عرفہ کے دن مقام عرفات میں جلدی پہنچنا

أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی قَالَ أَخْبَرَنِي أَشْهَبُ قَالَ أَخْبَرَنِي مَالِکٌ أَنَّ ابْنَ شِهَابٍ حَدَّثَهُ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ کَتَبَ عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ مَرْوَانَ إِلَی الْحَجَّاجِ بْنِ يُوسُفَ يَأْمُرُهُ أَنْ لَا يُخَالِفَ ابْنَ عُمَرَ فِي أَمْرِ الْحَجِّ فَلَمَّا کَانَ يَوْمُ عَرَفَةَ جَائَهُ ابْنُ عُمَرَ حِينَ زَالَتْ الشَّمْسُ وَأَنَا مَعَهُ فَصَاحَ عِنْدَ سُرَادِقِهِ أَيْنَ هَذَا فَخَرَجَ إِلَيْهِ الْحَجَّاجُ وَعَلَيْهِ مِلْحَفَةٌ مُعَصْفَرَةٌ فَقَالَ لَهُ مَا لَکَ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ الرَّوَاحَ إِنْ کُنْتَ تُرِيدُ السُّنَّةَ فَقَالَ لَهُ هَذِهِ السَّاعَةَ فَقَالَ لَهُ نَعَمْ فَقَالَ أُفِيضُ عَلَيَّ مَائً ثُمَّ أَخْرُجُ إِلَيْکَ فَانْتَظَرَهُ حَتَّی خَرَجَ فَسَارَ بَيْنِي وَبَيْنَ أَبِي فَقُلْتُ إِنْ کُنْتَ تُرِيدُ أَنْ تُصِيبَ السُّنَّةَ فَأَقْصِرْ الْخُطْبَةَ وَعَجِّلْ الْوُقُوفَ فَجَعَلَ يَنْظُرُ إِلَی ابْنِ عُمَرَ کَيْمَا يَسْمَعَ ذَلِکَ مِنْهُ فَلَمَّا رَأَی ذَلِکَ ابْنُ عُمَرَ قَالَ صَدَقَ-
یونس بن عبدالاعلی، اشہب، مالک، ابن شہاب، سالم بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عبدالملک بن مروان نے حجاج بن یوسف کو خط لکھا کہ احکام حج میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے اختلاف نہ کرنا چنانچہ عرفہ کے دن دوپہر کے زوال کے بعد ہی حضرت ابن عمر اس کے پاس تشریف لائے میں بھی ان کے ساتھ تھا اور ان کے پردہ کے پاس آکر فرمایا یہ کس کی جگہ ہے؟ اس بات پر وہ حجاج باہر آیا اور ایک زرد رنگ کی اس نے چادر لپیٹ رکھی تھی۔ اس نے عرض کیا اے ابوعبد الرحمن! کیا ہوگیا ہے؟ کہنے لگے اگر تم سنت پر عمل کرنا چاہتے ہو تو تم چل دو۔ اس نے کہا ابھی سے ہی؟ تو انہوں نے فرمایا جی ہاں۔ اس نے عرض کیا کہ میں اپنے اوپر پانی ڈال کر واپس آتا ہوں چنانچہ انہوں نے اس کا انتظار کیا یہاں تک کہ وہ باہر آگئے اور میرے اور میرے والد حضرت ابن عمر کے درمیان چلنے لگ گئے میں نے کہا کہ اگر تم نیک عمل کرنا چاہتے ہو تو تم خطبہ مختصر دینا اور عرفات کے قیام میں جلدی کرنا۔ اس بات پر وہ ابن عمر کی طرف دیکھنے لگا۔ جس وقت انہوں نے اس کی جانب دیکھا تو فرمایا یہ شخص سچ کہہ رہا ہے
It was narrated that Salim bin ‘Abdullah said: “Abdul-Malik bin Marwan wrote to Al-Hajjaj bin Yusuf telling him not to go against Ibn ‘Umar with regard to the Hajj. On the day of ‘Arafat, Ibn ‘Umar came to him when the sun had passed its zenith, and I was with him, and shouted near his cotton tent: ‘Where is he?’ Al-Hajjaj came out to him, wearing a wrap dyed with safflower. He said: ‘What is the matter, Abu ‘Abdur Ralman?’ He said: ‘We have to move on if you want to follow the Sunnah.’ He said to him: ‘At this hour?’ He said: ‘Yes.’ He said: ‘I will pour some water over myself (have a bath) then I will come out to you.’ So he waited until he came out, then he walked between my father and me. I said: ‘If you want to follow the Sunnah, then deliver a short Khutbah and hasten to stand (in ‘Arafat).’ He started to look at Ibn ‘Umar so that he could hear that, and when Ibn ‘Umar noticed that he said: ‘He is speaking the truth.” (Sahih)