مسلمان کا خون حرام ہونا

أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْحَمَّالُ قَالَ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ يَزِيدَ بْنِ هُرْمُزَ أَنَّ نَجْدَةَ الْحَرُورِيَّ حِينَ خَرَجَ فِي فِتْنَةِ ابْنِ الزُّبَيْرِ أَرْسَلَ إِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ يَسْأَلُهُ عَنْ سَهْمِ ذِي الْقُرْبَی لِمَنْ تُرَاهُ قَالَ هُوَ لَنَا لِقُرْبَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَسَمَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهُمْ وَقَدْ کَانَ عُمَرُ عَرَضَ عَلَيْنَا شَيْئًا رَأَيْنَاهُ دُونَ حَقِّنَا فَأَبَيْنَا أَنْ نَقْبَلَهُ وَکَانَ الَّذِي عَرَضَ عَلَيْهِمْ أَنْ يُعِينَ نَاکِحَهُمْ وَيَقْضِيَ عَنْ غَارِمِهِمْ وَيُعْطِيَ فَقِيرَهُمْ وَأَبَی أَنْ يَزِيدَهُمْ عَلَی ذَلِکَ-
ہارون بن عبد اللہ، عثمان بن عمر، یونس بن یزید، زہری، یزید بن ہرمز سے روایت ہے کہ نجدہ حروری (نامی شخص جو کہ خوارج کا سردار تھا) جس وقت وہ حضرت عبداللہ بن زبیر کے فتنہ میں نکلا تو حضرت ابن عباس کے پاس اس نے کہلوایا کہ ذوی القری کا حصہ کن لوگوں کو ملنا چاہیے؟ حضرت ابن عباس نے فرمایا وہ حصہ ہمارا ہے جو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے رشتہ داری رکھتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو ان ہی لوگوں میں تقسیم فرما دیا (یعنی قبیلہ بنوہاشم اور قبیلہ بنو مطلب میں) اور حضرت عمر نے ہم کو یہ دینا چاہا تھا کہ وہ ہم لوگوں کے حق سے کم دیتے تھے تو ہم نے وہ نہیں لیا انہوں نے کہا تھا کہ ہم رشتہ داری کرنے والے کی مدد کریں گے اور ان میں جو شخص مقروض ہوگا اس کا قرضہ ادا کریں گے اور جو غریب اور نادار ہوگا ہم اس کو دیں گے اور اس سے زیادہ دینے سے ان لوگوں نے انکار کر دیا۔
It was narrated that Al Awza’i said: “Umar bin ‘Abdul Aziz wrote a letter to ‘Umar bin Al-Walid in which he said: ‘The share that your father gave to you was the entire Khumus, but the share that your father is entitled to is the same as that of any man among the Muslims, on which is due the rights of Allah and His Messenger, and of relatives, orphans, the poor and wayfarers. How many will dispute with your father on the Day of Resurrection! How can he be saved who has so many disputants? And your openly allowing musical instruments and wind instruments is an innovation in Islam. I was thinking of sending someone to you who would cut off your evil long hair.” (Sahih).
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ قَالَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ وَهُوَ ابْنُ هَارُونَ قَالَ أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَقَ عَنْ الزُّهْرِيِّ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ عَنْ يَزِيدَ بْنِ هُرْمُزَ قَالَ کَتَبَ نَجْدَةُ إِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ يَسْأَلُهُ عَنْ سَهْمِ ذِي الْقُرْبَی لِمَنْ هُوَ قَالَ يَزِيدُ بْنُ هُرْمُزَ وَأَنَا کَتَبْتُ کِتَابَ ابْنِ عَبَّاسٍ إِلَی نَجْدَةَ کَتَبْتُ إِلَيْهِ کَتَبْتَ تَسْأَلُنِي عَنْ سَهْمِ ذِي الْقُرْبَی لِمَنْ هُوَ وَهُوَ لَنَا أَهْلَ الْبَيْتِ وَقَدْ کَانَ عُمَرُ دَعَانَا إِلَی أَنْ يُنْکِحَ مِنْهُ أَيِّمَنَا وَيُحْذِيَ مِنْهُ عَائِلَنَا وَيَقْضِيَ مِنْهُ عَنْ غَارِمِنَا فَأَبَيْنَا إِلَّا أَنْ يُسَلِّمَهُ لَنَا وَأَبَی ذَلِکَ فَتَرَکْنَاهُ عَلَيْهِ-
عمرو بن علی، یزید، ابن ہارون، محمد بن اسحاق ، زہری و محمد بن علی، یزید بن ہرمز سے روایت ہے کہ نجدہ حروری (نامی شخص) نے حضرت ابن عباس کی خدمت میں خط تحریر کیا کہ (مال غنیمت اور مال فء میں) حصہ کس کو ملنا چاہیے؟) میں نے حضرت ابن عباس کی طرف سے جواب لکھا کہ وہ حصہ ہم کو ملنا چاہیے جو کہ اہل بیعت میں سے ہیں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اور حضرت عمر نے ہم سے کہا تھا کہ میں اس حصہ میں نکاح کر دوں گا کہ جس کا نکاح نہیں ہوا اور جو شخص مقروض ہو تو اس کا قرض ادا کر دوں گا ہم نے کہا نہیں ہمارا حصہ ہم کو دے دو۔ انہوں نے نہیں مانا تو ہم نے ان پر ہی چھوڑ دیا۔
Saeed bin Al-Musayyab narrated that Jubair bin Mut’im told him: “He and ‘Uthman bin ‘Affan came to the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم to speak to him about what he had distributed of the Khumus of Hunain to Banu Hashim and Banu Al-Muttalib bin ‘Abd Manaf. They said: ‘Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم, you distributed it to our brothers; Banu Al-Muflalib bin ‘Abd Manaf, and you did not give us anything, and our relationship to you is the same as theirs.’ The Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم :. said to them: ‘I think that Hashim and AkMuttalib are the same.” Jubair bin Mut’im said: “The Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم did not allocate anything to Banu ‘Abd Shams or Banu Nawfal from that Khumus, as he allocated to Banu Hashim and Banu Al-Muttalib.” (Sahih)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَی قَالَ حَدَّثَنَا مَحْبُوبٌ يَعْنِي ابْنَ مُوسَی قَالَ أَنْبَأَنَا أَبُو إِسْحَقَ وَهُوَ الْفَزَارِيُّ عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ قَالَ کَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ إِلَی عُمَرَ بْنِ الْوَلِيدِ کِتَابًا فِيهِ وَقَسْمُ أَبِيکَ لَکَ الْخُمُسُ کُلُّهُ وَإِنَّمَا سَهْمُ أَبِيکَ کَسَهْمِ رَجُلٍ مِنْ الْمُسْلِمِينَ وَفِيهِ حَقُّ اللَّهِ وَحَقُّ الرَّسُولِ وَذِي الْقُرْبَی وَالْيَتَامَی وَالْمَسَاکِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَمَا أَکْثَرَ خُصَمَائَ أَبِيکَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَکَيْفَ يَنْجُو مَنْ کَثُرَتْ خُصَمَاؤُهُ وَإِظْهَارُکَ الْمَعَازِفَ وَالْمِزْمَارَ بِدْعَةٌ فِي الْإِسْلَامِ وَلَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ أَبْعَثَ إِلَيْکَ مَنْ يَجُزُّ جُمَّتَکَ جُمَّةَ السُّوئِ-
عمرو بن یحیی، محبوب، ابن موسی، ابواسحاق ، فزاری، اوزاعی سے روایت ہے کہ عمر بن عبد العزیز نے (جو کہ خلیفہ عادل تھے قبیلہ بنی اسید میں سے) عمر بن ولید کو خط لکھا کہ تمہارے والد ولید بن عبدالملک بن مروان کی تقسیم کے مطابق تو کل پانچواں حصہ تمہارا ہے لیکن درحقیت تمہارے والد کا حصہ ایک مسلمان کے برابر تھا اور پانچویں حصہ میں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ہر ذوی القربی اور یتامی اور مساکین اور مسافروں کا حق تھا تو تمہارے والد پر دعوی کرنے والے قیامت کے دن کتنے لوگ ہوں گے اور ایسے آدمی کی کس طریقہ سے نجات ہوگی کہ جس کے اس قدر تعداد میں دعوی دار ہوں اور تم نے جو باجے اور ستار نکالے ہیں وہ سب کے سب بدعت ہیں اور میں نے سوچا تھا کہ تمہارے پاس ایک ایسے شخص کو بھیجوں جو کہ تمہارے لمبے لمبے (بال) پکڑ کر کھینچے تاکہ تم ذلیل اور رسوا ہو جاؤ اور گمراہی سے باز رہو۔ (یہ جملے تنبیہ کہ طور پر فرمائے تھے)۔
It was narrated that Jubair bin Mut’im said: “When the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم distributed the share for his relatives to Banu Hashim and Banu Al-Muttalib, I came to him with ‘Uthman bin ‘Affan and we said: ‘Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم, no one denies the virtue of Banu Hashim because of the relationship between you and them. But how come you have given (a share) to Banu Al-Muttalib and not to us? They and we share the same degree of relationship to you.’ The Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘, said: ‘They did not abandon me during the JahilIyyah or in Islam. Banu Hashim and Banu Al-Muttalib are the same thing,’ and he interlaced his fingers.” (Sahih)
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْحَکَمِ قَالَ حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ يَحْيَی قَالَ حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ يَزِيدَ عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ أَنَّ جُبَيْرَ بْنَ مُطْعِمٍ حَدَّثَهُ أَنَّهُ جَائَ هُوَ وَعُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُکَلِّمَانِهِ فِيمَا قَسَمَ مِنْ خُمُسِ حُنَيْنٍ بَيْنَ بَنِي هَاشِمٍ وَبَنِي الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ مَنَافٍ فَقَالَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَسَمْتَ لِإِخْوَانِنَا بَنِي الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ مَنَافٍ وَلَمْ تُعْطِنَا شَيْئًا وَقَرَابَتُنَا مِثْلُ قَرَابَتِهِمْ فَقَالَ لَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا أَرَی هَاشِمًا وَالْمُطَّلِبَ شَيْئًا وَاحِدًا قَالَ جُبَيْرُ بْنُ مُطْعِمٍ وَلَمْ يَقْسِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِبَنِي عَبْدِ شَمْسٍ وَلَا لِبَنِي نَوْفَلٍ مِنْ ذَلِکَ الْخُمُسِ شَيْئًا کَمَا قَسَمَ لِبَنِي هَاشِمٍ وَبَنِي الْمُطَّلِبِ-
عبدالرحمن بن عبداللہ بن عبدالحکم، شعیب بن یحیی، نافع بن یزید، یونس بن یزید، ابن شہاب، سعید بن مسیب، جبیر بن مطعم سے روایت ہے کہ وہ اور حضرت عثمان خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوئے اور اس سلسلہ میں عرض کیا غزوہ حنین میں جو مال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تقسیم فرمایا تھا قبیلہ بنوہاشم اور قبیلہ بنو عبدالمطلب کو تقسیم کیا تھا (اس پر انہوں نے کہا) جو مال قبیلہ بنی مطلب کو دیا جو کہ ہمارے بھائی ہیں اور ہم کو کچھ نہیں عطاء فرمایا حالانکہ ہم لوگ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وہ ہی رشتہ داری رکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں تو قبیلہ بنوہاشم اور قبیلہ بنو مطلب کو ایک سمجھتا ہوں کیونکہ یہ دونوں کے دونوں الگ الگ نہیں ہوئے اور اسلام اور دور جاہلیت میں ایک ساتھ شامل رہے حضرت جبیر بن معطم نے کہا پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبیلہ بنو عبد شمس اور قبیلہ بنو نوفل کو پانچویں حصہ میں سے کچھ عطاء نہیں فرمایا جیسے کہ بنوہاشم اور نبی عبدالمطلب کو دیا۔
It was narrated that ‘Ubadah bin Al-Samit said: “On the day of Hunain the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم took a hair from the side of a camel and said: ‘you people, it is not permissible for me to take even the equivalent of this from the Fay’ that Allah has bestowed upon you, except the Khumus, and the Khumus will come back to you.” (Sa Abu ‘Abdur-Ral (An-Nasa’i) said: Abu Sallam’s name is Mamtftr and he is Ethiopian, and Abu Umamah’s name is SudaI bin ‘Ajlan.
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی قَالَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ قَالَ أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَقَ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ قَالَ لَمَّا قَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَهْمَ ذِي الْقُرْبَی بَيْنَ بَنِي هَاشِمٍ وَبَنِي الْمُطَّلِبِ أَتَيْتُهُ أَنَا وَعُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ هَؤُلَائِ بَنُو هَاشِمٍ لَا نُنْکِرُ فَضْلَهُمْ لِمَکَانِکَ الَّذِي جَعَلَکَ اللَّهُ بِهِ مِنْهُمْ أَرَأَيْتَ بَنِي الْمُطَّلِبِ أَعْطَيْتَهُمْ وَمَنَعْتَنَا فَإِنَّمَا نَحْنُ وَهُمْ مِنْکَ بِمَنْزِلَةٍ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّهُمْ لَمْ يُفَارِقُونِي فِي جَاهِلِيَّةٍ وَلَا إِسْلَامٍ إِنَّمَا بَنُو هَاشِمٍ وَبَنُو الْمُطَّلِبِ شَيْئٌ وَاحِدٌ وَشَبَّکَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ-
محمد بن مثنی، یزید بن ہارون، محمد بن اسحاق ، زہری، سعید بن مسیب، جبیر بن مطعم سے روایت ہے کہ جس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ذوی القربی کا حصہ بنی ہاشم اور نبی عبدالمطلب کو تقسیم کیا تو میں اور حضرت عثمان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! قبیلہ بنوہاشم کی فضیلت کا تو ہم لوگ انکار نہیں کر سکتے اس لیے کہ خداوند قدوس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان میں سے بنایا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبیلہ بنو عبدالمطلب کو تو عطاء فرمایا اور ہم کو نہیں دیا اور جب کہ ہم اور وہ لوگ برابر ہیں ایک درجہ کے اعتبار سے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا قبیلہ بنو عبدالمطلب مجھ سے الگ نہیں ہوئے نہ تو دور جاہلیت میں نہ ہی دور اسلام میں اور بنوہاشم اور بنو مطلب ایک ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انگلیاں ایک ہاتھ کی دوسرے ہاتھ کی انگلیوں کے اندر کیں یعنی اس طریقہ سے ملے ہوئے جس طریقہ سے کہ یہ انگلیاں (ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہیں)
It was narrated from ‘Amr bin Shuaib, from his father, from his grandfather, that the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم went to a camel, and took a hair from its hump between his fingers and said: “I am not entitled to take anything from the Fay’ not even this, except the Khumus, and the Khumus will come back to you.” (Sahih)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَی بْنِ الْحَارِثِ قَالَ حَدَّثَنَا مَحْبُوبٌ يَعْنِي ابْنَ مُوسَی قَالَ أَنْبَأَنَا أَبُو إِسْحَقَ وَهُوَ الْفَزَارِيُّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَيَّاشٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَی عَنْ مَکْحُولٍ عَنْ أَبِي سَلَّامٍ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ أَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ حُنَيْنٍ وَبَرَةً مِنْ جَنْبِ بَعِيرٍ فَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّهُ لَا يَحِلُّ لِي مِمَّا أَفَائَ اللَّهُ عَلَيْکُمْ قَدْرُ هَذِهِ إِلَّا الْخُمُسُ وَالْخُمُسُ مَرْدُودٌ عَلَيْکُمْ قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ اسْمُ أَبِي سَلَّامٍ مَمْطُورٌ وَهُوَ حَبَشِيٌّ وَاسْمُ أَبِي أُمَامَةَ صُدَيُّ بْنُ عَجْلَانَ وَاللَّهُ تَعَالَی أَعْلَمُ-
عمرو بن یحیی بن حارث، محبو ب، ابن موسی، ابواسحاق و فزاری، عبدالرحمن بن عیاش، سلیمان بن موسی، مکحول، ابوسلام، ابوامامة باہلی، عبادة بن صامت سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوہ حنین والے دن اونٹ کا ایک بال لے لیا اور فرمایا اے لوگو! میرے واسطے درست نہیں اس مال میں سے (کچھ لے لینا) جو کہ خداوند قدوس نے تم کو عطاء فرمایا اس بال کے برابر لیکن پانچواں حصہ اور وہ پانچواں حصہ بھی تم ہی لوگوں کو واپس کر دیا جاتا ہے اس لیے کہ اس میں یتامی مساکین اور مسافروں کی پرورش ہوتی ہے اور جو کام تمام اہل اسلام کے نفع کے واسطے ہوتے ہیں اس میں خرچ ہوتا ہے۔
It was narrated that ‘Umar said: “The wealth of Banu An NadIr was among the Fay’ that Allah bestowed upon His Messenger, in cases where the Muslims did not go out on an expedition with horses and camels. From it he kept for himself food for one year, and what was left he spent on cavalry and weapons, equipment for the cause of Allah.” (Sahih)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَزِيدَ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَی بَعِيرًا فَأَخَذَ مِنْ سَنَامِهِ وَبَرَةً بَيْنَ إِصْبَعَيْهِ ثُمَّ قَالَ إِنَّهُ لَيْسَ لِي مِنْ الْفَيْئِ شَيْئٌ وَلَا هَذِهِ إِلَّا الْخُمُسُ وَالْخُمُسُ مَرْدُودٌ فِيکُمْ-
عمرو بن یزید، ابن ابوعدی، حماد بن سلمہ، محمد بن اسحاق ، عمرو بن شعیب، حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک اونٹ کے پاس آئے اور اس کی کوہان میں سے ایک بال اپنی دو انگلیوں کے درمیان میں پکڑا پھر فرمایا میرے لیے فء میں سے اس قدر بھی نہیں ہے اور نہ مگر پانچواں حصہ وہ بھی تم کو ہی (واپس) دے دیا جاتا ہے۔
It was narrated from ‘Aishah that Fatimah sent word to Abu Bakr asking for her inheritance from the Prophet صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم from his charity and what was left of the Khumus of Khaibar. Abu Bakr said: “The Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم said: ‘We are not inherited from.” (Sahih)
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرٍو يَعْنِي ابْنَ دِينَارٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ مَالِکِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ عَنْ عُمَرَ قَالَ کَانَتْ أَمْوَالُ بَنِي النَّضِيرِ مِمَّا أَفَائَ اللَّهُ عَلَی رَسُولِهِ مِمَّا لَمْ يُوجِفْ الْمُسْلِمُونَ عَلَيْهِ بِخَيْلٍ وَلَا رِکَابٍ فَکَانَ يُنْفِقُ عَلَی نَفْسِهِ مِنْهَا قُوتَ سَنَةٍ وَمَا بَقِيَ جَعَلَهُ فِي الْکُرَاعِ وَالسِّلَاحِ عُدَّةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ-
عبیداللہ بن سعید، سفیان، عمرو یعنی ابن دینار، زہری، مالک بن اوس بن حدثان، عمر سے روایت ہے کہ قبیلہ بنو نضیر کے مال خداوند قدوس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فء کے طور سے دے دئیے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس میں سے ایک سال کا خرچہ حاصل فرماتے اور باقی گھوڑوں اور ہتھیاروں میں خرچہ فرماتے سامان جہاد میں سے۔
It was narrated that ‘Ata’ said concerning the saying of Allah, the Mighty and Sublime: “And know that whatever of spoils of war that you may gain, verily, (1/5th) of it is assigned to Allah, and to the Messenger. and to the near relatives (of the Messenger (Muhammad )‘“The Khumus (one—fifth) of Allah and of His Messenger is the same. The Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم used to provide mounts (for Jihad) with it. and give some (to the poor). and distribute it however he wanted. and do with it whatever he wanted. (Hasan)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَی بْنِ الْحَارِثِ قَالَ حَدَّثَنَا مَحْبُوبٌ يَعْنِي ابْنَ مُوسَی قَالَ أَنْبَأَنَا أَبُو إِسْحَقَ هُوَ الْفَزَارِيُّ عَنْ شُعَيْبِ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ فَاطِمَةَ أَرْسَلَتْ إِلَی أَبِي بَکْرٍ تَسْأَلُهُ مِيرَاثَهَا مِنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ صَدَقَتِهِ وَمِمَّا تَرَکَ مِنْ خُمُسِ خَيْبَرَ قَالَ أَبُو بَکْرٍ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا نُورَثُ-
عمرو بن یحیی بن حارث، محبوب یعنی ابن موسی، ابواسحاق ، فزاری، شعیب بن ابوحمزة، زہری، عروة بن زبیر، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ حضرت فاطمہ نے حضرت ابوبکر صدیق کی خدمت میں کسی کو بھیجا اپنا ترکہ مانگنے کے واسطے جو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صدقہ کا اور خیبر کے مال کا پانچواں حصہ چھوڑا تھا۔ حضرت ابوبکر نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہمارے ترکہ کا کوئی وارث نہیں ہے بلکہ ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے اور اسی حدیث کے بموجب حضرت ابوبکر نے اپنی لڑکی حضرت عائشہ صدیقہ کا ترکہ بھی نہیں دیا بلکہ جس طریقہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیویوں اور کنبہ کے لوگوں کو دیا کرتے تھے اسی طریقہ سے دیتے رہے۔
It was narrated that Qais bin Muslim said: ‘I asked Al-Hasan bin Muhammad about the saying of Allah, the Mighty and Sublime: ‘And know that whatever of spoils of war that you may gain, verily, one-fifth of it is assigned to Alah.’ He said: ‘This is the key to the Speech of Allah. This world and the Hereafter belong to Allah.’ He said: ‘They differed concerning these two shares after the death of the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم the share of the Messenger and the share of the near relatives (of the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ). Some said that the share of the near relatives was for the relatives of the Messenger , and some said that the share of the near relatives was for the relatives of the KhalIfah. Then they agreed that these two shares should be spent on horses and equipment in the cause of Allah, and they were allocated for this purpose during the Khilafah of Abu Bakr and ‘Umar.” (Sahih)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَی قَالَ حَدَّثَنَا مَحْبُوبٌ قَالَ أَنْبَأَنَا أَبُو إِسْحَقَ عَنْ زَائِدَةَ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ عَنْ عَطَائٍ فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْئٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَی قَالَ خُمُسُ اللَّهِ وَخُمُسُ رَسُولِهِ وَاحِدٌ کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْمِلُ مِنْهُ وَيُعْطِي مِنْهُ وَيَضَعُهُ حَيْثُ شَائَ وَيَصْنَعُ بِهِ مَا شَائَ-
عمرو بن یحیی، محبو ب، ابواسحاق ، زائدة، عبدالملک بن ابوسلیمان، عطاء سے روایت ہے کہ جو کچھ خداوند قدوس نے ارشاد فرمایا تم جو مال غنیمت حاصل کرو اس کا پانچواں حصہ اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ذوی القربی کا تو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک ہی حصہ تھا یعنی اللہ کے واسطے الگ کوئی حصہ نہیں تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس حصہ میں سے لوگوں کو سواریاں دیتے نقد دیتے اور جس جگہ چاہے صرف اور خرچہ فرماتے اور جو دل چاہتا خرچ فرماتے۔
It was narrated that Musa bin Abi ‘Aishah said: “I asked Yal bin Al-Jazzar about this Verse: And know that whatever of spoils of war that you may gain, verily, one-fifth of it is assigned to Allah, and to the Messenger” He said: “I said: ‘How much of the Khumus did the Prophet صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم take?’ He said: ‘One-fifth of the Khumus.” (Sahih)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَی بْنِ الْحَارِثِ قَالَ حَدَّثَنَا مَحْبُوبٌ يَعْنِي ابْنَ مُوسَی قَالَ أَنْبَأَنَا أَبُو إِسْحَقَ هُوَ الْفَزَارِيُّ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ قَالَ سَأَلْتُ الْحَسَنَ بْنَ مُحَمَّدٍ عَنْ قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْئٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ قَالَ هَذَا مَفَاتِحُ کَلَامِ اللَّهِ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةُ لِلَّهِ قَالَ اخْتَلَفُوا فِي هَذَيْنِ السَّهْمَيْنِ بَعْدَ وَفَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَهْمِ الرَّسُولِ وَسَهْمِ ذِي الْقُرْبَی فَقَالَ قَائِلٌ سَهْمُ الرَّسُولِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْخَلِيفَةِ مِنْ بَعْدِهِ وَقَالَ قَائِلٌ سَهْمُ ذِي الْقُرْبَی لِقَرَابَةِ الرَّسُولِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ قَائِلٌ سَهْمُ ذِي الْقُرْبَی لِقَرَابَةِ الْخَلِيفَةِ فَاجْتَمَعَ رَأْيُهُمْ عَلَی أَنْ جَعَلُوا هَذَيْنِ السَّهْمَيْنِ فِي الْخَيْلِ وَالْعُدَّةِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَکَانَا فِي ذَلِکَ خِلَافَةَ أَبِي بَکْرٍ وَعُمَرَ-
عمرو بن یحیی بن حارث، محبوب، یعنی ابن موسی، ابواسحاق ، فزاری، سفیان، قیس بن مسلم سے روایت ہے کہ میں نے حضرت حسن بن محمد سے اس آیت کریمہ سے متعلق دریافت کیا (وَاعْلَمُوْ ا اَنَّ مَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَاَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَه ) 8۔ الانفال : 41) تو انہوں نے فرمایا یہ تو خداوند قدوس کے کلام کا آغاز ہے جس طریقہ سے کہتے ہیں دنیا اور آخرت خداوند قدوس کے واسطے ہے لیکن اختلاف ہے لوگوں نے دو حصوں میں ایک تو رسول کے حصہ میں اور دوسرے ذوی القربی کے حصہ میں۔ بعض حضرات نے فرمایا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حصہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلیفہ کو ملنا چاہیے اور بعض حضرات نے فرمایا ذوی القربی کا حصہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رشتہ داروں کو ملنا چاہیے (جس طریقہ سے کہ پہلے ملا کرتا تھا) اور بعض حضرات نے فرمایا نہیں اب خلیفہ کے رشتہ داروں کو وہ حصہ ملنا چاہیے پھر آخر کار تمام حضرات کی رائے اس بات پر طے ہوگئی کہ ان دونوں حصوں کو گھوڑوں اور سامان جہاد میں خرچ کرنا چاہیے وہ اسی طریقہ سے خرچ ہوتا رہا۔ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر فاروق کے دور میں۔
It was narrated that Mutarrif said: “Ash-Sha’bi was asked about the share of the Prophet صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم and what he chose for himself. He said: ‘The share of the Prophet صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم was like the share of any Muslim man, and what he chose for himself was Something precious; he chose whatever he wanted to.” (Da’if)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَی بْنِ الْحَارِثِ قَالَ حَدَّثَنَا مَحْبُوبٌ قَالَ أَنْبَأَنَا أَبُو إِسْحَقَ عَنْ مُوسَی بْنِ أَبِي عَائِشَةَ قَالَ سَأَلْتُ يَحْيَی بْنَ الْجَزَّارِ عَنْ هَذِهِ الْآيَةِ وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْئٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ قَالَ قُلْتُ کَمْ کَانَ لِلنَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْخُمُسِ قَالَ خُمُسُ الْخُمُسِ-
عمرو بن یحیی بن حارث، محبوب، ابواسحاق، موسیٰ بن ابی عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت یحیی بن جزا سے دریافت کیا آیت کریمہ (وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْئٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ) 8۔ الانفال : 41) بارے میں تو میں نے عرض کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کس قدر حصہ تھا انہوں نے کہا پانچواں حصہ کا یعنی کل مال کا بیسواں حصہ۔
It was narrated that Yazid bin Ash-Shikhkhir said: “While I was with Mutarrif in Al-Mirbad. a man came in carrying a piece of leather and said: ‘This was written to me by the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم. Is there anyone among you who can read?’ I said: I can read.’ And it was (a letter) from Muhammad the Prophet صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم to Banu Zuhair bin Uqaish. who had testified to La ilaha illallah, and that Muhammad is the Messenger of Allah and had left the idolaters. and had agreed to give the khumus from their spoils of war, and the share of the Prophet صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم - and whatever he chose for himself, so they became safe and secure by the covenant of Allah and His Messenger.” (Sahih).
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَی بْنِ الْحَارِثِ قَالَ حَدَّثَنَا مَحْبُوبٌ قَالَ أَنْبَأَنَا أَبُو إِسْحَقَ عَنْ مُطَرِّفٍ قَالَ سُئِلَ الشَّعْبِيُّ عَنْ سَهْمِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَفِيِّهِ فَقَالَ أَمَّا سَهْمُ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَکَسَهْمِ رَجُلٍ مِنْ الْمُسْلِمِينَ وَأَمَّا سَهْمُ الصَّفِيِّ فَغُرَّةٌ تُخْتَارُ مِنْ أَيِّ شَيْئٍ شَائَ-
عمرو بن یحیی بن حارث، محبوب، ابواسحاق ، مطرف سے روایت ہے کہ حضرت شعبہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حصہ کے متعلق دریافت کیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صفی سے متعلق دریافت کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حصہ تو ایک مومن کے حصہ کے بقدر ہی تھا اور صفی کے واسطے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اختیار تھا کہ جو چیز پسند آئے وہ حاصل فرما لیں۔
It was narrated that Mujahid said: “The Khumus that is for Allah and His Messenger was for the Prophet صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم and His relatives; they did not take anything from the Sadaqah. The Prophet صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم was allocated one-fifth of the Khumus; his relatives were allocated one- fifth of the Khumus; the same was allocated to orphans, the poor and the wayfarers.” (Da‘if) Abu ‘Abdur-Rahman (An-Nasa’i) said: Allah, the Majestic is He and praised, said: “And know that whatever of spoils of war that you may gain, verily, one-fifth of it is assigned to Allah, and to the Messenger, and to the near relatives (of the Messenger (Muhammad)), (and also) the orphans, Al-Masakin (the poor) and the wayfarer.”W His, the Mighty and Sublime, saying to Allah starts the speech since everything is of Allah, the Mighty and Sublime. And perhaps He only opened His speech about the Fay’ and the Khumus, mentioning Himself, because that is the noblest of earnings. And He did not attribute Sadaqah to Himself, the Mighty and Sublime, because that is the dirt of people. And Allah knows best. It was said that something should be taken from the spoils of war and placed inside the Ka’bah, and this is the share that is for Allah, the Mighty and Sublime. The share of the Messenger is to be given to the imdm to buy horses and weapons, and to give to whomever he thinks will benefit the people of Islam, and to the people of Hadith, knowledge, Fiqh and the Qur’an. The share that is for near relatives should be given to Banu Hashim and Banu Al-Muttalib, rich and poor alike, or it was said that it should be given to the poor among them and not to the rich, such as orphans and wayfarers. This is the view that is more appropriate in my view, and Allah knows best. And the young and the old, male and female, are equal in that, because Allah, the Mighty and Sublime, has allocated it to them and the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم distributed it among them, and there is nothing in the Hadith to indicate that he preferred some of them over others. And there is no scholarly dispute, as far as we know, to suggest that if a man bequeaths one-third of his wealth to such and such a tribe, to be distributed out among them equally, that it should be done otherwise, unless the giver stipulated otherwise. Arid Allah is the source of strength. And (there is) a share for the orphans among the Muslims, and a share for the poor among the Muslims, and a share for the wayfarers among the Muslims. No one should be given both a share for the poor and a share for the wayfarer; it is to be said to him: “Take whichever of them you want.” And the other four-fifths are to be divided by the irnain among those adult Muslims who were present in the battle. (Da’if)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَی قَالَ حَدَّثَنَا مَحْبُوبٌ قَالَ أَنْبَأَنَا أَبُو إِسْحَقَ عَنْ سَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ عَنْ يَزِيدَ بْنِ الشِّخِّيرِ قَالَ بَيْنَا أَنَا مَعَ مُطَرِّفٍ بِالْمِرْبَدِ إِذْ دَخَلَ رَجُلٌ مَعَهُ قِطْعَةُ أَدَمٍ قَالَ کَتَبَ لِي هَذِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَهَلْ أَحَدٌ مِنْکُمْ يَقْرَأُ قَالَ قُلْتُ أَنَا أَقْرَأُ فَإِذَا فِيهَا مِنْ مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِبَنِي زُهَيْرِ بْنِ أُقَيْشٍ أَنَّهُمْ إِنْ شَهِدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ وَفَارَقُوا الْمُشْرِکِينَ وَأَقَرُّوا بِالْخُمُسِ فِي غَنَائِمِهِمْ وَسَهْمِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَفِيِّهِ فَإِنَّهُمْ آمِنُونَ بِأَمَانِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ-
عمرو بن یحیی، محبو ب، ابواسحاق ، سعید جریری، یزید بن شخیر سے روایت ہے کہ میں (مقام مربد سے) حضرت مطرف کے ساتھ تھا کہ اس دوران ایک شخص چمڑے کا ایک ٹکڑا لے کر حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا یہ ٹکڑا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے واسطے لکھ دیا ہے (اور مجھ کو دے دیا ہے) تم میں سے کوئی شخص اس تحریر کو پڑھ سکتا ہے؟ میں نے عرض کیا جی ہاں یہ تحریر میں پڑھ سکتا ہوں اس میں تحریر تھا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیغمبر کی جانب سے قبیلہ بنو زہیر بن اقیس کے لوگوں کو معلوم ہو کہ وہ گواہی دیں گے اس بات کی کہ خدا کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بھیجے ہوئے ہیں اور وہ اقرار کریں گے مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ اور پیغمبر کے حصہ اور صفی دینے کا تو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہ لوگ حفاظت میں رہیں گے۔
It was narrated that Malik bin Aws bin Al-Hadathan said: “Al-’Abbas and ‘Ali came to ‘Umar with a dispute. Al-’Abbas said: ‘Pass judgment between him and I.’ The people said: ‘Pass judgment between them.’ ‘Umar said: ‘I will not pass judgment between them. They know that the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم said: We are not inherited from, what we leave behind is charity. He said: And (in his narration of it) Az-Zuhri said: ‘It (the Khumus) was under the control of the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم and he took provision for himself and for his family from it…………(incomplete)……???…..do not have to worry about it.’ Then he said: ‘And know that whatever of spoils of war that you may gain, verily, one-fifth of it is assigned to Allah, and to the Messenger, and to the near relatives (of the Messenger (Muhammad)), (and also) the orphans, Al-MasakIn (the poor) and the wayfarer’ (Al-Anfál :) — this is for them. ‘As-Sadaqat (here it means Zakah) are only for the Fuqará’ (poor), and Al-MasakIn (the poor) and those employed to collect (the funds); and to attract the hearts of those who have been inclined (toward Islam); and to free the captives; and for those in debt; and for Allah’s cause (i.e. for MujahidC,n — those fighting in a holy battle)’ — this is for them. ‘And what Allah gave as booty (Fay’) to His Messenger (Muhammad) from them — for this you made no expedition with either cavalry or cames.’ Az Zuhri said: This applies exclusively to the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم and refers to an ‘Arab village called Fadak, and so on. What Allah gave as booty (Fay’) to His Messenger (Muhammad) from the people of the townships — it is for Allah, His Messenger (Muhammad), the kindred (of Messenger Muhammad), the orphans, Al MasakIn (the poor), and the wayfarer (And there is also a share in this booty) for the poor emigrants, who were expelled from their homes and their property And (it is also for) those who, before them, had homes (in Al Madinah) and had adopted the Faith And those who came after them These Verses apply to all the people. There is no one left among the Muslims but he has some right to this wealth, except for some of the slaves whom you own. If I live, if Allah wills, I will give every Muslim his right.” Or he said: “His share.” (Sahih)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَی بْنِ الْحَارِثِ قَالَ أَنْبَأَنَا مَحْبُوبٌ قَالَ أَنْبَأَنَا أَبُو إِسْحَقَ عَنْ شَرِيکٍ عَنْ خُصَيْفٍ عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ الْخُمُسُ الَّذِي لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ کَانَ لِلنَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَرَابَتِهِ لَا يَأْکُلُونَ مِنْ الصَّدَقَةِ شَيْئًا فَکَانَ لِلنَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خُمُسُ الْخُمُسِ وَلِذِي قَرَابَتِهِ خُمُسُ الْخُمُسِ وَلِلْيَتَامَی مِثْلُ ذَلِکَ وَلِلْمَسَاکِينِ مِثْلُ ذَلِکَ وَلِابْنِ السَّبِيلِ مِثْلُ ذَلِکَ قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ قَالَ اللَّهُ جَلَّ ثَنَاؤُهُ وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْئٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَی وَالْيَتَامَی وَالْمَسَاکِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَقَوْلُهُ عَزَّ وَجَلَّ لِلَّهِ ابْتِدَائُ کَلَامٍ لِأَنَّ الْأَشْيَائَ کُلَّهَا لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَلَعَلَّهُ إِنَّمَا اسْتَفْتَحَ الْکَلَامَ فِي الْفَيْئِ وَالْخُمُسِ بِذِکْرِ نَفْسِهِ لِأَنَّهَا أَشْرَفُ الْکَسْبِ وَلَمْ يَنْسِبْ الصَّدَقَةَ إِلَی نَفْسِهِ عَزَّ وَجَلَّ لِأَنَّهَا أَوْسَاخُ النَّاسِ وَاللَّهُ تَعَالَی أَعْلَمُ وَقَدْ قِيلَ يُؤْخَذُ مِنْ الْغَنِيمَةِ شَيْئٌ فَيُجْعَلُ فِي الْکَعْبَةِ وَهُوَ السَّهْمُ الَّذِي لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَسَهْمُ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَی الْإِمَامِ يَشْتَرِي الْکُرَاعَ مِنْهُ وَالسِّلَاحَ وَيُعْطِي مِنْهُ مَنْ رَأَی مِمَّنْ رَأَی فِيهِ غَنَائً وَمَنْفَعَةً لِأَهْلِ الْإِسْلَامِ وَمِنْ أَهْلِ الْحَدِيثِ وَالْعِلْمِ وَالْفِقْهِ وَالْقُرْآنِ وَسَهْمٌ لِذِي الْقُرْبَی وَهُمْ بَنُو هَاشِمٍ وَبَنُو الْمُطَّلِبِ بَيْنَهُمْ الْغَنِيُّ مِنْهُمْ وَالْفَقِيرُ وَقَدْ قِيلَ إِنَّهُ لِلْفَقِيرِ مِنْهُمْ دُونَ الْغَنِيِّ کَالْيَتَامَی وَابْنِ السَّبِيلِ وَهُوَ أَشْبَهُ الْقَوْلَيْنِ بِالصَّوَابِ عِنْدِي وَاللَّهُ تَعَالَی أَعْلَمُ وَالصَّغِيرُ وَالْکَبِيرُ وَالذَّکَرُ وَالْأُنْثَی سَوَائٌ لِأَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ جَعَلَ ذَلِکَ لَهُمْ وَقَسَّمَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِمْ وَلَيْسَ فِي الْحَدِيثِ أَنَّهُ فَضَّلَ بَعْضَهُمْ عَلَی بَعْضٍ وَلَا خِلَافَ نَعْلَمُهُ بَيْنَ الْعُلَمَائِ فِي رَجُلٍ لَوْ أَوْصَی بِثُلُثِهِ لِبَنِي فُلَانٍ أَنَّهُ بَيْنَهُمْ وَأَنَّ الذَّکَرَ وَالْأُنْثَی فِيهِ سَوَائٌ إِذَا کَانُوا يُحْصَوْنَ فَهَکَذَا کُلُّ شَيْئٍ صُيِّرَ لِبَنِي فُلَانٍ أَنَّهُ بَيْنَهُمْ بِالسَّوِيَّةِ إِلَّا أَنْ يُبَيِّنَ ذَلِکَ الْآمِرُ بِهِ وَاللَّهُ وَلِيُّ التَّوْفِيقِ وَسَهْمٌ لِلْيَتَامَی مِنْ الْمُسْلِمِينَ وَسَهْمٌ لِلْمَسَاکِينِ مِنْ الْمُسْلِمِينَ وَسَهْمٌ لِابْنِ السَّبِيلِ مِنْ الْمُسْلِمِينَ وَلَا يُعْطَی أَحَدٌ مِنْهُمْ سَهْمُ مِسْکِينٍ وَسَهْمُ ابْنِ السَّبِيلِ وَقِيلَ لَهُ خُذْ أَيَّهُمَا شِئْتَ وَالْأَرْبَعَةُ أَخْمَاسٍ يَقْسِمُهَا الْإِمَامُ بَيْنَ مَنْ حَضَرَ الْقِتَالَ مِنْ الْمُسْلِمِينَ الْبَالِغِينَ-
عمرو بن یحیی بن حارث، محبوب، ابواسحاق ، شریک، خصیف، مجاہد سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا قرآن کریم میں جو خمس اللہ اور رسول دونوں کے واسطے مذکور ہے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطے تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رشتہ داروں کے واسطے مذکور ہے کیونکہ ان کو صدقہ میں سے کچھ لے لینا درست نہیں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا صدقہ تو لوگوں کا میل کچیل ہے وہ قبیلہ بنوہاشم کے واسطے مناسب نہیں ہے اور اس کے شایان شان نہیں ہے (کیونکہ بنی ہاشم سب سے افضل اور اعلی خاندان ہے) پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس پانچواں حصہ میں سے پانچواں حصہ لیتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رشتہ دار پانچواں حصہ لیتے اور یتیم اسی قدر لیتے تھے مسافر بھی اسی مقدار میں لے لیتے تھے اور مساکین بھی اسی مقدار میں لے لیتے تھے۔ جن کے پاس سواری نہ ہوتی یا راستہ کا خرچہ نہ ہوتا حضرت امام نسائی نے فرمایا یہ جو اللہ نے شروع فرمایا اپنے نام سے (فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ۔ الخ) یہ ابتداء کلام ہے اس وجہ سے کہ تمام چیزیں اللہ ہی کے لیے ہیں اور فء اور خمس میں اللہ نے اپنے نام پر شروع کیا اس لیے کہ یہ دونوں عمدہ آمدن ہیں اور صدقہ میں اپنے نام سے شروع نہیں فرمایا بلکہ اس طریقہ سے فرمایا (اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلفُقَرَآءِ) آخر تک کیونکہ صدقہ لوگوں کا میل کچیل ہے اور بعض نے کہا کہ مال غنیمت میں سے کچھ لے کر خانہ کعبہ میں رکھ دیتے ہیں اور وہ ہی حصہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حصہ امام کو ملے گا وہ اس میں گھوڑے اور ہتھیار خریدے گا اور جس کو مناسب سمجھے گا دے دے گا جس سے مسلمانوں کو نفع ہو اور حضرات اہل حدیث اور اہل علم اور فقہاء کرام اور قرآن کریم کے قاریوں کو دے گا اور رشتہ داروں کا حصہ قبیلہ نبی ہاشم اور بنی مطلب کو ملے گا چاہے وہ مال دار ہوں چاہے محتاج ہوں بعض نے کہا کہ جو ان میں محتاج ہوں ان کو ملے گا اور یہ قول زیادہ ٹھیک معلوم ہوتا ہے لیکن چھوٹے اور بڑے اور مرد و عورت تمام کے تمام حصہ میں برابر ہیں (یعنی مال غنیمت میں عورت اور مرد اور بالغ نابالغ کی قید نہیں ہے سب کا سب برابر ہے)۔ کیونکہ اللہ عزوجل نے یہ مال ان کو دلایا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو تقسیم فرمایا اور حدیث شریف میں یہ نہیں ہے کہ حضرت نے بعض حضرات کو زیادہ دلایا ہو اور بعض کو کم اور ہم اس مسئلہ میں علماء کرام کا اختلاف نہیں سمجھتے کہ اگر کسی شخص نے اپنے تہائی مال کی وصیت کی کسی کی اولاد کے واسطے تو وہ تمام اولاد کو برابر برابر ملے گا چاہے مرد ہوں چاہے عورت جب ان کا شمار ہو سکے اس طرح جو چیز کسی کی اولاد کو دلائی جائے تو اس میں تمام کے تمام برابر ہوں گے لیکن جس صورت میں دلانے والا واضح کر دے فلاں کو اس قدر اور فلاں کو اس قدر مال ملے گا تو اس کے کہنے کے مطابق دیا جائے گا اور یتامی کا حصہ ان یتامی کو دلایا جائے گا جو کہ مسلمان ہیں اسی طریقہ سے جو مسکین اور مسافر مسلمان ہیں اور کسی کو دو حصہ نہ دیئے جائیں گے یعنی مسکین اور مسافر دونوں کو اختیار دیا جائے گا کہ وہ مسکین کا حصہ لیں یا مسافر کا اب باقی چار خمس مال غنیمت میں سے تو وہ امام تقسیم کرے گا ان مسلمانوں کو جو کہ بالغ ہیں اور جہاد میں شریک ہوئے تھے۔
It was narrated that ‘Ubadah bin As-Samit said: “We pledged to the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم to hear and obey, both in times of ease and hardship, when we felt energetic and when we felt tired, that we would not contend with the orders of whomever was entrusted with it, that we would stand firm in the way of truth wherever we may be, and that we would not fear the blame of the blamers.” (Sahih)
أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ يَعْنِي ابْنَ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ عِکْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ عَنْ مَالِکِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ قَالَ جَائَ الْعَبَّاسُ وَعَلِيٌّ إِلَی عُمَرَ يَخْتَصِمَانِ فَقَالَ الْعَبَّاسُ اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ هَذَا فَقَالَ النَّاسُ افْصِلْ بَيْنَهُمَا فَقَالَ عُمَرُ لَا أَفْصِلُ بَيْنَهُمَا قَدْ عَلِمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا نُورَثُ مَا تَرَکْنَا صَدَقَةٌ قَالَ فَقَالَ الزُّهْرِيُّ وَلِيَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخَذَ مِنْهَا قُوتَ أَهْلِهِ وَجَعَلَ سَائِرَهُ سَبِيلَهُ سَبِيلَ الْمَالِ ثُمَّ وَلِيَهَا أَبُو بَکْرٍ بَعْدَهُ ثُمَّ وُلِّيتُهَا بَعْدَ أَبِي بَکْرٍ فَصَنَعْتَ فِيهَا الَّذِي کَانَ يَصْنَعُ ثُمَّ أَتَيَانِي فَسَأَلَانِي أَنْ أَدْفَعَهَا إِلَيْهِمَا عَلَی أَنْ يَلِيَاهَا بِالَّذِي وَلِيَهَا بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالَّذِي وَلِيَهَا بِهِ أَبُو بَکْرٍ وَالَّذِي وُلِّيتُهَا بِهِ فَدَفَعْتُهَا إِلَيْهِمَا وَأَخَذْتُ عَلَی ذَلِکَ عُهُودَهُمَا ثُمَّ أَتَيَانِي يَقُولُ هَذَا اقْسِمْ لِي بِنَصِيبِي مِنْ ابْنِ أَخِي وَيَقُولُ هَذَا اقْسِمْ لِي بِنَصِيبِي مِنْ امْرَأَتِي وَإِنْ شَائَا أَنْ أَدْفَعَهَا إِلَيْهِمَا عَلَی أَنْ يَلِيَاهَا بِالَّذِي وَلِيَهَا بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالَّذِي وَلِيَهَا بِهِ أَبُو بَکْرٍ وَالَّذِي وُلِّيتُهَا بِهِ دَفَعْتُهَا إِلَيْهِمَا وَإِنْ أَبَيَا کُفِيَا ذَلِکَ ثُمَّ قَالَ وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْئٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَی وَالْيَتَامَی وَالْمَسَاکِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ هَذَا لِهَؤُلَائِ إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَائِ وَالْمَسَاکِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ هَذِهِ لِهَؤُلَائِ وَمَا أَفَائَ اللَّهُ عَلَی رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِکَابٍ قَالَ الزُّهْرِيُّ هَذِهِ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاصَّةً قُرًی عَرَبِيَّةً فَدْکُ کَذَا وَکَذَا فَ مَا أَفَائَ اللَّهُ عَلَی رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَی فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَی وَالْيَتَامَی وَالْمَسَاکِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَ لِلْفُقَرَائِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ وَالَّذِينَ تَبَوَّئُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَالَّذِينَ جَائُوا مِنْ بَعْدِهِمْ فَاسْتَوْعَبَتْ هَذِهِ الْآيَةُ النَّاسَ فَلَمْ يَبْقَ أَحَدٌ مِنْ الْمُسْلِمِينَ إِلَّا لَهُ فِي هَذَا الْمَالِ حَقٌّ أَوْ قَالَ حَظٌّ إِلَّا بَعْضَ مَنْ تَمْلِکُونَ مِنْ أَرِقَّائِکُمْ وَلَئِنْ عِشْتُ إِنْ شَائَ اللَّهُ لَيَأْتِيَنَّ عَلَی کُلِّ مُسْلِمٍ حَقُّهُ أَوْ قَالَ حَظُّهُ-
علی بن حجر، اسماعیل یعنی ابن ابراہیم، ایوب، عکرمة بن خالد، مالک بن اوس بن حدثان سے روایت ہے کہ حضرت عباس اور حضرت علی دونوں حضرات جھگڑا کرتے ہوئے (یعنی اختلاف کرتے ہوئے آئے) اس مال کے سلسلہ میں جو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تھا جیسے کہ فدک اور قبیلہ بنو نضیر اور غزوہ خیبر کا خمس کہ جس کو حضرت عمر نے اپنی خلافت میں اب دونوں حضرات کو سپرد کر دیا تھا۔ حضرت ابن عباس نے کہا کہ میرا اور ان کا فیصلہ فرما دیں۔ حضرت عمر نے فرمایا میں کبھی فیصلہ نہیں کروں گا (یعنی اس مال کو میں تقسیم نہیں کروں گا) اس لیے کہ دونوں کو معلوم ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہمارا ترکہ کسی کو نہیں ملتا اور ہم لوگ جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے البتہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مال کے متولی رہے اور اس میں سے اپنے گھر کے خرچ کے مطابق لے لیتے اور باقی راہ خدا میں خرچ کرتے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر اس کے متولی رہے پھر حضرت ابوبکر کے بعد میں اس کا متولی رہا۔ میں نے بھی اسی طریقہ سے کیا کہ جس طریقہ سے حضرت ابوبکر کرتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر کے لوگوں کو خرچہ کے مطابق دے دیا کرتے تھے اور باقی بیت المال میں جمع فرماتے پھر یہ دونوں (یعنی حضرت عباس اور حضرت علی) میرے پاس آئے اور مجھ سے کہا کہ وہ مال ہمارے حوالے فرما دیں ہم اس میں سے اسی طریقہ سے عمل کریں گے کہ جس طریقہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (اور حضرت ابوبکر صدیق) عمل فرماتے تھے اور جس طریقہ سے تم عمل کرتے رہے میں نے وہ مال دونوں کے سپرد کر دیا اور دونوں سے اقرار لے لیا اب یہ دونوں پھر واپس آگئے ہیں ایک کہتا ہے میرا حصہ میرے بھتیجے سے واپس دلا (یعنی حضرت عباس سے کیونکہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا تھے) اور دوسرا شخص کہتا ہے کہ میرا حصہ میری اہلیہ کی جانب سے دلا (یعنی حضرت علی کیونکہ وہ شوہر تھے حضرت فاطمہ کے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محترم صاحب زادی تھیں) اگر ان کو منظور ہو تو وہ مال میں ان کے سپرد کرتا ہوں اس شرط پر کہ اس طرح سے عمل فرمائیں کہ جس طریقہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عمل فرماتے تھے اور ان کے بعد حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایا ہے اور ان کے بعد میں نے یہ کیا ہے اور جو ان کو منظور نہ ہو تو وہ اپنے گھر بیٹھ جائیں (اور جو مال ہے وہ ہمارے پاس ہی رہے گا) پھر حضرت عمر نے فرمایا قرآن کریم میں دیکھو کہ خداوند قدوس مال غنیمت سے متعلق فرماتا ہے کہ اس میں سے خمس خداوند قدوس اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور رشتہ داروں اور یتامی مساکین اور عاملین اور مسافروں کا ہے اور صدقات کے بارے میں فرماتا ہے کہ وہ فقراء اور مساکین اور عاملین اور مؤلفة قلوب اور غلاموں اور قرض داروں اور مجاہدین کے واسطے ہیں اور اس مال کو بھی حضرت نے صدقہ و خیرات فرمایا تو اس میں بھی فقراء و مساکین اور تمام اہل اسلام کا حق ہوگا اور اس میں کچھ مال غنیمت ہے اس میں بھی اس سب کا حق ہے پھر ارشاد خداوندی ہے کہ اللہ نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو مال عطاء فرمایا اور (تم نے اس کے حاصل کرنے میں) اپنے گھوڑے اور سواریاں نہیں دوڑائیں (یعنی جنگ اور قتل و قتال کے بغیر جو مال ہاتھ آگیا) راوی زہری نے نقل فرمایا البتہ یہ مال خاص رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہے اور وہ چند گاؤں عربیہ یا عرینہ کے اور فدک اور فلاں اور فلاں مگر اس مال کے حق میں بھی خداوند قدوس کا ارشاد ہے کہ جو اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عنائت فرمایا گاؤں والوں سے وہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہے اور رشتہ داروں کا اور یتامی اور مساکین کا اور مسافروں کا ہے پھر ارشاد فرمایا ہے کہ ان فقراء کا بھی اس میں حق ہے جو کہ اپنے مکان چھوڑ کر آئے اور اپنے مکانات سے نکال دئیے گئے اور اپنے مالوں سے محروم کر دیئے گئے پھر ارشاد فرمایا ہے کہ ان کا بھی حق ہے کہ ان سے پہلے دارالسلام میں آچکے تھے اور ایمان لا چکے تھے پھر ارشاد ہے کہ ان کا بھی حق ہے کہ جو کہ ان لوگوں کے بعد مسلمان ہو کر آئے تو اس آیت کریمہ نے تمام مسلمانوں کو احاطہ کر لیا اب کوئی مسلمان باقی نہیں رہا ہے کہ جس کا حق اس مال میں نہ ہو یا اس کا کچھ حصہ نہ ہوالبتہ تم لوگوں کے بعض اور باندی ہی رہ گئے ان کا حصہ اس مال میں نہیں ہے (وہ محروم ہیں) اور میں زندہ رہوں گا تو البتہ خدا چاہے تو ہر ایک مسلمان کو اس میں سے کچھ نہ کچھ حق یا حصہ ملے گا۔
It was narrated that ‘Ubadah bin As-Samit said: “We pledged to the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم, to hear and obey, both in times of hardship and ease.” And he mentioned similarly. (Sahih)