غلہ کے عوض غلہ فروخت کرنا

أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ نَهَی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْمُزَابَنَةِ أَنْ يَبِيعَ ثَمَرَ حَائِطِهِ وَإِنْ کَانَ نَخْلًا بِتَمْرٍ کَيْلًا وَإِنْ کَانَ کَرْمًا أَنْ يَبِيعَهُ بِزَبِيبٍ کَيْلًا وَإِنْ کَانَ زَرْعًا أَنْ يَبِيعَهُ بِکَيْلِ طَعَامٍ نَهَی عَنْ ذَلِکَ کُلِّهِ-
قتیبہ، لیث، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مزابنہ سے ممانعت فرمائی۔ مزابنہ یہ ہے کہ اپنے باغ میں لگی ہوئی کھجور کو اتری ہوئی کھجور کے عوض فروخت کیا جائے اور اگر کھیت ہو تو اس کو غلہ کے عوض وزن کر کے فروخت کرے ان تمام کی ممانعت فرمائی۔
It was narrated from Ibn ‘Umar that the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم forbade selling dates on the trees before they ripen, or selling ears of corn before the grains become visible and there is no fear of blight. He forbade that to the seller and the buyer. (Sahih)
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ يَزِيدَ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ عَطَائٍ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَی عَنْ الْمُخَابَرَةِ وَالْمُزَابَنَةِ وَالْمُحَاقَلَةِ وَعَنْ بَيْعِ الثَّمَرِ قَبْلَ أَنْ يُطْعَمَ وَعَنْ بَيْعِ ذَلِکَ إِلَّا بِالدَّنَانِيرِ وَالدَّرَاهِمِ-
عبدالحمید بن محمد، مخلد بن یزید، ابن جریج، عطاء، جابر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ممانعت فرمائی مخابرہ مزابنہ اور محاقلہ سے اور پھلوں کے فروخت سے جس وقت تک وہ کھانے کے لائق نہ ہوں اور ممانعت فرمائی پھلوں کے فروخت کرنے سے لیکن روپیہ اور اشرفی کے عوض (بیع درست ہے)۔
It was narrated from Abu Salih that a man from among the Companions of the Prophet صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم told him, he said: “Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم, we cannot buy aii’,anI dates or ‘Idhq dates for the same amount of mixed dates (which are of inferior quality). Should we increase (the amount we give in payment for the better quality dates)?” The Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم said: “Sell them for silver then buy with it.” (Hasan)