غلام فروخت ہو اور خریدار اس کا مال لینے کی شرط مقرر کرے

أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ ابْتَاعَ نَخْلًا بَعْدَ أَنْ تُؤَبَّرَ فَثَمَرَتُهَا لِلْبَائِعِ إِلَّا أَنْ يَشْتَرِطَ الْمُبْتَاعُ وَمَنْ بَاعَ عَبْدًا وَلَهُ مَالٌ فَمَالُهُ لِلْبَائِعِ إِلَّا أَنْ يَشْتَرِطَ الْمُبْتَاعُ-
اسحاق بن ابراہیم، سفیان، زہری، سالم، حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص کھجور کا درخت خریدے اس کو پیوند کرنے کے بعد تو اس کے پھل فروخت کرنے والے کو ملیں گے لیکن جس وقت خریدار شرط مقرر کرے اسی طریقہ سے جو شخص غلام کو فروخت کرے اور اس کے پاس مال موجود ہو تو وہ مال فروخت کرنے والے شخص کا ہے لیکن یہ کہ خریدنے والا شخص شرط مقرر کرے۔
It was narrated that Jabir said: “I went on a campaign with the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم , riding a camel of ours,” then he quoted the whole Hadith. Then he said words to the effect that: “The camel got tired and the Prophet صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم hit it, so it became energetic and came to the front of the army. The Prophet صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم said: ‘Jabir, I see that your camel has become energetic.’ I said: ‘It is because of your blessing, O Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم.’ He said: ‘Sell it to me, and you can ride it till we arrive (in Al-Madinah).’ So I sold it to him. I was in great need of it myself but I felt too shy to refuse. When we finished our campaign, and we were close to Al Madinah, I asked his permission to go on ahead. I said: ‘Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم, I am newly married.’ He said: ‘Have you married a virgin or a previously married woman?’ I said: ‘A previously married woman, O Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم. ‘Abdullah bin ‘Amr died and left behind young daughters, and I did not like to bring to them someone who was like them, so I married a previously married woman who could teach them, and raise them with good manners.’ So he gave me permission, and said to me: ‘Go to your family at the end of the day.’ When I arrived, I told my maternal uncle that I had sold the camel and he scolded me. When the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم came, I brought the camel to him, and he gave me the price of the camel, and the camel, and a share (of the spoils of war) with the rest of the people.” (Sahih)
أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ أَنْبَأَنَا سَعْدَانُ بْنُ يَحْيَی عَنْ زَکَرِيَّا عَنْ عَامِرٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ کُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَأَعْيَا جَمَلِي فَأَرَدْتُ أَنْ أُسَيِّبَهُ فَلَحِقَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَدَعَا لَهُ فَضَرَبَهُ فَسَارَ سَيْرًا لَمْ يَسِرْ مِثْلَهُ فَقَالَ بِعْنِيهِ بِوُقِيَّةٍ قُلْتُ لَا قَالَ بِعْنِيهِ فَبِعْتُهُ بِوُقِيَّةٍ وَاسْتَثْنَيْتُ حُمْلَانَهُ إِلَی الْمَدِينَةِ فَلَمَّا بَلَغْنَا الْمَدِينَةَ أَتَيْتُهُ بِالْجَمَلِ وَابْتَغَيْتُ ثَمَنَهُ ثُمَّ رَجَعْتُ فَأَرْسَلَ إِلَيَّ فَقَالَ أَتُرَانِي إِنَّمَا مَاکَسْتُکَ لِآخُذَ جَمَلَکَ خُذْ جَمَلَکَ وَدَرَاهِمَکَ-
علی بن حجر، سعد بن یحیی، زکریا، عامر، جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھا کہ میرا اونٹ تھک گیا۔ میں نے چاہا کہ اس کو میں آزاد کر دوں کہ اس دوران رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجھ سے ملاقات ہوگئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس اونٹ کے لیے دعا فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو مارا پھر اونٹ اس طرح چلا (یعنی دوڑا) کہ وہ کبھی ایسا نہیں چلا تھا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس کو میرے ہاتھ تم فروخت کر دو ایک اوقیہ (یعنی چالیس درہم میں) میں نے کہا میں تو فروخت نہیں کرتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم اس کو فروخت کر دو۔ چنانچہ میں نے اس کو ایک اوقیہ میں فروخت کر دیا اور مدینہ منورہ تک اس پر سوار ہونے کی شرط مقرر کر لی۔ ہم لوگ جس وقت مدینہ منورہ پہنچے تو میں اونٹ لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور میں نے اونٹ کی قیمت وصول نہیں کی (میں لوٹ کر جانے لگا) تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ کو بلایا اور فرمایا تم سمجھتے ہو کہ میں نے تمہارے اونٹ کی کم قیمت لگائی تھی کیونکہ تمہارا اونٹ لے لوں پس تم اپنا اونٹ لے لو اور روپیہ بھی لے لو۔
It was narrated that Jabir bin ‘Abdullah said: “I was with the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم on a journey, and I was riding a camel. He said: ‘Why are you at the back of the people?’ I said: ‘My camel is tired.’ He took hold of its tail and shouted at it, then I was at the front of the people, worrying that it would go ahead of the others. When we drew close to Al-Madinah he said: ‘What happened to the camel? Sell it to me.’ I said, ‘No, it is yours Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم.’ He said, ‘No, sell it to me.’ I said, ‘No, it is yours, o Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم.’ He said: ‘No, sell it to me. I will take it for one Uwqiyah but you (continue to) ride it. Then when you reach Al Madinah, bring it to us.’ So when I reached Al-Madinah, I brought it to him. He said to Bilal: ‘Bilal, weigh out for him one Uwqiyah and add a QIraI said: ‘This is something extra that the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم gave to me.’ I kept it with me and put it in a bag, and it stayed with me until the people of Ash-Sham came on the Day of Al-Ilarrah and took from us what they took.” (Sahih)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَی بْنِ الطَّبَّاعِ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ مُغِيرَةَ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ جَابِرٍ قَالَ غَزَوْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَی نَاضِحٍ لَنَا ثُمَّ ذَکَرْتُ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ ثُمَّ ذَکَرَ کَلَامًا مَعْنَاهُ فَأُزْحِفَ الْجَمَلُ فَزَجَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَانْتَشَطَ حَتَّی کَانَ أَمَامَ الْجَيْشِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا جَابِرُ مَا أَرَی جَمَلَکَ إِلَّا قَدْ انْتَشَطَ قُلْتُ بِبَرَکَتِکَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ بِعْنِيهِ وَلَکَ ظَهْرُهُ حَتَّی تَقْدَمَ فَبِعْتُهُ وَکَانَتْ لِي إِلَيْهِ حَاجَةٌ شَدِيدَةٌ وَلَکِنِّي اسْتَحْيَيْتُ مِنْهُ فَلَمَّا قَضَيْنَا غَزَاتَنَا وَدَنَوْنَا اسْتَأْذَنْتُهُ بِالتَّعْجِيلِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي حَدِيثُ عَهْدٍ بِعُرْسٍ قَالَ أَبِکْرًا تَزَوَّجْتَ أَمْ ثَيِّبًا قُلْتُ بَلْ ثَيِّبًا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو أُصِيبَ وَتَرَکَ جَوَارِيَ أَبْکَارًا فَکَرِهْتُ أَنْ آتِيَهُنَّ بِمِثْلِهِنَّ فَتَزَوَّجْتُ ثَيِّبًا تُعَلِّمُهُنَّ وَتُؤَدِّبُهُنَّ فَأَذِنَ لِي وَقَالَ لِي ائْتِ أَهْلَکَ عِشَائً فَلَمَّا قَدِمْتُ أَخْبَرْتُ خَالِي بِبَيْعِي الْجَمَلَ فَلَامَنِي فَلَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَدَوْتُ بِالْجَمَلِ فَأَعْطَانِي ثَمَنَ الْجَمَلِ وَالْجَمَلَ وَسَهْمًا مَعَ النَّاسِ-
محمد بن یحیی بن عبد اللہ، محمد بن عیسیٰ بن طباع، ابوعوانة، مغیرہ، شعبی، جابر سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ پانی کے اونٹ پر جہاد کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیث بیان فرمائی اس کے بعد بیان کیا کہ اونٹ تھک گیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو ڈانٹا وہ اونٹ تیز ہوگیا یہاں تک کہ تمام لشکر سے آگے ہوگیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے جابر! میں سمجھ رہا ہوں کہ تمہارا اونٹ تیز ہوگیا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے میرا اونٹ تیز ہوگیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم اس کو میرے ہاتھ فروخت کر دو اور تم اس پر چڑھ جا (یعنی اس پر سوار ہو جا) مدینہ منورہ تک پہنچنے تک میں نے اس کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ اگرچہ مجھ کو اونٹ کی سخت ضرورت تھی لیکن مجھ کو شرم محسوس ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے (کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے ہیں فروخت کرنے کے واسطے اور میں اس کو نہ دوں) جس وقت جہاد سے فراغت ہوگئی اور ہم لوگ مدینہ منورہ کے نزدیک پہنچ گئے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آگے جانے کی اجازت چاہی۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے نکاح کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا باکرہ لڑکی سے کیا ہے (یعنی کنواری لڑکی سے کیا ہے) یا غیر کنواری سے میں نے عرض کیا غیر کنواری یعنی ثیبہ سے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ میرے والد عبداللہ قتل کر دیئے گئے تھے اور وہ کنواری لڑکیاں چھوڑ گئے تھے۔ تو مجھ کو برا معلوم ہوا کہ ان کے پاس میں ایک کنواری لڑکی لاؤں۔ اس وجہ سے میں نے ثیبہ سے نکاح کر لیا کہ وہ ان کو تعلیم دے اور ادب سکھلائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت عطاء فرمائی اور فرمایا اپنی اہلیہ کے پاس رات میں جائیں۔ میں جب گیا تو میں نے اپنے ماموں سے اونٹ فروخت کرنے کی حالت بیان کی۔ انہوں نے مجھ پر ملامت کی جس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو میں صبح کے وقت اونٹ لے کر حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اونٹ کی قیمت ادا فرمائی اور اونٹ بھی واپس فرما دیا اور ایک حصہ تمام لوگوں کے برابر عطاء فرمایا (مال غنیمت میں سے)۔
It was narrated that Jàbir said: “The Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم caught up with me when I was riding a bad camel of ours, and I said: ‘We have a bad camel, more’s the pity!’ The Prophet صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم said: ‘Will you sell it to me, Jabir?’ I said, ‘No, it is yours, Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم.’ He said: ‘Allah, forgive him; Allah, have mercy on him. I will buy it for such and such, and I will lend it to you to ride until (we reach) Al-Madinah.’ When I reached Al-Madinah, I prepared it, and brought it to him, and he said: ‘Bilal, give him its price.’ When I turned to leave, he called me back, and I was afraid that he would give it back, but he said: ‘It is yours.” (Sahih)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَائِ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ کُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ وَکُنْتُ عَلَی جَمَلٍ فَقَالَ مَا لَکَ فِي آخِرِ النَّاسِ قُلْتُ أَعْيَا بَعِيرِي فَأَخَذَ بِذَنَبِهِ ثُمَّ زَجَرَهُ فَإِنْ کُنْتُ إِنَّمَا أَنَا فِي أَوَّلِ النَّاسِ يُهِمُّنِي رَأْسُهُ فَلَمَّا دَنَوْنَا مِنْ الْمَدِينَةِ قَالَ مَا فَعَلَ الْجَمَلُ بِعْنِيهِ قُلْتُ لَا بَلْ هُوَ لَکَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ لَا بَلْ بِعْنِيهِ قُلْتُ لَا بَلْ هُوَ لَکَ قَالَ لَا بَلْ بِعْنِيهِ قَدْ أَخَذْتُهُ بِوُقِيَّةٍ ارْکَبْهُ فَإِذَا قَدِمْتَ الْمَدِينَةَ فَأْتِنَا بِهِ فَلَمَّا قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ جِئْتُهُ بِهِ فَقَالَ لِبِلَالٍ يَا بِلَالُ زِنْ لَهُ أُوقِيَّةً وَزِدْهُ قِيرَاطًا قُلْتُ هَذَا شَيْئٌ زَادَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُفَارِقْنِي فَجَعَلْتُهُ فِي کِيسٍ فَلَمْ يَزَلْ عِنْدِي حَتَّی جَائَ أَهْلُ الشَّامِ يَوْمَ الْحَرَّةِ فَأَخَذُوا مِنَّا مَا أَخَذُوا-
محمد بن علاء، ابومعاویہ، الاعمش، سالم بن ابی جعد، جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھا اور ایک اونٹ پر سوار تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا وجہ ہے کہ سب لوگوں کے آخر میں رہتے ہو یعنی تمام لوگوں کے پیچھے رہتے ہو۔ اس پر میں نے عرض کیا میرا اونٹ تھک چکا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی دم پکڑ لی اور اس کو ڈانٹ دیا۔ پھر وہ (اونٹ) ایسا ہوگیا کہ میں لوگوں کے آگے تھا۔ جس وقت ہم لوگ مدینہ منورہ کے نزدیک پہنچ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا اونٹ کو کیا ہوا؟ اس کو میرے ہاتھ فروخت کر دو۔ میں نے کہا نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اونٹ ویسے ہی لے لیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں تم اس کو فروخت کر دو۔ میں نے اس کو ایک اوقیہ (چالیس درہم) کے عوض خرید لیا تو اس پر سوار ہو کر جس وقت مدینہ منورہ میں پہنچے تو تم اس کو ہمارے پاس لے کر آنا۔ چنانچہ جس وقت میں مدینہ منورہ میں آیا تو اونٹ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لے گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت بلال سے فرمایا اے بلال! ایک اوقیہ چاندی تم ان کو وزن کر کے دے دو اور زیادہ دے دو۔ میں نے کہا کہ یہ وہ شے ہے جو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ کو زیادہ عطاء فرمائی ہے وہ کبھی مجھ سے الگ نہ ہو۔ میں نے اس کو ایک تھیلی میں رکھا وہ ہمیشہ میرے پاس رہا۔ یہاں تک کہ حرہ کے دن ملک شام کے لوگ آئے وہ لوگ ہم لوگ سے لے گئے جو لے گئے۔
It was narrated that Jabir bin ‘Abdullah said: “We were traveling with the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم and I was riding a camel. The Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم said to me: ‘Will you sell it to me for such and such, may Allah forgive you?’ I said, ‘Yes, it is yours, Prophet صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم.’ He said: ‘Will you sell it to me for such and such, may Allah forgive you?’ I said: ‘Yes, it is yours, Prophet of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم.’ He said: ‘Will you sell it to me for such and such, may Allah forgive you?’ I said: ‘Yes, it is yours.” (One of the narrators) Abu Nadrah said: “This became a phrase that was used by the Muslims: ‘Do such and such, may Allah forgive you.” (Sahih)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ أَدْرَکَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَکُنْتُ عَلَی نَاضِحٍ لَنَا سَوْئٍ فَقُلْتُ لَا يَزَالُ لَنَا نَاضِحُ سَوْئٍ يَا لَهْفَاهُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَبِيعُنِيهِ يَا جَابِرُ قُلْتُ بَلْ هُوَ لَکَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ اللَّهُمَّ ارْحَمْهُ قَدْ أَخَذْتُهُ بِکَذَا وَکَذَا وَقَدْ أَعَرْتُکَ ظَهْرَهُ إِلَی الْمَدِينَةِ فَلَمَّا قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ هَيَّأْتُهُ فَذَهَبْتُ بِهِ إِلَيْهِ فَقَالَ يَا بِلَالُ أَعْطِهِ ثَمَنَهُ فَلَمَّا أَدْبَرْتُ دَعَانِي فَخِفْتُ أَنْ يَرُدَّهُ فَقَالَ هُوَ لَکَ-
محمد بن منصور، سفیان، ابوزبیر، جابر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ کو دیکھا میں ایک پانی بھرنے کے بیکار (برے) اونٹ پر سوار تھا۔ میں نے کہا کہ ہمارے واسطے ہمیشہ ہی برا اونٹ رہتا ہے ہائے افسوس۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم اس کو فروخت کرتے ہو اے جابر! میں نے عرض کیا وہ ویسے ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہے یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس کی خداوند قدوس مغفرت فرمائے میں نے اس کو لے لیا اس قدر قیمت میں اور میں نے اس پر تم کو مدینہ منورہ تک چڑھ کر (یعنی سوار ہو کر) سفر کرنے کی اجازت دی۔ جس وقت مدینہ منورہ حاضر ہوا تو میں اس کو تیار کر کے لے گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے بلال! تم اس کو قیمت دے دو میں جس وقت تک واپس آجاؤں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر بلایا میں نے خوف محسوس کیا کہ ایسا نہ ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس نہ فرما دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا وہ اونٹ بھی تمہارا ہے تم اس کو لے جا۔
It was narrated that ‘Aishah said: “I bought BarIrah and her masters stipulated that her loyalty (Wala’) should be to them. I mentioned that to the Prophet صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم, and he said: ‘Set her free, and loyalty belongs to the one who pays the silver.” She said: “So I set her free. The Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم called her and gave her the choice regarding her husband, and she chose herself. Her husband was a free man.” (Sahih)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی قَالَ حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ قَالَ سَمِعْتُ أَبِي قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو نَضْرَةَ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ کُنَّا نَسِيرُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا عَلَی نَاضِحٍ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَبِيعُنِيهِ بِکَذَا وَکَذَا وَاللَّهُ يَغْفِرُ لَکَ قُلْتُ نَعَمْ هُوَ لَکَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ قَالَ أَتَبِيعُنِيهِ بِکَذَا وَکَذَا وَاللَّهُ يَغْفِرُ لَکَ قُلْتُ نَعَمْ هُوَ لَکَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ قَالَ أَتَبِيعُنِيهِ بِکَذَا وَکَذَا وَاللَّهُ يَغْفِرُ لَکَ قُلْتُ نَعَمْ هُوَ لَکَ قَالَ أَبُو نَضْرَةَ وَکَانَتْ کَلِمَةً يَقُولُهَا الْمُسْلِمُونَ افْعَلْ کَذَا وَکَذَا وَاللَّهُ يَغْفِرُ لَکَ-
محمد بن عبدالاعلی، معتمر، وہ اپنے والد سے، ابونضرة، جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ جا رہے تھے (یعنی سفر کر رہے تھے) اور میں ایک اونٹ پر جو کہ پانی کا تھا سوار تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس قیمت میں کیا تم اس اونٹ کو فروخت کرو گے؟ خداوند قدوس تجھ کو بخشش دے۔ میں نے کہا جی ہاں! وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہے یا نبی اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم اس کو اتنے میں فروخت کرو گے خدا تجھ کو بخشی۔ میں نے عرض کیا جی ہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہے یا رسول اللہ! راوی حضرت ابونضرہ نے عرض کیا اس حدیث کا خدا بخشی ایک کلمہ ہے جس کو مسلمان کہتے تھے کہ تم اس طرح سے کرو اس طرح سے کرو۔
- It was narrated from ‘Aishah that she wanted to buy BarIrah to set her free, but they stipulated that her loyalty (Wala’) should be to them. She mentioned that to the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم and the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم said: “Buy her, and set her free, and loyalty (Wala’) belongs to the one who sets the slave free.” Some meat was brought to the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم and it was said that this had been given in charity to BarIrah. He said: “It is charity for her, and a gift for us.” And she was given the choice. (Sahih)