ان روایات کا ذکر جو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم

حَدَّثَنَا أَبُو الْخَطَّابِ زِيَادُ بْنُ يَحْيَی الْبَصْرِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ مَيْمُونٍ قَالَ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سُئِلَتْ عَائِشَةُ وَسُئِلَتْ حَفْصَةُ مَا کَانَ فِرَاشُ رَسُولِ اللهِ صلی الله عليه وسلم فِي بَيْتِکِ قَالَتْ مِسْحًا نَثْنِيهِ ثَنِيَّتَيْنِ فَيَنَامُ عَلَيْهِ فَلَمَّا کَانَ ذَاتَ لَيْلَةٍ قُلْتُ لَوْ ثَنَيْتَهُ أَرْبَعَ ثَنْيَاتٍ لَکَانَ أَوْطَأَ لَهُ فَثَنَيْنَاهُ لَهُ بِأَرْبَعِ ثَنْيَاتٍ فَلَمَّا أَصْبَحَ قَالَ مَا فَرشْتُمْ لِيَ اللَّيْلَةَ قَالَتْ قُلْنَا هُوَ فِرَاشُکَ إِلا أَنَّا ثَنَيْنَاهُ بِأَرْبَعِ ثَنْيَاتٍ قُلْنَا هُوَ أَوْطَأُ لَکَ قَالَ رُدُّوهُ لِحَالَتِهِ الأُولَی فَإِنَّهُ مَنَعَتْنِي وَطَائَتُهُ صَلاتيَ اللَّيْلَةَ-
امام محمد باقر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کسی نے پوچھا کہ آپ کے یہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر کیسا تھا انہوں نے فرمایا کہ چمڑے کا تھا جس کے اندر کھجور کے درخت کی چھال بھری ہوئی تھی ۔ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کسی نے پوچھا کہ آپ کے گھر میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر کیسا تھا انہوں نے بتایا کہ ایک ٹاٹ تھا جس کو دوہرا کر کے ہم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نیچے بچھا دیا کرتے تھے ۔ ایک روز مجھے خیال ہوا کہ اس کو چوہرا کر کے بچھا دیا جائے تو زیادہ نرم ہو جائے گا میں نے ایسے ہی بچھا دیا ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کو دریافت کیا کہ میرے نیچے رات کو کیا چیز بچھائی تھی ؟ میں نے عرض کیا کہ وہی روز مرہ کا بستر تھا رات کو اسے چوہرا کر دیا تھا کہ زیادہ نرم ہوجائے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کو پہلے ہی حال پر رہنے دو، اس کی نرمی رات کو مجھے تہجد سے مانع ہوئی۔
Imaam Muhammad AI-Baaqir Radiyallahu 'Anhu says that someone asked Ummul Mu'mineen 'Aayeshah Radiyallahu 'Anha: 'How was the bed of Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam in your house?' She replied: 'It was made of leather, in which was filled the coir of the date palm'. Hafsah Radiyallahu 'Anha was asked how was the bed of Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam in your house? She replied: 'It was a canvas folded into two, which was spread for Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam to sleep on. On one night I thought if I folded it into four and spread it, it would become softer. I folded it and spread it that way. In the morning Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam asked: 'What did you spread for me last night? I replied: 'It was the same bed, I only folded it into four so that it may become softer'. Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam said: 'Leave it in its original form. Its softness deprived me of my prayers (tahajjud) at night'.
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ وَسَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُبَيْدِ اللهِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وسلم لا تُطْرُونِي کَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَی ابْنَ مَرْيَمَ إِنَّمَا أَنَا عَبْدٌ فَقُولُوا عَبْدُ اللهِ وَرَسُولُهُ-
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا کہ میری تعریف میں مبالغہ حد سے افزوں نہ کرو جیسے نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعریف میں مبالغہ کیا (کہ اللہ کا بیٹا ہی بنا دیا) میں اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں اس لئے مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہو۔
'Umar Radiyallahu 'Anhu says: ''Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam said: 'Do not exceed in praising me as the Christians over-praised 'Esa 'Alayhis Salaam. (That they made him the son of God.) I am a bondsman of Allah, therefore, call me the bondsman of Allah and His Rasul'''.
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ عَنْ حُمَيْدٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ امْرَأَةً جَائَتْ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وسلم فَقَالَتْ لَهُ إِنَّ لِي إِلَيْکَ حَاجَةً فَقَالَ اجْلِسِي فِي أَيِّ طَرِيقِ الْمَدِينَةِ شِئْتِ أَجْلِسْ إِلَيْکِ-
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کسی عورت نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ مجھے کچھ تخلیہ میں عرض کرنا ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی سڑک کے راستہ پر بیٹھ جائیں وہیں آ کر سن لوں گا۔
Anas Radiyallahu 'Anhu reports: A woman came to Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam and said: I would like to speak to you in private'. Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam replied: 'Sit on any street of Madinah and I will come there and listen to you' ''.
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ عَنْ مُسْلِمٍ الأَعْوَرِ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ کَانَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وسلم يَعُودُ الْمَرِيضَ وَيَشْهَدُ الْجَنَائِزَ وَيَرْکَبُ الْحِمَارَ وَيُجِيبُ دَعْوَةَ الْعَبْدِ وَکَانَ يَوْمَ بَنِي قُرَيْظَةَ عَلَی حِمَارٍ مَخْطُومٍ بَحَبْلٍ مِنْ لِيفٍ وَعَلَيْهِ إِکَافٌ مِنْ لِيفٍ-
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم مریضوں کی عیادت فرماتے تھے جنازوں میں شرکت فرماتے تھے گدھے پر سوار ہو جاتے تھے غلاموں کی دعوت قبول فرما لیتے تھے آپ بنو قریظہ کی لڑائی کے دن ایک گدھے پر سوار تھے جس کی لگام کھجور کے پھرٹوں کی اور کاٹھی بھی اس کی تھی۔
Anas Radiyallahu 'Anhu reports: "Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam visited the sick, attended funerals, rode on donkeys, accepted the invitations of slaves. On the day of the battle of Banu Qurayzah, he rode on a donkey, the reigns of which were made of date palm leaves. On it was also a saddle made of date palm leaves".
حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَی الْکُوفِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وسلم يُدْعَی إِلَی خُبْزِ الشَّعِيرِ وَالإِهَالَةِ السَّنِخَةِ فَيُجِيبُ وَلَقَدْ کَانَ لَهُ دِرْعٌ عِنْدَ يَهُودِيٍّ فَمَا وَجَدَ مَا يَفُکُّهَا حَتَّی مَاتَ-
حضرت انس رضی اللہ عنہ ہی کہتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی جو کی روٹی اور کئی دن کی باسی پرانی چکنائی کی دعوت کی جاتی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم (اس کو بھی بے تکلف) قبول فرما لیتے ۔ آپ کی ایک زرہ ایک یہودی کے پاس رہن تھی۔ اخیر عمر تک حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس کے چھڑانے کے لائق دام نہیں ہوئے۔
Anas Radiyallahu 'Anhu reports: ''Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam accepted and attended invitations where bread made of barley, and stale fat a few days old was served (Without hesitation he accepted these invitations). Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam had pawned his armour to a Jew. Till the end of his life Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam did not possess a sufficient amount to release that armour''.
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلانَ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِيُّ عَنْ سُفْيَانَ عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ صَبِيحٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبَانَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ حَجَّ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وسلم عَلَی رَحْلٍ رَثٍّ وَعَلَيْهِ قَطِيفَةٌ لا تُسَاوِي أَرْبَعَةَ دَرَاهِمَ فَقَالَ اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ حَجًّا لا رِيَائَ فِيهِ وَلا سُمْعَةَ-
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پرانے پالان پر حج کیا۔ اس پر ایک کپڑا پڑا ہوا تھا جو چار درہم کا بھی نہیں ہوگا۔ (یہ بھی ممکن ہے کہ اس پر سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا ہو یعنی آپ معمولی سی چادر اوڑھے ہوئے تھے جو چار درہم کی بھی نہیں تھی بعض فضلائے درس کے نزدیک یہ مطلب زیادہ پسندیدہ ہے۔ لیکن بندہ ناچیز کے نزدیک پہلا مطلب زیادہ راجح ہے اور اس باب کی گیارہویں حدیث اس کی تائید کرتی ہے) اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا مانگ رہے تھے کہ یا اللہ اس حج کو ایسا حج فرمائیو جس میں ریا اور شہرت نہ ہو۔
Anas Radiyallahu 'Anhu reports : ''Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam performed haj on an old pack saddle. On it was a piece of cloth, the value of which was less than four Dirhams. (It may be possible that by 'on it' Sayyidina Rasulullah Sallallhu 'Alayhi Wasallam himself is meant here. i.e. He covered himself with an ordinary sheet. The value of which did not reach four Dirhams. This explanation is most accepted by the respected teachers. The eleventh hadith in this chapter strengthens this). Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam was reciting this du'aa: 'Allah make this haj one that has no show or fame'''.
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ حَدَّثَنَا عَفَّانُ قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ حُمَيْدٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ لَمْ يَکُنْ شَخْصٌ أَحَبَّ إِلَيْهِمْ مِنْ رَسُولِ اللهِ صلی الله عليه وسلم قَالَ وَکَانُوا إِذَا رَأَوْهُ لَمْ يَقُومُوا لِمَا يَعْلَمُونَ مِنْ کَرَاهَتِهِ لِذَلِکَ-
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے نزدیک حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ محبوب کوئی شخص دنیا میں نہیں تھا اس کے باوجود پھر بھی وہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر اس لئے کھڑے نہیں ہوتے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ پسند نہیں تھا۔
Anas bin Maalik Radiyallahu 'Anhu reports: "No one was more beloved to the Sahaabah than Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam. When they saw him they did not stand up, knowing that he did not approve of it".
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَکِيعٍ قَالَ حَدَّثَنَا جُمَيْعُ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْعِجْلِيُّ قَالَ أَنْبَأَنَا رَجُلٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ مِنْ وَلَدِ أَبِي هَالَةَ زَوْجِ خَدِيجَةَ يُکْنَی أَبَا عَبْدِ اللهِ عَنِ ابْنٍ لأَبِي هَالَةَ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ سَأَلْتُ خَالِي هِنْدَ بْنَ أَبِي هَالَةَ وَکَانَ وَصَّافًا عَنْ حِلْيَةِ رَسُولِ اللهِ صلی الله عليه وسلم وَأَنَا أَشْتَهِي أَنْ يَصِفَ لِي مِنْهَا شَيْئًا فَقَالَ کَانَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وسلم قَالَ فَسَأَلْتُهُ عَنْ مَخْرَجِهِ کَيْفَ يَصْنَعُ فِيهِ قَالَ کَانَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وسلم يَخْرِنُ لِسَانُهُ إِلا فِيمَا يَعْنِيهِ وَيُؤَلِّفُهُمْ وَلا يُنَفِّرُهُمْ وَيُکْرِمُ کَرَيمَ کُلِّ قَوْمٍ وَيُوَلِّيهِ عَلَيْهِمْ وَيُحَذِّرُ النَّاسَ وَيَحْتَرِسُ مِنْهُمْ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَطْوِيَ عَنْ أَحَدٍ مِنْهُمْ بِشْرَهُ وَخُلُقَهُ وَيَتَفَقَّدُ أَصْحَابَهُ وَيَسْأَلُ النَّاسَ عَمَّا فِي النَّاسِ وَيُحَسِّنُ الْحَسَنَ وَيُقَوِّيهِ وَيُقَبِّحُ الْقَبِيحَ وَيُوَهِّيهِ مُعْتَدِلُ الأَمْرِ غَيْرُ مُخْتَلِفٍ لا يَغْفُلُ مَخَافَةَ أَنْ يَغْفُلُوا أَوْ يَمِيلُوا لِکُلِّ حَالٍ عِنْدَهُ عَتَادٌ لا يُقَصِّرُ عَنِ الْحَقِّ وَلا يُجَاوِزُهُ الَّذِينَ يَلُونَهُ مِنَ النَّاسِ خِيَارُهُمْ أَفْضَلُهُمْ عِنْدَهُ أَعَمُّهُمْ نَصِيحَةً وَأَعْظَمُهُمْ عِنْدَهُ مَنْزِلَةً أَحْسَنُهُمْ مُوَاسَاةً وَمُؤَازَرَةً قَالَ فَسَأَلْتُهُ عَنْ مَجْلِسِهِ فَقَالَ کَانَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وسلم لا يَقُومُ وَلا يَجَلِسُ إِلا عَلَی ذِکْرٍ وَإِذَا انْتَهَی إِلَی قَوْمٍ جَلَسَ حَيْثُ يَنْتَهِي بِهِ الْمَجْلِسُ وَيَأْمُرُ بِذَلِکَ يُعْطِي کُلَّ جُلَسَائِهِ بِنَصِيبِهِ لا يَحْسَبُ جَلِيسُهُ أَنَّ أَحَدًا أَکْرَمُ عَلَيْهِ مِنْهُ مَنْ جَالَسَهُ أَوْ فَاوَضَهُ فِي حَاجَةٍ صَابَرَهُ حَتَّی يَکُونَ هُوَ الْمُنْصَرِفُ عَنْهُ وَمَنْ سَأَلَهُ حَاجَةً لَمْ يَرُدَّهُ إِلا بِهَا أَوْ بِمَيْسُورٍ مِنَ الْقَوْلِ قَدْ وَسِعَ النَّاسَ بَسْطُهُ وَخُلُقُهُ فَصَارَ لَهُمْ أَبًا وَصَارُوا عِنْدَهُ فِي الْحَقِّ سَوَائً مَجْلِسُهُ مَجْلِسُ عِلْمٍ وَحِلْمٍ وَحَيَائٍ وَأَمَانَةٍ وَصَبْرٍ لا تُرْفَعُ فِيهِ الأَصْوَاتُ وَلا تُؤْبَنُ فِيهِ الْحُرَمُ وَلا تُثَنَّی فَلَتَاتُهُ مُتَعَادِلِينَ بَلْ کَانُوا يَتَفَاضَلُونَ فِيهِ بِالتَّقْوَی مُتَوَاضِعِينَ يُوقِّرُونَ فِيهِ الْکَبِيرَ وَيَرْحَمُونَ فِيهِ الصَّغِيرَ وَيُؤْثِرُونَ ذَا الْحَاجَةِ وَيَحْفَظُونَ الْغَرِيبَ-
حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے ماموں ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات اکثر بیان کرتے تھے اور مجھے ان کے سننے کا اشتیاق تھا تو انہوں نے میرے پوچھنے پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ شریف کا ذکر فرمایا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بلند پایہ وبلند مرتبہ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ انور بدر کی طرح چمکتا تھا اور پورا حلیہ شریف (جیسا کہ شروع کتاب میں پہلے باب کی ساتویں حدیث میں مفصل گزر چکا ہے) بیان فرمایا امام حسن رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے (بعض وجوہ سے) اس حدیث کا امام حسین رضی اللہ عنہ سے ایک عرصہ تک ذکر نہیں کیا۔ ایک عرصہ کے بعد ذکر کیا تو معلوم ہوا کہ وہ مجھ سے پہلے اس حدیث کو سن چکے تھے اور صرف یہی نہیں کہ ماموں جان سے یہ حدیث سن لی ہو بلکہ والد صاحب حضرت علی رضی اللہ عنہ سے حضور اکرم صلی اللہ کے مکان میں تشریف لے جانے اور باہر تشریف لانے اور حضور اکرم صلی اللہ کا طرز وطریقہ بھی معلوم کر چکے تھے ۔ چنانچہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان پر تشریف لے جانے کے حالات دریافت کیے تو آپ نے فرمایا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم مکان میں تشریف رکھنے کے وقت کو تین حصوں پر منقسم فرماتے تھے۔ ایک حصہ حق تعالیٰ شانہ کی عبادت میں خرچ فرماتے یعنی نماز وغیرہ پڑھتے تھے۔ دوسرا حصہ گھر والوں کے ادائے حقوق میں خرچ فرماتے تھے مثلا ان سے ہنسنا بولنا بات کرنا ان کے حالات کی تحقیق کرنا تیسرا حصہ خاص اپنی ضروریات راحت و آرام کے لئے رکھتے تھے پھر اس اپنے والے حصہ کو بھی دو حصوں پر اپنے اور لوگوں کے درمیان تقسیم فرما دیتے۔ اس طرح کہ خصوصی حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس وقت میں داخل ہوتے ان خواص کے ذریعہ سے مضامین عوام تک پہنچتے۔ ان لوگوں سے کسی چیز کو اٹھا کر نہ رکھتے تھے (یعنی نہ دین کے امور میں نہ دنیوی منافع میں ۔ غرض ہر قسم کا نفع بلا دریغ پہنچاتے تھے) امت کے اس حصہ میں آپ کا یہ طرز تھا کہ ان آنے والوں میں اہل فضل یعنی اہل علم وعمل کو حاضری کی اجازت میں ترجیح دیتے تھے۔ اس وقت کو ان کے فضلِ دینی کے لحاظ سے ان پر تقسیم فرماتے تھے بعض آنے والے ایک حاجت لے کر آتے اور بعض حضرات دو دو حاجتیں لے کر حاضر خدمت ہوتے اور بعض حضرات کئی کئی حاجتیں لے کر حاضر ہوتے۔ حضور اکرم صلی اللہ ان کی تمام حاجتیں پوری فرمایا کرتے تھے اور ان کو ایسے امور میں مشغول فرماتے جو خود ان کی اور تمام امت کی اصلاح کے لئے مفید اور کار آمد ہوں مثلاً ان دینی امور کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات کرنا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی طرف سے مناسب امور کی ان کو اطلاع فرمانا اور ان علوم ومعارف کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ بھی فرمادیا کرتے تھے کہ جو لوگ یہاں موجود ہیں وہ ان مفید اور ضروری اصلاحی امور کو غائبین تک بھی پہنچا دیں اور نیز یہ بھی ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ جو لوگ کسی عذر (پردہ یا دوری یا شرم یا رعب) کی وجہ سے مجھ سے اپنی ضرورتوں کا اظہار نہیں کرسکتے تم لوگ ان کی ضرورتیں مجھ تک پہنچا سکو تو حق تعالیٰ شانہ قیامت کے دن اس شخص کو ثابت قدم رکھیں گے۔ لہٰذا تم لوگ اس میں ضرور کوششیں کیا کرو۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں ضروری اور مفید ہی باتوں کا تذکرہ ہوتا تھا اور ایسے ہی امور کو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ سے خوشی سے سنتے تھے اس کے علاوہ لایعنی اور فضول باتیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں نہ ہوتی تھیں۔ صحابہ رضی اللہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دینی امور کے طالب بن کر حاضر ہوتے تھے اور بلا کچھ چکھے وہاں سے نہیں آتے تھے ( چکھنے سے مراد امور دینیہ کا حاصل کرنا بھی ہوسکتا ہے اور حسی چکھنا بھی مراد ہو سکتا ہے اس لئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جو کچھ موجود ہوتا اس سے تواضع فرماتے اور خصوصی احباب کا جب مجمع ہوتا ہے تو موجودہ چیز کی تواضع ہوتی ہی ہے) صحابہ کرام حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس سے ہدایت اور خیر کے لئے مشعل اور رہنما بن کر نکلتے تھے کہ وہ ان علوم کو حسب ارشاد دوسروں تک پہنچاتے رہتے تھے۔ امام حسین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے باہر تشریف آوری کے متعلق دریافت کیا تو فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ ضروری امور کے علاوہ اپنی زبان کو محفوظ رکھتے تھے، فضول تذکروں میں وقت ضائع نہیں فرماتے تھے۔ آنے والوں کی تالیف قلوب فرماتے ان کو مانوس فرماتے۔ متوحش نہیں فرماتے تھے (یعنی تنبیہ وغیرہ میں ایسا طرز اختیار نہ فرماتے جس سے ان کو حاضری میں وحشت ہونے لگے یا ایسے امور ارشاد نہ فرماتے تھے جن کی وجہ سے دین سے نفرت ہونے لگے) ہر قوم کے کریم اور معزز کا اکرام و اعزاز فرماتے اور اس کو خود اپنی طرف بھی اسی قوم پر متولی اور سردار مقرر فرما دیتے لوگوں کو عذاب الٰہی سے ڈراتے ( یا مضر امور سے بچنے کی تاکید فرماتے یا لوگوں کو دوسروں سے احتیاط رکھنے کی تاکید فرماتے) اور خود اپنی بھی لوگوں کے تکلیف پہنچانے یا نقصان پہنچانے سے حفاظت فرماتے لیکن باوجود خود احتیاط رکھنے اور احتیاط کی تاکید کے کسی سے اپنی خندہ پیشانی اور خوش خلقی کو نہیں ہٹاتے تھے۔ اپنے دوستوں کی خبر گیری فرماتے اور لوگوں کے حالات آپس کے معاملات کی تحقیق فرما کر ان کی اصلاح فرماتے اچھی بات کی تحسین فرما کر اس کی تقویت فرماتے اور بری بات کی برائی فرما کر اس کو زائل فرماتے اور روک دیتے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر امر میں اعتدال اور میانہ روی اختیار فرماتے نہ کہ تلون اور گڑبڑ کہ کبھی کچھ فرمادیا اور کبھی کچھ لوگوں کی اصلاح سے غفلت نہ فرماتے تھے کہ مبادہ وہ دین سے غافل ہو جائیں یا کسی امر میں حد سے بڑھ جانے کی وجہ سے دین سے اکتا جائیں (اس لئے حضور اکرم صلی اللہ ان کے حالات سے غفلت نہ فرماتے تھے) ہر کام کے لئے آپ کے یہاں ایک خاص انتظام تھا۔ امرِ حق میں نہ کبھی کوتاہی فرماتے تھے، نہ حد سے تجاوز فرماتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے والے خلقت کے بہترین افراد ہوتے تھے۔ آپ کے نزدیک افضل وہی ہوتا تھا جس کی خیر خواہی عام ہو، یعنی ہر شخص کی بھلائی چاہتا ہو آپ کے نزدیک بڑے رتبے والا وہی ہوتا تھا جو مخلوق کی غمگساری اور مدد میں زیادہ حصہ لے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس کے حالات دریافت کئے تو انہوں نے فرمایا کہ آپ کی نشست وبرخاست سب اللہ کے ذکر کے ساتھ ہوتی تھی اور جب کسی جگہ آپ تشریف لے جاتے تو جہاں جگہ ملتی وہیں تشریف رکھتے اور اسی کا لوگوں کو حکم فرماتے کہ جہاں خالی جگہ مل جائے وہاں بیٹھ جایا کریں ۔ لوگوں کے سروں کو پھلانگ کر آگے نہ جایا کریں یہ امر جدا گانہ ہے کہ جس جگہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف رکھتے وہی جگہ پھر صدر مجلس بن جاتی، آپ حاضرین مجلس میں سے ہر ایک کا حق ادا فرماتے یعنی بشاشت اور بات چیت میں جتنا اس کا حق ہوتا اس کو پورا فرماتے کہ آپ کے پاس ہر بیٹھنے والا یہ سمجھتا تھا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرا سب سے زیادہ اکرام فرما رہے ہیں ، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھتا یا کسی امر میں آپ کی طرف مراجعت کرتا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس بیٹھے رہتے یہاں تک کہ وہی خود اٹھنے کی ابتدا کرے۔ جو آپ سے کوئی چیز مانگتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو مرحمت فرماتے یا اگر نہ ہوتی تو نرمی سے جواب فرماتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خندہ پیشانی اور خوش خلقی تمام لوگوں کے لئے عام تھی، آپ تمام خلقت کے شفقت میں باپ تھے اور تمام خلقت حقوق میں آپ کے نزدیک برابر تھی۔ آپ کی مجلس، مجلس علم وحیا اور صبر وامانت تھی (یعنی یہ چاروں باتیں اس میں حاصل کی جاتی تھیں یا یہ کہ یہ چاروں باتیں اس میں موجود ہوتی تھیں) نہ اس میں شور و شغب ہوتا تھا نہ کسی کی عزت وآبرو اتاری جاتی تھی آپس میں سب برابر شمار کئے جاتے تھے (حسب ونسب کی بڑائی نہ سمجھتے تھے البتہ) ایک دوسرے پر فضیلت تقویٰ سے ہوتی تھی ہر شخص دوسرے کے ساتھ تواضع سے پیش آتا تھا، بڑوں کی تعظیم کرتے تھے، چھوٹوں پر شفقت کرتے تھے، اہل حاجت کو ترجیح دیتے تھے، اجنبی مسافر آدمی کی خبر گیری کرتے تھے۔
Imaam Hasan bin 'Ali Radiyallahu 'Anhu reports that I asked my (maternal) uncle Hind bin Abi Haalab, who usually described particulars and conditions of Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam. I was longing to hear something about it. On my asking, he described the mubaarak features of Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam. He said: 'Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam had great qualities and attributes in him, others also held him in high esteem. His face glittered like the full moon'. He then described the complete features of Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam (as has been mentioned in the first chapter under hadith number seven). Imaam Hasan Radiyallahu 'Anhu says. 'I did not mention this hadith (due to some reason) to Husayn (Radiyallahu 'Anhu) for some time. Then I once narrated it to him whereupon I found that he had heard it before me. He had asked him (our uncle) already what I had asked. I also found that he had asked our father ('Ali Radiyallahu 'Anhu) about Rasulullah Sallallahu 'Alayhi 'Wasallam entering and coming out of the house. He did not leave out anything about the ways and manners of Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam. Imaam Husayn Radiyallahu 'Anhu said: 'I asked my father regarding the manner in which Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam entered the house?' He replied: 'When Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam entered the house he distributed his time into three portions; He spent a portion for Allah. (In devotion, performing salaah etc.); A portion towards his family (fulfilling their duties. i.e. laughing, speaking, enquiring about their welfare etc.); and a portion for himself (resting etc.). He distributed his personal portion in two, one for himself and one for the people, in such a manner that the near one's among the Sahaabah Radiyallahu 'Anhum came to visit him. Through these Sahaabah Radiyallahu 'Anhum he conveyed messages to the people. He did not conceal anything from them. From the portion of the unimah he adopted this method, that he gave preference to the Ahlul-Fadl (i.e. people of 'ilm and 'amal). He distributed this time according to their religious fadl. From among those who came, some had one requirement, some had two requirements, and some had many requirements. Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam fulfilled all their requirements. He busied them in things that benefited them and the entire ummah. When they questioned Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam on religious matters, he replied to them in a manner that benefited them. He used to say: 'Those that are present, should inform those that are not present regarding these beneficial and necessary matters'. He also used to say: 'Those people who for some reason (purdah, distance, shyness or awe) cannot put forward their requirements, you should inform me about their requirements, because, that person who informs a king of the need of another, who is unable to put forward that need, Allah Ta'aala will keep that person stead fast on the day of qiyaamah'. Only important and beneficial matters were discussed in his gathering. He happily listened to these matters from the Sahaabah Radiyallahu 'Anhum. Besides this there was no wasteful or non-beneficial talks in his assemblies. The Sahaabah Radiyallahu 'Anhum came to the assemblies of Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam for their religious needs, they did not depart before tasting something (by tasting, may be meant the acquiring of religious knowledge. It could mean 'Hissi' tasting too. Whatever Sayyidina Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam possessed, he offered it in humbleness. Whenever close friends gather, whatever is available is presented to them). The Sahaabah Radiyallahu 'Anhum returned from his assemblies as torch bearers of hidayah and goodness. (They spread. these teachings amongst others). Imaam Husayn Radiyallahu 'Anhu says: 'I asked (my father) regarding the coming out of Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam from the house'. He replied: 'Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam controlled his tongue and only spoke that which was necessary. He did not waste his time in useless conversations. He made those who came to visit him feel at home he did not make them feel scared or ill at ease. (i.e. When advising them, he did not scold them in a manner that they become scared, or tell them such things that would keep them away from the deen). He respected and honoured the respected ones of every nation. He also chose a leader for them. He warned the people of Allah's punishrnent (or he emphasised that the people be cautious*). He also protected himself from troubling or harming people. Besides being cautious and commanding others to be cautious, he never lacked in courtesy towards others. He was concerned for the affairs of his friends, made himself aware about the relationships between them and rectified their faults. He praised good deeds and encouraged them. He explained the harmful effects of bad things and removed and stopped these. He followed the middle path in all matters. (He did not at times say this and at other times that). He did not neglect the guiding of people, it is possible that they became unmindful of their religious duties, or exceeded in a matter resulting in them becoming disheartened. For everything there was a special arrangement .He did not fall back in the truth, nor did he exceed the limits in this. Those who attended his gatherings were the best of people. The best person in the eyes of Sayyidina Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam was the one who wished everybody well. The one with the highest status in the eyes of Sayyidina Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam was that person who considered, comforted and helped the creation the most'. Sayyidina Imaam Husayn Radiyallahu 'Anhu says: 'I then enquired from him regarding the assemblies of Sayyidina Rasulullah Sallallahu Wasallam'. He replied: 'He began and ended all his sitting with the dhikr of Allah. When he went to a place, he sat where he found a place, and also instructed the people to do so. They should not leap over peoples heads and go ahead. It is a different matter, that where Sayyidina Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam sat, that place became the focal point of the gathering. Sayyidina Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam fulfilled the rights of every person present. That means, whatever right was due in talking and showing happiness, was fulfilled by him, so much so, that every person present would think that Sayyidina Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam is honouring me the most. The person that came to sit by Sayyidina Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam or came to him for some purpose, Sayyidina Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam would remain seated till that person began to stand up. Whenever one asked him for something, he kindly fulfilled that request, and did not refuse it, (if he did not possess the thing) he would give a soft and humble answer. His cheerfulness and pleasant manner were for everybody. He was like a father to them. The whole creation was equal before him as far as rights were concerned. His gatherings were the gatherings of knowledge, modesty, patience and honesty. (i.e. These four things were attained there or are a description of his gatherings). Voices were not raised therein, nor was anyone degraded or disgraced. If anyone committed a fault, it was not made known publicly. All were regarded as equals amongst themselves. (A person was not regarded according to his lineage or genealogy). The virtues of one over the other was according to the taqwa (piety) possessed. The small ones were loved. The needy were given preference. Strangers and travellers were cared for'.
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ بَزِيعٍ قَالَ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ قَالَ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وسلم لوْ أُهْدِيَ إِلَيَّ کُرَاعٌ لَقَبِلتُ وَلوْ دُعِيتُ عَلَيْهِ لأَجَبْتُ-
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر مجھے بکری کا ایک پیر بھی دیا جائے تو میں قبول کروں گا اور اگر اس کی دعوت کی جائے تو میں ضرور جاؤں گا ۔
Anas Radiyallahu 'Anhu reports that Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam said: "Even if I am given a foot of a goat as a present, I will accept it, and if I am invited to partake of it, I will surley accept that invitation".
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ جَائَنِي رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وسلم لَيْسَ برَاکِبِ بَغْلٍ وَلا بِرْذَوْنٍ-
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم (میری عیادت کے لئے) تشریف لائے نہ خچر پر سوار تھے نہ ترکی گھوڑے پر (یعنی نہ گھٹیا سواری تھے نہ بڑھیا بلکہ پیادہ تشریف لائے)۔
Jaabir Radiyallahu 'Anhu says: "Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam came to visit me (while I was ill). He did not come on the back of a mule, or on a Turkish horse". (i.e. He did not come on defective or an expensive conveyance, but came on foot).
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ قَالَ أَنْبَأَنَا يَحْيَی بْنُ أَبِي الْهَيْثَمِ الْعَطَّارُ قَالَ سَمِعْتُ يُوسُفَ بْنَ عَبْدِ اللهِ بْنِ سَلامٍ قَالَ سَمَّانِي رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وسلم يُوسُفَ وَأَقْعَدَنِي فِي حِجْرِهِ وَمَسَحَ عَلَی رَأْسِي-
یوسف بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا نام یوسف تجویز فرمایا تھا اور مجھے اپنی گود میں بٹھلایا تھا اور میرے سر پر دستِ مبارک پھیرا تھا۔
Yusuf bin 'Abdullah bin Salaam Radiyallahu 'Anhu reports: Rasulullah Sallallah 'Alayhi Wasallam chose for me the the name Yusuf. He put me in his lap and passed his mibaarak hand on my head''.
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ وَهُوَ ابْنُ صَبِيحٍ قَالَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ الرَّقَاشِيُّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلی الله عليه وسلم حَجَّ عَلَی رَحْلٍ رَثٍّ وَقَطِيفَةٍ کُنَّا نَرَی ثَمَنَهَا أَرْبَعَةَ دَرَاهِمَ فَلَمَّا اسْتَوَتْ بِهِ رَاحِلَتُهُ قَالَ لَبَّيْکَ بِحَجَّةٍ لا سُمْعَةَ فِيهَا وَلا رِيَائَ-
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے کجاوہ پر حج کیا۔ جس پر ایک کپڑا تھا جس کی قیمت ہمارے خیال میں چار درہم ہوگی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کرتے تھے کہ خدایا اس حج کو ریا اور شہرت سے مبرا فرمائیو۔
Anas Radiyallahu 'Anhu reports: "Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam performed haj on a saddled camel on which was a cloth, the value of which we think was four Dirhams. Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam was reciting this du'aa: 'O Allah, keep this haj free from show and fame"'.
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ وَعَاصِمٍ الأَحْوَلِ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ رَجُلا خَيَّاطًا دَعَا رَسُولَ اللهِ صلی الله عليه وسلم فَقَرَّبَ مِنْهُ ثَرِيدًا عَلَيْهِ دُبَّائُ قَالَ فَکَانَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وسلم يَأْخُذُ الدُّبَّائَ وَکَانَ يُحِبُّ الدُّبَّائَ قَالَ ثَابِتٌ فَسَمِعْتُ أَنَسًا يَقُولُ فَمَا صُنِعَ لِي طَعَامٌ أَقْدَرُ عَلَی أَنْ يُصْنَعَ فِيهِ دُبَّائُ إِلا صُنِعَ-
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک درزی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی۔ کھانے میں ثرید تھا اور اس پر کدو پڑا ہوا تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کدو چونکہ مرغوب تھا اس لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس پر سے کدو نوش فرمانے لگے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد سے میرے لئے کوئی کھانا تیار نہیں کیا گیا جس میں مجھے کدو ڈلوانے کی قدرت ہو اور کدو اس میں نہ ڈالا گیا ہو۔
Anas Radiyallahu 'Anhu reports that a tailor invited Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam. Thareed was served, in which dubbaa (dodhi -gourd) was added. As Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam loved dubbaa (dodhi-gourd) he began eating it. Anas Radiyallahu 'Anhu says: "After that no food was prepared for me, wherein if gourd could be added, it was added".
محمد بن اسماعل حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ عَنْ عَمْرَةَ قَالَتْ قِيلَ لِعَائِشَةَ مَاذَا کَانَ يَعْمَلُ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وسلم فِي بَيْتِهِ قَالَتْ کَانَ بَشَرًا مِنَ الْبَشَرِ يَفْلِي ثَوْبَهُ وَيَحْلُبُ شَاتَهُ وَيَخْدُمُ نَفْسَهُ-
عمرة کہتی ہیں کہ کسی نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم دولت کدہ پر کیا کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آدمیوں میں سے ایک آدمی تھے اپنے کپڑے میں خود ہی جوں تلاش کر لیتے تھے اور خود ہی بکری کا دودھ نکال لیتے تھے اور اپنے کام خود ہی کر لیتے تھے۔
'Amrah Radiyallahu 'Anha reports that someone asked 'Aayeshah Radiyallahu 'Anha. "What was the usual practice of Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam at home?" She replied: "He was a human from among other humans. He himself removed the lice from his clothing, milked his goats, and did all his work himself".