مسافر مغرب کی نماز اور نماز عشاء کون سے وقت جمع کر کے پڑھے

أَخْبَرَنِي إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ شَيْخٍ مِنْ قُرَيْشٍ قَالَ صَحِبْتُ ابْنَ عُمَرَ إِلَی الْحِمَی فَلَمَّا غَرَبَتْ الشَّمْسُ هِبْتُ أَنْ أَقُولَ لَهُ الصَّلَاةَ فَسَارَ حَتَّی ذَهَبَ بَيَاضُ الْأُفُقِ وَفَحْمَةُ الْعِشَائِ ثُمَّ نَزَلَ فَصَلَّی الْمَغْرِبَ ثَلَاثَ رَکَعَاتٍ ثُمَّ صَلَّی رَکْعَتَيْنِ عَلَی إِثْرِهَا ثُمَّ قَالَ هَکَذَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُ-
اسحاق بن ابراہیم، سفیان، ابن ابونجیح، اسماعیل بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ میں عبداللہ بن عمر کے ساتھ (مکہ مکرمہ کے نزدیک واقع مقام) حما تک رہا جس وقت سورج غروب ہوگیا تو مجھ کو ان سے یہ بات عرض کرنے میں ڈر محسوس ہوا کہ (یہ کہوں کہ) نماز کا وقت ہوگیا ہے وہ روانہ ہو گئے حتی کہ سفیدی آسمان کے کونے تک جاتی رہی اور آسمان پر اندھیرا ہوگیا نماز عشاء کا آپ اس وقت پہنچے اور نماز مغرب کی تین رکعات ادا کیں۔ اس کے بعد نماز عشاء کی دو رکعت ادا فرمائیں پھر فرمایا کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس طریقہ سے عمل فرماتے ہوئے دیکھا ہے۔
It was narrated that Az-Zuhri said: “Salim told me that his father said: ‘I saw the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم, when he was in a hurry to travel, delaying Maghrib so that he could combine it with ‘Isha’.” (Sahih)
أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ قَالَ حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ عَنْ ابْنِ أَبِي حَمْزَةَ ح وَأَنْبَأَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُغِيرَةِ قَالَ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ وَاللَّفْظُ لَهُ عَنْ شُعَيْبٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي سَالِمٌ عَنْ أَبِيهِ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا عَجِلَهُ السَّيْرُ فِي السَّفَرِ يُؤَخِّرُ صَلَاةَ الْمَغْرِبِ حَتَّی يَجْمَعَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ الْعِشَائِ-
عمرو بن عثمان، بقیہ، ابن ابوحمزة و احمد بن محمد بن مغیرة، عثمان، شعیب، زہری، سالم، عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جس وقت جلدی ہوتی سفر میں جانے کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز مغرب ادا فرمانے میں تاخیر فرماتے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز مغرب اور نماز عشاء (کو ایک ساتھ پڑھتے) ان کو جمع کرتے۔
It was narrated that Jabir said: “The sun set when the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم was in Makkah, and he joined the two prayers in Sarif.” (Da‘if)
أَخْبَرَنَا الْمُؤَمَّلُ بْنُ إِهَابٍ قَالَ حَدَّثَنِي يَحْيَی بْنُ مُحَمَّدٍ الْجَارِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ غَابَتْ الشَّمْسُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَکَّةَ فَجَمَعَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ بِسَرِفَ-
مومل بن اہاب، یحیی بن محمد جاری، عبدالعزیز بن محمد، مالک بن انس، ابوزبیر، جابر سے روایت ہے کہ سورج غروب ہوگیا اس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ مکرمہ میں تشریف رکھتے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (دونوں وقت کی) نماز کو مقام سرف میں جمع فرمایا (یعنی دو وقت کی نماز ایک ساتھ پڑھیں۔ (واضح رہے کہ سرف مکہ مکرمہ سے دس میل کے فاصلہ پر ایک جگہ کا نام ہے)
It was narrated from Anas that the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم said: “If the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم wanted to travel quickly, he would delay Zuhr until the time of ‘Asr and combine them, and he would delay Maghrib until he combined it with ‘Isha’ when the twilight had disappeared.” (Da‘if)
أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ سَوَّادِ بْنِ الْأَسْوَدِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ قَالَ حَدَّثَنَا جَابِرُ بْنُ إِسْمَعِيلَ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ أَنَسٍ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ کَانَ إِذَا عَجِلَ بِهِ السَّيْرُ يُؤَخِّرُ الظُّهْرَ إِلَی وَقْتِ الْعَصْرِ فَيَجْمَعُ بَيْنَهُمَا وَيُؤَخِّرُ الْمَغْرِبَ حَتَّی يَجْمَعَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ الْعِشَائِ حَتَّی يَغِيبَ الشَّفَقُ-
عمرو بن سواد بن اسود بن عمرو، ابن وہب، جابربن اسماعیل، عقیل، ابن شہاب، انس سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس وقت روانہ ہونے میں جلدی ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تاخیر فرماتے نماز ظہر اور نماز عصر کے وقت تک پھر جمع فرماتے مغرب اور عشاء کی نماز جب پڑھتے جب شفق غروب ہو جاتی۔
Nafi’ said: “I went out with ‘Abdullah bin ‘Umar on a journey to some of his land. Then someone came to him and said: ‘Safiyyah bint AbI ‘Ubaid is sick, try to get there before it is too late.’ He set out quickly, accompanied by a man of the Quraish. The sun set but he did not pray, although I knew him to be very careful about praying on time. When he slowed down I said: ‘The prayer, may Allah have mercy on you.’ He turned to me but carried on until the twilight was almost gone, then he stopped and prayed Maghrib, then he said the Iqamah for ‘Isha’, at that time the twilight had totally disappeared and led us in prayer. Then he turned to us and said: ‘If the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم was in a hurry to travel he would do this.” (Sahih)
أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ قَالَ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ جَابِرٍ قَالَ حَدَّثَنِي نَافِعٌ قَالَ خَرَجْتُ مَعَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ فِي سَفَرٍ يُرِيدُ أَرْضًا فَأَتَاهُ آتٍ فَقَالَ إِنَّ صَفِيَّةَ بِنْتَ أَبِي عُبَيْدٍ لِمَا بِهَا فَانْظُرْ أَنْ تُدْرِکَهَا فَخَرَجَ مُسْرِعًا وَمَعَهُ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ يُسَايِرُهُ وَغَابَتْ الشَّمْسُ فَلَمْ يُصَلِّ الصَّلَاةَ وَکَانَ عَهْدِي بِهِ وَهُوَ يُحَافِظُ عَلَی الصَّلَاةِ فَلَمَّا أَبْطَأَ قُلْتُ الصَّلَاةَ يَرْحَمُکَ اللَّهُ فَالْتَفَتَ إِلَيَّ وَمَضَی حَتَّی إِذَا کَانَ فِي آخِرِ الشَّفَقِ نَزَلَ فَصَلَّی الْمَغْرِبَ ثُمَّ أَقَامَ الْعِشَائَ وَقَدْ تَوَارَی الشَّفَقُ فَصَلَّی بِنَا ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَ إِذَا عَجِلَ بِهِ السَّيْرُ صَنَعَ هَکَذَا-
محمود بن خالد، ولید، ابن جابر، نافع سے روایت ہے کہ میں عبداللہ بن عمر کے ساتھ چلا ایک سفر کے لئے وہ اپنی سر زمین میں چلے جا رہے تھے کہ اس دوران ایک شخص پہنچا اور بولا حضرت صفیہ بنت ابی عبید اس قدر علیل ہیں (مرنے والی ہیں) تو تم چل کر زندگی میں ان سے ملاقات کرلو وہ خاتون عبداللہ بن عمر کی اہلیہ محترمہ تھیں یہ بات سن کر جلدی جلدی روانہ ہوئے اور ان کے ہمراہ ایک شخص تھا قبیلہ قریش میں سے جو کہ برابر چل رہا تھا تو سورج غروب ہوگیا اور انہوں نے نماز نہیں پڑھی اور میں یہ سمجھ رہا تھا کہ وہ نماز کا بہت زیادہ خیال رکھتے ہیں جس وقت انہوں نے تاخیر فرمائی تو میں نے کہا کے تم پر نماز رحمت کی نظر فرمائے۔ یہ سن کر انہوں نے میری جانب دیکھا اور روانہ ہوگئے۔ یہاں تک کہ شفق غروب ہوگئی پھر نماز عشاء ادا فرمائی۔ اس وقت شفق غروب ہوگئی تھی پھر ہماری جانب توجہ فرمائی اور فرمایا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جس وقت جلدی ہوتی تھی روانہ ہونے کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی طریقہ سے عمل فرمایا کرتے تھے۔
It was narrated that Nafi’ said: “We came back with Ibn ‘Umar from Makkah. One night he kept on travelling until evening came, and we thought that he had forgotten the prayer. We said to him: ‘The prayer!’ But he kept quiet and kept going until the twilight had almost disappeared, then he stopped and prayed, and when the twilight disappeared he prayed ‘Isha’. Then he turned to us and said: This is what we used to do with the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم if he was in a hurry to travel.” (Sahih)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا الْعَطَّافُ عَنْ نَافِعٍ قَالَ أَقْبَلْنَا مَعَ ابْنِ عُمَرَ مِنْ مَکَّةَ فَلَمَّا کَانَ تِلْکَ اللَّيْلَةُ سَارَ بِنَا حَتَّی أَمْسَيْنَا فَظَنَنَّا أَنَّهُ نَسِيَ الصَّلَاةَ فَقُلْنَا لَهُ الصَّلَاةَ فَسَکَتَ وَسَارَ حَتَّی کَادَ الشَّفَقُ أَنْ يَغِيبَ ثُمَّ نَزَلَ فَصَلَّی وَغَابَ الشَّفَقُ فَصَلَّی الْعِشَائَ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا فَقَالَ هَکَذَا کُنَّا نَصْنَعُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا جَدَّ بِهِ السَّيْرُ-
قتیبہ بن سعید، عطاف، نافع سے روایت ہے کہ ہم لوگ عبداللہ بن عمر کے ہمراہ مکہ مکرمہ سے پہنچے جس وقت شام کا وقت ہوگیا تو انہوں نے چلنا جاری رکھا حتی کہ رات ہوگئی ہم لوگ یہ بات سمجھ گئے کہ وہ لوگ نماز پڑھنا بھول گئے ہیں تو ہم نے کہا نماز۔ وہ لوگ خاموش رہے اور چلتے رہے یہاں تک کہ شفق غروب ہونے کے نزدیک ہوئی پھر وہ لوگ ٹھہرے یہاں تک کہ نماز ادا فرمائی اس دوران شفق غروب ہوگئی تو نماز عشاء ادا فرمائی اس کے بعد ہم لوگوں کی جانب توجہ فرمائی اور فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اسی طریقہ سے کرتے تھے جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جلدی ہوتی۔
Kathir bin Qárawanda said: “We asked Salim bin ‘Abdullah about prayer while traveling. We said: ‘Did ‘Abdullah combine any of his prayers while traveling?’ He said: ‘No, except at Jam’.’ Then he paused, and said: ‘Safiyyah was married to him, and she sent word to him that she was in her last day in this world and the first day in the Hereafter. So he rode off in a hurry, and I was with him. The time for prayer came and the Muadhdhin said to him: ‘The prayer, Abu ‘Abdur-Rahman!’ But he kept going until it was between the time for the two prayers. Then he stopped and said to the Muadhdhin: “Say the Iqamah, and when I say the Taslimat the end of uhr, say the Iqamah (again) straight away.” So he said the Iqámah and he prayed Zuhr, two Rak’ahs, then he said the Iqamah (again) straight away, and he prayed ‘Asr, two Rak’ahs. Then he rode off quickly until the sun set and the Muadhdhin said to him: “The prayer, Abu ‘Abdur-Rahman!” He said: “Do what you did before.” He rode on until the stars appeared, then he stopped and said: “Say the Iqamah, then when I say the Taslim, say the Iqamah. So he said the Iqamah and he prayed Maghrib, three Rak’ahs, then he said the Iqamah (again) straight away and he prayed ‘Isha’, then he said one Taslim, turning his face. Then he said: “The Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم said: ‘If any one of you has an urgent need that he fears he may miss, let him pray like this.” (Sahih)
أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ شُمَيْلٍ قَالَ حَدَّثَنَا کَثِيرُ بْنُ قَارَوَنْدَا قَالَ سَأَلْنَا سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ الصَّلَاة فِي السِّفْر فَقُلْنَا أَکَانَ عَبْدُ اللَّهِ يَجْمَعُ بَيْنَ شَيْئٍ مِنْ الصَّلَوَاتِ فِي السَّفَرِ فَقَالَ لَا إِلَّا بِجَمْعٍ ثُمَّ أَتَيْتُهُ فَقَالَ کَانَتْ عِنْدَهُ صَفِيَّةُ فَأَرْسَلَتْ إِلَيْهِ أَنِّي فِي آخِرِ يَوْمٍ مِنْ الدُّنْيَا وَأَوَّلِ يَوْمٍ مِنْ الْآخِرَةِ فَرَکِبَ وَأَنَا مَعَهُ فَأَسْرَعَ السَّيْرَ حَتَّی حَانَتْ الصَّلَاةُ فَقَالَ لَهُ الْمُؤَذِّنُ الصَّلَاةَ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ فَسَارَ حَتَّی إِذَا کَانَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ نَزَلَ فَقَالَ لِلْمُؤَذِّنِ أَقِمْ فَإِذَا سَلَّمْتُ مِنْ الظُّهْرِ فَأَقِمْ مَکَانَکَ فَأَقَامَ فَصَلَّی الظُّهْرَ رَکْعَتَيْنِ ثُمَّ سَلَّمَ ثُمَّ أَقَامَ مَکَانَهُ فَصَلَّی الْعَصْرَ رَکْعَتَيْنِ ثُمَّ رَکِبَ فَأَسْرَعَ السَّيْرَ حَتَّی غَابَتْ الشَّمْسُ فَقَالَ لَهُ الْمُؤَذِّنُ الصَّلَاةَ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ فَقَالَ کَفِعْلِکَ الْأَوَّلِ فَسَارَ حَتَّی إِذَا اشْتَبَکَتْ النُّجُومُ نَزَلَ فَقَالَ أَقِمْ فَإِذَا سَلَّمْتُ فَأَقِمْ فَصَلَّی الْمَغْرِبَ ثَلَاثًا ثُمَّ أَقَامَ مَکَانَهُ فَصَلَّی الْعِشَائَ الْآخِرَةَ ثُمَّ سَلَّمَ وَاحِدَةً تِلْقَائَ وَجْهِهِ ثُمَّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا حَضَرَ أَحَدَکُمْ أَمْرٌ يَخْشَی فَوْتَهُ فَلْيُصَلِّ هَذِهِ الصَّلَاةَ-
عبدة بن عبدالرحیم، ابن شمیل، کثیر بن قاروندا سے روایت ہے کہ ہم لوگوں نے حضرت سالم بن عبداللہ بن عمر سے نماز سفر کے بارے میں دریافت کیا تو ہم نے کہا کہ کیا حضرت عبداللہ بن عمر نمازوں کو دوران سفر جمع فرماتے تھے؟ انہوں نے جواب میں فرمایا نہیں۔ لیکن مقام مزدلفہ میں دوران حج نماز مغرب اور نماز عشاء کو جمع فرماتے پھر بیان فرمایا کہ حضرت عبداللہ بن عمرکے نکاح میں حضرت صفیہ بنت ابی عبید تھیں انہوں نے کہلا کر بھیج دیا کہ اے حضرت عبداللہ بن عمر دنیا میں آج میرا آخری دن ہے اور آخرت کے لئے میرا یہ پہلا دن ہے (یعنی میری موت میرے سامنے ہے) یہ بات سن کر عبداللہ بن عمر سوار ہوگئے اور میں ان کے ساتھ تھا۔ بہت زیادہ جلدی وہ روانہ ہوگئے جس وقت نماز کا وقت پہنچا تو مؤذن نے فرمایا الصلوة یا ابا عبدالرحمن! یعنی اے ابوعبدالرحمن نماز کا وقت تیار ہے۔ بہرحال وہ اسی طرح چلتے رہے اور جس وقت دونوں نمازوں کے درمیان کا وقت ہوگیا (جس کے بعد اس سے اگلی نماز کا وقت تھا) تو آپ اس جگہ پر ٹھہرگئے اور آپ نے اذان دینے والے سے فرمایا تم تکبیر پڑھو۔ پھر جس وقت میں سلام پھیر دوں نماز ظہر کا تو اسی جگہ پر تکبیر پڑھو۔ حضرت عبداللہ بن عمر نے اسی جگہ پر دو رکعت نماز عصر ادا فرمائیں اس کے بعد وہ سوار ہوگئے اور وہ وہاں سے جلدی سے روانہ ہوگئے یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا اس کے بعد مؤذن نے عرض کیا حضرت عبدالرحمن! نماز کا وقت ہوگیا ہے۔ انہوں نے اسی طریقہ سے بیان کیا کہ جس طریقہ سے پہلے عمل فرمایا تھا۔ یعنی پہلی نماز میں تاخیر کرو جس وقت نماز کا آخری وقت آجائے تو دونوں کو ایک ساتھ ادا کرو پھر چل دیئے۔ پس جس وقت کہ ستارے صاف طریقہ سے نکل آئے تو آپ وہاں ٹھہر گئے اور فرمایا کہ تکبیر کہو پھر جس وقت سلام پھیروں تو تم تکبیر پڑھو۔ اس کے بعد انہوں نے نماز مغرب کی تین رکعات ادا فرمائیں۔ پھر اسی جگہ پر کھڑے ہو کر نماز عشاء ادا فرمائی اور صرف ایک سلام پھیرا اپنے چہروں کے سامنے (مطلب یہ ہے کہ ایک مرتبہ ہی السلام علیکم ورحمتہ اللہ کہہ دیا اور چہرہ دائیں بائیں نہ پھیرا) اس کے بعد کہا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس وقت تم لوگوں میں سے کسی شخص کو اس قسم کا کوئی کام پیش آئے جس کے خراب ہونے کا اندیشہ ہو تو اس طریقہ سے نماز ادا کرے۔
It was narrated from Ibn ‘Umar that if the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم was in a hurry to travel, he would combine Maghrib and ‘Isha’. (Sahih)