مرتد کی توبہ اور اس کے دوبارہ اسلام قبول کرنے سے متعلق

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَزِيعٍ قَالَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ وَهُوَ ابْنُ زُرَيْعٍ قَالَ أَنْبَأَنَا دَاوُدُ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كَانَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ أَسْلَمَ ثُمَّ ارْتَدَّ وَلَحِقَ بِالشِّرْكِ ثُمَّ تَنَدَّمَ فَأَرْسَلَ إِلَى قَوْمِهِ سَلُوا لِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلْ لِي مِنْ تَوْبَةٍ فَجَاءَ قَوْمُهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا إِنَّ فُلَانًا قَدْ نَدِمَ وَإِنَّهُ أَمَرَنَا أَنْ نَسْأَلَكَ هَلْ لَهُ مِنْ تَوْبَةٍ فَنَزَلَتْ كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ قَوْمًا كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ إِلَى قَوْلِهِ غَفُورٌ رَحِيمٌ فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ فَأَسْلَمَ-
محمد بن عبداللہ بن بزیع، یزید، ابن زریع، داؤد، عکرمة، ابن عباس سے روایت ہے کہ قبیلہ انصار میں سے ایک شخص کہ جس کا نام حارث بن سوید تھا وہ مسلمان ہوگیا تھا لیکن پھر وہ مرتد ہوگیا تھا اور کفار کے ساتھ شامل ہوگیا تھا پھر وہ شرمندہ ہوا تو اس نے اپنی قوم کو کہلا کر بھیجا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کرلو کہ کیا میری توبہ قبول ہے؟ چنانچہ اس کی قوم رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا فلاں آدمی اب نادم ہے اور اس نے ہم سے کہا ہے کہ ہم لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس سلسلہ میں دریافت کر لیں کہ کیا اس کی توبہ قبول ہوگی؟ اس پر آیت کریمہ (كَيْفَ يَهْدِي اللّٰهُ قَوْمًا كَفَرُوْا بَعْدَ اِيْمَانِهِمْ سے غَفُورٌ رَحِيمٌ تک) 3۔ آل عمران : 86) ۔ اس قوم کو خداوند قدوس کس طریقہ سے ہدایت دے گا جو کہ کافر بن گئی ایمان قبول کرنے کے بعد اور جو کہ گواہی دے چکی پیغمبر سچا ہے اور پہنچ گئی ان کی دلیلیں اور اللہ راستہ نہیں بتلاتا ان لوگوں کو جو کہ ظلم کرنے والے ہیں اور ان لوگوں پر لعنت ہے اللہ کی فرشتوں اور لوگوں کی اور وہ لوگ دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے اور ان کا عذاب کبھی کم نہ ہوگا اور نہ کبھی ان لوگوں کو مہلت ملے گی مگر جن لوگوں نے توبہ کی اور نیک بن گئے تو خداوند قدوس بخشش فرمانے والا اور مہربان ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس شخص کو کہلوا دیا اور وہ مسلمان ہوگیا۔
Ibn ‘Abbas narrated that there was a blind man during the time of the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم who had an Umm Waad by whom he had two sons. She used to slander and defame the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم a great deal, and he mould rebuke her, but she would ‘not pay heed, and he would forbid ier to do that, but she ignored him. (The blind man said) One night i mentioned the Prophet صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم , and she slandered him. I could not bear it So I went and got a dagger which I thrust into her stomach and leaned upon it, and killed her. In the morning she was found slain. Mention of that was made to the Prophet صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم and he gathered the people and said: “I adjure by Allah; a man over whom I have the right, that he should obey me, and he did what he did, to stand up.” The blind man started to tremble and said: “Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم I am the one who killed her. She was my Umm Walad and she was kind and gentle toward me, and I have two Sons like pearls from her, but she used to slander and defame you a great deal. I forbade her, but she did not stop, and I rebuked her, but she did not pay heed. Finally, I mentioned your name and she slandered you, so I went and got a dagger which I thrust into her stomach, and leaned On it until I killed her. The Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم said: “I bear witness that her blood is permissible.” (Sahih)
أَخْبَرَنَا زَکَرِيَّا بْنُ يَحْيَی قَالَ حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ أَنْبَأَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ قَالَ أَخْبَرَنِي أَبِي عَنْ يَزِيدَ النَّحْوِيِّ عَنْ عِکْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ فِي سُورَةِ النَّحْلِ مَنْ کَفَرَ بِاللَّهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُکْرِهَ إِلَی قَوْلِهِ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ فَنُسِخَ وَاسْتَثْنَی مِنْ ذَلِکَ فَقَالَ ثُمَّ إِنَّ رَبَّکَ لِلَّذِينَ هَاجَرُوا مِنْ بَعْدِ مَا فُتِنُوا ثُمَّ جَاهَدُوا وَصَبَرُوا إِنَّ رَبَّکَ مِنْ بَعْدِهَا لَغَفُورٌ رَحِيمٌ وَهُوَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ أَبِي سَرْحٍ الَّذِي کَانَ عَلَی مِصْرَ کَانَ يَکْتُبُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَزَلَّهُ الشَّيْطَانُ فَلَحِقَ بِالْکُفَّارِ فَأَمَرَ بِهِ أَنْ يُقْتَلَ يَوْمَ الْفَتْحِ فَاسْتَجَارَ لَهُ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ فَأَجَارَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-
زکریا بن یحیی، اسحاق بن ابراہیم، علی بن حسین بن واقد، وہ اپنے والد سے، یزید نحوی، عکرمة، ابن عباس سے روایت ہے کہ قرآن کریم کی سورت نحل میں جو آیت کریمہ ہے (مَنْ کَفَرَ بِاللَّهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُکْرِهَ إِلَی قَوْلِهِ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ) یعنی جس کسی نے ایمان قبول کرنے کے بعد کفر اختیار کیا تو اس پر خداوند قدوس کا غصہ ہے اور اس کے واسطے بڑا عذاب ہے یہ آیت کریمہ منسوخ ہوگئی اور اس آیت کریمہ کے حکم سے کچھ لوگ مستثنی کر لیے گئے جن کو کہ بعد والی آیت کریمہ ( اِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِيْنَ هَاجَرُوْا مِنْ بَعْدِ مَا فُتِنُوْا ثُمَّ جٰهَدُوْا وَصَبَرُوْ ا اِنَّ رَبَّكَ مِنْ بَعْدِهَا لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ) 16۔ النحل : 110) میں بیان فرمایا گیا یعنی پھر جو لوگ ہجرت کر کے آئے فتنہ میں مبتلا ہونے کے بعد اور ان لوگوں نے جہاد کیا اور صبر اختیار کیا تو تمہارا پروردگار بخشش فرمانے والا اور مہربان ہے یہ آیت کریمہ عبداللہ بن ابی سرح کے بارے میں نازل ہوئی جو کہ ملک مصر میں تھا اور وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کاتب تھا پھر اس کو شیطان نے ورغلایا اور وہ مشرکین میں شامل ہوگیا جس وقت مکہ مکرمہ فتح ہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو قتل کرنے کا حکم فرمایا (اس کے مرتد ہونے کی وجہ سے) پھر حضرت عثمان نے اس کے واسطے پناہ کی درخواست فرمائی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو پناہ دیدی۔
It was narrated that Abu Barzah Al-Aslami said: “A man spoke harshly to Abu Bakr A Siddiq, and I said: ‘Shall I kill him?’ He told me off, and said: ‘That is not for anyone after the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم.“ (Hasan)