جو کوئی اپنا انتقام لے لے اور وہ بادشاہ (یا شرعی حاکم) سے نہ کہے

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی قَالَ حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ قَتَادَةَ عَنْ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَهِيکٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ اطَّلَعَ فِي بَيْتِ قَوْمٍ بِغَيْرِ إِذْنِهِمْ فَفَقَئُوا عَيْنَهُ فَلَا دِيَةَ لَهُ وَلَا قِصَاصَ-
محمد بن مثنی، معاذ بن ہشام، وہ اپنے والد سے، قتادة، نضر بن انس، بشیر بن نہیک، ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص بلا اجازت کسی کے مکان میں جھانکے پھر گھر کا مالک اس کی آنکھ پھوڑ ڈالے تو جھانکنے والا نہ تو (اس سزا کی وجہ سے) دیت وصول کر سکے گا اور نہ ہی انتقام لے سکے گا۔
It was narrated from Abu Saeed Al-Khudri that he was praying and a son of Marwan wanted to pass in front of him. He tried to stop him but he did not go back, so he hit him. The boy went out crying and went to Marwan and told him (what had happened). Marwan said to Abu Saeed: “Why did you hit your brother’s son?” He said: “I did not hit him, rather I hit the Shaan. I heard the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم say: ‘If one of you is praying and someone wants to pass in front of him, let him try to stop him as much as he can, and if he persists then let him fight him, for he is a devil.” (Sahih)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَوْ أَنَّ امْرَأً اطَّلَعَ عَلَيْکَ بِغَيْرِ إِذْنٍ فَخَذَفْتَهُ فَفَقَأْتَ عَيْنَهُ مَا کَانَ عَلَيْکَ حَرَجٌ وَقَالَ مَرَّةً أُخْرَی جُنَاحٌ-
محمد بن منصور، سفیان، ابوزناد، الاعرج، ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر ایک شخص تیری اجازت کے بغیر تجھ کو جھانکے اور تو اس کے پتھر مار دے اور اس کی آنکھ پھوڑ دے تو تجھ پر کسی قسم کا حرج نہیں ہے یا تجھ پر کوئی گناہ نہیں ہے۔
It was narrated that Saeed bin Jubair said: “Abdur-Rahman bin Abi Laila told me to ask Ibn ‘Abbas about two Verses: ‘And whoever kills a believer intentionally, his recompense is Hell’ I asked him and he said: ‘Nothing of this has been abrogated.’ (And I asked him about the Verse): ‘And those who invoke not any other ilah (god) along with Allah, nor kill such person as Allah has forbidden, except by right.’ He said: ‘This was revealed concerning the people of Shirk.” (Sahih)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُبَارَکِ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ عَنْ عَطَائِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّهُ کَانَ يُصَلِّي فَإِذَا بِابْنٍ لِمَرْوَانَ يَمُرُّ بَيْنَ يَدَيْهِ فَدَرَأَهُ فَلَمْ يَرْجِعْ فَضَرَبَهُ فَخَرَجَ الْغُلَامُ يَبْکِي حَتَّی أَتَی مَرْوَانَ فَأَخْبَرَهُ فَقَالَ مَرْوَانُ لِأَبِي سَعِيدٍ لِمَ ضَرَبْتَ ابْنَ أَخِيکَ قَالَ مَا ضَرَبْتُهُ إِنَّمَا ضَرَبْتُ الشَّيْطَانَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِذَا کَانَ أَحَدُکُمْ فِي صَلَاةٍ فَأَرَادَ إِنْسَانٌ يَمُرُّ بَيْنَ يَدَيْهِ فَيَدْرَؤُهُ مَا اسْتَطَاعَ فَإِنْ أَبَی فَلْيُقَاتِلْهُ فَإِنَّهُ شَيْطَانٌ-
محمد بن مصعب، محمد بن مبارک، عبدالعزیز بن محمد، صفوان بن سلیم، عطاء بن یسار، ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے کہ اس دوران مروان کا لڑکا ان کے سامنے سے نکلنے لگا انہوں نے منع فرمایا اس نے نہیں مانا حضرت ابوسعید نے اس کو مارا اور وہ روتا مروان کے پاس پہنچا۔ مروان نے حضرت ابوسعید سے کہا تم نے اپنے بھتیجے کو کس وجہ سے مارا؟ حضرت ابوسعید نے کہا میں نے اس کو نہیں مارا ہے بلکہ شیطان کا مارا ہے۔ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے تمہارے میں سے جس وقت کوئی شخص نماز ادا کر رہا ہو اور اس کے سامنے سے کوئی شخص گزرنا چاہے تو جہاں تک ممکن ہو اس کو روک دے اور منع کر دے اگر وہ نہ مانے تو اس سے جنگ کرے اس لیے کہ وہ شیطان ہے۔
It was narrated that Saeed bin Jubair said: “The people of Al Kufah differed concerning this Verse: ‘And whoever kills a believer ifltefltiOflally. So I went to Ibn ‘Abbas and asked him, and he said: ‘It was revealed among the last of what was revealed, and nothing of it was abrogated after that.” (Sahih)