھکا کر کھیل رہے تھے، یا دو اناروں سے اس عورت کے پستان مراد ہیں) پس وہ کچھ ایسی پسند آئی کہ مجھے طلاق دے دی اور اس سے نکاح کرلیا، (طلاق اس لئے دی کہ سوکن ہونے کی وجہ سے اس کو رنج نہ ہو اور اس کی وجہ سے مجھے طلاق دینے سے اس کے دل میں ابوزرع کی وقعت ہوجائے) ایک روایت میں ہے کہ اس سے نکاح کر لیا نکاح کے بعد وہ مجھے طلاق دینے پر اصرار کرتی رہی، آخر مجھے طلاق دے دی، اس کے بعد میں نے ایک اور سردار شریف آدمی سے نکاح کرلیا جو شہسوار ہے اور سپہ گر ہے، اس نے مجھے بڑی نعمتیں دیں اور ہر قسم کے جانور اونٹ، گائے، بکری وغیرہ وغیرہ ہر چیز میں سے ایک ایک جوڑا مجھے دیا اور یہ بھی کہا کہ ام زرع خود بھی کھا اور اپنے میکہ میں جو چاہے بھیج دے لیکن بات یہ ہے کہ اگر میں اس کی ساری عطاؤں کو جمع کروں تب ابوزرع کی چھوٹی سے چھوٹی عطا کے برابر نہیں ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ قصہ سنا کر مجھ سے یہ ارشاد فرمایا کہ میں بھی تیرے لئے ایسا ہی ہوں جیسا کہ ابوزرع ام زرع کے واسطے ۔
Aisha radiyallahu anha reports, “Once, at night, Rasoolullah sallallahu alaihe wasallam related an event to his family members. One of the ladies said, this story is just like the stories of Khuraafah. (The Arabs used the stories of Khuraafah as proverbs). Rasoolullah sallallahu alaihe wasallam asked, “Do you know what is the original story of Khuraafah? Khuraafah was a man from the tribe of Banu Udhrah, whom the jinns took away. They kept him for some time, then left him among the people. He related to the people strange things of his stay there. The people were astonished. After that every amazing story is called Khuraafah.”