مہروں میں انصاف کرنا

أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی وَسُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ عَنْ ابْنِ وَهْبٍ أَخْبَرَنِي يُونُسُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ عَنْ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَی فَانْکِحُوا مَا طَابَ لَکُمْ مِنْ النِّسَائِ قَالَتْ يَا ابْنَ أُخْتِي هِيَ الْيَتِيمَةُ تَکُونُ فِي حَجْرِ وَلِيِّهَا فَتُشَارِکُهُ فِي مَالِهِ فَيُعْجِبُهُ مَالُهَا وَجَمَالُهَا فَيُرِيدُ وَلِيُّهَا أَنْ يَتَزَوَّجَهَا بِغَيْرِ أَنْ يُقْسِطَ فِي صَدَاقِهَا فَيُعْطِيَهَا مِثْلَ مَا يُعْطِيهَا غَيْرُهُ فَنُهُوا أَنْ يَنْکِحُوهُنَّ إِلَّا أَنْ يُقْسِطُوا لَهُنَّ وَيَبْلُغُوا بِهِنَّ أَعْلَی سُنَّتِهِنَّ مِنْ الصَّدَاقِ فَأُمِرُوا أَنْ يَنْکِحُوا مَا طَابَ لَهُمْ مِنْ النِّسَائِ سِوَاهُنَّ قَالَ عُرْوَةُ قَالَتْ عَائِشَةُ ثُمَّ إِنَّ النَّاسَ اسْتَفْتَوْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدُ فِيهِنَّ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَيَسْتَفْتُونَکَ فِي النِّسَائِ قُلْ اللَّهُ يُفْتِيکُمْ فِيهِنَّ إِلَی قَوْلِهِ وَتَرْغَبُونَ أَنْ تَنْکِحُوهُنَّ قَالَتْ عَائِشَةُ وَالَّذِي ذَکَرَ اللَّهُ تَعَالَی أَنَّهُ يُتْلَی فِي الْکِتَابِ الْآيَةُ الْأُولَی الَّتِي فِيهَا وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَی فَانْکِحُوا مَا طَابَ لَکُمْ مِنْ النِّسَائِ قَالَتْ عَائِشَةُ وَقَوْلُ اللَّهِ فِي الْآيَةِ الْأُخْرَی وَتَرْغَبُونَ أَنْ تَنْکِحُوهُنَّ رَغْبَةَ أَحَدِکُمْ عَنْ يَتِيمَتِهِ الَّتِي تَکُونُ فِي حَجْرِهِ حِينَ تَکُونُ قَلِيلَةَ الْمَالِ وَالْجَمَالِ فَنُهُوا أَنْ يَنْکِحُوا مَا رَغِبُوا فِي مَالِهَا مِنْ يَتَامَی النِّسَائِ إِلَّا بِالْقِسْطِ مِنْ أَجْلِ رَغْبَتِهِمْ عَنْهُنَّ-
یونس بن عبدالاعلی و سلیمان بن داؤد ، ابن وہب، ابن شہاب، حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اس آیت کریمہ کی تفسیر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے دریافت فرمائی اور وہ آیت کریمہ یہ ہے یعنی اگر تم اس سے اندیشہ کرو کہ تم یتیم لڑکیوں کے حق میں انصاف نہیں کرو گے تو تم ان خواتین سے نکاح کرو جو کہ تم کو پسندیدہ ہوں۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا اے میرے بھانجے! اس آیت کریمہ میں ان یتیم لڑکیوں کا تذکرہ ہے جو کہ اولیاء کے پاس پرورش حاصل کرتی ہے اور وہ لڑکیاں مال میں حصہ رکھتی ہیں جو مال کہ ان کے ورثا کو ملا ہے ان کے سبب کی وجہ سے ان کے اولیاء نے ان کی صورت اور دولت دیکھ کر اس طریقہ سے چاہا کہ ان کو اپنے نکاح میں کر لیں۔ لیکن اس قدر مہر سے جس قدر ان کو غیر شخص دے سکتا ہے۔ یعنی آپ ان سے نکاح نہ کریں اور دوسرے لوگوں سے ان کا نکاح کر دیں تو دوسرا مہر زیادہ دے گا لیکن عورت کے ولی چاہتے کہ ان کے ساتھ نا انصافی کر کے کچھ مہر پر آپ ان سے نکاح کر لیں۔ خداوند قدوس کی جانب سے ان کی ممانعت نازل ہوئی اور ان کے ساتھ کم مہر پر نکاح کر نے سے ممانعت فرمائی گئی اور حکم ہوا کہ اگر تم ان سے نکاح کرنا چاہتے ہو تو تم انصاف کرو۔ ورنہ جس کو تمہارا دل چاہے وہ کرو اور ان کے علاوہ پھر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اس واقعہ کے بعد فرمایا کہ لوگوں نے دریافت کیا یعنی حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا پھر خداوند قدوس نے یہ آیت کریمہ ترجمہ لوگ تم سے رخصت مانگتے ہیں عورتوں کے بارے میں تم کہہ دو کہ ان سے متعلق خداوندتعالی تم کو حکم فرماتا ہے اور وہ آیات بھی جو کہ قرآن کریم میں سے تم کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں اور جو ان یتیم لڑکیوں سے متعلق ہیں جن کو کہ تم ان کا مقرر کردہ حق نہیں دیتے اور ان سے نکاح کرنے میں تم لوگ رغبت رکھتے ہو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ گزشتہ آیت کریمہ میں مذکور آیات سے مراد پہلی آیت کریمہ ہے یعنی آخر تک۔ یعنی اگر تم کو اندیشہ ہو کہ تم یتامیٰ کے درمیان انصاف قائم نہیں کر سکو گے تو تم اپنی پسند کی خواتین سے نکاح کرو پھر ارشاد فرماتی ہیں کہ ایک دوسری آیت کریمہ میں مذکور سے مراد وہ یتیم لڑکی ہے کہ جس نے کہ تمہارے پاس پرورش پائی لیکن تم اس کے کم مالدار ہونے اور کم خوبصورت ہونے کی وجہ سے اس سے نکاح کرنے سے نفرت کرتے ہو چنانچہ ان لوگوں کو ان یتیم لڑکیوں سے نکاح کرنے سے منع فرما دیا گیا کہ جن کی جانب ان کی دولت کی وجہ سے رغبت تھی کہ ان سے اس شرط پر نکاح کر سکتے ہو کہ ان کے مہر میں تم انصاف سے کام لو۔
It was narrated that Abu Salamah said: “I asked ‘Aishah about that and she said: ‘The Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم got married (and married his daughters) for twelve Uqiyah and a Nashsh” which is five hundred Dirhams. (Sahih)
أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْهَادِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ قَالَ سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنْ ذَلِکَ فَقَالَتْ فَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَی اثْنَتَيْ عَشْرَةَ أُوقِيَّةً وَنَشٍّ وَذَلِکَ خَمْسُ مِائَةِ دِرْهَمٍ-
اسحاق بن ابراہیم، عبدالعزیز بن محمد، یزید بن عبداللہ بن ہاد، محمد بن ابراہیم، حضرت ابوسلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بارہ اوقیہ اور نش مہر مقرر فرمائے اور اس کی مقدار پانچ سو درہم مقرر ہوئی۔
It was narrated that Abu Hurairah said: “The dowry, when the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم was among us, was ten Awaq.” (Sahih).
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَکِ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ قَالَ حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ قَيْسٍ عَنْ مُوسَی بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ کَانَ الصَّدَاقُ إِذْ کَانَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشْرَةَ أَوَاقٍ-
محمد بن عبداللہ بن مبارک، عبدالرحمن بن مہدی، داؤد بن قیس، موسیٰ بن یسار، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور مبارک میں دس اوقیہ مہر مقرر تھا۔
It was narrated that Abu Al ‘Ajfa’ said: “Umar bin Al-Khattab said: ‘Do not go to extremes with regard to the dowries of women, for if that were a sign of honor and dignity in this world, or a sign of piety before Allah, the Mighty and Sublime, then Muhammad , would have done that before you. But he did not give any of his wives, and none of his daughters were given, more than twelve Uqiyyah. A man may increase the dowry until he feels resentment against her and says: You cost me everything I own 123(qul-Qfrbah)” ‘And I was a man born among the ‘Arabs, but I did not know the meaning of ‘Alaqu-Qirbah’ and others of you are saying — about those killed in this or that battle of yours, or who died: “So-and so was martyred,’ or ‘so and so died as a martyr.’ While perhaps he merely overloaded the backside of his beast, or lined his saddle with gold or silver seeking trade. So do not say that, rather say as the Prophet صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم said: ‘Whoever is killed in the cause of Allah, or dies, then he is in Paradise.” (Hasan)
أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرِ بْنِ إِيَاسِ بْنِ مُقَاتِلِ بْنِ مُشَمْرِخِ بْنِ خَالِدٍ قَالَ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَيُّوبَ وَابْنِ عَوْنٍ وَسَلَمَةَ بْنِ عَلْقَمَةَ وَهِشَامِ بْنِ حَسَّانَ دَخَلَ حَدِيثُ بَعْضِهِمْ فِي بَعْضٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ قَالَ سَلَمَةُ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ نُبِّئْتُ عَنْ أَبِي الْعَجْفَائِ وَقَالَ الْآخَرُونَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ عَنْ أَبِي الْعَجْفَائِ قَالَ قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أَلَا لَا تَغْلُوا صُدُقَ النِّسَائِ فَإِنَّهُ لَوْ کَانَ مَکْرُمَةً وَفِي الدُّنْيَا أَوْ تَقْوَی عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ کَانَ أَوْلَاکُمْ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَصْدَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ امْرَأَةً مِنْ نِسَائِهِ وَلَا أُصْدِقَتْ امْرَأَةٌ مِنْ بَنَاتِهِ أَکْثَرَ مِنْ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ أُوقِيَّةً وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيُغْلِي بِصَدُقَةِ امْرَأَتِهِ حَتَّی يَکُونَ لَهَا عَدَاوَةٌ فِي نَفْسِهِ وَحَتَّی يَقُولَ کُلِّفْتُ لَکُمْ عِلْقَ الْقِرْبَةِ وَکُنْتُ غُلَامًا عَرَبِيًّا مُوَلَّدًا فَلَمْ أَدْرِ مَا عِلْقُ الْقِرْبَةِ قَالَ وَأُخْرَی يَقُولُونَهَا لِمَنْ قُتِلَ فِي مَغَازِيکُمْ أَوْ مَاتَ قُتِلَ فُلَانٌ شَهِيدًا أَوْ مَاتَ فُلَانٌ شَهِيدًا وَلَعَلَّهُ أَنْ يَکُونَ قَدْ أَوْقَرَ عَجُزَ دَابَّتِهِ أَوْ دَفَّ رَاحِلَتِهِ ذَهَبًا أَوْ وَرِقًا يَطْلُبُ التِّجَارَةَ فَلَا تَقُولُوا ذَاکُمْ وَلَکِنْ قُولُوا کَمَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوْ مَاتَ فَهُوَ فِي الْجَنَّةِ-
علی بن حجر بن ایاس بن مقاتل بن مشمرخ بن خنالد، اسماعیل بن ابراہیم، ایوب و ابن عون و سلمہ بن علقمہ و ہشام بن حسان، محمد بن سیرین، سلمہ، ابن سیرین، حضرت ابوعجفا رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا خبردار! تم لوگ خواتین کے مہر میں حد سے تجاوز نہ کیا کرو۔ کیونکہ اگر یہ کام دنیا میں کچھ عزت کا ہوتا یا خداوند قدوس کے نزدیک پرہیزگاری کا کام ہوتا تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تم سب سے پہلے اس کے حقدار ہوتے اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ازواج مطہرات میں سے کسی کا اور کسی لڑکی کا مہر اس سے زیادہ یعنی جس کی مقدار بارہ اوقیہ ہوتی ہے مقرر نہیں فرمایا اور انسان اپنی اہلیہ کے سلسلہ میں حد سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے یہاں تک کہ اس کو اپنی بیوی سے دشمنی ہو جاتی ہے یہاں تک کہ وہ شخص کہتا ہے کہ میں نے تمہارے واسطے مشک کی رسی کے واسطے بھی مصیبت برداشت کی (یعنی تمہارے واسطے میں نے سخت تکلیف برداشت کی) اور ایک دوسری روایت میں علق القربۃ کا لفظ ہے یعنی مجھ کو پسینہ آگیا۔ حضرت ابوعجفا رضی اللہ نے فرمایا کہ میں ایک لڑکا تھا مولد (یعنی خاص عرب نہ تھا) تو میں نہیں سمجھ سکا کہ کیا ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا لوگ ایک دوسری بات کہتے ہیں کہ تم لوگوں کا اگر کوئی شخص جنگ میں قتل کر دیا جائے تو کیا کہا جاتا ہے کہ وہ شخص شہید ہے اور وہ شخص شہید مارا گیا یا وہ شخص شہید ہے۔ ممکن ہے کہ اس شخص نے اپنے اونٹ کی سرین پر وزن لادا ہو یا اونٹ کے کجاوے پر سونے چاندی کی تجارت کی ہو (یعنی اس شخص کی نیت خالص جہاد کی نہ رہی ہو بلکہ دنیا حاصل کرنا مقصود ہو) تو تم اس طریقہ سے نہ کہو بلکہ اس طریقہ سے کہو کہ جس طریقہ سے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے جو شخص راہ خدا میں مارا جائے یا قتل ہوجائے تو وہ شخص جنت میں داخل ہوگا اور تم لوگ کسی خاص آدمی سے کوئی بات نہ کہو خداوند قدوس کو معلوم ہے کہ اس شخص کی کیا نیت تھی۔
It was narrated from Umm Habibah that the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم married her when she was in Ethiopia. An-Najashi performed the marriage for her and gave her a dowry of four thousand, and he fitted her out from his own wealth, and sent her with Shurahbil bin Uasanah. The Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم did not send her anything, and the dowry of his wives was four hundred Dirhams. (Da’if)
أَخْبَرَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ شَقِيقٍ قَالَ أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَکِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَزَوَّجَهَا وَهِيَ بِأَرْضِ الْحَبَشَةِ زَوَّجَهَا النَّجَاشِيُّ وَأَمْهَرَهَا أَرْبَعَةَ آلَافٍ وَجَهَّزَهَا مِنْ عِنْدِهِ وَبَعَثَ بِهَا مَعَ شُرَحْبِيلَ ابْنِ حَسَنَةَ وَلَمْ يَبْعَثْ إِلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَيْئٍ وَکَانَ مَهْرُ نِسَائِهِ أَرْبَعَ مِائَةِ دِرْهَمٍ-
عباس بن محمد دوری، علی بن حسن بن شقیق، عبداللہ بن مبارک، معمر، زہری، عروہ بن زبیر، حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے نکاح فرمایا اور وہ ملک حبش میں تھیں وہاں کے بادشاہ نے کہ جس کا نام نجاشی بادشاہ تھا نکاح کر نے کے بعد جہیز وغیرہ اپنی جانب سے دے دیا اور مہر چار ہزار مقرر فرمایا اور شرحبیل بن حسنہ کے ساتھ دے کر بھیج دیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ام حبیبہ اپنی اہلیہ محترمہ کو مہر کا کوئی حصہ نہیں بھیجا تھا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اور دوسری ازواج مطہرات کا مہر چار سو درہم تھا۔
It was narrated from Anas bin Malik that ‘Abdur-Rahman bin ‘Awl came to the Prophet صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم with traces of yellow perfume on him. The Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم asked him (about that) and he told him that he had married a woman from among the An The Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم said: “How much did you give her?” He said: “A Nawah (five Dirhams) of gold.” The Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم said: “Give a Walimah (wedding feast) even if it is with one sheep.”(Sahih).