حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو کیسی ہوتی

حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ الْبَصْرِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ الأَسْوَدِ عَنِ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ مَا کَانَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وسلم يَسْرُدُ سرْدَکُمْ هَذَا وَلَکِنَّهُ کَانَ يَتَکَلَّمُ بِکَلامٍ بَيِّنٍ فَصْلٍ يَحْفَظُهُ مَنْ جَلَسَ إِلَيْهِ-
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو تم لوگوں کی طرح لگاتار جلدی جلدی نہیں ہوتی تھی۔ بلکہ صاف صاف ہر مضمون دوسرے سے ممتاز ہوتا تھا پاس بیٹھنے والے اچھی طرح سے ذہن نشین کر لیتے تھے۔
Aisha radiyallahu anha relates that the speech of Rasoolullah sallallahu alaihe wasallam was not quick and continuous as that of yours. He spoke clearly, word for word. A person sitting in his company remembered what he said.
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو قُتَيْبَةَ سَلْمُ بْنُ قُتَيْبَةَ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْمُثَنَّی عَنْ ثُمَامَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ کَانَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وسلم يُعِيدُ الْکَلِمَةَ ثَلاثًا لِتُعْقَلَ عَنْهُ-
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم (بعض مرتبہ) کلام کو (حسب ضرورت) تین تین مرتبہ دہراتے تاکہ آپ کے سننے والے اچھی طرح سمجھ لیں ۔
Anas ibn Maalik radiyallahu anhu says, “Rasoolullah sallallahu alaihe wasallam (sometimes) repeated a word (as was necessary) thrice, so that his listeners understood well what he was saying”.
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَکِيعٍ قَالَ حَدَّثَنَا جُمَيْعُ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْعِجْلِيُّ قَالَ حدَّثنِي رَجُلٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ مِنْ وَلَدِ أَبِي هَالَةَ زَوْجِ خَدِيجَةَ يُکْنَی أَبَا عَبْدِ اللهِ عَنِ ابْنٍ لأَبِي هَالَةَ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ سَأَلْتُ خَالِي هِنْدُ بْنُ أَبِي هَالَةَ وَکَانَ وَصَّافًا فَقُلْتُ صِفْ لِي مَنْطِقَ رَسُولِ اللهِ صلی الله عليه وسلم قَالَ کَانَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وسلم مُتَوَاصِلَ الأَحْزَانِ دَائِمَ الْفِکْرَةِ لَيْسَتْ لَهُ رَاحَةٌ طَوِيلُ السَّکْتِ لا يَتَکَلَّمُ فِي غَيْرِ حَاجَةٍ يَفْتَتِحُ الْکَلامَ وَيَخْتِمُهُ بِاسْمِ اللهِ تَعَالَی وَيَتَکَلَّمُ بِجَوَامِعِ الْکَلِمِ کَلامُهُ فَصْلٌ لا فُضُولَ وَلا تَقْصِيرَ لَيْسَ بِالْجَافِي وَلا الْمُهِينِ يُعَظِّمُ النِّعْمَةَ وَإِنْ دَقَّتْ لا يَذُمُّ مِنْهَا شَيْئًا غَيْرَ أَنَّهُ لَمْ يَکُنْ يَذُمُّ ذَوَّاقًا وَلا يَمْدَحُهُ وَلا تُغْضِبُهُ الدُّنْيَا وَلا مَا کَانَ لَهَا فَإِذَا تُعُدِّيَ الْحَقُّ لَمْ يَقُمْ لِغَضَبِهِ شَيْئٌ حَتَّی يَنْتَصِرَ لَهُ وَلا يَغْضَبُ لِنَفْسِهِ وَلا يَنْتَصِرُ لَهَا إِذَا أَشَارَ بِکَفِّهِ کُلِّهَا وَإِذَا تَعَجَّبَ قَلَبَهَا وَإِذَا تَحَدَّثَ اتَّصَلَ بِهَا وَضَرَبَ بِرَاحَتِهِ الْيُمْنَی بَطْنَ إِبْهَامِهِ الْيُسْرَی وَإِذَا غَضِبَ أَعْرَضَ وَأَشَاحَ وَإِذَا فَرِحَ غَضَّ طَرْفَهُ جُلُّ ضَحِکِهِ التَّبَسُّمُ يَفْتَرُّ عَنْ مِثْلِ حَبِّ الْغَمَامِ-
حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے ماموں ہند بن ابی ہالہ سے جو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف اکثر بیان فرماتے ہیں عرض کیا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو کی کیفیت مجھ سے بیان فرمائیے، انہوں نے فرمایا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم (آخرت کے) غم میں متواتر مشغول رہتے ۔ (ذات وصفات باری تعالیٰ یا امت کی بہبود کے) ہر وقت سوچ میں رہتے تھے ان امور کی وجہ سے کسی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بے فکری اور راحت نہ ہوتی تھی (یایہ کہ امور دینویہ کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو راحت نہ ملتی بلکہ دنیوی امور کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو راحت اور چین ملتا تھا چنانچہ حدیث میں ہے کہ میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز ہے) اکثر اوقات خاموش رہتے تھے بلا ضرورت گفتگو نہ فرماتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام گفتگو ابتدا سے انتہا تک منہ بھر کر ہوتی تھی (یہ نہیں کہ نوک زبان سے کٹتے ہوئے حروف کے ساتھ آدھی بات زبان سے کہی اور آدھی متکلم کے ذہن میں رہی جیساکہ موجودہ زمانہ کے متکبرین کا دستور ہے) جامع الفاظ کے ساتھ(جن کے الفاظ تھوڑے ہوں اور معانی بہت ہوں) کلام فرماتے تھے، چنانچہ ملا علی قاری نے ایسی چالیس احادیث اپنی شرح میں جمع کی ہیں جو نہایت مختصر ہیں عربی حاشیہ پر نقل کردیں ہیں جو یاد کرنا چاہے اس کو دیکھ کر یاد کر لے) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کلام ایک دوسرے سے ممتاز ہوتا تھا نہ اس میں فضولیات ہوتی تھی اور نہ کو تاہیاں کہ مطلب پوری طرح واضح نہ ہو ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سخت مزاج نہ تھے نہ کسی کی تذلیل فرماتے تھے، اللہ کی نعمت خواہ کتنی ہی تھوڑی ہو اس کو بہت بڑا سمجھتے تھے اسکی مذمت نہ فرماتے تھے البتہ کھانے کی اشیاء کی نہ مذمت فرماتے نہ تعریف فرماتے (مذمت نہ فرماتے تو ظاہر ہے کہ حق تعالیٰ شانہ کی نعمت ہے زیادہ تعریف نہ فرمانا اس لئے تھا کہ اس سے حرص کا شبہ ہوتا ہے البتہ اظہار رغبت یا کسی دلداری کی وجہ سے کبھی کبھی خاص خاص چیزوں کی تعریف بھی فرمائی ہے ) دنیا اور دنیاوی امور کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کبھی غصہ نہ آتا تھا (چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کی پرواہ بھی نہ ہوتی تھی اس لئے کبھی دنیوی نقصان پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کبھی غصہ نہ آتا تھا) البتہ کسی دینی امر اور حق بات سے کوئی شخص تجاوز کرتا تو اس وقت آپ کے غصہ کی کوئی شخص تاب نہ لا سکتا تھا اور کوئی اس کو روک بھی نہ سکتا تھا۔ یہاں تک کہ آپ اس کا انتقام نہ لے لیں ۔ اپنی ذات کے لئے نہ کسی پر ناراض ہوتے تھے نہ اس کا انتقام لیتے تھے جب کسی وجہ سے کسی جانب اشارہ فرماتے تو پورے ہاتھ سے اشارہ فرماتے (اس کی وجہ بعض علماء نے یہ بتلائی ہے کہ انگلیوں سے اشارہ تواضع کے خلاف ہے اس لئے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم پورے ہاتھ سے اشارہ فرماتے اور بعض علماء نے یہ تحریر فرمائی کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت شریفہ انگلی سے تو حید کی طرف اشارہ فرمانے کی تھی اس لئے غیر اللہ کی طرف انگلی سے اشارہ نہ فرماتے تھے) جب کسی بات پر تعجب فرماتے تو ہاتھ پلٹ لیتے تھے اور جب بات کرتے تو ملا لیتے (کبھی گفتگو کے ساتھ ہاتھوں کو بھی حرکت فرماتے) اور کھلی داہنی ہتھیلی کو بائیں انگوٹھی کے اندرونی حصہ پر مارتے اور جب کسی پر ناراض ہوتے تو اس سے منہ پھیر لیتے اور بے توجہی فرماتے اور یا درگزر فرماتے اور جب خوش ہوتے تو حیا کی وجہ سے آنکھیں گویا بند فرما لیتے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اکثر ہنسی تبسم ہوتی تھی ۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دندان مبارک اولے کی طرح چمکدار سفید ظاہر ہوتے تھے۔
Imaam Hasan radiyallahu anhu says, “I asked my (maternal) uncle Hind ibn Abi Haalah, who always described the noble features of Rasoolullah sallallahu alaihe wasallam to describe to me the manner in which Rasoolullah sallallahu alaihe wasallam spoke. He replied that Rasoolullah sallallahu alaihe wasallam was always worried (about the hereafter). And always busy thinking (about the attributes of Allah and the betterment of the Ummah). Because of these things he was never free from thought and never rested (or because of worldly affairs he did not gain rest, but gained rest and contentment from religious well being. It is mentioned in the hadith that the coolness of my eyes is in salaah). He always spoke clearly from beginning to end. (He did not speak in a manner where only half sentences are spoken and the other half remained in the mind of the speaker, as is prevalent among snobbish high-minded and proud people). He spoke concisely, where the words are less and meaning more. (Mulla Ali Qaari has collected forty such ahaadith in his commentary which are very short. Those who wish may refer to it and memorise it). Every word was clearer than the previous one. There was no nonsensical talk, nor was there half-talks’ where the meaning was not complete and could not be grasped. He was not short-tempered, nor did he disgrace anyone. He always greatly appreciated the blessings of Allah even though it might be very minute, he did not criticize it. He did not criticize food, nor over-praised it (The reason for not criticizing food is clear, that it is a blessing from Allah. The reason for not praising it is because it might be felt that one is gluttonous. Nevertheless, he praised food if it was to make someone happy, and sometimes praised some special things). He was never angered for anything materialistic. (The reason being that he did not pay much attention, and did not care much about materialistic things). If someone exceeded the limits in religious matters or against the truth, he became so angry that no one could endure it, nor could anybody stop it till he avenged it. If for some reason he made a gesture or pointed at something, he did it with a full hand. (The ulama say the reason being that it is against humbleness to point with one finger only. Some ulama say it was his noble habit to signal oneness of Allah with one finger, therefore he did not signal anyone in that manner). When he was surprised by something he turned his hands, and when he spoke sometimes while talking, he moved his hands, he sometimes hit the palm of his right hand with the inside part of his left thumb. When he became angry with someone, he turned his face away from that person, and did not pay attention to that person or he forgave that person. When he was happy due to humility it seemed as if he had closed his eyes. The laugh of Rasoolullah sallallahu alaihe wasallam was mostly a smile, at that moment his mubarak front teeth glittered like white shining hailstone.