دوران نماز گفتگو کرنے سے متعلق

أَخْبَرَنَا کَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ عَنْ الزُّبَيْدِيِّ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَی الصَّلَاةِ وَقُمْنَا مَعَهُ فَقَالَ أَعْرَابِيٌّ وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ اللَّهُمَّ ارْحَمْنِي وَمُحَمَّدًا وَلَا تَرْحَمْ مَعَنَا أَحَدًا فَلَمَّا سَلَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِلْأَعْرَابِيِّ لَقَدْ تَحَجَّرْتَ وَاسِعًا يُرِيدُ رَحْمَةَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ-
کثیربن عبید، محمد بن حرب، زبیدی، زہری، ابوسلمہ، ابوہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز میں مشغول ہوگئے کہ ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ نماز کیلئے کھڑے ہوگئے تھے۔ ایک گاؤں کا رہنا والا شخص حاضر ہوا اس نے عرض کیا (جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز میں مشغول تھے) کہ اے خدا مجھ پر رحمت فرما اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر رحمت نازل فرما اور کسی دوسرے پر رحمت نہ فرما پس جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سلام پھیرا تو اس گاؤں والے سے فرمایا کہ تم نے بڑی نعمت کی قدر کم کر دی۔
It was narrated that Muawiyah bin Al-Hakam As Sulami said: “I said: ‘Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم, we were recently in a state of ignorance, then Allah brought Islam. Some men among us follow omens.’ He said: ‘That is something that they find in their own hearts; it should not deter them from going ahead.’ I said: ‘And some men among us go to fortune-tellers.’ He said: ‘Do not go to them.’ He said: ‘Some men among us draw lines.’ He said: ‘One of the prophets used to draw lines. So whoever is in accord with his drawing of lines, then so it He said: “While I was praying with the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم a man sneezed and I said: ‘Yar (May Allah have mercy on you).’ The people glared at me and I said: ‘May my mother be bereft of me, why are you looking at me?’ The people struck their hands against their thighs, and when I saw that they were telling me to be quiet, I fell silent. When the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم finished, he called me. May my father and mother be ransomed for him, he neither did hit me nor rebuke me nor revile me. I have never seen a better teacher than him, before or after. He said: ‘This prayer of ours is not the place for ordinary human speech, rather it is glorification and magnification of Allah, and reciting Qur’an.’ Then I went out to a flock of sheep of mine that was tended by a slave woman of mine beside Uhud and Al-Jawwaniyyah, and I found that the wolf had taken one of the sheep. I am a man from the sons of Adam and I get upset as they get upset. So I slapped her. Then I came to the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم and told him what had happened. He regarded that as a serious action on my part. I said: ‘Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم, should I set her free?’ He said: ‘Call her.’ The Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم said to her: ‘Where is Allah, the Mighty and sublime?’ She said: ‘Above the heavens.’ He said: ‘And who am I?’ She said: ‘The Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم.’ He said: ‘She is a believer; set her free.” (Sahih)
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الزُّهْرِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ أَحْفَظُهُ مِنَ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي سَعِيدٌ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ أَعْرَابِيًّا دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَصَلَّی رَکْعَتَيْنِ ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ ارْحَمْنِي وَمُحَمَّدًا وَلَا تَرْحَمْ مَعَنَا أَحَدًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَدْ تَحَجَّرْتَ وَاسِعًا-
عبداللہ بن محمد بن عبدالرحمن زہری، سفیان، احفظہ، زہری، سعید، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دیہات کا رہنے والا شخص مسجد میں حاضر ہوا اور دو رکعت ادا کر کے کہنے لگا کہ اے خدا مجھ پر اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر رحم فرما اور نہ رحم فرما ہمارے ساتھ کسی پر بھی اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا بلاشبہ تم نے ایک کھلی ہوئی بات کو (یعنی رحمت خداوندی کو) تنگ کر دیا۔
It was narrated that Zaid bin Arqam said: “We used to speak to each other during the prayer, saying whatever was necessary, at the time of the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم until this verse was revealed: Guard strictly (five obligatory) A (the prayers) especially the middle alah (i.e. the best prayer - ‘A And stand before Allah with obedience (and do not speak to others during the alah (prayers)), so we were commanded to be silent.” (Sahih)
أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ قَالَ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي يَحْيَی بْنُ أَبِي کَثِيرٍ عَنْ هِلَالِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ قَالَ حَدَّثَنِي عَطَائُ بْنُ يَسَارٍ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ الْحَکَمِ السَّلَمِيِّ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا حَدِيثُ عَهْدٍ بِجَاهِلِيَّةٍ فَجَائَ اللَّهُ بِالْإِسْلَامِ وَإِنَّ رِجَالًا مِنَّا يَتَطَيَّرُونَ قَالَ ذَاکَ شَيْئٌ يَجِدُونَهُ فِي صُدُورِهِمْ فَلَا يَصُدَّنَّهُمْ وَرِجَالٌ مِنَّا يَأْتُونَ الْکُهَّانَ قَالَ فَلَا تَأْتُوهُمْ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَرِجَالٌ مِنَّا يَخُطُّونَ قَالَ کَانَ نَبِيٌّ مِنْ الْأَنْبِيَائِ يَخُطُّ فَمَنْ وَافَقَ خَطُّهُ فَذَاکَ قَالَ وَبَيْنَا أَنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الصَّلَاةِ إِذْ عَطَسَ رَجُلٌ مِنْ الْقَوْمِ فَقُلْتُ يَرْحَمُکَ اللَّهُ فَحَدَّقَنِي الْقَوْمُ بِأَبْصَارِهِمْ فَقُلْتُ وَا ثُکْلَ أُمِّيَاهُ مَا لَکُمْ تَنْظُرُونَ إِلَيَّ قَالَ فَضَرَبَ الْقَوْمُ بِأَيْدِيهِمْ عَلَی أَفْخَاذِهِمْ فَلَمَّا رَأَيْتُهُمْ يُسَکِّتُونِي لَکِنِّي سَکَتُّ فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَانِي بِأَبِي وَأُمِّي هُوَ مَا ضَرَبَنِي وَلَا کَهَرَنِي وَلَا سَبَّنِي مَا رَأَيْتُ مُعَلِّمًا قَبْلَهُ وَلَا بَعْدَهُ أَحْسَنَ تَعْلِيمًا مِنْهُ قَالَ إِنَّ صَلَاتَنَا هَذِهِ لَا يَصْلُحُ فِيهَا شَيْئٌ مِنْ کَلَامِ النَّاسِ إِنَّمَا هُوَ التَّسْبِيحُ وَالتَّکْبِيرُ وَتِلَاوَةُ الْقُرْآنِ قَالَ ثُمَّ اطَّلَعْتُ إِلَی غُنَيْمَةٍ لِي تَرْعَاهَا جَارِيَةٌ لِي فِي قِبَلِ أُحُدٍ وَالْجَوَّانِيَّةِ وَإِنِّي اطَّلَعْتُ فَوَجَدْتُ الذِّئْبَ قَدْ ذَهَبَ مِنْهَا بِشَاةٍ وَأَنَا رَجُلٌ مِنْ بَنِي آدَمَ آسَفُ کَمَا يَأْسَفُونَ فَصَکَکْتُهَا صَکَّةً ثُمَّ انْصَرَفْتُ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ فَعَظَّمَ ذَلِکَ عَلَيَّ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَلَا أَعْتِقُهَا قَالَ ادْعُهَا فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْنَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ قَالَتْ فِي السَّمَائِ قَالَ فَمَنْ أَنَا قَالَتْ أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّهَا مُؤْمِنَةٌ فَاعْتِقْهَا-
اسحاق بن منصور، محمد بن یوسف، اوزاعی، یحیی بن ابوکثیر، ہلال بن ابومیمونہ، عطاء بن یسار، معاویہ بن حکم سلمی سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم لوگوں کا زمانہ جاہلیت کا زمانہ بھی گزرا ہے اس کے بعد خدوندقدوس نے اسلام نازل فرمایا اور ہمارے میں سے کچھ لوگ بدفالی (یعنی برا شگون) لیتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ یہ ان کے قلب کی حالت ہے تو برا شگون لینا کسی کام سے ان کو نہ منع کرے۔ پھر میں نے کہا کہ ہمارے میں سے کچھ لوگ نجومی لوگوں کے پاس جاتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ ہرگز نجومی لوگوں کے پاس نہ جاؤ۔ پھر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے میں سے بعض لوگ لکیریں کھینچ لیتے ہیں یعنی زمین کے اوپر یا کسی کاغذ وغیرہ پر لائن کھینچ لیتے ہیں آئندہ کی بات اطلاع دینے کیلئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ایک پیغمبر حضرات انبیاء میں سے لکیریں کھینچا کرتے تھے (وہ پیغمبر حضرت ادریس علیہ السلام یا حضرت دانیال علیہ السلام تھے اور علم رمل ان کی ایجاد ہے) اب جس شخص کی لکیریں ان کی لکیر جیسی ہوں تو درست ہے اور سیکھنے کی گنجائش ہے لیکن معلوم نہیں کہ وہ لکیریں ان کی لکیر جیسی ہیں یا نہیں؟ حضرت معاویہ نے فرمایا کہ پھر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ رہا۔ نماز کی حالت میں کہ اس دوران ایک شخص کو حالت نماز میں چھینک آگئی۔ میں نے نماز کے دوران يَرْحَمُکَ اللَّهُ کہا تو اس پر لوگ مجھ کو غور سے دیکھنے لگ گئے۔ میں نے عرض کیا کہ میری والدہ مجھ پر روئے (مطلب یہ ہے کہ میرا انتقال ہوجائے تم لوگ مجھ کو کس وجہ سے غور سے دیکھ رہے ہو) یہ بات سن کر لوگوں نے اپنے اپنے ہاتھ رانوں پر مارے مجھ کو خیال ہوا کہ مجھ کو خاموش رہنے کو فرما رہے ہیں۔ اس وجہ سے میں خاموش رہا۔ جس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نماز سے فراغت ہوگئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ کو بلایا۔ پھر میرے والدین آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قربان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ تو مجھ کو مارا اور نہ مجھ کو ڈانٹ ڈپٹ کی اور نہ ہی مجھ کو برا کہا۔ میں نے کوئی تعلیم دینے والا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قبل یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہتر نہیں دیکھا۔ تعلیم دینے کے حوالے سے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا نماز کی حالت میں ہم لوگوں کو کسی قسم کی کوئی بات لوگوں کو نہیں کرنا چاہیے۔ نماز میں تو تسبیح ہے یا تکبیر ہے یا تلاوت قرآن کریم ہے۔ حضرت معاویہ نے فرمایا پھر میں اپنی بکریوں میں چلا گیا کہ جس کو میری باندی چرایا کرتی تھی احد پہاڑ اور جوانیہ (یہ ایک گاؤں کا نام ہے جو کہ احد نامی پہاڑ کے نزدیک مدینہ منورہ سے جانب شمال واقع ہے) اس کی جانب گیا تو میں نے دیکھا کہ بھیڑیا ان میں سے ایک بکری کو لے گیا ہے پھر آخر کار میں آدمی تھا جس طریقہ سے دوسرے انسانوں کو غصہ آتا ہے مجھ کو بھی غصہ آتا ہے۔ میں نے اس کو ایک مکہ مارا پھر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا اور یہ بات (باندی کا مارنا) مجھ کو بہت زیادہ ناگوار گزرا میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اس کو آزاد نہ کردوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا اس کو بلا لاؤ (چنانچہ میں بلا کر لے آیا اس پر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے دریافت کیا اور عرض کیا کہ خداوند قدوس کس جگہ ہے؟ اس باندی نے جواب دیا آسمان پر۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ عورت صاحب ایمان ہے تم اس کو آزاد کر دو۔
It was narrated that ‘Abdullah bin Ma’sud said: “I used to come to the Prophet when he was praying, and I would greet him with Salam, he would return my greeting. Then I came to him when he was praying, and he did not return my greeting. When he said the Taslim, he pointed to the people and said: ‘Allah has decreed that in the prayer you should not speak except to remember Allah, and it is not appnoprate for you, and that you should stand before Allah with obedience.” (Hasan)
أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ قَالَ حَدَّثَنِي الْحَارِثُ بْنُ شُبَيْلٍ عَنْ أَبِي عَمْرٍو الشَّيْبَانِيِّ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ کَانَ الرَّجُلُ يُکَلِّمُ صَاحِبَهُ فِي الصَّلَاةِ بِالْحَاجَةِ عَلَی عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّی نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ حَافِظُوا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَی وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ فَأُمِرْنَا بِالسُّکُوتِ-
اسماعیل بن مسعود، یحیی بن سعید، اسماعیل بن ابوخالد، حارث بن شبیل، ابوعمرو الشیبانی، زید بن ارقم سے روایت ہے کہ پہلے ہر ایک آدمی اپنے ملنے والے شخص سے حالت نماز میں گفتگو کیا کرتا تھا۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پس جس وقت یہ آیت کریمہ نازل ہوئی یعنی نمازوں کی حفاظت کرو اور درمیان والی نماز کی اور تم لوگ اللہ تعالیٰ کے حضور اللہ کے لئے کھڑے رہو خاموشی کے ساتھ چنانچہ اس دن سے ہم لوگوں کو حکم ہوا خاموش رہنے کا ۔
It was narrated that Ibn Ma’sud said: “We used to greet the Prophet صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم with Salam and he would return our Salam, until we came back from the land of Ethiopia. I greeted him with Salam and he did not return my greeting, and I started to wonder why. So I sat down; when he finished praying, he said: ‘Allah decrees what He wills, and He has decreed that we should not speak during the prayer.” (Hasan)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمَّارٍ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي غَنِيَّةَ وَاسْمُهُ يَحْيَی بْنُ عَبْدِ الْمَلِکِ وَالْقَاسِمُ بْنُ يَزِيدَ الْجَرْمِيُّ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ الزُّبَيْرِ بْنِ عَدِيٍّ عَنْ کُلْثُومٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ وَهَذَا حَدِيثُ الْقَاسِمِ قَالَ کُنْتُ آتِي النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُصَلِّي فَأُسَلِّمُ عَلَيْهِ فَيَرُدُّ عَلَيَّ فَأَتَيْتُهُ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ وَهُوَ يُصَلِّي فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ فَلَمَّا سَلَّمَ أَشَارَ إِلَی الْقَوْمِ فَقَالَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَعْنِي أَحْدَثَ فِي الصَّلَاةِ أَنْ لَا تَکَلَّمُوا إِلَّا بِذِکْرِ اللَّهِ وَمَا يَنْبَغِي لَکُمْ وَأَنْ تَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ-
محمد بن عبداللہ بن عمار، ابن ابوغنیة و اسمہ، یحیی بن عبدالملک و قاسم بن یزیدجرمی، سفیان، زبیربن عدی، کلثوم، عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا کرتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جواب عطا فرمایا کرتے تھے چنانچہ میں ایک مرتبہ خدمت اقدس میں سلام عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت نماز میں مشغول تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب عطا نہیں فرمایا۔ جس وقت سلام پھیرا تو لوگوں کی جانب اشارہ کیا اور ارشاد فرمایا کہ خداوند قدوس نے حالت نماز میں نیا حکم دیا کہ تم لوگ نہ گفتگو کرو مگر خدا کو یاد کرو اور تم کو نہیں مناسب ہے دوسری کوئی گفتگو کرنا اور تم کھڑے رہو خدا کے سامنے خاموشی کے ساتھ یا فرمانبرداری کے ساتھ۔
It was narrated that ‘Abdullah bin Buhainah said: “The Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم led us in praying two Rak’ahs, then he stood up and did not sit, and the people stood up with him. When he finished the prayer, and we were waiting for him to say the Taslim, he said the Takbir and prostrated twice while sitting, before the Taslim. Then he said the Taslim.” (Sahih)
أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ کُنَّا نُسَلِّمُ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَرُدُّ عَلَيْنَا السَّلَامَ حَتَّی قَدِمْنَا مِنْ أَرْضِ الْحَبَشَةِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ فَأَخَذَنِي مَا قَرُبَ وَمَا بَعُدَ فَجَلَسْتُ حَتَّی إِذَا قَضَی الصَّلَاةَ قَالَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُحْدِثُ مِنْ أَمْرِهِ مَا يَشَائُ وَإِنَّهُ قَدْ أَحْدَثَ مِنْ أَمْرِهِ أَنْ لَا يُتَکَلَّمَ فِي الصَّلَاةِ-
حسین بن حریث، سفیان، عاصم، ابووائل، ابن مسعود سے روایت ہے کہ ہم لوگ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نماز میں سلام کیا کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جواب دیا کرتے تھے ہم لوگ جس وقت ملک حبشہ سے واپس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سلام کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب نہیں دیا۔ مجھ کو اپنے پاس اور فاصلہ کی فکر لاحق ہوئی۔ (یعنی قسم قسم کے پرانے اور نئے نئے خیالات آتے گئے) اور اس کا افسوس ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کس وجہ سے جواب نہیں عنائت فرمایا؟ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز سے فارغ ہو گئے تو ارشاد فرمایا خداوند قدوس جس وقت چاہتے ہیں نیا فرمان جاری فرما سکتے ہیں۔ اب اس نے یہ حکم دیا ہے کہ دوران نماز گفتگو نہ کی جائے۔
It was narrated from ‘Abdullah bin Buhainah that the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم stood up during the prayer when he should have sat, so he prostrated twice while sitting, before the Taslim. (Sahih)